مولانا ابوعمار زاہد الراشدی


قیامِ پاکستان کے ۷۰برس گزرنے کے بعد بھی مملکت ِ خداداد میں دینی نظامِ تعلیم ایک سوالی بن کر حاکموں، قانون سازوں اور خود عوام کے سامنے کھڑا ہے۔ ذرا پس منظر ملاحظہ فرمایئے:

دینی مدارس کے موجودہ آزادانہ نظام کا آغاز ۱۸۵۷ء کے بعد اس وقت عمل میں لایا گیا تھا جب ’ایسٹ انڈیا‘ کمپنی کی جگہ تاجِ برطانیہ نے متحدہ ہند کا اقتدار سنبھال لیا اور عدالتی و دفتری نظام کی یکسر تبدیلی کے ساتھ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے اس تعلیمی نظام کی بساط لپیٹ دی، جو ’درسِ نظامی‘ کے عنوان سے اورنگ زیب عالم گیرؒ کے دور سے چلا آرہا تھا۔

’درسِ نظامی‘ کے اس نظام کے تحت قرآن و حدیث، فقہ اور عربی و فارسی زبانوں کے ساتھ دیگر عصری علوم بھی پڑھائے جاتے تھے۔ تاہم، جب نظام میں عربی و فارسی کی جگہ انگریزی اور فقہ و قانون کی جگہ برطانوی قانون نے حاصل کرلی، تو دینی و معاشرتی ضروریات کے تحت قرآن و حدیث، فقہ و شریعت اور عربی و فارسی کی تعلیم و تدریس کا تسلسل قائم رکھنے کے لیے ایک مستقل نظامِ تعلیم کی ضرورت محسوس ہوئی، جس کا برطانوی حکومت کے پروگرام میں ہرگز کوئی امکان نہیں تھا۔ اس طرح کچھ خدا ترس اور باہمت لوگوں نے امداد باہمی کے تحت نجی سطح پر دینی مکاتب و مدارس کا سلسلہ شروع کیا، جو بے سروسامانی اور حوصلہ شکن حالات کے باوجود مسلم معاشرے کی دینی و معاشرتی ضرورت پوری کرنے کے لیے سرگرمِ کار ہوا۔

تقریباً ۹۰برس تک ان مدارس نے مسلم معاشرے میں دینی رہنمائی اور علمی ضروریات کی فراہمی کے علاوہ مسجد و مکتب کا ادارہ قائم رکھنے کے لیے رجال کار مثلاً: امام، خطیب، مدرس، قاری، حافظ اور مفتی مہیا کیے۔ اس عظیم الشان خدمت سے معاشرے میں مسجدومکتب کا نظام قائم رہا اور اس حوالے سے مسلمانوں کی ضروریات کی فراہمی کا سلسلہ تعطل کا شکار نہیں ہوا۔

برطانوی مقبوضہ ہندستان میں دینی مدارس کا یہ دور ’تحفظاتی دور‘ کہلاتا ہے، جس میں انھیں خود کو ریاستی مداخلت سے بچانا تھا اور اپنے دائرۂ کار کو اس حدتک محدود رکھنا تھا کہ ان کی محنت کے نتائج صرف اس مقصد کے لیے کارآمد ہوں۔ چنانچہ پوری بصیرت اور حکمت عملی کے ساتھ دینی مدارس کا یہ نظام خود کو سادگی، قناعت اور ایثار کے دائروں میں محدود رکھتے ہوئے کام کرتا رہا۔

۷۰برس پیش تر ۱۹۴۷ء میں قیامِ پاکستان کے بعد اس میں دو تبدیلیاں ضروری تھیں:

ایک یہ کہ اسلام کے نام پر اور اسلامی احکام و تعلیمات کی معاشرتی عمل داری کے عزم کے ساتھ وجود میں آنے والی نئی ریاست کا نظامِ تعلیم، ۱۸۵۷ء کے بعد کے ماحول میں محصور رہنے کے بجاے اس سے قبل کے دور میں واپس چلا جاتا۔ اس طرح ریاستی، انتظامی اور عدالتی ضروریات کے ساتھ دینی و معاشرتی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مشترکہ ریاستی و قومی تعلیمی نظام تشکیل دیا جاتا۔

