ترجمہ: ریاض محمود انجم
افغانستان میں گرفتار ہونے سے قبل ‘ میں نقاب لینے والی عورتوں کو نہایت ہی کمزور‘ مظلوم اور ستم رسیدہ مخلوق سمجھتی تھی۔امریکا پر دہشت گردانہ حملے کے صرف ۱۵ روز بعد‘ ستمبر ۲۰۰۱ء میں‘ مَیں افغانستان میں اس حلیے میں داخل ہوئی کہ میں سرتاپا نیلے رنگ کے برقعے میں ملبوس تھی اور افغانستان میں موجود حکومتی جبروظلم کے دور میں گزرتی زندگی کے متعلق‘ اخبار کے لیے ایک مضمون لکھنا چاہتی تھی۔ لیکن ہوا یہ کہ میرا بھید کھل گیا اور مجھے گرفتار کر کے نظربند کردیا گیا۔
میں جن لوگوں کی قید میں تھی‘ ۱۰ دن تک ان پر برہم ہوتی رہی اور انھیں برا بھلا کہتی رہی۔ وہ مجھے ’بری‘ عورت کہتے تھے۔ انھوں نے مجھے اس شرط اور وعدے پر رہا کردیا کہ میں قرآن پڑھوں گی اور دین اسلام کا مطالعہ کروں گی (صحیح بات یہ ہے کہ مجھے یقین نہیں ہے کہ رہا کرتے وقت کون زیادہ خوش تھا؟ وہ یا میں)۔
لندن‘ واپس اپنے گھر پہنچ کر دین اسلام کے مطالعے کے متعلق میں نے ان سے کیا ہوا اپنا وعدہ نبھایا‘ اور جو کچھ مجھے معلوم ہوا ‘ اس نے مجھے حیرت زدہ کردیا۔ میں قرآن میں ان موضوعات پر ابواب کی توقع کر رہی تھی کہ اپنی بیوی کی کس طرح پٹائی کی جاتی ہے اور کیسے اپنی بیٹیوں کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کے بجاے قرآن کی آیات کے مطالعے کے ذریعے مجھے معلوم ہوا کہ دین اسلام نے عورت کے حقوق اور احترام پر زور دیا ہے۔ اپنی گرفتاری کے اڑھائی برس بعد ‘ میں نے اسلام قبول کیا تو کچھ دوست اور عزیز حیران اور مایوس ہوئے اور کچھ نے حوصلہ افزائی کی۔
برطانیہ کے سابق سیکرٹری خارجہ جیک سٹرا کا یہ تبصرہ نہایت افسوس ناک ہے کہ مسلمان عورتوں کی طرف سے پہنے جانے والا نقاب باہمی تعلقات کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے۔ وزیراعظم ٹونی بلیر‘ سلمان رشدی اور اطالوی وزیراعظم رومانو پروڈی نے بھی جیک سٹرا کی حمایت میں بیانات دے دیے۔
اب‘ جب کہ مجھے بغیر نقاب اور مع نقاب‘ دونوں صورت احوال کا تجربہ ہے‘ میں آپ کو یہ بتاسکتی ہوں کہ جو مغربی مرد سیاست دان اور صحافی‘ اسلامی معاشرے میں نقاب والی عورت پر جبر کے متعلق افسوس کا اظہار کرتے ہیں‘ انھیں یہ معلوم ہی نہیں کہ وہ کس چیزکے متعلق بات کر رہے ہیں۔ وہ نقاب‘ بچپن کی شادی‘ عورتوں کے ختنے‘ غیرت کے نام پر قتل اور زبردستی کی شادی کے متعلق‘ جو منہ میں آئے کہے جاتے ہیں اور وہ دین اسلام کو نہایت غلط طور پر ان سب امور کا قصوروار ٹھیراتے ہیں۔ ان کی رعونت پر مستزاد ان کی بے خبری ہے۔
ان تہذیبی مسائل اور رسم و رواج کا دین اسلام کے ساتھ قطعی کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر قرآن مجید کا مطالعہ سمجھ بوجھ کرکیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مغربی دنیا میںآزادیِ نسواں کے حامیوں نے ۷۰ ۱۹ء کے عشرے میں جس مقصد کے لیے جدوجہد کی‘ وہی چیز مسلمان عورتوں کو ۱۴۰۰برس قبل عطا کردی گئی تھی۔ اسلام میں دینی اور روحانی لحاظ سے عورتیں مردوںکے برابر ہیں‘ مردوں کی طرح علم کا حصول ان کے لیے بھی فرض کی حیثیت رکھتا ہے اور عورت کی اہمیت مرد سے کسی طور کم نہیں ہے۔ بچے کی پیدایش اور بچے کی پرورش میں مہارت‘ مسلمان عورت کی مثبت خوبی گردانی جاتی ہے۔
اب‘ جب کہ اسلام نے عورت کو بے شمار حقوق عطا کیے ہوئے ہیں تو پھر مغربی مرد‘ مسلمان عورتوں کے لباس کے بارے کیوں متفکر ہیں؟ اسی پر اکتفا نہیں‘ بلکہ برطانوی حکومت کے وزرا گورڈن برائون اور جان ریڈ نے نقاب کے متعلق حقارت آمیز تبصرہ کیا ہے‘ جب کہ ان کا اپنا تعلق سرحد پار اسکاٹ لینڈ سے ہے‘ جہاں مرد اسکرٹ پہنتے ہیں۔
