مسعود محبوب خاں


رمضا ن المبارک اسلامی سال کا ایک عظیم اور جلیل القدر مہینہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شہر عظیم اور شہر مبارک کہاہے۔اگر اس ماہِ مبارک کو اصول دین کے مطابق کامل شعور ، جذبۂ اخلاص اور اللہ کے رسولؐ کی تعلیمات کے مطابق گزارا جائے تو یقینا انسان کی زندگی کے لیے یہ ایک مہینہ بڑی تبدیلی اور انقلاب لانے کے لیے کافی ہے۔عربی میں روزے کو ’صوم‘ کہتے ہیں، ’صیام‘ اس کی جمع ہے۔ ’صوم‘ کے لغوی معنی ہیں:’رکنا‘ اور ’چپ رہنا‘۔ شریعت میں روزہ اس بات کا نام ہے کہ انسان روزے کی نیت کرکے طلوعِ فجر سے لے کر غروبِ آفتاب تک کھانے پینے اور بعض دوسری معیّنہ خواہشات کو پورا کرنے سے رُکا رہے۔ حالتِ روزہ میں دن بھر بندۂ خدا بھوک کی شدّت، پیاس کی تیزی اور ہیجان کو قابو میں رکھتے ہوئے خواہشات کو اعتدال پر لانے کی کوشش کرتا ہے۔ مؤذّن کے بلانے پر نہ صرف یہ کہ نمازِ فرض و سنّت ادا کرتاہے بلکہ تراویح جیسی طویل نماز بھی پڑھتا ہے۔ پورے ۲۹یا ۳۰دن اسے خلافِ معمول رات کے آخری حصّے میں سحری کے لیے اُٹھنا ہوتا ہے۔ اس طرح انسان کا جسم عیش و عشرت اورسکون و راحت کا دل دادہ ہونے کے بجاے مشقّت اورجفاکشی کا عادی ہوجاتاہے ۔ رمضان المبارک جس جفا کشی اور مشقّت سے انسان کو گزار کر جن بڑے مقاصد اور خصوصیات کی طرف لے جانا چاہتا ہے وہ تقویٰ کے ساتھ ساتھ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔

یہ ماہِ مبارک، نزولِ قرآن کے ساتھ ساتھ ، جہاد کا مہینہ بھی ہے۔ اسی مہینہ میں اسلام وکفر، حق و باطل کے کئی فیصلہ کن معرکے وقوع پذیر ہوئے۔غلبۂ حق کی مہم کا آغاز اسی ماہِ مبارک میں   پیش آیا، جسے ہم ’یوم الفرقان‘ کے نام سے جانتے ہیں اور جس کا انجام عظیم الشان فتح مکّہ پر ہوا۔  اللہ کے رسولؐ نے  ۹سالہ جہاد سے پُر زندگی کے ۸رمضان معرکوں میں یا پھر ان کی تیاریوں میں گزارے۔ صرف ایک رمضان ایسا گزرا جو امن وامان کے ساتھ گزرا۔اللہ کے رسول ؐنے اسلامی تاریخ کا پہلا ۳۰؍افراد کا گشتی دستہ حضرت امیر حمزہ ؓ کی قیادت میں ابو جہل اور اس کے ۳۰۰؍افراد جو مدینہ کے خلاف روانہ ہوئے تھے،ان کی سرکوبی کے لیے بھیجا تھا۔ یہ دستہ بھی آپؐ نے رمضان میں ہی روانہ کیا تھا۔

جس معرکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفسِ نفیس موجود رہے اس کو ’غزوہ‘ کہتے ہیں اور جہاں خود تشریف نہ لے گئے ہوں بلکہ صرف لشکر بھیجا ہو اسے ’سرایا یا بعث‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ امام المجاہدین حضرت محمد خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی کے دیگر پہلوؤں کے علاوہ اپنی عسکری زندگی میں بھی افضل و کامل تھے۔ ایک جنگی مدبّر اور بہترین فاتح کی حیثیت سے بھی اپنی نظیر آپ تھے۔ سیرتِ نبویؐ کے لکھنے والے رسولؐ اللہ کے جنگی کارناموں اور حربی معرکوں کو یا تو بہت اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں یا اپنے بیان کو اس طرح الجھا کر لکھتے ہیں کہ حضوؐر کی زندگی کے اس پہلو کو سمجھنا دشوار ہوجاتا ہے۔ بعض مؤرخین حضوؐر کی فتوحات کو اس طرح پیش کرتے ہیں، گویا وہ محض معجزات کا نتیجہ تھے۔

