قرآن کریم میں سود کے لیے ’ربوٰ‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس لفظ کے مفہوم کی وضاحت کردی جائے، تاکہ اس کی حُرمت کے اسباب کا ادراک ہوسکے۔ یہ بات قابلِ فہم بن جائے کہ اس کے حرام نہ سمجھنے کی وجہ سے اور انسانی معاملات میں اس کے جاری ہونے کے سبب انسانی معاشرے کو کیسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ربوٰ کے لفظی معنی اضافہ کے ہیں۔ کسی بھی واجب الادا شے یا مال میں ایسا مشروط اضافہ جس کا کوئی عوض نہ ہو، اسے ربوٰ کہتے ہیں۔ واجب الادا رقم یا شے کو ادا کرتے وقت اگر کوئی شخص ازخود زیادہ واپس کردے تو اسے ربوٰ نہیں کہیں گے، لیکن اضافہ شرط کا حصہ ہے تو وہ ربوٰ ہوگا۔ اسلامی شریعت اس بات کی وضاحت کردیتی ہے کہ واجب الادا رقم یا شے میں اضافے کا درست عوض کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جن وجوہ سے اضافہ ممکن ہے ان کی وضاحت کردی گئی ہے اور اب اگر اس اضافے کے درست ہونے کے لیے کوئی اور دلیل لائی جائے تو وہ ناقابلِ قبول ہوگی۔
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ نے اپنی ایک تقریر میں اضافے کی درست وجوہ کو یوں بتایا ہے: ’’ربوٰ کا مطلب کسی بھی بیع میں راس المال میں وہ اضافہ ہے، جس کا سبب اس کے بالمقابل محنت، مہارت، خطر یا شے نہ ہو‘‘۔ اس طرح واجب الادا رقم یا شے میں ان چار اسباب کے علاوہ اضافہ ناحق ہے اور وہ حرام ہے۔
سود کے حق میں ایک دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ جیسے کسی شے یا جایداد کے حقِ استعمال کے طور پر متعین کرایہ دینا درست ہے، اسی طرح کسی کے مال کو استعمال کرنے کے عوض طے شدہ شرح پر سود دینا جائز ہونا چاہیے۔ دراصل یہ دلیل اسلامی شریعت کے ایک بنیادی اصول سے ناواقفیت کی بنا پر دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ نے اس کی وضاحت یوں کی ہے: اسلامی احکام میں کسی چیز کے ’استعمال‘ (use) کرنے اور ’صرف‘ (consume) کرنے میں تمیز کی گئی ہے۔ جو چیز استعمال کی جاتی ہے وہ دراصل اپنی اصل حالت میں موجود ہوتی ہے۔ اس کے استعمال کے عوض ’اجر‘ (کرایہ) دینا جائز ہے۔ مثلاً ’الف‘ نے ’ب‘ سے ایک مکان ایک ماہ کے لیے کرایے پر لیا۔ ماہ کے اخیر میں مکان ’الف‘ کو واپس ہوجائے گا اور اس مدت کے حقِ استعمال کے طور پر پہلے سے طے شدہ کرایہ’ب‘ کے ذمہ واجب الادا ہوگا۔ دوسری طرف جو چیز ’صرف‘ ہوجاتی ہے، وہ اپنی اصلی حالت میں باقی نہیں رہتی ہے۔ اس لیے اس کے حقِ استعمال کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ہے۔ جتنی چیز ’صرف‘ کے لیے لی تھی، اتنی ہی واجب الادا ہوگی۔ مثلاً کسی نے اپنے پڑوسی سے دوکلو گرام چینی لی اور ’صرف‘ کر دی تو اب اسے صرف دو کلو چینی یا اس کی قیمت واپس کرنی ہوگی۔ اصل چینی تو وہ چٹ کرچکا ہے۔ اب اس کا حقِ استعمال بے معنی ہے۔