جب میں مسلمان ہوگئی اور سر پر اسکارف پہننا شروع کیا تو مجھے بہت زیادہ ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ میں نے اپنا سر اور اپنے بال ہی ڈھانپنے تھے لیکن اس کے باعث میں فوراً ہی دوسرے درجے کے شہری کی سی ہوگئی۔ مجھے معلوم تھا کہ مجھے کسی اسلام دشمن سے کچھ سننا پڑے گا۔ لیکن مجھے یہ توقع نہ تھی کہ اجنبیوں کی طرف سے بھی کھلے عام مخالفت کا اظہار ہوگا۔ رات کے وقت for hire کے روشن الفاظ کے ساتھ ٹیکسیاں میرے آس پاس سے گزر رہی تھیں۔ میرے سامنے رکنے والی ایک ٹیکسی میں سے ایک سفیدفام مسافر اترا‘ میں آگے بڑھی تو ڈرائیور نے گھور کر دیکھا اور گاڑی بھگاکر لے گیا۔ دوسرے ڈرائیور نے کہا کہ عقبی نشست پر بم رکھ کے نہ جانا اور مجھ سے یہ بھی پوچھا کہ اسامہ بن لادن کہاں چھپا ہوا ہے؟
یہ درست ہے کہ مسلمان عورت سے اس کے مذہب کا تقاضا ہے کہ اپنے لیے مناسب لباس استعمال کرے لیکن جن مسلمان عورتوں کو میں جانتی ہوں ان کی اکثریت حجاب پہننا پسند کرتی ہے جس سے چہرہ کھلا نظر آتا ہے‘ جب کہ کچھ مسلمان خواتین نقاب کو ترجیح دیتی ہیں۔ یہ میرا ذاتی طریقہ اظہار ہے۔ میرے لباس سے آپ کو یہ معلوم ہوجاتاہے کہ میں مسلمان ہوں اور میں خود کو عزت واحترام پر مبنی سلوک کی مستحق سمجھتی ہوں‘ جس طرح بنک کا ایک افسر بزنس سوٹ پہن کر یہ اظہار کرتا ہے کہ اسے ایک ایگزیکٹو سمجھا جانا چاہیے۔ خاص طور پر مردوں کا عورتوں کی طرف نامناسب اور ہوس بھری نظروں سے گھورنا میری جیسی نومسلم خواتین کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔
میں برسوں تک مغرب میں خواتین کی آزادی کی علَم بردار رہی لیکن اب مجھ پر یہ انکشاف ہوا ہے کہ اسلامی معاشرے میں آزادیِ نسواں کے حامی‘ اپنے سیکولر ساتھیوں کی نسبت زیادہ انقلابی ہیں۔ ہمیں ’مقابلہ ہاے حُسن‘ سے کراہت محسوس ہوتی ہے۔ ہمیں اس وقت اپنی ہنسی روکنا پڑی جب ۲۰۰۳ء میں ’حسینۂ عالم‘ کے مقابلے کے موقع پر مختصرلباس میں ملبوس حسینۂ افغانستان ویدہ سمادزئی کو آزادیِ نسواں کی طرف ایک عظیم الشان قدم قرار دیا گیا۔ سمادزئی کو ’حقوقِ نسواں کی فتح کی علامت‘ کے طور پر ایک مخصوص انعام بھی پیش کیا گیا۔
آزادیِ نسواں کی حامی کچھ نوجوان خواتین حجاب اور نقاب کو سیاسی علامت بھی سمجھتی ہیں جس کے ذریعے مغربی تہذیب کی لعنتوں: بے تحاشا شراب نوشی‘ آزادانہ جنسی تعلقات اور نشہ آور ادویات کے استعمال کو مسترد کیا جاتا ہے۔ آزادیِ نسواں کا اظہار کس بات سے ہوتا ہے؟ اسکرٹ کی لمبائی اور چھاتی کے مصنوعی اُبھار یا کردار اور ذہانت سے۔ اسلام میں عزت کا معیار حسن‘ دولت‘ طاقت‘ عہدہ یا جنس نہیں‘ بلکہ تقویٰ اور پرہیزگاری ہے۔
میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ میں اٹلی کے وزیراعظم پروڈی کے اس طرزِعمل پر روؤں یا ہنسوں جس کے تحت انھوں نے اس بحث میں حصہ لیتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ نقاب کو استعمال نہ کیا جائے کیونکہ اس سے باہمی میل جول زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔ کیا واہیات بات ہے۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو پھر موبائل فون‘ ای میل اور فیکس کے استعمال کا کیا جواز ہے؟ اور پھر جب ریڈیو پر سامع کو بولنے والے کا چہرہ نظر نہیں آتا تو وہ ریڈیوبند تو نہیں کردیتا!
