محمد فاروق چوہان


گذشتہ دو عشروںسے پاکستان سمیت عالم اسلام پرالیکٹرانک میڈیاکی یلغارہے۔ نجی سطح پر ٹی وی چینلوں کے سیلاب کے ذریعے معاشرتی واخلاقی اقدارکوبدل کررکھ دیا ہے۔ اگرچہ اخبارات ورسائل میں بھی روزافزوںترقی کاعمل جاری رہالیکن نجی ٹی وی چینلوں نے اسلامی ثقافت پرگہری ضرب لگانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

مغرب کا ہدف کیا ہے؟اس کا اندازہ ایک فرانسیسی رسالے لے موندڈپلومیٹ میں شائع شدہ مضمون سے ہوسکتا ہے جس میںیہ واضح طورپرلکھاگیا ہے کہ ’’اسلام کے خلاف جنگ صرف فوجی میدان میںنہیںہوگی بلکہ ثقافتی اورتہذیبی میدان میںبھی معرکہ آرائی ہوگی‘‘۔ امریکی فلمی مرکز ہالی ووڈ اسلام مخالف سازشوںکا مرکز گردانا جاتاہے۔ ایک صدی سے زائد مدت سے یہاں فلموں کے ذریعے اسلام اور مسلمانوںکے خلاف نفرت و کدورت، بغض وکینہ پوری دنیامیںپھیلایا جارہا  ہے۔ بیسویں صدی کی آخری دودہائیوں میںہالی ووڈنے مسلم دشمنی پرمبنی فلمیں ’ڈیلٹافورس‘ ، ’انتقام‘، ’آسمان کی چوری‘ بنائیں، جب کہ ورلڈٹریڈ سنٹرکا تجرباتی ڈراما اسٹیج کرنے کے لیے ۱۹۹۲ء میں’حقیقی جھوٹ‘ اور ’حصار‘ وغیرہ نامی فلمیں تیار کی گئیں۔ ان فلموںمیںاسلام اور مسلمانوں کا تشخص بری طرح مجروح کیاگیاہے۔ مسلمانوںکو  امن دشمن اوردہشت گردبناکرپیش کیا گیاہے۔ نائن الیون کے بعدامریکا اور مغربی ممالک نے اسلحہ ٹکنالوجی کے ساتھ ساتھ جدیدمیڈیاٹکنالوجی کاسہارالے کر اسلام اور مسلمانوںکے خلاف پروپیگنڈا مہم شروع کر رکھی ہے۔ امریکا عالم اسلام کے وسائل، معدنیات اورتیل پرقبضے کاخواہاںہے۔ افغانستان اورعراق پرقبضہ اور نائن الیون کا خودساختہ ڈراما اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ عالم اسلام پرامریکی جارحیت اور مغربی میڈیاکا بے بنیاد اورمن گھڑت پروپیگنڈا چہاراطراف سے امتِ مسلمہ کے گردگھیراتنگ کرنے کے لیے کیاجارہاہے۔

مغرب نے دنیابھرکی معیشت اورمیڈیا پراپناقبضہ جمارکھاہے۔مصرسمیت کئی مسلم ممالک کے ٹی وی چینلز اور اخبارات مغرب کے زیراثرہیں۔ اسلام کے خلاف پروپیگنڈا مہم مغربی میڈیا کا مستقل موضوع ہے۔ کبھی مغربی ممالک کے اخبارات میں توہین آمیز خاکے شائع کیے جاتے ہیں اور کبھی ہالینڈمیںقرآن اور اسلامی شعائرکے خلاف فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ مغربی میڈیا وقتاً فوقتاً مسلمانوںکو’دہشت گرد‘، ’جہادی‘ اور’بنیادپرست‘ ثابت کرنے کے لیے اپنی مہم چلائے رکھتاہے۔

مسلم حکومتوںاوراداروںکا فرض ہے کہ وہ مغربی میڈیاکی یلغارکامقابلہ کرنے کے لیے جامع پالیسی تشکیل دیں۔ عالم اسلام کے حکمرانوںکی بے حسی کایہ عالم ہے کہ اس اہم مسئلے سے پہلوتہی برتی جا رہی ہے۔ آج میڈیاکے محاذ پرسرجوڑکربیٹھنے کی ضرورت ہے۔ مسلم تنظیموں اور اسلامی تحریکوںکو میڈیاکے میدان میںسرگرم عمل ہوناچاہیے اور اپنے اپنے دائرے میں ایسے افراد تیارکرنے چاہییں جو میڈیاٹکنالوجی کوسمجھ سکیںاورتعمیری جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