درج بالا اصول کا اطلاق رقم اور مال کے سلسلے میں کرنے سے اس بات کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ حقِ استعمال کے طور پر متعین شرح سود کیوں جائز نہیں ہے۔ جو مال قرض کے طور پر حاصل کیا جاتا ہے، وہ اپنی اصل صورت میں باقی نہیں رہتا، بلکہ مختلف ضرورتوں کے لیے ’صرف‘ کردیا جاتا ہے۔ مشین و سامان کی خریداری، مزدوری کی ادایگی اور تجارت کی دیگر ضروریات میں ’صرف‘ ہوکر اس مال کی شکل بدل جاتی ہے۔ اس کے بعد جو چیز تیار کی جاتی ہے، اس کے فروخت سے جو یافت ہوتی ہے، اس سے قرض کی ادایگی کی جاسکتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں مال اور رقم استعمال نہیں ہوتے بلکہ ’صرف‘ ہوجاتے ہیں۔ اس تصرف کے بعد زیادہ ادا کرنے کا جواز باقی نہیں رہتا ہے۔
ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی نے سود سے متعلق قرآنی آیات کا جائزہ لینے کے بعد انسانی نفسیات اور انسانی سماج پر اس کی وجہ سے مرتب ہونے والی درج ذیل پانچ خرابیوں کا ذکر کیا ہے:
۱- فساد فی الارض: زمین، عدل و قسط کی بنیاد پر بنائی گئی ہے۔ اس نظام میں جب بھی ظلم کو روا رکھا جائے گا، اس کا توازن بگڑے گا اور زمین فساد میں مبتلا ہوجائے گی۔ سود ظلم پر مبنی ایک ایسا نظام ہے جو انسانی معاشرے کے تانے بانے کو بکھیر دیتا ہے۔
۲- اکل بالباطل: سود کے نتیجے میں اس نفسیات کو فروغ ملتا ہے کہ دوسروں کے پاس موجود دولت کس طرح خود کسی خطرے میں مبتلا ہوئے بغیر حاصل کرلی جائے۔ باطل طریقے سے بغیر محنت اور سعی کے دولت سمیٹنا انسانی معاشرے کا عمومی طریقہ بن جاتا ہے۔
۳- منفی شرحِ نمو: انسانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی اور ضروریاتِ زندگی کا ہمہ دم پھیلتا دائرہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ معیشت ترقی پذیر ہو اور اس کی شرحِ نمو (growth) ہمیشہ مثبت ہو،لیکن سود کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ انسان اپنی ضروریات کے لیے پیداوار اور خدمت کی جو صورتیں اختیار کرتا ہے، ان سب میں شرحِ نمو ایک جیسی نہیں ہوتی ہے اور ان سب کے مجموعی تعامل سے ترقی کی اوسط رفتار حاصل ہوتی ہے۔ شرحِ سود سے اس نظام میں خلل پڑتا ہے۔ پیداوار اور خدمات کی تمام صورتوں پر یہ لازم ہوجاتا ہے کہ شرح سود سے زیادہ نمو حاصل کریں، لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے۔ معاشی عمل کے نتیجے میں جو ترقی ہوتی ہے ، اس کا متعین حصہ سود کی ادایگی کی نذر ہوجاتا ہے اور جو چیز بچتی ہے، وہ اکثر منفی شرحِ نمو ہوتی ہے۔
۴- انسانی اقدار کی پامالی: انسانی شخصیت سود کے نتیجے میں پستی کا شکار ہوجاتی ہے۔عدل اور احسان اور تمام اعلیٰ انسانی اقدار کا فقدان ہوجاتا اور انسانوں کی دنیا جنگل کی دنیا بن جاتی ہے کہ جہاں ہر جان دار کے سامنے ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ خود اچھی طرح جی لے اور اس کے نتیجے میں اگر دوسرے کسی جاندار کا بُرا ہوتا ہو تو ہوتا رہے۔ قرآن نے سود خور کی مثال اس شخص سے دی ہے جسے شیطان نے چھو کر باؤلا کردیا ہو۔ اس کے نتیجے میں انسانی اقدار پامال ہوتی ہیں اور شیطان کی پسندیدہ اقدار فروغ پانے لگتی ہیں۔
