قمر میمن


قیامِ پاکستان کے وقت بڑی تعداد میں نقل مکانی ہوئی۔ ہندستان کے مختلف علاقوں سے مسلمانوں نے پاکستان ہجرت کی، جب کہ بالخصوص سندھ سے ہندو بڑی تعداد میں ہندستان منتقل ہوگئے۔ اس وقت سندھ میں تقریباً ۶ سے ۷ فی صد آبادی ہندوئوں پر مشتمل ہے۔ انھیں پوری طرح مذہبی آزادی حاصل ہے۔ ہرجگہ ان کے مندر ہیں۔ کراچی سے لے کر کشمور تک یہ باآسانی سفر کرسکتے ہیں۔ کہیں بھی عام مسلمان آبادی کی جانب سے انھیں کوئی تکلیف نہیں پہنچائی جاتی اور نہ ان کی ترقی کے راستے میں کوئی رکاوٹ ڈالی جاتی ہے۔ سابقہ و موجودہ حکومت نے ہندوئوں کی عبادت گاہوں کی مرمت کے لیے خطیر رقم رکھی ہے جو کہ انھیں برابر دی جاتی ہے۔

ہندو تجارت کے میدان میں بہت آگے ہیں۔ اناج، الیکٹرانکس، بیج، کھاد، زرعی ادویات کے کاروبار پر ان کی اجارہ داری ہے۔ سندھ کے کئی علاقوں میں بڑے بڑے زمین داروں اور وڈیروں کے پورے کاروبار اور زراعت کی نگرانی ہندو کرتے ہیں۔ اسی لیے انھیں بااثر افراد کی پوری سرپرستی حاصل ہے۔ اس وقت ہندوئوں کی نقل مکانی کے حوالے سے جو صورت حال سامنے آئی ہے، اس کو سمجھنے کے لیے کچھ حقائق کو پیش نظر رکھنا ہوگا:

l بدامنی: سندھ میں بدامنی اپنے عروج پر ہے۔ نہ راستے محفوظ ہیں نہ گھر، اور قبائلی جھگڑے عام ہیں۔ شہر، دیہات اور گائوں کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔ اس صورت حال میں ہرآدمی  خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان، پریشان ہے۔ سندھی مسلمان کے مالی وسائل چونکہ محدود ہیں، اس لیے وہ    اپنا گائوں چھوڑ کر قریب کے شہر میں منتقل ہو رہا ہے۔ ہندو آبادی چونکہ مالی طور پر مستحکم ہے، اس لیے وہ اپنا سرمایہ بچانے کے لیے کراچی، حیدرآباد اور سکھر کا رُخ کررہی ہے۔ جن کے وسائل اور زیادہ ہیں، وہ بھارت منتقل ہوجاتے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے کوٹہ سسٹم رائج کیا، اس کا سب سے زیادہ فائدہ ہندو آبادی کو ہوا۔ بیسیوں ڈاکٹر، سندھ کے میڈیکل کالجوں سے فارغ ہونے کے بعد بھارت منتقل ہوگئے، اور اپنے ملک کا خطیر سرمایہ جو ان کی تعلیم پر خرچ کیا گیا اس کا ثمر بھارت کے حوالے کر دیا۔ درحقیقت بدامنی کی اس لہر سے سندھ کا ہر باسی پریشان ہے۔

