پروفیسر ابصار عالم ؒ


برصغیر اور پاکستان میں اسلامی تحریکات کی تاریخ کو سمجھنا اس کے بغیر ممکن نہیں کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ (شیخ احمد سرہندیؒ) کے کیے ہوئے کام اور ان کو پیش آنے والی کش مکش کا فہم حاصل کیا جائے۔ وہی جہانگیر جوبادشاہی سیاست کے تقاضوں اور مصاحبوں کی دخل اندازیوں سے ایک وقت میں حضرت مجدد سے عناد رکھتا ہے اور ان پر الزامات لگاتا اور انھیں حوالۂ زنداں کرتا ہے، بعد میں جب وہ غلط فہمیوں کے غبار سے نکل آتا ہے تو شیخ سرہندیؒ  سے استفادہ بھی کرتا ہے ۔ نتیجہ یہ کہ دورِ اکبر ی کے پیدا کردہ احوال میں اصلاح کا آغاز ہوجاتا ہے ۔ یہاں تک کہ اورنگ زیب عالم گیر کا زمانہ آتا ہے اور وہ خلاف ِ اسلام تصورات ، معمولات اور قوانین وشعائر کا قلع قمع کر کے اسلامی نظام کے عملی نفاذ کی کوشش کرتا ہے۔

حضرت مجددؒ کے کام کا مطالعہ کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ انھوں نے سیاسی دائرے میں احیاے اسلام کا ایک بالکل الگ طریقہ اختیار کیا۔ اہل قوت واختیار درباریوں اور حاکموں میں سے اچھے لوگوں تک خط کتابت کے ذریعے دعوتِ حق پہنچائی اور اقامت دین کے فریضے میں حصہ لینے کے لیے ان کو اُبھارا ۔ رفض وبدعات اور ہندوانہ تہذیب کے غلبے کو ختم کرنے اور طریقِ نبوتؐ پر کاربند ہونے کی دعوت دی۔ اللہ تعالیٰ کی تائید سے یہ کوشش کامیاب ہوئی۔

اس کوشش میں سبق یہ ہے کہ کبھی اقتدار کی اصلاح کے لیے دوسرے راستوں سے سامنے آ کر مؤثر کام کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں اہل قوت واختیار میں سے نسبتاً اچھے افراد کو رشدوہدایت کی روشنی سے بہرہ مند کرنے کی راہیں نکالنی پڑتی ہیں۔ اس خاص طریقِ تحریک کا بہترین نمونہ حضرت مجددؒ اور آپ کے مریدوں کے کام میں ملتا ہے۔ (ادارہ)

شہنشاہ جہانگیر اپنی خود نوشت تزک جہانگیری میں سنہ جلوس ۱۴ماہ خورداد۲۲ کوتحریر کرتا ہے کہ: ’’انھی دنوں مجھ سے عرض کیا گیا کہ شیخ احمد نامی ایک جعل ساز{ FR 644 } نے سرہند میں مکرو فریب کا جال بچھا کر بھولے بھالے لوگوں کو پھانس رکھا ہے۔ [اس شخص کے مقرر کردہ] یہ خلیفے، لوگوں کو فریب دینے اور معرفت کی دکان داری کرنے میں بہت پختہ ہیں۔ اُس نے اپنے مریدوں اور معتقدوں کے نام وقتاً فوقتاً جو واہیات خطوط لکھے ہیں انھیں مکـتوبات کے نام سے ایک کتاب کی شکل میں جمع کیا ہے۔ اس دفترِ بے معنی میں اس نے بہت سی ایسی بےہودہ باتیں تحریر کی ہیں جو کفر کی حد تک پہنچتی ہیں۔ ایک مکتوب میں اس نے لکھا ہے کہ مقامات سلوک طے کرتے ہوئے وہ   مقام ذی النورین میں پہنچا جو نہایت عالی شان اور پاکیزہ تھا۔ وہاں سے گزر کر مقامِ فاروق اور مقامِ فاروقؓ سے گزر کر مقامِ صدیقؓ میں پہنچا۔ پھر وہاں سے گزر کر مقامِ محبوبیت میں پہنچا جو نہایت منور ودل کش تھا۔ اس مقام میں اُس پر مختلف روشنیوں اور رنگوں کے پر تو پڑتے رہے۔ گویا استغفراللہ بزعم خویش وہ خلفا کے مرتبے سے بھی بڑھ گیا اور ان سے عالی تر مقام پر فائز ہوا۔{ FR 645 } اس نے اس طرح کی اور بھی بہت سی گستاخانہ باتیں (خلفا کی شان میں ) لکھی ہیں جن کو تحریر کرنا طوالت اور خلفا کی شان میں بے ادبی کا باعث ہو گا۔ مذکورہ وجوہ کی بنا پر میں نے اُسے دربار میں طلب کیا تھا۔ حسب الطلب حاضر خدمت ہوا تو میں نے اس سے جتنے سوالات بھی کیے ان میں سے کسی ایک کا بھی کوئی معقول جواب نہیں دے سکا۔ ’بے عقل وکم فہم ‘ہونے کے علاوہ ’ مغرور‘ و’خود پسند ‘ بھی نکلا ۔ چنانچہ میں نے اس کے حالات کی اصلاح کے لیے یہی موزوں سمجھا کہ اسے کچھ دنوں کے لیے قید رکھا جائے، تا کہ اس کے مزاج کی شوریدگی اور اس کے دماغ کی آشفتگی جاتی رہے اور عوام میں جو شورش پھیلی ہوئی ہے وہ تھم جائے۔ چنانچہ اسے اَنی راے سنگھ دلن کے حوالے کیا کہ اسے قلعہ گوالیار میں قید رکھے‘‘۔{ FR 646 }

