ڈاکٹر سمیہ بانو


دعوتِ دین اُمت مسلمہ کا فرضِ منصبی ہے (اٰل عمرٰن۳: ۱۱۰)۔ اس منصب کے کچھ بنیادی تقاضے ہیں۔ داعیِ حق کو دینی علوم، قرآن، تفسیر و حدیث، فقہ، عربی، ادب، لغت اور تاریخ اسلام پر عبور حاصل کرنا ضروری ہے۔ اگر داعی کی نظر موجودہ دنیا کے حالات پر نہ ہو تو وہ ہرگز ایک کامیاب داعی کی حیثیت سے اپنے فرضِ منصبی کو اداکرنے کے قابل نہیں ہوسکتا۔ داعی کو اس بات کا بھی پتا ہونا چاہیے کہ آج کی دنیا پر کن افکار کی حکمرانی ہے، کون سے رجحانات کارفرما ہیں، کن متضاد قوتوں کی باہمی آویزش ہے، کون سی تحریکات ہیں جو دنیاکے اندر کام کررہی ہیں۔

اس کے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے انسانوں کے کیا مسائل ہیں، وہ کن مصائب و مشکلات میں مبتلا ہیں۔ خاص طور سے عالمِ اسلام جس کا دائرہ مراکش سے انڈونیشیا تک وسیع ہے، اس کے کیا مسائل ہیں۔ وہ کیا سرچشمے ہیں جو ہمارے لیے قوت کا سامان فراہم کرسکتے ہیں اور وہ کون سے راستے ہیں جہاں سے کمزوریوں کودر آنے کا  موقع ملتاہے۔ امید افزا پہلوئوں پر بھی نظر رہے۔ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ لوگ کن رجحانات اور کس نقطۂ نظر کے حامل ہیں، تاکہ وہ یہ فیصلہ کرسکے کہ کس انداز سے ان کے سامنے اپنی بات رکھنی ہے۔ دعوت میں تدریج کی حکمت بھی پیش نظر رہنی چاہیے۔

  • عالمِ اسلام کے مسائل سے آگھی :ایک داعی کو اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ عالمِ اسلام کے جغرافیائی، اقتصادی اور سیاسی حالات کیا ہیں؟ عالمِ اسلام کی آبادی کن مختلف ٹکڑیوں میں بٹی ہوئی ہے، اور کن تدبیروں کو اپنا کر اس کی صفوں میں اتحاد پیدا ہوسکتا ہے۔ فلپائن، قبرص، اریٹریا، حبشہ، سوویت یونین، مشرقی یورپ، البانیہ، یوگوسلاویہ، چین اور ہندستان، جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، انھیں کیا مسائل درپیش ہیں اور وہ کس طرح ان سے نبردآزما ہوسکتے ہیں۔ اس وقت اگرچہ مسلمانوں کو عالمی سطح پر اسلام دشمن طاقتوں کی طرف سے مصائب کی چکی میں پیسا جا رہا ہے اور ظلم وستم کے پہاڑ ان پر توڑے جارہے ہیں، لیکن انھیں دہشت گرد بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
  • اسلام دشمن طاقتوں پر نظر: عالمی سطح پر خطرناک اسلام دشمن طاقتیں عالمی یہودیت، عالمی صلیبیت اور بین الاقوامی اشتراکیت ہیں۔ اگرچہ ان کے درمیان کچھ بھی اختلاف ہوں لیکن مسلمانوں اور عالمِ اسلام کے مقابلے میں وہ سب یک زبان ہیں اور صبح و شام اسی کوشش میں لگی رہتی ہیں کہ کس طرح انھیں چرکے لگائیں اور زخموں سے نڈھال کردیں۔

