سید عروج احمد قادری


دعا کے لغوی معنی ہیں: پکارنا، بلانا، مانگنا اور سوال کرنا، اور شرعی اصطلاح میں دعا کے معنی ہیں: اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں استغاثہ اور عرض معروض کرنا۔ دعا کی حقیقت دو چیزوں سے مرکب ہے۔ اللہ کے حضور اپنی عبودیت، غلامی، احتیاج، عاجزی اور ضعف و ذلّت کا اظہار، اور اس کی اُلوہیت، ربوبیت، قدرت، رحمت اور عظمت و جلال کا اقرار۔ انسان جب اپنی بندگی و پستی اور اللہ رب العالمین کی آقائی و بالادستی کے زندہ شعور و احساس کے ساتھ اس کی بارگاہ میں عرض نیاز کرتا اور اس سے کچھ مانگتا اور کچھ چاہتا ہے تو دعا کی حقیقت وجود میں آتی ہے۔ وہ اپنے مالک کو کبھی دل ہی دل میں پکارتا ہے اور اکثر اس کی زبان بھی اس کے دل کا ساتھ دیتی ہے۔ کبھی ہاتھ پھیلائے بغیر اس سے مانگتا ہے اور اکثر دست سوال دراز کر کے اس کے حضور گڑگڑاتا ہے۔ یہی حقیقت ہے جس کا اظہار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کو مغزِ عبادت بلکہ عین عبادت قرار دے کر کیا ہے۔    انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعا  مغزِ عبادت ہے۔ (ترمذی)

حضوؐر نے دعا کو مغزِ عبادت یا روحِ عبادت اس لیے فرمایا ہے کہ دعا کرنے والا ماسوا اللہ سے اپنی تمام اُمیدیں منقطع کر کے اللہ کو پکارتا ہے اور یہی توحید اور اخلاص کی حقیقت ہے اور توحید و اخلاص سے بلند تر کوئی عبادت نہیں ہے۔ محی الدین ابن عربی کہتے ہیں کہ جس طرح جسم کے تمام اعضا ہڈیوں کے مغز سے قوت حاصل کرتے ہیں اسی طرح دعا وہ مغز ہے جس سے عابدوں کی عبادت کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ ایک دوسری حدیث میں حضوؐر نے قرآن کی آیت سے استدلال کرتے ہوئے دعا کو عین عبادت بھی کہا ہے۔ ظاہر ہے کہ دعا کو عبادت یا مغزِ عبادت اسی وقت قرار دیا جاسکتا ہے جب دونوں کی حقیقت ایک ہو۔ کتاب و سنت کے بیسیوں دلائل و شواہد سے ثابت ہے کہ عبادت کی حقیقت بھی وہی ہے جو دعا کی ہے، یعنی یہ کہ انسان اپنی عبودیت کا اظہار اور اللہ کی معبودیت کا اعتراف و اقرار کرے۔ تمام عبادتیں اسی اظہار و اقرار کے مظاہر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہم اللہ کی پرستش کریں یا اس کی اطاعت، ہماری ہر پرستش اور ہراطاعت اپنی عبودیت کا اظہار اور اس کی معبودیت کا اقرار ہے۔

دین میں دعا کی اھمیت

اس کائنات کے معبودِ برحق نے اپنی کتاب قرآنِ مجید میں جس طرح بہت سے احکام و اوامر نازل فرمائے ہیں، اسی طرح دعا کا حکم بھی نازل فرمایا ہے۔ اللہ کا اپنے بندوں سے مطالبہ ہے کہ  وہ اس سے اور صرف اسی سے دعا مانگیں اور مدد کے لیے اسی کو پکاریں۔ اس لیے کہ سب کچھ    اسی کے دستِ قدرت میں ہے اور اس کائنات میں اس کی مشیت کے بغیر ایک پتّا بھی اپنی جگہ سے ہِل نہیں سکتا، اور اس لیے بھی کہ دعا عبادت ہے اور عبادت کسی دوسرے کی جائز نہیں۔ سورئہ مومن میں حکم دیا گیا ہے:

وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ط اِِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دٰخِرِیْنَ o (المومن۴۰:۶۰) اور تمھارا رب کہتا ہے مجھے پکارو، میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا۔ بے شک جو لوگ میری عبادت سے گھمنڈ کرتے ہیں وہ عنقریب ذلّت و خواری کے ساتھ جہنم میں داخل ہوںگے۔

اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کو عین عبادت قرار دیا ہے۔ نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دعا عین عبادت ہے۔ پھر آپؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’اور تمھارا رب کہتا ہے: مجھے پکارو میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا۔ بے شک جو لوگ میری عبادت سے گھمنڈ کرتے ہیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے‘‘۔ (ترمذی، ابن حبان ، احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، حاکم)

سورئہ اعراف میں کچھ تفصیل سے دعا کا حکم دیا گیا ہے:

اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً ط اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ o وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا ط اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَo (الاعراف ۷:۵۵-۵۶) اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ زمین میں فساد برپا نہ کرو، جب کہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے اور خدا ہی کو پکارو خوف کے ساتھ اور طمع کے ساتھ۔ یقینا  اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے۔

ان دو آیتوں میں جو ہدایات دی گئی ہیں وہ یہ ہیں:

۱- اپنے رب سے دعا کرو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے۔ اس ہدایت میں دعا کی حقیقت اور اس کے ادب کی بھی تعلیم دی گئی ہے۔

۲- اس کو پکارو خوف اور اُمید کے ساتھ۔ خوف اللہ کے عذاب کا اور اُمید اس کے فضل و کرم کی، نیز ڈر اس بات کا کہ دعا کسی کوتاہی کی وجہ سے وہ رد نہ کردی جائے، اور اُمید اس بات کی کہ اللہ اپنے بندے کے عجزو قصور کو دیکھتے ہوئے اسے قبول فرما لے گا۔

۳- دوسرے اعمال کی طرح دعا میں بھی حد سے تجاوز نہ کرو۔ اس لیے کہ اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

۴- اصلاح کے بعد زمین میں فساد نہ مچائو۔ سب سے بڑا فساد یہ ہے کہ اللہ سے منہ موڑ کر دوسروں کو اپنا ملجا و ماویٰ بنایا جائے، ان کو مدد کے لیے پکارا جائے اور ان کے نام کی دہائی دی جائے۔

۵- جو لوگ خوف اور اُمید کے ساتھ صرف اللہ کو پکارتے اور اس سے دعائیں کرتے ہیں وہ محسن ہیں، اور اللہ کی رحمت محسنوں سے قریب ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی دعا بندے کو درجۂ احسان تک پہنچا دیتی ہے۔ سورئہ اعراف ہی میں ایک دوسرے مقام پر کہا گیا ہے: وَلِلّٰہِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِھَا (الاعراف ۷:۱۸۰) ’’اللہ کے بہت سے اچھے نام ہیں تو تم اسے انھی ناموں سے پکارو‘‘۔

اللہ کے اسماے حسنیٰ قرآن میں بھی ہیں اور احادیث میں بھی اور چونکہ اس کی صفات   بے شمار ہیں، اس لیے کتنے ہی ایسے نام ہوں گے جن کا علم صرف اسی کو ہے۔ چنانچہ ایک دعا میں  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں وہ اس آیت کی بھی بہترین تفسیر ہیں۔ اس دعا کا متعلقہ ٹکڑا یہ ہے: ’’میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے ہر اس نام سے جس سے تو نے اپنے آپ کو موسوم کیا ہے، یا وہ نام جو تو نے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے، یا تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو اس کا علم عطا کیا ہے، یا اسے تو نے اپنے ہی علمِ غیب میں اپنے پاس محفوظ رکھا ہے‘‘۔(تفسیر ابن کثیر، ج ۲،ص ۲۶۹)

سورئہ بقرہ میں فرمایا گیا:

دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَo (البقرہ ۲:۱۸۶) میں قبول کرتا ہوں دعا مانگنے والے کی دعا کو جب مجھ سے دعا مانگے۔ لہٰذا انھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ راہِ راست پالیں۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ میں اپنے بندوں سے دُور نہیں ہوں کہ انھیں زور سے مجھے پکارنے کی ضرورت پڑے۔ میں تو ان کے قریب ہی ہوں۔ مجھے نہ زور سے پکارنے کی ضرورت ہے اور نہ میری بارگاہ میں درخواست پیش کرنے کے لیے کسی دوسری ہستی کے واسطے کی حاجت ہے۔ میرا ہر بندہ بلاواسطہ مجھ سے دعا کرسکتا ہے۔ میں اس کی دعا کو صرف سنتا ہی نہیں ہوں بلکہ اسے قبول بھی کرتا اور اس کے بارے میں فیصلہ بھی کرتا ہوں۔ جب ایسا ہے تو میرے بندوں پر بھی لازم ہے کہ وہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ لہٰذا آیت کے اس ٹکڑے سے معلوم ہوا کہ یہ بڑی نادانی ہوگی کہ انسان اللہ کی اطاعت تو نہ کرے لیکن یہ توقع رکھے کہ اس کی دعائیں قبول کی جائیں گی۔ دراصل اللہ پر ایمان اور اس کی اطاعت ہی انسان کو اس کا مستحق بناتی ہے کہ اس کی دعا قبول کی جائے۔

