انسانی رشتوں کے حقوق کی ادائیگی اور اس کی پاس داری میں ہی زندگی کی اصل خوب صورتی ہے۔ رشتوں میں پائے داری کے لیے بے لوث محبت اور پُرخلوص خدمت ازحد ضروری ہیں۔ خداوند کریم نے جہاں ان رشتوں کی پاسبانی کی ہدایت کی ہے، وہیں ان کی اہمیت اور مرتبہ بھی واضح کر دیا ہے۔ بنی آدم کو ربِّ کائنات نے بنیادی طور پر دو طرح کے حقوق دیئے ہیں: پہلاحقوق اللہ اور دوسرا حقوق العباد۔ حقوق العباد کی حفاظت، ان کی ادائیگی اور تکمیل کا راستہ، قرآن و حدیث کی اطاعت و پیروی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
حدیث پاک ہے:’’ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! میرے حُسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں، اس نے کہا: پھر کون؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں، اس نے کہا: پھر کون؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں، اس نے کہا: پھر کون؟ تو آپؐ نے فرمایا: پھر تیرا باپ، پھر درجہ بدرجہ جو تیرے قریب لوگ ہیں‘‘۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب برالوالدین، حدیث: ۳۶۵۶)
اس حدیث پاک سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ماں کے ساتھ حُسنِ سلوک کا درجہ باپ سے بڑا ہے۔ اس لیے کہ ولادت کے دوران عورت ایک قسم کے تخلیقی مراحل سے گزرتی ہے۔ اس کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں ہے کہ والد کی اہمیت کم ہے۔ والد جنّت کے دروازوں میں ایک دروازہ ہے۔ ان کی عظمت کا بیان کون کرسکتا ہے کہ جن کی طرف محبت بھری نظروں سے دیکھنا بھی باعث اجروثواب ہے۔ والدین کی اہمیت اس حدیث سے بالکل واضح ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو۔پوچھا گیا: کس کی ناک یارسولؐ اللہ؟ سرکارؐ نے فرمایا: جس نے بڑھاپے میں اپنے والدین کو یا دونوں میں سے کسی ایک کو پایا اور پھر جنّت کا حق دار نہ بنا‘‘۔ (مسلم، کتاب البّر والصلۃ والآداب، باب رغم انفہ من ادرک ابویہ، حدیث:۴۷۳۴)
اللہ تعالیٰ نے شوہر کو قوّام اور بیوی کو محکوم کا درجہ عطا کیا۔ قرآن میں ان دونوں کو ایک دوسرے کا ’لباس‘ کہا گیا ہے۔ ’لباس‘ سےمراد ایک دوسرے کی اچھائیوں کو سمجھنا اور کمزوریوں کی پردہ پوشی کرنا ہے۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ دونوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں۔ اس رشتے میں ذہنی ہم آہنگی کا ہونا بھی اہمیت رکھتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے لیے اپنے شوہر کا احترام لازم کیا، تو اس کا یہ مطلب ہرگز بھی نہیں کہ خاوند صرف اس بنیاد پر اندھی حاکمیت چلانے لگ جائے بلکہ شوہر کے جو اوصاف اسلام میں بتائے گئے ہیں، اسے ملحوظ رکھیں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں کامل ایمان والے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں اور تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں‘‘۔ (ترمذی ، ابواب الجنائز،ابواب الرضاع،باب ماجاء فی حق المرأۃ علی زوجھا، حدیث: ۱۱۱۸)
اسی طرح قرآن کریم میں متعدد مقامات پر انھیں ان کے حقوق کی یاد دہانی کرائی گئی ہے، اور بعض مقامات پر تنبیہ بھی کی ہے۔ اسی بنیاد پر انھیں ’راعی‘ کہہ کر بھی مخاطب کیا گیا ہے۔