اسلام دشمن طاقتیں دراصل بُغض و حسد کی آگ میں جل رہی ہیں۔ عالمِ اسلام اور    اس کے وسائل پر ان کی للچائی ہوئی نظریں ہیں۔ اسلام کی قوت سے وہ خوف محسوس کرتی ہیں۔ وہ بے چین ہیں کہ کس طرح عالم اسلام پر اپنے پنجے گاڑیں۔ ہمیں جاننا چاہیے کہ عالم اسلام کے خلاف ان کی اس جنگ میں ان کے کیا وسائل ہیں، یعنی سیاسی، حربی، اقتصادی، اور سب سے  بڑھ کر فکری یلغار، نیز عالمِ اسلام پر عیسائیت کی یلغار۔ افریقہ کے اندر اسلام اورعیسائیت کی کش مکش جاری ہے۔ سب سے بڑے اسلامی ملک انڈونیشیا کو عیسائی مملکت میں تبدیل کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ اسی طرح عالمِ عرب کے مختلف خطوں کو عیسائی اکثریت میں تبدیل کرنے کی بھی سازش کی جارہی ہے۔ ان مقاصد کے حصول کی خاطر مشنریوں اور استعماری طاقتوں کا باہمی تعاون جہاں ہوتا ہے وہیں اسلام اور مختلف اسلامی علوم سے متعلق مستشرقین کا جارحانہ تصنیفی کام بھی ہے جن کا شیوہ ہی اسلام اور عالمِ اسلام پر حملے کرنا ہے۔ خفیہ اور زیرزمین کام کرنے والی تنظیمیں، ماسونیت اور اس کی مختلف شاخیں بھی اسلام کے خلاف برابر کام کر رہی ہیں۔

  • داخلی خطرات: داعی کو داخلی خطرات پر بھی نظر رکھنا چاہیے۔ دائرۂ اسلام سے خارج اور اسلام کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والی جماعتیں بہائیت اور قادیانیت وغیرہ ہیں جنھیں بسااوقات دشمنانِ اسلام حکمرانوں کی تائید و حمایت بھی حاصل رہتی ہے۔ ان کی حمایت سے اسلام کو بدنام کرنے کی سعی ناکام بھی ہوتی رہتی ہے۔ ان تمام ریشہ دوانیوں اور خطرات سے نپٹنے کے لیے    دو باتوں کو پیشِ نظر رکھنا بے حد ضروری ہے۔اول یہ کہ ان دشمن اسلام طاقتوں اور ان کے منصوبوں کو نہ تو بالکل نظرانداز کیا جائے اور نہ گھبرا کر میدان سے فرار اختیار کیا جائے۔ دوم یہ کہ اسلام دشمن طاقتیں آپس میں جن اندرونی اختلافات کا شکار ہیں، کمال دانش مندی کے ساتھ اس کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ مثال کے طور پر ماضی میں امریکا اور سابق سوویت یونین میں کش مکش رہی، اور آج بھی مختلف طاقتوں میں کش مکش ہے، جیساکہ ہمارے بزرگوں کا طرزِعمل رہا ہے، جو کہا کرتے تھے: خدایا! ظالموں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ الجھائے رکھ، تاکہ ہم پر ان کی سازشوں کی کوئی آنچ نہ آنے پائے: اللھم اشغل الظالمین بالظالمین واخرجنا من بینھم سالمین۔

ہمیں ان کے مذاہب کی صورت حال پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ یہودیت، جس کے نمایندے تورات کے اصل نسخے کو داغ دار کررہے ہیں، صہیونی تحریک اور قیامِ اسرائیل اس کی  ایک جھلک ہے۔ عیسائیت کے مختلف فرقے ہیں، ہر ایک کے لیے علیحدہ چرچ ہیں، ان کے درمیان کش مکش رہتی ہے، پھر آپس میں قریب ہونے کی کوشش بھی ہوتی ہے۔ یہودیت کے ساتھ ان کا گٹھ جوڑ vetican کا معاہدہ بھی ہے، جس کے تحت یہودیوں کو حضرت مسیحؑ کے خون سے بری قراردیا گیا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں اور عیسائیوں کو ایک دوسرے کے قریب کرنے کی کوشش ہونی چاہیے جسے ’مسیحی اسلامی اتحاد‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی حقیقت اور قدروقیمت بھی جاننا چاہیے۔