میدانِ جہاد میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی رہبر قرآنی تعلیمات تھیں۔آپؐ کی عسکری زندگی کا آغاز مکّہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچنے پر ہوتا ہے، جہاں آپؐ نے سلطنت کی بنیاد رکھی اور مختلف طریقوں سے اسے مستحکم کیا۔ دفاعی انتظام کے علاوہ وادیِ یثرب کے مختلف قبائل سے خاص کر یہودیوں سے عہد نامے کرکے ایک چھوٹی سی ریاست کو اندرونی استحکام بخشا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رسولؐ اللہ اس امن کی فضا میں وسائل عسکری فراہم کرنے اور وطن کادفاع مضبوط کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اخلاقی تربیت تو مدتوں سے جاری تھی، اب فن سپہ گری کی ٹریننگ دینے کا موقع بھی دستیاب ہوگیا۔ اسلامی اصول جنگ اور ان کے مقاصد بھی اچھی طرح ذہن نشین کردیے گئے۔ نظم و ضبط اور سالار کے تحت کام کرنے کی تربیت بھی دی گئی اور جلد ہی انفرادی تربیت کے دور میں پہنچ گئی۔ شروع شروع کی اجتماعی تربیت جس کو آج کل کی زبان میں اجتماعی یا میدانی تربیت کہا جاتا ہے، اُن چھوٹی بڑی مہموں اور چھوٹے غزوات پر مشمل تھی، جو غزوۂ بدر سے پہلے پیش آئے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتِ خود ۲۸ معرکوں کی قیادت فرمائی، اور یہ لڑائیاں ہجرت کے بعد کے سات برسوں میں ہوئیں۔ حیاتِ طیبہؐ میں پہلا غزوۂ بدر جو ۲ہجری میں واقع ہوا اور غزوۂ تبوک کفر و ایمان کی آویزش کا آخری حصّہ تھا۔جو ۸ ہجری میں واقع ہوا۔

  • غزوۂ بدر: جنگِ بدرکفر واسلام کاپہلا معرکہ تھا۔ یہ معرکہ رمضان ۲ ہجری میں بدر کے مقام پر پیش آیا۔ اس جنگ میں اللہ نے اپنے بے سر و سامان اور کمزور بندوں کو کفّارِ مکّہ کے جتھوں کے مقابلے پر فیصلہ کن فتح سے سرفراز کیا تھا۔ اہلِ ایمان کی قلت کو کثرت پر غالب کیا اور یہ بتایا کہ اگر حق نہتا بھی ہوتو مسلح باطل پر حاوی ہوتاہے۔ اللہ کے رسولؐ نے مقامِ بدر پر اللہ کے حضور گڑگڑا کے دُعا مانگی: ’’اے اللہ ، اگر آج یہ چھوٹی سی جماعت ختم ہوگئی تو پھر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا‘‘۔

آپؐ دعا کے الفاظ پر غور کریں، آپؐ نے فتح و نصرت کی دعا نہیں مانگی۔ آپؐ کو نہ تو مملکت کی ضرورت و خواہش تھی اور نہ دولت و حشم کی۔ آپؐ کے پیشِ نظر تو اللہ کی ’عبادت‘ تھی۔ عبد اپنے مالک کا حکم مانا کرتاہے۔ اللہ کی عبادت کے معنی اللہ کے احکام ماننے اور اللہ کے احکام کے مطابق معاشرہ قائم کرنے کے ہیں۔اس دعا کا مفہوم صرف یہ تھاکہ’’اے اللہ، اگر آج یہ چھوٹی سی جماعت تادمِ آخر کے اصول پر لڑتے ہوئے ختم ہوگئی، تو پھر تیرے نازل کردہ احکام کو مانتے ہوئے حکومت کرنے والا معاشرہ کہیںباقی نہ رہے گا‘‘۔

