’ ایمان ویقین ‘ اقبال کا سب سے پہلا مربی اور مرشد ہے اور یہی اس کی طاقت وقوت اور حکمت وفراست کا منبع اور سرچشمہ ہے۔ لیکن اقبال کا وہ یقین وایمان اس خشک جامد ایمان کی طرح نہیں جو بے جان تصدیق یا محض جامد عقیدہ ہے، بلکہ اقبال کا ’یقین ‘ عقیدۂ ومحبت کا ایک ایسا حسین امتزاج ہے جو اس کے قلب وجدان ، اس کی عقل وفکر ، اس کے ارادہ وتصرف ، اس کی دوستی ودشمنی ، غرض یہ کہ اس کی ساری زندگی پر چھایا ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال اسلام اور اس کے پیغام کے بارے میں نہایت شدید الایمان تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی محبت ، شغف اور ان کا اخلاص انتہا درجے کا تھا۔ اس لیے ان کے نزدیک اسلام ہی ایک ایسا زندۂ جاوید دین ہے کہ اس کے بغیر انسانیت فلاح وسعادت کے بامِ عروج تک پہنچ ہی نہیں سکتی ۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم رُشد وہدایت کے آخری مینار ، نبوّت ورسالت کے خاتم اور مولاے کُل ہیں ؎
وہ دانائے سُبل ختُم الرّسل، مولاے کُل جس نے
غُبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سِینا
اس دورِ مادّیت اور مغربی تہذیب وتمدن کی ظاہری چمک دمک سے اقبال کی آنکھیں خیرہ نہ ہو سکیں ۔ حالاںکہ اقبال نے جلوۂ دانشِ فرنگ میں زندگی کے کئی ایک طویل ایام گزارے ۔ اس کی وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اقبال کی والہانہ محبت ، جذبۂ عشق اور روحانی اتصال تھا۔ بلاشبہہ ایک حُبِ صادق اور عشق حقیقی ہی قلب ونظر کے لیے اچھا محافظ اور مشعلِ راہ بن سکتا ہے ؎
خِیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ!
سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
_____
عذابِ دانشِ حاضر سے باخبر ہوں مَیں
کہ مَیں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل ؑ
_____
رہے ہیں، اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک
مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے یدِبیضا
_____
عجب کیا گر مہ و پرویں مرے نخچیر ہو جائیں
کہ برفتر اکِ صاحب دولتے بستم سرِ خُود را
علامہ اقبال نے اپنی کتاب اسرارِ خودی میں ملّت اسلامیہ کی زندگی کی بنیادوں اور ان ستونوں کے ذکر کے سلسلے میں جن پر تاحیات ملّت اسلامیہ موقوف ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے روحانی تعلق ، دائمی اتصال اور اپنی فدا کارانہ محبت کا بھی ذکر کیا ۔ جب وہ اللہ کے نبیؐ کا تذکرہ کرتے ہیں تو ان کا شعری وجدان جوش مارنے لگتا ہے اور مدحیہ اشعار اُبلنے لگتے ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے محبت وعقیدت کے چشمے پھوٹ پڑے ہوں۔ اس سلسلے میں چند اشعار پیش خدمت ہیں جن سے اقبال کے محبت بھرے جذبات کا قدرے اندازہ ہو گا:
در دلِ مسلم مقامِ مصطفےٰؐ است
آبروے ما زنام مصطفےٰؐ است
بوریا ممنونِ خوابِ راحتش
تاجِ کسریٰ زیر پاے اُمتش
درشبستانِ حِرا خلوت گزید
قوم و آئین و حکومت آفرید
ماند شبہا چشمِ او محرومِ نوم
تا بہ تختِ خسروی خوابید قوم
وقتِ ہیجا تیغِ اَو آہن گداز
دیدۂ او اشکبار اندر نماز
جوں جوں زندگی کے دن گزرتے گئے، اقبال کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ محبت و اُلفت بڑھتی ہی گئی۔ یہاں تک کہ آخری عمر میں جب بھی ان کی مجلس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر آتا یا مدینہ منورہ کا تذکرہ ہوتا، تو اقبال بے قرار ہو جاتے ، آنکھیں بھر آتیں، یہاں تک کہ آنسو رواں ہو جاتے ۔ یہی وہ گہری محبت تھی جو ان کی زبان سے الہامی شعروں کو جاری کر دیتی تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں ؎
مکن رسوا حضورِ خواجہؐ ما را
حسابِ من ز چشمِ او نہاں گیر
(اس دن مجھے میرے آقاؐ کے سامنے رُسوا نہ کرنا، میرا حساب لینا، مگر آپؐ کی نگاہ سے پوشیدہ۔)
محبت وعقیدت کا یہ شعر کتنا اچھا مظہر ہے۔
