جب ہمارا مشرقی بازو (مشرقی پاکستان) ہمارے ملک کا حصہ تھا، اس وقت وہاں ایک شخصیت ایسی تھی جو عدل و انصاف اور نظم و ضبط کی پابند ہوا کرتی تھی۔ وہ شخصیت جسٹس شہاب الدین کی تھی۔انھیں کچھ وقت کے لیے گورنر مشرقی پاکستان بنایا گیا تھا۔ ان کے ای ڈی سی نے لکھا ہے کہ موصوف ایمان داری، اصول پسندی، حق گوئی اور بے باکی میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ دن بھر گورنرہائوس میں سرکاری کام نمٹاتے اور فارغ ہونے کے بعد گاڑی میں بیٹھ کر اپنے معمولی سے مکان میں چلے جاتے اور صبح اپنے کام پر موجود ہوتے۔ گورنر ہوتے ہوئے خود کو غلامِ اوّل سمجھتے۔
ان کی اصول پسندی اور ایمان داری سے جہاں کچھ لوگ خوش تھے وہاں بہت سے ناخوش بھی تھے اور ان کی شخصیت کو پُراسرار بناتے اور شعوری طور پر بھی ثابت کرنے کی کوشش کیا کرتے۔ ایک دن جب وہ گورنر کے منصب سے فارغ کردیے گئے تو انھوں نے نہایت سادگی سے اپنی میز پر سے عینک اُٹھائی، بریف کیس ہاتھ میں لیا اور اپنے اے ڈی سی سے کہا: ’’لو میاں! سنبھالو اپنا گورنرہائوس، ہم تو چلتے ہیں‘‘۔
اے ڈی سی نے کہا: ’’جناب! مجھے حفاظتی نقطۂ نظر سے آپ کو آپ کے گھر تک چھوڑنا ہے، اس لیے میں آپ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھنے کی اجازت چاہتا ہوں‘‘۔
وہ مسکرائے اور پھر ان کا اے ڈی سی، ڈرائیور کی برابر والی نشست پر بیٹھ گیا اور گاڑی ان کی قیام گاہ کی طرف چل پڑی۔
ابھی وہ راستے میں تھے کہ جسٹس شہاب الدین کو کوئی چیز یاد آگئی۔ انھوں نے پریشان ہوکر ڈرائیور سے کہا: ’’میاں! واپس چلو، ہم گورنر ہائوس چلیں گے۔ ایک چیز ہم بھول گئے ہیں‘‘۔
گاڑی واپس ہوئی۔ جسٹس صاحب گاڑی سے اُترے اور تیزی سے چلتے ہوئے گورنر ہائوس میں اپنے کام کے کمرے میں داخل ہوگئے۔ ان کا اے ڈی سی سمجھا کہ موصوف کوئی قیمتی شے یا دستاویز بھول گئے ہیں۔ چنانچہ وہ دبے پائوں ان کے پیچھے پیچھے گیا اور پردے کی اُوٹ سے یہ دیکھنے لگا کہ صاحب کیا چیز نکال کر باہر لاتے ہیں، لیکن اس نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ جسٹس صاحب نے میز کی دراز کھول کر روشنائی کی دوات نکالی، جیب سے قلم نکالا اور اپنے قلم کی ساری روشنائی دوات میں انڈیل دی۔ پھر وہ تیزی سے چلتے ہوئے واپس ہوئے۔ اے ڈی سی نے بھی پھرتی کے ساتھ ان سے پہلے اپنی نشست سنبھال لی۔
جب گاڑی روانہ ہوئی تو اس نے کہا: ’’جناب! میں اپنے جرم کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں اور ٹوہ لگانے کے جرم پر معافی چاہتا ہوں، مگر آپ نے یہ کیا کیا؟ چند قطرے روشنائی کے بھی اپنے قلم میں گوارا نہ کیے‘‘۔
جسٹس صاحب نے اپنے اے ڈی سی کی جرأت پر حیرت کا اظہار کیا، مگر ناراض نہ ہوئے اور بولے: ’’میاں! ہمارے قلم میں گورنر ہائوس کی روشنائی کے چند قطرے کیوں رہتے، اس لیے ہم نے مناسب سمجھا کہ اسے لوٹا کر اپنے گھر لوٹیں‘‘۔
اے ڈی سی نے یہ سن کر اعتراض کیا: ’’مگر روشنائی کے چند قطروں کے بدلے جو اتنا سرکاری پٹرول واپسی کے لیے جلا وہ کس حساب میں شمار ہوگا؟‘‘
یہ سن کر جسٹس صاحب چونکے اور پھر مسکرا کر ڈرائیور سے مخاطب ہوئے: ’’میاں! ہم نے جو بات بتانے سے صبح تمھیں روکا تھا، اب وہ بات اے ڈی سی صاحب کو بتا دینا۔ وہ بھی اس وقت جب ہم گاڑی سے اُتر جائیں‘‘۔
تھوڑی دیر بعد جسٹس صاحب کا گھر آیا تو وہ اُتر گئے، مگر اے ڈی سی کو چین نہ آیا۔ اس نے فوراً ڈرائیور سے بات پوچھنا چاہی تو وہ افسوس کے ساتھ بولا: ’’آپ کو یہ بات ان سے نہیں پوچھنا چاہیے تھی، اس لیے کہ آج صبح سرکاری گاڑی میں جو پٹرول ڈلوایا گیا تھا وہ جسٹس صاحب نے خود ڈلوایا تھا، اپنی جیب سے‘‘۔ (ہمدرد نونہال، خاص نمبر، جون ۲۰۰۴ئ)