رسولِؐ خدا کو دعا کی ھدایت

اُوپر کی آیتوں میں بالعموم تمام بندوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے رب سے دعا مانگیں اور اسے پکاریں۔ اب ہم ایسی آیتیں پیش کرتے ہیں جن میں اللہ نے اپنے سب سے مقرب، سب سے محبوب اور سب سے بلندمرتبہ بندے کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اس سے دعا مانگیں۔ دین میں دعا کی اہمیت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگاکہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا حکم دیاگیا اور آپؐ نے اس حکم کی ایسی تعمیل کی جس کی کوئی مثال تاریخِ انسانی میں موجود نہیں ہے۔

اضافۂ علم کی دعا

وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا o (طٰہٰ ۲۰:۱۱۴) اور دعا کرو کہ اے پروردگار! مجھے مزید علم عطا کر۔

مزید علم کی دعا سے ایک مراد یہ ہے کہ قرآن کے جو حصے ابھی نازل نہیں ہوئے ہیں اسے بھی عطا فرما اور دوسری مراد یہ ہے کہ جو حصے نازل ہوئے ہیں اس کے معانی و مسائل و معارف کا بیش از بیش فہم عطا فرما۔ اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ اللہ کو اپنے بندے کی دعا بے حد محبوب ہے اور دوسری یہ کہ علمِ دین میں اضافہ انتہائی پسندیدہ چیز ہے۔ اس چھوٹی سی آیت سے دین میں دعا اور علم دونوں ہی کی اہمیت و فضیلت پر روشنی پڑتی ہے۔

غلبہ و اقتدار کی دعا

وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۸۰) اور دعا کرو کہ پروردگار جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ   نکال اور مجھ کو اپنے پاس سے ایسا غلبہ دے جس کے ساتھ تیری نصرت ہو۔

جب مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کا زمانہ قریب آیا تو اللہ نے اپنے آخری رسول کو یہ حکم دیا کہ غلبہ و اقتدار کی دعا مانگیں، اس لیے کہ آپؐ کی ہجرت اللہ کے باغیوں سے جنگ کا پیش خیمہ تھی اور اس کے لیے تین چیزیں ضروری تھیں:

ا - اس بات کی واضح دلیل اور کھلا ہوا بینہ کہ آپ ہی سچائی کے علَم بردار ہیں اور جو دین آپ پیش کر رہے ہیں وہی دین حق ہے اور وہی اس کا مستحق ہے کہ دوسرے باطل ادیان پر غالب ہو۔

ب- حکومت کا اقتدار تاکہ اس کے ذریعے نیکی کو فروغ دیا جائے اور بدی کو مٹایا جائے۔

ج- اللہ کی نصرت کیوں کہ اس کے بغیر دشمنوں پر فتح حاصل نہیں کی جاسکتی۔ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا کے فقرے میں یہ تینوں چیزیں داخل ہیں۔ ظاہر ہے کہ غلبہ و اقتدار کے بغیر نہ دین باطل کو شکست دی جاسکتی ہے اور نہ قرآن کے تمام فرائض، احکام اور حدود کی تنفیذ ممکن ہے۔ یہی حقیقت ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں ظاہر فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ حکومت کے اقتدار سے ان چیزوں کا سدِّباب کردیتا ہے جن کا سدِّباب قرآن سے نہیں کرتا۔

طلب ِ حکومت کی لطیف دعا

قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ وَ تُعِزُّمَنْ تَشَآئُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ ط بِیَدِکَ الْخَیْرُ ط اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo (اٰل عمرٰن ۳:۲۶) دعا کرو اے اللہ! ملک کے مالک تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے، جسے چاہے عزت بخشے اور جسے چاہے ذلّت دے تیرے ہی ہاتھ میں خیر ہے، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