دراصل علامہ اقبال کا یہی وہ ایمان کامل اور حُبّ ِ صادق تھی جس نے اقبال کے کلام میں جوش ، یہ ولولہ، یہ سوز وگداز پیدا کر دیا۔ اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو یہ حقیقت عیاں ہو جائے گی کہ دراصل رقیق شعر ، عمیق فکر ، روشن حکمت ، بلند معنویت ، نمایاں شجاعت ، نادر شخصیت ، اور عبقریت کا حقیقی منبع وسرچشمہ محبت ویقین ہی ہے ۔ اور تاریخِ عالم میں جو کچھ بھی انسانی کمالات یا دائمی آثار ونشانات نظر آتے ہیں وہ سب کے سب اسی محبت ویقین کے مرحونِ منّت ہیں۔ اگر کوئی شخصیت یقین ومحبت کے جذبے سے خالی ہو تو پھر وہ صرف گوشت پوست کی صورت ہے۔ اور اگر پوری امّت اس سے خالی ہے تو پھر اس کی وقعت بکریوں اور بھیڑوں کے گلے سے زیادہ نہیں۔ اگر اسی طرح کسی کلام میں یقین ومحبت کی روح کار فرما نہیں ہے تو پھر وہ ایک مقفٰی اور موزوں کلام ہوسکتا ہے لیکن ایک زندہ جاوید کلام نہیں بن سکتا۔ اور جب کوئی کتاب اس روح سے خالی ہو تو اس کتاب کی حیثیت مجموعہ اوراق سے زیادہ نہیں ہو گی۔اسی طرح اگر کسی عبادت میں محبت ویقین کا جذبہ شامل نہیں ہے تو پھر ایسی عبادت بیکار ہے اور وہ ایک بے روح ڈھانچا ہے۔ غرض یہ کہ پوری زندگی اگر محبت ویقین کے جذبے سے خالی ہے تو پھر وہ زندگی، زندگی نہیں، بلکہ موت ہے۔ اورپھر ایسی زندگی کیا ؟ جس میں طبیعتیں مردہ وافسردہ ہوں، نظم ونثر کے سر چشمے خشک ہوں، اور زندگی کے شعلے بجھ چکے ہوں۔ ایسی حالت میں یقین کامل اور حُبّ ِ صادق ہی حیاتِ انسانی میں جلا پیدا کرتی ہے اور انسانی زندگی نُور ورنگ سے معمور ہو جاتی ہے ۔ پھر شُستہ پُر سوز و پُر درد ، روح نواز اور جاں بخش کلام سننے میں آتے ہیں۔ خارقِ عادت شجاعت وقوت دیکھنے میں آتی ہے اور علم وادب کے نقوش بھی زندۂ جاوید بن جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہی محبت اگر پانی ، مٹی اور اینٹ ، پتھر میں داخل ہو جائے تو اس کو بھی زندۂ جاوید بنا دیتی ہے۔ ہمارے سامنے اس کی روشن مثال مسجد ِ قرطبہ، قصرِ زہرا اور تاج محل ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ محبت ویقین کے بغیر ادب وفن مُردہ وافسردہ و ناتمام ہیں ؎
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سوداے خام خونِ جگر کے بغیر
بڑی غلط فہمی میں وہ لوگ مبتلا ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اہل علم حضرات اپنی قوتِ علم، کثرتِ معلومات اور ذکاوت وذہانت کی وجہ سے ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے ہیں، یا ایک دوسرے پر فضیلت رکھتے ہیں۔ اسی طرح شعرا کو ان کی فطری قوتِ شاعری ، لفظوں کا حُسنِ انتخاب، معانی کی بلاغت ، انھیں ایک دوسرے سے ممتاز کرتی ہے، اور مصلحینِ وقت اور قائدین ملت کی بلندی وپستی موقوف ہے اُن کی ذہانت کی تیزی ، خطابت کی بلندی ، سیاسی سوجھ بوجھ اور حکمتِ عملی پر! حالاںکہ ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ا ن میں سے ہر ایک کی فضیلت وبلندی کا دارو مدار محبت واخلا ص پر ہے۔ ان کا حُبّ ِصادق اور مقصد سے اخلاصِ کامل ہی ان کی عظمت و بزرگی کا سبب ہے۔ اس لیے کہ اس کا مقصد وموضوع اور غرض و غایت اس کی روح میں سرایت کرجاتی ہے، قلب میں جاگزیں ہو جاتی ہے اور فکروعمل پر چھا جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی ذاتی خواہش مغلوب اور شخصیت گھٹ جاتی ہے۔ اب وہ جب کوئی بات کرتا ہے تو مقصد کی زبان سے کرتا ہے، جب کچھ لکھتا ہے تو مقصد کے قلم سے لکھتا ہے۔ غرض کہ اس کے فکرو خیال ، دل ودماغ اور اس کی پوری زندگی پر اس کا مقصد چھا جاتا ہے۔
ایک عظیم گناہ جو اس جدید تمدن کا پیدا کردہ ہے وہ ہے مادہ پرستی ، اور پھر اس سے نفع پسندی، جنسی محبت اور نفسانی خواہش۔ جو درحقیقت جدید عصری مادی تعلیم کا ثمرہ ہے جس نے ہماری نئی نسلوں کو تباہ کر رکھا ہے۔ اور آج حال یہ ہے کہ ان کے قلوب و ایمان کی حرارت حُبّ ِ صادق کی تپش اور یقین کے سوز سے خالی ہیں اور یہ عالم نو ایک ایسی متحرک شے بن کر رہ گیا ہے کہ جس میں نہ کوئی زندگی ہے، نہ کوئی روح، نہ شعور ووجدان ہے، نہ مسّرت وغم کا احساس ! اس کی مثال اس جامد شے کی طرح ہے جو کسی جابرو قاہر شخص کے دستِ تصرف میں ہو، وہ جس طرح چاہے اسے حرکت دے اور استعمال کرے۔
جب آپ اقبال کے کلام کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اقبال کا کلام ہمارے جانے پہچانے شعرا سے بہت کچھ مختلف ہے۔ اقبال کا کلام ہمارے شعور و احساس ، قلب ووجدان اور اعصاب میں حرکت وحرارت ، سوز وگداز اور تپش پیدا کرتا ہے۔ پھر ایک ایسا شعلۂ جو الہ بن کر بھڑک اٹھتا ہے جس کی گرمی سے مادیت کی زنجیریں پگھل جاتی ہیں، فاسد معاشرہ اور باطل قدروں کے ڈھیر جل کر فنا ہو جاتے ہیں۔ جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر کس قدر طاقت ور ایمان، پُردرد و پُرسوز سینہ اور بے چین روح رکھتا ہے ۔ قابلِ صد ستایش ہے وہ دوسرا مدرسہ جس نے اتنی اچھی تربیت کی اور ایسی قابلِ قدر شخصیت تیار کی۔
