ڈاکٹر جی اے خان


ترجمہ: اویس احمد

امریکی ’صلیبی جنگ‘ دراصل کروڑوں لوگوں کو لوٹنے اور قتل کرنے کے لیے رچایا گیا ایک کھیل ہے۔ سوویت یونین کے انہدام سے امریکا نے قتل عام کا لائسنس اور لامحدود طاقت حاصل کرلی تاکہ وہ (افغانستان سے) نائن الیون کا بدلہ لے سکے اور (عراق میں)بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تلاش کر سکے، لیکن اس کا اصل مقصد ایک تو اسلام کو بدنام کرنا اور دوسرے مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنا تھا۔

اس حوالے سے کئی تحقیقات ہو چکی ہیں، جیسے دلیپ ہیرو کیSecrets and Lies [راز اور جھوٹ ]، تھامس رک کی Fiasco [مضحکہ خیز ناکامی]، پیٹر گلبریتھ کی The End of Iraq [عراق کا خاتمہ]، فرینک رچ کیThe Greatest Story Ever Sold - The Decline and Fall of Truth [عظیم ترین کہانی جو کبھی بیچی گئی، سچائی کا زوال اور موت]،  اور اس کے علاوہ بھی بہت سی ہیں، مگر ان سب میں اسلامی نقطۂ نظر سے ایک مشترک کمی ہے۔  منظور عالم کے اس علمی و تحقیقی تجزیے نے یہ کام بہتر طور پر کیا ہے۔

دھشت گردی کے خلاف جنگ: پس منظر

پہلے باب میں ڈاکٹر منظور نے اس پس منظر کا احاطہ کیا ہے جس نے امریکا کو اس ’صلیبی جنگ‘ کی طرف راغب کیا۔ کمیونزم کے خاتمے اور سوویت روس کے انہدام کے ساتھ ہی امریکی لبرل ازم (ص۱) کا بھی خاتمہ ہو گیا اور وہ ایک مطلق العنان استعماری ملک میں تبدیل ہو گیا۔ اس نے ایک آمرِ مطلق کا سارویہ اپنا لیا (ص۲)۔ اس کے نو قدامت پسند، خصوصاً نائب صدر ڈک چینی نے شیطان کا کردار ادا کیا اور ہمیشہ قتل، تباہی اور غلبے کی بات کی۔

یہ نوقدامت پسند بین الاقوامی قوانین اور ضوابط پر یقین نہیں رکھتے تھے، اس لیے حکومتوں کی تبدیلی کی بات کرتے تھے۔ تاہم، عراق جنگ اتنی بڑی ناکامی ہو گی وہ اس کا پیشگی اندازہ نہ کرسکے۔ ’حکومتوں کی تبدیلی‘ کی پالیسی نے حفظ ماتقدم کے طور پر حملے کے غیراخلاقی فلسفے کو جنم دیا جسے ’پیشگی حملے‘ کا متبادل ٹھیرا لیا گیا۔ مذہبی جنونیت کے فرضی خطرے نے انھیں یہ جنگ ایک کارخیر کے طور پر چھیڑنے پر اکسایا۔ ڈک چینی نے عراق پر حملے کا مشورہ ۱۱ ستمبر سے بھی پہلے دے دیا تھا، تاکہ تیل کے ذخائر پر غلبہ حاصل کیا جا سکے۔ یہودیوں اور مذہبی عیسائیوں نے اسے حضرت عیسیٰ ؑ کے دوبارہ ظہور کے حوالے سے بائبل کا حکم ٹھیرایا اور یوں یہ ان کے لیے ایک مذہبی فریضہ بن گیا (ص۱۱)۔ مسلمان ممالک میں جمہوریت کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے امریکا نے اس کمی کو اپنے نام نہاد جمہوری برانڈسے پورا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے نظریے کی توضیح کرتے ہوئے سابق صدر بش نے کہا: ’’مجھے خدا نے کہا ہے کہ میں القاعدہ (افغانستان) پر حملہ کروں تو میں نے کر دیا، پھر خدا نے مجھے کہا کہ اب صدام (عراق) پر حملہ کرو تو میں نے وہ بھی کر دیا‘‘ (ص۱۳)۔ فوری خطرہ یہ تھا کہ ’’صدام نے تعاون کرنا شروع کر دیا تھا‘‘ (ص۱۴)۔ مصنف نے اس باب میں اسلامی شدت پسندی میں اضافے پر بھی روشنی ڈالی ہے۔

