سید محمد مامون رشید


حضرت کعب بن عیاضؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) ہر اُمت کے لیے (کوئی نہ کوئی) فتنہ اورآزمایش ہے (جس میں اس اُمت کے لوگوں کو مبتلا کرکے ان کو آزمایا جاتا ہے)۔ چنانچہ میری اُمت کے لیے  جو چیز فتنہ اور آزمایش ہے وہ ’مال و دولت‘ ہے۔

حدیث مبارکہ کی وضاحت سے قبل لفظ ’فتنہ‘ کی تعریف اور اس کی اقسام سمجھ لیں۔ فتن جمع فتنہ کی ہے، ابتلا/امتحان، انسان کا اچھی حالت سے بری حالت میں آنا، کسی کی طرف میلان اور خودپسندی، یہ سب معنی آتے ہیں۔ اصطلاحِ شرع میں: ’’ہر ایسی چیز جو انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ سے غافل کردے فتنہ کہلاتی ہے۔ مثال کے طور پر مال اور اولاد کو بھی خداوند تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ’فتنہ‘ کہا ہے، کیونکہ مال اور اولاد انسان کو یادِ الٰہی سے غافل کردینے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔

  • فـتنہ کی اقسام:
  •  ذاتی فتنہ: قلب کا سخت ہونا کہ طاعت و مناجات میں حلاوت و لذت محسوس نہ ہو۔
  • فتنۂ اہل: اولاد کی نافرمانی، زوجین میں نفرت اور گھریلو نظام کا بگڑ جانا۔
  • فتنۂ انسانیت: انسانیت ختم ہوجانا، خود غرضی، ایذا رسانی کے درپے ہونے لگنا۔
  • وبائی فتنہ: قحط، طوفان، خسف و مسخ۔
  • فتنۂ کذب: جھوٹ اور دھوکا دہی عام ہوجائے، دلوں سے احساسِ امانت نکل جائے۔
  • فتنۂ تاویلات: متشابہات (قرآنی آیات) میں کج روی کے ساتھ غلط تاویلات کرنا۔
  • فتنۂ سبّ و شتم: سلف صالحین کو گالی دینا۔
  • فتنۂ استحلال: حرام اشیا کو ان کا نام بدل کر جائز سمجھ کر استعمال کرنا۔

اس حدیث مبارکہ کے پیشِ نظر عہدِنبویؐ سے لے کر موجودہ زمانے تک کی تاریخ پر اگر سرسری نظر ڈالی جائے تو یہ بات مخفی نہیں رہے گی کہ یہی مال و دولت سب کے لیے آزمایش بنا رہا ہے، جس کے ذریعے بے شمار بندوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بغاوت و نافرمانی کی اور مسلسل کر رہے ہیں۔ مال ودولت کے حصول کے لیے حلال اور حرام، جائز و ناجائز ذرائع استعمال کرنے کو تیار ہیں، بس مال آنا چاہیے! ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں: (غافل رکھا تمھیں زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کی ہوس نے یہاں تک کہ تم نے قبریں جادیکھیں، سورۃ التکاثر:۱)

  • مال کی مذمت سے متعلق چند اھم احادیث:

  • حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مال و جاہ کی محبت دل میں اس طرح نفاق اُگاتی جس طرح پانی سبزے کو اُگاتا ہے۔
  • ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا: زیادہ امیدیں لگانے والے ہلاک ہوگئے۔
  • ایک موقع پر آپؐ سے پوچھا گیا کہ آپؐ کی اُمت میں سب سے زیادہ بُرا کون ہے؟ فرمایا: مال دار۔
  • ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا: ابنِآدم کہتا ہے کہ میرا مال، جب کہ تیرا مال تو صرف وہی ہے جو تو نے کھاکر ختم کردیا، پہن کر بوسیدہ کردیا یا صدقہ دے کر باقی رکھ لیا۔
  • ایک تفصیلی حدیث میں آپؐ نے فرمایا: میرے بعد ایسی قوم آئے گی جو دنیا کی عمدہ تر اور رنگارنگ نعمتیں کھائے گی، ناز سے چلنے والے رنگارنگ گھوڑوں پر سواری کرے گی، خوب صورت اور رنگارنگ عورتوں سے نکاح کرے گی اور خوب صورت اور رنگارنگ کپڑے پہنے گی، ان کے پیٹ تھوڑی چیز سے سیر نہیں ہوں گے، اللہ کو چھوڑ کر مال و دولت کو اپنا خدا بنائیں گے۔
  • ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا: جس نے دنیا بقدرِ کفایت سے زیادہ لی تو اس نے اپنی ہلاکت لے لی، اور وہ محسوس نہیں کررہا۔ بعض اہلِ علم اس حدیث کی ایک تشریح اس انداز سے کرتے ہیں کہ ’فتنہ‘ سے مراد آخرت کا عذاب ہے کہ اس مال کی وجہ سے بہت سے لوگ فتنوں یعنی عذاب میں مبتلا ہوں گے، قیامت کے دن دو درہم والے سے ایک درہم والے کی نسبت زیادہ سوال ہوگا۔ اسی وجہ سے آپؐ یہ دعا مانگا کرتے تھے: ’’اے اللہ! محمدؐ کے گھرانے کی خوراک اندازے کے مطابق کردے، اور فرمایا: قیامت کے دن کوئی فقیر اور مال دار ایسا نہیں جو یہ تمنا نہ کرے کہ مجھے دنیا میں خوراک کے مطابق ہی رزق دیا جاتا‘‘۔

انسان کے مقدر میں جتنا مال لکھ دیا گیا ہے اتنا ہی اس کو ملے گا، شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں: ’’اے انسان اس بات کو جان لے کہ جو چیز تیری قسمت میں لکھی جاچکی ہے وہ ہرحال میں تجھے ملے گی خواہ توطلب وسوال کی راہ اختیار کریا اس کو ترک کر دے۔ اور جو چیز تیری قسمت میں نہیں لکھی وہ تجھ کو کسی حالت میں نہیں ملے گی ، خواہ تو اس کی طلب کی کتنی ہی حرص رکھے اور اس کو حاصل کرنے کے لیے کتنی ہی سعی وکوشش اور محنت ومشقت برداشت کرے ، لہٰذا تجھے جو کچھ مل جائے اس پر شاکر وصابر رہ، ہر جائزوحلال چیز کو حاصل کرنا ضروری سمجھ اور اپنی قسمت پر راضی ومطمئن رہ تا کہ رب ذوالجلال تجھ سے راضی وخوش ہو۔

یہ بات یاد رکھی جائے کہ مال ودولت کے سلسلے میں جو چیز مذموم ہے وہ مال ودولت کی محبت اور دنیا داری میں مبتلا ہونا اور اپنی چادر سے باہر پیر پھیلانا ہے ۔ یہ خصلت انسان کو ’مال کا بندہ‘ بنا دیتی ہے کہ اس کی ہر سعی اور جدوجہد کا محور، اس کی ہر تمنا وخواہش کا مرکز اور اس کے ہر فعل اور عمل کی بنیاد صرف مال اور زر ہوتا ہے۔ ہمیں مال کا نہیں ’اللہ کا بندہ‘ ہونا چاہیے۔ مال داری بذات خود کوئی مذموم چیز نہیں ہے، کسی شخص کے پاس (حلال ذرائع سے کمایا ہوا) کتنا ہی مال کیوں نہ ہو اور وہ کتنا ہی بڑ ا دولت مند کیوں نہ ہو اگر اس کا دل مال ودولت کی محبت میں گرفتار نہیں ہے تو اس کو   بُرا کہنا درست نہیں۔