ارشدحسین


مملکت ِخداداد پاکستان کے ساتھ جموں و کشمیر کے لو گوں کی محبت و عقیدت کو ئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔یہ آج کی بات نہیں ہے بلکہ یہ اُنس اور لگاؤ کا تعلق اُ س دن سے چلا آرہا ہے، جب سے یہ مملکت معرضِ وجود میں آئی ہے۔

یہ محبت دلوں میں لیے کشمیری قوم کی دو نسلیںرخصت ہو چکی ہیں۔ اپنے اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے یہ قوم بر صغیر کے تقسیم کے دن ہی سے جدوجہد میںمصروف ہے اور اسے قدم قدم پر مصائب اور صعوبتوں کا سامنا رہا ہے۔آزادی کی یہ تحریک اب با ضا بطہ طور پر تیسری نسل تک منتقل ہوچکی ہے ۔ بھارت کے وحشت ناک مظالم کشمیریوں کے صبرو اسقامت اور قربانیوں سے مزین اس تحریک آزادی کی راہ کھو ٹی نہ کر سکے ا ور نہ اپنوں کی بے رُخی اس جذبۂ حُریت کو کمزور کر سکی ہے۔ بلامبالغہ آج کی تاریخ میں، یہ حقیقت علی الاعلان کہی جاسکتی ہے کہ کشمیریوں کے جذبۂ آزادی اور پاکستان سے محبت کو ہر کٹھن اور مشکل حالات سے مہمیز ملی ہے۔

کشمیریوں کا پاکستان کے ساتھ محبت کا اظہار کو ئی جز وقتی یا مادی فوائد کے حصول کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک روحانی اور نظریاتی رشتہ ہے، جس کی بنیادیں بہت ہی راست و پیو ست ہیں ۔ یہ رشتہ حرص و طمع کے کسی مفروضے پر استوار نہیں ہے، بلکہ یہ مادی قدروں سے ماورا ایک ایسا لافانی تعلق ہے، جو ایمان و ایقان سے تعلق رکھتاہے ۔ اس رشتے کا تعلق لاالہ الا اللہ سے ہے، جس کی بنیاد پر یہ مملکت خداداد قائم کی گئی ہے۔ پاکستان محض متعین جغرافیائی حدود کا نا م نہیں ہے بلکہ یہ ایک نظریہ اور فکر ہے، جس کی اپنی ایک ایسی شان دار تہذیب اور درخشاں تاریخ ہے جس نے عالمِ انسانیت کو ظلمت کدوں سے نکال کر خیر اور روشنیوں سے منور کر دیا ہے۔

اسی نظریے اور تہذیب و تاریخ سے وابستگی کشمیریوں کی پاکستان سے محبت اور عقیدت کا مظہر ہے۔یہی وجہ ہے کہ لاکھوں بھارتی فورسز کی ناک کے نیچے کشمیر میں سبز ہلالی پرچم لہرایا جاتا ہے ۔کھلے سینوں کے ساتھ، اُگلتی گولیوں بندوقوں کے دہانوں کے سامنے ’ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہما را ہے‘ کے نعرے بلند کیے جاتے ہیں ۔ نہ صرف کشمیر میں، حتیٰ کہ بھارت کی دوسری ریاستوں میں نتائج کی پروا کیے بغیر کشمیری پاکستان کے حق میں اپنے جذبا ت کا اظہار کرتے ہیں۔

پاکستان میں پیش آئے کسی ناخوش گوار واقعے پر کشمیریوں کے دل مضطرب ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے لیے دعائوں اور نیک تمناؤں سے یہاں کی مسجدیں گونج اُٹھتی ہیں ۔ خود غلامی کی ذلت میں جکڑے ہونے کے با وجود ہمیشہ کشمیریوںکو پاکستان کی نظریاتی بقا اور جغرافیائی سالمیت اور وہاں کے عوام الناس کی سلامتی کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کے بعد کشمیریوں کی تمام تر نظریں پاکستان پر مرکوزہیں ۔اسے اپنا محسن قرار دیتے ہیں، اُمیدوں اور تمنائوں کا مر کز مانتے ہیں۔

