جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی آبادی دنیا کے کسی بھی خطے سے زیادہ ہے۔ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش، ہر ایک میں تقریباً ۱۰ کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کی آبادی ہے۔ اس خطے کے مسلمان دنیا کے دیگر خطوں میں ہجرت کرکے بھی گئے ہیں جہاں انھوں نے اپنی آبادیاں اور بین الاقوامی روابط قائم کرلیے ہیں، اور وہ ایک سے دوسرے براعظم میں اپنی فعال تجارتی سرگرمیوں کی وجہ سے بھی معروف ہیں۔ اسی طرح جنوبی ایشیا، اسلام کے احیا اور جدیدیت کے لیے بڑے پیمانے پر سرگرم کارکن اور مفکرین کی فراہمی کے حوالے سے بھی معروف ہے۔
اس مقالے میں، میری کوشش ہوگی کہ جنوبی ہندستان میں مسلم مفکرین کی حرکیات (حکمت عملی) پر احیاے اسلام کی عصری اسلامی تحریک بالخصوص شاعر مشرق علامہ اقبال (۱۸۷۷ء-۱۹۳۸ء) اور مفکر اور صحافی سیدابوالاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳ء- ۱۹۷۹ء) کے افکار اور سیاسی سرگرمیوں کے تناظر میں جائزہ لیتے ہوئے روشنی ڈال سکوں۔ جدید جنوبی ایشیا کے مسلمانوں پر دونوں کے افکار کے گہرے اثرات پائے جاتے ہیں۔۱؎
مولانا مودودی جماعت اسلامی کے بانی تھے، ایک ایسی تنظیم جو پاکستان میں اسلام کے ذریعے سماجی اصلاح چاہتی ہے۔ انھیں ’جدید اسلام کا انتہائی منظم مفکر‘ سمجھا جاتا ہے (سمتھ، ۱۹۵۷ء، ص ۲۳۴)۔ وہ ایک زود نویس مصنف تھے جنھوں نے اُردو میں اسلام پر ۱۴۰ سے زائد کتابیں اور مقالات لکھے ہیں۔ ان کی تحریروں میں سرفہرست ترجمۂ قرآن (مولانا مودودی، ۱۹۷۶ء) اور ان کی تفسیر تفہیم القرآن (مولانا مودودی ۱۹۵۱ء-۱۹۷۲ء) ہیں، اور آج بھی برطانیہ، جنوبی مشرقی ایشیا اور دنیا میں کہیں بھی ان کے اس کام کے انگریزی تراجم سے استفادہ کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی اہم کتب کا بہت سی زبانوں جن میں انگریزی، عربی اور فارسی شامل ہیں ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔ بجاطور پر ان کا شمار ان مفکرین میں ہوتا ہے جنھوں نے احیاے اسلام کی تحریک کو جنوبی ایشیا کی سرحدوں سے ماورا فلسفیانہ بنیادیں فراہم کیں۔
مولانا مودودی ۱۹۰۳ء میں اورنگ آباد ، دکن کے شہر میں جنوبی ہند میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد [سیداحمد حسن] ایک وکیل تھے جو مسلم صوفیاے کرام کے سلسلے [سلسلۂ چشتیہ] سے تعلق رکھتے تھے، جب کہ ان کی والدہ [رقیہ بیگم] ایک معروف شاعر کی پوتی تھیں جو مغل دربار، دہلی سے باقاعدہ وابستہ تھے۔ جنوبی ہند میں رہنے کے باوجود مولانا مودودی کو ان کے بچپن میں پابند کیا گیا کہ وہ گھر میں دہلی کی ٹکسالی اُردو بولیں (Maududi and the Making of Islamic Revivalism، سید ولی رضا نصر، اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس ۱۹۹۶ء)۔ انھوں نے قرآن مجید کی تعلیم گھر پر حاصل کی، پھر انھیں مدرسے میں داخل کروا دیا گیا۔ جب ان کی عمر ۱۲سال تھی تو ان کے والد کو خرابی ِ صحت کی بنا پر بھوپال جانا پڑا، چنانچہ مولانا مودودی کو ایک سال بعد ہی مدرسہ چھوڑنا پڑا۔ اپنے خاندان کو مشکل حالات میں دیکھتے ہوئے ۱۹۱۸ء میں، ۱۵برس کی عمر میں، مولانا مودودی نے اپنے بڑے بھائی ابوالخیر مودودی کے ساتھ اس بات کے پیش نظر انگریزی سیکھنا شروع کی کہ وہ صحافت کو ذریعۂ معاش بنا سکیں۔
اس زمانے میں ہندستان میں ترکی میں خلافت ِ عثمانیہ کے خاتمے پر بحث زوروں پر تھی جس نے جنگ عظیم اوّل میں شکست تسلیم کرلی تھی۔ برطانیہ نے ترکی کے خلاف جو سخت اقدامات اُٹھائے، اس سے ہندستان کے مستقبل کے بارے میں بھی تشویش پیدا ہوئی اور ہندوئوں اور مسلمانوں کی طرف سے برطانیہ مخالف تحریک اُٹھ کھڑی ہوئی۔ مارچ ۱۹۱۹ء میں رولٹ ایکٹ نافذ کیا گیا جس کے تحت ’برطانیہ مخالف تحریک‘کو قوت سے کچلنے کی کوشش کی گئی۔ اپریل میں حکومت کے خلاف ایک احتجاجی جلسہ جلیانوالہ باغ، امرتسر، (پنجاب) میں منعقد ہوا جہاں برطانوی انڈین فورس کے سپاہیوں نے مجمعے پر گولی چلا دی جس کے نتیجے میں سرکاری ذرائع کے مطابق ۳۷۹؍افراد ہلاک ہوئے (انڈین نیشنل کانگریس کے مطابق تقریباً ایک ہزار)۔ یہ جلیانوالہ باغ کا قتلِ عام تھا، اور اس کے نتیجے میں فوری طور پر برطانیہ مخالف جذبات بھڑک اُٹھے۔
نومبر میں آل انڈیا خلافت کانفرنس دہلی میں منعقد ہوئی اور ’برطانیہ مخالف عدم تعاون تحریک‘ کا جو تحریک خلافت کے نام سے جانی جاتی ہے، آغاز ہوا۔ اس تحریک نے حب الوطنی اور برطانیہ مخالف جذبات کو بھی اُبھارا تھا، اس لیے ہندو رہنمائوں نے بھی اس میں حصہ لیا۔ بقول شخصے لفظ خلافت ’خلاف‘ (مخالفت) کے مترادف سمجھا جاتا تھا اور اس کو حکومت برطانیہ مخالف اور ہرطرح کے سماجی اور اقتصادی استحصال کے مفہوم میں لیا جاتا تھا۔ اس تحریک کے مذہبی اور طبقاتی اختلافات سے ماورا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ (Kagaya and Hamaguchi، ۱۹۷۷ء، ص ۱۰۵)