 دوسری تبدیلی یہ ضروری تھی کہ دینی مدارس کا یہ آزادانہ نظامِ تعلیم اپنے اہداف میں وسعت پیدا کر کے دینی و معاشرتی ضروریات کے ساتھ ساتھ قومی و ریاستی ضروریات کو بھی مقاصد میں شامل کرلیتا، مگر نہ تو ریاستی اداروں نے حالات کی تبدیلی کو قبول کر کے ایک نئے قومی نظامِ تعلیم کی طرف پیش قدمی کی اور نہ دینی مدارس نے اس تبدیلی کے تقاضوں کو محسوس کیا۔

ریاستی اداروں اور ان کی پشت پر کارفرما مقتدر قوتوں نے یہ طے کرلیا تھا کہ ’آزادی اور پاکستان‘ کے عنوان سے رُونما ہونے والی اس تبدیلی کو خلا میں ہی رکھنا ہے، اور اسے ملک کی فضا اور زمین پر اُترنے کا کوئی موقع فراہم نہیں کرنا ہے۔ اس لیے سامراجی دور کی نوآبادیاتی تعلیمی و ریاستی پالیسیوں کا تسلسل بدستور جاری رہا، اور جس میں آج تک کوئی وقفہ نہیں آیا۔ دوسری جانب خود دینی مدارس نے یہ سوچ کر انھی رستوں پر چلتے رہنے میں عافیت محسوس کی کہ جب دوسری طرف کوئی تبدیلی نہیں آرہی تو ہم خود کو اپنے پرانے ’ٹریک‘ سے ہٹا کر نئے خطرات کیوں مول لیں؟

اس کے ساتھ ہی ملکی مقتدر قوتوں اور اس کے پس پردہ عالمی مقتدر قوتوں کی یہ خواہش بھی دھیرے دھیرے بے نقاب ہوتی چلی گئی کہ ان دینی مدارس کو ان کے روایتی تعلیمی اور معاشرتی کردار سے محروم کر دیا جائے، اور ملک کے پورے کے پورے دینی تعلیمی نظام و نصاب کو ۱۸۵۷ء کے بعد کےنو آبادیاتی دور میں شروع کیے جانے والے ریاستی تعلیمی نظام کے حصار میں بند کردیا جائے۔ چنانچہ دینی مدارس کے نصاب و نظام میں تبدیلی کی آوازیں تو وقتاً فوقتاً اُٹھتی رہیں اور اس کے لیے منصوبے بھی سامنے آتے رہے ہیں، مگر ریاستی تعلیمی نظام میں دینی اور معاشرتی ضروریات کو سمونے کی کوئی تحریک نہیں اُٹھی۔

اس مرحلے میں اس سوال کا جائزہ لینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ دینی مدرسے اور اسکول و کالج کے تعلیمی نصاب و نظام میں یہ تفریق آخر پیدا کس نے کی ہے؟ اور کون اسے باقی رکھنے پر اصرار کر رہا ہے؟ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ: ’’مولوی صاحبان کی اس ضد نے یہ تفریق پیدا کی تھی اور وہی اس کو جاری رکھے ہوئے ہیں‘‘۔ حالاں کہ یہ بات مغالطہ آفرینی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ یہ تفریق، ریاستی نظامِ تعلیم میں عربی، فارسی، فقہ اور قرآن و حدیث کے مضامین کو نکال دینے کے باعث ہوئی تھی۔ دینی مدارس ریاستی نظام سے نکالے گئے مضامین کی تعلیم و تدریس کا تسلسل باقی رکھنے کے لیے میدانِ عمل میں آئے تھے، اس لیے اس تفریق کی ذمہ داری ان پر بہرحال عائد نہیں ہوتی۔ آج دینی مدارس اپنے نصاب میں مڈل اور میٹرک تک کے عصری نصاب کو شامل کرچکے ہیں اور اس سے آگے بھی معقول شرائط کے ساتھ گریجویشن تک مطابقت (adjustment) پیدا کرنے کے لیے تیار ہیں، مگر ریاستی تعلیمی نظام ابھی تک قرآن کریم کی ناظرہ تعلیم تک کی بھی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، بلکہ اپنے نصاب کے وہ حصے بتدریج خارج کرتا جارہا ہے، جن میں کسی نہ کسی حد تک دینی تعلیم کا کچھ نہ کچھ لوازمہ موجود ہے۔ اس حقیقت سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دینی و عصری تعلیم یا دوسرے لفظوں میں ’مسٹر اور مُلّا‘ کی یہ معاشرتی تفریق کس کی پیدا کردہ ہے؟ اور کون اسے مسلسل جاری رکھنے پر بضد ہے؟