بھارت کے ظالمانہ جبری قبضے سے نجات حا صل کر نے کے لیے وہ پاکستان کی ہر ممکن مدد کو پاکستان کی منصبی ذمہ داری سمجھتے ہیں ۔کیو نکہ پاکستان نہ صرف تنازعہ کشمیر کا فریق بلکہ مغلوب و مجبور قوم کا خیرخواہ ہونے کے ساتھ ساتھ وکیل بھی ہے۔ اس حوالے سے وہ پاکستان سے کسی غیرمستعدی کی اُمید نہیں رکھتے۔کسی ایسے اقدام اور لاپروائی سے پاکستان کے ساتھ بے پناہ عقیدت رکھنے والے کشمیریوں کی د ل آزاری ہوتی ہے جس سے مسئلۂ کشمیر کو زک پہنچتی ہو، جو کشمیریوں کے جذبات سے ہم آہنگ نہ ہو، بے مثال قربا نیوں سے مطابقت نہ رکھتا ہو،اور زمینی حقائق کے بر عکس ہو۔ 

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ تنازعہ کشمیر کو بین الاقوامی رنگ دینے اور اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کو اس میں دخل اندازی کی دعوت دینے میں بھارت نے پہل کی تھی۔ پاک بھارت کے مابین کشمیر پر تنازع اُٹھ کھڑا ہو نے اور آج تک حل نہ ہونے کی بنیادی وجہ جہاں انگریز سامراج کی بھارت کے ساتھ ملی بھگت اور جموں و کشمیر کے فرقہ پرست ڈوگرہ مہاراجا کا سازشیں رچانا ہے،  وہاں پاکستان کی سیاسی عدم حساسیت اور لَیت ولعل پر مبنی پالیسی بھی بنیادی وجہ ہے۔

چو نکہ اصولِ تقسیم کے فارمولے کی رُو سے جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ شامل ہونا یقینی تھا اور یہاں کے لوگوں کی غالب اکثریت اس کے حق میں تھی لیکن اس کے با وجود ایسا ہونے نہیں دیا گیا اور بھارت، جموں و کشمیر کا زبردستی ’الحاق‘ اپنے ساتھ کر نے اور اسے اپنی ریاستوں کی فہرست میں شامل کر نے میں کامیاب ہوگیا۔ قائد اعظم نے جموں و کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا جس کے بغیر پاکستان کا وجود نا مکمل ہے۔

کشمیر کو پاکستان کے لیے ’کورا چیک‘(Blank Cheque) کہا گیا تھا، جسے پاکستان جب چاہے وصول کر سکتا ہے اور بھارت چاہے کچھ بھی کرے، زمینی حقائق بہرحال ہر لحا ظ سے پاکستان کے حق میں ہیں ۔ پاکستان اسی زعم میں مبتلا رہ کر کوئی خا طر خو اہ اقدام کر نے سے پس وپیش کر تا رہا اور نتیجتاً وقت گزرنے کے ساتھ آسان اور قابل فہم کشمیر کا معاملہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا چلاگیا۔ بھارت نت نئے فرضی بہانوں سے وقت گزاری کی اپنی پالیسی پر عمل پیرا رہا ۔ پاکستان مسئلے کی حساسیت سے بے پروا رہ کر محض زبا نی بیانات پر قانع رہا، مگر دوسری جانب بھارت جموں و کشمیر کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے جان توڑ کو ششوں میں منہمک ہو گیا۔

ایک طرف بھارت نے جموں و کشمیر کے قد آور سیاسی شخصیات کو اپنی جھولی میں ڈالنے کی کامیاب کو ششیں کر ڈالیں، تو وہیں دوسری طرف بھارتی آئین کی توسیع جموں و کشمیر تک کر نے کا  باقاعدہ عمل بھی شروع کر دیا گیا۔ پُرفریب انداز سے بھارتی آئین میں دفعہ ۳۷۰ کی تخلیق کرکے چپکے سے ایسے داؤ کھیلتا رہاکہ ریاست کو بھارتی یو نین کے ساتھ غیر محسوس انداز سے ضم کرنے کی راہیں کھول کر رکھ دیںاور آہستہ آہستہ یہ منصوبہ ا ب اپنے تکمیل کے قریب پہنچتا دکھا ئی دینے لگا ہے۔ بھارتی آئین کی مذکورہ دفعہ بھارت کی طرف سے جمو ں و کشمیر کے لوگوں پرکوئی با رِ احسان یا کوئی فراخ دلانہ تحفہ نہیں تھا، بلکہ یہ بھارت کی طرف سے ایک منصوبہ بنداقدام تھا، جس کی رُو سے بھارت آئینی طور پر جموں وکشمیر کے معاملات میں دخل اندازی کر نے کی پو زیشن میں آگیا ۔ وگر نہ بھارت کے پاس ریاست جمو ں و کشمیر میں کسی بھی قسم کی سیاسی یا اقتصادی دخل اندازی کا کوئی آئینی اور قانونی جوا ز مو جو د نہیں تھا۔ پھر یہاں سے اپنے ہم نوا طالع آزما سیاسی لیڈروں کی وساطت سے جموں و کشمیر کے عوام کو یہ بات باور کرانے میں بھی ایک حد تک کا میاب رہا کہ یہاں کے لوگوں کا پشتی بان اور عزت و وقار کا ضامن بھارتی آئین ہے۔اسی لبادے کی آڑ میں بھارت ریاست کے وسائل اورذخائر پر قابض ہو کر دودوہاتھوںلوٹنے میں لگا ہواہے۔ بھارت کی جانب سے ایک سے بڑھ کر ایک ترکیب اور سازشیں پروان چڑھانے کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔

جموں و کشمیر میں یہ احساس موجود ہے کہ بھارتی جارحانہ عزائم اور وقوع پذیر حالات کے علی الرغم پاکستان محض تما شائی بن کر اس صورتِ حا ل کا مشاہدہ کر تا رہا اور اس نے مدافعانہ پالیسی کے بجاے چپ سادھ لینے میں عافیت جانی۔ زبانی جمع خرچ اور خواب و خیالات کی دھن میں اس مستی کے جواب میں بھارت فائدہ اُٹھا کر تنازعے کی ہیئت بگا ڑنے میں مصروف عمل رہا اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ آگے بڑھتا چلاگیا۔ پاکستان مناسب جوابی اقدام کے بجاے حالات دیکھتا رہا۔

پاکستانی حکمرانوں کی نیم دلانہ پالیسی کا یہ نتیجہ برآمد ہو ا کہ بھارت تنازعہ کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک عام مسئلے کی سطح پرلاکر اسے باہمی مسئلہ قرار دینے کے اپنے دعوے میں جری ہو تا گیا۔ وہ ببانگ دہل اقوام متحدہ یا دیگر کسی غیر جانب دار ادارے یا ملک کی مداخلت کو گوارا نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ جمو ں وکشمیر کے عوام کے پیدایشی حق خودارادیت کے مطالبے کی ادایگی پر قومی اور بین الاقوامی سطح پر وعدہ کرنے کے باوجود بھارت اپنے وعدے سے علانیہ مکر گیا ہے ۔ تنازعہ کشمیر پرسلامتی کو نسل کی منظور کردہ قراردادوں کی نفی کرکے انھیں نا قابل عمل قرار دے رہا ہے۔ مقامی انتظا می اُمور کی بجا آوری کے لیے گذشتہ عرصے کے دوران اسمبلی انتخابات کواستصواب راے کا متبادل کہہ کر اسے اپنے حق میں فیصلہ قرار دے رہا ہے۔ ا سی پر اکتفا نہیں بلکہ آگے بڑھ کر اب تسلیم شدہ بین الاقوامی تنازعہ کشمیر کو اپنا اندرونی معاملہ قرار دے رہا ہے اور پاکستان کی جانب سے کشمیرکے مسئلے پر بات کرنے پر اپنے اندرونی معاملے میں دخل اندازی کرنے کا الزام صادر کر دیتا ہے۔

دوسری طرف پاکستان کشمیر کے حوالے سے غیر مستقل پالیسی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ گذشتہ سات دہائیو ں کے عرصے کے دوران بین الاقوامی تسلیم شدہ تنازعہ کشمیر کے ہوتے ہوئے بھارت کے ساتھ کئی دوطرفہ معاہدوں میں شامل ہو گیا، جس سے مسئلہ کشمیر کی بین الاقوامی نوعیت پر حرف آنے کے دریچے وَا ہوئے ہیں۔ معاہدہ تاشقند اور شملہ سمجھو تہ نامی با ہمی معاہدوں پر دستخط ثبت کرکے پاکستان نے جو پسپائی اختیار کی، اس سے تنازعہ کشمیر متاثر ہو ئے بغیر نہیں رہا۔ اسی طرح پاکستان کی سیاسی قیادت کی طرف سے کئی بار ایسے بیانات سامنے آئے جن سے پاکستانی حکومت کی مسئلہ کشمیر کے تئیں سرد مہری کے واضح آثار دکھائی دیتے تھے۔ کبھی اس کا حل نکالنا آنے والی نسل پرچھوڑنے کی بات کی گئی اور کبھی بھارت کے ساتھ تجارتی روابط بڑھانے کو اس پر فوقیت دی گئی۔