  • اغوا براے تاوان: اغوا براے تاوان کا آغاز ۸۰ کے عشرے میں ہوا۔ آگے چل کر    یہ باقاعدہ ایک کاروبار کی صورت اختیار کرگیا۔ بااثر لوگ ڈاکوئوں کے سرپرست بن گئے ہیں۔ مسلمان ہو یا ہندو، کسی کی جان و مال محفوظ نہیں ہے۔ یہاں ججوں کو اغوا کیا گیا۔ ہندو چونکہ چھوٹے شہروں اور دیہات میں اپنی مالی حیثیت کے لحاظ سے نمایاں ہوتے ہیں، اس لیے وہ بھی اغوا ہوتے رہے ہیں۔ ریاست کے بنیادی فرائض میں اپنے تمام شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کرنا شامل ہے۔ حکومت اپنے اس فرض کی ادایگی میں مکمل طور پر ناکام ہوگئی ہے۔
  •  بہتہ خوری:بھتہ خوری کا کلچر کراچی سے شروع ہوا اور اب سندھ کے دیہات تک پہنچ گیا ہے۔ یہ بھی سندھ کا عمومی مسئلہ ہے، سب اس کا نشانہ ہیں۔ہرجگہ تاجر برادری اس پر سراپا احتجاج ہے۔ سندھی اخبارات میں اس طرح کی خبریں آئی ہیں جن میں ہندو آبادی کے ذمہ داران نے کہا ہے کہ ہمیں ڈاکوئوں اور قوم پرست تنظیموں کے کارکنان نے مجبور کیا ہے کہ ہم سندھ چھوڑ کر چلے جائیں۔ یہ بالکل اس طرح ہے جیسے اطلاعات کے مطابق کراچی کی بھتہ خوری سے تنگ آکر وہاں کے تاجر و صنعت کار ملک کے دیگر حصوں یا بیرونِ ممالک اپنا سرمایہ منتقل کر رہے ہیں اور خود بھی منتقل ہورہے ہیں۔
  • زبردستی مذھب کی تبدیلی کا الزام:کچھ حلقوں کی جانب سے یہ باور کرایا جارہا ہے کہ سندھ میں ہندوئوں کو خاص طور پر ہندو لڑکیوں کو مذہب کی تبدیلی پر زبرستی مجبور کیا جاتا ہے اور سندھ میں مذہبی انتہا پسندی ہے۔ یہ بات خلافِ حقیقت اور مبالغہ آمیز ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ بھارت میں ’بابری مسجد‘ کی شہادت جیسا سانحۂ ارتحال ہوا لیکن سندھ میں ایک بھی مندر کو جلانے کا واقعہ نہیں ہوا۔ بھارت میں آئے روز گجرات اور دیگر علاقوں میں مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن ہمارے یہاں کوئی ہندو مسلم فساد نہیں ہوا۔ اقلیتیں آزادی سے اپنی تمام عبادات کرتی ہیں۔ عام آبادی یا کسی تنظیم کی جانب سے اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جاتی۔ سندھ کا مسلمان رواداری سے ہندوئوں کی تمام رسومات کا احترام کرتا ہے۔

جہاں تک لڑکیوں کے مسلمان ہونے کا تعلق ہے اس سلسلے میں یہ امر سامنے رہنا چاہیے کہ ہمارا معاشرہ اور اس کا خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ مسلمان گھرانوں کی لڑکیاں اور لڑکے بھی اپنی روایات سے بغاوت کرکے کورٹ میرج کرلیتے ہیں۔ اس سلسلے میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۱۱ء میں صرف سکھر ڈویژن میں ۲۹۶ جوڑوں نے مبینہ طور پر ’محبت کی شادی‘ کی۔  ان میں ۲۹۰ جوڑے مسلمان تھے، جب کہ فقط چھے جوڑے نومسلم لڑکیاں تھیں۔ لاڑکانہ ڈویژن میں ۲۵۹ جوڑوں نے والدین کی مرضی کے بغیر شادیاں کیں، ان میں سے ۲۵۸ مسلمان جوڑے، جب کہ فقط ایک ہندو لڑکی نے اسلام قبول کیا اور مسلمان لڑکے سے شادی کی۔ ۲۰۱۲ء میں اب تک سکھر ڈویژن میں ۳۰۰ ’محبت کی شادیاں‘ ہوئی ہیں جن میں فقط دو ہندو لڑکیوں نے اسلام قبول کرکے مسلمان لڑکوں سے شادی کی ہے۔

پچھلے دنوں جن پانچ لڑکیوں کے مسلمان ہونے کے واقعات نے شہرت حاصل کی اور ان کو خوب اُچھالا گیا، اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے: رینکل کماری، اسلامی نام فریال بی بی کا تعلق میرپور ماتھیلو ضلع گھوٹکی سے ہے۔ اس نے بھر چونڈی شریف کی درگاہ میں اسلام قبول کیا۔ ڈاکٹر لتاکماری، اسلامی نام حفصہ کا تعلق جیکب آباد سے ہے۔ یہ آغاخان ہسپتال میں ڈاکٹر ہے۔ اس ڈاکٹر نے اپنی مرضی سے کیماڑی کراچی کے ایک امام مسجد کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ انیتہ نامی لڑکی کا تعلق بولاخان کے علاقے سے ہے۔ اس نے بھرچونڈی شریف میں اسلام قبول کیا۔ رچند دیوی، اسلامی نام عصمہ کا تعلق جیکب آباد سے ہے۔ اس نے گول مسجد سکھر کے امام کے ہاں اسلام قبول کیا۔ یہی حال آشہ کماری کا ہے۔ ان تمام واقعات میں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ نچلی عدالتوں سے لے کر اعلیٰ عدالت تک ہرجگہ ان لڑکیوں نے بیان دیا کہ ان پر کوئی زبردستی اور جبر نہیں ہے۔ وہ اپنی مرضی سے اسلام قبول کر رہی ہیں۔ عدالت نے انھیں کئی روز سرکاری تحویل میں رکھا، انھیں والدین سے ملنے دیا گیا۔ اس کے بعد بھی انھوں نے عدالت میں اپنا پرانا بیان دہرایا اور اسلام پر قائم رہیں۔ آئینِ پاکستان کے بنیادی حقوق کے باب۲ میں عاقل بالغ غیرمسلم کو اپنا مذہب تبدیل کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ بات مسلّمہ ہے کہ اسلام دین حق ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں تمام ادیان باطل ہیں۔ ہندو لڑکیوں میں تعلیم کا تناسب زیادہ ہے۔ وہ جب اسلام کو پڑھتی ہیں، تو متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتیں اور اس کو قبول کرلیتی ہیں۔