اسلام نے مجھے عزت دی ہے۔ میرے دین نے مجھے تعلیم حاصل کرنے کا حق بخشاہے اور میں شادی شدہ ہوں یا کنواری‘ تحصیلِ علم میرے لیے فرض قراردیاہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی تعلیمات ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ عورتوں کو لازمی طور پر اپنے شوہروں کے کپڑے دھونے چاہییں‘ گھر کی صفائی کرنی چاہیے اور یا پھر کھانا پکانا چاہیے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مردوں کو اپنی بیویوں کی پٹائی کرنے کی اجازت دی گئی ہے‘ غلط ہے۔ اسلام کے ناقد قرآن مجید کی اِکا دکا آیات اور احادیث کا حوالہ دیتے ہیں لیکن سیاق و سباق سے کاٹ کر۔اگر کوئی اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھائے‘ اس کو اس طرح سے مارنے کی اجازت نہیں جس سے اس کے جسم پر نشان پڑجائیں۔ قرآن کا یہ کہنے کا انداز ہے کہ احمق‘ اپنی بیوی کو مت مارو۔
عورت کے مقام اور اس سے سلوک سے متعلق صرف مسلمان مردوں ہی کا نام نہیں لینا چاہیے۔ حال ہی میں کیے گئے ایک سروے (گھریلو تشدد کا قومی ہاٹ لائن سروے) کے مطابق ۴لاکھ امریکی خواتین ‘ اوسطاً ۱۲ ماہ کی مدت کے دوران اپنے ساتھی مردوں کی طرف سے شدید حملوں اور مارپیٹ کا نشانہ بنتی ہیں اور ہر روز تین سے زائد عورتیں اپنے خاوندوں اور اپنے مرد دوستوں کے ہاتھوں ہلاک ہوجاتی ہیں۔ ۹ستمبر سے اب تک یہ تعداد تقریباً ۵۵۰۰ تک پہنچ چکی ہے۔
عورتوں پر تشدد کا یہ رجحان ایک عالمی المیہ ہے اور متشدد مردوں کا تعلق کسی خاص مذہب یا تہذیب سے نہیں ہے۔ ایک سروے کے مطابق‘ دنیا بھر میں تین میں سے ایک عورت مرد کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتی ہے۔ اس میںمارپیٹ‘ جنسی زیادتی اور ذلت آمیز سلوک‘ سب شامل ہیں۔ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جس کا مذہب‘ دولت‘ طبقاتی امتیاز‘ نسل اور تہذیب و ثقافت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت اور سچ ہے کہ عورتوں کی طرف سے احتجاج کے باوجود مغرب میں مرد خود کو عورتوں سے برتر سمجھتے ہیں۔ وہ کسی شعبے میں بھی ہوں‘ عورتوں سے زیادہ بہتر معاوضہ اور تنخواہ پاتے ہیں اور عورتوں کو ابھی تک ایک جنسی شے سمجھا جاتا ہے جن کی کشش اور اثرآفرینی براہِ راست ان کی ظاہری حالت سے عیاں ہوتی ہے۔
اس طبقے کے لیے‘ جو ابھی تک یہ کوشش کر رہا ہے کہ اسلام کو ایک ایسا دین ثابت کرے جو عورتوں پر ظلم وستم روا رکھتا ہے۔ ۱۹۹۲ء میں پادری پیٹ رابرٹ سن کی طرف سے دیے گئے ایک بیان کو یاد کریں۔ اس نے ’بااختیار‘ عورت کے بارے اپنے خیالات کا اظہار درج ذیل الفاظ میں کیا: ’’آزادیِ نسواں کی تحریک ایک خاندان مخالف سوشلسٹ سیاسی تحریک ہے جو عورتوں کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ اپنے خاوندوں کو چھوڑ کر چلی جائیں‘ اپنے بچوں کو ہلاک کردیں‘ جادوٹونا کریں‘ سرمایہ داری کو تباہ کردیں اور ہم جنس پرست بن جائیں‘‘۔
اب آپ مجھے یہ بتائیں کہ کون مہذب ہے اور کون غیرمہذب؟
(ترجمہ: How I Come to Love the Veil ، واشنگٹن پوسٹ‘ ۲۲ اکتوبر ۲۰۰۶ء)
ترجمہ: نوراسلم خان
طالبان کی قید میں رہنے والی اور بعد میں اسلام قبول کرنے والی وُون رِڈلے کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ یہ نومسلم صحافی خاتون مختلف مسائل پر ایک جذبۂ ایمانی سے مسلسل لکھ رہی ہیں۔ قاہرہ میں ورلڈاسمبلی آف مسلم یوتھ (WAMY)کے اجلاس میں ۲۱نومبر ۲۰۰۶ء کو انھوں نے جو تقریر کی‘ قارئین کی خدمت میں اس کا ترجمہ پیش ہے۔ (ادارہ)
