زمین جس پر ہم مقیم ہیں اور وسیع کائنات جس میں یہ زمین واقع ہے، ان دونوں کے درمیان بے پناہ ہم آہنگی موجود ہے، حتیٰ کہ صرف کھڑکی سے باہر دیکھنے پر ہی ہم اس ہم آہنگی کی بہت سی مثالیں دیکھ سکتے ہیں۔ بادلوں، آسمان، درختوں، پھولوں، جانوروں اور اسی طرح کی ملتی جلتی مثالوں میں کامل تنظیم اور تناسب ظاہر ہوتے ہیں۔
جب ہم فطرت کی طرف نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہر جانور اور ہر پودے کے اپنے مخصوص رنگ اور نقوش ہیں جو ان کی قسم سے خاص طور پر منسوب ہیں۔ مزیدبرآں ان میں سے ہر رنگ اور ہر شکل جان دار اشیا کے لیے مختلف معنی رکھتی ہے۔ ساتھی کے لیے دعوت، غصے کا اظہار، خطرے کے خلاف تنبیہہ اور اسی طرح کے بہت سے اشارات، ان جانوروں کی شکلوں کو سمجھنے سے حاصل ہوتے ہیں۔
نظریۂ ارتقا جس کا دعویٰ ہے کہ ہر شے اتفاقی حادثے کے نتیجے میں وجود میں آگئی ہے، فطرت میں موجود فن کاری، نیرنگی اور تناسب کی وجہ سے، ایک بندگلی میں پہنچ گیا ہے۔ چارلس ڈارون جو اس نظریے کا بانی ہے اور جس نے اسے موجودہ حالت تک پہنچایا ہے، جان دار اشیا کی ساخت کی بدولت اسے بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑا۔
ڈارون نے کہا کہ وہ یہ نہیں سمجھ سکا کہ جان دار مخلوقات کے رنگ مخصوص معنی کے حامل کیوں ہیں؟ میری مشکل یہ ہے کہ کبھی کبھار مکوڑے ایسے خوب صورت اور فن کارانہ رنگوں کے کیوں ہوتے ہیں؟ یہ دیکھ کر ان میں سے بہت سوں کے رنگ خطرے سے بچائو کے لیے ہوتے ہیں، میں ان شوخ رنگوں کو دوسری صورتوں میں محض طبعی حالات کی طرف منسوب نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ نر تتلیاں اور مکوڑے اس قدر خوب صورت کیوں ہوتے ہیں تو آپ کیا جواب دیں گے؟ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں مگر مجھے اپنی راے پر قائم رہنا چاہیے۔
ایک بار پھر چارلس ڈارون اپنے ہی نظریے میں موجود تضاد کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’میں روشن رنگ نر مچھلیوں اور مادہ تتلیوں کی قدر کرتا ہوں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک جنس کی خوب صورتی کی قیمت دوسری کو نہیں دینا پڑتی۔ اس معاملے میں مجھے نہیں لگتا کہ فطری انتخاب کے عمل سے یہ فرض نہیں کیا جاسکتا کہ ایک جنس کی خوب صورتی دوسری کی وجہ سے متاثر ہوئی‘‘۔
یقینا فطرت میں موجود رنگوں، تنظیم اور تناسب کے لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ فطری انتخاب کے ذریعے وجود میں آجائیں۔ اس موقع پر یہ مفید ہوگا کہ فطری انتخاب کے تصور کا ایک نزدیکی جائزہ لے لیا جائے جسے ڈارون کے نظریۂ ارتقا نے جنم دیا ہے۔ جیساکہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں، فطری انتخاب نظریۂ ارتقا کا ایک تصوراتی نظامِ عمل ہے۔ اس کے مطابق وقت کے ساتھ اپنے ماحول میں موزوں ترین جان دار باقی رہ جاتے ہیں، جب کہ کمزور اور اپنے ماحول کی شرائط کے لیے ناموزوں جان دار ختم ہوجاتے ہیں۔ ارتقا پسندوں کے دعووں کے مطابق ایک نسل کے ارکان میں ایک مفید تبدیلی اس کے جینز میں ہونے والے بے ترتیب تغیر کے ذریعے آتی ہے۔ یہ مخلوق باقی تمام نسلوں میں سے موزوں ترین ہونے کے باعث بقا کے لیے منتخب کرلی جاتی ہے اور اس طرح جو کچھ کہ محض ایک بے ترتیب تغیر کا نتیجہ تھا، وہ سب بڑی مقدار میں اگلی نسلوں میں منتقل ہوجاتاہے۔