۵- سود ناحق اور باطل ہے:پوری انسانی تاریخ میں سود کی خباثت پر اتفاق رہا ہے۔ البتہ پچھلی چند صدیوں میں سرمایہ دارانہ نظام میں اس ’ناخوب‘ کو اتنا ’خوب‘ بنا کرپیش کیا گیا ہے، گویا یہ ایک پسندیدہ عمل ہے، جس کے بغیر تمدن اور معیشت کی گاڑی آگے نہیں چل سکتی۔ معلوم انسانی تاریخ میں سود کا رواج شروع سے پایا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود اسے ہمیشہ غلط سمجھا گیا ہے۔ تمام مذاہب کی تعلیمات میں سود اور سودخوری کے خلاف احکامات موجود ہیں۔
قرآنِ کریم نے سورئہ بقرہ، آیت ۳۵ میں سود کے مقابل زکوٰۃ اور سورئہ بقرہ، آیت ۲۷۶ میں صدقات کو پیش کیا ہے اور یہ بات بتائی ہے کہ اللہ سود کا مَٹھ مار دیتا ہے، جب کہ زکوٰۃ و صدقات انسانوں کے لیے مفید اور انسانی معاشرے کی ترقی کے ضامن ہیں۔ سورئہ بقرہ آیت ۲۷۵ میں معترضین کا یہ اعتراض دُہرایا گیا ہے کہ ’تجارت، سود کے مانند ہے‘۔ قرآنِ کریم نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ ’تجارت حلال ہے اور سود حرام ہے‘۔ ان آیات کی روشنی میں ایک طرف سود اور زکوٰۃ و خیرات کے فرق کے مطالعے اور دوسری طرف سود اور تجارت کے موازنے اور ان سب کے اثرات جو معاشرے پر پڑتے ہیں، ان پر غور کرنے سے سود کے بُرے اثرات کو سمجھا جاسکتا ہے۔
بیع کے لیے اُردو میں ’خرید و فروخت‘ یا ’لین دین‘ کے ہم معنی الفاظ بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ دراصل یہ انسان کے معاشی عمل کا مقصد ہے۔ ایک فریق اپنی پیداوار یا خدمات دوسرے فریق کو فروخت کرتا ہے اور اس کی قیمت وصول کرتا ہے۔ اس عمل کے لیے ضروری ہے کہ دونوں فریق اپنی اپنی آزاد مرضی سے، بغیر کسی جبر و اِکراہ کے اپنے اپنے معلوم فائدے کے لیے شریک ہوں۔ قیمت اگر نقد ادا کردی جائے تو بیع مکمل ہوجاتی ہے۔ ادایگی اگر نقد نہ ہو تو چند مسائل پیدا ہوتے ہیں، جن کے ازالے کے لیے قرآن کریم نے تفصیلی احکام دیے ہیں۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ مذکورہ آیت (البقرہ۲:۲۸۲) قرآنِ کریم کی سب سے بڑی آیت ہے۔ وہ آیت، آیت الدین کہلاتی ہے۔ سود کا معاملہ اسی وقت پیش آتا ہے، جب ادایگی باقی رہ جاتی ہے۔ قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ جو رقم واجب الادا ہے، اس میں اضافہ نہیں ہوسکتا۔ دوسری طرف سود پر مبنی نظامِ معیشت اس بات پر مصرہے کہ اس ادھار ادایگی میں سود کا عنصر شامل ہونا چاہیے۔
قرآنِ کریم کی متذکرہ آیت میں دونوں فریق کے حقوق کی حفاظت کی گئی ہے اور کسی کے حق میں کوئی ظلم روا نہیں رکھا گیا ہے۔ سودی نظامِ معیشت بائع کے حق میں فیصلہ کرتا ہے اور مشتری کے نقد ادایگی نہ کرسکنے کی بنا پر اس پر ظلم کرتا ہے، اور جو لین دین ایک دوسرے کی آزاد مرضی سے اور فائدے کے لیے ہوا تھا، اس میں سود کی گنجایش نکال کراس ’خیر‘ کو ’شر‘ میں تبدیل کردیتا ہے، اور فساد فی الارض کا باب وا کردیتا ہے۔