میں نے ۲۰۰۳ء میں اسلام قبول کیا ہے‘ اس لیے میں اسلام کے حوالے سے کوئی زیادہ مستند علم نہیں رکھتی‘ تاہم میری یہ کوشش ہوتی ہے کہ آج کے مضطرب نوجوانوں کے ساتھ باہمی تبادلۂ خیال کے ذریعے وہ سب کچھ جانا جا سکے جو وہ اسلام کے بارے میں کہنا چاہتے ہیں ۔
نائن الیون کی وجہ سے دنیا پر بہت گہرے اور وسیع اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ لیکن یہ کسی نئے دور کا آغاز نہیں ہوا ہے‘ بلکہ یہ امریکی استعمار کی عرصے سے جاری ریشہ دوانیوں اور اسلام سے اس کے مسلسل خوف کا اظہار ہے۔ آج سے ۱۰ سال پہلے سربوں کے ہاتھوں بوسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی جاری تھی اور پوری دنیا تماشا دیکھ رہی تھی ۔اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑنے والے اپنے بھائیوں اور بہنوںکی مدد کے لیے مسلمان نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد دنیا کے کونے کونے سے امڈ آئی۔اس جہاد کی برکت سے دنیا بھر کے مسلمانوں کونسل‘قوم اور ثقافت کی تمیز سے بالاتر ہوکر ایک مقام پر اکٹھا ہو نے اور متحد ہو نے کا موقع مل گیا ۔وہ لوگ جو بوسنیا میں آکر براہِ راست جہاد میں حصہ لینے سے قا صر تھے‘ انھوں نے مالی امداد کے ساتھ ساتھ عوام کے ضمیر کو بیدار کرنے کے لیے ریلیاں اور جلوس نکالے تاکہ اس نسل کشی کو روکا جاسکے ۔مغرب نے صرف اس وقت مداخلت کی جب ان کو یقین ہو گیا کہ سربوں کے مقابلے میں مسلمانوں کا پلہ بھاری ہے اور وہ ایک یقینی فتح سے ہم کنار ہونے والے ہیں ۔مغرب کے لیے اپنے قلب میں ایک اسلامی ریاست کا قیام بالکل ناقابلِ برداشت تھا۔ اس لیے ان کو بالا ٓخر مداخلت کرنی پڑی۔ یہ میں نہیں کہہ رہی ‘ بلکہ اس کا اعتراف خود سابق امریکی صدر بل کلنٹن اپنی خود نوشت میں کرچکے ہیں (امریکی صدر کی خودنوشت My Life (میری زندگی) کے نام سے شائع ہوئی ہے)۔
پچھلے ۱۰ سال کے عرصے میں اسلام کے غلبے کا یہ خوف اب اس قدر بڑھ چکا ہے کہ آج چیچنیا‘کشمیر ‘ فلسطین‘ افغانستان اور عراق میں ہمارے بھائیوں اور بہنوں کے خون کا دریا بہہ رہا ہے۔ لبنان میں جو کچھ ہوا ہے یہ اس کی تازہ مثال ہے ۔ مجھے ان قتل گاہوں میں کئی دفعہ جانے کا موقع ملا ہے۔میںنے دیکھا کہ ہماری بہنوں ‘ بیٹیوں ‘ بچوں اور نوجوانوں کی لاشوںکے لوتھڑے بھی بالکل ان لاشوں کی طرح نظر آرہے تھے جو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ملبے سے نکالے گئے تھے۔ تاہم آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ مسلمان کے خون کی کوئی قیمت اور وقعت نہیں ہے۔ بدنام زمانہ گوانتا ناموبے‘ باگرام‘ ابو غریب اور ڈیگو گارشیا سمیت دنیا بھر کے دُوردراز مقامات پر واقع خفیہ قید خانوں میں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو نہ ختم ہونے والی بدترین تعذیب سے گزارا جا ر ہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شام ‘ اُردن ‘ مراکش ‘ تیونس‘ ا لجزائر اور خود یہاں آپ کے ملک مصر کے اندر امریکا کے اشارے پر بہت سارے بے گناہ مسلمانوں کو بدترین اذیتیں دی جارہی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اس میں ہمارے نوجوانوں کے لیے کیا پیغام پوشیدہ ہے ؟
