ڈاکٹر سعید مراد


ترجمہ: حافظ محمد ابراہیم

انسان تواضع اختیارکیے بغیرعروج،بلندی،قدرومنزلت حاصل نہیں کرسکتا، اور اس کے بغیر انسان حقیقی معنی میں انسان مطلوب نہیںبن سکتا۔ یہ اخلاقی قدر جو انسان کے دل سے پھوٹتی ہے، اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جھکانے سے حاصل ہوتی ہے۔عجز انسان کوہمیشہ اللہ کے ارادے کے تابع بنادیتا ہے۔ اللہ کی تابع داری کرنے والا انسان یہ جان لیتا ہے،کہ اس انکسار نے اللہ کی نظر میںاس کی شان وعزت بڑھادی ہے۔یہ عجز کا ایک پہلو ہے۔اس کا دوسرا پہلو یہ ہے جب انسان کو یہ بات معلوم ہے کہ انسان تمام مخلوق میں سب سے زیادہ اہم، عظیم اور بلند ہے ،تواس کے ساتھ پیارومحبت،شفقت ورحمت کا معاملہ کرے۔اس پراپنی بڑائی نہ جتائے،اور نہ اس کو حقارت کی   نظر سے دیکھے ،اور نہ اپنے آپ کوایک لمحے کے لیے دوسروں سے بہتر تصور کرے۔

’تورات‘ میں تواضع کے متعلق واضح ہدایات ہیں۔ انسان کے احترام کو لازم قرار دیا ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی صورت اور مثال پر پیدا کیا۔اس کی پیدایش میں ایسی علامت ہے، جو اسے یاد دلاتی ہے کہ وہ کس شے سے پیداہوا، اس کی انتہا کیاہے اوروہ کس طرف جائے گا: ’’اپنی پیشانی کا پسینہ بہا کر تو اپنا روز گار کماتا ہے،یہاں تک کہ توزمین کی طرف لوٹ جائے گا۔ مٹی سے تو پیدا ہوامٹی کی طرف لوٹے گا‘‘۔(تکوین، باب ۳،آیت۱۹)

اس میںاس انسان کے لیے تنبیہ ہے، جو اپنے جیسے لوگوں پر بڑائی کی کوشش کرتا ہے۔ اسے ڈرایاگیا کہ اس کی ابتدابھی مٹی سے ہے اور اس کی انتہا بھی مٹی ہے: ’’اے انسان! اللہ تعالیٰ کی تیرے ساتھ محبت کا تقاضا یہ ہے، کہ تو ہمیشہ اس ادب و احترام کا دامن تھامے رکھے،جس کاحکم اللہ کی طرف سے ہے، تاکہ توتربیت اور تہذیب کا راستہ سیکھ سکے‘‘۔

جو عزت تلاش کرتا ہے وہ تواضع کے بغیر عزت حاصل نہیں کرسکتا۔عزت نہ تو زیادہ مال میں ہے اور نہ اقتدار اور بادشاہت ہی میں۔ کہا گیا ہے: ’’امیر کی دولت اس کے شہر کا قلعہ ہے اور وہ اس کے خیال میں بلند عمارت ہے،لیکن عاجزی وانکساری اس کا مینار ہے۔ عزت کے حصول سے پہلے تواضع اختیار کرنا ضروری ہے‘‘(امثال، باب ۱۸، آیت۱۱-۱۲)۔ بہت سے لوگ مال حاصل کرنے کے لیے دوڑ دھوپ کرتے ہیں۔یہ سمجھتے ہیں کہ مال و دولت حقیقی امیری ہے، جو کہ انسان کو دوسرے لوگوںسے ممتاز کرتی ہے۔ وہ یہ بھی خیال کرتے ہیںکہ امیر لوگ غربا سے زیادہ عزت دار ہیں۔ ان کا یہ خیال غلط ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ اللہ کی نظر میں سب برابر ہیں،کیوں کہ وہ سب کا خالق ہے :’’امیر و غریب دونوں برابر ہیں، رب دونوں کو پیدا کرنے والا ہے۔ عقل مندآدمی شر کو دیکھتاہے تواس سے بچتا ہے، جب کہ نادان برائی کی طرف جاتا ہے اور سزا پاتا ہے۔تواضع کااجر اور رب کا خوف حقیقی امیری ،عزت اور زندگی ہے‘‘۔(الامثال، باب ۴، آیت ۲۲)