افغانستان پر حملے کے مضمرات

امریکا میں بہت سے لوگ یقین نہیں رکھتے کہ ٹوئن ٹاور جہازوں کے ٹکرانے سے گرے تھے۔ تاہم، امریکا بہر صورت افغانستان پر حملے (Operation Enduring Freedom) کے لیے تیار تھا تا کہ اسامہ بن لادن کو مارا اور طالبان حکومت کو گرایا جا سکے (ص۲۶)۔ افغانستان پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ امریکانے اسامہ اور باغیوں کی تلاش کا مشن جاری رکھا۔ کرزئی جسے طنزاً ’کابل کا عزت دار میئر‘ کہا جاتا ہے، ایک امریکی کٹھ پتلی تھا اور ہے۔ ۱۰سالہ روسی تسلط کے باعث بدترین معاشی بدحالی کا شکار افغانستان امریکا کی جانب سے ہلاکت خیز حملے کا شکار ہوا۔ ابتدا میں افغانوں نے طالبان کے انخلا کو اس امید کے ساتھ خوش آمدید کہا کہ اب امریکا ہوور ڈیم جیسے منصوبے یہاں بھی شروع کرے گا اور افغانستان کو ’چھوٹا امریکا‘قرار دے کر اس کی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے میں مدد دے گا۔

افغانستان میں امریکی مفادات کے مقابلے میں عراق کی جغرافیائی سیاست زیادہ پُرکشش تھی (ص۳۲)۔ افغانستان کی تعمیر ایک خواب ہی رہی(ص۳۳) ۔ جب افغان قوم نے دیکھا کہ اسے دھوکا دیا گیا ہے، تو وہ دوبارہ طالبان سے رجوع کرنے پر مجبور ہوگئی (ص۳۴)۔ امریکیوں کا متکبرانہ اور توہین آمیز برتائو افغانوں کے لیے ناقابل برداشت تھا(ص۳۶)۔ اس لیے انھوں نے اپنے تحفظ کے لیے دوبارہ طالبان کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ باغی امریکی تسلط کے شکار اپنے ملک کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں (ص۴۸) اور مزاحمت کی شدت ناقابل تصور ہے (ص۴۹)۔

اب چونکہ طالبان پہلے جیسے کٹر نہیں رہے، اس لیے ان پر افغانوں کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ انگریز انھیں کثیر الفم کہتے ہیں کیوں کہ ہرکٹنے والا سر دو نئے سروں کا اضافہ کر دیتا ہے۔ امریکیوں سے حکمت عملی کی بھاری غلطی یہ ہوئی کہ انھوں نے اپنے مشن کا رخ افغانستان کی تعمیرنو سے ’اسامہ اور طالبان‘ کی جانب موڑ دیا۔ ’’ہلمند آپریشن مکمل طور پر ایک خودکشی کا مشن تھا‘‘۔ (ص۵۱)

نام نہاد عالمی امداد پران ممالک کو کنٹرول حاصل ہے جو اس کارخ اپنی طرف رکھتے ہیں۔ عیاش کنسلٹنٹ بڑی بڑی تنخواہیں وصول کرتے ہیں جو ۵ لاکھ ڈالر فی کنسلٹنٹ تک پہنچ جاتی ہیں (ص۵۵)۔افغان کبھی پوست کاشت کرنے والی قوم نہ تھی۔۔۔ بے حساب غربت اور محتاجی نے انھیں اس کی طرف راغب کیا (ص۵۸) جو ان کے لیے بے پناہ نفع بخش ثابت ہوئی، اور اب وہ اسے چھوڑ کر روایتی فصلوں کی طرف واپس نہیں آنا چاہتے۔ بعض اضلاع میں گانجے کی فصل بھی بہت  نفع بخش کاروبار بن گئی ہے (ص۶۲)۔ افغانستان میں امریکی اور ناٹو ایڈونچر ایک بدترین ناکامی ثابت ہوا (ص۶۵)۔ اب ان ممالک کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ عزت اور وقار سے رخصت ہونا چاہتے ہیں یا زبردستی انخلاکے منتظر ہیں۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ افغان قوم نے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے۔ اگر کسی کو شک ہو تو برطانیہ اور روس میں گواہی دینے والے موجود ہیں۔ (ص۶۶)

عراق پر حملہ: دعوے اور حقائق

تیسرا باب عراق جنگ کے اسباب ڈھونڈتا ہے۔ حملے کا جواز یہ بتایا گیا تھا کہ عالمی تجارتی مرکز پر حملہ صدام حسین نے کرایا، اس لیے وہ بہت بڑا خطرہ ہے، اور یہ بھی کہ اس نے ایٹمی، حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کا ایک بڑا ذخیرہ جمع کر رکھا ہے۔۔۔ ایک فرضی کہانی جس کا حقیقت سے دُور کا بھی واسطہ نہ تھا (ص۶۷)۔ جواز گھڑے گئے؛ وجوہ تراشی گئیں تاکہ عالمی برادری کو دھوکا دیا جاسکے۔ اصل مقصد کوچھپا کر رکھا گیا۔ امریکی عوام کو بے وقوف بنایا گیا۔ اس کا محرک عربوں پر فوجی برتری قائم کرنے اور اسرائیلی مفادات کو تحفظ دینے کا جنون تھا۔ اصل ہدف تیل کے وسائل پر قبضہ تھا۔ چونکہ صدام حکومت اسرائیل کے لیے ایک خطرہ تھی اس لیے اس کا خاتمہ ضروری تھا۔ صدر بش کے لیے یہ مذہبی فریضے کی طرح تھا کہ وہ بائبل کے مطابق عیسٰی ؑ کے دوبارہ ظہور کی پیش گوئی پوری کرے۔ پال وولف وٹز، ڈگلس فیچ اور رچرڈ پرلی جیسے نوقدامت پسندوں نے وائٹ ہائوس کی پالیسی کا تعین کیا۔ دوسرے حصے داروں کا کردارصرف ’بھالے اٹھانے‘ (ص۷۰)والوںتک محدود کر دیا گیا۔ عراق پر حملے کی خواہش اور ضرورت نائن الیون سے پہلے، بلکہ بش انتظامیہ سے بھی پہلے اپنا وجود رکھتی تھی۔ (ص۷۱)