شہنشاہ جہانگیر (۱۵۶۹ء تا ۱۶۲۷ء) کی یہ اپنی تحریر بہت واضح ہے جس میں کسی ابہام کی گنجایش نہیں۔ پہلی بات تو یہ کہی گئی کہ ’’شیخ احمد نامی ایک جعل ساز نے سرہند میں مکروفریب کا جال بچھا کر بھولے بھالے لوگوں کو پھانس رکھا ہے۔ [حضرت مجدد کے مقرر کردہ خلفا] یہ خلیفے، لوگوں کو فریب دینے اور معرفت کی دکان داری کرنے میں بہت پختہ ہیں‘‘۔

جہانگیر شیخ احمد سرہندی ؒ کا تذکرہ اس سے قبل اپنی تـزک میں کہیں نہیں کرتا۔ پہلی ہی بار جب آپ کا ذکر کرتا ہے تو ’جعل ساز ‘ کہتا ہے اور مکروفریب کا جال بچھانے کا الزام عائد کرتا ہے جس میں بھولے بھالے پھنس گئے ہیں اور یہ کہ یہ خلیفے لوگوں کو فریب دینے اور معرفت کی دکان داری کرنے میںبہت پختہ ہیں۔ 

ان الزامات میں پہلے الزام، یعنی سرہندمیں مکروفریب کا جال بچھا کر لوگوں کو پھانسنے کی حقیقت یہ ہے کہ تزک جہانگیری ، اقبال نامہ جہانگیری اور منتخب اللباب کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ سرہنداُس دور کا ایک اہم شہر تھا۔ اسے انتظامی ، سیاسی اور تجارتی مرکزیت حاصل تھی۔ یہاں جہا نگیر اور شاہ جہاں [۱۵۹۲ء-۱۶۶۶ء] نے متعدد بار قیام کیا اور یہاں سے گزرے اور جہانگیر تو  سنہ جلوس ۱۴ ہی میں جمعرات ۱۲ دی ماہ کو، یعنی شیخ احمد سرہندی کو قلعہ گوالیار میں قید کا حکم دینے کے چھے ماہ بعد سرہند میں قیام کرتا ہے، اور سرہند میں باغات لگوانے اور عمارات سازی کے لیے خاص احکام بھی دیتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سر ہند کو اس دور میں ایک اہم مقام حاصل تھا۔ (تزک جہانگیری، اُردو، ص ۵۸۵)

دوسرا الزام، یعنی ’’ہر شہر وقریہ میں خلیفے مقرر کرنا جو لوگوں کو فریب دینے اور معرفت کی دکان داری چلانے میں پختہ ہیں‘‘۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ آپ کی تحریک اتباعِ سنت ِنبویؐ تھی، جس کی ابتدا آپ نے ۱۶۰۳ء میں کی تھی۔یہ تحریک ۱۶۱۹ء تک، یعنی جس سال آپ کو دربار میں طلب اور قلعہ گوالیار میں قید کیا گیا، بہت ہی وسیع ، ہمہ گیر اور مقبول ہو چکی تھی اور اس کے اثرات ملک کے دُور دراز گوشوں تک پھیل گئے تھے اور آپ کے معتقدین ومتاثرین منظم طور پر احیاے اسلام کے لیے کام کررہے تھے۔ آپ کے مریدین ذہین ، باصلاحیت ،اہل علم ، معاملہ فہم اور سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد تھے، جن کی نگاہیں دور رس اور فکر صائب تھی۔ اس لیے ان کی باتوں میں اثر تھا۔ لوگ ان کے علم وعمل سے متاثر ہوتے تھے۔ پھر یہ لوگ محض قول ہی کے دھنی نہ تھے بلکہ جو کچھ کہتے تھے اس پر عمل بھی کرتے تھے۔ ان کی زندگیاں کسی مفاد ،تضاد اور خود غرضی پر مبنی نہ تھیں۔ یہ اخلاص وعمل کے پیکر تھے۔ اس لیے لوگ نہ صرف ان کی باتیں سنتے تھے بلکہ عمل بھی کرتے تھے اور ان کی آواز پر لبیک بھی کہتے تھے۔