یہود کے ہاں چھے کام رب کی ناراضی کا سبب ہیں اور سات چیزیں مکروہ ہیں:  ۱- غلط جگہ پڑنے والی نگاہیں،جھوٹی زبان،خون بہانے والے ہاتھ،برائی کا حکم دینے والادل،گناہ کی طرف اٹھنے والے قدم، جھوٹی گواہی،لوگوںکے درمیان لڑائی کا بیج بونے والا آدمی(امثال، باب ۶،آیت ۶-۱۹)۔جو نجات چاہتاہے اس کے لیے عاجزی اختیارکرنا اور اللہ کے سامنے جھکنا لازم ہے۔

اللہ تعالیٰ ان متواضعین کے ساتھ محبت کی بشارت دیتا ہے،جن کا ایمان مضبوط اور ارادے سچے ہیں۔انھوں نے حق کوپہچانا اور اس پر سختی سے عمل کیا، جس سے اللہ کی رضا کا حصول ان کے لیے ممکن ہے۔اللہ پاک صرف پاکیزہ اعمال قبول کرتا ہے۔وہ پاکیزہ روح کی قربانی قبول کرتا ہے، وہ عاجز اور شکستہ دل انسان کی تذلیل نہیں کرتا۔ (مزمور، باب۵۱،آیت ۱۷)

متواضعین کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے شمارا نعامات ہیں۔ بزرگ و برتر ذات فرماتی ہے:’’ میںبلند اور پاکیزہ جگہ رہتا ہوں۔میں عاجز اور متواضع لوگوں کے ساتھ ہوں تا کہ میں عاجز لوگوں کو روحانی زندگی دوں، اور ٹوٹے ہوئے دلوں کو خوش کروں‘‘۔ (اشعیا، باب ۵۷، آیت۱۵)

اللہ تعالیٰ نے جس طرح عاجز اور نیک لوگوں کے لیے اپنی محبت کا اعلان کیا،اسی طرح اس نے متکبرین،خود پسند لوگوں کے لیے ناراضی کا اظہار فرمایا: ’’ عاجز اور متکبرین کے درمیان واضح فرق یہ ہے ، کہ متکبر انسان ذلیل ہوتا ہے، جب کہ متواضع انسان عزت حاصل کرتا ہے‘‘ (امثال، باب ۲۹، آیت ۲۳)۔ تکبر برے لوگوں کا راستہ ہے ،تواضع سچے، نیک لوگوں کا راستہ ہے۔ اللہ عاجزی کرنے والوںکواپنی خوشنودی سے نوازتا ہے۔ کتاب مقدس میں ہے: ’’رب کی لعنت برے لوگوںکے گھر پر برستی ہے لیکن وہ نیک کے گھر میںبرکت پیدا کرتا ہے۔ وہ متکبر مذاق اڑانے والوں کا مذاق اڑاتا ہے اور متواضعین پراپنی رضا کی موسلا دھار بارش برساتا ہے‘‘۔(امثال، باب ۳،آیت۲۳-۲۴)