صدام حسین کا القاعدہ سے (فرضی) تعلق ثابت کرنے کے لیے ایک جعلی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ لیکن اس ڈر سے کہ یہ کمیٹی کہیںصدام حسین کو اس الزام سے بری قرار نہ دے دے اوربش منصوبہ خاک میں مل جائے، عراق پر حملہ کر دیا گیا۔ ڈک چینی صدام کو ہر ممکنہ طریقے سے ہٹانے کا عزم رکھتا تھا، جب کہ اس کو ملنے والی خفیہ رپورٹوں کا کہنا تھا کہ صدام حکومت کو کسی خفیہ کوشش سے نہیں گرایا جا سکتا۔ رچرڈ پرلی اور چند دوسرے لوگوں نے انٹیلی جینس کا جوڑ توڑ شروع کر دیا (ص۷۷)۔ جب انھیں یقین ہو گیا کہ ایٹمی ہتھیار تباہ کر دیے گئے ہیں تو وہ بہترین موقع تھا کہ عراق پر حملہ کر کے اسے مزید کمزور کر دیا جائے۔ اس کے بعد سینیٹ میں بھاری اکثریت سے قرارداد (۲۳:۷۳) منظور کرائی گئی جس میں شرم ناک جھوٹ بولے گئے۔۔ ۔وہاں نہ تو کوئی ہتھیار تھے اور نہ القاعدہ سے رابطے۔

برطانوی حکومت نے عراق پر جلد حملے کے امریکی کیس کو مزید مضبوط کیا۔ اس نے ایک دستاویز جاری کی (جس کے لیے اسے بعد میں معافی مانگنی پڑی) جس میں صدام حسین کی فوجی صلاحیت کو جھوٹ موٹ بڑھا کر پیش کیا گیا تھا۔ یہ دراصل جھوٹی اور من گھڑت اطلاعات پر مبنی تھی (ص۸۳)۔ حیاتیاتی جنگ کی تیاریوں کے حوالے سے سی آئی اے کی ایک من گھڑت، جھوٹی اور خیالی رپورٹ میں ٹرالرز کو جراثیم پیدا کرنے والی لیبارٹریاں’ثابت‘کیا گیا (سی آئی اے کو معلوم تھا کہ عراق ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام پر کام کر رہا ہے)۔ کچھ ڈھانچے اور ایلومینیم کی ٹیوبیں دکھائی گئیں کہ یہ کسی خفیہ مقصد کے لیے استعمال کی جاتی ہیں (حالانکہ اس کے اپنے ماہرین جانتے تھے کہ یہ جھوٹ اور دھوکادہی ہے)۔ نائجر سے یورینیم کی خریداری کا معاملہ بھی بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا، حالانکہ اس ملک کے وزیر اعظم اور صدر دونوں نے اس دعوے کی سختی سے تردید کی تھی۔

اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں عراق پر فوجی حملے کے لیے دوسری قرارداد کی کوششیں ناکام ہوگئیں۔ فرانس اور جرمنی نے فوجی حملے کے حوالے سے سخت تنبیہ کی، تاہم بش تو پہلے سے ہی خود کو اس میں جھونک چکا تھا۔ دراصل صدام حسین اس مسئلے کا  پر امن حل ڈھونڈ نے کے لیے کئی نمایندے بھیج چکا تھا۔۔۔ یہاں تک کہ تیل کی قیمتوں میں رعایت تک دینے پر تیار تھا۔ حملے کی   شدید مذمت کی گئی۔ رابن کُک برطانوی کابینہ سے مستعفی ہو گئے اور مسز کلیئر شارٹ نے بھی (Honourable Deception) کے نام پر ایسا ہی کیا (ص۹۹)۔ پیوٹن نے کہا: اس جنگ نے دہشت گردوں کے لیے جنت پیدا کر دی ہے۔ (ص۱۰۰)

دو کمیٹیوں نے صدام حکومت کے خاتمے پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تلاش کی اور سابقہ انٹیلی جنس رپورٹوں کو مضحکہ خیز اور گمراہ کن قرار دیا (ص۱۰۳)۔ برطانیہ نے حملے میں شمولیت کے لیے دو شرائط رکھی تھیں، لیکن ڈک چینی اور رمز فیلڈ نے ان کی ذرہ برابر پروا نہ کی (ص۱۰۷)۔ عراقی فوج کی شکست سے مزاحمت ختم نہیں ہوئی، بلکہ اس نے ایک اورمنفرد قسم کی مزاحمت کو جنم دیا جس نے امریکی کمانڈ کو ہلا کر رکھ دیا۔ (ص۱۰۷)