بہرحال، قیامِ پاکستان کے بعد ریاستی نظامِ تعلیم اور دینی مدارس کے نظاموں سے جو توقعات وابستہ ہوئی تھیں اور ابھی تک معاشرہ اس طلب پر قائم ہے، انھیں مختصراً یوں بیان کیا جاسکتا ہے:

  •  ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے عدلیہ و انتظامیہ کے مختلف شعبوں میں ضرورت کے مطابق ایسے رجالِ کار کی فراہمی جو دینی، عصری اور فنّی تعلیم سےبہرہ ور ہوں۔
  • عالمی سطح پر جاری تہذیبی و فکری کش مکش کے ادراک سے سرشار اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے تحفظ و فروغ کے تقاضوں سے باخبر اصحابِ فکر و دانش کی تیاری اور تربیت۔
  •  اسلامی عقائد و احکام کے خلاف جاری عالمی اور ملکی میڈیا مہم اور بین الاقوامی لابنگ کے مقابلے کے لیے رجالِ کار کی تیاری اور فکری و علمی حلقوں کو منظم کرنا۔
  •  عالم اسلام کے داخلی اور فکری انتشار پر قابو پانے اور باہمی تنازعات کو حل کرنے کے لیے اداروں اور علمی حلقوں و مجلسوں کا قیام اور ان کی رہنمائی۔
  •   ملک میں نفاذِ اسلام کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی نشان دہی اور ان کے سدّباب کے لیے علمی و فکری سطح پر محنت و کاوش۔
  •  تجدد و الحاد کے فکری و علمی حلقوں کا دلیل و بُرہانِ قاطع سے سامنا وغیرہ۔

یہ ہمارے دینی فرائض، قومی تقاضے اور ملّی ضروریات کا درجہ رکھتے ہیں، جو اصلاً تو ریاستی نظامِ تعلیم کی ذمہ داری ہے، لیکن چوں کہ ہماری موجودہ مقتدرہ دورِ غلامی کا ورثہ ہے، اس لیے اس سے بظاہر کوئی توقع وابستہ نہیں کی جاسکتی اور سب کی سب اُمیدیں سمٹ کر دینی مدارس پر آکر مرکوز ہوجاتی ہیں۔ اس لیے دینی مدارس کے اکابر علماے کرام اور وفاقوں کے ذمہ داران کو ان اُمور کا جائزہ لینا چاہیے۔

یہ بات درست ہے کہ قومی اور عالمی سطح پر دینی مدارس کے آزادانہ معاشرتی کردار کو جن خطرات کا پہلے سامنا تھا، اب بھی دہ بدستور قائم ہیں۔ دینی نظام کے اس خودمختار نظام کو ’اجتماعی دھارے‘ (main stream) کے نام سے تحلیل کر دینے کی کوششیں مسلسل ہورہی ہیں۔ ان کے وسائل و ذرائع کے محدود کرنے کے منصوبے آگے بڑھ رہے ہیں اور ان کی کردارکشی میں روز بروز شدّت آرہی ہے۔ لیکن ان میں سے کوئی بات بھی ان کے لیے نئی نہیں ہے۔ ان سے نمٹنے کا حوصلہ بھی ان میں الحمدللہ آج تک موجود ہے۔ اس لیے دینی مدارس کے تمام وفاقوں سے ہماری یہ گزارش ہے کہ  وسیع تر عالمی، علاقائی اور قومی تناظر میں دینی و عصری تعلیم کے حوالے سے معاشرتی، قومی اور بین الاقوامی ضروریات کا ازسرِنو جائزہ لے کر علمی و فکری رہنمائی میں اپنا کردار ادا کریں۔