جان داروں کے رنگوں اور اشکال میں موجود تناسب کے لیے یقینا ممکن نہیں ہے کہ اس نظامِ عمل کے ذریعے وہ تخلیق پاجائیں۔ یہ بے حد واضح حقیقت ہے۔ اگرچہ وہ اس نظریے کا بانی ہے، پھر بھی ڈارون کو خود بھی یہ تسلیم کرنا پڑا کہ فطری انتخاب کا تصوراتی نظامِ عمل ایسی تنظیم کا باعث نہیں بن سکتا۔ جے ہاکز (J. Hawkes) بھی نیویارک ٹائمز میگزین اپنے آرٹیکل Nine Tantalizing Mysteries of Nature میں فطری انتخاب کی بے معنویت پر شک کا اظہار یہ کہتے ہوئے کرتا ہے کہ اسے یہ یقین کرنے میں مشکل پیش آتی ہے کہ پرندوں، مچھلیوں، پھولوں وغیرہ کی خیرہ کن خوب صورتی فطری انتخاب کے ذریعے وجود میں آئی ہے۔ اس سے ہٹ کر وہ یہ سوال پوچھتا ہے کہ کیا انسانی شعور اس طرح کے نظامِ عمل کی پیداوار ہوسکتا ہے؟ اپنے مقالے میں آخرکار وہ یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ انسانی دماغ جس نے تہذیب جیسی نعمت پیدا کی ہے اور جو ایک تخلیقی ذہن رکھتا ہے جس کی وجہ سے سقراط، لیونارڈو، شیکسپیئر، نیوٹن اور آئن سٹائن جیسے لوگ غیرفانی حیثیت اختیار کرگئے ہیں، ہمارے لیے جنگل کے اس قانون کا تحفہ نہیں ہوسکتا جسے جہدللبقا (struggle for survival) کہا جاتا ہے۔
جیساکہ ہم نے ارتقا پسندوں کے ان اعترافات سے یہ سمجھا ہے کہ انھیں معلوم ہے کہ ان کا نظریہ تضادات کا شکار ہے۔ اس تصور کا دفاع کرنا نامعقول بات ہے کہ ایک خلیہ جو فرض کیا اچانک بجلی اور بارش کے نتیجے میں زمین پر وجود میں آجاتاہے، وقت کے ساتھ ساتھ رنگین جان دار مخلوق میں تبدیل ہوجائے گا۔ فرض کرو ایک سائنس دان ایک خلیہ مثال کے طور پر بیکٹیریم (becterium) لیتا ہے۔ اسے تجربہ گاہ میں مناسب ترین ماحول مہیا کرتا ہے، تمام آلات جو درکار ہوں استعمال کرتا ہے، لاکھوں سالوں تک اس خلیے کے ارتقا پاجانے پر محنت کرتا ہے (گو کہ یہ فرض کرنا بھی ممکن نہیں) آخرکار کیا حاصل ہوگا؟ کیا وہ اس بیکٹیریم کو کبھی خیرہ کن رنگوں والے مور میں تبدیل کرسکے گا، یا ایک کامل نقوش والی جلد کے حامل تیندوے میں یا پھر اپنی مخملیں پتیوں سمیت ایک گلاب میں؟ یقینا ذہین لوگ اس طرح کی چیزوں کے متعلق تصورات نہیں پا لتے اور نہ ایسے دعوے ہی کرتے پھرتے ہیں اگرچہ یہ نظریۂ ارتقا کے دعوے کے عین مطابق ہے۔
آئو اس بات کی تصدیق ایک مثال کے ذریعے کرتے ہیں کہ جان داروں کے رنگوں کی تخلیق اور تبدیلی کا امکان بذریعۂ فطری انتخاب ناممکن ہے۔ مثال کے طور پر گرگٹ کو لیتے ہیں۔ گرگٹ ایسے جانور ہیں جو ماحول میں موجود رنگوں کو قبول کرتے ہوئے اپنے رنگوں کو گردوپیش کے رنگوں کے مطابق تبدیل کرلیتے ہیں۔ سبز پتوں پر آرام کرتے ہوئے وہ سبز رنگت اختیار کرلیتے ہیں، بھوری شاخ پرچلتے ہوئے تھوڑی سی دیر میں ان کی رنگت بھوری ہوجاتی ہے۔ آئو مل کر سوچیں رنگ کی تبدیلی کا یہ عمل کس طرح وقوع پذیر ہوتا ہے۔