گوانتاناموبے، بگرام اور ابوغریب: انسانیت سوز جرائم

باب چہارم میں مصنف’’گوانتا نامو بے، ابو غریب اور بگرام۔۔۔شرم ناک ترین اور انسانیت سوز قید خانوں‘‘ کی کہانی بیان کرتا ہے، جہاں ’’قیدیوں سے تفتیش کے لیے سزائوں کی انتہائی سفاکانہ ترکیبیں استعمال کی جاتی ہیں،اور جنیوا کنونشن کو یہ کہہ کر ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے کہ یہاںپر یہ لاگو ہی نہیں ہوتا‘‘ (ص۱۰۹)۔ اس کے لیے جواز یہ گھڑا جاتا ہے کہ یہ جنگی قیدی نہیں بلکہ دشمن جنگ جو ہیں۔ قیدیوں میں کئی نابالغ بھی شامل تھے۔

اسلام ہدف تھا، اس لیے بش انتظامیہ نے ہر طرح سے کوشش کی کہ وہ قیدیوں کے مذہبی جذبات سے کھیلیں لیکن وہ کچھ حاصل نہ کرسکے۔  قیدیوں کی اسلام سے عقیدت دوسروں پر اثر ڈالنے والی تھی (ص ۱۱۴)۔ یہاں تک کہ خواتین تفتیشی افسروں کی جانب سے جنسی رغبت اور دوسرے حیا سوز حربے بھی ان کے ایمان کو ڈگمگانے میں ناکام رہے، ’’بلکہ ان کا الٹا اثر ہوا‘‘ (ص۱۱۴)۔ تفتیش کاروں کی معاونت کرنے میں ڈاکٹر اپنی پیشہ ورانہ اخلاقیات بھول بیٹھے تھے (ایسا ہی سلوک بنگلور کے ’NIMHANS‘ نامی ادارے کی ایک ڈاکٹر نے ’سیمی‘ (Students Islamic Movement of India) کے قیدیوں کے ساتھ کیا ہے)۔ قیدیوں کو کئی کئی بار بھوک ہڑتال کرنے پر مجبور کیا جاتا اور پھر ہڑتال کے دوران انھیں زبردستی کھانا کھلا دیا جاتا۔ بعد میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ غلط شناخت کے اَن گنت واقعات بھی سامنے آئے ہیں (ص۱۱۸-۱۱۹)۔ القحطانی (قیدی نمبر ۰۶۷) کو غلطی سے عالمی تجارتی مرکز پر حملوں میں ملوث بیسواں گم شدہ پائلٹ قرار دیا جاتا رہا جو بہت عرصے سے مفرور تھا۔ یہ واقعہ امریکیوں کی بے وقوفی کی واضح دلیل ہے۔ (ص۱۲۰)

اسلام دشمنی کا بدترین واقعہ اس وقت پیش آیا جب قرآن پاک کی بے حرمتی کی گئی۔ اسے پائوں میں ڈالا گیا اور یہاں تک کہ ٹائلٹ میں بہایا گیا اور اس پر تحریریں لکھی گئیں۔ یہ دنیا کے لیے ایک جھٹکا تھا جس کی عالمی سطح پرمذمت کی گئی۔ دنیا بھر میں امریکا مخالف پُرتشدد مظاہرے ہوئے جن میں کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مظاہرین پر پولیس کے گولی چلانے سے چار افراد مارے گئے اور ۶۰ زخمی ہوئے۔

جہاں گوانتا نامو بے افغانستان سے دور ایک سرزمین پر قائم تھا، وہاں بگرام افغانستان کی اپنی سرزمین پر قائم غیر ملکی تعذیب خانہ تھا۔ اس کا شکار ہونے والوں کی اپنی کہانیاں ہیں۔۔۔ حبیب اللہ اور دلاور نامی دو معصوم قیدی (ص۱۳۹،۱۳۷) تھے۔ ہر لات پڑنے پر دلاور کی دل دہلا دینے والی’’اللہ‘‘کے نام کی چیخ تشدد کرنے والوں کے لیے مذاق بن گئی تھی۔ وہ اسے لاتیں مارتے تھے تاکہ وہ چیخے (ص۱۳۷)اور اس مذاق کے لیے دلاور کو ۲۴ گھنٹوں میں ۱۰۰ لاتیں کھانا پڑیں۔ دو باغی ہلاک کیے گئے اور ان کی لاشوں کو جلا دیاگیا (ص۱۴۰)۔ یہ سب جان بوجھ کر کیا گیا تا کہ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا جا سکے۔ یہاں تک کہ حامد کرزئی جیسا کمزور اور مطیع فرمان صدر بھی لاشوں کے جلانے کے وحشیانہ اقدام پر چیخ اُٹھا۔ (ص۱۴۱)