نومبر ۱۹۱۹ء میں ہی تمام مسالک کی نمایندہ علما کی ملک گیر تنظیم جمعیت العلما ہند کا قیام بھی امرتسر میں عمل آیا۔ اس کی سرگرمیوں کا بنیادی اصول خلافت ِ عثمانیہ، ترکی کا وفادار رہنا تھا۔ یہ خلافت کا تحفظ اور شریعت کا نفاذ اپنا مذہبی فریضہ سمجھتی تھی، لیکن یہ بھی برطانیہ مخالف جذبے اور ہندستان سے محبت کے جذبے کے زیراثر تھی۔
تحریکِ خلافت میں پے درپے تشدد کے واقعات بھی پیش آئے۔ ۱۹۲۲ء میں گاندھی جی نے جو عدم تشدد اور عدم تعاون کی فکر کے علَم بردار تھے، عدم تعاون کی تحریکِ مزاحمت کے خاتمے کا اعلان کردیا جس کے نتیجے میں تحریک کے حامیوں کے درمیان بڑے پیمانے پر احساسِ مایوسی پیدا ہوا۔ اس دھچکے کے بعد ہندوئوں اور مسلمانوں نے اپنے اندر استحکام پیدا کرنے کے لیے اپنی اپنی تحریکوں کا اجرا کیا، اور دونوں کے درمیان اختلاف مزید بڑھ گیا۔ ۱۹۲۳ء میں، ہندوئوں نے ہندو مذہب کے غلبے کے لیے شدھی (پاک) کرنے کے لیے شدھی تحریک، اور ہندوئوں کے استحکام اور ہندو بنانے کے لیے ہندو سنگھٹن تحریک کا آغاز مدن موہن مالوی کی ہدایت پر کردیا، جب کہ مسلمانوں نے اسلام کی اشاعت کے لیے تبلیغی جماعت کی بنیاد رکھی۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان یہ اختلاف جاری تھا کہ ۱۹۲۴ء میں ترکوں نے خود ہی خلافت عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان کردیا، اور اس کے نتیجے میں تحریک خلافت کا خاتمہ ہوگیا۔
اس دوران میں مولانا مودودی نے اپنے بھائی ابوالخیر مودودی کے ساتھ بطور صحافی ان شہروں کا سفر کیا جہاں تحریکِ خلافت زوروں پر تھی، اور وہ مختلف رسائل کی ادارت میں مصروف رہے۔ اسی زمانے میں مولانا مودودی نے مدن موہن اور گاندھی جی کے بارے میں بھی مضامین لکھے۔ (ولی رضا نصر، ۱۹۹۶ء، ص ۱۵-۱۶)
۱۹۲۱ء میں مولانا مودودی دہلی چلے گئے جہاں انھیں ہندستان کے علما کی تنظیم کے رہنمائوں سے شناسائی کا موقع ملا اور وہ ان کے اخبار مسلم کے مدیر بن گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھیں عربی سیکھنے اور اسلام کے مختلف شعبوں کے متعلق مزید مطالعے کا موقع بھی میسر آیا۔ اس سے قبل مدرسے کی تعلیم ادھوری چھوڑ دینے کے بعد اب انھوں نے اسلام کا باقاعدہ مطالعہ کیا۔٭ ۱۹۲۳ء میں مسلم کی اشاعت عارضی طور پر معطل ہوگئی، چنانچہ مولانا مودودی بھوپال چلے گئے۔ ۱۹۲۴ء میں وہ واپس دہلی آئے اور ہمدرد کے مدیر بن گئے۔ یہ اخبار مولانا محمدعلی جوہر (۱۸۷۸ء- ۱۹۳۱ء) شائع کرتے تھے جو تحریکِ خلافت کے رہنما بھی تھے۔ ۱۹۲۵ء میں مولانا مودودی الجمیعۃ کے مدیر بن گئے۔ یہ ایک دوسرا اخبار تھا جو مولانا محمدعلی شائع کرتے تھے۔l
۱۹۲۶ء میں ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان اختلافات میں شدت پیدا ہوگئی۔ سوامی شردھانند جو شدھی تحریک کا رہنما تھا اور کھلے عام مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کرتا تھا،
٭ مولانا مودودی نے مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی سے مدرسہ عالیہ عربیہ فتح پوری، دہلی میں حدیث، فقہ اور ادب میں فراغت اور تدریس کی سند حاصل کی۔ اسی طرح معروف عالم دین مولانا عبدالسلام نیازی سے بھی استفادہ کیا۔
ایک مسلمان کے ہاتھوں مارا گیا۔ اس پر ہندوئوں نے مسلمانوں کو مجرم ٹھیرایا، اور گاندھی جی نے ’’اسلام کو تلوار کا مذہب قرار دیا، اور یہ کہ مسلمانوں کا مذہب اس قسم کے تشدد کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔ (الجہاد فی الاسلام، ص ۱۴)
اس کے جواب میں مولانا مودودی نے ایک مضمون ’اسلام کا قانونِ جنگ‘ کے عنوان سے لکھا جس میں انھوں نے مسلمانوں اور جہاد کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو رفع کیا، اور یہ مضمون الجمیعۃ میں ۲فروری ۱۹۲۷ء کو شائع ہوا۔ جب اس مضمون کی ۲۳/۲۴ قسطیں شائع ہوگئیں، تو اس کی مکمل نظرثانی کے بعد اسے کتابی صورت میں ۱۹۳۰ء میں الجہاد فی الاسلام کے نام سے شائع کیا گیا۔
اس کتاب کے پہلے اڈیشن کے دیباچے میں ۱۵جون ۱۹۲۷ء کو مولانا مودودی نے اس کتاب کے محرک کے بارے میں یوں لکھا: ’’دورِ جدید میں یورپ نے اپنی سیاسی اغراض کے لیے اسلام پر جو بہتان تراشے ہیں، ان میں سب سے بڑا بہتان یہ ہے کہ اسلام ایک خونخوار مذہب ہے اور اپنے پیرووں کو خوں ریزی کی تعلیم دیتا ہے۔ اس مسئلے میں بھی دنیا کی آنکھوں پر پردہ ڈالنے میں یورپ کو پوری کامیابی ہوئی اور [مغرب کی طرف]غلامانہ ذہنیت رکھنے والی قوموں نے اسلامی جہاد کے متعلق اس کے پیش کردہ نظریے کو بلاادنیٰ تحقیق و تفحص اور بلاادنیٰ غوروخوض اس طرح قبول کرلیا کہ کسی آسمانی وحی کو بھی اس طرح قبول نہ کیا گیا ہوگا.....
