ترجمہ: محمدظہیرالدین بھٹی
افریقہ اسلام سے اس وقت متعارف ہوا تھاجب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کچھ ساتھیوں کو حبشہ (Abysinia) کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا تھا جس سے مقامی لوگ نہ صرف اسلام سے واقف ہوئے بلکہ کئی ایک نے اسلام بھی قبول کرلیا۔ حضرت عمروؓ بن العاص کے ہاتھوں مصر کی فتح کے بعد اسلام تیزی سے افریقہ میں پھیلنے لگا۔ شمالی افریقہ فتح ہوا اور بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہوگئے۔ پھر اسلام نے صحراے اعظم کے جنوبی علاقوں کا رخ کیا تو افریقہ میں کئی اسلامی ممالک وجود میں آئے جیسے ’گھانا‘ اور ’مالی‘ کی مملکتیں۔ پھر مشرقی افریقہ میں ’زنجبار‘ اور اس کے اردگرد کے علاقے حتیٰ کہ ’موزنبیق‘ میں بھی اسلامی مملکت قائم ہوئی۔
افریقہ کا سرمایہ لوٹنے، نیز وہاں کی اسلامی اور جہادی تحریکوں کو کچلنے کے لیے استعماری قوتوں نے ہمیشہ افریقہ کو اپنا ہدف بنائے رکھا ہے۔ آغاز پرتگال نے کیا، پھرہسپانیہ آگے بڑھا اور اسلامی علاقوں پر دھاوا بول دیا۔ خاص طور پر افریقہ میں، اہم ترین وہ استعماری صلیبی یلغار تھی جس میں فرانس، انگلستان، ہالینڈ، بیلجیئم، اٹلی اور جرمنی شریک ہوئے۔ نمایاں استعماری اہداف یہ تھے:
- اسلام اور عربی زبان کے خلاف جنگ، عیسائیت اور یورپی زبانوں کا فروغ۔
- اسکولوں، ہسپتالوں اور سماجی خدمات کے تمام اداروں کو مغرب زدہ کرنا اور مغربی سیکولرزم کے اصولوں کو پختہ تر کرنا۔
- اسلامی تحریکوں بالخصوص جہادی تحریکوں کا قلع قمع کرنا، جیسے سنوسی تحریک، عبدالقادر الجزائری کی تحریک، عبدالکریم الخطابی کی تحریک، شمالی نائیجیریا میں داعیین کی زیرقیادت تحریک وغیرہ۔
غرض یہ کہ سامراج نے افریقہ کو تقسیم کیا، وہاں کا سرمایہ لوٹا اور وہاں کے باشندوں کو غلام بناکر لے گئے اور انھیں خاص طور پر امریکا میں نئی دنیا کی منڈیوں میں لے جاکر فروخت کرڈالا۔
سامراجی تاریک دور کے خاتمے کے بعد افریقی ممالک سامراجی پنجے سے آزاد ہوئے تو وہاں ایسی سیکولر حکومتیں قائم ہوئیں جو مغربی استعمار کی پالیسیوں پر کاربند تھیں۔ افریقہ میں ایک طرف تو استعمار مخالف وطنی و قومی تحریکوں نے جنم لیا، جب کہ دوسری طرف اسلامی تحریکیں وجود میں آئیں جو اسلام کی عظمتِ رفتہ کو ازسرنو بحال کرنا چاہتی تھیں اور عربی زبان کے احیا و فروغ کے لیے کوشاں تھیں۔ اب تک افریقہ میں اسلامی تحریکیں مضبوطی سے قائم ہیں اور ان میں سرفہرست ’اخوان المسلمون‘ ہے، جو نہایت تیزی سے پھیلی اور جسے عوام میں زبردست پذیرائی ملی۔ اسی طرح جماعت اسلامی بھی ایک مستحکم تحریک ہے۔ وٹیکن کے اس زعمِ باطل ___ کہ اس کی مقرر کردہ مدت میں افریقہ عیسائی ہوجائے گا ___ کے علی الرغم حقیقت یہ ہے کہ افریقہ اپنی اصل، یعنی اسلام کی طرف تیزی سے پیش قدمی کر رہا ہے۔