شیخ احمد سرہندیؒ (حضرت مجدد الف ثانیؒ ) سرہند ہی میں ۱۴شوال ۹۷۱ھ (۲۶جون ۱۵۶۴ء) میں پیدا ہوئے۔ اس زمانے میں شہنشاہ اکبر (۱۵۵۶ء تا ۱۶۰۵ء) ہندستان پر حکمران تھا۔ اسی کے آخری عہد ۱۵۹۹ء میں، شیخ سرہندیؒ ،حضرت خواجہ باقی باللہ ؒ کے مرید ہوتے ہیں اور اپنے پیرومرشد کے ۱۶۰۳ء میں انتقال کے بعد جہانگیر کی تخت نشینی سے دوسال قبل رُشدوہدایت، یعنی تحریک احیاے اسلام کا باقاعدہ آغاز کرتے ہیں۔ آپ کے متعلق حضرت خواجہ باقی باللہ ؒ نے کہا تھا کہ شیخ احمد ’کثیر العلم وقوی الارادہ ‘ ہے۔ چنانچہ حضرت خواجہ باقی باللہؒ کے جانشین ہوتے ہی آپ نے اتباعِ سنت نبویؐ، ترویجِ شریعت اور نفاذِ شریعت کا آغاز کیا۔

اس سلسلے میں ابتدا ہی میں شیخ احمد سرہندیؒ نے ایک رسالہ بہ عنوان اثباۃ النبوۃ{ FR 649 }  لکھا    جس میں دلائل کے ذریعے نبوت کی غایت ، اہمیت ، افادیت اور ہمہ گیریت کو ثابت کیا۔ اور اکبر کے نصف صدی کے دورِ حکومت میں ’عقل، فلسفہ ، مصلحت ملکی تجربہ‘ جو بطور معیار کے اختیار کر لیا گیا تھا اس کی خامیوں اور کمزوریوں کی نشان دہی کی۔ دوسرے الحاد وبے دینی کی سرپرستی وفروغ سے ایک ایسا گروہ پیدا ہو گیا تھا جو اکابر صحابہ کرامؓ کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار تھا۔ آپؒ نے فکرکی کجی کو دُور کرنے اور ذہن وفکر کی اصلاح کے لیے رسالہ ردِ ر وافض { FR 650 } تحریر کیا جس میں خلفاے راشدینؓ کی پاکیزگی اور عظمت کو قرآن وسنتِ رسولؐ، احادیث اور عقل کی روشنی میں پیش کیا۔ خلفاے راشدینؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ کے بارے میں جو گمراہ کن باتیں مشہور عام ہیں، ایسی غلط باتوں کی تردید کی۔ اس کے علاوہ جہانگیر کے عہد کے اعلیٰ مناصب پر فائز متعدد امراے مملکت کو  مکتوبات لکھے جن کی معرفت نہ صرف ان کے ذہن وفکر کی تطہیر کی، بلکہ غلط تصورات ، عقائد اور باطل نظریات سے آگاہ کرکے انھیں ترویجِ شریعت اور نفاذ شریعت کی ترغیب دی۔ چنانچہ شہنشاہ جہانگیر کی تخت نشینی اور حکومت کے حصول میں شیخ فرید بخاری کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔

شیخ فرید بخاری، حضرت خواجہ باقی باللہؒ کے مرید اور اس حیثیت سے شیخ احمد سرہندیؒ (حضرت مجدد الف ثانیؒ ) کے پیر بھائی اور اکبر کے آخری دور حکومت میں مملکت کے اہم عہدے دار تھے۔ شیخ احمد سرہندی ؒ نے اس زمانے میں جب اکبر کا آخری دورِحکومت تھا اور اس کے بعد جانشینی کا مسئلہ در پیش تھا اور حکومت کے دعوے دار بھی موجود اور کوشاں تھے، تو آپ نے شیخ فرید بخاری کے نام یکے بعد دیگرے ۱۲ خطوط مسلسل لکھے ہیں جو مکتوبات امام ربانی کی جلد اوّل میں ۴۳تا ۵۴ مسلسل ہیں، اور شیخ فرید بخاری جہانگیر کو تخت نشین کرانے میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔ جہانگیر ان کی اس خدمت کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں انعامات واکرامات کے علاوہ ’صاحب السیف والقلم‘ کا خطاب دیتا ہے۔(تزک جہانگیری، ص ۴۵)

 جہانگیر کے مقابلے میں خسرو (اکبر کا پوتا اور جہانگیر کا بیٹا) جب دوبارہ سر اُٹھاتا ہے تو شیخ فرید بخاری ہی تندی و تیزی سے خسرو کا تعاقب کرتے ہیں اور دوبارہ شکست دے کر اس کو ناکام کرتے ہیں اور جب جہانگیر کو اس کامیابی سے مطلع کرتے ہیں، تو جہانگیر بہت خوش ہوتا ہے اور قاصد کو ’خوش خبر‘ کا خطاب دیتا ہے اور انھیں ’مرتضیٰ خاں‘ کا خطاب اور دیرو وال کا علاقہ بطور جاگیر دیتا ہے۔(تزک جہانگیری، ص ۹۵)