۱۹۲۶ء میں شدھی کی تحریک کے بانی سوامی شردھانند کے قتل کا واقعہ پیش آگیا جس سے جہلا اور کم نظر لوگوں کو اسلامی جہاد کے متعلق غلط خیالات کی اشاعت کا ایک نیا موقع مل گیا، کیونکہ بدقسمتی سے ایک مسلمان اس فعل کے ارتکاب کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور اخبارات میں اس کی جانب یہ خیالات منسوب کیے گئے تھے کہ اس نے سوامی کو اپنے مذہب کا دشمن سمجھ کر قتل کیا ہے، اور یہ کہ اس نیک کام کے کرنے سے وہ جنت کا اُمیدوار ہے..... اور علانیہ قرآن کریم پر اس قسم کے الزامات عائد کرنے لگے کہ اس کی تعلیم مسلمانوں کو خونخوار و قاتل بناتی ہے۔..... ان غلط خیالات کی نشرواشاعت اس کثرت سے کی گئی کہ صحیح الخیال لوگوں کی عقلیں بھی چکرا گئیں اور گاندھی جی جیسے شخص نے، جو ہندو قوم میں سب سے بڑے صائب الراے آدمی ہیں، اس سے متاثر ہوکر بہ تکرار اس خیال کا اظہار کیا کہ: ’’اسلام ایسے ماحول میں پیدا ہوا ہے جس کے فیصلے کی طاقت پہلے بھی تلوار تھی اور آج بھی تلوار ہے‘‘۔ چونکہ ایسی عام بدگمانیاں اشاعت اسلام کی راہ میں ہمیشہ حائل ہوتی ہیں، اور ایسے ہی مواقع ہوتے ہیں جن میں اسلام کی صحیح تعلیم کو زیادہ صفائی کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ غبار چھٹ جائے اور آفتابِ حقیقت زیادہ روشنی کے ساتھ طلوع ہو، اس لیے میں نے فرصت کا انتظار چھوڑ کر اپنے اسی قلیل وقت میں جو ترتیب ِاخبار سے بچتا تھا پیش نظر مضمون کی تحریر و تسوید شروع کر دی۔..... ۲۳/۲۴نمبر [قسطیں] شائع کرنے کے بعد مَیں نے اخبار میں اس کی اشاعت بند کردی اور اب اس پورے سلسلے کو مکمل کرکے کتابی صورت میں پیش کر رہا ہوں‘‘۔ (دیباچہ، الجہاد فی الاسلام، ص ۱۵-۱۹)
اسی زمانے میں ، ہندستان میں مسلم دانش وروں میں اسلام پر تنقید بھی کی جارہی تھی۔ انیسویں صدی کے اواخر میں بہت سے مسلمانوں نے جہاد کے خلاف مضامین لکھے، اور بیسیویں صدی کے آغاز میں بہت سے علمی رسائل میں اسلام کو براہِ راست تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ان حالات نے بھی مولانا مودودی کے اندر اسلام کے مستقبل کے بارے میں ایک بحران کے خدشے کو بتدریج راسخ کیا۔ (خطوطِ مودودی، ۱۹۹۲ء، ص ۲۶، ۱۹۹۹ء، ص ۱۴۵-۱۴۷)
الجہاد فی الاسلام بڑے سائز کی ۶۰۰صفحات کی ایک ضخیم کتاب ہے جس میں مولانا مودودی مغرب کے تصورِ جنگ اور اسلام میں خاص طور پر جہاد اور جنگ کے مقاصد اور اہمیت کو مختلف حوالوں سے واضح کرتے ہیں۔ ان میں ’انسانی جان کا احترام‘، ’قتل بالحق اور قتل بغیر حق‘، ’ناگزیر خوں ریزی‘، ’جنگ ایک اخلاقی فرض‘، ’جہاد فی سبیل اللہ‘، ’نظامِ تمدن میں جہاد کا درجہ‘، ’مدافعانہ جنگ کی مختلف صورتیں‘، ’زمانۂ جاہلیت میں عرب کا طریق جنگ‘، ’روم اور ایران کا طریق جنگ‘، ’جنگ کا اسلامی تصور‘ ، ’ہندو مذہب میں تصورِ جنگ‘اور ’مسیحیت میں تصورِجنگ‘ جیسے موضوعات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کتاب کے دوسرے نصف حصے میں تقریباً۱۵۰صفحات میں جنگ عظیم کے اسباب و وجوہ، لیگ آف نیشنز (جمعیت اقوام) کے قیام کا پس منظر، جنگ کے بین الاقوامی قانون کا مفہوم اور مغربی قوانین جنگ زیربحث آتے ہیں۔ یہ بالکل واضح اور اختصار و جامعیت کے ساتھ اُردو زبان میں لکھی گئی ہے۔ کتاب کے ابتدائی نصف حصے میں جہاد سے متعلق آیاتِ قرآنی اور احادیث اور ان کا ترجمہ دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کتاب میں یورپی تاریخ اور قانون سے متعلق بہت سی انگریزی کتابوں سے اقتباسات بھی دیے گئے ہیں۔
اس کتاب میں مولانا مودودی استدلال کرتے ہیں کہ سامراجیت کے تحت حال ہی میں جو جنگیں لڑی جارہی ہیں، وہ قومی اور انفرادی مفادات کے حصول کے لیے لڑی جارہی ہیں، جب کہ نہ اسلام اور نہ مسلمان ہی کسی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہیں، اور قرآنِ مجید میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے جب وہ کہتا ہے کہ: ’’مسلمانو، اللہ کی راہ میں جنگ کرو اور خوب جان لو کہ اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘ (البقرہ ۲:۲۴۴)۔ لہٰذا اسلام میں جنگ دراصل اسلام کے خلاف ظلم و زیادتی پر دفاع کے جواز کا نام ہے، اور یہ جدید جنگ کے تصور سے مختلف نوعیت رکھتی ہے۔ (الجہاد فی الاسلام، ص ۵۰)
وہ جہاد کی اہمیت کو بار بار زیربحث لاتے ہیں، اور مسلمانوں یا اسلامی ریاست کے خلاف زیادتی کو عالمِ اسلام پر حملے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن کی رُو سے دنیابھر کے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جہاد کریں:
ایسی جنگ کو جو ظالموں اور مفسدوں کے مقابلے میں اپنی مدافعت اور کمزوروں، بے بسوں اور مظلوموں کی اعانت کے لیے کی جائے، اللہ نے خاص راہِ خدا کی جنگ قرار دیا ہے جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ یہ جنگ بندوں کے لیے نہیں بلکہ خدا کے لیے ہے، اور بندوں کی اغراض کے لیے نہیں بلکہ خاص خدا کی خوشنودی کے لیے ہے۔ اس جنگ کو اُس وقت تک جاری رکھنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک خدا کے بے گناہ بندوں پر نفسانی اغراض کے لیے دست درازی اور جبروظلم کرنے کا سلسلہ بند نہ ہوجائے۔ چنانچہ فرمایا: قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ،’’اُن سے لڑے جائو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے‘‘۔ اور حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَھَا،’’یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے اور فساد کا نام و نشان اس طرح مٹا دے کہ اس کے مقابلے پر جنگ کی ضرورت باقی نہ رہے‘‘۔۲؎ (الجہاد فی الاسلام،ص ۴۰)
جو لوگ تم سے لڑتے ہیں، ان سے خدا کی راہ میں جنگ کرو، مگر لڑنے میں حد سے تجاوز نہ کرو (یعنی ظلم پر نہ اُتر آئو) کیونکہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ان ظالموں کو جہاں پائو قتل کرو، اور جہاں سے اُنھوں نے تمھیں نکالا ہے وہاں سے انھیں نکال باہر کرو، کیونکہ یہ فتنہ قتل سے زیادہ بُری چیز ہے۔ پھر جب تک وہ تم سے مسجدِحرام میں قتال نہ کریں تم بھی اس کے پاس ان سے قتال نہ کرو۔ لیکن اگر وہ تم سے وہاں جنگ کریں تو تم بھی انھیں مارو اور کافروں کی یہی سزا ہے۔ پھر اگر وہ باز آجائیں تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ تم ان سے برابر جنگ کیے جائو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین صرف اللہ کے لیے ہو۔ پس اگر وہ (فتنہ برپا کرنے اور دین کے معاملے میں زیادتی کرنے سے) باز آجائیں تو جان لو کہ سزا ظالموں کے سوا اور کسی کے لیے نہیں ہے۔ ماہِ حرام کا عوض ماہِ حرام ہے اور تمام آداب اور حرمتوں کے بدلے ہیں۔ پس جو کوئی تم پر زیادتی کرے اُس پر تم بھی اتنی ہی زیادتی کرو۔ مگر اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ صرف متقیوں کے ساتھ ہے (جو حد سے تجاوز نہیں کرتے)‘‘۔
یہ حفاظت ِ دین اور مدافعت ِ دیارِ اسلام کا حکم ایسا سخت ہے کہ جب کوئی قوت اسلام کو مٹانے اور اسلامی نظام کو فنا کرنے کے لیے حملہ آور ہو تو تمام مسلمانوں پر فرضِ عین ہوجاتا ہے کہ سب کام چھوڑ کر اس کے مقابلے پر نکل آئیں اور جب تک اسلام اور اسلامی نظام کو اس خطرے سے محفوظ نہ کرلیں اس وقت تک چین نہ لیں۔ (ایضاً، ص۵۶-۵۷)
اسلامی حکومت اور اسلامی قومیت پر حملہ کرنا دراصل عین اسلام پر حملہ کرنا ہے، اور خواہ کسی دشمن کا مقصد اسلام کا مٹانا نہ ہو بلکہ محض مسلمانوں کی سیاسی قوت ہی کو مٹانا ہو، تب بھی اس سے جنگ کرنا مسلمانوں کے لیے ویسا ہی فرض ہوگا جیسا اسلام کو مٹانے والے سے جنگ کرنا ہے‘‘۔ (ایضاً،ص ۵۸-۵۹)
مغربی تاریخ کا تجزیہ کرتے ہوئے مولانا مودودی اس کتاب میں روم کے غلامی کے نظام اور غلاموں کے شمشیرزنی کے مقابلوں کے تماشوں کا حوالہ دیتے ہیں جن میں ہزاروں انسان رومی امرا کے شوقِ تماشا کی نذر ہوگئے، اور ان کے ہاں انسانی جان کے عدم احترام پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ صرف اسلام تھا جس نے دنیا کو انسانی زندگی کی صحیح قدروقیمت سے آگاہ کیا۔ (الجہاد فی الاسلام،ص ۲۷-۲۸)
یہ دلائل ان کے اس نظامِ حکومت کے تصور سے متعلق تھے جسے انھیں آیندہ برسوں میں پیش کرنا اور آگے بڑھانا تھا۔ گویا یہ ان کے اس دعوے سے وابستہ تھے کہ اسلام میں حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ کی ہے، جب کہ مغرب کے انسانوں کے ذریعے انسانوں کی حکومت کے غلط تصور نے جدید مغربی قوتوں کے استعمار کو پروان چڑھایا۔۳؎
مغرب کے ’انسانوں کے ذریعے انسانوں کی حکومت‘ کے تصور پر تنقید کرتے ہوئے مولانا مودودی نے اپنی تحریروں میں اس دعوے کو بار بار دہرایا کہ اسلام میں حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد جماعت اسلامی کے تحت انھوں نے ایک بڑی تحریک چلائی جس کی قیادت انھوں نے خود کی اور اس کے نتیجے میں ۱۹۴۹ء میں دستورساز اسمبلی نے قرارداد مقاصد منظور کی جس کے آغاز میں اس بات کو شامل کیا گیا ہے کہ ’’حاکمیت صرف اللہ کی ہے‘‘۔ اس طرح سے ان کے نظریات پر عمل درآمد شروع ہوگیا۔ اس لحاظ سے الجہاد فی الاسلام میں انھوں نے جو دلائل پیش کیے، بعد میں سامنے آنے والی ان کی تحریروں اور سیاسی سرگرمیوں نے ان سے تقویت پائی، اور غالباً اس کام کو ان کی سوچ کا آغاز کہا جاسکتا ہے۔
الجہاد فی الاسلام کو ہندستانی مسلمانوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر پذیرائی ملی۔ علامہ اقبال کے مطابق: ’’اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں مولانا مودودی نے معذرت خواہانہ لہجہ اختیار نہیں کیا بلکہ جنگ و جہاد کے متعلق اسلام کے جو نظریات ہیں انھیں کسی تاویل و تعبیر کے بغیر بڑے کروفر سے پیش کیا ہے‘‘۔ (ہفت روزہ چٹان، اپریل ۱۹۵۴ء)۴؎