 اصل طاقت ایمان کی ہوتی ہے نہ کہ افراد کی۔ ۷۰کفار قتل ہوئے اور ۷۰ہی گرفتار کرکے جنگی قیدی بنالیے گئے۔ اللہ کا ارشاد ہے: ’’ اور (اُس وقت کو) یاد کرو جب تم زمین (مکہ) میں قلیل اور ضعیف سمجھے جاتے تھے اور ڈرتے رہتے تھے کہ لوگ تمھیں اُڑا (نہ) لے جائیں (یعنی بے جان و مال نہ کر دیں)، تو اُس نے تمھیں جگہ دی اور اپنی مدد سے تمھیں تقویت بخشی اور پاکیزہ چیزیں کھانے کو دیں تاکہ (اُس کا) شکر کرو ‘‘۔( الانفال ۸:۲۶)

جنگوں کی پوری تاریخ میںچشم فلک نے ایسے مد مقابل نہ دیکھے ہوںگے جو خون کے رشتوں میں منسلک ہوں۔ حسب ، نسب اور رنگ و نسل ایک ہو۔ زبان ایک جیسی ہو مگر امتیاز ِ خیر و شر نے خون کو خون سے جدا کردیا۔ رشتوں کی کوئی وقعت نہ رہی اور نہ خون کی۔ اللہ اور اس کے   رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت تمام محبتوں اور نسبتوں پر حاوی ہوگئی۔باپ بیٹا، بھائی بھائی اور خسرداماد آمنے سامنے آگئے۔ مقاصد نے اختلاف پیدا کیا اور تلوار نے فیصلہ کردیا۔

اس مختصر سے مضمون میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام معرکوں کا ذکر ممکن نہیں، یہاں پر ان معرکوں کو پیش کیا جارہا ہے جن کا تعلق ماہِ رمضان المبارک سے ہے۔

  •  غزوۂ اُحد: جنگ اُحد (جوشوال تا شعبان کے درمیان میں لڑی گئی)کو لیجیے۔ بدر میں شکست کھانے کے بعد کفّار مکّہ چین سے نہیں بیٹھے اور اپنی ہزیمت کا بدلہ لینے اور مسلمانوں کو ختم کرنے کی تیاری میں مصروف رہے۔ مسلمان بھی اپنے دفاع کی تیاری کرتے رہے۔ آخر کفّار قریش ۲ہزار کا لشکر لے کر جس میں دو سوگھوڑے شامل تھے، مدینے پرچڑھ آئے۔ حضوؐر نے مدینے کے اندر مورچہ بنا کرلڑنے کے بجاے اُحد پہاڑ کے جنوبی دامن میں اپنے لیے میدان جنگ منتخب فرمایا۔ مدینہ کے گرد ونواح میں قریش کی اس فوج سے جنگ کرنے کے لیے اس سے بہتر جگہ اور نہ تھی۔ کفّار کی فوج میں فیصلہ کن ہتھیار ان کے دو سوشہوار تھے، جو اس میدان میں استعمال کیے جاسکتے تھے۔ جیتی ہوئی لڑائی کاپانسہ، بائیں بازو کی حفاظت کے لیے جو تیر انداز مقرر کیے ہوئے تھے ان کی فاش غلطی نے بدل ڈالا۔ خالد بن ولید ، جو کفّار کے لشکر کے کمانڈر تھے، انھوں نے بھاگتے ہوئے ،اس کو بھانپا اور پلٹ کر جوابی حملہ کرکے جنگ کا نقشہ بدل ڈالا۔ جنگ کے اس نازک وقت میں، جب مسلمان اپنی ترتیب کھو بیٹھے تھے، ہرطرف افراتفری پھیلی ہوئی تھی، کفّار کے حوصلے انتہائی بلند تھے ، اس نازک و سنگین حالت میں رسولؐ اللہ کی بے مثال قیادت کا ہی کرشمہ تھا کہ آپؐ کفّار کا گھیراتوڑ کر پہاڑ پر مورچہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ یہاں آپؐ نے بکھری ہوئی فوج کومنظّم کیا اور اس میں پھر وہی جوش اور ولولہ پیدا کردیا، یہاں تک کہ دوسری صبح اسی فوج کے ساتھ دشمن کا تعاقب کیا۔
  •  غزوۂ خندق: دوسری جنگ غزوۂ خندق کو لیجیے، جو حسن تدبیر کا نادر نمونہ ہے۔       یہ ملّتِ اسلامیہ کی زندگی کا سب سے بڑا معرکہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کفّار کی یلغار روکنے کا یہی طریقہ تھاکہ جنگ کو اتنا طول دیاجاتا کہ دشمن کے مختلف قبائل جو ایک مقصد کے لیے خاص طور پر ایک دوسرے کے حلیف بنے تھے، عادت کے مطابق ایک دوسرے سے بدظن ہونے لگیں۔ طے یہ پایا کہ مدینے ہی میں رہ کر لڑائی لڑی جائے۔ اور شمال مشرق کی طرف، جہاں سے حملہ ہوسکتا تھا، دوپہاڑیوں کے درمیان اتنی بڑی خندق کھودی جائے کہ جس پر سے گھوڑ سوار کود نہ سکیں۔