۲۸؍ اپریل ۲۰۰۴ء کو سی بی ایس نیوز نے بغداد کی ابو غریب جیل میں امریکی فوجیوں کے قیدیوں سے انسانیت سوز سلوک کی شرم ناک تصاویر جاری کیں۔ ان تصاویر پر عالمی سطح پر شدید غم و غصہ پیدا ہوا۔ سابق نائب صدر ایل گور نے اسے ’’امریکی گولاگ‘‘ کا نام دیا (ص۱۴۲)۔ گوانتانامو اور بگرام کے تشدد کے حربے ابو غریب میں بھی استعمال کیے گئے۔ جنرل ملر کو ابو غریب بھیجا گیا تا کہ اسے بھی ’گوانتا نامو جیسا‘ بناسکے (ص۱۴۲)۔ امریکی فوج نے صدام کا تحتہ الٹ تو دیا لیکن اس کی بنائی گئی جیلوں میں اس کے ’فنِ تشدد‘ کو مات دے دی (ص۱۴۴)۔ تاگوبہ (Taguba) کی ۵۳صفحات پر مشتمل رپورٹ جسے ’خفیہ‘ قرار دیا گیا، اعتراف کرتی ہے کہ ’’امریکی فوجیوں نے بدترین عمل کیے اور عالمی قوانین کی بدترین پامالیاں روا رکھی گئیں‘‘۔ (ص۱۴۵)

تشدد کے حربوں میں چند ایک یہ تھے:قیدیوں کو مکوں، تھپڑوں اور لاتوں سے مارنا۔ ان کے ننگے پاؤں پر اچھلنا، برہنہ مرد اور خواتین قیدیوں کی تصاویر اور وڈیو بنانا، برہنہ قیدیوں کو خاص اندازسے بٹھانا تا کہ ان کی تصاویر لی جا سکیں۔ برہنہ قیدیوں کو ایک ڈھیر کی صورت میں فرش پر لٹانا اور پھر ان پر چھلانگیں لگانا اور ان کے ننگے بدن پر ٹھنڈا پانی ڈالنا (ص۱۴۶)۔۔۔کچھ ایسی سزائیںبھی ہیں جو بیان نہیں کی جا سکتیں۔

فیلوپ کارٹر انھیں امریکی فوج کے وقار پر گہرے داغ قرار دیتے ہوئے اسے ’امریکا کو بہت بڑی شکست‘ قرار دیتا ہے (ص۱۴)۔ ان اقدامات نے عراق میں بغاوت کو مزید طاقت فراہم کی۔ ویٹی کن کے وزیر خارجہ آرچ بشپ گیووانی لاجولو نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’یہ امریکا کے لیے ۱۱ستمبر (کے حملوں) سے زیادہ سنگین دھچکا ہے، لیکن یہ دھچکا دہشت گردوں کی طرف سے نہیں، خود امریکیوں کی طرف سے ہے ‘‘(ص۱۵۰)۔ کولمبیا سے تعلق رکھنے والے ۷۳ سالہ مصور فرنانڈو بوٹیرو نے عراقی قیدیوں کے ساتھ اس سلوک کو اپنا موضوع بنا لیا اور اس پر ۴۸ پینٹنگز اور خاکے بنائے جن کی نمایش روم میں کی گئی۔ (ص۱۵۲)

امریکی کنٹرول میں کام کرنے والے تمام قید خانوں میں قیدیوں کے ساتھ روا رکھے گئے ذلت آمیز سلوک نے۔۔۔شورش میں مزید اضافہ کیا اور باغیوں کو سارے عالم اسلام سے عراق میں جمع کرنے کے لیے ایک مقناطیس کا کردار ادا کیا۔ عراق میں تعینات ایک امریکی فوجی افسر نے تسلیم کیا کہ ابو غریب بغاوت میں اضافے کے لیے ایک درمیانے درجے کا تربیتی مرکز ہے (ص۱۵۳)۔ گوانتانامو بے ایک ’قانونی بلا‘ ہے۔ (ص۱۵۵)

عراق پر تسلط اور جبر و تشدد

پانچواں باب سب سے طویل ہے جو دو حصوںاور ۱۳۱ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ تشدد اور خوف ناک اموات کا ریکارڈ ہے۔ ابتدا میں مصنف بتاتا ہے کہ باغیوں کی طرف سے شدید مزاحمت نے کیسے اتحادی افواج کے تمام آپریشنوں کی کمر توڑ ڈالی۔ امریکا کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے شیعہ اور سنی اکٹھے ہو گئے۔ وہ لوگ جو ایمان رکھتے ہیں اور اس لیے لڑ رہے ہیں کہ ان کی آزادی پامال کی گئی ہے، ہتھیار اور ٹکنالوجی ان پر محدود اثرڈالتے ہیں۔ (ص۱۵۹)