ہندستان اور مشرق بعید کے ملکوں کے بڑے بڑے مذاہب، مثلاً ہندومت، اس کے عقائد، مسلمانوں کے تئیں ان کا رویہ اور برتائو اس کی بھی اہمیت جاننا چاہیے۔ بدھ مت کے ماننے والوں اور اس کے پیروئوں کی زندگیوں پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اشتراکیت، سوشلزم، جمہوریت، ڈکٹیٹرشپ کے متعلق بھی معلومات حاصل کرنا ضروری ہے۔ مارکسی نظریۂ اشتراکیت کو سمجھنا چاہیے جسے ایشیا میں لینن اور اس کے جانشینوں نے عملی جامہ پہنایا، اور مائوزے تنگ نے چین میں اپنایا۔ ہمیں یہ بھی جاننا چاہیے کہ ان تمام سیاسی ممالک کے تئیں اسلام کا نقطۂ نظر کیا ہے۔ ان نظریات کے ساتھ اسلام کا جوڑ لگانا بالکل غلط اور اسلام کے ساتھ ناانصافی ہے۔

  • نظریاتی کش مکش: احیاے اسلام کے لیے اسلامی تحریکیں برپا ہیں اور ایک نظریاتی کش مکش جاری ہے۔ اُمت مسلمہ کے پاس قرآن وسنت اور ان کی تشریح و ترجمانی کا جو عظیم سرمایہ ہے اس کے پیش نظر وہ ہر غلط نظریۂ فکر سے بے نیاز ہے۔ سارے مسائل کا حل صرف اسلام کے پاس ہے، اس لیے کہ اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے۔ جب ہم اس کا جائزہ لیں کہ اسلامی تحریکات کہاں کہاں ہیںاور کیسی ہیں تو معلوم ہوگا کہ ان میں کچھ تحریکات ایسی ہیں جن کا دائرہ  اپنے ملکوں تک محدود ہے، کچھ عالمی دائرے تک پھیلی ہوئی ہیں جن کی دعوت ہمہ گیر ہے اور جو زندگی کے ہر گوشے میں تبدیلی و انقلاب کی علَم بردار ہیں۔

حالاتِ حاضرہ پر نظر رکھتے ہوئے ہم اپنے آپ کو پوری طرح تیار کرسکتے ہیں اور داعی کے جو فرائض ہیں، انھیں انجام دے سکتے ہیں۔ سونے کو پگھلا کر کندن کس طرح بنایا جاسکتا ہے،  یہ ہنر ہم کو آسکتا ہے۔ دین کی طرف دعوت دینا اور اللہ کے راستے کی طرف اللہ کے بندوں کو بلانا انبیاے کرامؑ کا طریقۂ کار ہے۔ سب سے پہلے انبیاے کرام ہی نے اس کام کا بیڑا اٹھایا جو کہ علم کے ساتھ عمل کے پیکر اور صدق واخلاص کے کامل ترین نمونہ تھے۔ اسی دعوت کی بدولت لوگوں کو حق کی رہنمائی اور سچائی کا روشن راستہ ملتا رہا اور لوگ اندھیروں سے اُجالے میں آتے رہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے دعوتِ دین کو سب سے بھلی بات اور سب سے اُونچا مقام عطا کیا ہے:

وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ o (حم السجدہ ۴۱:۳۳) اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔

یہ بھی یقینی بات ہے کہ جب ہم دعوتِ حق کو لے کر اٹھیں گے تو اسے ٹھنڈے پیٹوں کبھی برداشت نہیں کیا جائے گا، اس لیے کہ لوگوں کے ذہن و دماغ پر تعصبات کے پردے پڑے ہوئے ہیں، خواہشات نفس کے چنگل میں وہ پھنسے ہوئے ہیں، بے شمار شیطانی قوتیں ہیں جو ان کے ذہن کے دریچوں کو کھلنے نہیں دیتیں۔لہٰذا اس کارِ دعوت کو سنبھالنے کے لیے انتہائی مضبوط ہاتھ چاہییں جو اپنے اندر ہمہ گیر تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور جو درپیش چیلنجوں کا بھرپور جواب دے سکیں، جنھیں خود بھی کارِدعوت کی عظمت و اہمیت کا پورا احساس ہو، اس لیے کہ داعی کی حیثیت اصل قوتِ محرکہ کی ہوتی ہے۔ دراصل یہی وہ انجن ہے جس سے پورا کارواں متحرک ہوتا ہے اور یہی وہ پاور ہائوس ہے جو پوری بستی کو منور رکھتا ہے۔