یہ نوجوان سلطان صلاح الدین ایوبی ‘ خالد بن ولید ‘ طارق بن زیاد کی شجاعت اور بہادری کے واقعات پڑھنے کے ساتھ ساتھ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بہادری ‘ شجاعت اور حوصلہ مندی کے بارے میں بھی سنتے رہتے ہیں ۔ آج سے پانچ سال پہلے تک میں نے نبی کریمؐ کی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں سنا تھا لیکن آج میں آپؐ کے اسم گرامی‘ آپؐ کی عزت و ناموس کے تحفظ اور سنت کی پیروی کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانے کو تیار ہوں۔ اگرچہ حضوؐر ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ڈنمارک کے اخبار میں شائع ہونے والے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر اُمت کے اتحاد اور رد عمل نے یہ ثا بت کردیا کہ آپؐ کتنی قوت کے مالک ہیں۔
۶۰ کے عشرے میں شہادت کے مرتبے پر فائز ہونے والے وہ دو عظیم انسان ‘ میلکم ایکس (۱۹ مئی ۱۹۲۵ء- ۲۱ فروری ۱۹۶۵ء) (نبراسکا‘امریکا‘ میں ایک عیسائی مذہبی رہنما کے گھر پیدا ہوئے۔ جوانی میں اسلام قبول کیا اور الحاج ملک الشہباز کے نام سے شہرت پائی ۔ امریکا میں افریقی مسلمانوں کی مشہور تنظیم نیشن آف اسلام کے عظیم رہنما ئوں میں آپ کا شمار ہو تا تھا ۔ ایک سازش کے ذریعے ان کو شہید کیا گیا )‘ اور سید قطب شہیدؒ اس دورِ جدید کے ہیرو ہیں۔ ان کی تحریروں نے مجھے مسلمان ہونے کا مطلب بتا یا ۔ ایسے حالات میں‘ جب کہ نوجوانوں کو ایک واضح پیغام اور درست سمت کے تعین میں مشکل پیش آرہی ہے‘ دونوں کی زندگی ان کے لیے ایک نمونہ ہے۔
آج اگر نوجوانوں کو ایک طرف یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں تو دوسر ی طرف ان کو یہ درس دیا جاتا ہے کہ اسلام کو پشت پر اور سر کو نیچے رکھو ۔ نائن الیون کے بعد تو اسلام کو ایک ایسے ڈھانچے میں ڈھالنے کی بہت کوشش ہورہی ہے جو مغربی معاشرے کے تقاضوں پر پورا اترسکے ۔ اس کے پیچھے بنیادی طور پر یہ سوچ کار فر ما ہے کہ اسلام کو ایک ایسے لادین معاشرتی نظام کے طور پر متعارف کروایا جائے جو اللہ کے بجاے اپنے مقابلے میں صف آرا قوتوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے میں فخر محسوس کرے‘ اور دنیا کے نظام کو خطرے میں ڈالے بغیر امن اور شانتی کے ساتھ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی سعی کرتا رہے: ایک ایسا اسلام جس کا جہاد ‘شریعت اور خلافت سے‘جس کو اللہ تعالیٰ نے روے زمین پر قائم کرنے کا حکم دیا ہے‘ کوئی واسطہ نہ ہو ۔آج اس سوچ اور فکر کے کرشمے جگہ جگہ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ آج اگر ایک طرف ترکی ‘ فرانس اور الجزائر میں میری بہنوں کے سروں سے حجاب کو نوچا جارہا ہے تو ہالینڈ اور جرمنی میں اس کی ابتدا ہونے والی ہے ۔ آج برطانیہ میں سابق سیکرٹری خارجہ جیک سٹرا پردے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں ( ایک عورت ہونے کے ناطے)کسی گورے اور ادھیڑ عمر کے مرد(جیک سٹرا ) کو یہ اختیار نہیں دے سکتی کہ وہ مجھے بتا تا پھرے کہ میں کیا پہنوں اور کیا نہ پہنوں۔ میں انھیں بتا نا چاہتی ہو ں کہ وہ میرے کپڑوں کی الماری سے تو کیا ‘ روے زمین پر بسنے والی ہر بیٹی کے کپڑوں کی الماری سے دُور رہیں ۔