اقبال کی شخصیت کو بنانے والا دوسرا عنصر وہ ہے جو آج ہر مسلمان گھرانے میں موجود ہے، مگر افسوس کہ آج خود مسلمان اس کی روشنی سے محروم ، اس کے علم وحکمت سے بے بہرہ ہیں۔ میری مراد اس سے قرآن مجید ہے۔ اقبال کی زندگی پر یہ عظیم کتاب جس قدر اثرانداز ہوئی ہے، اتنا نہ وہ کسی شخصیت سے متاثر ہوئے ہیں اور نہ کسی کتاب نے ان پر ایسا اثرڈالا ہے۔ اقبال کا ایمان چوںکہ ’نومسلم ‘ کا سا ہے، خاندانی وراثت کے طور پر انھیں نہیں ملا ہے، اس لیے ان کے اندر نسلی مسلمانوں کے مقابلے میں قرآن سے شغف، تعلق اور شعور واحساس کے ساتھ مطالعے کا ذوق بہت زیادہ ہے۔ اقبال کا قرآن پڑھنا عام لوگوں کے پڑھنے سے بہت ہی مختلف رہا ہے، جیسا کہ خود اقبال نے اپنے قرآن مجید پڑھنے کے سلسلے میں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ان کایہ ہمیشہ کا دستور تھا کہ روزانہ بعدنمازِ صبح قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ اقبال کے والد جب انھیں دیکھتے تو فرماتے، کیا کررہے ہو ؟ اقبال جواب دیتے ، قرآن پڑھ رہا ہوں ۔ کچھ دنوں تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ آخر ایک دن اقبال نے پوچھا: ابّا جان ! آپ مجھ سے روزانہ پوچھتے ہیں اور میں ایک ہی جواب دیتا ہوں اور پھر آپ خاموش چلے جاتے ہیں ، تو انھوں نے جواب دیا کہ میں تم سے کہنا چاہتا ہوں کہ تم قرآن اس طرح پڑھا کرو کہ جیسے قرآن اسی وقت تم پر نازل ہو رہا ہے۔ اس کے بعد سے اقبال نے قرآن برابر سمجھ کر پڑھنا شروع کیا اور اس طرح کہ گویا وہ واقعی ان پر نازل ہو رہا ہے۔ اپنے ایک شعر میں بھی وہ اس کا اظہار یوں فرماتے ہیں ؎
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشّاف
علامہ اقبال نے اپنی پوری زندگی قرآن مجید میں غورو فکر اور تد بّر و تفکر کرتے گزاری ، قرآن مجید پڑھتے ، قرآن سوچتے، قرآن بولتے۔ قرآن مجید ان کی وہ محبوب کتاب تھی جس سے انھیں نئے نئے علوم کا انکشاف ہوتا ۔ اس سے انھیں ایک نیا یقین ، ایک نئی روشنی ، اور ایک نئی قوت و توانائی حاصل ہوتی ۔ جوں جوں ان کا مطالعۂ قرآن بڑھتا گیا، اُن کے فکر میں بلندی اور ایمان میں زیادتی ہوتی گئی۔ اس لیے کہ قرآن ہی ایک ایسی زندۂ جاوید کتاب ہے جو انسان کو لدُنی علم اور اَبدی سعادت سے بہرہ ور کرتی ہے۔ وہ ایک ایسی شاہ کلید ہے کہ حیاتِ انسانی کے شعبوں میں سے جس شعبے پر بھی اسے لگایئے ، فوراً کھل جائے گا۔ وہ زندگی کا ایک واضح دستور اور ظلمتوں میں روشنی کا مینار ہے!
_______________
اقبال کی شخصیت کا امتیازی پہلو
مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی
’ ایمان ویقین ‘ اقبال کا سب سے پہلا مربی اور مرشد ہے اور یہی اس کی طاقت وقوت اور حکمت وفراست کا منبع اور سرچشمہ ہے۔ لیکن اقبال کا وہ یقین وایمان اس خشک جامد ایمان کی طرح نہیں جو بے جان تصدیق یا محض جامد عقیدہ ہے، بلکہ اقبال کا ’یقین ‘ عقیدۂ ومحبت کا ایک ایسا حسین امتزاج ہے جو اس کے قلب وجدان ، اس کی عقل وفکر ، اس کے ارادہ وتصرف ، اس کی دوستی ودشمنی ، غرض یہ کہ اس کی ساری زندگی پر چھایا ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال اسلام اور اس کے پیغام کے بارے میں نہایت شدید الایمان تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی محبت ، شغف اور ان کا اخلاص انتہا درجے کا تھا۔ اس لیے ان کے نزدیک اسلام ہی ایک ایسا زندۂ جاوید دین ہے کہ اس کے بغیر انسانیت فلاح وسعادت کے بامِ عروج تک پہنچ ہی نہیں سکتی ۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم رُشد وہدایت کے آخری مینار ، نبوّت ورسالت کے خاتم اور مولاے کُل ہیں ؎
وہ دانائے سُبل ختُم الرّسل، مولاے کُل جس نے
غُبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سِینا
اس دورِ مادّیت اور مغربی تہذیب وتمدن کی ظاہری چمک دمک سے اقبال کی آنکھیں خیرہ نہ ہو سکیں ۔ حالاںکہ اقبال نے جلوۂ دانشِ فرنگ میں زندگی کے کئی ایک طویل ایام گزارے ۔ اس کی وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اقبال کی والہانہ محبت ، جذبۂ عشق اور روحانی اتصال تھا۔ بلاشبہہ ایک حُبِ صادق اور عشق حقیقی ہی قلب ونظر کے لیے اچھا محافظ اور مشعلِ راہ بن سکتا ہے ؎
خِیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ!
سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
_____
عذابِ دانشِ حاضر سے باخبر ہوں مَیں
کہ مَیں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل ؑ
_____
رہے ہیں، اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک
مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے یدِبیضا
_____
عجب کیا گر مہ و پرویں مرے نخچیر ہو جائیں
کہ برفتر اکِ صاحب دولتے بستم سرِ خُود را
علامہ اقبال نے اپنی کتاب اسرارِ خودی میں ملّت اسلامیہ کی زندگی کی بنیادوں اور ان ستونوں کے ذکر کے سلسلے میں جن پر تاحیات ملّت اسلامیہ موقوف ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے روحانی تعلق ، دائمی اتصال اور اپنی فدا کارانہ محبت کا بھی ذکر کیا ۔ جب وہ اللہ کے نبیؐ کا تذکرہ کرتے ہیں تو ان کا شعری وجدان جوش مارنے لگتا ہے اور مدحیہ اشعار اُبلنے لگتے ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے محبت وعقیدت کے چشمے پھوٹ پڑے ہوں۔ اس سلسلے میں چند اشعار پیش خدمت ہیں جن سے اقبال کے محبت بھرے جذبات کا قدرے اندازہ ہو گا:
در دلِ مسلم مقامِ مصطفےٰؐ است
آبروے ما زنام مصطفےٰؐ است
بوریا ممنونِ خوابِ راحتش
تاجِ کسریٰ زیر پاے اُمتش
درشبستانِ حِرا خلوت گزید
قوم و آئین و حکومت آفرید
ماند شبہا چشمِ او محرومِ نوم
تا بہ تختِ خسروی خوابید قوم
وقتِ ہیجا تیغِ اَو آہن گداز
دیدۂ او اشکبار اندر نماز
lحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام، مسلمان کے دل میں ہے، اور حضوؐر ہی کے نام سے ہماری آبرو ہے۔ lآپؐ خوابِ رحمت کے لیے بوریا کو ممنون فرماتے (دوسری طرف) آپؐ کی اُمت نے کسریٰ کا تاج پائوں تلے روند ڈالا۔ lآپؐ نے شبستانِ حرا کی خلوت اختیار فرمائی، اور (ایک نئی) ملّت، نیا آئین اور (نئے انداز کی) حکومت وجود میں لائے۔ lآپؐ نے کئی راتیں بے خوابی میں گزاریں، تب کہیں جاکر آپ کی اُمت نے تخت خسروی پر آرام پایا۔ lجنگ کے دوران میں آپؐ کی تلوار لوہے کو بآسانی کاٹ کے رکھ دیتی، نماز کے دوران آنجنابؐ کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑیاں لگ جاتیں۔
جوں جوں زندگی کے دن گزرتے گئے، اقبال کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ محبت و اُلفت بڑھتی ہی گئی۔ یہاں تک کہ آخری عمر میں جب بھی ان کی مجلس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر آتا یا مدینہ منورہ کا تذکرہ ہوتا، تو اقبال بے قرار ہو جاتے ، آنکھیں بھر آتیں، یہاں تک کہ آنسو رواں ہو جاتے ۔ یہی وہ گہری محبت تھی جو ان کی زبان سے الہامی شعروں کو جاری کر دیتی تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں ؎
مکن رسوا حضورِ خواجہؐ ما را
حسابِ من ز چشمِ او نہاں گیر
(اس دن مجھے میرے آقاؐ کے سامنے رُسوا نہ کرنا، میرا حساب لینا، مگر آپؐ کی نگاہ سے پوشیدہ۔)
محبت وعقیدت کا یہ شعر کتنا اچھا مظہر ہے۔
دراصل علامہ اقبال کا یہی وہ ایمان کامل اور حُبّ ِ صادق تھی جس نے اقبال کے کلام میں جوش ، یہ ولولہ، یہ سوز وگداز پیدا کر دیا۔ اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو یہ حقیقت عیاں ہو جائے گی کہ دراصل رقیق شعر ، عمیق فکر ، روشن حکمت ، بلند معنویت ، نمایاں شجاعت ، نادر شخصیت ، اور عبقریت کا حقیقی منبع وسرچشمہ محبت ویقین ہی ہے ۔ اور تاریخِ عالم میں جو کچھ بھی انسانی کمالات یا دائمی آثار ونشانات نظر آتے ہیں وہ سب کے سب اسی محبت ویقین کے مرحونِ منّت ہیں۔ اگر کوئی شخصیت یقین ومحبت کے جذبے سے خالی ہو تو پھر وہ صرف گوشت پوست کی صورت ہے۔ اور اگر پوری امّت اس سے خالی ہے تو پھر اس کی وقعت بکریوں اور بھیڑوں کے گلے سے زیادہ نہیں۔ اگر اسی طرح کسی کلام میں یقین ومحبت کی روح کار فرما نہیں ہے تو پھر وہ ایک مقفٰی اور موزوں کلام ہوسکتا ہے لیکن ایک زندہ جاوید کلام نہیں بن سکتا۔ اور جب کوئی کتاب اس روح سے خالی ہو تو اس کتاب کی حیثیت مجموعہ اوراق سے زیادہ نہیں ہو گی۔اسی طرح اگر کسی عبادت میں محبت ویقین کا جذبہ شامل نہیں ہے تو پھر ایسی عبادت بیکار ہے اور وہ ایک بے روح ڈھانچا ہے۔ غرض یہ کہ پوری زندگی اگر محبت ویقین کے جذبے سے خالی ہے تو پھر وہ زندگی، زندگی نہیں، بلکہ موت ہے۔ اورپھر ایسی زندگی کیا ؟ جس میں طبیعتیں مردہ وافسردہ ہوں، نظم ونثر کے سر چشمے خشک ہوں، اور زندگی کے شعلے بجھ چکے ہوں۔ ایسی حالت میں یقین کامل اور حُبّ ِ صادق ہی حیاتِ انسانی میں جلا پیدا کرتی ہے اور انسانی زندگی نُور ورنگ سے معمور ہو جاتی ہے ۔ پھر شُستہ پُر سوز و پُر درد ، روح نواز اور جاں بخش کلام سننے میں آتے ہیں۔ خارقِ عادت شجاعت وقوت دیکھنے میں آتی ہے اور علم وادب کے نقوش بھی زندۂ جاوید بن جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہی محبت اگر پانی ، مٹی اور اینٹ ، پتھر میں داخل ہو جائے تو اس کو بھی زندۂ جاوید بنا دیتی ہے۔ ہمارے سامنے اس کی روشن مثال مسجد ِ قرطبہ، قصرِ زہرا اور تاج محل ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ محبت ویقین کے بغیر ادب وفن مُردہ وافسردہ و ناتمام ہیں ؎
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سوداے خام خونِ جگر کے بغیر