- امریکی دل چسپی: سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے مارچ، اپریل ۱۹۹۸ء میں متعدد افریقی ممالک کا دورہ کیا۔ اس کے بعد انھوں نے کہا: ’’اب وقت آچکا ہے کہ اہلِ امریکا افریقہ کو اپنی ترجیحات میں سرِفہرست رکھیں‘‘۔ امریکی صدر کے اس بیان نے، افریقہ کے بارے میں امریکی حکمتِ عملی کو عیاں کردیا تھا۔ اس کے بعد امریکا کی سابق وزیرخارجہ ماڈلین اولبرائٹ نے اکتوبر ۱۹۹۹ء میں کئی افریقی ممالک کا دورہ کیا، جب کہ موجودہ امریکی صدر جارج بش نے بھی جولائی ۲۰۰۳ء میں متعدد افریقی ممالک کا دورہ کیا تاکہ وہ کلنٹن کے اقدامات اور پالیسیوں کو راسخ و مستحکم کر سکیں۔ کلنٹن کے دورے کے بعد سے لے کر اب تک براعظم افریقہ میں بالعموم اور قرنِ افریقہ (Horn of Africa) کے ممالک اور ساحلی ممالک کے بارے میں بالخصوص امریکی پالسیی واضح ہے۔
- سوڈان کی تقسیم کی سازش: امریکا جس نے کبھی انسانی مسائل کے حل میں عملی دل چسپی نہیں لی، وہی امریکا دارفور کے مسئلے کو خوب اُچھال رہا ہے۔ وہ اس سے پہلے کئی سالوں تک جنوبی سوڈان کو الگ کرنے کے لیے سرگرم رہا ہے، چنانچہ اس نے عالمی دبائو ڈال کر جنوبی سوڈان کے باشندوں کو حق خوداختیاری دلوا دیا۔ اب حکومت اور جنوبی علیحدگی پسندوں کے درمیان معاہدے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ معاہدے کی تنفیذ کے چھے سال بعد ریفرنڈم کے ذریعے جنوبی آبادی متحدہ سوڈان میں رہنے یا سوڈان سے الگ ہونے کا فیصلہ کرے گی۔ سوڈان میں امریکی دل چسپی کا راز یہ ہے کہ سوڈان کے تیل کے زیادہ تر محفوظ ذخائر جنوبی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ اگر جنوبی سوڈان شمالی سوڈان سے الگ ہوجاتا ہے تو امریکا کے لیے ان ذخائر تک رسائی بہت آسان ہوجائے گی اور اسے سوڈان کی حکومت کے ساتھ معاملہ کرنے کی کوفت نہیں اٹھانا پڑے گی جس کے ساتھ اس کے دوستانہ تعلقات نہیں ہیں۔ یاد رہے کہ سوڈان کے تیل کی پیداوار کا ۶۵ فی صد اب چین حاصل کر رہا ہے جسے ریاست ہاے متحدہ امریکا کا سب سے بڑا حریف سمجھا جاتا ہے۔ سوڈان سے تیل نکالنے میں بھی چینی کمپنیاں ہی مرکزی کردار ادا کر رہی ہیں۔ چین نے صرف سوڈان تک ہی رسائی حاصل نہیں کی بلکہ اس نے یہ حقیقت بھی دریافت کرلی ہے کہ براعظم افریقہ میں تیل، گیس اور ہرقسم کی قیمتی معدنیات جن میں سرفہرست ’ہیرے‘ ہیں، کا دنیا میں سب سے بڑا ذخیرہ پایا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں امریکا اس علاقے میں گہری دل چسپی لے رہا ہے اور وہ افریقی ممالک میں مداخلت کا بہانہ ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ اسی مقصد کے پیش نظر امریکا نے ایتھوپیا کو تھپکی دی کہ صومالیہ کی اسلامی عدالتوں کے اس نظام کے خلاف بھرپور کارروائی کرے جس نے مختصر مدت میں ملک کے بیش تر علاقوں میں پذیرائی حاصل کرلی تھی اور جس کی بدولت ___ ۱۹۹۲ء میں صومالیہ میں امریکی مداخلت کے بعد سے لے کر ___ پہلی بار صومالیہ کے باشندوں نے سُکھ کا سانس لیا تھا۔ مگر اب صومالیہ ایک نئی جنگ کی لپیٹ میں آنے والاہے کیونکہ اسلامی عدالتیں امریکا پر الزام لگا رہی ہیں کہ اُس نے ہی ایتھوپیا کو ان کے خلاف لڑائی پر اُکسایا تھا۔