شیخ فرید کے علاوہ جہانگیر کے عہد کے متعدد امراے مملکت، مثلاً عبدالرحیم خان خاناں، مرزا حسام الدین ، خاںجہاں خاں، جباری ، مرزا فتح اللہ ، حکیم مرزا دواب ، قلیج خاں، بہادر خاں صدر جہاں، خواجہ جہاں، لالہ بیگ ، خان اعظم وغیرہ امراے مملکت کو بھی خطوط لکھے ہیں، جن کی تعداد  کم وبیش ایک سو (۱۰۰) ہوتی ہے۔ یہ تمام خطوط جلد اول ہی میں موجود ہیں۔ ان تمام مکتوبات کا ایک ہی مرکزی موضوع تھاکہ ’’وہ اپنے عہد ے ومنصب سے فائدہ اُٹھا کر شریعت کو نافذ کریں‘‘۔ اس لیے جہانگیر کا یہ الزام کہ شیخ احمد ایک ’جعل ساز ‘ ہے جس نے مکروفریب کا جال بچھا رکھا ہے، اور یہ خلیفے لوگ فریب دینے اور معرفت کی دکان داری کرنے میں بہت پختہ ہیں، سراسر ایک لغو الزام واتہام ہے جس کی کوئی تاریخی حقیقت اور صداقت نہیں ہے اور خود جہانگیر نے بھی اپنے اس دعوے یا الزام میں کوئی واقعہ تحریر نہیں کیا ہے اور نہ کوئی ثبوت ہی پیش کیا ہے۔

دوسرے یہ لکھنا کہ ’’اس نے اپنے مریدوں اور معتقدوں کے نام وقتاً فوقتاً جو واہیات خطوط لکھے ہیں انھیں مکـتوبات کے نام سے ایک کتاب کی شکل میں جمع کیا ہے وغیرہ وغیرہ‘‘۔ جہانگیر کا یہ اشارہ شیخ احمد سرہندی کے مکتوبات کے اس مجموعے کی طرف ہے جو ۱۶۱۶ء بہ مطابق ۱۰۲۵ھ (دربار میں طلبی اور قلعہ گوالیار میں قید سے تین سال قبل) ایک کتابی شکل میں شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے میں ۳۱۳مکتوبات ہیں اور یہ تعداد اصحابِ بدر کی رعایت پر ہے۔ اصحاب ِبدر کو تاریخ اسلام میں ایک بہت ہی بنیادی ومرکزی اہمیت حاصل ہے۔ انھی اصحاب نے رمضان المبارک۲ھ میں بمطابق ۶۲۴ء میں قلیل تعداد اور سازوسامان اور اسلحے کی کمی کے باوجود ، لشکر کفار جو تعداد ، سازوسامان اور اسلحے کی فراوانی میں فوقیت رکھتا تھا، اس پر نہ صرف کاری ضرب لگائی بلکہ انھیں شکست فاش دے کر مسلمانوں کے حوصلے اور عزم کو بلند کر دیا اور اہل کفر کے نخوت وپندار کو پاش پاش کر دیا۔ یہ  اہلِ اسلام اور اہل کفر کے درمیان پہلی مسلح جنگ تھی جن میں اہل اسلام کو اللہ کی تائید ونصرت سے کامرانی حاصل ہوئی اور اہل کفر کو شکست وہزیمت سے دوچار ہونا پڑا ۔

اس کتاب کا تاریخی نام دُرّالمعرفت ہے۔ یہ تمام مکتوبات بلا شک مریدین ومعتقدین ہی کو لکھے گئے جن کا مرکزی موضوع توحید ، رسالت ، کفروشرک ، شریعت کی اہمیت وعظمت ، ترویجِ شریعت اور اتباعِ سنتِ نبویؐ کی ضرورت ہے، جو آج بھی دیکھے اورپڑھے جا سکتے ہیں، جوبظاہر ایک فرد کے نام تحریر کیے گئے ہیں اور جدید اصطلاح میں رسالہ یا پمفلٹ سے تعبیر کیے جا سکتے ہیں۔ یہ مکتوبات جن موضوعات یا مسائل پر لکھے گئے ہیں ان کا تعلق ہر دور میں ہر مسلمان سے ہے۔ یہ خطوط چوںکہ عام افادیت اور عمومی دل چسپی کے تھے اور کسی وقتی یا ہنگامی مسائل سے متعلق نہ تھے، بلکہ ان کی مستقل اہمیت تھی جن میں اسلام کے بنیادی مسائل توحید، رسالت ، آخرت اور اسلامی تعلیمات کی توضیح وتشریح اور اسلامی تاریخ کے بعض واقعات کی تعبیر وتشریح اور مختلف معاملات کے متعلق اسلام کی حدود وغیرہ پر بحث تھی۔ آپ کے حلقۂ ارادت واثر میں روز بروز اضافہ ہونے کی وجہ سے ان کی مانگ میں اضافہ ہورہا تھا۔ اس لیے عمومی مفاد کے پیش نظر شائع کرائے تا کہ یہ خطوط یک جا مل سکیں اور لوگ ان سے استفادہ کر سکیں۔ جہاں تک ان خطوط کے مجموعے کو ’دفتر بے معنی ‘ کہنے کا تعلق ہے تو ’ناطقہ سر بگر یباں ہے اسے کیا کہیے ؟‘ایسے اہم مسائل اور مباحث پر مشتمل مجموعے کو ’دفترِ بے معنی‘ وہی شخص کہہ سکتا ہے جو بصارت وبصیرت سے عاری ہو یا غیظ وغضب نے اس کی آنکھوں پر پردے ڈال دیے ہوں اور عقل وفہم کے دروازے بند کر دیے ہوں۔