اس کے بعد بچی کھچی کسر پاکستا نی فو جی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور حکو مت میں نکال کر رکھ دی گئی۔ پرویز مشرف نے پاکستان کی زمام کار ہاتھ میں لیتے ہی ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ بلند کیا ۔ وہ بھارت کے ساتھ دوستی کر نے اور پینگیں بڑھانے کے فراق میں پاکستان کی تاریخی پس منظر کی روشنی میں مرتب کی ہوئی کشمیر پالیسی سے منحرف اور پاکستان کے تاریخی اور روایتی موقف سے دست بردار ہوگیا۔ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے خود ساختہ اور غیر منطقی آوٹ آف بکس چار نکاتی فارمو لہ پیش کیا ۔ مذکورہ فارمولا جموں و کشمیر کے عوام کی اُمنگو ں اور جذبات پر شب خو ن کے مترادف تھا۔

ایک طرف یہ ’جنرل مشرف فارمولا‘ پاکستان کی دیرینہ کشمیر پالیسی سے متصادم تھا، وہیں دوسری طرف اس نا م نہاد فارمولے نے آزادی پسند کشمیریوں میں شکوک و شبہات پیدا کر دیے۔ نتیجتاً ریاست کی آزادی پسند قیادت انتشار کا شکار ہو گئی۔جموں وکشمیرکے ہند نوازسیاسی لیڈروں کو پاکستان مدعو کر کے ان کے لیے ریڈ کارپٹ بچھائے گئے۔حالاںکہ پاکستانی حکومت اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے کہ ریاست کا یہ ہند نواز طبقہ بھارتی مقبوضہ مشینری کا آلۂ کار ہے جو جموں و کشمیر میںبھارتی قبضے کو مستحکم کر نے اور دوام بخشنے میں ہراول دستے کا کام انجام دے رہا ہے ۔ یہ طبقہ جموں وکشمیرکے لوگوں پر مصائب اورجبر وستم ڈھانے میں بھارتی فورسز کے ساتھ برابر کا شریک رہاہے۔ ریاست میںبھارتی مظالم کا دفاع اور انھیںجواز بخشنے میں پیش پیش چلا آرہا ہے۔ اس کے باوجود جنرل پرویز مشرف کی طرف سے اس کا والہانہ اسقبال کیا گیاجو آزادی پسند کشمیری قوم کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف تھا۔

بھارت کے ساتھ کنٹرول لائن پر جنگ بندی کرکے جنرل پرویز مشرف نے بھارت کو لائن آف کنٹرول پر دیوار تعمیر کرنے اور تاربندی کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی۔ اس طرح سے بھارت، جموں وکشمیر کو منقسم کرنے والی خو نیں عبوری لائن کو نا قابلِ عبور بنا نے میں کا میاب ہو گیا، تاکہ منقسم کشمیری ایک دوسرے کے ساتھ مل نہ سکیں، مشکل اور مجبوری کے حا لات میںمقبوضہ کشمیر کے لوگ آزاد کشمیر میں پناہ نہ لے سکیں ۔ یہ سب کچھ پاکستانی حکو مت کی اجازت سے ہی یقینی ہوسکا ہے۔ بصورت دیگر ایسا کر نا بھارت کے لیے نہ ممکن تھا اور نہ حقوق انسانی اور بین الاقوامی قانون ہی اس بات کی اجازت دیتا ہے۔ ما ہر قانون و اعلیٰ پایے کے دانش ور حضرات او ر تجزیہ نگاروں کے مطابق ’مشرف فارمولا‘ مسئلے کے حل کے لیے نہیں، بلکہ اس مسئلے کو مٹانے کی کوشش تھی۔

بھارتی ظالموں کا ظلم اپنی جگہ ننگا ناچ، ناچ رہا ہے، لیکن پاکستانی حکمرانوں کی اس متلون مزاجی سے مسئلۂ کشمیر کی قانونی اور اخلاقی بنیادوںکی بیخ کنی ہوتی رہی ہے۔ یوں پاکستان کو مسئلے کے ایک فریق اور مظلوم کشمیریوں کے وکیل ہونے کے اعتبار سے مقدمہ پیش کرنے میں کمزوری در آئی۔ پاکستان کی جانب سے ایسی بے جا لچک دکھانے سے یہاں کشمیر میں یہ تاثر اخذ کیا جانے لگا ہے کہ پاکستان اب مسئلہ کشمیر سے چھٹکارا حا صل کر نے کی کو ششیں کر رہا ہے۔ درآں حالاںکہ وہ اپنے بیانات میں کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد جاری رکھنے کا دعویٰ بھی کررہا ہے۔ دوسری طرف بھارت اپنے موقف کے اندر سخت شدت لا تا جا رہا ہے۔ جموں و کشمیر پر اپنے قبضے کو مضبوط کرنے کے لیے ہمہ جہت نو عیت کے منصوبے تشکیل دے رہا ہے۔