سندھ میں رُونما ہونے والے مختلف واقعات کا انفرادی پس منظر ہے۔ یہاں مَیں ضلع شکارپور کے ایک قصبے ’چک‘ میں دو ہندو ڈاکٹروں کے قتل کی مثال دیتا ہوں۔یہ ایک انفرادی فعل تھا۔ اس کا محرک بھیہ قبیلے کی ایک لڑکی کے ساتھ ہندو ڈاکٹر کی مبینہ زیادتی بتایا جاتا ہے۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے قبیلے کے کچھ افراد نے اس جگہ کارروائی کی اور واقعے کے اصل ذمہ دار افراد جو کہ موقع سے فرار ہوگئے تھے، کے بجاے وہاں موجود افراد کو قتل کر دیا۔ ہم کسی بھی انسان کے قتلِ ناحق کو خلافِ اسلام اور خلافِ قانون سمجھتے ہیں۔ لیکن بعض حلقوں کی جانب سے اس کو عمومی طور پر ہندوئوں کے ساتھ ظلم سے تعبیر کیا گیا اور مذہبی انتہاپسندی کا رنگ دیا گیا، جب کہ اس کا تعلق کسی طرح بھی مذہب سے نہیں بنتا۔ یہ ایک جرم ہے اور قانون کے مطابق ذمہ داران کو سزا ملنی چاہیے۔

امرِواقعہ یہ ہے کہ سندھ میں حکومت مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ کسی کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ نہیں ہے۔ اس عمومی بدامنی کی لہر کو مخصوص رنگ دینا انصاف نہیں ہے۔ ان واقعات کے حقیقی اسباب کو دیکھتے ہوئے اصلاحِ احوال کی کوشش جب تک نہیں ہوگی سندھ میں امن و امان کی صورت حال بہتر نہیںہوگی اور سندھ کے عوام کو، چاہے وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتے ہوں، امن و سکون نصیب نہیں ہوگا۔

مزید یہ کہ جس طرح ان واقعات کو عمومی رنگ دے کر اُبھارا جا رہا ہے، اس سے اس راے کو تقویت ملتی ہے کہ یہ بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جو بین الاقوامی طاقتوں خصوصاً امریکا اور مغرب کی جانب سے مسلمانوں کو ’دہشت گرد‘ اور ’مذہبی انتہاپسند‘ ثابت کرنے کے لیے ایک عرصے سے جاری ہیں۔ ضروری ہے کہ اس پسِ پردہ سازش کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔

ممتاز عالم دین‘ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر و سابق امیرصوبہ سندھ مولانا جان محمد عباسی طویل علالت کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!

مولانا جان محمد عباسی ایک معروف عالم دین‘ حوصلہ مندقائد‘ مدبر‘ دُوراندیش اور منجھے ہوئے سیاست دان‘ مشفق و مربی رہنما‘ اقامت دین کے لیے جوانی سے وفات تک ایک ایک لمحہ وقف کرنے والے عظیم انسان تھے۔ یقینا انھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا اور اپنی نذر پوری کر دی۔