صدام اور اس کے مجسمے گرانا تو آسان تھا لیکن افراتفری کو امن میں بدلنا جوے شیر لانے کے مترادف تھا (ص۱۶۰)۔ احمد شیلابی جس نے صدام کا جانشین بننے کا خواب دیکھا تھا بہت ناراض ہوااورڈک چینی سے بات کر کے اس نے گارنر کی جگہ پال برمر سوئم کو گورنر تعینات کروا لیا لیکن یہ ایک آفت ثابت ہوا۔۔۔ امریکی عراقیوں کے رہے سہے جذبۂ خیر سگالی سے بھی محروم ہو گئے۔ اس نے نہ صرف عراقی فوج اور پولیس کے اداروں کو ختم کر دیا اور۳لاکھ ۸۵ہزار فوج اور ۴لاکھ ۸۵ہزار پولیس اہل کاروں کو نوکریوں سے فارغ کر دیابلکہ ہر اعتدال پسند شہری کو ناراض کر دیا۔  وہ لوگ فوراً باغیوں سے مل گئے۔ انھیں افرادی قوت اور ہتھیار فراہم کرنے لگے۔ برمر کی معاشی پالیسی بھی تباہ کن ثابت ہوئی۔ اس نے ۱۹۳سرکاری صنعتیں بند کر دیں۔ معیشت پر اس کا اثر تباہ کن ہوا۔ عراق اسلامی بنیاد پرستی کا مرکز بن کر ابھرا۔ ہر سمت سے مجاہدین کا رخ عراق کی طرف ہو گیا۔ جیسا کہ ایک افسر نے کہا تھا: ’’ہمارے پاس اتنی گولیاں نہیں جتنے ہم دشمن بنا رہے ہیں‘‘ (ص۱۷۹)۔ فلوجہ پر لگاتار بم باری کے دوران امریکیوں نے ’سفید فاسفورس‘ بھی استعمال کی۔ انھوں نے صدام پر الزام لگایا تھا کہ وہ حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیار استعمال کر رہا ہے، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ خود بھی ان کا استعمال کر رہے ہیں۔ (ص۱۸۶)

طویل عرصے تک فرقہ وارانہ تعصبات لوگوں کوبالکل بھولے رہے۔ اپنی کامیابی کے لیے امریکیوں نے ان کی نفرت کو بھڑکایا اور ایک کو دوسرے گروہ کے خلاف اکسانے کے لیے ان کی مساجد میں بم دھماکے کرائے جس کا بالٓاخرامریکا کو فائدہ ہوااورانھیں انتہائی ضروری ریلیف مل گیا۔ [حضرت] حسن عسکریؒ کے مزار پر ہونے والے دھماکے میں اس کا سنہرا گنبد تباہ ہو گیا۔ شیعہ سُنّی تعصب کی اس آگ نے آبادی کا تناسب تبدیل کر دیا۔ فرقہ وارانہ تعصب خانہ جنگی میں تبدیل ہوگیا جس میں چھے لاکھ لوگ لقمۂ اجل بنے۔

تعمیر نو کا کام بہت سست رو تھا (کچھ علاقوں میں نہ ہونے کے برابر) اور اس میں غیر ملکی کمپنیوں، خصوصاً ڈک چینی کی ملکیتی اور ماتحت کمپنیوں نے بے تحاشا ’جنگی نفع‘ کمایا (ص۲۳۷)۔ ان ترقیاتی منصوبوں پر کام نامکمل رہا اور جو ہوا وہ بھی ناقص۔ فوج چنیدہ صحافیوں کو رشوت دے کر فتح کی جھوٹی خبریں شائع کراتی رہی۔ لیکن اس جھوٹے پروپیگنڈے کا اُلٹا اثر ہوا (ص۲۳۹)۔ جسے وہ ’مختصر، تیز تر اور کم خرچ‘ سمجھے تھے، اس نے متوقع جلد فائدے کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔

اخراجات ۵۰ ارب ڈالر سے ۳ کھرب ڈالر تک جا پہنچے۔ اس میں زخمی اور معذور فوجیوں کے علاج اور معاوضے کے مستقبل کے اخراجات بھی شامل کر لیں۔۔۔معذوری کا معاوضہ ۵۰ سال تک اور بہت سے زخمیوں کی اگلے دسیوں برسوں تک مسلسل دیکھ بھال۔۔۔اس سے جو بجٹ خسارا ہوا اس نے امریکا کو چین سے قرض مانگنے پر مجبور کر دیا۔ بش کی اس غلطی کو ’تباہ کن ناکامی‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔

اس باب کے دوسرے حصے میں مصنف نے انسداد بغاوت کے لیے کیے گئے مختلف اقدامات کااحاطہ کیا ہے۔ عراق سٹڈی گروپ کی تیار کردہ ایک مستند رپورٹ کو مسترد کرنے کے بعد      بش انتظامیہ نے اپنی فوج میں اضافے کی حکمت عملی جاری رکھتے ہوئے عراق میں ۲۰ ہزار اضافی فوج بھیج دی،جو دگنا اضافہ تھا۔ جہاں اس نے زمینی فوج کی تعداد میں اضافہ کیا وہیں زمینی گشت ہرممکن حد تک کم کر دیا۔ اس عمل کو سارے امریکا میں ہدف تنقید بنایا گیا۔ بی بی سی کا ایک سروے اس ناکامی کو اجاگر کرتا ہے۔ (ص۲۷۰)

