اسلام اور مغرب، مسلمان اور مغربی دنیا، یہ موضوع آج کل عالمِ اسلام میں بھی اسی طرح گرما گرم بحث کا موضوع ہیں، جس طرح مغربی دنیا میں۔ اخبارات، رسائل و جرائد، کتابوں اور برقیاتی ذرائعِابلاغ میں مختلف زاویوں سے ہونے والی گفتگو دل چسپ بھی ہوتی ہے، اور بعض اوقات اُکتا دینے والی بھی۔ پیش نظر کتاب، جو دو معروف اہلِ علم کی مُرتبہ ہے، مشرق اور مغرب کے ۱۲ دانش وروں کے مضامین پر مشتمل ہے۔ اپنے کلیدی (اور تفصیلی) مقالے میں اسماعیل ابراہیم نواب نے مسلمانوں کے مغرب کے ساتھ تعلقات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ عیسائیت سے اسلام کی مڈبھیڑ (encounter) ساتویں صدی عیسوی میں عیسائی شام پر مسلمانوں کے غلبے ہی سے شروع ہوگئی تھی، اور اسے عیسائیوں کی اکثریت نے خوش دلی سے قبول بھی کیا تھا، کیوں کہ مسلمانوں نے مذہبی رواداری اور حُریت فکر کا مظاہرہ کیا تھا، تاہم اُس زمانے میں یہ بھی نظر آتا ہے کہ یوحنا دمشقی نے اسلامی عقائد اور مسلمانوں پر وہ فکری یلغار شروع کی جوآج بھی جاری ہے، اور ہمارے عہد کے غالباً ممتاز ترین مؤرخ آرنلڈ ٹائن بی اس میں شامل ہیں‘‘ (ص ۹)۔ مقالہ نگار نے بڑی محنت سے ماضی اور حال میں اسلام اور عیسائیت کے درمیان خوش گوار (اور ناخوش گوار) تعلقات کا جائزہ لینے کے بعد دعویٰ کیا ہے کہ مشرق اور مغرب، شمال اور جنوب آپس میں پُرامن بقاے باہمی کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ (ص ۵۰)
عبدالرحیم قدوائی نے انگریزی ادب میں اسلام اور مسلمانوں کی صورت گری کا جائزہ لیا ہے۔ حسین مطالب کے بقول مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے درمیان تعصبات اور غلط فہمیاں ہیں۔ مغرب میں اسلام کے منفی ادراک کو جنم دینے میں صلیبی جنگوں کے طویل سلسلوں، مغرب کے استعمار اور مسلم علاقوں پر اس کے سیاسی غلبے، مغربی ذرائع ابلاغ کا غیرمتوازن رویّہ (مسلمانوں کو عموماً انتہاپسند دہشت گردوں کے رُوپ میں پیش کرنا)، مسلمانوں اور غیرمسلموں کی ایک دوسرے کے عقائد سے لاعلمی اور عالمی تناظر سے بے خبری، اور خود مسلمانوں اور اُن کے قائدین کی اپنے مذہب پر عمل کرنے میں خامی اور کوتاہیاں اس کی ذمہ دار ہیں۔