حدیث پاکؐ ہے: ’’کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کون سی عورت سب سے اچھی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: وہ کہ جب خاوند اس کی طرف دیکھے تو خوش ہوجائے، وہ حکم دے تو اس کی تعمیل کرے، اور اپنی جان و مال کے معاملے میں ایسی کوئی بات نہ کرے جو شوہر کو ناپسند ہو‘‘۔(سنن نسائی، کتاب النکاح، باب أیّ النساء خیر، حدیث: ۵۱۹۹)
دوسری حدیث میں بیان ہے: ’’حضرت اُمِ سلمہؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو عورت اس حال میں فوت ہوئی کہ اس کا شوہر اس سے راضی اور خوش تھا تو وہ جنّت میں داخل ہوگی‘‘۔ (ابن ماجہ ، کتاب النکاح، باب حق الزّوج علی المرأۃ، حدیث:۱۸۵۰)
’’حضرت ثوبانؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اجروثواب کے اعتبار سے وہ دینار بہتر ہے جو تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے ہو‘‘۔(مسلم ، کتاب الزکوٰۃ، باب فضل النفقۃ علی العیال والمملوک، حدیث: ۱۷۲۲)
دوسری حدیث اس طرح ہے، حضرت انسؓ راوی ہیں: ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ جوان ہوگئیں تو قیامت کے دن وہ اس طرح آئے گا کہ مَیں اور وہ اس طرح ہوں گے۔ آپؐ نے اپنی دونوں انگلیوں کو ملایا‘‘۔ (مسلم، کتاب البّروالصلۃ والآداب، باب فضل الاحسان الی البنات، حدیث: ۴۸۷۲)
اسی رشتے کی ایک اہم کڑی بھائی بہن کا تعلق ہے، جو نہایت مقدس اور پاکیزہ ہے۔ اس رشتے کی بھی عظمت کھلی ہوئی ہے۔ بھائی کو بہن کے لیے اس کا مان ہونا چاہیے، اسی طرح بہن کو بھی بھائی کے لیے اس کا فخر بننا چاہیے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے نمونہ بنیں۔ مگر بدقسمتی سے آج ہمارے معاشروں کے موجودہ حالات اس کے برعکس ہیں۔
’’حضرت عائشہ ؓ اور حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبریلؑ ہمیشہ مجھے ہمسایہ کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ وہ عنقریب اسے وارث بنادیں گے‘‘۔(بخاری،کتاب الآدب، باب الوصاۃ بالجار، حدیث: ۵۶۷۶)
ایک اور حدیث نے تو اس رشتے کو بڑے جامع انداز میں بیان کیا ہے: ’’ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ! میرے کچھ رشتہ دار ہیں جن کے حقوق مَیں ادا کرتا ہوں لیکن وہ میرے حقوق ادا نہیں کرتے۔ میں اُن کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہوں لیکن وہ مجھ سے بُرا سلوک کرتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ حلم و بُردباری سے پیش آتا ہوں لیکن وہ میرے ساتھ جہالت برتتےہیں۔
آپؐ نےفرمایا: اگر تو ایسا ہی ہے جیسا کہ تُو کہتا ہے تو گویا تو ان کے چہروں پر سیاہی پھیر رہا ہے اور اللہ ان کے مقابلے میں ہمیشہ تیرا مددگار رہے گا، جب تک تو اس حالت پر قائم رہے گا‘‘۔(مسلم، کتاب البّر والصلۃ والآداب، باب صلۃ الرحم، حدیث: ۴۷۴۶)
حدیث پاک کا حصہ ہے کہ ’’غلاموں کو وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے اور اسے وہی پہنائےجو وہ خود پہنتا ہے، اور اس پر کام کا اتنا بوجھ ڈالے، جو اس کی طاقت سے باہر نہ ہو، اور اگر اس پر ایسے کام کا بوجھ ڈالے جو اس کی طاقت سے باہر ہو اور وہ اسے نہ کرپارہا ہو تو اس کام میں اس کی مدد کرے۔(صحیح بخاری،کتاب الایمان، باب المعاصی من أمر الجاھلیۃ، حدیث: ۳۰)