- افریقی تیل: قرنِ افریقہ کی صورت حال براعظم افریقہ کے مرکزی علاقوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے بالخصوص ساحلِ صحرا کے ممالک ___ جو مشرق میں سوڈان سے لے کر براعظم کے مغرب میں گِنّی کے ساحل تک پھیلے ہوئے ہیں اور جہاں دنیا کا بہت بڑا تیل کا ذخیرہ موجود ہے۔ افریقہ آج کل روزانہ ۹ملین بیرل تیل نکال رہا ہے جو ایران اور ونزویلا کی تیل کی مجموعی پیداوار کے برابر ہے، جب کہ خلیجِ گِنّی کی پیداوار ۲۴ ارب بیرل تیل پر مشتمل ہے۔ امریکا وہیں جاتا ہے جہاں تیل ہوتا ہے اور جہاں صہیونی مفادات ہوتے ہیں۔ چنانچہ امریکا نے اب اپنی نظر افریقہ ___ بل کلنٹن کے بقول: ’افریقہ کے نقشے‘ پر رکھی ہوئی ہے۔
خلیجِ گِنّی کے تیل کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اسے امریکا تک لے جانے کے لیے زیادہ اخراجات برداشت نہیں کرنے پڑتے کیونکہ یہ امریکی ساحل بحرِاوقیانوس کے دوسرے کنارے پر ہے۔ اس کے برعکس بحرِقزوین کا تیل امریکا منتقل کرنے کے لیے امریکا کو پُرامن راستوں کی تلاش کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ اخراجات اٹھانے پڑتے ہیں۔ اسی طرح خلیج اور عراق کے تیل کے حصول اور اس کی فراہمی کو مستقل بنانے کے لیے امریکا کو جنگیں لڑنا پڑتی ہیں، لہٰذا افریقی تیل اس کے لیے ایک بہترین متبادل ہے۔
- جنگی حکمت عملی کا ایک اھم مقام: ہماری فراہم کردہ یہ معلومات براعظم افریقہ میں نمایاں امریکی عسکری موجودگی کا راز فاش کرتی ہیں۔ اس کا آغاز ۱۹۹۲ء میں صومالیہ پر قبضے سے ہوا تھا مگر شدید مزاحمت کی وجہ سے امریکی وہاں سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے تھے اور جیبوتی میں منتقل ہوگئے۔ وہاں پر انھوں نے فرانسیسیوں کی رضامندی سے ایک فوجی اڈا قائم کیا۔ امریکی بحری بیڑا بحرِاحمر میں آنے جانے والے بحری جہازوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھا۔ امریکیوں کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ متعدد ممالک کے ساتھ معاہدے کرکے براعظم افریقہ کے مرکز میں اپنا ٹھکانہ بنائیں۔ ان میں سے ایک ملک مراکش ہے۔ متعدد رپورٹوں سے واضح ہے کہ امریکی مراکش کی سرزمین پر اپنا ایک بڑا فوجی اڈا قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ اڈا امریکا کے لیے تیل کی بحفاظت ترسیل کو یقینی بنائے گا، نیز تحریکِ اسلامی کا محاصرہ بھی آسان ہوگا۔