فوجی، معاشی اور سفارتی محاذوں پر ناکامی کے بعد بش انتظامیہ نے شراب کے شوقین عرب شیخوں کے ساتھ القاعدہ پر قابو پانے کے لیے تعاون کے معاہدے کر لیے۔ ان کے ساتھ ہزاروں ڈالر کی شراب اور وہسکی کی فراہمی کا وعدہ کیا گیا۔ اس باب میں گراف، چارٹ اور بار چارٹ سے بھی مدد حاصل کی گئی ہے۔ مصنف نے مختلف ذرائع سے حوالے شامل کیے ہیں۔ دستاویزی اور شماریاتی اعدادوشمار مصنف کی علمی قابلیت کا ثبوت ہیں۔

انتخابات کا ڈہونگ

باب ششم میں قابض فوج کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے رچائے گئے اس مضحکہ خیز انتخابی ڈھونگ کا ذکر ہے جو متنوع خطرات اور نامناسب ووٹر لسٹوں کے باوجود منعقد کیا گیا۔ وائسرائے پال برمر نے جلاوطن عراقی رہنمائوں فیصل استرآبادی اور سلیم شیلابی کو ہدایت کی کہ وہ عراق کا نیا آئین مرتب کریں، اس تنبیہ کے ساتھ کہ اگر اسلام کومرکزیت دی گئی تو وہ اسے ’ویٹو‘ بھی کر سکتا ہے (ص۲۷۹)۔ کئی ایک شقیں جمہوریت کی کھلی نفی کرتی تھیں۔ امریکا میں مقیم ۷۰ ہزار عراقیوں میں سے صرف ۳۵۰ کو ووٹ کا حق دیا گیا (ص۲۸۳)۔ جوآن کول نے کہا: ’’عراقی انتخابات ایک آفت کی آمد کا مظہر ہیں‘‘ (ص۲۸۳)۔ نیویارک ٹائمز نے قومی تعمیر نو کے بغیر قومی انتخابات کے لیے بے وقوفانہ جلدبازی کی شدید مذمت کی(۲۸۳)۔ اس کا سب سے مضحکہ خیز پہلو یہ تھا کہ ان کی نگرانی اردن کے شہر عمان میں بیٹھ کر کی گئی (ص۲۸۴)۔ ۲۰فی صد سے بھی کم سُنّی آبادی نے انتخابات میں حصہ لیا (ص۲۸۶)۔ اربوتھناٹ نے اسے تاریخی نوعیت کا مذاق قرار دیا (ص۲۸۷)۔ یہاں تک کہ انتخابات کا دوسرا دور (دسمبر ۲۰۰۵ء) بھی (انتخاب سے پہلے) کرفیو میں ہی مکمل ہوا (ص۲۸۸)۔ شیعہ آبادی کو امید تھی کہ انتخابات امریکی انخلا کے لیے راستہ صاف کریں گے، مگر وزیر اعظم نے انتخاب کے بعد سب سے پہلے جس چیز کا مطالبہ کیا وہ امریکی قبضے کی مدت میں اضافہ تھا (ص۲۸۹)۔ چونکہ صدر بش نے اس کے لیے ایک حتمی تاریخ دے رکھی تھی، ’’اس نے ملک کی تقسیم اور خانہ جنگی کی دھمکی کے ذریعے ایک مسودہ تیار کرا لیا‘‘۔ (ص۲۹۳)

آئین اس طرح بنایا گیا ہے کہ یہ اسلامی اقدار کا خاتمہ کر سکے۔ مثال کے طور پر آئین مرد اور عورت کا بغیر شادی کے اکٹھا رہنے اور ہم جنس پرستی کو تسلیم کرتا ہے، جسے اسلامی شریعت ناجائز اور قابل نفرت گردانتی ہے۔ مغرب عراق کو اسلامی شریعت کے قلعے میں دراڑیں ڈالنے کے لیے تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے (ص۲۹۶)۔

عراق کی تقسیم کے بارے میں ابتدائی طور پر عراق نے یہ سمجھا تھا کہ شاید متحدہ عراق قائم نہ رہ پائے گا۔ نئے آئین نے بھی اس مسئلے کو حل نہ کیا اور کردستان کو الگ جھنڈا اور امریکا میں الگ نمایندگی کا حق دے دیا (ص۳۰۰)۔ ملک اس وقت تین فرقوں شیعہ، سُنّی اور کرد کے الگ الگ علاقوں میں تقسیم ہے۔ گلبریتھ واضح الفاظ میں کہتا ہے: ’’بغاوت، خانہ جنگی، ایرانی حکمت عملی کی فتح، عراق کی تقسیم، آزاد کردستان اور ایک فوجی دلدل___ یہ سب امریکا کے عراق پر حملے کے وہ نتائج ہیں جن کا بش انتظامیہ پیشگی اندازہ نہیں کر سکی‘‘ (ص۳۰۲)۔ اس طرح موجودہ صورت حال مشرق وسطیٰ میں توازن کے قیام کے لیے وہ خطرہ ہے جس کے نتائج بہت گمبھیر ہوں گے۔ (ص۳۰۳)