ایک جان دار مخلوق اپنے جسم میں ہونے والے بے حد پیچیدہ عمل کے نتیجے میں اپنا رنگ تبدیل کرتی ہے۔ انسان کے لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ اپنا یا کسی دوسری جان دار مخلوق کا رنگ تبدیل کرے کیونکہ انسانی جسم اس طرح کے عمل کے لیے مطلوبہ نظام سے لیس نہیں ہے۔ نہ انسان کے لیے یہ ممکن ہی ہے کہ وہ اپنے آپ ایک ایسا نظام اختیار کرلے کیونکہ یہ کوئی ہتھیار نہیں ہے جسے گھڑکر جسم پر سجا لیا جائے۔ مختصراً ایک زندہ مخلوق کے لیے اپنا رنگ تبدیل کرنے کے قابل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس مخلوق میں اس رنگ کی تبدیلی کے لیے نظامِ عمل موجود ہو۔
آئیے زمین پر پہلی گرگٹ کے بارے میں غور کریں۔ کیا ہوتا اگر اس مخلوق کے پاس رنگ بدلنے کی صلاحیت نہ ہوتی؟ سب سے پہلے تویہ کہ اس کے لیے چھپنا ممکن نہ رہتا اور اس کے سبب یہ آسانی سے شکار ہوجاتی۔ دوسری طرف آسانی سے پہچانے جانے کے باعث اس کے لیے شکار کرنا بے حد مشکل ہوجاتا اور آخرکار ان وجوہات کی بنا پر کسی قسم کے دفاعی نظام سے عاری گرگٹ بھوک اورموت کا شکار ہوجاتی اور کچھ عرصے میں معدوم ہوجاتی۔ اس کے باوجود آج دنیا میں گرگٹ کا وجود اس ثبوت کی شہادت ہے کہ اس کے ساتھ اس طرز کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ لہٰذا یہ زمین پر نمودار ہونے والے پہلے لمحے سے اسی کامل نظام کی مالک ہے۔
ارتقا پسندوں کا دعویٰ ہے کہ گرگٹ نے اس نظام کو وقت کے ساتھ ساتھ اپنایا ہے۔ اس سے ہمارے دماغوں میں چند سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ گرگٹ نے بجاے کسی آسان نظامِ عمل کے رنگ بدلنے جیسے پیچیدہ نظام ہی کو کیوں اپنایا؟ اس نے رنگ کی تبدیلی کا انتخاب کیوں کیا، جب کہ بہت سے دفاعی نظام موجود تھے؟ کس طرح سے گرگٹ میں رنگ کی تبدیلی کے لیے تمام تر ضروری کیمیائی عمل مہیا کرنے والا نظامِ عمل تشکیل پایا؟ کیا ایک ریپٹائل کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ ایسے کسی نظامِ عمل کے بارے میںسوچے اور پھر اپنے جسم میں ضروری نظامات پیدا کرے؟ مزید یہ کہ کیا ایک ریپٹائل کے لیے یہ ممکن ہے کہ رنگ کی تبدیلی کے لیے ضروری معلومات کو خلیوں میں موجود ڈی این اے میں ایک کوڈ کی صورت ڈال دے؟
بے شک یہ ناممکن ہے۔ ایسے سوالوں کے جواب میں نکالے جانے والا نتیجہ ہمیشہ ایک ہی نکلتا ہے کہ جان دار مخلوق کے لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ ایسا پیچیدہ نظام پیدا کرلے جس کے ذریعے خود اپنا رنگ تبدیل کرسکے۔
جان داروں میں نہ صرف تبدیلیِ رنگ کا نظام بلکہ رنگوں اور نقوش کا تنوع بھی قابلِ غور ہے۔ طوطوں کے شوخ اور مچھلیوں کے متنوع رنگ، تتلیوں کے پروں کے تناسب، پھولوں کے سحرانگیز نقوش اور دیگر جان داروں کے رنگوں کے لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ خود ہی تشکیل پا جائیں۔ ایسے کامل نقوش، رنگ اور اجسام جو جان داروں کی زندگی میں نہایت اہم مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں، تخلیق کی پختہ شہادت ہیں۔ یہ واضح ہے کہ ہمارے گرد رنگوں کی تشکیل میں ایک ارفع ارادہ موجود ہے۔
اس کی وضاحت ایک مثال سے کرتے ہیں: فرض کریں ہم چوکور خانوں پرمشتمل کوئی چیز بنارہے ہیں۔ ان میں سے حتیٰ کہ ایک کو بھی بنانے کے لیے ہمیں تھوڑا حساب کتاب سے کام لینا پڑتا ہے کہ چاروں کونے پتلے اور برابر ہوں اور چوکور اپنے کناروں پر ۹۰ درجے کا زاویہ رکھتا ہو۔ ہم اس چوکور کو کچھ حساب کتاب اور طریقے ہی سے بنا سکتے ہیں۔ جیساکہ ہم نے دیکھا کہ ایک چوکور کو بنانے میں بھی کچھ علم اور مہارت درکار ہے۔