یہ خطوط آج بھی ملتے ہیں اور قبولیت عام کا یہ عالم ہے کہ متعد د بار فارسی اور اردو میں شائع ہوچکے ہیں۔ ان کے مطالعے سے حقیقت شناس اور تاریخ کا غیر جانب دار طالب علم بہ آسانی سمجھ سکتا ہے کہ جہانگیر کے الزام واتہام کی کیا نوعیت اور حقیقت ہے ؟ اور اس میں کہاں تک صداقت ہے ؟ اور یہ خطوط بقول جہانگیر کے ’واہیات ‘ اور ’دفتر بے معنی‘ ہیں؟ یا واقعی دُرّالمعرفت؟

جہانگیر اپنے عائد کردہ الزام واتہام کے لیے بطور ثبوت حضرت مجدد کے ایک خط کی عبارت پر یوں اعتراض اُٹھاتا ہے کہ ـ:

مقاماتِ سلوک طے کرتے ہوئے وہ (یعنی حضرت مجدد ) مقام ذی النورین میں پہنچا جو نہایت عالی شان اور پاکیزہ تھا۔ وہاں سے گزر کر مقامِ فاروق ؓ سے گزر کر مقامِ صدیقؓ  میں پہنچا۔ پھر وہاں سے گزر کر مقامِ محبوبیت میں پہنچا جو نہایت منور اور دلکش تھا۔ اس مقام میں اس پر مختلف روشنیوں اور رنگوں کے پر تو پڑتے رہے۔ گویا استغفراللہ بزعمِ خویش وہ خلفا کے مرتبے سے بھی بڑھ گیا اور ان سے عالی تر مقام پر فائز ہوا۔  اس نے اس طرح کی اور بھی بہت سی گستاخانہ باتیں (خلفا کی شان میں ) لکھی ہیں، جن کو تحریر کرنا طوالت اور خلفا کی شان میں بے ادبی کا باعث ہو گا۔

یہ اقتباس مذکورہ الزام کا ثبوت تو درکنار خود ایک الزام واتہام کی نوعیت رکھتا ہے اور یہ الزام کہ شیخ احمد سرہندی نے خلفا کی شان میں گستاخانہ باتیں لکھی ہیں اور اپنے آپ کو خلفا سے افضل بتایا ہے اور ان سے عالی مقام پر فائز ہوا، یہ مزید ایک الزام ہوا۔

قبل اس کے کہ اس الزام پر کلام کیا جائے یہ مناسب ہو گا کہ ’ اس عبارت ‘ کے سلسلے میں چند نہایت اہم اور قابلِ غور پہلو پیش نظر رکھے جائیں۔

جہانگیر نے اپنی تزک میں جس ’عبارت‘ کا اقتباس پیش کیا ہے، یہ شیخ احمد سرہندی کے مکتوب یا زدہم (۱۱) کی عبارت ہے۔ یہ خط شیخ احمد سرہندی نے اپنے پیرو مرشد خواجہ باقی با للہ کو تحریر کیا تھا اور خواجہ باقی باللہ سے شیخ احمد سرہندی ۱۵۹۹ء میں بیعت ہو گئے تھے اور خواجہ صاحب کا انتقال ۱۶۰۳ء (۱۰۱۲ھ) میں ہوا، یعنی آپ کے مرید ہونے کے بعد چار سال تک وہ بقید ِ حیات رہے۔

اس اثنا میں متعدد مرتبہ شیخ احمد سرہندی خواجہ صاحب کے پاس بہ نفس نفیس رُشد وہدایت و تربیت کے سلسلے میں دہلی میں مقیم رہے اور جب سرہند میں رہتے تھے تو خط کے ذریعے ہدایت و رہنمائی حاصل کرتے۔ اس طرح چار سال کے عرصے میں شیخ احمد سرہندی نے خواجہ صاحب کو کُل ۲۰ خطوط لکھے ہیں جو سب کے سب ایک ہی ترتیب میں جلد اول میں نمبر ۱ تا ۲۰ محفوظ ہیں۔ ان میں جس خط کی عبارت کو تزک جہانگیری  میں جہانگیر نے نقل کیا ہے وہ ترتیب میں گیارھویں خط کی عبارت ہے۔