اہلِ مغرب اور مسلمان، خود اپنا اپنا ادراک کس طرح کرتے ہیں؟ اس پر ترکی کے احمد دائود اوغلو کا مقالہ بڑا معلوماتی ہے۔ ۲۰ویں صدی کے اوائل میں ترکی کی مقتدرہ نے خود کو مشرف بہ مغرب کرنے کی پوری جدوجہد کی، مگر یورپ نے اِسے دل سے قبول نہ کیا۔ بات یہ ہے کہ ’انسانِ اسلامی‘ (Homo Islamicus) اپنے بنیادی ادراکات و مزعومات (کائنات، زمان و مکاں، تعلقاتِ انسانی و خداوندی کے بارے میں اپنے تصورات) میں ’انسانِ مغربی‘ (Homo Occidentalis) سے بالکل مختلف ہے، تاہم وہ یہ مشورہ دینے میں کوئی حرج بھی نہیں سمجھتے کہ مغرب اپنے اس ادراک پر نظرثانی کرے، اور اسلامی تہذیب کے علَم بردار بھی خود کو ’رجعت پسندی‘ کی خودبینی سے آزاد کریں۔ یہ دونوں کی صحت کے لیے مفید ہوگا۔
خالد مسعود نے اُن ناموں کا جائزہ لیا ہے جن سے مسلمانوں اور اہلِ یورپ نے ایک دوسرے کو یاد کیا ہے۔ ’Hagarea‘ ___ہاجرہ ؑکی اولاد (جنھیں ہمارے عیسائی بھائی حضرت ابراہیم ؑکی ’لونڈی‘ قرار دیتے ہیں)، ’Saracens‘ کی اصل بھی شاید کچھ اسی طرح کی تھی، مگر یورپ میں اس کے معنی کافر، مشرک، بدعقیدہ لیے گئے۔ ’Moor‘کی اصل غالباً ایک یونانی لفظ ہے، جس کے مفہوم میں سیاہ فام، نابینا اور تاریک شامل ہیں۔’Mussulman‘ اور اس سے ملتے جلتے الفاظ ’Mussul-Woman‘مرد اور عورت کے لیے استعمال کیے گئے۔ ’Mohammadan‘ (مختلف حروف اور ہجوں کے ساتھ، نیز اس طرح کے دوسرے الفاظ)، اُمت محمدیہ سے تعلق رکھنے والوں کے لیے استعمال کیے گئے۔ مسلمانوں کی زبانوں میں اہلِ مغرب کے لیے افرنجی، فرنگ، ولایتی جیسے الفاظ استعمال کیے گئے جو کم از کم تحقیر سے تو مبرا ہیں۔
جین اسمتھ نے اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں عیسائی مشنریوں کے مزعومات اور خیالات کا جائزہ لیا ہے، جو ابتداء ً جتنے جارحانہ تھے، اتنے ہی جاہلانہ بھی۔ شروع میں خیال تھا کہ عیسائی یلغار کے نتیجے میں رفتہ رفتہ اسلامی تعلیمات مدھم پڑتی جائیں گی، مگر ایسا نہ ہوا۔ اگرچہ آج بھی کہیں کہیں [عیسائی مبلغوں کے] وہ پرانے حوالے نظر آتے ہیں، جن میں رسول [اللہ صلی اللہ علیہ] کو [نعوذ باللہ] شیطان کے ساتھی کے طور پر پیش کیا جاتا تھا، لیکن آج کے عیسائی مبلغ اسلام کو ایک مبنی برحق اور دُرست مذہب کے طور پر دیکھنے کے لیے کھلا ذہن رکھتے ہیں‘‘۔ اور اِن دو مذاہب کے درمیان اشتراک اور تعاون کی بات بھی کرتے ہیں۔
مغرب میں ’ناپسندیدہ‘ مسلمانوں کے لیے ’بنیاد پرست‘ (fundamentalist) کی اصطلاح عام ہوچکی ہے۔ یونی ایزبک حدّاد کے نزدیک یہ تصور داہنے بازو کے دانش وروں (سیکولر اور مذہبی)، مصنفین، صحافیوں، صہیونیوں نیز اُن تمام عرب اور ’اسلامی‘ حکومتوں کے لیے بھی عام ہوچکا ہے، جو امریکی امداد کی طرف نظریں جمائے رکھتی ہیں۔ اسرائیل کے وزیراعظم اسحاق رابین (Itzhak Rabin)کہتے ہیں: ’’ہمارا واحد دشمن اسلام ہے‘‘۔ اور ڈیوڈ بن گوریان (سابق وزیراعظم اسرائیل) اور اسرائیلی ریڈیو کے مطابق: ’’اسلامی اسپرٹ کی بازیافت، اس علاقے میں اسرائیل کے مستقبل اور مغربی تہذیب کے مستقبل کے لیے خطرہ ہے۔ یہودی جانتے ہیں کہ اسلام اُن کے وجود کے لیے خطرہ ہے، مسلمان کب یہ بات سمجھیں گے؟‘‘ (ص ۲۹۰-۲۹۱)
