سوال: ہمارے ہاں بعض علما، مولانا مودودی صاحب پر اعتراض کرتے ہیں کہ وہ قرآنِ مجید کے بعض الفاظ کے ایسے معانی بیان کرتے ہیں جو عام طور پر بیان نہیں کیے جاتے، چنانچہ وہ اس چیز کو مولانا کی مخالفت کا جواز بناتے ہیں۔ چنانچہ ایک مولوی صاحب نے اس سلسلے میں کہا ہے کہ قرآنِ مجید میں جہاں لفظ ’طاغوت‘ آیا ہے مفسرین نے تو اس کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس سے مراد شیطان ہے، مگر مولانا مودودی، انسانوں پر اس کا اطلاق کرتے ہیں اور اسٹالن، لینن، چرچل وغیرہ جیسے غیرمسلم لیڈروں کو بھی ’طاغوت‘ کہتے ہیں۔ عبادت کے معنی تو ہیں بندگی، غلامی اور کسی کو سجدہ کرنا، اور مودودی صاحب کسی دوسرے انسانی قانون کی اطاعت و فرماں برداری کو بھی عبادت کہتے ہیں، اور لا اِلٰہ اِلَّا اللہ میں اِلٰہ کے معنی ’حاکم‘ کرتے ہیں اور یوں لکھتے ہیں کہ اس کلمۂ طیبہ کا مطلب ہے لَاحَاکِمَ اِلَّا اللہُ، حالاں کہ کسی نے بھی اِلٰہ کا ترجمہ حاکم نہیں کیا۔ مولوی صاحبان کی ان تقاریر سے لوگ متاثر ہوجاتے ہیں اور مولانا مودودی کے مخالف ہوکر اسلامی دعوت کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔ آپ ہماری رہنمائی کیجیے کہ کیا یہ اعتراضات واقعہ میں صحیح ہیں، اور یہ مولانا صاحب کا قرآنی الفاظ کے معانی کو بدلنا ہے یا وہ کسی دلیل سے یہ لکھتے ہیں؟
جواب: بہتر تو یہ ہوتا کہ آپ خود مولانا مودودی صاحب سے پوچھتے کہ آپ کن دلائل اور کن کتابوں کے حوالے سے ’طاغوت‘، ’عبادت‘ اور اِلٰہ کے یہ معنی کرتے ہیں۔ یقینا وہ پوری تفصیل کے ساتھ اس کا جواب دے کر آپ کو مطمئن کرتے، مگر اعتراض کرنے والے علما کا اطمینان پھر بھی نہ ہوتا، کیوںکہ مجھے معلوم ہے کہ یہ حضرات مولانا مودودی صاحب کی مخالفت کچھ اور وجوہ کی بنا پر کرتے ہیں۔ چند مسائل کو یا اس قسم کے سطحی اعتراضات کو تو محض بہانہ بنایا اور لوگوں کو یقین دلایا جاتا ہے کہ ہماری مخالفت دینی بنیادوں پر ہے۔ آپ نے مجھ سے پوچھا ہے، تو اگرچہ مولانا مودودی صاحب کی عبارات اور ان کی تحقیقات پر اعتراضات کی جواب دہی میری ذمہ داری نہیں ہے کہ ہمارے ’کرم فرما‘ جو اعتراض کریں اور میں مدافعت کے لیے اُٹھ کھڑا ہوں۔ لیکن جب قرآنی اصطلاحات کے بارے میں آپ نے پوچھا ہے اور آپ درحقیقت مجھے ایک ثالث سمجھ کر یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں: مذکورہ چند علما اور مولانا مودودی دونوں سے قطع نظر میں آپ کو صحیح بات اپنے علم و فہم کے مطابق بتا دوں تو اب شرعاً میری ذمہ داری ہوگی کہ آپ کو اس کا جواب اس طرح دوں کہ کسی فریق کی حمایت کے جذبے کے بغیر اپنے علم و مطالعے کی بنا پر اس سے حق واضح ہوجائے۔
اس وقت: مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلِمٍ فَکَتَمَہُ أَلْجَمَہُ بِلِجَامٍ مِّنْ نَارِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ (ابی داؤد: ۳۶۵۸) ’’جس سے کسی معلومات کے بارے میں پوچھا گیا اور اس نے وہ معلومات چھپائیں، اس کو آگ کا لگام پہنایاجائے گا‘‘، حدیث نبویؐ میرے سامنے آگئی ہے۔ میں مولوی صاحبان کی رعایت کرکے یاا ُن کی ناراضی سے ڈر کر اپنے علم کو چھپائوں اور سوال کا صحیح جواب نہ دوں تو لِجَامٍ مِّنْ نَارِ کی وعید سامنے آتی ہے، لہٰذا جواب عرض کر رہا ہوں۔
سورئہ بقرہ میں فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ(۲:۲۶۵) کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ ابوالثناء شہاب الدین آلوسیؒ [۱۰دسمبر ۱۸۰۲ء-۲۹ جولائی ۱۸۵۴ء]نے روح المعانی میں لکھا ہے:
اَلطَّاغُوْتُ اَلشَّيْطَانُ وَهُوَ الْمَرْوِيُّ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، وَالْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ تَعَالٰى عَنْهُمْ - وَبِهٖ قَالَ مُجَاهِدٌ، وَقَتَادَةُ وَعَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَعِكْرِمَةَ أَنَّهٗ الْكَاهِنُ، وَعَنْ أَبِي الْعَالِيَةَ أَنَّهٗ السَّاحِرُ، وَعَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ كُلُّ مَا عُبِدَ مِنْ دُوْنِ اللهِ تَعَالٰى وَعَنْ بَعْضِهِمْ الْأَصْنَامُ، وَالْأَوْلٰى أَنْ يُّقَالَ بِعُمُوْمِهٖ سَائِرُ مَا يَطْغٰى، وَيُجْعَلُ الْاِقْتِصَارُ عَلٰى بَعْضٍ فِيْ تِلْكَ الْأَقْوَالِ مِنْ بَابِ التَّمْثِيْلِ وَهُوَ نَبَاءٌ مُبَالَغَةً كَالْجَبَرُوْتِ وَاخْتُلِفَ فِيْهِ فَقِيْلَ هُوَ مَصْدَرٌ فِي الْأَصْلِ وَلِذٰلِكَ يُوَحَّدٌ وَيُذَكَّرُ كَسَائِرِ الْمَصَادِرِ الْوَاقِعَةِ عَلَى الْأَعْيَانِ وَ اِلٰى ذٰلِكَ ذَهَبَ الْفَارِسِيُّ- وَقِيْلَ: هُوَ اِسْمُ جِنْسٍ مُفْرَدٌ فَلِذٰلِكَ لَزِمَ اِلَيْهِ ذَهَبَ سَيْبَويْه وَقِيْلَ: هُوَ جَمْعٌ وَهُوَ مَذْهَبُ الْمُبَرَّدِ وَقَدْ يُؤَنَّثُ ضَمِيْرُهٗ كَمَا فِي قَوْلِهٖ تَعَالٰى: وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَنْ يَعْبُدُوْهَا [الزمر۳۹:۱۷] وَهُوَ تَأنِيْثٌ اِعْتِبَارِيٌّ وَ اِشْتِقَاقُهٗ مِنْ طَغٰى يَطْغٰى أَوْ طَغٰى يَطْغُوْ وَمَصْدَرُ الْأَوَّلِ الطُّغْيَانُ. وَالثَّانِيْ الطُّغْوَانُ ، وَأَصْلُهٗ عَلَى الْأَوَّلِ طَغْيُوْتٌ، وَعَلَى الثَّانِيْ طَغْوُوْتٌ فَقُدِّمَتِ اللَّامُ وَأُخِّرَتِ الْعَيْنُ فَتَحَرَّكَ حَرْفُ الْعِلَّةِ وَالْفَتْحُ مَا قَبْلَهٗ فَقُلِّبَ اَلِفًافَوَزْنُهٗ مِنْ قَبَلُ فَعْلَوُوْتٌ وَالْآنَ فَلْعُوْتٌ (روح المعانی، ج۳،ص ۱۳)
[’ طاغوت‘ سے مراد شیطان ہے۔ یہ بات حضرت عمرؓ اور حضرت حسینؓ سے روایت کی گئی ہے۔ مجاہدؒ، اور قتادہؒ نے بھی یہی بات کی ہے۔ سعید بن جبیرؒ اور عکرمہؒ سے منقول ہے کہ اس سے مراد کاہن ہے۔ ابو العالیۃ سے منقول ہے کہ اس سے مراد جادوگر ہے۔ امام مالکؒ سے منقول ہے کہ ہر وہ ذات جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے۔ بعض سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ اس سے مراد بُت ہیں، مگر بہتر یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ وہ تمام اشیا ’طاغوت‘ ہیں جو طغیان (یعنی سرکشی) کرتی ہیں۔ ان اقوال میں سے کسی ایک قول پر اکتفا کرنے کو تمثیل کے باب سے قرار دیا جاسکتا ہے۔یہ لفظ (طاغوت) مبالغہ کے لیے آتا ہے، جیسے جبروت۔
[اس لفظ کی اصل لغوی حقیقت میں اختلاف ہے۔ کسی نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مصدر ہے۔اسی وجہ سے اس کو واحد مذکر قرا ردیا جاتا ہے، جیسا کہ متعین چیزوں کے لیے باقی مصادر ہیں۔ یہی راے فارسی کی ہے۔ کسی نے کہا ہے کہ یہ اسم جنس مفرد ہے، اسی وجہ سے یہ لازم ہے۔ یہ راے سیبویہ کی ہے۔ یہ بھی کہاگیا ہے کہ یہ جمع ہے۔ یہ [ابوالعباس محمد، المعروف] مبرَّد کا مذہب ہے۔ بعض اوقات اس کے لیے مؤنث کی ضمیر بھی استعمال کی جاتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَالَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ اَنْ یَّعْبُدُوْھَا وَاَنَابُوْٓا اِلَی اللّٰہِ (الزمر۳۹: ۱۷)، [بخلاف اس کے جن لوگوں نے طاغوت کی بندگی سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف رجوع کرلیا ان کے لیے خوش خبری ہے] یا یہ اعتباری تانیث ہے۔ یہ لفظ طَغٰی یَطغٰی یا طَغٰی یَطغُوا سے نکلا ہے۔ پہلے کا مصدر طُغْیَانْ اور دوسرے طغوان ہے۔ پہلی صورت میں اس لفظ کی اصل شکل طغیوت ہوگی اور دوسری صورت میں طغووت۔ لام کلمہ کو مقدم اور عین کلمہ کو مؤخر کیا گیا ہے۔ چنانچہ حرف علت متحرک ہوگیا ہے۔ اور اس سے پہلے جو زَبر تھا وہ الف میں تبدیل ہوگیا ہے۔ چنانچہ اس کا وزن پہلے فعلووت تھا اور اب فلعوت ہے۔]
اَیِ الشَّیَاطِیْنُ اَوِ الْاَصْنَامُ اَوْ سَائِرُ الْمُضِلِّیْنَ عَنْ طَرِیْقِ الْحَقِّ (ایضاً، ص۱۴) [ یعنی شیطان یا بت یا وہ سارے لوگ جو حق کے راستے سے گمراہ کرنے والے ہیں]۔