افریقہ میں امریکا کے اس بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کا مطلب ہے صہیونی اثرات میں وسیع اضافہ اوربڑے پیمانے پر عربوں کی پسپائی۔ افریقہ میں جو عالمِ عرب کے لیے جنگی حکمت عملی کا اہم ترین قدرتی مقام ہے، اگر یہ صورتِ حال برقرار رہتی ہے تو پھر عرب بہت کچھ کھو بیٹھیں گے۔
پورا قرنِ افریقہ (صومالیہ، جیبوتی، اریٹیریا اور ایتھوپیا) علاقے کو درپیش رکاوٹوں کے باوجود بین الاقوامی نظام میں مؤثر قوتوں کی دل چسپی کا مرکز بنا ہوا ہے، خواہ سردجنگ کا زمانہ ہو یا اس کے بعد کا دور۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ان وجوہات میں سے ایک اس علاقے کا جنگی حکمت عملی کے لحاظ سے اہم ہونا بھی ہے۔ یہاں سے کئی اہم سمندری راستوں تک آسانی سے رسائی ہوسکتی ہے، یعنی بحرِاحمر، خلیج عدن اور بحرِہند تک۔ یوں یہ علاقہ بین الاقوامی تجارت کے راستوں اور خلیج عرب سے مغربی یورپ اور امریکا تک تیل کی منتقلی کے راستوں پر محیط ہے۔ یہ علاقہ دریاے نیل کے آس پاس کے علاقوں پر بھی مشتمل ہے۔
افریقہ میں تیل کی دریافت نے افریقہ میں بین الاقوامی دل چسپی کو بڑھا دیا ہے۔ ۱۹۷۹ء میں پہلی بار سوڈان میں تیل کے کنویں دریافت ہوئے تھے۔ مگر اندرونی کش مکش اور تصادم کی وجہ سے پٹرول نکالنے والی کمپنیوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ ۹۰ کے عشرے کے آغاز ہی میں کئی تیل کمپنیاں واپس سوڈان آگئیں تو نہ صرف جنوبی سوڈان سے تیل نکالا جانے لگا بلکہ سوڈان کے شمال، شمال مغرب اور دریاے نیل کے آس پاس کے علاقوں سے بھی تیل نکالا جانے لگا۔ امریکا کو توقع ہے کہ افریقہ کے تیل کی برآمدات کی شرح میں اضافہ ہوگا اور ۲۰۱۰ء کی آمد کے ساتھ ہی افریقہ سے امریکا کو بھیجے جانے والا تیل، امریکا کی تیل کی کُل برآمدات کا ۲۵ فی صد ہوجائے گا، جب کہ چین اب بھی اپنی تیل کی کل برآمدات کا ۲۵ فی صد براعظم افریقہ سے حاصل کرتا ہے۔
- دھشت گردی کا ھـوّا: قرنِ افریقہ کے ممالک کی اکثریت مسلمان ہے۔ امریکا اور یورپی ممالک نے قرنِ افریقہ کے ممالک میں بالخصوص دہشت گردی اور مسلمانوں کو لازم و ملزوم گردانا ہے، نیز اسلام پسند جماعتوں اور اسلامی تحریکوں کے خلاف ہمیشہ معاندانہ رویہ اپنایا ہے۔ اس کی ویسے تو بہت سی مثالیں ہیں، یہاں پر صرف دو مثالیں پیش کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے:
۱- امریکا کا سوڈان کے موجودہ حکمرانوں کے خلاف معاندانہ و مخاصمانہ موقف۔ (’اور اب سوڈان‘، عبدالغفار عزیز، شمارہ اگست ۲۰۰۸ئ)
۲- صومالیہ کی اسلامی عدالتوں کے خلاف امریکی موقف۔ (’صومالیہ: اسلامی قوتوں کی فتح‘، حافظ محمد عبداللہ، شمارہ جولائی ۲۰۰۸ئ)
امریکا نے صومالیہ میں، ایتھوپیا کی مدد کر کے اس سے مداخلت کروائی اور یوں دارالحکومت مغادیشو سے اسلامی عدالتوں کو پسپا کروا دیا۔ حالانکہ صومالیہ میں ’سیادبری‘ کی حکومت کے سقوط کے بعد سے لے کر اب تک پہلی بار داخلی امن و استحکام انھی اسلامی عدالتوں کی برکت سے پیدا ہوا تھا۔