 دفاعی خندق کا کھودنا عرب کی تاریخ میں ایک انوکھا واقعہ تھا۔ اللہ کے رسولؐ کی جنگی زندگی کا باریک بینی سے مطالعہ کریں تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ غزوۂ خندق کی کھدائی عین وسط رمضان میں شروع ہوئی تھی۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ رمضان المبارک میں غزوۂ خندق میں خندق کھودنا ایک کٹھن کام تھا۔ دشمنوں کا لشکر جرار اچانک حملہ آور ہوا تھامگر تین ہزار مسلمانوں نے کمالِ جرأت سے بیس دن میں گہرا اور چوڑا نالا کھود ڈالا۔ صحابہ ؓ مٹی کھودتے تھے، پیٹھ پر لاد کر باہر پھینکتے تھے  اور مل کر یہ اشعار پڑھتے: ’’ہم ہیں جنھو ں نے محمد رسولؐ اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی ہے، جب تک  جان میںجان ہے ہم اللہ کی راہ میں لڑتے رہیںگے‘‘۔ مشرکین جب اپنی طاقت کے نشے میں چور اور قتل و غارت کے خواب دیکھتے ہوئے اس خندق کے قریب پہنچے تو ان کے ہوش اُڑ گئے۔ آہستہ آہستہ طویل محاصرے سے دشمن قبائل میںجھگڑے اُٹھے اور ایک ایک کرکے واپس جانے لگے اور آخری دنوں میں طوفان آیا ، جس نے ر ہے سہے قبائل کا مورال گرا دیا اور وہ بھی محاصرہ اُٹھانے اور پسپا ہونے پر مجبور ہوگئے ۔

سورۂ احزاب میں آیت۱۲ میں بیان کیا گیا ہے کہ تمھارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک قابلِ تقلید نمونہ ہے۔ جنگ کی ابتدا سے اختتام تک اللہ کے رسولؐ کا یہ حال تھا کہ ہرمشقّت جس کا آپؐ نے دوسروں سے مطالبہ کیا، اُسے برداشت کرنے میں آپؐ خود سب کے ساتھ نہ صرف شریک رہے، بلکہ دوسروں سے بڑھ کر ہی آپؐ نے حصّہ لیا۔ خندق کھودنے والوں میں آپؐ خود شامل تھے۔ رمضان کے روزوں اور بھوک و پیاس کی شدید تکلیفوں کو اُٹھانے میں ایک ادنیٰ مسلمان کے ساتھ آپؐ کا حصّہ بالکل برابر کا تھا۔ جب ہمارے رہبر و رہنما اور آئیڈیل کا یہ معاملہ تھا تو آج ہماری ہی ملّت کے نوجوانوں، بڑوں اور بوڑھوںکا معاملہ دیکھیے مختلف حیلے بہانوں کے ذریعے روزے نہ رکھنے کا جواز نکالتے ہوئے ذرا سی شرم نہیں محسوس کرتے۔