پچھلے ۷۰ برسوں سے با لعموم اور گذشتہ ۲۷ برسوں سے با لخصوص محوِ جدوجہد کشمیریوں کو   تختۂ مشق بنا یا ہواہے ۔ راے عامہ اور عالمی برادری کے سامنے منفی پروپیگنڈا کر کے جموں و کشمیر کی تحریک خو د ارادیت کو بھارت ’دہشت گردی‘ سے منسوب کر نے کی کو ششیں کر رہاہے۔ ایسی  صورتِ حال کے حوالے سے پاکستان کس قدر متفکر ہے اور بھارتی منصوبوں اور پروپیگنڈے کا توڑ کرنے کے لیے کیا کاوشیں کی جارہی ہیں؟ کوئی مناسب، مؤثر اور خیرخواہ اقدام کشمیری ہنوز دیکھنے سے قاصر ہیں۔پھر پاکستان کی کشمیر کمیٹی کا رُخِ کردار’تو ایک ’معمّہ ہے سمجھنے اور سمجھانے کا‘۔

پاکستان کی جانب سے دی گئی ان یک طرفہ رعایتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ محوِ جدو جہد کشمیری قوم پر عذاب و عتاب ڈھانے میں بھارتی حکو مت اور بھارتی فورسز تیز سے تیزتر اور بد سے بدترین ہوتے گئے ۔۱۹۹۰ء سے لے کر اب تک ایک لاکھ سے زائد نہتے کشمیریوں کو بھارتی فورسز کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُتاردیا گیا ہے۔ یتیموں ، بیواؤںاور نیم بیواؤں کی ایک بڑی تعدا د سسک سسک کر زندگی گزارنے پر مجبور کردی گئی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں گمنام قبریں جموں و کشمیر میں اب تک دریافت کی جا چکی ہیں۔ عزت و عصمت اور جان و مال کی بے مثال قربانی اس عرصے کے دوران اس قوم نے پیش کی ہے۔ اس قوم کے جیالے تختۂ دار کو چوم رہے ہیں اور آج کی تاریخ میں    اب بھارتی قبضے کے خلاف آواز بلند کرنے والے کشمیرکی نو خیز نسل کو بے رحمی سے بینائی سے محروم  کیا جارہا ہے۔ کمسن بچوں سے لے کر عمر رسیدہ بزرگ بلا نا غہ جیلوں کے اندر پابند سلاسل کیے جارہے ہیں۔ بندوق اور توپ تفنگ کا مقابلہ اب نہتے کشمیری درختوں کی ٹہنیاں اور سنگ ریزے  اُٹھا اُٹھا کر کررہے ہیں۔ سینوں پر گو لیاں کھاکھاکر بھارتی جبری قبضے کو للکار رہے ہیں۔

جب ایک طرف کشمیری قوم تحریک آزادی کو منزل مقصود سے ہمکنار کرنے کا عزم لیے میدانِ کارزار میں کو دپڑی ہو ئی ہے اورتحریک آزادی سے کسی بھی حال میں دست بردار ہو نے کا سوچ بھی نہیں سکتے ہیں، تو پاکستان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کشمیریوں کی ہرممکن مدد کے لیے پوری یکسوئی کے ساتھ سامنے آئے۔ کشمیریوں کو بھارت کی جانب سے درپیش مظا لم اورجارحیت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کرے، بلکہ ایک محسن اور لائق وکیل ہو نے کے ناتے مؤثر اقدام کرے۔ پاکستانی عوام ہمیشہ سے کشمیریوں کی پشت پر رہے ہیں اور بیش بہا قربا نیاں پیش کرتے آرہے ہیں۔

پاکستانی عوام اور کشمیریوں کے مابین پیار و عقیدت کا یہ رشتہ اس بات کا متقاضی ہے کہ حکومت پاکستان، تنازعہ کشمیر کے حوالے سے اپنے اصولی اور تاریخی موقف سے پسپائی اختیار نہ کرے۔ پاکستانی عوام اور کشمیری قوم کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے حکومت پاکستان منظم اور مربوط انداز سے کشمیر کی تحریک آزادی کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اقدام کرے۔ عصرِ حا ضر کے تقاضوں کا ادراک کر کے ہر اُس سعی کو عملی جا مہ پہنایا جا ئے، جو اس سمت میں ممد و معاون ثابت ہو۔ کشمیر کے خونیں میدانِ کارزار سے یہی فلک شگاف آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ یہاں کی عزت مآب مائیں اور بہنیں پاکستان سے یہی امید لگائے ہوئے اپنے لخت ہاے جگر اس راہ میں قربانی کے لیے پیش کر رہی ہیں۔  

پاکستانی حکومت کے ایوانوں میں ہے کوئی یہ پکار سننے والا؟