 اس کے معنی یہ ہوئے کہ آپ نے یہ خط ۱۵۹۹ء اور ۱۶۰۳ء کے درمیان لکھا ہے اور چارسال کے اثنا میں آپ ؒ نے کل ۲۰ خطوط خواجہ باقی باللہ  ؒ کو لکھے ہیں ، یعنی اوسطاً سال میں پانچ خط۔ اس لیے یہ گیارھواں خط ۱۶۰۱ء کے آخر میں یا ۱۶۰۲ء کے ابتدا میں تحریر کیا ہو گا۔ اگر ایسا نہ ہو تو بھی یہ خط بہر حال جہانگیر کی تخت نشینی سے تین یا چار سال پہلے لکھا گیا ہے۔ کیوںکہ جہانگیر ۱۶۰۵ء میں تخت نشین ہوتا ہے۔ اس لیے اگر واقعی اس خط کی عبارت قابل گرفت تھی تو اس زمانے میں تحریر کی گئی تھی جب جہانگیر حکمران نہیں ہوا تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ اس خط سے عوام میں فی الواقع کوئی شورش پھیلی ہوئی تھی جیسا کہ جہانگیر نے لکھا ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو جہانگیر کے پیش رو والیِ حکومت کے لیے بہترین موقع تھا کہ وہ اس کا نوٹس لیتا ۔ یہ مغل بادشاہ اکبر [۱۵۴۲ء-۱۶۰۵ء] کا دور تھا۔ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ  تخت نشینی سے پہلے جہانگیر کو کوئی اختیار نہیں تھا، البتہ جہانگیر اس کو قابلِ اعتراض وگرفت سمجھتا تھا۔ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ جہانگیر نے تخت نشینی کے فوراً بعد اس کا نوٹس کیوں نہ لیا، جب کہ بقول جہانگیر اس خط کے مندرجات سے لوگوں میں ہیجان ، بے چینی اور شورش پھیلی ہوئی تھی۔ لیکن اس وقت ایسا نہیں کیا گیا بلکہ تخت نشینی کے ۱۴ سال بعد تک جہانگیر خاموش رہا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جہانگیر کے نزدیک ۱۴ سال تک یہ خط نہ قابلِ مواخذہ تھا اور نہ اس پر کبھی توجہ گئی۔

جہانگیر اپنے سنہِ جلوس ۱۴ ،یعنی ۱۶۱۹ء میں اور متذکرہ خط لکھنے کے ۱۸ یا ۱۹ سال کے بعد شیخ احمد سرہندیؒ کو دربار میں طلب کرتا ہے تو اس طویل خاموشی اور تاخیر سے متعدد سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں کہ اگر واقعی یہ عبارت خطرناک ، گمراہ کن اور خلفا کی شان میں گستاخی پر محمول تھی اور اس سے عوام میں ہیجان اور شورش پھیلی ہوئی تھی، تو اتنے طویل عرصے تک جہانگیر کی خاموشی سمجھ میں نہیں آتی ؟ پھر یکایک جہانگیر کا ۱۸ یا ۱۹ سال کی پرانی تحریر پر حضرت شیخ احمد سرہندیؒ کو دربار میں طلب کرنا اور قلعہ گوالیار میں قید کرنا کسی اور گمان کو تقویت پہنچاتا ہے۔

جہانگیر کے اقتباس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ شیخ احمد سرہندیؒ نے یہ تحریر حضرت خواجہ باقی باللہ ؒ کو اس وقت لکھی تھی جب وہ بقیدِ حیات تھے اور آپ زیرِ تربیت تھے۔ آپ پر جو کیفیت یا احوال گزر ے تھے اس سے اپنے پیرومرشد کو باخبر کرتے تھے تا کہ ان مسائل میں آپ کو صحیح رہنمائی وہدایت مل سکے۔ یہ تھا اصل عبارت کا پس منظر ۔ جب یہ خط لکھا گیا تھا تو اس وقت اس عبارت کو اس قسم کے غلط معنی نہیں پہنائے گئے۔ بعد میں جب خط کی عبارت پر اعتراضات کیے گئے اور شکوک وشبہات کو ہوا دی گئی اور مخالفین ومعاندین نے عوام میں غلط فہمی پیدا کرنے کے لیے رقیبانہ اور معاندانہ رویہ اختیار کیا، تو عوام اور خواص کی غلط فہمی کو دُور کرنے اور حقیقت حال سے روشناس کرنے کے لیے شیخ احمد سرہندی ؒ اپنے ایک خط میں تحریر کرتے ہیں کہ ’’یہ بات اور دوسری باتیں جو اس عرض داشت میں واقع ہوئی ہیں، ان واقعات میں سے ہیں جو اپنے پیرومرشد کی طرف لکھے گئے ہیں اور اس گروہ میں یہ بات ثابت ومقرر ہے کہ جو کچھ ظاہر ہوتا رہے، خواہ صحیح ہو یا غلط ، بے تحاشا اپنے پیرو مرشد کی طرف ظاہر کرتے رہیں‘‘۔{ FR 647 }