تعلیم و تربیت کے میدان میں اصل اہمیت معلم و مربی کی ہے جو طالب علم کے اندر    بے تابی کی روح پھونکتا ہے اور اس کی رگوں میں زندگی کا خون دوڑا دیتا ہے۔ جب معلم کی یہ اہمیت ہے تو داعی کی حیثیت دعوت و تبلیغ کے میدان میں اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ وہ جتنا خونِ جگر جلائے گا، اسی کے بقدر اس کے اپنے اردگرد روشنی نظر آئے گی۔ باطل کے خلاف اس جنگ میں ایک داعی کے لیے اگر کوئی اسلحہ ہے تو وہ ایمان کا اسلحہ ہے۔ ایمان کوئی ایسی معمولی چیز نہیں جس کا صرف دعویٰ کیا جائے۔ صرف زبانی جمع خرچ سے اس کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا۔ صحیح معنوں میں ایمان صرف اسی وقت قرار پاتا ہے جب وہ انسان کے رگ و پے میں سرایت کرجائے اور اس کی عملی زندگی   اس کی شہادت پیش کرنے لگے۔

داعی کے لیے اہم چیز حسنِ اخلاق ہے کہ وہ اخلاقِ عالیہ کا پیکر ہو اور یہ چیز اس کی فطرتِ ثانیہ بن چکی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضوؐر نے حسنِ اخلاق کو ایمان کے ساتھ لازم و ملزوم قرار دیا ہے: ’’مسلمانوں میں سب سے زیادہ کامل ایمان والا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں‘‘۔

  • علمِ ثقافت: داعی کے لیے ایک اور اسلحہ علم و ثقافت ہے۔ داعی اگر اندر سے خالی اور نورِ علم سے بے بہرہ ہوگا تو وہ دوسروں کو کیوں کر فیض یاب کرسکتا ہے۔ جو خود خالی ہاتھ ہے وہ دوسروں کو کیا دے سکتا ہے۔ یہ ثقافت اسلامی، تاریخی، ادبی اور انسانی ہونی چاہیے۔
  • اسلامی ثقافت: اسلامی ثقافت سے مراد وہ ثقافت ہے جس کا مرجع و محور اسلام ہو، اور داعی کو اچھی طرح معلوم ہو کہ وہ اسلام کیا ہے، جس کی طرف وہ لوگوں کو دعوت دے رہا ہے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوئہ حسنہ ہے جس پر عمل کے نتیجے میں اسلام ایک ایسی بلندوبالا عمارت کی صورت میں سامنے آتا ہے جسے بڑے سے بڑا طوفان بھی ہلا نہیں سکتا۔ اگر داعی حافظ قرآن ہے تو دعوت میں بڑی سہولت ہوتی ہے، ورنہ داعی کو چاہیے کہ وہ قرآن کریم کو جتنا ممکن ہوسکے حفظ کرلے۔ داعی خواہ حافظ قرآن ہو یا نہ ہو، لیکن جہاں تک کتاب اللہ کی تلاوت کا معاملہ ہے دل کے پورے جھکائو اور گہرے تفکر و تدبر کے ساتھ اس پر کاربند رہنا ضروری ہے۔ قرآن، فطری، لسانی،عقلی، شرعی، علمی، عملی اور ہرپہلو سے معجزہ ہے۔ اس لیے کہ اس کے اندر انسان کی فکری، قلبی اور انفرادی و اجتماعی اصلاح کا ایسا سامان موجود ہے کہ اگر انسان اسے اپنا دستور بنا لے اور اس کی رہنمائی میں زندگی کا سفر طے کرے تو دین و دنیا دونوں میں خوش بختی و سعادت سے ہم کنار ہوسکتا ہے۔ قرآن ایک زندئہ جاوید کتاب ہے جو کسی مخصوص قوم، نسل یا زمانے کے لیے نہیں بلکہ قیامت تک کے لیے ہے۔ اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا ہے: ’’ہم ہی نے اسے اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘(الحجر۱۵:۹)۔ قرآن ہی ایک ایسی کتاب ہے جس کی مخاطب پوری انسانیت ہے اور یہی وہ کتاب ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں سے بحث کرتی ہے۔