ابتدائی حالات: مولانا عباسیؒیکم جنوری ۱۹۲۵ء کو ‘ لاڑکانہ کے قریب ایک چھوٹے سے قصبے بیڑوچانڈیو میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام مولانا غلام رسول اور دادا کا نام مولانا جان محمد تھا اور ان کا شمارعلاقے کے جید علما میں ہوتا تھا۔ مولانا عباسی مرحوم کے دادا مولانا جان محمد نے اپنے گائوں بیڑوچانڈیو میں مدرسہ دارالفیوض کی بنیاد رکھی جس کو ان کے فرزند غلام رسول (مولانا عباسیؒ کے والد) نے عروج پر پہنچایا۔ ان کے طلبہ کی کثیرتعداد اس وقت بھی ایران‘ افغانستان‘ سندھ اور بلوچستان میں پھیلی ہوئی ہے۔ ۱۹۶۹ء میں علاقے کے بااثر لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے مولانا غلام رسول مرحوم‘ لاڑکانہ میں جاکرانی روڈ پر آکر مقیم ہوگئے اور یہاں اللہ والی مسجد اور دارالفیوض کے نام سے قرآن و سنت کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔


o ڈائرکٹر‘مہران اکیڈمی‘ شکارپور

مولانا عباسیؒ کی ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے والد گرامی کے زیرنگرانی ہوئی۔ ابتدا میں انھوں نے انگریزی اسکول میں داخلہ لیا تھا لیکن دو تین سال کے بعد ان کے والد محترم نے انھیں عربی اور فارسی تعلیم کے لیے وقف کر دیا اور انگریزی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ اپنے والد کے یہاں ہی انھوں نے درس نظامی مکمل کیا اور ان کی دستاربندی ہوئی۔ درس نظامی کی تکمیل کے بعد مولانا نے حصولِ علم کا سلسلہ جاری رکھا اور فلسفہ و عربی میں علامہ اقبالؒ کے استاد مولانا علی احمد کا کیپوتہ ساکن گائوں مارو کا کیپوتہ ضلع شکارپور کے یہاں اکتسابِ علم کے لیے تشریف لے گئے۔وہاں وہ چھ مہینے مقیم رہے اور اسی دوران تپ دق میں مبتلا ہوگئے۔ ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ انھیں کوئٹہ بھیج دیا جائے۔ یوں وہ علاج کی غرض سے کوئٹہ چلے گئے۔ ان کے والد محترم کو ان کی تعلیم کی بے حد فکر رہتی تھی اس لیے قیامِ کوئٹہ کے دوران وہ مشہور دینی و روحانی درگاہ چشمہ شریف میں جید علما سے علم حاصل کرتے رہے۔ صحت یاب ہونے کے بعد وہ لاڑکانہ تشریف لے آئے اور اپنے والد محترم کی بنائی ہوئی مسجد و مدرسہ میں عوام الناس کے لیے درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کی گفتگو‘ ٹھیرائو‘ شیرینی‘ روانی‘ شستگی اور بلاغت کا اعلیٰ نمونہ ہوتی۔ اگرچہ شعلہ بیاں مقرر نہیں تھے لیکن دلیل کی طاقت سے سامعین کے دلوں کو مسخر کرلیتے تھے۔ اس لیے تھوڑے عرصے میں ہی ان کے سلسلۂ درس نے مقبولیت حاصل کر لی اور شہرکے کونے کونے سے جوق در جوق لوگ ان کے درس میں شریک ہونے لگے۔

جماعت اسلامی سے تعارف: مولانا عباسی مرحوم ۱۹۴۸ء میں ہی مولانا مودودیؒ اور جماعت اسلامی سے روشناس ہو چکے تھے۔ اس زمانے میں ایک رسالہ سندھی زبان میں نکلتا تھا‘ جس میں تفہیم القرآن کا سندھی ترجمہ قسط وار شائع ہوتا تھا۔ وہ قسطیں مولانا باقاعدگی سے پڑھتے تھے اور پرچے کا انتظار کرتے رہتے تھے۔ ۱۹۵۱ء میں اسلامی دستور کی مہم کے دوران وہ شکارپور تشریف لائے اور شکارپور جماعت اسلامی کے بانی استاد محترم پروفیسرسید محمد سلیمؒ کے گھر پر جو علوی محلہ ہاتھی در میں واقع تھا‘ ایک اجتماع میں شرکت کی۔

سب سے پہلے انھیں جماعت کی دعوت دینے والے اور جماعت میں شمولیت پر آمادہ کرنے والے فرد محمد الٰہی مرحوم ساکن ضلع سانگھڑسندھ تھے جو جہلم کے رہنے والے تھے اور پولیس کی ملازمت کے سلسلے میں سندھ آئے تھے۔محمد الٰہی مرحوم بہت متقی‘ اصول پرست اور باعمل انسان تھے۔ جماعت کے فدائی تھے۔ انھوں نے ہی مولانا جان محمد بھٹوؒ کو جماعت کی دعوت دی تھی۔