 شیخ احمد سرہندیؒ کی یہ تحریر نہایت وضاحت سے اصل صورتِ حال کو پیش کر رہی ہے۔ جہانگیر نے جس خط کی عبارت کا تذکرہ کیا ہے، وہ خط کسی دعویٰ یا فخرو مباہات کے طور پر نہیں لکھا گیا بلکہ اس اثنا میں،جب کہ آپ کے پیرو مرشد بقیدِ حیات تھے اور آپ سرہند میں مقیم تھے اور برابر ان کی رہنمائی وہدایت طلب کر رہے تھے۔ آپ نے متذکرہ خط اپنی اس کیفیت اور حال سے مطلع کرنے کے لیے لکھا تھا تا کہ ہر حال میں آپ کو صحیح رہنمائی حاصل ہو سکے۔

خلفاے راشدینؓ کی شان میں ’گستاخانہ باتیں‘ لکھنا

جہانگیر کا یہ الزام کہ اپنے آپ کو خلفا ے راشدینؓ سے افضل سمجھتا ہے اور ان کی شان میں بہت سی گستاخانہ باتیں لکھی ہیں، یہ بھی محض الزام و بہتان ہے۔ اس دعوے کے ثبوت میں جہانگیر نے نہ تو کوئی واقعہ پیش کیا ہے اور نہ کوئی تحریر ہی پیش کی ہے۔ البتہ شیخ احمد سرہندی  ؒ نے اپنے مکاتیب نمبر ۱۹۲، ۱۰۲، ۲۵۱، ۱۶۶ ،جلد اوّل، مکتوب نمبر ۱۵، ۳۶، ۶۷،۹۶ ،جلد دوم میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہ اور دوسرے صحابہ کرامؓ کی فضیلت وعظمت کے بارے میں قرآن اور سنت ِ رسولؐ اور احادیث کی روشنی میں نہایت ہی واشگاف اور غیر مبہم الفاظ میں تحریر کیا ہے۔ نیز خلفاے راشدینؓ کی اتباع کو لازمی قرار دیا ہے۔ اپنے مکتوب نمبر ۲۰۲ جلد اوّل میں تحریر کرتے ہیں کہ: ’’وہ شخص جو حضرت امیر رضی اللہ عنہ کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے افضل کہے اہل سنت والجماعت کے گروہ سے نکل جاتا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس شخص کا کیا حال ہو گا جو اپنے آپ کو افضل جانے ۔ اس گروہ میں تو یہ امر طے ہے کہ اگر کوئی سالک اپنے آپ کو خارش زدہ کتّے سے بہتر جانے تو وہ ان کمالات سے محروم ہے۔ سلف کا اجماع اس بات پر منعقد ہوا ہے کہ ’’انبیا علیہم السلام کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ تمام انسانوں سے افضل ہیں۔ وہ بڑا ہی احمق ہے جو اس اجماع کے خلاف کرے‘‘۔{ FR 653 } (مکتوب ۲۰۲، جلد اوّل، ص ۴۳۸)

اس طرح آپ نے اپنے مکتوبات میں نہایت ہی شرح وبسط سے واشگاف الفاظ میں بلاکسی ابہام کے خلفاے راشدینؓ سے متعلق اپنے عقیدہ ومسلک کو پیش کیا ہے۔ اس سے کسی قسم کی غلط فہمی اور شک وشبہے کی گنجایش نہیں رہ جاتی ۔ اس واضح اعلان کے بعد بھی یہ کہنا اور سمجھنا کہ آپ ؒ اپنے آپ کو خلفاے راشدینؓ سے افضل سمجھتے اور کہتے ہیں، جہالت ، دیدہ دلیری ، ضد اور ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں۔

جہانگیر نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ ’’میں نے جتنے سوالات بھی کیے ان میں سے کسی ایک کا بھی (شیخ احمد سرہندی ؒ ) جواب نہیں دے سکا۔ وہ بے عقل وکم فہم ہونے کے علاوہ مغرور اور خودپسند بھی نکلا‘‘۔

جہانگیر نے نہ تو اپنے سوالات تحریر کیے ہیں اور نہ شیخ احمد سرہندی ؒ ہی کے جوابات لکھے ہیں۔ اس لیے ایک غیر جانب دارانہ طالب علم کی حیثیت سے اس کے متعلق محض یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ محض جہانگیر کا ایک دعویٰ ہے جو بہتان کی تعریف میں آتا ہے۔ سوالات اور جوابات کی غیر موجودگی میں اس کی حقیقت اور اصلیت کو پرکھا نہیں جا سکتا۔ البتہ ’بے عقل وکم فہم ‘، ’مغرور اور خود پسند‘ قرار دینے کے معنی یہ ہیں کہ دل کا بخار نکالا جا رہاہے۔