بڑی غلط فہمی میں وہ لوگ مبتلا ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اہل علم حضرات اپنی قوتِ علم، کثرتِ معلومات اور ذکاوت وذہانت کی وجہ سے ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے ہیں، یا ایک دوسرے پر فضیلت رکھتے ہیں۔ اسی طرح شعرا کو ان کی فطری قوتِ شاعری ، لفظوں کا حُسنِ انتخاب، معانی کی بلاغت ، انھیں ایک دوسرے سے ممتاز کرتی ہے، اور مصلحینِ وقت اور قائدین ملت کی بلندی وپستی موقوف ہے اُن کی ذہانت کی تیزی ، خطابت کی بلندی ، سیاسی سوجھ بوجھ اور حکمتِ عملی پر! حالاںکہ ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ا ن میں سے ہر ایک کی فضیلت وبلندی کا دارو مدار محبت واخلا ص پر ہے۔ ان کا حُبّ ِصادق اور مقصد سے اخلاصِ کامل ہی ان کی عظمت و بزرگی کا سبب ہے۔ اس لیے کہ اس کا مقصد وموضوع اور غرض و غایت اس کی روح میں سرایت کرجاتی ہے، قلب میں جاگزیں ہو جاتی ہے اور فکروعمل پر چھا جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی ذاتی خواہش مغلوب اور شخصیت گھٹ جاتی ہے۔ اب وہ جب کوئی بات کرتا ہے تو مقصد کی زبان سے کرتا ہے، جب کچھ لکھتا ہے تو مقصد کے قلم سے لکھتا ہے۔ غرض کہ اس کے فکرو خیال ، دل ودماغ اور اس کی پوری زندگی پر اس کا مقصد چھا جاتا ہے۔
ایک عظیم گناہ جو اس جدید تمدن کا پیدا کردہ ہے وہ ہے مادہ پرستی ، اور پھر اس سے نفع پسندی، جنسی محبت اور نفسانی خواہش۔ جو درحقیقت جدید عصری مادی تعلیم کا ثمرہ ہے جس نے ہماری نئی نسلوں کو تباہ کر رکھا ہے۔ اور آج حال یہ ہے کہ ان کے قلوب و ایمان کی حرارت حُبّ ِ صادق کی تپش اور یقین کے سوز سے خالی ہیں اور یہ عالم نو ایک ایسی متحرک شے بن کر رہ گیا ہے کہ جس میں نہ کوئی زندگی ہے، نہ کوئی روح، نہ شعور ووجدان ہے، نہ مسّرت وغم کا احساس ! اس کی مثال اس جامد شے کی طرح ہے جو کسی جابرو قاہر شخص کے دستِ تصرف میں ہو، وہ جس طرح چاہے اسے حرکت دے اور استعمال کرے۔
جب آپ اقبال کے کلام کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اقبال کا کلام ہمارے جانے پہچانے شعرا سے بہت کچھ مختلف ہے۔ اقبال کا کلام ہمارے شعور و احساس ، قلب ووجدان اور اعصاب میں حرکت وحرارت ، سوز وگداز اور تپش پیدا کرتا ہے۔ پھر ایک ایسا شعلۂ جو الہ بن کر بھڑک اٹھتا ہے جس کی گرمی سے مادیت کی زنجیریں پگھل جاتی ہیں، فاسد معاشرہ اور باطل قدروں کے ڈھیر جل کر فنا ہو جاتے ہیں۔ جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر کس قدر طاقت ور ایمان، پُردرد و پُرسوز سینہ اور بے چین روح رکھتا ہے ۔ قابلِ صد ستایش ہے وہ دوسرا مدرسہ جس نے اتنی اچھی تربیت کی اور ایسی قابلِ قدر شخصیت تیار کی۔
اقبال کی شخصیت کو بنانے والا دوسرا عنصر وہ ہے جو آج ہر مسلمان گھرانے میں موجود ہے، مگر افسوس کہ آج خود مسلمان اس کی روشنی سے محروم ، اس کے علم وحکمت سے بے بہرہ ہیں۔ میری مراد اس سے قرآن مجید ہے۔ اقبال کی زندگی پر یہ عظیم کتاب جس قدر اثرانداز ہوئی ہے، اتنا نہ وہ کسی شخصیت سے متاثر ہوئے ہیں اور نہ کسی کتاب نے ان پر ایسا اثرڈالا ہے۔ اقبال کا ایمان چوںکہ ’نومسلم ‘ کا سا ہے، خاندانی وراثت کے طور پر انھیں نہیں ملا ہے، اس لیے ان کے اندر نسلی مسلمانوں کے مقابلے میں قرآن سے شغف، تعلق اور شعور واحساس کے ساتھ مطالعے کا ذوق بہت زیادہ ہے۔ اقبال کا قرآن پڑھنا عام لوگوں کے پڑھنے سے بہت ہی مختلف رہا ہے، جیسا کہ خود اقبال نے اپنے قرآن مجید پڑھنے کے سلسلے میں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ان کایہ ہمیشہ کا دستور تھا کہ روزانہ بعدنمازِ صبح قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ اقبال کے والد جب انھیں دیکھتے تو فرماتے، کیا کررہے ہو ؟ اقبال جواب دیتے ، قرآن پڑھ رہا ہوں ۔ کچھ دنوں تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ آخر ایک دن اقبال نے پوچھا: ابّا جان ! آپ مجھ سے روزانہ پوچھتے ہیں اور میں ایک ہی جواب دیتا ہوں اور پھر آپ خاموش چلے جاتے ہیں ، تو انھوں نے جواب دیا کہ میں تم سے کہنا چاہتا ہوں کہ تم قرآن اس طرح پڑھا کرو کہ جیسے قرآن اسی وقت تم پر نازل ہو رہا ہے۔ اس کے بعد سے اقبال نے قرآن برابر سمجھ کر پڑھنا شروع کیا اور اس طرح کہ گویا وہ واقعی ان پر نازل ہو رہا ہے۔ اپنے ایک شعر میں بھی وہ اس کا اظہار یوں فرماتے ہیں ؎
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشّاف
علامہ اقبال نے اپنی پوری زندگی قرآن مجید میں غورو فکر اور تد بّر و تفکر کرتے گزاری ، قرآن مجید پڑھتے ، قرآن سوچتے، قرآن بولتے۔ قرآن مجید ان کی وہ محبوب کتاب تھی جس سے انھیں نئے نئے علوم کا انکشاف ہوتا ۔ اس سے انھیں ایک نیا یقین ، ایک نئی روشنی ، اور ایک نئی قوت و توانائی حاصل ہوتی ۔ جوں جوں ان کا مطالعۂ قرآن بڑھتا گیا، اُن کے فکر میں بلندی اور ایمان میں زیادتی ہوتی گئی۔ اس لیے کہ قرآن ہی ایک ایسی زندۂ جاوید کتاب ہے جو انسان کو لدُنی علم اور اَبدی سعادت سے بہرہ ور کرتی ہے۔ وہ ایک ایسی شاہ کلید ہے کہ حیاتِ انسانی کے شعبوں میں سے جس شعبے پر بھی اسے لگایئے ، فوراً کھل جائے گا۔ وہ زندگی کا ایک واضح دستور اور ظلمتوں میں روشنی کا مینار ہے!