صَارَ اِسْمًا لِّمَا یُعْبَدُ مِن دُوْنِ اللہِ تَعَالٰی (ایضاً) [یہ نام بن گیا ہر اس چیز کا جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے]۔
روح المعانی میں دوسری جگہ: وَالَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ اَنْ یَّعْبُدُوْھَا وَاَنَـابُوْٓا اِلَی اللّٰہِ (الزمر ۳۹:۱۷) کی تفسیر میں علامہ آلوسیؒ تحریر فرماتے ہیں:
وَالطَّاغُوْتُ فَعْلُوْتٌ مِنَ الطُّغْیَانِ کَمَا قَالُوْا لَا فَاعُوْلٌ کَمَا قِیْلَ بِتَقْدِیْمِ اللَّامِ عَلَی الْعَیْنِ نَحْوَ صَاعِقَۃٌ وَصَاقِعَۃٌ وَیَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ الْاِشْتِقَاقِ وَاِنْ طَوَّغَ وَطِیْغَ یَھْدِیْنِ وَاَصْلُہٗ طَغْیُوْتٌ اَوْ طَغْوُوْتٌ مِنَ الْیَاءِ اَوِ الْوَاوِ لِاَنَّ طَغٰی یَطْغٰی وَیَطْغُوْ کِلَاھُمَا ثَابِتَانِ فِی الْعَرَبِیَّۃِ نَقَلَہُ الْجَوْھَرِیُّ وَنُقِلَ اَنَّ الطُّغْیَانَ وَالطُّغْوَانِ بِمَعْنًی وَکَذَا الرَّاغِبُ وَجَمْعُہٗ عَلَی الطَّواغِیْتِ یَدُلُّ عَلٰی اَنَّ الْجَمْعَ بُنِیَ عَلَی الْوَاوِ وَقَوْلُھُمْ مِنَ الطُّغْیَانِ لَا یَرُدُّوْنَ بِہٖ خُصُوْصَ الْیَاءِ بَلْ اَرَادُوْا الْمَعْنَی وَھُوَ عَلٰی مَا فِی الصِّحَاحِ الْکَاھِنُ وَالشَّیْطَانُ وَکُلُّ رَأْسٍ فِی الضَّلَالِ وَقَالَ الرَّاغِبُ ھُوَ عِبَارَۃٌ عَنْ مُتَعَدٍّ وَکُلِّ مَعْبُوْدٍ مِن دُوْنِ اللہِ تَعَالٰی وَسَمّٰی بِہِ السَّاحِرَ وَالْکَاھِنَ وَالْمَارِدَ مِنَ الْجِنِّ وَالصَّارِفَ عَنِ الْخَیْرِ وَیُسْتَعْمَلُ فِی الْوَاحِدِ وَالْجَمْعِ وَقَالَ الزَّمَخْشَرِیُّ فِی ھٰذِہِ السُّوْرَۃِ لَا یُطْلَقُ عَلٰی غَیْرِ الشَّیْطَانِ وَذُکِرَ اَنَّ فِیْہِ مُبَالَغَاتٌ مِنْ حَیْثُ الْبِنَاءِ فَاِنَّ صِیْغَۃَ فَعْلُوْت لِلْمُبَالَغَۃِ وَلِذَا قَالُوْا الرَّحْمُوْتُ الرَّحْمَۃُ الْوَاسِعَۃُ وَمِنْ حَیْثُ التَّسْمِیَۃِ بِالْمَصْدَرِ وَقَدْ اَطْلَقَہٗ فِیْ سُوْرَۃِ النِّسَاءِ عَلٰی کَعْبِ بْنِ الْاَشْرَفِ وَقَالَ سَمَّی طَاغُوْتًا لِاِفْرَاطِہٖ فِی الطُّغْیَانِ وَعَدَاوَۃِ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَوْ عَلٰی التَّشْبِیْہِ بِالشَّیْطَانِ فَلَعَلَّہٗ اَرَادَ لَا یُطْلَقُ عَلٰی غَیْرِ الشَّیْطَانِ عَلَی الْحَقِیْقَۃِ وَجَعَلَ کَعْبًا عَلَی الْاَوَّلِ مِنَ الْوَجْھَیْنِ مِنْ شَیَاطِیْنِ الْاِنْسِ وَفِی الْکَشْفِ کَاَنَّہٗ لَمَّا رَاٰہُ مَصْدَرًا فِی الْاَصْلِ مَنْقُوْلًا اِلَی الْعَیْنِ کَثِیْرَ الْاِسْتِعْمَالِ فِی الشَّیَاطِیْنِ حَکَمَ بِاَنَّہٗ حَقِیْقَۃٌ فِیْہِ بَعْدَ النَّقْلِ مَجَازٌ فِی الْبَاقِیْ لِظُھُوْرِ الْعَلَاقَۃِ اِمَّا اِسْتِعَارَۃً وَاِمَّا نَظَرًا اِلٰی تَنَاسُبِ الْمَعْنَی وَالَّذِیْ یَغْلِبُ عَلَی الظَّنِّ اَنَّ الطَّاغُوْتَ فِی الْاَصْلِ مَصْدَرٌ نُقِلَ اِلَی الْبَالِغ الْغَایَۃَ فِی الطُّغْیَانِ وَتَجَاوُزِ الْحَدِّ وَ اِسْتِعْمَالُہٗ فِیْ فَرْدٍ مِنْ ھٰذَا الْمَفْھُوْمِ الْعَامِّ شَیْطَانًـا کَانَ اَوْ غَیْرُہٗ یَکُوْنُ حَقِیْقَۃً وَیَکُوْنُ مَجَازًا عَلٰی مَا قَدَّرُوْا فِی اِسْتِعْمَالِ الْعَامِّ فِیْ فَرْدٍ مِنْ اَفْرَادِہٖ کَاسْتِعْمَالِ الْاِنْسَانِ فِیْ زَیْدٍ وَشُیُوْعُہٗ فِی الشَّیْطَانِ لَیْسَ اِلَّا لِکَوْنِہٖ رَأْسَ الطَّاغِیْنَ وَفَسَّرَہٗ ھُنَا مُجَاہِدٌ وَیَجُوْزُ تَفْسِیْرُہٗ بِالشَّیَاطِیْنِ جَمْعًا عَلٰی مَا سَمِعْتُ مِنَ الرَّاغِبِ وَیُؤَیِّدُہٗ
قِرَاءۃُ الْحَسَنِ اِجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اِنْتَھٰی (روح المعانی، پ۲۳، سورئہ زمر، ص۲۲۸)