ابن جریر نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے درخواست کی تھی کہ فارس اور روم کی سلطنت آپؐ کی اُمت کو عطا کر دی جائے۔ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی اور امام رازی نے حسن بصری کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اس آیت میں اللہ نے اپنے نبی کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ فارس اور روم کی حکومت طلب کریں، اور موجودہ زمانے کے بعض ذی علم مفسرین نے لکھا ہے کہ اس آیت میں بشارت دی گئی ہے کہ امامت و سیادت کا وہ منصب جس پر بنی اسرائیل اب تک فائز رہے ہیں اب وہ بنی اسماعیل کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ بہرحال اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہایت لطیف انداز میں امامت، سیادت اور حکومت طلب کرنے کی دعا کا حکم دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ حکومت طلبی کی یہ دعا دنیا پرستی کے لیے نہیں سکھائی گئی ہے بلکہ اعلاء کلمۃ اللہ اور اللہ کے نازل کیے ہوئے قوانین کو نافذ کرنے کے لیے سکھائی گئی ہے اور اس مقصد کے لیے حصولِ اقتدار کی دعا عین امرالٰہی کی تعمیل ہے۔ اسی مقصد کے لیے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے لیے ایک ایسی بے مثال حکومت کی دعا مانگی تھی جو ان کے سوا کسی کو نہ دی گئی ہو۔

ھدایت پر استقامت کی دعا

قُلِ اللّٰھُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عٰلِمَ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ اَنْتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِکَ فِیْ مَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ o (الزمر ۳۹: ۴۶) (اللہ سے دعا میں) کہیے کہ اے اللہ! آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے، غائب اور حاضر کے جاننے والے آپ ہی اپنے بندوں کے درمیان ان امور میں فیصلہ فرمائیںگے جن میں وہ باہم اختلاف کرتے تھے۔

اس دعا میں یہ لطیف انداز اختیار کیا گیا ہے کہ اس میں صرف اللہ کی حمدوثنا کی گئی ہے اور اس کی حاکمیت کا اظہار کیا گیا ہے اور دعائیہ جز مخفی رکھا گیا ہے۔ اس مخفی جز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا میں ظاہر فرما دیا ہے۔ حضرت عائشہؓ کی ایک روایت میں ہے کہ حضوؐر نمازِ تہجد کے افتتاح میں سورئہ زمر کی یہ آیت فِیْ مَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ تک پڑھتے تھے۔ اس کے بعد یہ دعائیہ فقرہ کہتے تھے: ’’حق کے بارے میں جو اختلاف پیدا کیا گیا ہے اس میں مجھے ہدایت پر قائم رکھ، بلاشبہہ تو جسے چاہتا ہے صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے‘‘۔ (ابن کثیر بحوالہ مسلم،ج ۴،ص ۵۶)

ھر برائی سے پناہ مانگنے کی دعا

انسان کو ہرقسم کی برائیوں سے اُبھارنے والا شیطان اور اس کا جرگہ ہے۔ اس عدومبین کی شرارتوں سے پناہ مانگنے کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دیا گیا تھا:

خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَo وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِط اِنَّہٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo (الاعراف ۷:۱۹۹-۲۰۰) اے نبیؐ! نرمی اور درگزر کا طریقہ اختیار کرو۔ معروف کی تلقین کیے جائو اور جاہلوں سے نہ اُلجھو۔ اگر کبھی شیطان تمھیں اُکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔

حق کی وصیت، نیکی کی تلقین اور برائی سے اجتناب کی نصیحت ایسی چیزیں نہیں ہیں جو ہمیشہ ٹھنڈے پیٹوں قبول کرلی جائیں بلکہ اس راہ میں داعیانِ حق پر زیادتیاں بھی کی جاتی ہیں اور جاہلوں کی اشتعال انگیزیوں سے بچنے کی تدبیر صرف یہ ہے کہ داعیِ حق اس سے اللہ کی پناہ مانگے جس کی قدرت شیطان پر بھی حاوی ہے۔ سورئہ حم السجدہ میں بھی انھی الفاظ کے ساتھ آپؐ کو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے اور سورئہ مومنون میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شیطان سے کس طرح اللہ کی پناہ مانگی جائے:

اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ السَّیَِّٔۃَ ط نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ o وَقُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ ھَمَزٰتِ الشَّیٰطِینِ o وَاَعُوْذُ بِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ o (المومنون ۲۳: ۹۶ تا ۹۸) برائی کو اس طریقے سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ جو کچھ باتیں وہ تم پر بناتے ہیں وہ ہمیں خوب معلوم ہیں اور دعا کرو کہ پروردگار میں شیاطین کی اُکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں، بلکہ اے رب! میں تو اس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں۔