رمضان المبارک کا مہینہ گزر گیا‘ اس کے گزرنے سے بہت سے لوگوں پر ایک مایوسانہ کیفیت طاری ہوئی‘ جیسے کوئی عزیز مہمان رخصت ہو جائے اور بہت دنوں میں اس کے آنے کی اُمید ہو۔ بہت سے لوگوں پر ایک اطمینانی کیفیت طاری ہوئی‘ جیسے ان کا کام ختم ہو گیا اور اب ان پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ یہ دونوں کیفیتیں اللہ اور اس کے رسولؐ کے منشا اور رمضان المبارک کی روح اور پیام کے منافی ہیں۔ رمضان اگر رخصت ہوا تو ایمان اور اس کے تقاضے‘ شریعت اور اس کے احکام‘ اللہ تعالیٰ اور اس سے تعلق بہرحال باقی ہے۔ رمضان درحقیقت ایک دور کا خاتمہ نہیں‘ ایک دور کا آغاز ہے۔ رمضان انتہا نہیں‘ ابتدا ہے۔ رمضان سب کچھ لے کر اور سب نعمتیں تہہ کر کے اور لپیٹ کر نہیں جاتا ہے‘ وہ بہت کچھ دے کر‘ جھولیاں بھر کر اور نعمتیں لٹا کر جاتا ہے۔ رمضان کے بعد آدمی گناہوں سے ضرور ہلکا ہوتا ہے لیکن ذمہ داریوں سے بوجھل اور گراں بار ہو جاتا ہے۔ اس سب کے باوجود بہت سے بھائی دل میں کہتے ہوں گے کہ رمضان گیا‘ اب کیا کریں؟ اس مختصر مضمون میں اسی سوال کا جواب مقصود ہے۔ یہاں ان باتوں کا تذکرہ کیا جائے گا جو رمضان کے بعد اور ہمیشہ کرنے کی ہیں۔
۱- توبہ: سب سے مقدم اور اہم کام جس کے لیے کسی زمانے اور مقام کی قید نہیں مگر رمضان المبارک اس کی تحریک اور تقاضا پیدا کرتا ہے اور اس کو آسان بنا دیتا ہے‘ یہ ہے کہ ہم اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے ٹوٹا ہوا رشتہ یا چھوٹا ہوا رشتہ جوڑیں۔ توبہ کی قرآن و حدیث میں اس قدر ترغیب و تاکید ہے اور اس قدر اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ ایمان کے بعد سب سے اہم چیز معلوم ہوتی ہے۔ قرآن شریف میں ہے:
وَتُوْبُوْآ اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o (النور ۲۴:۳۱)
اے مومنو‘ تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو‘ توقع ہے کہ فلاح پائو گے۔
تُوْبُوْآ اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا ط (التحریم ۶۶:۸)اللہ سے سچی اور مخلصانہ توبہ کرو۔
حدیث شریف میں آتا ہے: کلکم خطاؤن وخیر الخطائین التوابون، ’’تم سب اے انسانو! خطاکار ہو اور گنہگار ہو اور خطاکاروں اور گنہگاروں میں سب سے بہتر کثرت سے توبہ کرنے والے ہیں‘‘۔ ایک دوسری حدیث میںہے: التائب من الذنب کمن لاذنب لہٗ ،’’گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہو جاتا ہے جیسے اس کا کوئی گناہ ہی نہیں‘‘۔
قرآن و حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ توبہ صرف ضرورت ہی کی چیز اور مجبوری کا معاملہ نہیں ہے کہ جب آدمی کسی معصیت میں مبتلا ہو جائے توتوبہ کرے۔ یہ تو فرض واجب ہے اور اس کے بغیر تو صاحب ایمان کو چین سے ہونا نہیں چاہیے۔ توبہ ایک مستقل عبادت ہے‘ قرب اور محبوبیت کا ذریعہ ہے۔ اس کے ذریعے سے جو ترقی ہوتی ہے اس کو کوئی عبادت نہیں پہنچ سکتی۔ اس لیے ابرار و صالحین اور مقربین کو بھی اس کی ضرورت ہے۔ وہ جب کسی توبہ کرنے والے پر رحمت الٰہی کی بارش اور اُس ذات عالی کی نوازش دیکھتے ہیں تو ان کو اپنی بڑی بڑی عبادتیں اس کے سامنے ہیچ اور حقیر معلوم ہونے لگتی ہیں۔ اور وہ اس وقت اس گروہ میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں جو رحمت الٰہی کا مورد ہوتا ہے۔
بہرحال رمضان کے بعد سب سے مقدم اور اہم اور سب سے اعلیٰ و افضل کام یہ ہے کہ ہم اپنے سارے گناہوں سے توبہ کریں اور وقتاً فوقتاً توبہ کرتے رہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ وہ شخص بڑا خوش قسمت ہوگا جو حشر کے دن اپنے نامۂ اعمال میں استغفار کی کثرت پائے گا۔
۲- ایمان کی تجدید: بہت سے بھائی سمجھتے ہیں کہ ایمان ایک مرتبہ لے آنا کافی ہے۔ اس کے بعد اس کو تازگی‘غذا‘ تجدید‘ کی ضرورت نہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایمان اسی طرح پرانا ہوتا جاتا ہے جیسے کپڑا میلا اور پرانا ہو جاتا ہے۔ اُس کو نیا اور اُجلا کرتے رہو۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ اس کو کس طرح نیا کریں؟ فرمایا: لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کی کثرت کرو۔ خود قرآن شریف میں ہے:
اَلَمْ یَأنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ وَمَا نَزَل مِنَ الْحَقِّلا وَلاَ یَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْھِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُھُمْط وَکَثِیْرٌ مِّنْھُمْ فَاسِقُوْنَ o (الحدید ۵۷: ۱۶) کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور اُس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں اور وہ اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنھیں پہلے کتاب دی گئی تھی‘ پھر ایک لمبی مدت اُن پر گزر گئی تو اُن کے دل سخت ہو گئے اور آج اُن میں سے اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں۔
اس آیت کے سننے اور پڑھنے کے بعد بعض اصحاب اپنے دل کی سختی اور بے حسی سے شاید مایوس ہوتے اور سمجھتے کہ دل کی یہ زمین بالکل اوسر اور بنجر ہو گئی ہے اور اب کبھی اس میں شادابی اور روئیدگی پیدا نہیں ہوگی‘ تو معاً اس کے بعد ارشاد ہوا:
اِعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ یُحْیِی الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا ط قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ o (الحدید ۵۷:۱۷) یاد رکھوکہ اللہ تعالیٰ زمین کو مردہ ہو جانے کے بعد زندہ کر دیتا ہے‘ ہم نے تمھارے لیے اپنی نشانیاں کھول کھول کر بیان کیں اگر تم سمجھتے ہو۔
بہرحال ہر شخص کو اپنے ایمان کی تکمیل ‘تجدید اور تقویت کی ضرورت ہے۔ اس کی کئی صورتیں ہیں:
(الف) سوچ سمجھ کر شعور و احساس کے ساتھ کلمۂ توحید کی تکرار و کثرت۔ صحابہ کرامؓ سے کہا گیا کہ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کی کثرت کرو۔ ظاہر ہے کہ وہ بے سوچے سمجھے اور معنی و مطلب پر غور کیے بغیر کلمہ کی تکرار اور کثرت نہیں کرتے ہوں گے۔
(ب) ذکر کی کثرت اور ذکر کی قوت‘ یہ دونوں مستقل چیزیں ہیں۔ عام حالات میں ذکر کی کثرت ذکر میں قوت پیدا کر دیتی ہے۔ خاص حالات میں ذکر کی قوت کثرت کے قائم مقام بن جاتی ہے۔ قوت کے معنی یہ ہیں کہ خاص کیفیاتِ توجہ و استحضار کے ساتھ اللہ کو یاد کیا جائے۔ ان کیفیات و خصوصیات کے ساتھ تھوڑا سا یاد کرنا بھی تھوڑا نہیں ہے اور بڑے اثرات رکھتا ہے۔ لیکن یہ بات بڑی استعداد یا اعلیٰ یقین یا طویل محنت‘ یا ندامت اور انابت سے پیدا ہوتی ہے۔
(ج) اہل یقین کی صحبت‘ جس کی کیمیا اثری اور پارس صفتی دنیا کو تسلیم ہے اور قرآن مجید کی اس پر مہر لگی ہوئی ہے: وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ (التوبہ ۹:۱۱۹)’’اور صادقین (راست بازوں) کے ساتھ رہو‘‘۔
(د) اعمال کی کثرت اور مداومت‘ اس سے بھی ایمان میں جِلا اور قوت اور زندگی پیدا ہوتی ہے۔
۳- احکام شریعت کی پابندی: رمضان کے بعد اور ہمیشہ کرنے والے کاموں میں شریعت کی پابندی اور فرائض و احکام کی بجاآوری ہے جس کی خصوصی مشق رمضان میں کرائی جاتی ہے‘ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ جب رمضان میں حلال و طیب چیزیں ایک خاص وقت کے اندر ممنوع قرار دی گئیں اور اُن پر بندش عائد ہوگئی تووہ چیزیں جو سدا سے حرام اور قیامت تک حرام رہیں گی‘ وہ غیر رمضان میں کیسے جائز ہو سکتی ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ مومن کے دو روزے ہیں‘ ایک عارضی اور ایک دائمی۔ عارضی روزہ رمضان میں ہوتا ہے‘ صبح صادق کے طلوع سے غروب آفتاب تک۔ اس میں کھانا پینا اور ممنوعات صوم سب ناجائز ہوتے ہیں۔ دائمی روزہ بلوغ سے موت تک ہے۔ اس میں خلاف شریعت کام اور ممنوعات شرعیہ سب ناجائز ہوتے ہیں۔ وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ (الحجر ۱۵:۹۹) ’’اپنے رب کی بندگی اور تابعداری کرو جب تک موت نہ آجائے‘‘۔ کیسے تعجب کی بات ہے کہ عارضی روزے کی پابندی کی جائے اور دائمی روزے کو کھیل بنا لیا جائے‘ جس کا ایک جز اور ایک حصہ یہ عارضی روزہ ہے۔ اگروہ روزہ نہ ہوتا تو یہ روزہ بھی نہ ہوتا۔ وہ روزہ صبح صادق سے شروع ہوتا ہے‘ یہ روزہ کلمہ پڑھ لینے اور اسلام کی حالت میں زمانۂ بلوغ کے آجانے سے شروع ہوتا ہے۔ وہ روزہ آفتاب کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے‘ یہ روزہ بھی جب تک زندگی کا آفتاب رہتا ہے‘ باقی رہتا ہے۔ جہاں زندگی کا آفتاب غروب ہوا اور طائر روح نے اپنے قفس کو چھوڑا وہ روزہ بھی ختم ہوا۔ رمضان گزر گیا۔ فرض روزے بھی اس کے ساتھ گئے‘ مگر اسلام باقی ہے اور اس کا طویل اور مسلسل روزہ بھی باقی ہے۔ پہلے کی عید دوگانہ ہے جو عیدگاہ اور مسجد میں ادا ہو جاتی ہے۔ دوسرے کی عید وہ حقیقی عید ہے جس کے متعلق شاعر عارف نے کہا ہے ؎