آئیے اسی منطق کو جان دار مخلوقات پر لاگو کریں اور ان پر غور کریں۔ جان داروں میں ایک کامل تناسب، تنظیم اور منصوبہ بندی موجود ہے۔ ایک انسان جو ایک سادہ چوکور کو بنانے میں درکار علم اور مہارت کی ضرورت کو سمجھتا ہے، وہ یہ فوراً سمجھ لے گا کہ کائنات کی تنظیم، تناسب، رنگ اور نقوش بھی ایک لامحدود علم اور مہارت کی پیداوار ہیں۔ اس لیے اس دعوے کے لیے کوئی سائنسی یا معقول بنیاد موجود نہیں ہے کہ کائنات جیسا نظام اتفاقاً وجود میں آگیا ہے۔ اللہ قادرِمطلق نے تمام کائنات کو تخلیق کیا ہے، اللہ واحد ہے جو اپنی تخلیق کی ہوئی ہر شے کو خوب صورت ترین انداز میں مزین کرتا ہے۔
کائنات میں موجود ہم آہنگی کی نمایاں ترین مثال تناسب ہے۔ جان دار اشیا اپنی ساخت میں ایک تناسب رکھتی ہیں۔ فطرت میں نظر آنے والی کسی بھی چیز جیسے ایک بیج، پھل یا پتے کا بغور جائزہ لینے پر ہمیں اس میںایک تناسب نظر آتا ہے۔ پتے پودے کے جسم کے ساتھ کمانی دار انداز میں جڑے ہوتے ہیں۔ یہ مخصوص طرز کا تناسب ہے۔ اسی طرح ایک قابلِ مشاہدہ تنظیم بیج کے اندر موجود دانوں اور پتے کی رگوں کے نقوش میں نظر آتی ہے۔
فطرت میں موجود تتلی کے پر تناسب کی ایک اور مثال ہیں۔ تتلی کے دونوں پروں پر ایک سے رنگوں کے شیڈز اورنقوش ہوتے ہیں۔ ایک پَر پر موجود نقوش عین اسی طرح اسی مقام پر دوسرے پَر پہ بھی موجود ہوتے ہیں۔
ہم اپنے اردگرد اور بہت سی مثالیں دیکھ سکتے ہیں جن میں سے کچھ کا خلاصہ ہم نے اُوپر پیش کیا ہے۔ بہرحال اہم بات یہ ہے کہ ان تمام مثالوں سے ایک مشترکہ نتیجہ نکلتا ہے۔ ایک بے مثال تنظیم یا زیادہ درست انداز میں کہا جاسکتا ہے کہ ایک عظیم الشان فن کاری جان دار اشیا میں نظر آتی ہے۔ اس حقیقت کی سب سے بڑی شہادت یہ ہے کہ ایسے نفیس نظام اور فن کاری سمیت یہ کائنات کسی بھی طور اتفاق سے وجود میں نہیں آسکتی۔ پروفیسر کیمل یلدرم (Cemal Yildirim) اگرچہ وہ خود ایک ارتقا پسند ہے، اپنی کتاب Theory of Evolution and Bigotry میں اس حقیقت کو بیان کرتا ہے: ’’اس بات پر قائل ہو جانا بے حد بعید از امکان ہے کہ جان دار اشیا کی اس تنظیم کو جو کسی خاص مقصد کی حامل نظر آتی ہے، کسی اتفاق یا حادثے سے منسوب کردیا جائے‘‘۔
تمھارا خدا ایک ہی خدا ہے، اُس رحمن اور رحیم کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے۔ (اس حقیقت کو پہچاننے کے لیے اگر کوئی نشانی اور علامت درکار ہے تو) جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں، اُن کے لیے آسمانوں اور زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں، اُن کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریائوں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اُس پانی میں جسے اللہ اُوپر سے برساتا ہے، پھر اس کے ذریعے سے مُردہ زمین کو زندگی بخشتا ہے اور (اپنے اسی انتظام کی بدولت) زمین میں ہر قسم کی جان دار مخلوق کو پھیلاتا ہے، ہوائوں کی گردش میں، اور اُن بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں، بے شمار نشانیاں ہیں (البقرہ۲: ۱۶۳-۱۶۴)۔ (انتخاب: یہ رنگ بھری دنیا، ناشر: ادارہ اسلامیات، انارکلی، لاہور)