ان آیتوں میں بھی پہلے حکم دیا گیا ہے کہ برائی کو بھلائی سے دفع کرو اور اس کے بعد شیطان کی اُکساہٹوں سے پناہ مانگنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس لیے کہ اس کا علاج صرف اللہ کے دستِ قدرت میں ہے۔ ان آیتوں کے علاوہ قرآن کی سب سے آخری سورہ شیاطین جن و انس کی وسوسہ اندازیوں سے استعاذہ کے لیے ہی نازل کی گئی ہے۔ اس میں پناہ مانگنے کا حکم بھی دیا گیا ہے اور اس کے الفاظ بھی سکھائے گئے ہیں۔ سورۃ الناس سے پہلے سورۃ الفلق میں ہر شر اور ہربرائی سے اللہ کی پناہ مانگنے کی دعا سکھائی گئی ہے۔ اسی لیے ان دونوں سورتوں کا نام ’المعوذتین‘ ہے۔ ان دومستقل سورتوں کو نازل کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ استعاذہ اور تعوذ، یعنی اللہ کی پناہ مانگنے کی دعائوں کو دین میں کیا مقام حاصل ہے اور اس کی کیا اہمیت ہے۔ غصے اور غضب کو دُور کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھنے کی تعلیم دی ہے اور قرآن کی تلاوت شروع کرنے سے پہلے بھی پڑھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

طلب ِ مغفرت کی دعا

کسی کم درجے کے انسان کی معمولی کوتاہی نظرانداز کی جاسکتی ہے لیکن کسی بڑے درجے کے انسان کی معمولی کوتاہی بھی قابلِ گرفت بن جاتی ہے۔ نزدیکاں را بیش بود حیرانی، اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ اصولی بات یاد رکھنی چاہیے کہ انبیاے کرام علیہم السلام کو استغفار کا جو حکم دیا گیا ہے وہ ان کے بلند درجات کی مناسبت سے دیا گیا ہے۔ دوسری بات یہ یاد رکھنا چاہیے کہ استغفار سے صرف کوتاہیاں ہی معاف نہیں ہوتیں بلکہ اس سے درجات بھی بلند ہوتے ہیں۔ ان دونوں باتوں کو سامنے رکھ کر دیکھیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔ کہیں صرف اپنے لیے اور کہیں اپنے لیے بھی اور مسلمانوں کے لیے بھی:

وَقُلْ رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ o (المومنون ۲۳: ۱۱۸) اور کہیے اے میرے رب! میری خطائیں معاف کر اور رحم کر اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔

اس آیت سے پہلے مشرکین کے انکارِ آخرت اور معبودانِ باطل سے ان کی دعائوں کی تردید کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ غیراللہ کو پکارنے اور ان کی دہائی دینے والے کافروں کو فلاح نصیب نہیں ہوسکتی۔ اس کے بعد حضوؐر کو اپنے رب سے مغفرت اور رحمت طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ صرف اللہ سے دعا، توحید کی تکمیل بھی ہے:

فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِِلٰہَ اِِلَّا اللّٰہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْـبِکَ م    وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَمَثْوٰکُمْ o (محمد۴۷:۱۹) پس تم جان رکھو کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہیں اور اپنے گناہ کی مغفرت طلب کرو اور مسلمان مرد اور عورتوں کے لیے بھی استغفار کرو۔ اللہ کو معلوم ہے تمھاری بازگشت اور تمھارا گھر۔

استغفار کے حکم کی تعمیل حضوؐر نے اس طرح کی ہے کہ نمازوں کے اندر آپؐ جو استغفار کرتے تھے اس کے علاوہ بھی بعض حدیثوں میں آتا ہے کہ روزانہ ۷۰ بار اور بعض میں آتا ہے کہ روزانہ ۱۰۰ بار استغفار کرتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو دعائیں، استعاذے اور استغفار کی مروی ہیں، اگر ان سب کو تشریح کے ساتھ جمع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب آسانی کے ساتھ تیار کی جاسکتی ہے۔

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ ط اِِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا (النصر۱۱۰:۳) پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجیے اور اس سے مغفرت طلب کیجیے۔ بے شک وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔

جب حضوؐر کی وفات کا زمانہ قریب آیا تو سورہ اِِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ نازل ہوئی اور آپؐ کو اس میں بھی حمدوتسبیح اور استغفار کا حکم دیا گیا۔ صحیح احادیث میں مروی ہے کہ سورئہ نصر میں آپؐ کو زمانۂ وفات کے قریب ہونے کی خبر دی گئی تھی اور صحیح احادیث میں یہ بھی آتا ہے کہ اس سورہ کے نازل ہونے کے بعد آپؐ نمازوں کے اندر بھی اور دوسرے اوقات میں بھی سُبْحَنٰکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ (اے اللہ! اے ہمارے رب میں حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتا ہوں، اے اللہ مجھے بخش دے) پڑھا کرتے تھے۔