وقت کا تقاضا ہے کہ مسلم ممالک اپنی روایات، ثقافت اورنظریاتی اساس کے پیش نظر اپنی میڈیا پالیسی ترتیب دیں۔ حالات حاضرہ کے پروگرام ’ٹاک شو‘قومی ونظریاتی تقاضوںسے ہم آہنگ ہونے چاہییں۔ پرنٹ والیکٹرانک میڈیاکومغرب کی اندھی تقلیداورنقالی نہیںکرنی چاہیے۔ ٹی وی ڈراموں میںاسلامی تاریخ وثقافت کوپروان چڑھانا چاہیے۔ اگر احساس زندہ ہو تو آج بھی مثبت اور تعمیری تفریح کومسلم ممالک میںفروغ دیاجاسکتاہے۔ تعمیری، اصلاحی، تاریخی اورمعلوماتی پروگرام تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ فلم کے میدان میںایران نے خاصی ترقی کی ہے اور عالمی ایوارڈ بھی حاصل کیے ہیں۔ ایسی فلمیںجو اصلاح وتطہیرکافریضہ سرانجام دیں اورجن کے ذریعے اسلامی معاشرے میںتعلیم وتربیت کاعمل بڑھ سکے ان کو مسلم ممالک میں رواج دینے کی ضرورت ہے۔

مغرب کی یہ حکمت عملی رہی ہے کہ وہ امتِ مسلمہ کے جذبات کوجانچنے کے لیے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میںایشوزاٹھاتارہتاہے۔ اسلامی شعائرکی توہین کی جاتی ہے، تو مسلم دنیا میں احتجاجی مظاہروںکے ذریعے ہی ردِعمل سامنے آتاہے، لیکن میڈیا کے ذریعے اس کا جواب نہیں دیا جاتا۔ مسلم دنیاکوالیکٹرانک میڈیااورانٹرنیٹ پراسلامی تشخص کوعام کرنے اورمغربی پروپیگنڈے کا مؤثر جواب دینے کے لیے اپنے دائرہ کاراورکاوشوںکو مؤثراورمنظم اندازمیں بڑھانے کی ضرورت ہے۔

مسلم ممالک اورمغرب میںموجودمسلم تنظیمیں بڑے محدوددائرے میںمیڈیاکاکام کررہی ہیں۔ مغرب نے جس سطح پر میڈیاسے کام لیا ہے، وہ مغربی ایجنڈا دنیا پرمسلط کرنے کے لیے خاصا کارگرثابت ہواہے۔مسلم تنظیموں، اداروں اور تحریکوںکے لیے بے حد ضروری ہے کہ میڈیا کے لیے مناسب بجٹ مختص کریں۔ الیکٹرانک میڈیا بالخصوص ٹی وی چینلوں کوہدف بناکر کام کیا جائے۔ ’پروڈکشن ہاؤس‘کے ذریعے اینکرپرسنز اور پروڈیوسرزکی تربیت کابندوبست کیا جائے۔ آیندہ ۱۰سال کا منظرنامہ سامنے رکھا جائے تو مسلم دنیا میں الیکٹرانک میڈیامیںایسے افراد بڑی تعداد میںدستیاب ہوسکیںگے جوقومی ودینی سوچ اور نظریاتی شناخت کے حامل ہوںگے۔

مسلم ممالک میںتنظیموںاوراداروںکو’میڈیاتھنک ٹینک‘ کاقیام عمل میںلاناچاہیے، ایسے ’میڈیاتھنک ٹینک‘ جو مغرب سے مکالمہ کرسکیں۔ امریکا اوریورپ کے ’میڈیاتھنک ٹینک‘ اسلام مخالف پروپیگنڈے میںپیش پیش ہیں۔ میڈیاتھنک ٹینک کے ذریعے مغربی پروپیگنڈے کا توڑ کیا جاسکتاہے اورحالات وواقعات کی اصل تصویردنیاکے سامنے پیش کی جاسکتی ہے۔