الجہاد فی الاسلام کی اشاعت کے لیے سید سلیمان ندوی نے جو اسکالر تھے اور دارالمصنفین، اعظم گڑھ کے صدر تھے، مولانا مودودی کی حوصلہ افزائی کی۔ دارالمصنفین نے بطور ناشر الجہاد فی الاسلام کو شائع کیا، جب کہ سلیمان ندوی نے اس کے سرورق کا انتخاب کیا۔ پہلی بار جب یہ الجمعیۃ میں شائع ہوئی تو عنوان کے الفاظ تھے: ’جنگ‘ اور ’جہاد‘ میں فرق جس سے اس کا مقصد بھی واضح ہوجاتا تھا۔
الجہاد فی الاسلام کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ اس نے اسلام کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دُور کرتے ہوئے مغرب کے ’قوم‘ اور ’جنگ‘ کے تصورات کو واضح طور پر رد کردیا۔ اسلام کی مغربی فکر کے دائرے میں رہتے ہوئے تعبیر کرنے کے بجاے مولانا مودودی نے دنیا کی تاریخ بشمول عصرِحاضر کے مغربی تصورات جو تیزی سے پھیل رہے تھے کی توضیح اسلام کے دائرے، یعنی قرآن و سنت کی روشنی میں کی۔
اس زمانے کے سماجی حالات میں ’جنگ‘ اور ’جنگ کے اصول‘ جیسے الفاظ جنگ عظیم اوّل کی وجہ سے ’عصرِحاضر‘ کی علامات بن چکے تھے۔ اس جنگ کی وجہ سے تحریکِ خلافت میں بھی اضافہ ہوا تھا۔ اس کتاب میں ’جنگ‘ کی بحث کے تحت مغرب کے تصورِجنگ کے تناظر میں ’جنگ‘ کے موضوع پر عمدہ بحث سامنے آئی ہے۔
دوسری طرف ہندستان میں بہت سے مسلمان دانش ور ’عصرِحاضر میں اسلام کی تشکیل جدید‘ کے بارے میں غوروفکر کر رہے تھے۔ ایسے میں مولانا مودودی نے ’عصرِحاضر‘ کے مغربی تصور کے برعکس اسلام کی فوقیت کے تناظر میں ایک منفرد انداز میں اس کی تعبیر کی۔مزیدبرآں عصرِحاضر کی اسلامی اقدار کے تناظر میں تعبیر کا یہ تصور ’قومیت‘ کے اس مغربی تصور کے بھی خلاف تھا جو کہ اس زمانے میں ہندستانی مسلمانوں میں مقبول ہو رہا تھا، اور مولانا مودودی نے اپنی بعد کی تحریروں میں بھی اس پر زور دیا۔ ان کو ’قومیت‘ کے مغربی تصور کے خلاف مسلمانوں کے ایک طبقے کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اور اسی طرح مغربی تصور کے تحت ’مسلمانوں کی مملکت‘ کے قیام کے خلاف بھی۔ انھوں نے اُمّہ کا تصور پیش کیا جو کہ سرحدوں اور قومیت کے تصور سے ماورا تھا۔ اس لحاظ سے مولانا مودودی وہ تصور پیش کر رہے تھے جو ہندستانی مسلمانوں کے ہم عصر سیاسی قائدین سے مختلف تھا۔
یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ مولانا مودودی کے تصورات منفرد تھے، تاہم اس زمانے میں، جب کہ ترکی میں سیکولرزم پروان چڑھ رہا تھا، دنیا بھر میں قومی حق خود ارادیت کی حمایت کی جارہی تھی، حتیٰ کہ ہندستان میں اس بات کے دلائل دیے جارہے تھے کہ مسلمان ایک قوم ہیں اور مغربی اقدار کی بنیاد پر جدیدیت اور تعمیر ریاست کے منصوبے بنائے جارہے تھے، ایسے میں مولانا مودودی نے ایک ایسے فرد کی شاز مثال پیش کی جو اسلامی روایات کا احیا چاہتا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ احیاے اسلام کی عالم گیر تحریکوں کے پیش رو تھے جنھیں احیاے اسلام کی عصری تحریکوں کے مفکرین میں ایک نمایاں حیثیت سے جانا جاتا ہے۔
اس لحاظ سے الجہاد فی الاسلام کو غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے، اور شاید اس کا شمار ان کے نمایندہ کاموں میں سے ایک کی حیثیت سے کیا جاتا ہے۔ جوانی کے ایام میں انھوں نے حب الوطنی کے جذبے کے تحت تحریکِ خلافت میں شمولیت اختیار کرلی اور برطانیہ مخالف تحریک میں ہندوئوں کے ساتھ تعاون کی پالیسی کو اختیار کیا اور ہندو لیڈروں کی بھی تعریف کی۔ بعدازاں وہ برطانوی سامراجی پالیسی کے تحت ہندو مسلم تنازعے کو ہندو اور عیسائیت اور اسلام کے تصورات کے موازنے سے جان گئے، اور الجہاد فی الاسلام میں انھوں نے مختلف مذاہب کے موازنے سے ’جنگ‘ کو موجودہ زمانے کے علامتی تصور کے طور پر پایا اور اسلام کے استحقاق کو ثابت کیا۔ اس لحاظ سے ۱۹۲۰ء کا دوسرا نصف مولانا مودودی کے لیے ایک فکری نقطۂ انقلاب ثابت ہوا۔ ۱۹۳۱ء میں مولانا مودودی حیدرآباد واپس چلے گئے، اور ۱۹۳۲ء میں انھوں نے مجلہ ترجمان القرآن کا اجرا کیا اور لکھنے لکھانے میں اور زیادہ مصروف ہوگئے۔۵؎
۱۹۲۰ء تا ۱۹۴۰ء تک جب مولانا مودودی کی تحریری سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں، اسی زمانے میں ایک ہندستانی مسلمان شاعر اپنی شاعری سے مسلمانوں میں جذبۂ عمل اُبھار رہا تھا۔ یہ علامہ محمد اقبال تھے جن کا نام عقیدت و احترام سے پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت سے لیا جاتا ہے۔
علامہ اقبال ۱۸۷۷ء میں سیال کوٹ، پنجاب میں پیدا ہوئے۔ ۱۸۹۹ء میں پنجاب یونی ورسٹی لاہور سے ایم اے کرنے کے بعد وہ لاہور میں ایک کالج میں استاد مقرر ہوگئے۔ انھیں پہلی مرتبہ اپنی ایک نظم کی وجہ سے اس وقت شہرت ملی جب یہ نظم ادبی مجلے مخزن کی افتتاحی اشاعت میں ۱۹۰۱ء میں شائع ہوئی۔ اس وقت وہ اپنے وطن ہندستان کی محبت میں رومانوی شاعری کر رہے تھے، جو مذہب اور قوم کے تصور سے ماورا تھی۔۶؎