فرشتوں کو دعا کا حکم

قرآن نے ہمیں بتایا ہے کہ فرشتے ہر کام امرالٰہی کے تحت کرتے ہیں۔ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ (النحل ۱۶:۵۰) ’’فرشتے وہی کام کرتے ہیں جس کا انھیں حکم دیا جاتا ہے‘‘۔ اس کے پیشِ نظر یہ بات یقینی ہے کہ مسلمان مرد اور عورتوں کے لیے جو دعا وہ کرتے ہیں وہ بھی امرالٰہی کے ماتحت ہی ہے۔ فرشتوں کو بھی اللہ نے حکم دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے لیے دعا کرتے رہیں۔     اللہ تعالیٰ کے اس حکم سے بھی دین میں دعا کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ فرشتوں کی طویل دعا سورئہ مومن کی ابتدا میں ہے۔ (المومن ۴۰: ۷-۹)

ان آیتوں سے ایک طرف دین میں دعا کی اہمیت اور فضیلت معلوم ہوتی ہے اور دوسری طرف ان میں اپنے گناہوں سے تائب اور راہِ حق پر چلنے والے مسلمانوں کے عظیم فضل و شرف کا ذکر ہے۔ تسلی یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے مقرب ترین فرشتے خود اس کے حکم کے تحت ان کے لیے مغفرت اور دخولِ جنت کی دعا کر رہے ہیں تو پوری توقع ہے کہ ان کی دعا قبول کی جائے گی، اور فضل و شرف یہ ہے کہ بارگاہِ الٰہی میں حاضر مقرب ترین فرشتے تک ان سے محبت کرتے ہیں۔ ان کی طرف متوجہ ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں ان کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں۔

غیراللّٰہ سے دعا شرک ھے

چونکہ دعا کی حقیقت عین توحید اور خود دعا عقیدۂ توحید کا ایک بڑا مظہر ہے، اس لیے قرآن نے غیراللہ سے دعا کو شرک قرار دیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو صراحتاً اس سے منع فرمایا ہے۔ اس لیے اس سلسلے کی بھی چند آیتیں یہاں پیش کی جاتی ہیں:

وہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے۔ ان میں سے ہر ایک مقررہ مدت کے لیے رواں دواں ہے۔ یہ ہے اللہ تمھارا رب، بادشاہی اسی کی ہے اور اللہ کو چھوڑ کر جنھیں تم پکارتے ہو وہ پرکاہ کے برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں ہیں۔ اگر تم انھیں پکارو تو وہ تمھاری دعا نہیں سنیں گے اور اگر سُن لیں تو تمھیں اس کا جواب نہیں دے سکیں گے اور قیامت کے دن تمھارے شرک کا انکار کریں گے، اور باخبر (اللہ) کی طرح تمھیں اس حقیقت کی صحیح خبر کوئی نہیں دے سکتا۔ (الفاطر ۳۵: ۱۳-۱۴)

سورئہ فاطر کی اس آیت میں غیراللہ سے دعا کو بالفاظِ صریح شرک کہا گیا ہے کیونکہ اس سے پہلے ان کے مشرکانہ اعمال میں سے غیراللہ سے دعا ہی کا ذکر ہے اور اس کے بعد یہ کہا گیا ہے کہ قیامت میں وہ تمھارے شرک کا انکار کریں گے۔ بلاشبہہ شرک میں غیراللہ کی پرستش، نذر ونیاز اور چڑھاوا سبھی داخل ہے لیکن آیت کا سیاق بتا رہا ہے کہ یہاں اس سے اوّلین مراد غیراللہ سے دعا ہی ہے۔

وَ لَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنْفَعُکَ وَ لَا یَضُرُّکَ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیْنَ o (یونس ۱۰:۱۰۶) اور اللہ کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکار جو تجھے نہ فائدہ پہنچاسکتی ہے نہ نقصان۔ اگر تو ایسا کرے گا تو ظالموں میں سے ہوگا۔

اس آیت میں غیراللہ سے دعا کرنے اور اس کی دہائی دینے کی صریح ممانعت کے ساتھ وہ حقیقت بھی بتا دی گئی ہے جس کی وجہ سے لوگ ایسا کرتے ہیں۔ انسان اپنی حماقت اور شیطان کے اغوا کی وجہ سے یہ سمجھ لیتا ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کے پاس بھی اختیار واقتدار اور ایسی قدرت ہے کہ وہ کسی دوسرے کو نقصان اور نفع پہنچا سکتا اور اس کی قسمت کو بنا اور بگاڑ سکتا ہے۔ اس لیے    اللہ نے اس آیت میں بھی اور متعدد دوسری آیتوں میں یہ حقیقت واضح کی ہے کہ اس طرح کا اقتدار اللہ کے سوا کسی اور کے پاس نہیں ہے اور اس کی مشیت کے بغیر کوئی کسی کو نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اسی طرح اس نے یہ حقیقت بھی کھول دی ہے کہ اگر اللہ کی طرف سے کوئی ضرر پہنچے تو اس کو اس کے سوا اور کوئی دفع نہیں کرسکتا، اور اگر وہ کسی خیرکا ارادہ کرے تو کوئی نہیں جو اسے نفع پہنچانے سے روک سکے۔ قرآن کریم میں کہا گیا ہے:

اگر اللہ کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے۔ اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ (یونس ۱۰:۱۰۷)

قرآن نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اگر کوئی شخص غیراللہ کی دہائی دیتا اور اس سے دعائیں مانگتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اس کو اپنا معبود بنا رہا اور اللہ کے ساتھ اس کو شریک قرار دے رہا ہے۔ غیراللہ کی عبادت کرنے اور اس سے دعا مانگنے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں کی حقیقت ایک ہے۔

فَلاَ تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِِلٰھًا اٰخَرَ فَتَکُوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِیْنَo (الشعراء ۲۶:۲۱۳) پس اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہ پکارو، ورنہ تم بھی سزا پانے والوں میں شامل ہوجائو گے۔

معلوم ہوا کہ اللہ کے ساتھ کسی اور کو پکارنا، اس کو معبود کی حیثیت دینا ہے، اور اللہ کا قانون بے لاگ ہے، اس شرک میں جو بھی مبتلا ہوگا وہ اللہ کی سزا سے بچ نہیں سکے گا۔

دعا کی فضیلت احادیث میں

دعا کے بارے میں اس کثرت سے احادیث مروی ہیں کہ کتب احادیث میں اس کے لیے مستقل ابواب مخصوص کرنے پڑے ہیں۔ میں پہلے دعا کی اہمیت و فضیلت کے سلسلے میں چند حدیثیں پیش کرتا ہوں:

  • دعا کا تاکیدی حکم: جیساکہ اُوپر ذکر آچکا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کثرت سے دعائیں مانگی ہیں کہ آپؐ کی دعائوں سے ایک ضخیم کتاب مرتب ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ آیاتِ قرآنی کے پیش نظر آپؐ  نے اپنی اُمت کو اللہ سے دعا کرنے کا موکد حکم دیا ہے:

حضرت ابن عمرؓ نے حضوؐر سے روایت کی ہے کہ دعا ان مصیبتوں اور بلائوں کو دُور کرنے میں بھی نافع ہے جو نازل ہوچکی ہوں، اور ان میں بھی جو نازل نہ ہوئی ہوں۔ اور قضا کو دعا کے سوا کوئی چیز ٹال نہیں سکتی، پس تم پر لازم ہے کہ دعا کرو۔ (ترمذی)

فعلیکم بالدعاء (تم پر لازم ہے کہ دعا کرو) ایک موکد حکم ہے۔

ابن مسعودؓ حضوؐر سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ سے اس کا فضل مانگو۔ اس لیے کہ   اللہ (اپنے بندوں کے) سوال کو پسند کرتا ہے اور تنگی میں کشایش کا انتظار بہترین عبادت ہے۔ (جمع الفوائد بحوالہ ترمذی)

تنگی و ترشی کی حالت میں یا کسی بھی مصیبت و بلا کے وقت کشادگیِ رزق اور دفع بلا کے انتظار کو بہترین عبادت اس لیے کہا گیا ہے کہ بندۂ مومن اپنے آقا و مولا سے اس کے فضل و کرم کی بھیک مانگتا رہتا ہے۔ وہ نہ اس سے تھکتا ہے، نہ اُکتاتا ہے اور نہ کشادگی و رفع بلا کے لیے کوئی غلط ذریعہ یا غلط طریقہ اختیار کرتا ہے، بلکہ صرف اللہ کے فضل کی آس لگائے رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ  اس حالت میں بندے کا صبروتوکل بہترین عبادت ہے۔

’’جو اللہ سے دعا نہیں کرتا اللہ اس پر  غضب ناک ہوتا ہے‘‘ (ترمذی)۔ اس حدیث میں جو خبر دی گئی ہے وہ دعا کے بارے میں انتہائی مؤکد حکم کا درجہ رکھتی ہے۔ اس حدیث کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو مسلمان اپنے آپ کو غضب ِ الٰہی سے بچانا چاہتا ہو، اسے اللہ سے دعا مانگنا چاہیے۔ یہ حدیث ابن ماجہ نے بھی روایت کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں: من لم یدع اللّٰہ غضب علیہ۔ اسی اہمیت کے پیشِ نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اوقات میں صحابہ کرامؓ کو دعائوں کی باضابطہ تعلیم دی ہے اور ان کے الفاظ تک سکھائے ہیں۔