دینی ثقافت کا دوسرا مآخذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ یہ دراصل کتاب اللہ کی تشریح ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے رسولؐ اللہ سے خطاب کر کے فرمایا: وَاَنْزَلْنَـآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَo (النحل ۱۶:۴۴) ’’اور اب یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جائو جو اُن کے لیے اُتاری گئی ہے، اور تاکہ لوگ (خود بھی) غوروفکر کریں‘‘۔

یہاں ہم جسے سنت کہہ رہے ہیں اس میں رسولؐ اللہ کے قول، فعل، تقریر، نیز آپؐ کے عادات و اوصاف، سیرت و کردار تمام چیزیں شامل ہیں۔ اس طرح یہ سنت آپؐ کی پوری زندگی پر مشتمل ہے۔ دعوتِ دین کی راہ میں آپؐ کی جدوجہد اور قربانیوں کا ایک جامع ریکارڈ سنت ہے۔ جب تک داعی اس چشمۂ صافی سے سیراب نہیں ہوگا، وہ دوسروں کی تشنگی دُور نہیں کرسکتا۔

  • تاریخی ثقافت: داعی کو اپنا مستقبل سنوارنے اور دوسروں کو دعوت دینے کے لیے عبرت وموعظت کا سامان تاریخی ثقافت سے ملتا ہے۔ اس لیے کہ دنیا کے اسٹیج پر زبردست اور صاحبِ قوت و شوکت شخصیتیں نمودار ہوئیں اور بالآخر فنا کے گھاٹ اُتر گئیں۔ اس کے برعکس تاریخ اسلام کی بڑی بڑی شخصیتوں کی سوانح حیات جن کی مثالی زندگیوں میں ایک مومن کامل کی تصویر جلوہ گر ہوتی ہے، وہ داعی کے علم میں رہنا چاہیے ، مثلاً خلفاے راشدین، حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ،     اسی طرح ہارون الرشید، نورالدین زنگی، سلطان صلاح الدین ایوبی ؒکے حالات اور ان کے شان دار کارنامے وغیرہ۔
  • انسانی ثقافت: سماجی علوم (Social Science) کا تعلق براہِ راست دعوت کے موضوع سے ہے۔ اس لیے داعی کا انسانی ثقافت سے واقف ہونا بھی ضروری ہے۔ موجودہ دور میں انسان جس سمت میں پیش رفت کر رہا ہے، وہ اس کے لیے ترقی کی راہ نہیں بلکہ ہلاکت کا سامان ہے۔ سماجی علوم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پڑھے لکھے انسان کے مسائل کیا ہیں اور اَن پڑھ کی الجھنیں کیا ہیں، نیز سماجی علوم کے مطالعے سے نت نئی گمراہیوں اور کج رویوں کا بھی پتا چلتا ہے جن کی پاداش میں انسان راہِ راست سے ہٹ کر جہنم میں جانے کا سامان تیار کر رہا ہے۔ ان علوم کا تعلق کسی بے جان مادے سے نہیں بلکہ انسان اورانسانی زندگی سے ہے۔
  • جدید سائنسی تحقیقات: داعی کے لیے جدید سائنسی تحقیقات سے واقفیت بھی ضروری ہے، کیوں کہ یہ واقفیت داعی کو دینی حقائق کی تائید و توثیق کراتی ہے۔ مثال کے طور پر شہد کے سلسلے میں قرآن کا بیان واضح ہے۔ شہد کے اندر موجود کیمیائی اجزا جن کی وجہ سے امراض میں شفا حاصل ہوتی ہے، ان کی تحقیق سائنس کے ذریعے ہوتی ہے۔ زمین کا ایک خاص حجم ہے، سورج سے اس کا ایک خاص فاصلے پر ہونا،زمین کا ایک خاص تناسب کے ساتھ خشکی اور تری پر مشتمل ہونا، دریائوں اور سمندروں میں پانی کی ایک متعین مقدار کا ہونا، یہ تمام باتیں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ اشیاے کائنات کے ایک خاص اندازے پر ہونے کی جو بات قرآنی آیتوں میں بتائی گئی ہے، اس میں کتنی گہرائی اور کیسی صداقت و حکمت پوشیدہ ہے۔ جدید سائنسی تحقیقات سے بڑی حد تک حقائق کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جن کا انکشاف قرآن نے آج سے چودہ سو برس پہلے کردیا تھا، جب کہ سائنسی انکشافات کا دُور دُور تک پتا نہیں تھا۔
