ڈاکٹر ثمر مبارک مند


پاکستان اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کی گئی نعمت ہے۔۱۹۴۷ء میں جب پاکستان قائم ہوا ، برصغیر پاکستان اور ہندستان کی صورت میں تقسیم ہوا تو اس وقت برصغیرمیں مسلمانوں کی حالت اجتماعی طورپر خاصی خستہ تھی، خصوصاًمسلمانوں کی معاشی حالت بہت ہی خراب تھی ۔یہی وجہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے وقت پاکستان کے باشندوںکی فی کس سالانہ آمدنی بہت کم تھی ۔صحت کے شعبے میںبھی حالات دگر گوں تھے ،اوسط عمر بھی بہت طویل نہیںتھی۔

اگر ہم اس صورتِ حال کو سامنے رکھیں تو ہمیں یہ صاف نظرآرہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں  کم ازکم ان معاملات میں اپنی رحمت سے نوازا ہے اور ہماری فی کس آمدنی میں بھی ۳۰، ۴۰ گنا اضافہ ہوا ہے۔ اوسط عمر میں بھی دگنے سے زیادہ اضافہ ہوا ہے ۔پیدا ہونے والے بچوں کی اموات کی شرح بھی کم ہوگئی ہے ۔تعلیم کے شعبے میں قیام پاکستان کے وقت جہاں چند اعلیٰ تعلیمی ادارے تھے اب ملک بھر میں ۲۰۰ کے قریب یونی ورسٹیاں بن گئی ہیں ،اعلیٰ درجے کے اسپتال بن گئے ہیں ۔ دفاعی پیداوار کے شعبے میں جہاں ہم تھری ناٹ تھری کی گولیاں تک غیروں سے خریدنے پر    مجبور تھے، اب ماشاء اللہ ہم اپنے زور بازو سے بین براعظمی میزائل ،ایٹمی ہتھیار، فائٹر ائر کرافٹ تیار کررہے ہیں ۔یہ سب اس لیے ہوا کہ پاکستان کا قیام عمل میں آیا ۔

پاکستان کے قیام ہی نے ایک غریب مسلمان بچے کو یہ موقع دیاکہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے پاکستان کی ترقی میں شریک ہوسکے۔ متحدہ ہندستان میں یہ ممکن نہیں تھا کہ کسی غریب مسلمان بچے کو اتنی آسانی سے اعلیٰ تعلیم کا موقع مل سکے۔ پہلے صرف نوابوں کے بچے ہی سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرکے وہاں سے مزید تعلیم کے لیے اوکسفرڈ جایا کرتے تھے۔    یہ صرف پاکستان کا فیض ہے کہ آج غریب کا بچہ بھی اپنی صلاحیتوں کو منوا سکتا ہے ۔ الحمد للہ، آج ہم خود انحصاری کی سمت سفر کررہے ہیں۔ ہم شاید اس طرف نہ جاتے لیکن ہمارے دشمن ہمیں اس جانب دھکیل رہے ہیں ۔میرا بچپن لاہور میں گزرا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ لاہور میں بجلی امرتسر سے آتی تھی، لیکن ایک بار کسی مسئلے پر پنڈت جواہرلال نہرو پاکستان سے خفا ہوگئے تو لاہور کو امرتسر سے بجلی کی فراہمی روک دی گئی ۔ہمیں یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ ہم کیسی حالت میں تھے اور ہمارا دشمن ہمارے ساتھ کیا سلوک کرتا تھا ۔ہم اس مجبوری سے نجات پانے کے لیے آج خودمختاری کی کیفیت میں پہنچے ہیں ۔آج پھر بھارت ہمیں اپنا باج گزار بنانا چاہتا ہے اورہمیں اس کی سازشوں کو سمجھنا چاہیے اورہمیں اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرنا چاہیے کہ ہم اس کے محتاج نہیں ہیں ۔

ہمیں یادرکھنا چاہیے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے یہ وعدہ کرکے پاکستان حاصل کیا تھا کہ ہم اپنی زندگی اسلام کے اصولوں کے مطابق گزاریں گے۔ اس وعدے کو ہمیں پورا کرنا ہے اور ہمیں اس عہد کو یاد رکھنا چاہیے، تاکہ پاکستان مزید ترقی کرسکے ۔ پاکستان کی نوجوان نسل کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مسلمانوں کی جھولی میں یہ آزادی خود بخود نہیں آن گری تھی ، اس کے لیے لاکھوں لوگوں نے اپنی زندگیوں کے نذرانے دیے تھے ۔یہ آزادی اسی وقت قائم رہ سکتی ہے کہ ہم اپنے اُس وعدے پرقائم رہیں، جو ہم نے قیام پاکستان کے وقت اللہ تعالیٰ سے کیا تھا اور اس کو پوراکرنے کے لیے کوشاں رہیں ۔ اپنی معیشت کو مضبوط رکھیں ، یہاں پر صاف ستھری زندگی گزاریں اور ایمان داری کی زندگی گزاریں ، ملک میں نہ کرپشن ہو اور نہ ریا کاری ۔ کسی قسم کی بدی نہ ہو۔یہ سب کچھ اس وقت ہوگا جب ہم یہ سمجھیں کہ پاکستان ایک مسجد کا صحن ہے جہاں کوئی برائی نہیں ہوسکتی ، جہاں جھوٹ نہیں بولا جاسکتا، جہاں پر گالی نہیں دی جاسکتی ۔ ہمیں پاکستان کو پاک سرزمین ہی بنانا ہے اور ان شاء اللہ پاکستان دنیا کی بہترین ریاستوں میں ہوگا بشرطیکہ ہم نظریہ پاکستان کو نہ بھولیں۔ یادرکھیں، پاکستان دوقومی نظریے کی بنا پروجود میں آیا تھا اور ہم نے پاکستان اس لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں پر ہم قرآن وسنت کے مطابق زندگی گزاریں گے ۔