تکبربربادی اورذلت لاتا ہے،جب کہ عاجزی انسان کو بلند کرتی ہے۔ کتاب مقدس میں واضح الفاظ میں ذکر ہے :’’ہلاکت سے پہلے بڑائی ہے،زوال سے پہلے نفس کی خود پسندی ہے، دانائوںکے سامنے نفس جھکانا،متکبرین کے ساتھ مال غنیمت تقسیم کرنے سے زیادہ بہتر ہے‘‘ (امثال، باب ۱۶،آیت ۱۸-۱۹)۔ ’’تین کاموں میں غورکرو کسی بڑی غلطی میں مبتلا نہیں ہوگے: ۱- تو کہاں سے آیا ہے؟ ۲- تو کہاں جائے گا؟ ۳- توکس عظیم ہستی کے سامنے حساب وکتاب کے لیے پیش ہوگا؟‘‘۔ (آباء، آیت ۲۹ )

’’اگر تو نے ان سوالوںکا جواب پہچان لیا تو یقینا تو نے بھلائی پالی۔بہترین چیز عاجزی، فنائیت اور تواضع ہے،توان کو اختیار کرتاکہ ہلاکت سے بچ جائے۔دانا کون ہے؟جو تمام لوگوں سے سیکھے۔طاقت ور کون ہے؟جو اپنی خواہشات کو کنٹرول کرے ۔امیر کون ہے؟جو اپنے حصے پر قناعت کرے۔شریف کون ہے؟جو اپنے ہم جنسوں کا احترام کرے‘‘۔ (آباء، باب ۴۶،آیت ۴۹)

 عیسائیت میں محبت کو اہمیت حاصل ہے ،اور یہ بات واضح ہے کہ تواضع محبت کی صورتوں میں سے ایک ایسی صورت ہے کہ اس کے بغیر انسانوں کے درمیان تعلق اور بھائی چارے کی فضا قائم نہیںکی جاسکتی۔ انجیل میں ہے: ’’اے مصیبت زدہ اور بوجھ اٹھانے والو میری طرف آجائو،میں تمھیں آرام دوں گا۔ میرا دامن پکڑو،مجھ سے سیکھو کیوںکہ میں سنجیدہ،خاموش طبع،پُرسکون اور متواضع القلب ہوں، تم اپنی خواہشات پائوگے‘‘۔ (متی، باب۱۱،آیت ۲۸-۲۹ )

 جو انسان نیکی اور دانائی سیکھنا چاہتا ہے، رفعت وعزت کا متلاشی ہے، تواس کو چاہیے کہ  وہ خادم بنے مخدوم نہیں،غلام بنے آقا نہیں۔ ایک بار یسوع(عیسٰیؑ)نے لوگوں کو بلایا اور فرمایا:  ’’تم جانتے ہو کہ امتوں کے سردار ان کی قیادت کرتے تھے اور بڑے لوگ ان پر غلبہ چاہتے تھے۔ تم میں ایسے لوگ نہیں ہونے چاہییں بلکہ تم میں سے جو بڑا بننا چاہتا ہے،وہ خادم بنے جو تم میں بہتر بننا چاہتا ہے وہ غلام بنے‘‘ (متی، باب ۲۰، آیت ۲۰-۲۱ )۔حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ تو ایک زمانے تک ان الفاظ کی طرف کان لگا جو تیرے سامنے بزرگی کے راستے کھولتے ہیں،جس کی حد سیّدناعیسٰیؑ نے مقررکی تھی۔ جب آپ’ کفر ناحوم‘(بستی)میں آئے تو ان سے سوال کیا،تم راستوں پر آپس میں بات چیت کیوں کرتے ہو؟ وہ خاموش ہوئے،کیوںکہ راستوں میں ان کے کچھ لوگ اپنے سے افضل لوگوں سے لڑتے تھے۔ آپؑ بیٹھ گئے اور ان کے بارہ لوگوں کو بلایا،ان سے کہا: ’’اگر تم میں سے کوئی مقام چاہتا ہے تو وہ سب کا خادم بنے‘‘ (مرقس، باب۹، آیت ۳۴-۳۵ )۔ ایک اور مقام پر فرمایا:’’اگر تم میں سے کوئی عاجزی کے راستے پر چلنا چاہتا ہے،تو وہ خوشامد اور غصہ سے بچے۔ وہ ہر نیکی کو بھول جائے،اپنے آپ کو دوسروں سے کم تر،حقیر اور سب سے زیادہ خطاکار سمجھے‘‘۔