مولانا مودودیؒ سے پہلی ملاقات: ۱۹۵۲ء میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ لاڑکانہ تشریف لائے۔جناح باغ میں جلسہ عام سے خطاب کیا۔ مولانا عباسیؒکہا کرتے تھے کہ ’’مجھے اس بات پر شدید تعجب ہوا جب مولانا مودودیؒ نے سامعین کو سوال کرنے کی دعوت دی‘‘۔ اس لیے کہ اس زمانے میں سیاسی قائدین عام جلسوں میں سوالوں کے جوابات نہیں دیتے تھے۔

آگے چل کر مولانا عباسیؒ کے بچپن کے دوست اور پڑوسی عبدالسلام آرائیں مرحوم نے انھیں جماعت کا لٹریچر دیا۔ مولانا جان محمدبھٹو مرحوم جب جماعت میں شامل ہوگئے تو انھوں نے مولانا عباسی صاحب سے رابطہ رکھا اور انھیں جماعت میں عملاًشمولیت پر آمادہ کیا۔ اس طرح مولانا بھٹو مرحوم اور دیگر حضرات کی کوششوں سے وہ جماعت میں شامل ہوگئے۔

جماعتی زندگی کا آغاز:  ۱۹۵۵ء میں مولانا عباسیؒ جماعت کے رکن بن گئے۔ ان کی تحریکی زندگی کا یہ ایک دل چسپ واقعہ ہے کہ جس اجتماع میں انھوں نے جماعت کی رکنیت کا حلف اُٹھایا‘ اسی وقت امیرشہر محمد ابراہیم قریشی نے ارکان کے سامنے اپنا استعفا پیش کرتے ہوئے پیش کش کی کہ چونکہ ایک اہل اور مجھ سے بہتر صائب الرائے اور باصلاحیت متحرک فرد رکن بن گیا ہے۔ اس لیے امیر اسی کو ہونا چاہیے۔ اس طرح کچھ عرصے کے بعد ان کو لاڑکانہ شہر کا امیر مقرر کیا گیا۔ یہ قریشی صاحب کا ایثار تھا جس کے لیے وہ اللہ کے یہاں یقینا اجر کے مستحق ہوںگے۔ امیر بننے کے بعد انھوں نے لاڑکانہ شہر میں تحریک کے کام کا آغاز پُرجوش اندازسے کر دیا۔ اسی سال انھیں ضلع لاڑکانہ کا امیر مقرر کیا گیا۔ ۱۹۶۳ء میں وہ خیرپور ڈویژن (موجودہ لاڑکانہ و سکھر ڈویژن) کے امیر مقرر ہوئے۔ ۱۹۶۸ء میں ان کو حیدر آباد ریجن (کراچی کے علاوہ بقیہ سندھ) کا امیرمقرر کیا گیا۔ ۱۹۷۰ء میں ون یونٹ کے خاتمے کے بعد وہ صوبہ سندھ کے امیر مقرر ہوئے۔ ۱۹۷۳ء میں انھیں جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر کی اضافی   ذمہ داری سونپی گئی۔ وہ ۱۹۹۷ء تک ۲۷ برس صوبہ سندھ کے امیر اور زندگی کے آخری لمحات تک پاکستان کے نائب امیر رہے۔

سیاسی جدوجہد: مولانا زمانۂ طالب علمی سے ہی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے۔ مسلم لیگ کے قائدین محمد ایوب کھوڑو اور قاضی فضل اللہ کے ساتھ تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا۔ ’ہاری کمیٹی‘ کے کچھ اجلاسوں میں بھی شریک ہوئے لیکن ان سے منسلک نہیں ہوئے۔ ۱۹۶۲ء میں بنیادی جمہوریت کے تحت منعقدہ بلدیاتی انتخاب میں اپنے محلے سے ممبر منتخب ہوئے۔ بعد میں یونین کمیٹی کرماہ باغ کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ اسی دوران شہر لاڑکانہ کی میونسپل کمیٹی کے وائس چیئرمین کے عہدے کا انتخاب لڑا لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی سخت مخالفت کی وجہ سے ایک ووٹ سے ہار گئے۔