آج میں نے صبح قاہرہ کے ایک اخبار میں پڑھا کہ وزیر ثقافت فاروق حسنی نے نقاب کو پس ماندگی قرار دیا ہے۔ اس کو یہ کہنے کی جسارت کیسے ہوئی؟ مصر کے نوجوان تماشا دیکھنے کے بجاے اس کی زبان کو لگام کیوں نہیں دیتے۔ یہ تو ہر اس عورت کی جس نے اپنے جسم کو ڈھانک کر رکھنے کو پسند کیا ہے‘ توہین اور عزت نفس کو مجروح کر نے والی بات ہے ۔ فاروق حسنی اسلام کے لیے باعث ندامت ہے ۔ وہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہمارے نوجوانوں کو اپنے دوغلے پن سے کیا پیغام دینا چاہتا ہے۔نقاب ‘ برقع ‘ اور حجاب تو وہ علامات ہیں جو آج نشے ‘ بھنگ ‘ اور کھلی جنس پرستی جیسی منفی اقدار پر مبنی مغربی طرز زندگی کو مسترد کرنے کا پیغام دے رہے ہیں۔ اس میں مغرب کے لیے یہ پیغام ہے کہ ہمیں آپ کی طرح زندگی گزارنے کا کوئی شوق نہیں ۔
مجھے ان عرب نوجوانوں پر ہنسی آتی ہے جو مغرب سے بھی زیادہ مغرب زدہ بننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کیا انھیں معلوم ہے کہ ان حرکتوں سے وہ دنیا کی نظروں سے کس قدر گر رہے ہیں ۔ ایسے وزیر کو فوراً معزول کیا جائے جس نے ہر اس بہن کی توہین کی ہے جواپنے جسم کو ڈھانکنے کا فیصلہ کر چکی ہے ۔ وہ اعتدال پسند ی جیسی بے معنی باتوں کی آڑ میں اپنا چہرہ چھپانا چاہتا ہے ۔ لیکن میں یہ سمجھنے سے قا صر ہوں کہ وہ اس طرح دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتا ہے۔ہم ان نوجوانوں کو اعتدال پسند بننے کا مشورہ دیتے ہیں۔ کیا اس سے یہ مطلب نہیں نکلتا کہ اسلام میں کوئی خرابی ہے جس کو چھپانے یا حل کرنے کی ضرورت ہے ؟
میں پچھلی دفعہ قاہرہ آئی تو مجھے جامعہ ازہر کے شیخ طنطاوی نے صرف اس لیے انتہا پسند کہا کہ میں نے ان سے مصا فحہ نہیں کیا ۔ انتہا پسند اور اعتدال پسند کون ہیں؟ مجھے اس کے بارے میں زیا دہ معلومات نہیں ۔میں تو بس ایک سیدھی سادی مسلمان ہوں۔ میں کسی فقیہ یا کسی فرقے کے بجاے اپنے نبیؐ اور آپؐ کی سنت کی پیروی کرتی ہوں۔ کیا ایساکرکے میں انتہا پسند بن گئی ہوں۔ میں کبھی کہتی ہوں کہ مسلمان ہونے کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کسی خاتون کو حمل ہوجائے۔ اب اگر کسی کو حمل ہے‘ تو وہ ہے اور اگر نہیں ہے تو بالکل بھی نہیں ۔ کیا کسی نے آج تک یہ بھی سنا کہ کسی کو اعتدال پسنداور کسی کو شدت پسند حمل ہے؟
اسلام پچھلے ۱۴۰۰ سال سے حملوں کی زد میں ہے‘ اور اب ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ کے سوا کسی اور سے امیدیں وابستہ نہیں کرنی چاہییں ۔ لیکن اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو جس ہاتھ سے منہ پر تھپڑ کھاتے ہیں اسی کو چومتے بھی ہیں ۔ اب وہ زمانہ گزر گیا جب محض کسی کی لمبی داڑھی اوراسلامی طرز لباس کو دیکھ کر لوگ ان سے توقعات وابستہ کریں ۔ ایسے مسلمان رہنما بھی ہیں جو مسلمانوں کی رہنمائی کرنے اور ان کے مفادات کے تحفظ کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کے دل اس فکر سے خالی ہوتے ہیں ۔
نائن الیون ‘ بالی ‘ میڈرڈ اور لندن میں ہونے والے بم دھماکوں کے بعد ہمارے نوجوان صورتحال کو مکمل طور پر سمجھنے کی کوشش ضرور کریں گے۔ ایسے افراد بھی ہیں جنھوں نے سالہا سال تک لوگوں کو انصاف کے لیے اٹھ کھڑا ہو نے اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مجاہدین کے مختلف گروہوں کی مدد کر نے کی ترغیب دی۔ اب ان میں سے کچھ تو اس حد تک خاموشی اختیار کرچکے ہیں جو ہر لحاظ سے شرم ناک ہے‘ اور کچھ ببانگ دہل مسلح جہاد کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ مجاہدین کو دہشت گرد اور انتہا پسند قرارد یتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ لوگ اسلام کے غلط رخ پر عمل پیرا ہیں۔