انبساط عید دیدن روئے تو
عیدگاہِ ما غریباں کوئے تو
(عید کی خوشی تو آپ کا دیدار ہے۔ ہم غریبوں کی عیدگاہ تو آپ کا کوچہ ہے)
وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ o اِلٰی رَبِّھَا نَاظِرَۃٌ o (القیامۃ ۷۵:۲۲-۲۳)اس روز کچھ چہرے تروتازہ ہوں گے‘ اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔
۴- قرآن سے تعلق: رمضان مبارک کا بڑا تحفہ اور عطیۂ ربانی یہ قرآن مجید ہے: شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِج (البقرہ ۲:۱۸۵) ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں‘‘۔ رمضان تو سال بھر کے لیے رخصت ہوا۔ مگر اپنا پیام‘ اپنا تحفہ اور اپنی سوغات چھوڑتا گیا۔ ضرورت ہے کہ رمضان گزر جانے کے بعد اس تحفے سے اس کی یاد تازہ کی جائے‘ اس کی برکات حاصل کی جائیں۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ تحفہ قاصد سے بڑھ کر ہے۔ شاہِ وقت اپنے کسی منتخب غلام کو کسی قاصد کے ہاتھ تحفہ بھیجے تو یہ تحفہ اس کی خاص سوغات ہے۔ یہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی صفات کا مظہر ہے۔ اس وقت پورے عالم انسانی میں اور اس زمین کی سطح کے اوپر اللہ تعالیٰ کی ذات سے قرب رکھنے والا اور اس کی صفات و کمالات کا پرتو قرآن مجید ہی ہے۔ ضرورت ہے کہ اس کو ایک زندہ کتاب کی طرح ہمیشہ پڑھا جائے اور یقین پیدا کیا جائے کہ ہم اللہ کا کلام پڑھ رہے ہیں اور اُس ذاتِ عالی سے مخاطب اور ہم کلام ہیں۔ پڑھتے وقت ہمارا سینہ اس یقین سے معمور‘ ہمارا دل اس احساس سے مسرور اور ہماری روح اس کیفیت سے مخمور ہو۔ حضرت ابی بن کعبؓ نے حضورؐ سے پوچھا تھا: ھل سمّانی ربّی‘ کیا میرے مالک نے میرا نام لے کر کہا کہ (ابی بن کعب سے) قرآن مجید پڑھوا کر سنو اور جب اس کا جواب اثبات میں ملا تو فرطِ مسرت سے رو پڑے۔
ہم کو بھی اس پر ناز ہونا چاہیے کہ ہمارا رب ہم سے مخاطب ہے اور ہم میں سے ہر شخص فرداً فرداً اس کا مخاطب اور شرف خطاب و التفات سے مشرف ہے۔ بہت سے بھائی رمضان میں بڑی مستعدی سے قرآن مجید سنتے اور پڑھتے ہیں مگر رمضان ختم ہوتے ہی اس کو طاق پر ایسا رکھتے ہیں کہ پھر رمضان ہی میں اُتارتے ہیں۔یہ بڑی ناقدری اور نادانی ہے۔ رمضان مبارک اس کی تقریب کرا کے رخصت ہوتا ہے۔ وہ اس لیے آتا ہے کہ آپ سال بھر اس کو پڑھتے رہیں‘ نہ اس لیے کہ سال بھر کا آپ اس میں پڑھ لیں پھر سال بھر کے لیے چھٹی۔ اس لیے رمضان کے بعد کرنے کا چوتھا کام یہ ہے کہ ہم قرآن مجید سے اپنا تعلق باقی رکھیں اور اس کی تلاوت اور اس پر غوروتدبر جاری رکھیں۔
۵- حسن سلوک: رمضان مبارک ہمدردی و غم خواری‘ امداد و اعانت اور حسن سلوک کا خاص مہینہ ہے۔ اس کو شھرالبرّ والمواساۃ کہا گیا ہے۔ اس کے جانے کے بعد بھی ہمیں اس شعبے کو زندہ رکھنا چاہیے اور ان سب بھائیوں کی خبر لیتے رہنا چاہیے‘ جو ہماری امداد و اعانت اور سلوک کے محتاج ہیں۔ موجودہ بے روزگاری اور گرانی نے ان لوگوں کی تعداد بہت بڑھا دی ہے جو پیسے پیسے کے محتاج ہیں اور دانے دانے کو ترستے ہیں اور کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کرتے۔ لِلْفُقَرَائِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ ز (البقرہ ۲: ۲۷۳) ’’خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسب معاش کے لیے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے‘‘۔ رمضان کی تاثیر اور روزے کی قبولیت کی یہ بھی علامت ہے کہ دل میں گداز اور طبیعت میں نرمی اور ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو اور رمضان گزر جانے کے بعد بھی خلق خدا پر شفقت‘ غربا پر ترس‘ اور پریشاں حال لوگوں کے ساتھ سلوک کی خواہش اور کوشش ہو۔
یہ ہیں وہ سب کام جو رمضان کے بعد بھی جاری رہنے چاہییں اور جن کے لیے رمضان خاص طور پر تیار کر کے جاتا ہے۔ فَبَشِّرْ عِبَادِ o الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہٗط اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدٰھُمُ اللّٰہُ وَاُولٰٓئِکَ ھُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ o (الزمر ۳۹:۱۷-۱۸) ’’پس (اے نبیؐ) بشارت دے دو میرے ان بندوں کو جو بات کو غور سے سنتے ہیں اور اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی ہے اور یہی دانش مند ہیں‘‘۔
(صدق ‘ لکھنؤ‘ جون ۱۹۵۵ء)