۱۹۰۵ء تا ۱۹۰۸ء میں انھوں نے انگلستان (کیمبرج) اور جرمنی (میونخ) سے تعلیم حاصل کی اور میونخ یونی ورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۰۸ء میں انھوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی جب اس کی لندن شاخ قائم ہوئی۔ اس وقت تک وہ اس بات کے قائل ہوچکے تھے کہ اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن نسلی برتری اور ریاستی سطح پر قومیت کا تصور ہیں۔ ہندستان واپسی پر وہ مسلم فلسفی بن چکے تھے اور انھوں نے فلسفۂ خودی پیش کیا جو خودداری اور فعالیت کا علَم بردار تھا، اور ان نظریات کا اظہار ان کی بیش تر اُردو اور فارسی شاعری سے ہوتا تھا۔
ہندستان واپسی پر کچھ عرصہ وہ تعلیم و تدریس سے وابستہ رہے لیکن ۱۹۱۱ء میں انھوں نے وکالت شروع کر دی۔ ۱۹۱۵ء میں ان کے فارسی مجموعۂ کلام اسرارخودی کی اشاعت ہوئی۔ بعدازاں رموز بے خودی (۱۹۱۸ء فارسی زبان میں)، بانگِ درا (۱۹۲۴ء)، بالِ جبریل (۱۹۳۵ء)، ضربِ کلیم (۱۹۳۶ء) کی اشاعت سے ان کی بھرپور شاعری سامنے آئی۔ ان کا لاہور میں ۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء کو انتقال ہوا۔
علامہ اقبال جس طرح سے ہندوئوں سے تعاون اور ہندستان سے محبت کے موقف سے پیچھے ہٹے اور انھوں نے ریاست کی سطح پر قومیت کے تصور کی نفی کی، یہ اسی راستے کی نشان دہی کرتا ہے جو مولانا مودودی نے اپنایا تھا۔ صرف یہی بات ان دونوں کے درمیان باہمی رابطے کا باعث نہ تھی۔ مولانا مودودی نے ۱۹۲۹ء میں علامہ اقبال کا حیدرآباد میں لیکچر سنا (ابوراشد فاروقی، اقبال اور مودودی، ۱۹۷۷ء، ص ۲۳)،۷؎ جب کہ علامہ اقبال نے مولانا مودودی کی الجہاد فی الاسلام پڑھی اور مجلہ ترجمان القرآن بھی پڑھا، اور وہ ایک دوسرے کی تحریریں پڑھتے تھے (ایضاً،ص ۲۰-۲۱)۔ تاہم، اس بات کو واضح کرنا بہت مشکل ہے کہ ایک کی سوچ پر دوسرے کا اثر تھا، البتہ یہ قیاس آرائی کی جاسکتی ہے کہ مولانا مودودی علامہ اقبال کے تصوارات سے گہری ہمدردی رکھتے تھے (بشمول شاعری جس میں انھوں نے اپنے جذبات کا اظہار کیا)۔ وہ اپنی تحریروں میں اقبال کے اشعار کا حوالہ بھی دیتے تھے، جیساکہ انھوں نے اپنے مقالے ’قومیت اسلام‘ میں جو کہ ۱۹۳۳ء میں شائع ہوا، علامہ اقبال کے سات اشعار کا حوالہ دیا (مولانا مودودی، مسئلہ قومیت،۱۹۷۸ء، ص۵۷)۔۸؎ جس طرح جاپانی کلاسیکی چینی شاعری سے بہت مانوس تھے، اسی طرح ہندستان کے مسلمان اسکالروں میں بھی اقبال کی شاعری بہت مقبول تھی۔۹؎
اقبال کی نظم ’ترانۂ ملّی‘ اسی انداز میں لکھی گئی ہے جس انداز میں ’ترانۂ ہندی‘ لکھی گئی تھی، جو کہ ان کے ابتدائی دور کی شاعری کی نمایندگی کرتی ہے۔ دونوں کے موازنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا ہندستان کے لیے محبت کا جذبہ اُمت کی طرف منتقل ہوگیا ہے:
ترانۂ ہندی
سارے جہاں سے اچھا ہندستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
پربت وہ سب سے اُونچا، ہمسایہ آسماں کا
وہ سنتری ہمارا، وہ پاسباں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بَیر رکھنا
ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندستان ہمارا
ترانۂ ملّی
چین و عرب ہمارا، ہندستان ہمارا
مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں، وہ پاسباں ہمارا
تیغوں کے سایے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا
مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری
تھمتا نہ تھا کسی سے سیلِ رواں ہمارا
(بانگِ درا)
اپنی نظم ’وطنیت‘ (یعنی وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے) میں علامہ اقبال اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وطن کا مغربی تصور جس کا سیاست دان تذکرہ کرتے ہیں، اسلام کے وطن کے تصور سے مختلف ہے جو کہ کسی مخصوص خطے تک محدود نہیں ہے۔ یہاں بھی اُمت کے تصور اور مغرب اور اسلام کے تصورات کے درمیان فرق کو محسوس کیا جاسکتا ہے:
یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے
غارت گر کاشانۂ دین نبویؐ ہے
بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے، تو مصطفوی ہے
نظارۂ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے
ہو قیدِ مقامی تو نتیجہ ہے تباہی
وہ بحر میں آزادِ وطن صورت ماہی
گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشادِ نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے
(بانگِ درا)