[طاغوت بوزنِ فعلوت طغیان سے نکلا ہے، جیسا کہ ماہرین لغت کہتے ہیں۔ یہ فاعول کے وزن پر نہیں ہے جیسا کہ کہا گیا ہے کہ لام کلمہ عین کلمے پر مقدم ہوگیا ہے، جیسے: صَاعِقَۃٌ اور صَاقِعَۃٌ۔ اسی بات پر یہ اشتقاق دلالت کرتا ہے کہ وَاَنْ طَوَّغَ وَطِیْغَ یَھْدِیْنِ۔ اس کی اصل طَغْیُوْتُ یا طَغْوُوْت ہے، یعنی یاء یا واو کے ساتھ۔اس لیے کہ طغی یطغٰی اور طغٰی یطغوا دونوں عربی میں ثابت ہیں۔ اس کو علامہ جوہری نے نقل کیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ طُغْیَان اور طُغْوَان دونوں ایک ہی معنی میں ہیں۔ اسی طرح امام راغب نے بھی نقل کیا ہے۔اس کی جمع طواغیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کی جمع واو پر مبنی ہے۔ اور ماہرین لغت کا یہ کہنا کہ یہ طغیان سے ہے، اس سے ان کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس میں یاء کی خصوصیت ہے، بلکہ ان کی مراد معنی ہے اور وہ جیسا کہ الصحاح میں آیا ہے کاہن یا شیطان ہے، یا وہ ہرشخص جو گمراہی کا سرغنہ ہو۔ راغب کہتے ہیں کہ یہ لفظ ہر سرکشی کرنے والے پر بولا جاسکتا ہے۔ نیز ہر اس معبود پر جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے۔ چنانچہ جادوگر، کاہن، سرکش شیطان اور بھلائی سے پھیرنے والے پر اس کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس لفظ کا استعمال واحد اور جمع دونوں کے لیے ہوتا ہے۔ زمخشری کہتے ہیں کہ اس سورت میں اس کا اطلاق شیطان کے علاوہ کسی پر نہیں ہوگا۔ اس نے ذکر کیا ہے کہ بناوٹ کے لحاظ سے اس میں مبالغہ سے کام لیا گیا ہے۔ اس لیے کہ فَعْلُوْت کا لفظ مبالغہ کے لیے ہوتا ہے۔ اسی لیے کہاجاتا ہے کہ اَلرَّحْمُوْت سے مراد وسیع رحمت ہے۔ مصدر کے تسمیہ کی حیثیت سے سورۃ النساء میں اس لفظ کا اطلاق کعب بن اشرف (یہودی) پر کیا گیا ہے۔ کہا کہ اس کو طاغوت اس بنا پر کہا گیا ہے کہ طغیان میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دشمنی میں حد سے بڑھا ہوا تھا، یا اس وجہ سے کہ اس کو شیطان سے تشبیہ دی گئی ہے۔شاید (زمخشری) کی مراد یہ ہو کہ حقیقت کے لحاظ سے اس کا اطلاق شیطان کے علاوہ کسی پر نہیں ہوگا۔ اور کعب کو پہلی وجہ کے لحاظ سے شیاطین الانس میں شامل کرلیا ہے۔ اور کشف میں یہ بھی ہے کہ جب انھوں نے دیکھا کہ اصل میں تو یہ لفظ مصدر ہے اور پھر اس کو متعین اشیا کی طرف نقل کیا گیا ہے اور یہ شیاطین میں کثیر الاستعمال ہے، تو انھوں نے اس پر یہ حکم لگادیا کہ یہ اسی معنی میں حقیقت ہے اور باقی معانی میں مجاز ہے۔ اس لیے کہ دونوں کے درمیان تعلق ظاہر ہے، کہ یا تو یہ استعارہ ہے اور یا یہ کہ دونوں معانی میں مناسبت پائی جاتی ہے۔
غالب گمان یہ ہے کہ ’طاغوت‘ اصل میں مصدر ہے مگر مصدریت سے منتقل ہوکر یہ اس ذات کے بارے میں استعمال ہوا ہے جو سرکشی میں مبالغے کی حدتک پہنچی ہوئی ہو اور اس نے سارے حدود کو پار کیا ہو۔اب اس مفہوم کے کسی فرد میں اس کا استعمال حقیقت ہی ہوگا، چاہے وہ فرد شیطان ہو یا اس کے علاوہ کوئی ہو۔یہ مجاز اس صورت میں ہوگا جب لفظ عام کو اس کے کسی فرد کے بارے میں استعمال کیا جائے گا، جیسے لفظ انسان کا استعمال زید کے بارے میں۔ اس لفظ کا شیطان کے معنی میں شہرت پانا اس وجہ سے ہے کہ وہ سرکشوں کا سردار ہے۔یہاں مجاہد نے اس کی تفسیر اسی مفہوم میں کی ہے۔ اس کی تفسیر شیاطین کے لفظ جمع کے مطابق بھی کی جاسکتی ہے، جیسا کہ میں نے راغب سے سنا ہے۔اس کی تائید حسن کی قراء ت سے بھی ہوتی ہے جو یہ ہے کہ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ۔ (روح المعانی، پارہ ۲۳، سورہ زمر، ص۲۲۸)]
اَیِ الشَّیَاطِیْنُ اَوِ الْاَصْنَامُ اَوْ سَائِرُ الْمُضِلِّیْنَ عَنْ طَرِیْقِ الْحَقِّ… وَصَحَّ جَمْعُہٗ عَلَی الْقَوْلِ بِاَنَّہٗ مَصْدَرٌ لِاَنَّہٗ صَارَ اِسْمًا لِمَا یُعْبَدُ مِنْ دُوْنِ اللہِ تَعَالٰی (ج۳، ص۱۴) [یعنی شیطان یا بت یا وہ سارے لوگ جو حق کے راستے سے گمراہ کرنے والے ہیں۔ یہ نام بن گیا ہر اس چیز کا جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے۔]