  • زبان و ادب پر عبور: داعی دین کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ زبان و ادب پر اسے عبور حاصل ہو، اس کی نوک پلک سے اچھی طرح واقف ہو، اس کی باریکیوں اور نزاکتوں پر  نظر ہو۔ برمحل اشعار، اچھے نثرنگاروں کے منتخب جملے، اور عمدہ محاورے اسے یاد ہوں۔ یہ چیزیں دلوں پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ صحابہ کرامؓ کے اندر کئی ماہر فن اور بالغ نظر شعرا، جیسے حسان بن ثابتؓ ، کعب بن مالکؓ ، عبداللہ بن رواحہؓ موجود تھے جو اپنے اشعار سے اسلام کا دفاع کرتے تھے۔  مقداد بن اسودؓ کا بیان ہے کہ پورے گروہِ صحابہ میں شعروسخن اور علم فرائض سے واقفیت رکھنے والا  اُم المومنین حضرت عائشہؓ سے بڑھ کر میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ زبان و ادب کی کتابوں میں    بے شمار ایسے واقعات، حکایات، تشبیہات اور دل کو موہ لینے والے فقرے ملتے ہیں جس سے آدمی کو اپنی سیرت سنوارنے اور اعلیٰ جذبات کو پروان چڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ انسان کا جسم تھکتا ہے، اس کے دل پر درماندگی کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں، ایسے موقع پر پاکیزہ لطائف و ظرائف مؤثر طریقے سے پیش کیے جائیں تو آدمی کے دل میں فرحت و بشاشت پیدا ہوتی ہے۔ کبھی کبھی ایک ادبی لطیفہ لمبے چوڑے مواعظ اور طویل تقریروں کا نعم البدل بن جاتا ہے۔
  • اسلام کا گھرا مطالعہ: ایک داعی کے لیے اسلامی نظامِ زندگی کا گہرا مطالعہ بھی بہت اہم ہے، تاکہ اسلامی نظامِ حیات کی ہر چیز دل و دماغ میں پوری طرح اُتر جائے۔ اس مطالعے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں نہ اضافہ کیا جائے، نہ کسی چیز کا جوڑ ملایا جائے، اور نہ کمی کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اُمت کے لیے دین اسلام کو بالکل مکمل کردیا ہے، جیساکہ قرآن میں فرمایا گیاہے: اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (المائدہ ۵:۳) ’’آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے‘‘۔ اسلام کے خاکے میں ہرعمل کی ایک خاص قدروقیمت ہوتی ہے اور اس کی ہرتعلیم اپنے اندر ایک خاص وزن رکھتی ہے۔

آخر میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ہم اسلام کی صداقت و حقانیت پر یقین کامل رکھیں، اسلام ہمارے رگ و ریشے میں اس طرح سرایت کرجائے کہ بادِ مخالف کا سخت جھونکا بھی اسے اپنے مقام سے نہ ہلاسکے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم جذبۂ اسلامی سے سرشار ہوں، ہمارا ذہن اسلامی ہو، ہمارے قلب و ضمیر میں ایمان کی چنگاریاں موجود ہوں، ہم اسلام کو اس طرح سینے سے لگائیں کہ دنیا کی ہرچیز کے مقابلے میں اسلام ہمیں عزیز تر ہو، اور ہمارا سینہ اس حقیقت کے لیے بالکل کھلا ہو کہ اسلام ہی سب سے بہتر نظامِ زندگی ہے جسے دنیا میں غالب کرنا ہر داعی کا فرض ہے۔