اس حکیمانہ نظام نے ایک ساتھ بیوہ اور یتیم دونوں کی کفالت کا مسئلہ حل کیا۔ یتیم کی کفالت یا سرپرستی کرنے والے کو اللہ پسند کرتا ہے۔ اس کے ولی کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کے بالغ ہونے تک ا س کے جان و مال کی حفاظت کرے، اسے ستائے نہیں بلکہ رحم دلی سے پیش آئے۔ اسی میں دونوں کی خیروبھلائی کا عنصر پوشیدہ ہے۔
حضرت سہل بن سعدؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مَیں اور یتیم کا سرپرست، ہم دونوں جنّت میں اس طرح ہوں گے۔ یہ کہہ کر آپؐ نے بیچ کی انگلی اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا اور ان دونوں انگلیوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا‘‘۔(صحیح بخاری، کتاب الطلاق، باب اللّعان، حدیث: ۵۰۰۲)
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ فرمانِ رسولؐ ہے کہ اللہ عزوجل قیامت کے دن کہے گا: اے میرے بندے! میں نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تُو نے مجھے نہیں کھلایا۔ وہ کہے گا: اے میرے ربّ! میں تجھے کیوں کر کھلاتا، جب کہ تو سب لوگوں کی پرورش کرنے والا ہے؟ اللہ کہے گا کہ کیا تجھے خبر نہیں کہ تجھ سے میرے فلاں بندے نے کھانا مانگا تھا لیکن تُو نے اسے نہیں کھلایا؟ کیا تجھے خبر نہیں کہ تو اس کو کھلاتا تو اپنے کھلائے ہوئے کھانے کو میرے یہاں پاتا؟ اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تُو نے مجھے نہیں پلایا۔ تو وہ کہے گا: اے میرے ربّ! میں تجھے کیسے پلاتا، جب کہ تو خود ربّ العالمین ہے؟ اللہ تعالیٰ کہے گا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تُو نے اسے پانی نہیں دیا۔ اگر تو اس کو پانی پلاتاتو وہ پانی میرے یہاں پاتا۔ (مسلم، کتاب البّر والصلۃ والآداب، باب فضل عیادۃ المریض، حدیث: ۴۷۶۷)
دراصل یہ کھانا کھلانا، پانی پلانا،روپے پیسے یا دوسری چیزوں سے مدد کرنا ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ یہ تو ان کا حق ہے، جو اللہ ہمارے ذریعہ ادا کراتا ہے۔ اللہ کو وہ ہاتھ بہت پسند ہے جو دینے والا ہو، لینے والا نہیں، یعنی اُوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ اس پر ظلم کرے، نہ اس کو ذلیل کرے، نہ اس کی تحقیر کرے۔ تقویٰ یہاں ہے۔آپؐ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ فرمایا۔ آدمی کے بُرا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ ہرمسلمان کا دوسرے مسلمان پر خون، مال اور آبرو حرام ہے‘‘۔(مسلم، کتاب البّر والصلۃ والآداب، باب تحریم ظلم المسلم، حدیث: ۴۷۵۶)
حدیث پاک کے مطابق: ’’مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو اس کے وہاں سے واپس آنے تک وہ جنّت کے باغ میں سیرکرتا ہے‘‘۔ (مسلم، کتاب البّر والصلۃ والآداب، باب فضل عیادۃ المریض، حدیث: ۴۵۶۷)
حقوق العباد کی ادائیگی مرد و زن پر عائد ہوتی ہے۔ اللہ کے یہاں فیصلہ انسان کے اوصاف کی بنیاد پر ہوگا۔ جوانسان کسی ظلم کا بارِ گناہ اُٹھائے ہوئے آئے گا ، خواہ اس نے حق تلفی اپنے خدا کے حقوق پر کی ہو،یا خلقِ خداپر، یا پھر اپنے نفس پر، اسے کامیابی نہیں ملے گی۔ عدل و انصاف اور محبت و اخوت کا ساتھ دینےوالوں کو ہی کامیابی حاصل ہوگی۔ بہتر اور صالح معاشرے کا وجود اسی احترام کا متقاضی ہے۔ [تخریج: سمیع الحق شیرپائو، لاہور]