۱۹۷۰ء کی قومی الیکشن میں ممتاز علی بھٹو اور قاضی فضل اللہ کے خلاف کھڑے ہوئے۔ ۱۹۷۷ء کے قومی انتخاب میں جماعت نے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی سیاست کا انداز جاگیردارانہ‘ فاشسٹ سوچ کا آئینہ دار تھا۔ وہ اپنی سیاسی مخالفت کوبرداشت نہیں کرتے تھے۔ اس لیے مخالفین کے ساتھ نہایت غیر جمہوری‘ آمرانہ اور فاشسٹ رویے رکھتے تھے۔ دھونس‘ دھاندلی ‘جبروستم‘ گرفتاریاں اور اذیتیں دینا ان کا پسندیدہ فعل تھا۔ انھوں نے لاڑکانہ سے بلامقابلہ منتخب ہونے کے لیے مولانا عباسی اور ان کے چیدہ چیدہ رفقاے کار کوکاغذات نامزدگی جمع کرانے سے پہلے پولیس کے ذریعے اغوا کروا لیا اور لاڑکانہ دادو کی سرحد پر واقع گائوں ’سیری‘ کے ایک بنگلے میں رکھا۔ جب بھٹو کے بلامقابلہ منتخب ہونے کا اعلان کر دیا گیا تب ان کو رہائی ملی۔

بھٹو صاحب کی اس کارروائی نے ان کے خلاف دھاندلی کی تحریک کو بنیاد فراہم کر دی۔ ملکی و غیرملکی ذرائع ابلاغ نے اس واقعے کو خوب کوریج دی اور یوں مولانا عباسی ملکی و بین الاقوامی سطح پر نمایاں ہوگئے۔

۱۹۸۵ء کے غیر جماعتی انتخاب میں انھیں پھر لاڑکانہ سے کھڑا کیا گیا۔ ان کا آخری الیکشن ۱۹۸۸ء کا قومی الیکشن تھا جس میں انھیں بے نظیر بھٹو کے مقابلے پر الیکشن لڑایا گیا۔ وہ اپنی بزرگی‘ صحت اور بعض دیگر وجوہات سے بے نظیر کے مقابلے میں کھڑا ہونے کو پسند نہیں کرتے تھے لیکن جماعتی فیصلے کے آگے سرتسلیم خم کرتے ہوئے اس فیصلے کو تسلیم کیا۔ یہ تحریک میں سمع و اطاعت اور اخلاص کی اعلیٰ مثال ہے۔

مولانا عباسی مرحوم نے ۴۲ سال تک مسلسل امیر رہے۔ شہر کی امارت سے لے کر صوبے کی امارت تک۔ انھوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں جماعت کو صوبے میں ایک سیاسی قوت بنانے میں صرف کر دیں۔ اس سلسلے میں ان کی کوشش ہوتی تھی کہ سندھ کے بااثر طبقات میں نفوذ کیا جائے۔ سندھ کے کونے کونے میں وڈیروں‘ زمین داروں اور دیگر بااثرافراد سے مسلسل رابطے رکھتے تھے اور انھی جماعت کے قریب لانے کے لیے سرگرداں رہتے تھے۔

مولانا کے سیاسی کردار کی عظمت کا اندازہ ان دو واقعات سے لگایا جا سکتا ہے:

ضیاء الحق مرحوم نے ۱۹۸۵ء کے قومی انتخاب کے موقع پر جنرل جہانداد کے ذریعے انھیں سینیٹ اور ان کے بڑے صاحبزادے قربان علی عباسی کو صوبائی اسمبلی کی نشست سے کامیاب کروانے کا پیغام بھیجا۔ سندھ کی جاگیردارانہ سیاست میں بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے کا اور اپنے سیاسی مستقبل بنانے کا یہ سنہری موقع تھا لیکن انھوں نے یہ پیش کش ٹھکرا دی اور جماعت کے فیصلے کی روشنی میں انکار کر دیا۔

مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے دورِاقتدار کے خاتمے کے بعد فوجی حکومت نے سابقہ حکومت کے خلاف ٹی وی پر ایک مہم چلائی جس میں ’’ظلم کی داستانیں‘‘ کے نام سے بھٹودور کے مظالم کو ذرائع ابلاغ کی مدد سے پوری دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔ مولانا‘ چونکہ بھٹو کے شہرسے تعلق رکھتے تھے اور ان کے اہم مخالفین میں شمار ہوتے تھے۔ اس لیے ایجنسیوں نے مولانا سے رابطہ کیا اور کہا گیا کہ وہ بھٹو کے خلاف ٹی وی کو ایک انٹرویو دیں۔ مولانا نے انکار کر دیا اور کہا کہ ہمارا بھٹو سے اختلاف اس کے غلط طریقہ سیاست کی وجہ سے تھا۔ اب‘ جب کہ وہ اقتدارمیں نہیں رہے ہماری ان سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ یہ ان کی اعلیٰ ظرفی تھی کہ مخالف سے انتقام نہیں لیا اور اسے معاف کر دیا۔