گویا طاغوت سے مراد مَنْ یَّطَاعُ مِنْ دُوْنِ اللہِ ہے۔ آپ تفسیر روح المعانی کی یہ عبارات ان مولوی صاحبان کو دکھا دیجیے اورخاص طور سے خط کشیدہ الفاظ کی طرف متوجہ کیجیے اور کعب بن الاشرف کو تو تمام مفسرین نے بالاتفاق سورئہ نساء کی آیت میں طاغوت کا مصداق قرار دیا ہے۔ دراصل طاغوت کے معنی تو کثیر الطغیان ہے، یعنی ایسا شخص جو اللہ کا باغی ہو، سرکش ہو اور اللہ کے نظام و قانون کے مقابلے میں اللہ کے بندوں پر اپنا نظام اور خود ساختہ قانون چلانا چاہتا ہو۔ لہٰذا اس معنی کے اعتبار سے لینن، اسٹالن، چرچل اور جانسن کو اگر مولانا مودودی نے طاغوت کہا ہے، تو کون سی غلطی کی یا قرآنِ مجید کے الفاظ کی کون سی غلط تاویل و توجیہ کی؟ کچھ تو ہمارے اِن مولوی صاحبان کو بلاوجہ مولانا مودودی کی مخالفت کا شوق ہوتا ہے اور کچھ اُن میں سے بعض کا علم بالکل محدود ہوتا ہے۔ جلالین شریف کے سوا کسی اور تفسیر کا وہ مطالعہ ہی نہیں کرتے۔ کم علمی اور مخالفت کا جذبہ دونوں مل کر ایسے گُل کھلاتے رہتے ہیں۔
تفسیر کبیر میں امام فخرالدین رازیؒ [۱۰۴۹ء، رے - ۱۱۰۹ء، ہرات]نے سورئہ نساء کی آیت (۷۶): وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِکی تفسیر میں لکھا ہے:
وَهٰذِهِ الْآيَةُ كَالدَّلَالَةِ عَلٰى أَنَّ كُلَّ مَنْ كَانَ غَرَضُهُ فِي فِعْلِهِ رِضَا غَيْرِ اللَّه فَهُوَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ، لِأَنَّهُ تَعَالَى لَمَّا ذَكَرَ هَذِهِ الْقِسْمَةَ وَهِيَ أَنَّ الْقِتَالَ إِمَّا أَنْ يَكُونَ فِي سَبِيْلِ اللهِ : أَوْ فِي سَبِيْلِ الطَّاغُوتِ وَجَبَ أَنْ يَكُونَ مَا سِوَى اللهِ طَاغُوتًا...(تفسیر کبیر، ج۳،ص ۲۶۴) [یہ آیت گویا دلالت کرتی ہے اس بات پر، کہ ہر وہ شخص جس کا اپنے کسی فعل سے مقصود اللہ کے سوا کسی اور کی رضا ہو تو وہ ’طاغوت‘ کے راستے میں ہے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ تقسیم بیان کی (اور وہ یہ کہ جنگ یا تو اللہ کے راستے میں ہوگی اور یا پھر ’طاغوت‘ کے راستے میں ) تو یہ بات لازمی ہوگئی کہ اللہ کے سوا جو کچھ ہوگا، وہ ’طاغوت‘ ہوگا۔ ]
دوسرا سوال آپ نے یہ کیا ہے کہ مولانا مودودی صاحب احکام و قوانین کی اطاعت کو عبادت کہتے ہیں اور یہ لفظ عبادت کی غلط تفسیر ہے۔
اس کے بارے میں بھی عرض ہے کہ عبادت کے معنی تو ہیں بندگی اور غلامی۔ اس صورت میں اگر کسی آقا کے احکام و قوانین کی اطاعت و فرماں برداری اگر بندگی اور غلامی نہیں ہے، تو بندگی اور غلامی اور کیا ہوتی ہے؟ یہ بات صحیح ہے کہ کبھی کسی قانون کی اطاعت خوش دلی کے ساتھ نہیں ہوتی۔ عقیدتاً کسی کو آقا اور قانون چلانے کا حق دار تسلیم نہیں کرتا، مگر کچھ ایسی مجبوریاں اور کمزوریاں ہوتی ہیں کہ بادلِ نخواستہ وہ حکم مان لیتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ یہ کسی حقیقی حاکم و قانون ساز کا حکم نہیں ہے۔ ایسی صورت میں تو اطاعت ِ قانون کو عبادت نہیں کہا جائے گا، لیکن اگر کسی کو قانون سازی کا حق دار مان لیا جائے اور خوش دلی کے ساتھ اس کے حکم کی تعمیل و اطاعت کی جاتی ہو اور عقیدہ یہ ہو کہ یہ حکم برحق اور آقا کی طرف سے ہے تو وہ یقینا عبادت ہے۔ (دیکھیے قرآنِ مجید میں جہاں ذکر ہے):
وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ (المائدہ ۵:۴۴) [جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں] ۔ اور دوسری جگہ اُوْلٰئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ میں عام طور سے مفسرین یہی فرق کرتے ہیں کہ مَا اَنْزَلَ اللہ کے خلاف فیصلہ اگر اس نظریے کے ساتھ کوئی کر رہا ہے کہ مَا اَنْزَلَ اللہ کے خلاف حکم کو عقیدتاً برحق سمجھ کر فیصلہ دے رہا ہے تو یہ کفر ہے اور وہ شخص کافر ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر مَا اَنْزَلَ اللہ کے خلاف کو عقیدتاً غلط سمجھ رہا ہے، اللہ کے سوا کسی دوسرے کو قانون سازی کا حق نہیں دیتا، مگر عملاً اس کے خلاف فیصلہ دیتا ہے، تو یہ فسق ہے اور ایسا فیصلہ کرنے والا فاسق ہے۔