معلوم ہوتا ہے کہ شیخ احمد سرہندی ؒ نے مروجہ درباری آداب کے مطابق دربار میں جہانگیر کے سامنے سجدہ نہیں کیا ۔ کیوںکہ شیخ احمد سرہندی ؒ اپنے مکتوب نمبر ۹۲ جلد دوم میں حق تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ جائز قرار نہیں دیتے۔ اس لیے جب آپ نے مروجہ درباری آداب کے مطابق سجدہ نہیں کیا ہو گا تو اس سے جہانگیر کی انانیت کو زبر دست ٹھیس لگی ہو گی۔ اس نے کبھی تصور وگمان بھی نہ کیا ہو گا کہ کوئی اللہ کا بندہ ایسا نڈر اور بے خوف بھی ہو سکتا ہے جو مروجہ سجدۂ تعظیمی ادا کرنے سے انکار کردے۔ لیکن آپ کا یہ فعل سراسر شریعت کے اتباع پر مبنی تھا۔ اس میں نہ کسی کی مخالفت تھی اور نہ مخاصمت ۔ نہ کسی کی توہین، نہ کسی کی دل آزاری۔ یہ تو محض شریعت کی پاس داری وعظمت کے تصوّر کے تحت بہت ہی مومنانہ اور جرأت مندانہ عمل تھا۔ جہانگیر کو آپ کا یہ فعل بہت ہی ناگوارِ خاطر گزرا ہو گا۔ اسی ناراضی کی بنا پر آپ کو ’بے عقل و کم فہم ، مغرور اور خود پسند ‘ ہونے کا طعنہ دیا ہو گا۔

آخر میں جہانگیر یہ تحریر کرتا ہے کہ اس (شیخ احمد سرہندی ؒ) کے مزاج کو شوریدگی اور اس کے دماغ کی آشفتگی کا ازالہ کرنے اور عوام میں جو شورش پھیلی ہوئی ہے اس کی روک تھام کے لیے میں نے شیخ سرہندی کو اَنی سنگھ دلن کے حوالے کیا کہ اسے قلعہ گوالیار میں قید رکھے۔

جہانگیر نے مجدد الف ثانی کو قلعہ گوالیار میں قید کرنے کے لیے اَنی سنگھ دلن کے حوالے کیوں کیا تھا ؟ اَنی سنگھ دلن ایک راجپوت اور ہندو امیر مملکت تھا جو جہانگیر کا بہت ہی معتمد علیہ اور منظورِ نظر تھا۔ جہانگیر نے اپنے عہدکے تمام معتوبین یا مخالفوں کو اسی کے حوالے کیا تھا، مثلاً :۱- مرزا رستم، جو پانچ ہزاری ذات وسوار کا منصب رکھتا تھا اور ٹھٹھہ کا صوبے دار تھا، ۲- خسرو،جو جہانگیر کے مقابلے میں تخت کا دعوے دار تھا، جس نے بغاوت بھی کی تھی اور ناکام ہو کر گرفتار ہوا، ۳- مرزا حکیم کے پوتے (جو اکبر کا بھائی تھا اور اس کے خلاف بغاوت بھی کی تھی )، ہرمز اور ہوسنگ، ۴-کشتواڑ کا راجا کنور سنگھ جس نے جہانگیر کے خلاف بغاوت کی تھی۔

ان سب کو جہانگیر نے اَنی سنگھ دلن ہی کے سپرد کیا تھا۔ چنانچہ شیخ احمد سرہندی کو بھی اس کے سپرد کیا اور صرف ایک ماہ قبل جہانگیر نے سنہِ جلوس ۱۴ ماہ فرور دیں ۸۰ ہی کو اس کو دوہزاری ذات وہزار وشش صد (۱۶۰۰) سوار کے منصب پر فائز کیا تھا۔(تزک جہانگیری، سلیم واحد سلیم، ص ۲۸۱، ۳۵۴، ۵۵۰، ۵۶۴، ۶۷۵، ۷۱۳)

اَنی سنگھ دلن پر اپنے خصوصی اعتماد کی وجہ سے جہانگیر نے شیخ احمد سرہندی کو اس کے سپرد کیا۔ اس کے ہندو راجپوت ہونے کی وجہ سے جہانگیر کو یہ یقین تھا کہ اَنی سنگھ دلن کو شیخ احمد سرہندی کی تردیج شریعت کی تحریک سے ہمدردی نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اس کی نگرانی میں شیخ احمد پر گرفت سخت رہے گی اور انھیں کوئی سہولت ورعایت نہیں مل سکے گی۔

خلاصہ یہ کہ جہانگیر نے اپنی خود نوشت سوانح حیات تزکِ جہانگیری میں سال جلوس ۱۴ماہ خوردار ۲۲ کو شیخ احمد سرہندی ؒ پر جو الزامات واتہام لگائے ہیں وہ ناقدانہ تجزیے کی رُو سے بالکل بے بنیاد ثابت ہوتے ہیں۔ البتہ اس سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ شیخ احمد ؒ کے مخالفین اور حاسدین نے جہانگیر کو اس قدر ورغلایا اور برہم کر دیا اور اس قدر بے سروپا باتیں اس کے کان میں ڈالیں کہ آپ کے لیے جہانگیر کے دل میں شدید مخالفت پیدا ہوگئی۔ اس وجہ سے جہانگیر نے حضرت شیخ  ؒ کے خلاف ایسے سخت اور ناشائستہ الفاظ استعمال کیے جن میں نہ تو ادبیت ہے اور نہ اندازِ شرافت ہی ۔