مگر مسلمان نہ اپنے اِس ’دشمن‘ کی بات سمجھتے ہیں، نہ اپنے دوست یوسف القرضاوی (جامعہ قطر میں ڈائرکٹر ریسرچ اور معروف عالم) کی، جن کے نزدیک: ’’اسلام اپنی تمام ہمہ گیریت، کُلیت اور توازن کے باوصف، اِس تمام علاقے سے غائب ہے، وہ اپنے وطن میں اجنبی بن چکا ہے۔ ریاستی معاملات، چاہے وہ سیاسی ہوں، معاشی یا دوسرے داخلی اور خارجی علائق، ان سب میں عوامی زندگی سے اُسے بے دخل کیا جاچکا ہے۔ [مغرب نے] یہ فیصلہ کردیا ہے کہ اسلام، عیسائیت کے عہدِ زوال کا ایک چربہ بن جائے___ یعنی قانون سازی کی قوت سے تہی دست، محض ایک مجموعۂ عقائد، عبادات کی ایک ظاہری صورت جو عملاً معاملات سے خالی ہو۔ ایک ایسا مذہب، جس کی کوئی ریاست حاکمہ نہ ہو، ایک قرآن، بلاسُلطان (بے اختیار)‘‘۔ (ص ۲۹۵)
سوال یہ ہے کہ اس سلسلے میں ’اسلام پسند‘ مسلمانوں کی کیا راے ہے؟ سید ولی رضا نصر ’ریاستیں اور اسلامیانے کا عمل‘ کے عنوان سے کہتے ہیں کہ گذشتہ دو دہائیوں سے اسلامی تحریکیں، سیاسی میدان میں بڑی اہمیت اختیار کرچکی ہیں، اور اس کے نتیجے میں مسلم معاشرے میں اسلام کی طرف رجوع کا واضح اشارہ ملتا ہے۔ ولی رضا، ریاست کے اسلامیانے کے عمل کی تین مثالوں، پاکستان، ملایشیا اور ایران میں تجربات کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس طرح عوام کی زندگی اور معاشرے میں ریاست کا عمل دخل (جبر!) اور زیادہ بڑھ گیا ہے۔ ضیاء الحق، مہاتیرمحمد اور ’اسلامی ایران‘ کے کارپردازوں نے لادینیت اور مغرب کے استرداد کے نام پر ایک طرح کی آمریت کو فروغ دیا۔ بہت سی ’اسلام پسند‘ نیز سیکولر حکومتوں نے بھی دینی مدارس اور اسلامی مراکز پر حکومتی کنٹرول کی کوشش کی ہے، لیکن دینی حلقوں کی طرف سے اس طرح کی کوششوں کی مزاحمت ہورہی ہے۔ پاکستان، ملایشیا، ترکی، مصر اور بہت سے اسلامی ممالک میں یہ کش مکش جاری ہے۔ مگر اس کش مکش میں غالب آنے والی قوت بظاہر تو مغرب ہی کی ہے، بقول مراد ہوف مین (Murad Hofmann): ’’یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب وقت آیا ہی چاہتا ہے کہ مغربی ثقافت ایک لازمی عالمی ثقافت بن جائے، اور وہی دوسری تمام ثقافتوں کی صورت گری کرے۔ سیول سے سوہو تک، مستقبل کا انسان جینز پہنے گا،برگر کھائے گا، کوکاکولا پیے گا، مارلبورو سگریٹ کے کش لگائے گا، انگریزی بولے گا، سی این این دیکھے گا اور ایک جمہوری ریاست میں باہاس [جرمن فنِ تعمیر] طرز کے مکان میں رہایش پذیر ہوگا، اور غالباً رسمی طور پر کسی عیسائی چرچ کا رُکن بھی ہوگا‘‘۔ (ص ۲۶۲)