تحریکی خدمات: مولانا جان محمدعباسی‘ صاحب ِ بصیرت اور صائب الرائے قائد تھے۔ تاریخ پر ان کی گہری نظر تھی۔ ان کے سیاسی تجزیے‘ تقاریر بہت پُرمغز اور مدلل ہوتی تھیں۔ اسلامی انقلاب کے لیے پُرامن اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جدوجہد کے سخت حامی تھے۔مولانا کی شخصیت میں حلم اور بردباری تھی۔ بڑی سی بڑی تنقید کو خندہ پیشانی سے سنتے تھے۔ کبھی مشتعل نہیں ہوتے تھے۔ معترضین کو بہت ہی دھیمے اور ٹھنڈے انداز سے دلیل سے مطمئن کرتے تھے۔ اگر کوئی سخت بات بھی کہنی ہوتی تو لطیفوں میں اور ہلکے پھلکے مزاح میں کہہ دیتے۔ دانائی اور حکمت کے بڑے بڑے موتی لطیفے سنا کر اور کہانیاں سنا کر بیان کرنا‘ ان کا طرئہ امتیاز تھا۔

جماعتی زندگی میں معاملہ فہم اور مردم شناس تھے۔ افراد کی چھوٹی موٹی خامیوں کو نظرانداز کرنے کے قائل تھے۔ اقبال نے قائد کے لیے جو خوبیاں بیان کی ہیں وہ تمام کی تمام مولانا کے اندر ہمیں ملتی ہیں    ؎

نگہ بلند‘ سخن دل نواز ‘ جاں پُرسوز

یہی ہے رختِ سفر میرِکارواں کے لیے

مولانا تمام طبقات کے افراد سے روابط رکھتے تھے لیکن قوم پرست عناصر کی سرگرمیوں کو اُمت اور ملک کے مفاد کے خلاف سمجھتے اور اس بارے میں سخت رائے رکھتے تھے۔ اس ضمن میں سندھ میں محمد بن قاسم سندھی ادبی سوسائٹی اور اشاعت اسلام سوسائٹی کی داغ بیل ڈالی۔ مولانا اس سوسائٹی کے سرپرست تھے۔ سندھ کے مسلمان ادیبوں‘ شاعروں اور اہل قلم کو اس سوسائٹی کے تحت منظم کیا گیا۔ تفہیم القرآن کے سندھی ترجمے و اشاعت کے لیے سندھ اسلامک پبلی کیشنز قائم کیا۔ ترجمے کی تکمیل پر مولانا کی خوشی دیدنی تھی۔

مولانا عباسی مرحوم سیاسی کام کے ساتھ ساتھ تحریکی لٹریچر کو سندھی زبان میں منتقل کرنے کو بہت اہم سمجھتے تھے۔ مہران اکیڈمی کا قیام ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے جس کی انھوں نے مکمل سرپرستی کی اور اب الحمدللہ تحریکی لٹریچر کا بہت بڑا ذخیرہ سندھی زبان میں منتقل ہوچکا ہے۔

تحریکی زندگی میں کئی مرتبہ جیل بھی گئے۔ پہلی دفعہ تحریکِ ختم نبوت میں‘ دوسری بار جب جماعت پر پابندی عائد کی گئی اور پوری مرکزی شوریٰ کو پابندِ سلاسل کیا گیا۔ مولانا نے اس قیدوبند کے مرحلے کو بڑی استقامت اور حوصلے کے ساتھ کاٹا۔

ان میں ایک بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ جماعتی سرگرمیوں کے ساتھ تحریک کے اندر اور باہر اپنے ذاتی دوستوں اور احباب سے قریبی تعلق بھی رکھتے تھے۔ شادی‘ تعزیت‘عیادت‘ غرض یہ کہ ہر موقع پر ان سے رفاقت نبھاتے تھے۔ اللّٰہ رفیق یحب الرفق فی الامور کلہ اس حدیث کی عملی تفسیر تھے۔ وفات سے چند ماہ پہلے سخت کمزوری‘ ضعف اور ڈاکٹروں کے منع کرنے کے باوجود لاڑکانہ گئے اور قرب و جوارمیں موجود اپنے پرانے دوستوں کی عیادت کی اور کہیں تعزیت کی۔ گھر والوں نے بھی روکا لیکن مولانا نے جواب دیا کہ میں اپنے پرانے دوستوں سے ضرور ملوں گا۔ کل کس نے دیکھی ہے۔