حضرات علماے دیوبند کی بہت سی تحریروں اور تقریروں میں بھی یہ ذکر ملتا ہے کہ انھوں نے احکامِ الٰہی کی اطاعت و فرماں برداری کو مطلقاً عبادت کہا ہے اور لکھا ہے کہ عبادت درحقیقت آقا کے احکام کی اطاعت و فرماں برداری کا نام ہے، یعنی جیسے آقا حکم دے ویسے عمل کرنا یہ آقا کی عبادت ہے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں روزہ رکھنا عبادت ہے، کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے جو حقیقی حاکم اور آقا ہے، اس مہینے میں روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے، اور جب شوال کا چاند نظر آجائے تو یکم شوال کو روزہ رکھنا اللہ کی نافرمانی ہے اور روزہ نہ رکھنا اور کھانا پینا عبادت ہے، کیوں کہ عید کے دن کے لیے آقا کا حکم یہی ہے۔
میں یہاں بھی امام فخرالدین رازی ؒ کی چند عبارتیں نقل کر رہا ہوں، جن سے یہ معلوم ہوگا کہ انھوں نے قرآنِ مجید کے الفاظ عَابِدُوْن کی تفسیر مُطِیْعُوْنَ سے کی ہے:
وَقَوْمُھُمَا لَنَا عَابِدُوْنَ [المومنون ۲۳:۳] اَیْ خَادِمُوْنَ مُنْقَادُوْنَ لَنَا کَالْعَبِیْدِ [ابو السعود، ج۷، ص ۱۶۰] وَفِی التَّفْسِیْرِ الْکَبِیْرِ أَنَّ قَوْمَ مُوسٰى وَهَارُوْنَ كَانُوا كَالْخَدَمِ وَالْعَبِيدِ لَهُمْ قَالَ اَبُو عُبَيْدَةَ الْعَرَبُ تُسَمِّي كُلَّ مَنْ دَانَ لِمَلِكٍ عَابِدًا لَهُ وَيُحْتَمَلُ اَنْ يُقَالَ اَنَّهُ كَانَ يَدَّعِي الْإِلٰهِيَّةَ فَادَّعَى اَنَّ النَّاسَ عِبَادُهُ وَأَنَّ طَاعَتَهُمْ لَهُ عِبَادَةٌ عَلَى الْحَقِيقَةِ (تفسیر کبیر،ج۶، ص ۱۹۷) اور ان کی قوم ہماری عبادت گزار ہوگی (المومنون ۲۳:۳)، [یعنی ہماری خدمت گزار اور ہمارے آگے جھکنے والی، جیسا کہ غلام ہوتے ہیں (ابو السعود، ج۷، ص۱۶۰)۔ اور تفسیرکبیر میں ہے کہ حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کی قوم فرعونیوں کے لیے نوکروں اور غلاموں کی طرح تھی۔ ابوعبیدہ نے کہا ہے کہ عرب ہر اس شخص کو ’عبادت گزار‘ کہتے ہیں جو کسی بادشاہ کے آگے جھک جائے۔یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ الوہیت کا دعویٰ کرتا تھا، اس لیے اس نے دعویٰ کیا کہ انسان اس کے بندے ہیں اور میری پیروی ان کے لیے عبادت ہے۔ (تفسیر کبیر، ج۶، ص۱۹۷)]
قوله تعالٰى: وَعَبدَ الطَّاغُوتَ قِیْلَ الطَّاغُوتُ الْعِـجْلُ وَقِيلَ الطَّاغُوتُ الْأَحْبَارُ ، وَكُلُّ مَنْ اَطَاعَ اَحَدًا فِي مَعْصِيَةِ اللهِ فَقَدْ عَبَدَهٗ (تفسیر کبیر، ج۳، ص۴۲۵) [رہا اللہ تعالیٰ کا یہ قول کہ وعبد الطاغوت تو اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ’طاغوت‘ سے مراد بچھڑا ہے۔ کسی نے کہا ہے کہ یہاں ’طاغوت‘ سے مراد اُن کے علما ہیں۔ اس لیے کہ جو بھی کسی کی اطاعت کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے تو در اصل اس نے اس کی عبادت کی۔ ]
چار عملی ارکانِ اسلام کو فقہا نے جو عبادت کہا ہے تو وہ محض ایک علمی اصطلاح کے طور پر کہا ہے کہ یہ عبادات ہیں اور یہ معاملات۔ اس کا مقصد حصر[بخل] نہیں تھا کہ ان ارکانِ اربعہ کے سوا اللہ تعالیٰ کے کسی دوسرے حکم کی اطاعت عبادت نہیں ہے۔ اگر اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور اس کی تعمیل اور اس فرمانِ الٰہی کی اطاعت اگر عبادت ہے، تو اسی طرح قرآنِ مجید میں وَاَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ (الرحمٰن ۵۵:۹)،بھی اللہ تعالیٰ کا ایک واجب التعمیل فرمان ہے۔ اگر ایک تاجر دکان میں بیٹھ کر خریدار کو سودا تولتے وقت پورا تول کر دینے اور ڈنڈی نہ مارنے کو حکمِ خداوندی سمجھ کر اس کی اطاعت کر رہا ہے تو یہ عبادت کیوں نہیں؟ اور اگر کسی نے اس کو عبادت کہا تو کون سا جرم کیا؟