دینی مدارس کے اخراجات کا سرچشمہ ؟

دینی مدارس پر مغربی دنیا کی یلغار کئی عنوانات سے جاری رہتی ہے، جس میں ایک بڑا حربہ ان کی مالی اعانت کے سلسلے کو کاٹ دینا بھی ہے۔ ایک قومی روزنامے میں ۳ جولائی۲۰۱۵ء کو  سپریم کورٹ کے حوالے سے شائع ہونے والی خبر کا ایک حصہ ملاحظہ فرمائیے: ’’اٹارنی جنرل نے صوبائی قانون سازی ایکٹ کے سیکشن ۱۲ کو پڑھا، جس میں پاکستان بھر میں مدارس کے خلاف کاروائی کی بات کی گئی ہے، تو جسٹس جواد ایس خواجہ صاحب نے سوال کیا کہ: ’’صرف مدارس کے بارے میں آپ کیوں بات کر رہے ہیں، دوسروں کے بارے میں بھی دیکھنا ہوگا‘‘۔

ان دنوں سپریم کورٹ این جی اوز کے حوالے سے جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ ایک مقدمے کی سماعت کر رہا تھا۔

ہمارے مقتدر حلقوں کی جانب سے دینی مدارس کو بھی روایتی این جی اوز کا ہی ایک نیٹ ورک سمجھا جاتا ہے، جہاں ہزاروں دینی مدارس ملک بھر میں لاکھوں طلبہ اور طالبات کو مفت تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔اس تعلیم میں قرآن و حدیث اور دیگر دینی علوم کے ساتھ ساتھ میٹرک تک عصری تعلیم اور کئی مقامات پر کمپیوٹر ٹریننگ بھی شامل ہے۔ اصحاب ثروت اپنی زکوٰۃ و صدقات اور عطیات وغیرہ کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، جو مستحق طلبہ اور طالبات پر خرچ کی جاتی ہے۔ اس طرح یہ مدارس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی تُؤْخَذُ مِنْ أغْنِیَائِھِمْ فَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِھِمْ [ابوداؤد، کتاب الزکوٰۃ، حدیث: ۱۳۶۴، زکوٰۃ معاشرے کے مال دار حضرات سے لی جاتی ہے اور فقرا کو لوٹا دی جاتی ہے] کا عملی نمونہ پیش کر رہے ہیں۔ اکثر مدارس اپنے حسابات کا باقاعدہ آڈٹ کراتے ہیں اور اپنی سالانہ کارگزاری میں آڈٹ رپورٹ کو شامل کرتے ہیں۔ اور ویسے بھی اصحاب خیر کی بڑی تعداد علماے کرام اور دینی مدارس کے منتظمین پر اس قدر اعتماد رکھتی ہے کہ لوگ بھاری رقوم ان کے حوالے کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں۔

اس پر ایک واقعہ ذہن میں آگیا ہے جسے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ بہت عرصہ قبل یوسف کمال صاحب، ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ کے ساتھ مختلف مکاتب فکر کے علما کی میٹنگ ہوئی۔  ڈپٹی کمشنر صاحب نے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ: ’’مجھے علماے کرام کی معاشرتی حالت پر بہت ترس آتا ہے اور یہ سوچتا رہتا ہوں کہ ان کا معاشرتی مقام کیسے بلند کیا جائے، ان کی تو روزی ہی لوگوں کی جیبوں سے وابستہ ہے‘‘۔

بریلوی مکتب فکر کے بزرگ عالم دین صاحبزادہ سید فیض الحسن شاہ صاحب بھی اس مجلس میں تشریف فرما تھے اور مَیں ان کے ساتھ ہی بیٹھا تھا۔ انھوں نے ڈپٹی کمشنر صاحب کا یہ جملہ سن کر آہستگی سے فرمایا: ’’بہت زیادتی ہے‘‘۔ میں نے جوابی سرگوشی میں عرض کیا کہ: ’’حضرت دعا فرمائیں، ان شاء اللہ تعالیٰ حساب برابر ہوجائے گا‘‘۔ تھوڑی دیر میں میری گفتگو کی باری آئی تو ڈپٹی کمشنر صاحب سے مخاطب ہو کر عرض کیا کہ: ’’آپ کی ہمدردی کا شکریہ! مگر محترم، ہماری طرح آپ کی روزی بھی لوگوں کی جیب سے ہی وابستہ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آپ کی روزی انکم ٹیکس آفیسر اور تحصیل دار، سسٹم کی طاقت سے لوگوں کی جیب سے نکالتے ہیں،جب کہ ہماری روزی لوگ خود آکر پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت قبول فرمائیے اور ہمارے لیے دعا کر دیجیے‘‘۔