ہم سب پر کسی نہ کسی حد تک یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ آج شاید ضمیر کی ملامت کا بوجھ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ہماری زبانیں بھی گنگ ہوگئی ہیں۔ اب فلسطین اور مسلمانوں کے دیگر مقبوضہ علاقوں میں ہونے والے استشہادی حملوں کی بھی یوں مذمت ہورہی ہے جیسے نائن الیون ‘ بالی اور لندن میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کی گئی تھی۔ہمیں اپنے نوجوانوں کو یہ بتا نا چاہیے کہ فلسطین ‘ کشمیر ‘ چیچنیا ‘ عراق اور افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ تو ظلم پر مبنی بیرونی فوجی قبضے کے خلاف ایک جائز مزاحمت ہے‘ جب کہ نائن الیون اور لندن میں ہونے والے واقعات صریح دہشت گردی پر مبنی ہیں۔ ان دونوں کو ایک نظر سے دیکھنے کی یہ سوچ اصل میں ان بہنوں اور بھائیوں سے غداری کے مترادف ہے جن کے پاس لڑ کر مزاحمت کر نے یا روے زمین سے ہمیشہ کے لیے مٹ جانے کے علاوہ کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے۔
آج مغرب کے یہ زرخرید غلام اسلامی جماعتوں اور حکومتوں کو شریعت کے حوالے سے تنقید کا نشا نہ بنا تے ہیں ۔ خود نوجوانوں اور طلبہ پر مشتمل وہ تنظیمیں جنھوں نے مسلسل عراق اور فلسطین کے لیے مہم چلائی ‘ ان کی زبانیں محض اس لیے خاموش ہیں کہ وہ ’اعتدال پسند‘ کہلائے جائیں۔ برطانیہ میں تو آج کل ان لوگوں کی بھر مار ہے جن کو میں ’تالی بجانے والے‘ کہتی ہوں ۔ برطانیہ کی حکومت ان لوگوں کو ’ من پسند اسلام ‘ کی تبلیغ کے لیے کینیڈا ‘ امریکا ‘ یمن اور موریطانیہ سے درآمدکرتی ہے ۔ یہ لوگ ہمارے نوجوانوں کے ذہن کو آلودہ کر رہے ہیں اور اس سے پہلے کہ یہ ساری دنیا میں پھیل جائیں ہمیں ان کا سد باب کر نا چاہیے۔
ان لوگوں کو وہابی مکتبہ فکر سے زیادہ چڑ ہے اور بہت بدنیتی سے ان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ بعض تو حمد و نعت کا بھی غلط استعمال کرتے ہیں اور جس طرح سے یہ لوگ حمد و نعت کے ساتھ مغربی موسیقی کی لے ملا رہے ہیں ‘ میرے لیے یہ کافی پریشانی کا باعث ہے۔
ان ساری کو ششوں کا مطمح نظر یہ ہے کہ اللہ کے خالص دین‘ اسلام میں ملاوٹ کرکے ایک ایسا دین سامنے لایا جائے جو بنیادی طور پر کمزور ہو اور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتی پر سمجھوتہ کرنے والا ہو۔ ایک ایسا اسلام جس کے ماننے والے رات بھر مغربی موسیقی کے لَے میں گائے جانی والی نعتوں پر جھومتے رہیں ۔ خود مغرب میں ر ہ کر تمام تر توجہ نجی زندگی کی ترقی پر مرکوز رہے اور ظلم و جبر کے مقابلے میں ہر طرح سے مزاحمت کرنے والے اپنے بھائیوں اور بہنوں کی کوششوں پر تنقید کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے ۔ اب تو ان کے لیے دعا کر نا بھی ایک جرم بن چکا ہے ۔ ہمیں کچھ عرصے سے یہ بھی بتا یا جا رہا ہے کہ مجاہدین کے لیے دعا بھی نہ کی جائے۔