  • تکثیر دعا کا حکم: حضوؐر نے اپنے مقدس ساتھیوں کو تکثیردعا کی بھی ترغیب دی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سجدے کی حالت میں بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے، پس تم بکثرت دعا مانگو‘‘۔ (ریاض الصالحین بحوالہ مسلم)

ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو دعا کے فوائد بتائے تو ان میں سے بعض نے عرض کیا: ’’تب تو یارسولؐ اللہ ہم بکثرت دعا مانگیں گے‘‘۔ حضوؐر نے جواب دیا: ’’اللہ کا فضل تمھاری دعائوں سے بہت زیادہ ہے‘‘، یعنی اللہ کا خزانۂ فضل و کرم بے کراں ہے۔ اس لیے تمھاری کثیر دعائوں کو قبول کرنے کے بعد بھی اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ حضوؐر کے اس جواب میں تکثیر دعا کی کتنی دل آویز ترغیب ہے۔ یہ حدیث امام ترمذی نے حضرت عبادہ بن الصامتؓ سے ابواب الدعوات میں روایت کی ہے۔

  • دعا کی فضیلت: اذکار و عبادات میں دعا اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ باوقعت اور مکرم شے ہے۔ ’’اللہ کے نزدیک کوئی چیز دعا سے زیادہ مکرم نہیں ہے‘‘ (ترمذی)۔ یہ حدیث ابن ماجہ، احمد، بخاری (فی الادب المفرد) ابن حبان اور حاکم نے بھی روایت کی ہے۔ دعا کی فضیلت میں اگر اس ایک حدیث کے سوا کوئی دوسری حدیث نہ ہوتی جب بھی یہ کافی تھی۔ دعا کی جو حقیقت اس سے پہلے بیان کی گئی ہے، اس کو سامنے رکھا جائے تو اس حدیث کو سمجھنا دشوار نہیں ہے۔ مختصر بات یہ ہے کہ جس طرح اللہ کو اپنے بندوں کا غرور، گھمنڈ اور تکبر سب سے زیادہ ناپسند ہے، اسی طرح اس کو اپنے سامنے اپنے بندوں کی عاجزی، احتیاج اور عبودیت کا اظہار و اقرار سب سے زیادہ پسند ہے۔

دعا بندۂ مومن کو اللہ کی رحمتوں کا مستحق بناتی ہے: حضرت ابن عمرؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ’’جس شخص کے لیے دعا کا دروازہ کھول دیا گیا، اس کے لیے رحمت کے دروازے کھل گئے‘‘۔ گویا جس کو اللہ سے دعا مانگنے کی توفیق مل گئی اور جس کو دعا کا ذوق پیدا ہوگیا اس نے اپنے آپ کو اللہ کی رحمتوں کا مستحق بنالیا۔ وہ اس کو اپنی رحمتوں سے نوازے گا۔

دعا سے درجات بلند ہوتے ہیں: ’’حضرت ابوہریرہؓ حضوؐر سے روایت کرتے ہیں کہ  اللہ تعالیٰ اپنے بندے کا درجہ بلند فرماتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ مجھے یہ درجہ کہاں سے ملا۔ اللہ فرماتا ہے کہ اس دعا کے بدلے میں جو تیری اولاد نے تیرے لیے کی‘‘ (جمع، بحوالہ بزار)۔ ظاہر ہے کہ جب دعا سے والدین کے درجے بلند ہوں گے تو کیا دعا کرنے والی اولاد کے اپنے درجات بلند نہ ہوں گے؟ اسی معنے کی ایک حدیث موطا امام مالک میں بھی ہے۔

دین میں دعا کی بڑی اہمیت ہے اور یہ ایک ایسی عبادت ہے جس سے اعراض اللہ رب العالمین کو سخت ناپسند ہے۔ دعا کی تاکید بھی کی گئی ہے کہ اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارو۔ دعا ایک مومن کے لیے پریشان کن حالات اور مصائب و مشکلات میں امید اور حوصلے کا سامان اور مضبوط سہارا ہے اور اسے مایوسی اور نااُمیدی سے محفوظ رکھتی ہے، لہٰذا خشوع و خضوع سے دعا کا اہتمام ایک مومن کا شعار ہونا چاہیے۔ (مصنف: اسلامی تصوف)