قرآن کریم نے’’ عقیدہ ایمان،، کی بنیاد اس بات پررکھی کہ، عظمت ،بڑائی اور جلال صرف اور صرف اللہ کی ذات کے لیے ہے،اور یہ کہ تمام مخلوق اللہ کی غلام ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’وہ اللہ پوشیدہ اور ظاہر ہر چیز کو جانتا ہے جوکہ بڑا اور بلند ہے‘‘۔ (الرعد۱۳: ۹ )

قرآن مجید کی واضح آیتیں تمام انسانوں سے تکبر کی نفی کرتیں ہیں،کیوں کہ یہ صفت اللہ کے ساتھ خاص ہے۔ قرآن مجیدکی تعلیمات یہ ہیں کہ،ہر انسان اللہ کی بندگی کرے کیوںکہ ہر ایک اس کا غلام ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ ہر وہ مخلوق ہے جو آسمانوں اور زمینوںمیں ہے رحمن کی غلام بن کر آئے گی‘‘۔ ( مریم ۱۹: ۹۳ )

یہاں تک کہ رسولِؐ اعظم اور نبی محترم بھی اللہ کے بندے ہیں۔رب کائنات نے قرآن مجید میں فرمایا:’’اللہ وہ پاک ذات ہے جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی سیر کرائی۔ وہ مسجد اقصیٰ کہ جس کے ماحول کو ہم نے بابرکت بنایاتاکہ ہم انھیں اپنی نشانیاں دکھائیں۔  بلاشبہہ اللہ خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل ۱۷: ۱)

سورۃ الفرقان میں ارشاد ہے:’’نہایت متبرک ہے وہ ہستی جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائے‘‘(فرقان۲۵:۱ )۔اللہ تعالیٰ نے کسی بھی انسان کوبڑائی کی صفت نہیں دی بلکہ اپنی بلند ذات کوبڑائی کی صفت کے ساتھ خاص فرمایا ہے۔  اللہ نے فرمایا:’’اللہ کے لیے ان دونوں(آسمان وزمین)کی حفاظت کوئی مشکل نہیں،وہ بس ایک بزرگ وبرتر ہستی ہے‘‘ (البقرہ۲: ۲۵۵ )۔ قرآن مجید نے تواضع کی اعلیٰ اخلاقی تعلیمات کو ذکر   کیا ہے، اور یہ بات بیان کہ بڑائی ،بلندی اور عظمت اللہ کے لیے خاص ہے اور کسی کے لیے نہیں۔ انسان کو جو چیز تواضع سکھاتی اور تکبر سے بچاتی ہے، وہ یہ ہے کہ انسان اپنی پیدایش کی حقیقت کو پہچانے۔ قرآن مجیدمیںہے :’’انسا ن غور کرے اسے کس چیزسے پیداکیاگیا،اسے اُچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا،جو کہ پیٹھ اور چھاتی کے درمیان سے نکلتا ہے‘‘۔ (الطارق۸۶:۵-۶ )

پھر ارشاد ربانی ہے:’’ہم نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا،تاکہ ہم اس کا امتحان لیں اور اس غرض ومقصد کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا‘‘ (الدھر۷۶:۲)۔ ایک اور مقام پر اللہ رب العزت کا فرمان ہے:’’ کیا انسان نے غوروفکر نہیں کیاکہ بلاشبہہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیااچانک وہ صریح جھگڑا لو بن گیا‘‘ (یٰٓس۳۶: ۷۷ )۔جس نے غوروفکر، سوچ وبچار کی اس نے جان لیاکہ تکبر انسانی پیدایش کے متعارض ہے۔ جب انسان کے دل میں دوسروںپر تکبرکاخیال پیداہوتو وہ اپنی اس پیدایش کو یاد کرے۔