ایک مضمون ’قومی زندگی‘ میں جو کہ ان کے یورپ روانگی سے تھوڑا عرصہ قبل مجلہ مخزن میں دو اقساط میں ۵-۱۹۰۴ء میں شائع ہوا، اقبال نے ’اسلام کی نئی تعبیر‘ کی ضرورت کے بارے میں لکھا:’’یہ بہت اہم دور ہے، اس وقت تک کچھ بھی نہیں ہوسکتا جب تک تمام مسلمان متحد نہ ہوں اور روحانی انقلاب کے لیے متوجہ نہ ہوں… اگر کوئی جاپان کی تاریخ سے سبق سیکھنا چاہے (جو جدید تقاضوں کی اہمیت کو جان گیا اور اپنے ثقافتی، اخلاقی اور سیاسی حالات کو ان کے مطابق تبدیل کرکے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا)، موجودہ حالات میں یہ ملک ہمارے لیے ایک بہترین نمونہ ہے۔ لہٰذا دو باتیں بہت اہم ہیں۔ وہ ہیں ثقافتی اصلاحات اور تعلیم کا عام ہونا۔ مسلمانوں کے لیے ثقافتی اصلاحات کا سوال درحقیقت ایک مذہبی سوال ہے۔ یہ اس لیے کہ اسلامی ثقافت لازماً وہ ٹھوس شکل ہے جو مذہب اسلام سے اخذ کی گئی ہے، اور ہماری ثقافتی زندگی میں کوئی ایک پہلو بھی ایسا نہیں ہے جو مذہب کے اصولوں سے آزاد ہو۔ میں اس اہم پہلو کو دین کے حوالے سے زیربحث نہیں لانا چاہتا، چونکہ ہمارے رہن سہن میں ایک بڑی تبدیلی واقع ہوچکی ہے، اس لیے کہ یہ ایک ثقافتی تقاضا ہے کہ فقہا کے علمی کام کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے جسے اپنی کامل صورت میں اسلامی شریعہ کہا جاتا ہے۔ میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام کے مصدقہ اصولوں میں کوئی خامی ہے جس کی وجہ سے وہ ہماری موجودہ ثقافتی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتے، بلکہ میرا مطلب ہے کہ فقہا نے موقع محل کی مناسب سے قرآن و حدیث کے جامع اصولوں کی روشنی میں جو فیصلے کیے وہ یقینا ایک خاص زمانے کے لیے تو قابلِ عمل تھے لیکن موجودہ دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں‘‘۔ (اقبال، ۱۹۸۴ء، ص ۱۵۴-۱۵۵)
اس زمانے میں اقبال کو ایک خدشہ لاحق ہوگیا کہ ہندو، جاپانیوں کی طرح جدید دور کے تقاضوں کے پیش نظر اپنی اصلاح کی ضرورت سے آگاہ تھے لیکن مسلمان ابھی تک اس سے باخبر نہ تھے۔ انھوں نے اس پر استدلال کیا کہ مسلمانوں کو اپنی خودی کو بیدار کرنا چاہیے نہ کہ حالت ِ جمود پر مطمئن رہنا چاہیے۔ انھیں آزادی کے حصول کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔ علامہ اقبال نے مولانا مودودی کے ساتھ اپنی اس فکر پر تبادلۂ خیال کیا کہ مسلمانوں کی نوآبادیاتی نظام سے آزادی ایک سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ عالمِ اسلام سے متعلق ایک اہم سوال ہے۔
یورپ سے واپسی پر انھوں نے اپنے دوستوں سے بات چیت کرنا شروع کی کہ وہ پنجاب میں اسلام کے مطالعے کے لیے ایک ادارے کی تعمیر چاہتے ہیں جو کہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے تاکہ اسلام کی تشکیل جدید کی جاسکے۔ حیدرآباد میں علامہ اقبال کے جس لیکچر میں مولانا مودودی نے شرکت کی تھی، اس میں بھی انھوں نے اسلام کی جدید دور کے تقاضوں کے پیش نظر سائنسی بنیادوں پر تشکیل جدید پر زور دیا تھا۔ یہ لیکچر ان چھے لیکچروں میں شامل تھا جو تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کے نام سے ۱۹۳۰ء میں شائع ہوئے (علامہ اقبال، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ۱۹۹۶ء)۔۱۰؎ ’اسلام کی تشکیل جدید‘ کے لیے ایک اسلامی تحقیقی ادارے کے قیام کا منصوبہ ان کی زندگی کے آخری برسوں میں ثمرآور ہوا۔ یہ دارالاسلام تھا!(جاری)
۱- یہ مقالہ یامانے سو (Yamane So) کا ۲۰۰۱ء میں لکھے گئے مضمون کا نظرثانی شدہ انگریزی ترجمہ ہے۔
۲- اسی طرح مولانا مودودیؒ جہاد کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’[مغرب کے طرزِ جنگ کے نتیجے میں] یہی فساد و بدامنی، طمع و ہوس، بُغض و عداوت اور تعصب و تنگ نظری کی جنگ ہے جس کی آگ کو فرو کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو تلوار اُٹھانے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا: ’’جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم ہوا ہے، اور اللہ ان کی مدد پر یقینا قدرت رکھتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے بے قصور نکالے گئے ہیں۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ کہتے تھے: ہمارا رب اللہ ہے‘‘ (الحج ۲۲:۳۹-۴۰)۔ (الجہاد فی الاسلام، ص ۳۹-۴۰) یہ قرآن کی پہلی آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قتال کی اجازت دی ہے۔
۳- مولانا مودودیؒ عالمِ اسلام میں وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے مغرب کے ’اقتداراعلیٰ‘ کے سیاسی تصور کو حاکمیت یا حاکمہ کے مفہوم سے سمجھا (Kosugi Yasushi، The Middle East today and Islamic Politics ۱۹۹۴ء،ص ۳۱)۔ وہ اس تصور کے نقاد تھے، لکھتے ہیں: ’’آج کل حاکمیت کے معروف تصور کی جمہوریت کے نام پر بہت زیادہ تعریف کی جاتی ہے، لیکن موجودہ ریاستوں میں بہت کم تعداد میں ایسے لوگ ہیں جو عوام کی آسانی کے لیے قانون سازی کرتے ہیں اور ان کا نفاذ بھی کرتے ہیں‘‘ ( مولانامودودیؒ، ۱۹۹۰ء، ص ۲۵)۔ مزید زور دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’انتخابات ایک جمہوری حکومت کے تحت منعقد ہوتے ہیں، لیکن یہ اس لحاظ سے نقصان دہ ہیں کہ جو لوگ دھوکا دیتے ہیں وہ اُنھی کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں جنھیں دھوکا دیا جاتا ہے، اور وہ ان پر حاکم بن جاتے ہیں‘‘۔ انھوں نے اس زیادتی کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا کہ یہ امریکا، برطانیہ اور کئی ممالک میں پائی جاتی ہے جو جمہوریت کے چیمپئن ہیں کہ جیسے یہ جنت ہوں‘‘۔ انھوں نے یہ سوال بھی اُٹھایا کہ ایک جمہوری نظام کے تحت معاشرے میں قوانین متعین نہیں ہیں بلکہ یہ عوام کی خواہشات کے بدلنے سے تبدیل ہوجاتے ہیں اور اچھے اور بُرے معیار کا انحصار اس پر ہے کہ کون منتخب ہوا ہے (بطور حکمران وہ قوانین تبدیل کرسکتا ہے)۔ (ایضاً، ص ۶۷)
جمہوریت سے متعلق یہ سوالات بالآخر یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ اقتداراعلیٰ کہاں ہے؟ کیونکہ یہ اللہ ہے ’’ہرچیز پر جس کا اقتدار ہے‘‘ (المومنون۲۳:۸۸)۔ مولانا مودودی نے حوالہ دیتے ہوئے تاکید کی کہ’’لوگو، جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اپنے رب کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو‘‘ (الاعراف ۷:۳)، اور کہا کہ موجودہ دور میں خرابی کی جڑ انسان کے ذریعے انسان پر حکومت کے مغالطے میں ہے جو کہ خدا کے علاوہ حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کرتا ہے۔ انھوں نے اس بات کی بھی نشان دہی کی کہ اس کے نتیجے میں ہی بہت سے مسائل، مثلاً نسلی تفاوت اور امپریلزم سر اُٹھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ حاکمیت کے معروف تصور پر تنقید کرتے ہوئے جس کے نتیجے میں حکمران اور جن پر حکومت کی جاتی ہے (عوام) اور بدعنوان لوگوں کے درمیان تعلق پیدا ہوتا ہے، وہ زور دیتے ہیں کہ حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے۔ اس آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہ: ’’خبردار رہو! اسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے‘‘ (الاعراف ۷:۵۴)، انھوں نے واضح کیا کہ ’’فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے‘‘ (یوسف ۱۲:۴۰)۔ انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اللہ جو حاکمیت اعلیٰ کا مالک ہے، وہی قانون ساز ہے، اور ایک اسلامی ریاست پر شریعت (شریعہ) اور مشاورت (اجماع) کے ذریعے ہی حکومت کی جانی چاہیے‘‘ ۔ (مولانا مودودی، اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات،۱۹۹۵ء، ص ۱۳۲-۱۳۴)
۴- یہ تاثرات ۲۵؍اپریل ۱۹۵۴ء کے ہفت روزہ چٹان میں شائع ہوئے۔
۵- ترجمان القرآن میں لکھنے والوں میں مولانا مودودیؒ کے بڑے بھائی ابوالخیر مودودی، مولانا مناظراحسن گیلانی، مولانا عبدالماجد دریابادی، مولانا عبداللہ عماری اور مولانا ابوالخیر محمدخیراللہ شامل ہیں۔
۶- علامہ اقبال کے حب الوطنی کے ابتدائی دور کے بارے میں جاپانی میں مطالعے کے لیے دیکھیے: Matsumura، ۱۹۸۲ء اور ۱۹۸۳ء۔
۷- دسمبر ۱۹۲۸ء اور جنوری ۱۹۲۹ء میں علامہ اقبال نے اسلام کی تشکیل جدید پر مسلم ایسوسی ایشن آف مدراس کی دعوت پر مدراس (چنائی)، حیدرآباد اور علی گڑھ میں لیکچر دیے۔
۸- مولانا مودودی، ۱۹۷۸ء ،ص ۵۷۔ یہ مقالہ ترجمان القرآن میں نومبر اور دسمبر کے شماروں میں شائع ہوا۔ یہ درست ہے ، جیساکہ ولی رضا نصر نے اس کی نشان دہی کی ہے کہ مولانا مودودی کے حامیوں میں اقبال اور مودودی کے درمیان تعلق اور ان کی سوچ کی ہم آہنگی پر زور دینے کا رجحان ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اس کا مقصد دونوں شخصیات کے درمیان تعلق کے ذریعے مؤخرالذکر کا دفاع کرنا ہے، جب کہ علامہ اقبال پاکستان کے قومی شاعر ہیں اور مولانا مودودی وہ ہیں جنھوں نے سیکولر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کی تھی۔ لیکن جو بات اہم ہے وہ یہ حقیقت ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی تحریروں کا مطالعہ کرتے تھے، اور بالواسطہ اور بلاواسطہ دونوں نے ایک دوسرے کو متاثر بھی کیا۔ (ولی رصا نصر، ۱۹۹۶ء، ص ۳۶، ۱۵۳)
۹- علامہ اقبال کی شاعری ا س زمانے میں کس حد تک مسلمانوں پر اثرانداز تھی، اس کی ایک مثال یہ بیان کی جاتی ہے کہ ۱۹۴۶ء میں، بمبئی میں ہڑتالوں کے دوران مزدور نعرے لگاتے تھے: علامہ اقبال زندہ باد! (Kagaya، ۱۹۶۰ء)۔ کاگایا کے مطابق اقبال کی سوچ ۱۹۳۰ء کے ترقی پسند بھارتی مسلمان دانش وروں کی ترجمان تھی، اور یہ ان کی خامیوں اور طاقت کی ایک عمدہ مثال تھی (ایضاً، ص ۸۵)، جب کہ ۱۹۶۰ء میں طلبہ نظریاتی اور جذباتی دونوں حوالوں سے اقبال کے اصلاح پر مبنی تصورات کی بنیاد پر ایک اسلامی حکومت کے قیام کے خواہاں تھے‘‘۔ (Loc.cit)
۱۰- یہ کتاب نظرثانی کے بعد اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس نے ۱۹۳۴ء (اقبال، ۱۹۹۶ء) میں دوبارہ شائع کی۔ یہ اقبال کا بہترین نثری کام ہے۔