بش بلیئر سازش کا جائزہ اور عالمِ اسلام

ساتویں باب میں ڈاکٹر منظور عالم مشرق وسطیٰ میں بش بلیئر سازش کے کردار کا جائزہ لیتے ہوئے کھل کر اسلامی نقطۂ نظر پر بحث کرتے ہیں۔ اسلام سے نفرت نے ان جنگی سوداگروں کو اُکسایا کہ وہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر نہ صرف افغانستان اور عراق میں دہشت کا بازار گرم کریں، بلکہ ایران، ترکی، لبنان اور فلسطین میں بھی اپنے شیطانی منصوبوں پر عمل درآمد کر سکیں۔ اسلام سے زبانی کلامی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے عراق اور افغانستان کے آئین میں قابض فوجوں کی ہیراپھیری نے شریعت کو بے وقعت اور قرآن کو اس حد تک غیر متعلق بنا دیا کہ وہاں کے عوام کو ’جمہوری‘ بنانے کے لیے لبرل ترمیمات کی ہر وقت گنجایش رکھی گئی ہے۔ یہ باب بتاتا ہے  کہ متعصب امریکا نے کیسے ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام سے وابستگی کو یقینی بنایا۔ گو کہ امریکا  ایک تیسری جنگ ایران میں بھی چھیڑنا چاہتا تھا، لیکن اندرونِ ملک احتجاج نے اسے خودکشی کی   اس کوشش سے باز رکھا۔

ترکی کا یورپی کونسل میں داخلہ بھی بش بلیئر گٹھ جوڑ نے ناکام بنایا۔ اسی طرح انھوں نے ہمیشہ ’بدی کے محور‘ (axis of evil) کے تیسرے رکن، بدمعاش اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کے لیے شرم ناک حربے استعمال کیے اور فلسطینیوں کے لیے کی گئی امن کی کوششوں کے خلاف اسے غیر متزلزل تعاون فراہم کیا۔ تاہم، یہ لبنان تھا جس نے اسرائیلی منصوبوں کو شرم ناک شکست سے دوچار کیا۔ شدید جانی نقصان اٹھانے کے باوجود، حزب اللہ نے اسے کچل دینے اور فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے کے اسرائیلی منصوبوں کو شدید دھچکا لگایا۔ نہ صرف اس واقعے کے منفی فوجی اور معاشی اثرات اسرائیل پر پڑے، بلکہ اس نے خود امریکا کو اس کی حیثیت یاد دلا دی۔

آخری باب سارے منظرنامے پر نظر ثانی کرتا ہے اور سامراجی منصوبوں اورمذہبی جنونیت کے علاوہ اپنے بچائو کے لیے دنیا پر غلبے کے امریکی عزم کا ذکر کرتا ہے۔ چارٹ، نقشوں اور    اعداد و شمار کے علاوہ مصنف اپنی بحث ایک نصیحت کے ساتھ سمیٹتا ہے جو ایک بار پھر بہرے کانوں سے ٹکرا کر لوٹ آئے گی۔

کتاب کے اختتامیے میں مصنف اوباما کی فتح کو بش پروپیگنڈے کی مکمل شکست اور تردید قرار دیتا ہے۔ چند اہم فیصلے مصنف کو امید دلاتے ہیں کہ شاید محتاط حکمت عملی مسلمانوں کی مجروح نفسیات پر مرہم رکھ سکے۔ تاہم، اسامہ کو مارنے اور ڈبونے میں کامیاب ہونے کے ساتھ ساتھ اوباما جنگ کے میدان کو پاکستان تک وسعت دینے میں کامیاب ہوگیاہے، جس کی ہمت بش بھی نہ کر پایا تھا۔ ۲۰۱۴ء تک افغانستان سے فوجی انخلا کا اعلان کر کے اوبامہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے اپنا انتخابی وعدہ پورا کر دیا ہے۔ تاہم، عراق، فلسطین اور دوسری جگہوں پر ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔

یہ کتاب ایک شاہ کار ہے۔ اعداد وشمار، نقشوں اور چارٹوں کی مددسے مصنف نے ایک گھنائونی کہانی خوش اسلوبی سے بیان کی ہے۔ ہر وہ شخص جو اس تباہ کن منظرنامے سے واقفیت چاہتا ہے ،اس کتاب سے ضرور استفادہ کرے، قطع نظر اس کے کہ وہ مسلمان ہے یا نہیں، یا سیاست اس کا مضمون ہے یا نہیں۔(بہ شکریہ: پندرہ روزہ ملّی گزٹ، دہلی، ۳۰ستمبر ۲۰۱۱ء)