یہ اہم حقیقت ہے جو انسان کوعاجزی پرآمادہ کرتی ہے۔کئی احادیث مبارکہ بھی عاجزی پر آمادہ کرتیں ہیں۔حضرت ابو سعیدؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو اللہ کے لیے ایک درجہ عاجزی اختیارکرتا ہے اللہ اسے ایک درجہ بلند کرتا ہے،یہاں تک کہ اسے    اعلیٰ علیین میں جگہ دیتا ہے۔اور جو ایک درجہ تکبر کرتا ہے اللہ اسے ایک درجہ گراتاہے،یہاں تک کہ اسے سب سے نچلے درجے میں پھینک دیتا ہے‘‘۔ (کنز العمال)

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل تواضع کی تعلیم دیتے تھے۔ آپ چاہتے تھے کہ لوگوں کا ہاتھ پکڑ کرانھیںاللہ کی خوش نودی کی طرف لے جائیں۔حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:’’ جو اللہ کے لیے تواضع اختیار کرتاہے اللہ اس کے مرتبے کو بلند کرتا ہے۔ وہ اپنے نفس میں چھوٹا ہوتا ہے لیکن لوگوں کی نظروں میں عظیم ہوتا ہے۔ اور جو متکبر ہوتا ہے اللہ اس کے مرتبے کو پست کردیتا ہے۔ وہ اپنی نظروں میں بڑاہوتاہے، جب کہ لوگوںکی نگاہوںمیں ذلیل ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ لوگوں کے ہاں کتے اور خنزیر سے بھی زیادہ ذلیل ہوتا ہے‘‘۔ (کنز العمال)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے عاجزی و انکساری کی بلند مثال پیش کی۔ حضرت قیس بن ابی حازمؓ فرماتے ہیں،کہ ایک آدمی حضورؐ کے پاس آیا۔جب آپ کھڑے ہوئے تو وہ کانپنے لگا۔آپ ؐنے فرمایا:’’پُرسکون رہو میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں بلکہ ایسی قریشی عورت کا بیٹاہوںجو خشک روٹی کے ٹکڑے کھایاکرتی تھی‘‘۔ (مستدرک حاکم)

حضرت ابن ابی اوفیؓ فرماتے ہیں: ’’ حضورر صلی اللہ علیہ وسلم بیوہ اور مسکین کے ساتھ چلنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے ساتھ جاتے اور ان کی ضرورت پوری کرتے‘‘۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں،میں نے کہا: اے اللہ کے رسول میری جان آپ پر قربان ہو! آپ ٹیک لگا کر کھائیں،یہ کھانے کاآسان طریقہ ہے ،توحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: عائشہؓ! میں ٹیک لگا کر نہیں کھائوں گا بلکہ اس طرح کھائوں گاجس طرح ایک غلام کھاتا ہے،اور غلام کی طرح بیٹھوں گا‘‘۔(بغوی شرح السنۃ)

حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے کہ:’’ مسجد نبویؐ کی تعمیرکے وقت تمام صحابہ کرامؓ اینٹیں اُٹھارہے تھے اور آپؐ بھی ایک عام مزدور کی طرح کام کررہے تھے۔ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا،آپ کے پیٹ پرپتھربندھا ہوا ہے۔ میں نے خیال کیاکہ اس پتھرنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مشقت میں ڈال دیا ہے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! یہ پتھر مجھے دے دیں۔آپؐ نے فرمایا: اے ابوہریرہؓ! اس کے علاوہ کوئی اور پتھرلو،اورحقیقی زندگی توآخرت کی زندگی ہے‘‘۔