مگر کیا واقعی ایسا ہوگا؟ یا صورت حال کچھ تبدیل ہورہی ہے؟
فنیاتی ترقیوں کی آزاد رسائی سے دونوں فریق ایک دوسرے کے مقابل آکر کھڑے ہوگئے ہیں۔ ماضی کے مقابلے میں اب صورتِ حال اتنی سادہ نہیں رہ گئی ہے۔ مغربی ملکوں میں مسلمانوں کی آبادی بڑھتی جارہی ہے۔ (نقلِ مکانی، تبدیلیِ مذہب، اور شاید بہتر شرحِ پیدایش)۔ بعض مقتدر مغربی حلقوں میں’اسلام آرہا ہے! اسلام آ رہا ہے‘ ، ’اسلام کا عروج، مغرب پر چھا جائے گا‘ اور ’ایک مقدس جنگ اب ہمارے سامنے ہے‘ اور اس طرح کے نعرے گونج رہے ہیں۔ اسٹیون ایمرسن (Steven Emerson) کے خیال میں تو امریکا میں سارے ہی اسلامی بنیاد پرست، ممکنہ دہشت گرد ہیں۔ وہ مغرب کی ہیئت حاکمہ کو مشورہ دیتے ہیں کہ ایف بی آئی کو چاہیے کہ مسلمانوں کی مساجد، اسلامی اداروں، اُن کی مجالس اور محفلوں میں نفوذ کرے۔ (ص ۲۶۴)
یہ بات واضح ہے کہ لامذہب مغرب اپنی ’ترقی‘ بہتر کارکردگی، بڑھوتری (growth)، پیمانۂ کبیر پر پیداوار اور صَرف کے لیے مجنونانہ جذبے کی دوڑ میں اتنا مشغول ہے کہ اُس کے پاس اسلام کے تصورِ آخرت پر زور، سماجی انصاف کے فلسفے، عبادات کے شعور اور رُوحانی اور دنیاوی مطلوبات کے درمیان ایک متوازن معاشرے کی تشکیل کی فکر پر دھیان دینے کے لیے وقت نہیں ہے۔ ہم اگر کسی ’مغربی انسان‘ کے ہاتھ میں قرآن مجید کا کوئی نسخہ، ترجمہ یا تفسیر تھما دیں تو شاید وہ اپنی اچھی سی کوشش کے باوجود اُسے سمجھ نہ پائے گا۔ مظفراقبال تجویز کرتے ہیں کہ ہمیں مغرب میں___اور اسلامی دنیا میں بھی___ ایسے ادارے تشکیل دینے چاہییں، جن میں علماے دین، طبعی اور سماجی علوم کے ماہرین، انسانی علوم میں گہری بصیرت رکھنے والے، کمپیوٹر کے سائنس دان، معمار، فن کار اور اطلاعاتی فنیات کے ماہر جمع ہوں، اور یہ ادارے ایسے ماہرین اور علما منصہ شہود پر لائیں، جو مغرب اور اسلامی دنیا میں متنازعہ اُمور کو سلیقے سے سلجھانے کی کوشش کریں۔ اسی طرح آیندہ کے امکانی تصادم کا سدّباب ہوسکے گا___ کیسی اچھی خواہش ہے یہ!
(Muslims and The West: Encounter and Dialogue [مسلمان اور مغرب: مقابلہ اور مکالمہ]، مرتبہ: ظفراسحاق انصاری و جان ایل ایسپوزیٹو، شائع کردہ: اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی، اسلام آباد، صفحات: ۳۵۲، قیمت: ۳۰۰ روپے)