میٹنگ سے فارغ ہو کر ہال سے باہر نکلے تو صاحبزادہ محترمؒ نے مجھے سینے سے لگا کر بہت دُعائیں دیں۔ صاحبزادہ سید فیض الحسن شاہؒ ضلع سیالکوٹ میں آلو مہار کی نقشبندی خانقاہ کے مسند نشین تھے۔ مجلس احرار کے مرکزی عہدے دار اور امیر شریعت حضرت سیّدعطا اللہ شاہ بخاریؒ کے رفیق کار رہے۔ بعد میں بریلوی مکتب فکر کی ملک گیر جماعت ’جمعیۃ العلما پاکستان‘ کے مرکزی صدر بنے۔

دینی مدارس کے نظام پر اصحاب خیر کا یہ اعتماد ہی دراصل ان کی بقا و تسلسل کا باعث ہے اور جب تک مدارس کے منتظمین سادگی، قناعت، خلوص اور جہد مسلسل کے حوالے سے اپنا یہ اعتماد قائم رکھ سکے ان کے اس نظام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔

چند سال قبل یورپی یونین کا ایک وفد دینی مدارس کے حوالے سے مطالعاتی دورے پر پاکستان پہنچا تو گوجرانوالہ بھی آیا۔ وفد کی سربراہ ایک برطانوی خاتون نے جامعہ نصرۃ العلوم اور جامع مسجد نور کے اخراجات کے بارے میں پوچھا، تو میں نے عرض کیا کہ: ’’دونوں کے اخراجات ملا کر قریباً ایک کروڑ روپے کا تخمینہ بنتا ہے‘‘۔ انھوں نے پوچھا کہ: ’’کہاں سے آتا ہے یہ روپیہ پیسہ؟‘‘ مَیں نے کہاکہ: ’’کہیں باہر سے نہیں آتا، گوجرانوالہ شہر کے لوگ ہی پورا کرتے ہیں بلکہ لوگ خود ہی آکر دے دیتے ہیں‘‘، مگر موصوفہ کا ذہن اس بات کو قبول کرنے میں تیار دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

اَمرواقعہ ہے کہ علماے کرام اور معاشرے کا یہ باہمی تعلق اور اعتماد، مساجد و مدارس کے وسیع تر نظام کی بنیاد ہے۔ جب تک یہ اعتماد قائم ہے، مساجد و مدارس کے اس نیٹ ورک کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا، اور مدارس کے اس نظام پر سیکولر حلقوں کے مسلسل سیخ پا رہنے کی وجہ بھی یہی ہے۔

بات دُور نکل گئی۔ گفتگو ’نیشنل ایکشن پلان‘ میں دینی مدارس کو بطور خاص ہدف بنانے پر سپریم کورٹ کے معزز جج جسٹس جواد ایس خواجہ صاحب کی طرف سے تحفظات کے اظہار پر ہورہی تھی۔ اس بارے میں جن تحفظات کا اظہار ہم آغاز سے کر رہے ہیں، ہمیں خوشی ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فورم پر بھی وہ سامنے آنے لگے ہیں۔ پاکستان میں دینی مدارس اپنے نظامِ کار میں اصلاح وبہتری کے لیے ہر آن کھلے دل سے تیار ہیں، مگر اس کے ساتھ وہ، انھیں لپیٹ دینے کی کوشش اور سازش کے سامنے سینہ سپر ہیں۔

قیام پاکستان کا مقصد اور تقاضا

اس موقعے پر اس اَمرِواقعہ کی نشان دہی بھی ضروری ہے کہ قیامِ پاکستان کا بنیادی مقصد اور فلسفہ یہ تھا کہ مسلم اکثریت کے علاقے میں حکومت خود مسلمانوں کی ہونی چاہیے اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین کے مطابق ملک کا نظام تشکیل پانا چاہیے۔ یہ خواہش اور عزم اسلام کے تقاضوں میں سے ایک اساسی تقاضا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ِ مبارکہ ہے ، اور ملّت اسلامیہ کی تاریخ اور ماضی کے تسلسل کا حصہ ہے۔

خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ِ مبارکہ کے حوالے سےعرض ہے کہ مکّہ مکّرمہ سے ہجرت کے بعد جب مدینہ منورہ میں مسلمانوں کا ایک معاشرہ قائم ہوا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتماعی زندگی کو ایک نظم میں مربوط کرتےہوئے پہلا کام یہ کیا کہ حکومتی اور ریاستی نظام قائم کیا۔ جس کی بنیاد ’میثاقِ مدینہ‘ کے نام سے مختلف قبائل اور مذاہب کے لوگوں کے درمیان ایک معاہدے پر رکھی گئی، جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاکم کی حیثیت حاصل تھی۔

اس دوران ریاست مدینہ کے لوگوں کے تنازعات کے فیصلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ قبائل کے باہمی جھگڑوں کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے۔ مسلمانوں کے تنازعات و مقدمات تو اپنی جگہ تھے، مسلمانوں اور غیر مسلموں کے باہمی جھگڑوں کا مقدمہ بھی    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پیش ہوتا تھا، بلکہ غیر مسلموں کے باہمی تنازعات و مقدمات میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاکم کی حیثیت حاصل تھی۔ اس لیے اسلامی تاریخ کا آغاز    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت مبارکہ سے ہوا تھا کہ جونہی مسلم سوسائٹی کو یہ حیثیت حاصل ہوئی تو اسلامی ریاست کی تشکیل کی گئی اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔

برصغیر : پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت وغیرہ میں مسلمانوں نے ایک ہزار سال کے لگ بھگ حکومت کی ہے اور ہر دور میں اسلامی احکام و قوانین کی عمل داری کا اہتمام ہوتا رہا ہے۔ مسلمان عددی اعتبار سے اقلیت میں تھے، مگر طاقت اور تدبّر کی وجہ سے انھوں نے اتنا طویل عرصہ حکومت کی۔  جب انگریز قابض ہوئے اور دنیا میں طاقت کے بجاے ووٹ اور گنتی کے ساتھ اقتدار کے فیصلے ہونے لگے تو اس خطے کے بہت سے مسلمان دانش وروں کو خطرہ محسوس ہوا کہ ہم اقلیت میں ہیں اور ووٹ اور تعداد کے بل بوتے پر ہندو ہمیشہ کے لیے غلبہ قائم کر لیں گے، اس لیے جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے انھیں الگ ریاست کی شکل دے کر مسلمانوں کے اقتدار اور اسلامی تہذیب کے تحفظ کا اہتمام ضروری ہے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے قیام پاکستان کی تحریک چلائی گئی۔  قائداعظم محمد علی جناح مرحوم کے ساتھ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ ، شیخ الاسلام       علامہ شبیراحمد عثمانیؒ ، مولانا ظفر احمد عثمانیؒ ، مولانا عبد الحامد بدایونیؒ ، پیر صاحب آف مانکی شریفؒ ، اور مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹیؒ جیسے اکابر علماے کرام اور مشائخ عظام نے تحریک پاکستان کا ساتھ دے کر اسے کامیاب بنایا اور ۱۹۴۷ء میں ’پاکستان‘ کے نام سے ایک اسلامی ریاست وجود میں آگئی۔

تاہم،قیامِ پاکستان کو ۷۰ سال گزر جانے کے بعد ابھی تک اس کا مقصدِ وجود، تشنہ تکمیل ہے۔ یہی نظر آتا ہے کہ کوئی حکومت بھی پاکستان میں نفاذ اسلام کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے ملک فکری اور اخلاقی انارکی کا شکار ہے۔ اس لیے ہم سب کو اس بات کا عہد کرنا چاہیے کہ ہم پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک اسلامی ریاست بنا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کو قائم کریں گے اور قیامِ پاکستان کے مقصد کی تکمیل کرتے ہوئے ملک کے باشندوں کو امن و سلامتی کی حقیقی منزل سے ہم کنار کریں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