حضوؐر کی زندگی انسانیت کے لیے نمونہ ہے۔آپؐ اللہ کے ہاں ساری مخلوق سے افضل ہیں۔اعلیٰ اخلاق سے مزین ہیں۔آپؐ میں اعلیٰ درجے کی تواضع بھی ہے۔یہ کیسے نہ ہو، جب کہ  اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے:’’بلاشبہہ آپؐ اخلاق کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہیں (القلم۶۸:۴ )۔ دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’آپ اپنے بازئوںکو مومنین کے لیے جھکا دیں۔ ان کے ساتھ عاجزی سے پیش آئیں‘‘ (الحجر۱۵:۸۸)۔قرآن کریم نے تکبر، خودپسندی اور غرور کی مذمت کی: ’’تم زمین پراکڑکر نہ چلو، نہ تم زمین پھاڑ سکتے ہو اور نہ ہی پہاڑوں کی بلندیوںکو پہنچ سکتے ہو۔ ان اُمور میں سے ہر ایک کام تیرے رب کے نزدیک ناپسندیدہ ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل ۱۷: ۳۷-۳۸)

آپ ؐنے تکبرسے منع کیا۔حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ آپؐنے فرمایا:’’ تکبر سے بچو،بندہ ہمیشہ تکبرکرتا ہے، یہاں تک کہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں کہ اس بندے کا نام متکبرین میں  لکھ دو‘‘ (کنز العمال)۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ لوگوںسے بے رخی اختیار نہ کرو اور زمین پر اکڑ کر نہ چلو۔بے شک اللہ ہر متکبر، مغرور انسان کو پسند نہیںکرتا، اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرواپنی آواز پست کرو،بے شک آوازوںمیں سب سے بُری آواز گدھوںکی ہے‘‘۔ (لقمان ۳۱:۱۸-۱۹)

ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:’’جو آدمی اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اوراپنی چال میں تکبرکرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کو اس حال میںملے گاکہ وہ اس پرغصے ہوگا‘‘۔ (کنز العمال)

قرآن کریم لوگوںکو اس بات سے آگاہ کرتا ہے کہ زمین میں تکبر کا انجام ناکامی ہے۔   اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’میںاپنی نشانیوںسے ان لوگوںکو پھیردوں گاجو ناحق بڑے بنتے ہیں۔ اگروہ تمام نشانیاں دیکھ لیں، تب بھی وہ ان پرایمان نہیںلائیں گے۔اگروہ ہدایت کاراستہ دیکھ لیں تواس پرنہیں چلیں گے،اور اگر ٹیڑھا راستہ نظرآئے تواس پر چل پڑیں گے۔ یہ اس لیے کہ انھوںنے ہماری نشانیاں جھٹلائیں اور ان سے بے پروائی کرتے رہے‘‘۔ (الاعراف ۷:۱۴۶)

اللہ تعالیٰ متکبرین پرسخت غصے کااظہار کرتاہے۔انھیںاپنے عذاب سے ڈراتا ہے۔ فرمایا: ’’یقینا اللہ تعالیٰ جانتا ہے جسے وہ چھپاتے ہیںیا ظاہر کرتے ہیں،بلاشبہہ اللہ تکبر کرنے والوںسے محبت نہیں کرتا‘‘ (النحل۱۶:۲۳)۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’کیا جہنم متکبرین کاٹھکانہ نہیں؟ (الزمر۳۹: ۶۰)۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ آج کے دن تمھیںرسوا کن عذاب کا بدلہ دیا جائے گا، زمین میں تمھارے ناحق تکبراور تمھاری نافرمانیوںکے سبب‘‘ (الاحقاف۴۶:۲۰)۔یہ تمام سزائیں اس لیے ہیںکہ وہ صفت بڑائی میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ جھگڑتے ہیں۔حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’بڑائی میری چادرہے،عظمت میری ازارہے۔ جس نے میرے ساتھ ان صفات میں جھگڑاکیا،میں اسے آگ میں ڈال دوںگا‘‘۔ (کنز العمال)