  •  فتح مکّہ : اس جنگ کی تفصیلات سورۃ الاحزاب میں ہیں۔ اس کے بعد بھی چھوٹے چھوٹے واقعات پیش آئے، حتیٰ کہ ۶ ہجری میںفتح مکّہ کا پیش خیمہ صلح حدیبیہ معرض وجود میں آئی۔ سورۃ الفتح میں اس صلح کی تفصیلات موجود ہیں۔ آخری رکوع میں آپؐ کے خواب کا ذکر ہے، جس میں مکّہ معظمہ میں داخلہ دکھایاگیا۔ یہی خواب سفر عمرہ کا باعث بنا، لیکن اس میں وقت کا تعین نہ تھا۔ کفّار مزاحم ہوئے اور حدیبیہ میں قافلہ رک گیا۔ یہیں وہ صلح ہوئی جس کی شرائط بظاہر نرم تھیں۔ لیکن  دعوتِ اسلام اس کے بعد جس طرح پھیلی اور رکاوٹیں دُور ہوئیں ان سے ’فتح مبین‘ کی راہ ہموار ہوئی۔ اس موقع پر ۱۴۰۰ صحابہ اللہ کے رسولؐ کے ہمراہ گئے تھے۔ اہل مکّہ نے مسلمانوں کے ایک حلیف قبیلے کے خلاف اپنے حلیف قبیلے کی مدد کی۔

مدینہ واپسی کے بعد کفّار کاایک وفد مدینہ طیبہ آیا تاکہ تجدید ہوسکے، لیکن جس رب نے  صلح کا حکم دیا ہے، اسی کی طرف سے خیانت و بدعہدی کے بعد معاہدہ سے دست برداری کی بھی اجازت دے دی گئی ۔ فتح مکّہ کے ضمن میں ۱۰ ہزار جانبازوں کا قافلہ حضوؐر کی قیادت میںنکلا۔   وہ جو لات و ہبل جن کی قسمیں مکّہ میں کھائی جاتی تھیں سرنگوں ہوگئے۔ محض حضرت خالد بن ولیدؓ کے قافلے سے کفّار کے ایک دستے کی ذرا سی مڈبھیڑ ہوئی، ورنہ یہ عظیم انقلاب بغیر نکسیر پھوٹے تکمیل پذیر ہوگیا۔ یہ اتفاق نہیں بلکہ مشیت ِ الٰہی تھی کہ جنگِ بدر کے وقت ۱۷رمضان تھا لیکن اب یہ ۲ہجری نہیں ۸ ہجری ، فتح مکّہ اور ۱۰رمضان تھا۔

دُشمن کو اصلی حقیقت پرپردہ ڈال کر بظاہر ایسا پیش کرنا کہ وہ مرعوب ہوجائے۔ آپؐ نے فتح مکّہ کے وقت ایسا ہی حکم دیا کہ ہرمسلمان فوجی پڑاؤ پر الگ الگ آگ روشن کرے، لاتعداد الاؤ سے اہل مکّہ کو اچانک علم ہوا کہ مسلمانوں کا لشکر جرّار بہت ہی بڑی تعداد میںمکّہ کے قریب آپہنچا ہے۔ دُور سے ۱۰ہزار چولہوں کی آگ روشن دیکھ کر قریش کے ہوش اُڑ گئے۔

یہی نہیں بلکہ بعد میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۰رمضان المبارک کو روہڑی کے مقام پر راجا داہر کی شکست اورمحمدبن قاسم ؒ کی شکل میں اسلام کی فتح نے برصغیر میں ایک نئے باب کا آغاز کیا۔ ابنِ قاسم نے اس خطے میں اسلام کے جو بیج بوئے ان سے آخر کار شجرِ طیبہ کی شکل میں ایک نئی مملکت کا ظہور ہوا۔ طارق بن زیادؒ کا اسپین کو فتح کرنے کا معرکہ بھی رمضان المبارک میںپیش آیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کا یروشلم پر قبضہ بھی اسی ماہِ مبارک کی برکات ہے۔ ۱۹۷۳ء میں اسی مہینے میں مصر نے صحراے سینا کو اسرائیل کے قبضے سے آزاد کروایا۔۱۹۸۷ء تا ۱۹۹۳ء میں فلسطین کے پہلے انتفاضہ کا آغازبھی اسی مبارک مہینے میں ہوا۔اور بھی کئی بڑے معرکے اور جنگیں ہیں جو اسی مہینے میں شروع ہوئے