مسلم دنیاکے ذرائع ابلاغ کے منتظمین اپنی سطح پرمحدود دائرے میںکام کررہے ہیں۔ مکمل ادراک (وژن) نہ ہونے اور مؤثرحکمتِ عملی سے تہی دامن ہونے کی وجہ سے اس کے اثرات صحیح طور پر مرتب نہیںہو رہے۔ مسلم ممالک کی تنظیموں، اداروںاورتحریکوںکے میڈیاسے متعلق افراد کے نیٹ ورک کومنظم اورمربوط کرنے کی اشدضرورت ہے جس کے لیے انٹرنیشنل میڈیاکانفرنس کا انعقاد کیا جائے۔ اگرعالم اسلام کی ’میڈیاکانفرنس‘ کا انعقاد ایک تسلسل سے ہو تو نہ صرف میڈیا کے میدان میں پیش رفت کا جائزہ لیا جاسکتا ہے بلکہ درپیش چیلنجوں کے لیے مؤثر حکمت عملی بھی تشکیل دی جاسکے گی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیامیںالیکٹرانک میڈیااورانٹرنیٹ کی ٹکنالوجی پھیلنے سے مطالعے کا رجحان کم ہو گیاہے۔ اب لوگ ٹی وی چینلوں اورانٹرنیٹ کے ذریعے معلومات اورتفریح حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان سمیت مسلم دنیاکے لیے ناگزیر ہے کہ جدید ٹکنالوجی کے ذریعے دنیابھر میںاسلام کے حقیقی پیغام کوعام کریں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جدید خطوط پر پروگراموں کی تیاری کے لیے ’پروڈکشن ہاؤس‘ بنانے چاہییں۔ اس کی ایک کامیاب مثال Peace TVکی ہے، جہاں سے نشر ہونے والے پروگرامات پاکستان سمیت دنیا بھر میں بڑے پیمانے پرپھیل چکے ہیں۔ مختلف ممالک میںایسے ٹی وی چینلوں کوقائم کرنے کی طرف توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے جومعاشرے کی تعلیم وتربیت اورشعوروآگہی کوپروان چڑھاسکیں۔

اسلامی دنیامیںمیڈیاسے وابسطہ افرادکی فنی تربیت اور میڈیا کو عصرحاضر کے تقاضوںسے ہم آہنگ کرنے کے لیے ایسے معیاری ’میڈیاانسٹی ٹیوٹ‘قائم کرنے بھی ضرورت ہے جو ایسے افرادتیارکرسکیںجواسلامی تہذیب وثقافت کو پروان چڑھانے میںاپناکرداراداکرسکیں۔

امریکا اوریورپ میںالیکٹرانک میڈیاکے میدان میںجدید ٹکنالوجی کااستعمال بڑھتا جارہاہے۔ اب توامریکا اوریورپ میںشہروںکی سطح پرحکومت اوراین جی اوزکی سرپرستی میںپبلک براڈکاسٹنگ سنٹربنائے جا رہے ہیں۔ ان ٹریننگ سنٹروں میں میڈیاسے دل چسپی رکھنے والے افراد کو اینکرپرسنز، پروڈیوسرز، سکرپٹ رائٹرزاورکیمرہ و ایڈیٹنگ کی تربیت دی جاتی ہے۔ اس تناظر میں پاکستان سمیت مسلم ممالک میںبھی ایسے پبلک براڈکاسٹنگ سنٹرزکاقیام ضروری ہے۔ ان  نشری تربیتی مراکز سے بہترین اینکر پرسنز، پروڈیوسراوردیگر باصلاحیت افرادتیارکیے جاسکتے ہیں جو مسلم دنیامیںگہرے شعور و ادراک کے فروغ کے لیے کام کرسکیں۔

مغربی میڈیاکی جدیدٹکنالوجی کے جواب میںاگرچہ عالم اسلام میں بھرپور پیش رفت نہیں ہوسکی، تاہم سعودی عرب، کویت، قطر اور ترکی نے میڈیاکے میدان میں پیش رفت کی ہے۔ انٹرنیٹ اورٹی وی چینلوں کے ذریعے اسلام کی دعوت احسن اندازمیںپیش کی جارہی ہے۔ تاہم مسلم ممالک میںجدید میڈیاٹکنالوجی سے ابھی تک خاطرخواہ استفادہ نہیںکیاجا سکا۔ الیکٹرانک میڈیاکے میدان میں پیش رفت کے لیے مؤثراورجامع حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ اسلامی تحریکیں، میڈیا ادارے    اور مسلم تنظیمیںہرسطح پراس کے لیے بھرپورکرداراداکرسکتے ہیں۔ مسلم دنیا اگر مجوزہ سفارشات اور خطوط پرمنظم اور احسن انداز میںاقدامات اُٹھائے تو اُمت مسلمہ میڈیا کے محاذ پر درپیش چیلنج کا بھرپور اور مؤثر جواب دے سکے گی۔