اس پر تمام ان احکام کی اطاعت کو قیاس کیجیے جو معاملات کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے بندوں کو دیے ہیں۔ فقہاے کرام نے تو نکاح کو بھی عبادات میں شمار کیا ہے۔ اگرچہ نکاح غیرمسلم بھی کرتے ہیں، لیکن چوں کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کے حکم فَانْکِحُوا کی تعمیل میں عفت و عصمت کی خاطر کرتے ہیں اور اس طریقے پر کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے، اس لیے یہ عبادت ہے۔ اور اگر یہ نظریہ پیش نظر نہ ہو، غیرمسلموں کی طرح محض خواہشِ نفس کی بنا پر ہو، یا اللہ کے رسولؐ کے طریقوں کے خلاف ہو تو پھر وہ عبادت نہیں، بلکہ بعض صورتوں میں نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا۔ ہمارے یہ مولوی صاحبان تو جب سوتے ہیں تو اس کے لیے بھی کہتے ہیں کہ نَومُ الْعَالِمِ عِبَادَۃٌ ،یعنی عالم کا سونا بھی عبادت ہے اور کھانا پینا بھی کُلُوْا وَاشْرَبُوْا کے حکمِ الٰہی کی تعمیل میں عبادت ہے، لیکن مولانا مودودی نے تمام احکامِ الٰہی کی اطاعت و فرماں برداری کو عبادت کہا تو اس پر کیا اعتراض کرنا ضروری ہے؟ اور ان کو بدنام کرنے کی کوشش کرنا لازمی ہے؟
تیسرا اعتراض یہ ہے کہ وہ اِلٰہ کے معنی حاکم کرتے ہیں۔ مولانا مودودی صاحب نے اپنی تصانیف میں اِلٰہ کے معنی صرف حاکم نہیں کیے، بلکہ وہ فرماتے ہیں کہ یہ لفظ اِلٰہ جامع لفظ ہے۔ اس کے بہت سے معانی میں سے ایک معنی یہ بھی ہے کہ الٰہ سے مراد حاکم و قانون ساز ہو، اور جس طرح دوسرے معانی کے اعتبار سے اللہ کے سوا اس کائنات میں کوئی اِلٰہ نہیں،اسی طرح اس کائنات میں ایک اللہ کے سوا دوسرا کوئی حاکم نہیں۔ نہ تکوینی حکم دینے والا، نہ تشریعی حکم دینے والا، اور یہ معنی قرآنِ مجید کی آیت: اَلَالَہُ الْحُکْمُ [الانعام ۶:۶۲] اور اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ [الانعام ۶:۵۷]، اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ [اعراف ۷:۵۴] اور اسی مضمون کی دوسری بے شمار آیتوں سے ثابت ہے۔
اُمید ہے کہ ہمارے یہ مولوی صاحبان ،امام فخرالدین رازیؒ کو تو بہرحال مانتے ہوں گے اور اُن کی تفسیر تو ان کے ہاں قابلِ اعتماد ہوگی۔ اِلٰہ کے بارے میں امام رازیؒ کی چند عبارتیں نقل کرتا ہوں:
فِیْ تَفْسِیْرِ قَوْلِہٖ تَعَالٰی : مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ (القصص) فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَيْسَ الْمُرَادُ مِنْهُ أَنَّـهُ كَانَ يَدَّعِيْ كَوْنَهٗ خَالِقًا لِلسَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْبِحَارِ وَالْجِبَالِ وَخَالِقًا لِذَوَاتِ النَّاسِ وَصِفَاتِهِمْ، فَإِنَّ الْعِلْمَ بِامْتِنَاعِ ذٰلِكَ مِنْ أَوَائِلِ الْعُقُولِ فَالشَّكُّ فِيهِ يَقْتَضِي زَوَالَ الْعَقْلِ، بَلِ الْإِلَهُ هُوَ الْمَعْبُودُ فَالرَّجُلُ كَانَ يُنْفِي الصَّانِعَ وَيَقُولُ لَا تَكْلِيفَ عَلَى النَّاسِ إِلَّا أَنْ يُطِيعُوا مَلِكَهُمْ وَيَنْقَادُوا لِأَمْرِهِ، فَهٰذَا هُوَ الْمُرَادُ مِنْ ادِّعَائِهِ الْإِلٰهِيَّةَ لَا مَا ظَنَّهُ الْجُمْهُورُ مِنْ ادِّعَائِهِ كَوْنَهُ خَالِقًا لِلسَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، لَا سِيَّمَا وَقَدْ دَلَّلْنَا فِي سُورَةِ طٰهٰ [۲۰:۴۹] فِي تَفْسِيرِ قوله: فَمَنْ رَّبُّکُمَا یٰمُوْسٰی عَلٰى أَنَّهُ كَانَ عَارِفًا بِاللهِ تَعَالٰى وَأَنَّهُ كَانَ يَقُولُ ذٰلِكَ تَرْوِيجًا عَلَى الْاِغْمَارِ مِنَ النَّاسِ (تفسیر کبیر، ج۲، ص۴۴۲) [اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تفسیر میں کہ مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ (القصص ۲۸:۳۸)، جان لو کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ یہ دعویٰ کرتا تھا کہ وہ آسمانوں اور زمین کا خالق ہے، سمندروں اور پہاڑوں کا خالق ہے اور وہ لوگوں کی ذات اور صفات کا خالق ہے۔ ان چیزوں کا غلط ہونا تو عقل کا ابتدائی درجہ ہے۔ ان چیزوں میں شک کرنا عقل کے زائل ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔ چنانچہ یہاں اِلٰـہ سے مراد معبود ہی ہے۔ اس لیے کہ کوئی شخص اس بات کی نفی کرسکتا تھا کہ کائنات کا کوئی خالق نہیں ہے اور وہ کسی قاعدے اور قانون کے پابند بھی نہیں ہیں، سواے اس کے کہ وہ اپنے بادشاہ کی بات مانیں اور اسی کے حکم کی پیروی کریں۔یہ ہے مطلب فرعون کے دعواے الوہیت کا، نہ کہ وہ جس کا گمان جمہور مفسرین کو ہوا ہے کہ فرعون نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ آسمان اور زمین کا خالق ہے۔ خصوصاً، جب کہ ہم نے سورۂ طٰہٰ میں فَمَنْ رَّبُّکُمَا یٰمُوْسٰی کی تفسیر میں اس بات پر دلائل دیے ہیں کہ فرعون اللہ تعالیٰ کے بارے میں جانتا تھا۔]
گویا فرعون کے ہاں اپنے آپ کو اِلٰہ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جس کے حکم کی اطاعت کی جائے اور جس کے قانون کو تسلیم کر کے اس کی پابندی کی جائے۔ اس معنی میں صرف مَیں اِلٰہ ہوں، دوسرا کوئی اِلٰہ نہیں ہے کیوں کہ میں مُلکِ مصر کا بادشاہ اور حکمران ہوں۔
اور سورئہ طٰہٰ کی آیت فَمَنْ رَّبُّکُمَا یٰمُوسٰی کی تفسیر میں لکھا ہے:
اِنَّ فِرْعَوْنَ کَانَ عَارِفًا بِاللّٰہِ ،فرعون، اللہ کے بارے میں جانتا تھا۔
اور امام رازیؒ نے اس کی چھے دلیلیں دی ہیں (ملاحظہ فرمائیں: تفسیر کبیر، ج۶، ص۴۱) نیز فرماتے ہیں:
وَأَمَّا ادِّعَاؤُهُ الرُّبُوبِيَّةَ لِنَفْسِهِ فَبِمَعْنَى أَنَّهُ يَجِبُ عَلَيْهِمْ طَاعَتُهُ وَالِانْقِيَادُ لَهُ وَعَدَمُ الِاشْتِغَالِ بِطَاعَةِ غَيْرِهِ ، [رہا اس (یعنی فرعون)کا اپنی ربوبیت کا دعویٰ کرنا تو اس کے معنی یہ تھے کہ لوگوں پر اس کی اطاعت اور اس کے آگے جھکنا واجب ہے۔ کسی اور کی اطاعت میں مشغول ہونا جائز نہیں۔]
ان عبارات کا مطلب تو واضح ہے کہ اِلٰہ کے معنی واجب الطاعۃ حاکم کے ہیں، مگر شاید یہ کہا جائے گا کہ اس میں تو یہ کوئی تصریح نہیں کہ اِلٰہ کا ترجمہ حاکم کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے میں آپ کو توجہ دلاتا ہوں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیو بندیؒ کے ترجمۂ قرآن کی طرف ۔ آپ حضرت شیخ الہند کا اُردو ترجمۂ قرآن نکال کر بیسویں پارے کا آغاز ان معترض صاحبان کےسامنے رکھیے۔ ایک ہی رکوع میں پانچ دفعہ آیا ہے: اَاِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۔اور پانچوں جگہ اس کا ترجمہ لکھا ہے: ’’اب کوئی اور حاکم ہے اللہ کے ساتھ‘‘۔
پھر نکالیے سورئہ قصص کی آیت ۳۸: مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ۔اس کا ترجمہ انھوں نے کیا ہے: ’’مجھ کو تو معلوم نہیں تمھارا اِلٰہ حاکم ہو میرے سوا‘‘۔
پھر نکال کر دکھایئے پارہ ۱۹ میں سورئہ شعراء کی آیت ۲۹: لَئِنِ اتَّخَذْتَ اِلٰـہًا غَیْرِی لَاَجْعَلَنَّکَ مِنَ الْمَسْجُوْنِیْنَ o اس کا حضرتؒ نے ترجمہ کیا ہے کہ: ’’اگر تو نے ٹھیرایا کوئی اور حاکم میرے سوا تو ضرور ڈالوں گا تجھ کو قید میں‘‘۔
درحقیقت اِلٰہ کا ترجمہ ان مقامات پر ’’حاکم‘‘ حضرت شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہے اور موقع محل کے اعتبار سے یہاں اِلٰہ کا یہی ترجمہ مناسب تھا۔ اسی لیے حضرت شیخ الہندؒنے اُسی کو باقی رکھا۔
اعتراض کرنے والے علماے کرام کو یہ حوالہ جات دکھانے کے بعد پوچھیے کہ ان دونوں بزرگوں کے بارے میں آپ کی کیا راے ہے اور اب ان پر آپ کون سا فتویٰ لگائیں گے ؟ ان ترجموں کے بارے میں وہ جو کچھ کہیں یا کوئی تاویل کریں وہ مجھے آپ بتا دیجیے، تاکہ ان لوگوں کی دیانت و انصاف اور حق پسندی کا اندازہ ہوجائے! (تفہیم الاحکام، اوّل، ص ۴۱-۵۲)
[مضمون میں شامل عربی اقتباسات کا ترجمہ جناب گل زادہ شیرپائو نے کیا ہے۔ ادارہ]