ان کی تحریکی زندگی میں بعض مشکل لمحات بھی آئے‘ جس دوران انھوں نے قیادت اور پالیسیوں سے اختلاف کیا اور کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا لیکن یہ ان کے کردار کی عظمت ہے کہ جماعت سے وابستہ رہے۔ پیوسہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ کے مصداق تحریک سے ساتھ نبھاتے رہے اور سمع و اطاعت کے جذبے سے ‘باوجود اختلاف کے جماعت کے فیصلوں کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اپنے صوبے میں اس کی تنفیذکے سلسلے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مزاج اور رائے کے خلاف فیصلوں کو قبول کرنا اور ان کو لے کر چلنا ہی اصل سمع و اطاعت ہے۔

صوبہ سندھ کئی اعتبار سے ایک حساس صوبہ ہے۔ آبادی کے تناسب میں فرق اور شہری اور دیہی آبادی میں بڑے پیمانے پر تضادات کے باوجود انھوں نے جماعت کو مجتمع رکھا۔ اعتدال اور میانہ روی سے بڑے مشکل فیصلے اور نازک معاملات میں جماعت کی نہ صرف قیادت کی بلکہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے سب کو ساتھ لے کر چلتے رہے۔

یہ حسنِ اتفاق ہے کہ سندھ میں جماعت کو منظم‘ متعارف اور مضبوط کرنے والی دونوں شخصیات کے نام جان محمدتھے جن کو قائد ِ تحریک مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ ’’جانان محمد‘‘کے لقب سے پکارتے تھے۔ مولانا جان محمدبھٹوؒ نے دعوتی میدان میں عظیم الشان خدمات سرانجام دیں۔ سیکڑوں لوگ جماعت میں شامل کیے۔ قریہ قریہ جماعت کی دعوت پہنچائی‘ جب کہ مولانا جان محمد عباسیؒ نے جماعت کو ایک سیاسی قوت بنایا‘ سیاسی طور پر متعارف کرایا اور منظم کیا۔ ۱۹۷۰ء کے عشرے میں سندھ میں جو نعرے بڑے مقبول ہوئے ‘ ایک ’’اسلامی بھٹو--- جان محمد بھٹو‘‘ اور دوسرا ’’سندھ کا غازی --- جان محمد عباسی‘‘۔

اللہ نے ان کو ایک اعزاز یہ بخشا کہ ان کا جواں سال بیٹا نجم الدین عباسی ۱۹۸۹ء میں جہادِ افغانستان میں خوست کے محاذ پر دورانِ جہاد شہید ہوا۔ یہ جماعت کے پہلے مرکزی رہنما ہیں جنھوں نے کفر کے خلاف اپنے لخت ِ جگر کاخون اللہ کی راہ میں بہایا۔

ان کے متعلق‘ سندھ کے قوم پرست رہنما جی ایم سید مرحوم نے ایک بار کسی محفل میں کہا تھا کہ ’’اگر جان محمد عباسی جیسے سیاسی ورکر مجھے سندھ میں مل جاتے تو میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتا‘‘۔ یہ ایک مخالف کی گواہی ہے۔

ان کے اندر اخلاص‘ تحریک سے فنائیت کی حد تک تعلق اور اقامت دین کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کا جذبہ وداعیہ اعلیٰ درجے میں موجود تھا۔ جوانی سے لے کر وفات تک ایک ہی مقصد کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ ہمیشہ سفر میں رہنے کی وجہ سے اپنے گھر کو پوری طرح توجہ نہیں دے سکے۔ آخری ایام میں اس کا اظہار بھی کرتے کہ انھوں نے تحریک کے کام کو آگے بڑھانے کے لیے دن رات محنت کی اور تحریکی مصروفیات کی وجہ سے بچوں کو وقت نہیں دے سکے۔ ان کی اولاد الحمدللہ‘ تحریک سے وابستہ ہے۔ ان کے ایک صاحبزادے شمس الدین عباسی ایڈووکیٹ جماعت کے رکن اور لاڑکانہ شہر کے امیر ہیں۔ان کے ایک داماد اسلامی جمعیت طلبہ صوبہ سندھ کے سابق ناظم ڈاکٹر عبدالقادر سومرو ہیں جو اس وقت تحریک سے وابستہ ہیں۔ ان کے صاحبزادوں قربان علی عباسی‘ بدرانیس عباسی‘ شمس الدین عباسی نے ملاقات میں بتایا کہ مولانا اپنے بچوں کے لیے بہت ہی شفیق تھے۔ کبھی ڈانٹتے تک نہیں تھے۔ اگر کوئی بات ناگوار گزرتی تو خاموش ہوجاتے۔

اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات کو بلند فرمائے ۔ ان کی لغزشوں سے صرفِ نظر فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے۔ آمین!