دنیا کے ایک بہت بڑے فوجی جرنیل ‘ سلطان صلاح الدین ایوبی سے ‘ جس کو دنیا فاتح القدس کے نام سے جانتی ہے ‘ کسی نے ایک دن پوچھا کہ آپ مسکراتے کیوں نہیں ؟ انھوں نے جواب دیا کہ میں کیسے مسکرا سکتا ہوں‘ جب کہ بیت المقدس صلیبیوں کے قبضے میں ہے ۔ میں سوچتی ہو ں کہ اگر وہ آج زندہ ہوتے تو ہمیں دیکھ کر کیا کہتے؟ وہ ہمارے نوجوانوں کو کیا مشورہ دیتے؟ آج عرب حکمرانوں کی بے شرمی کی تویہ حالت ہے کہ وہ امریکا کے سامنے ’ بیلے ڈانس‘ ناچ رہے ہیں اور عراق کو ایک تر نوالے کی طرح پلیٹ میں رکھ کر ان کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ ایک عرصے سے فلسطین کی عزت لوٹی جارہی ہے اور عرب حکمران نظریں چرا رہے ہیں‘ اور اب تو عالم عرب کی ایک اور بیٹی لبنان ___ یہ عرب حکمران کہاں تھے جب اس کی عزت تارتار کی جارہی تھی؟ساری دنیا تو کیا ‘ خود ہمارے بچے اور ہمارے نوجوان‘ جن سے ہم سب کا مستقبل وابستہ ہے‘ یہ دیکھ رہے ہیںکہ اب دوبارہ جنگ کے نقارے بجائے جارہے ہیں ۔
ہمیں نبی کریمؐ اور صحابہ کرامؓ کی سیرت مبارکہ کی روشنی میں اپنے بچوں کی ایسی تعلیم و تربیت کرنی چاہیے کہ وہ ان کے نمونے پر چلیں اور ان سے سبق لے سکیں ۔ جب تک اس اُمت میں خالدبن ولید ‘ سلطان صلاح الدین ایوبی ‘ سید قطب اور میلکم ایکس جیسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے ‘ امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھو ٹے گا۔ یہ اسلام کی فطرت ہے کہ جابر جس قد زیادہ جبر ڈھائیں گے ‘ بیداری کی لہر اس قدر شدید سے شدید تر ہوتی چلی جائے گی ۔ ہمارے نوجوانوں کوچاہیے کہ اسی اسلام (ظلم اور جبر کے مقابلے میں مزاحمت کا شعار ) کومشعل راہ بنا کر اس کی پیروی کریں ۔
فاروق حسنی اور اسی قبیل کے لوگ تودر اصل نا مرد ہیں ۔ انھوں نے محض مغرب کے رہنے والوں سے زیادہ مغربیت دکھانے کے لیے بڑے بے ڈھنگے انداز سے بزدلی اور نامردی کی بات ہے۔ فاروق حسنی جیسے لوگوں کو تاریخ کی کتابوںمیں ایک جملے سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی‘ مگر ہماری بہنوں اور بھائیوں کی مزاحمت‘ استقامت اور تاریخی بہادری پر کئی ابواب رقم کیے جائیں گے۔
آج ان مسلمان نوجوانوں کی تعداد میںبہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جن کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ چاہے وہ اپنے آپ کو مغربی معاشرے میں ضم کروانے کے لیے اپنے دین پر کتنا ہی سمجھوتاکیوں نہ کرلیں‘ جب بھی حالات بگڑ یں گے تو سب سے پہلے شک کی نگاہ ان پر پڑے گی ۔ یہ لوگ ہم مسلمانوں کو شریعت ‘ خلافت اور جہاد کو بھو ل جانے کی جس قدر زیادہ تلقین کریں گے‘ ان اقدار کو بچانے کے لیے مسلمانوں میںخون دینے کا جذبہ بھی اسی قدر زیادہ پروان چڑھے گا ۔
آج فلسطین ‘ عراق ‘ افغانستان‘ کشمیر اور چیچنیا میں جو جہاد ہم دیکھ رہے ہیں ‘یہ بے انصافی اور جبر کے خلاف بالکل ایک جائز جنگ ہے ۔
یادرکھیے ! جہادیوں کے طرز عمل سے مغرب یا مغرب کی طرز زندگی کو کوئی خطرہ نہیں۔ ان کی مزاحمت جائز اور بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق ہے ۔ آج ہمارے نوجوانوں کو اگر مذہبی انتہا پسندوں سے کوئی خطرہ لاحق ہے تو وہ اصل میںوائٹ ہاوس اور ڈاوننگ اسٹریٹ کے وہ مذہبی عیسائی بنیادپرست ہیں جو ہمارے نوجوانوں کو شدت پسندی کی طرف لے جانے کا باعث بن رہے ہیں‘کیونکہ بش اور بلیر دونوں ہی القاعدہ جیسی تحریکوں کے لیے بھرتی کا فریضہ بہت اچھے طریقے سے انجام دے رہے ہیں ۔ آج بہت سارے نوجوان صرف اس حقیقت کو پانے کی وجہ سے بیدار ہورہے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ میں اصل ہدف دہشت گردی نہیں‘ اسلام ہے ۔آج یہ امت کا اولین فریضہ ہے کہ اپنے نوجوانوں کی بیداری اور نشان منزل دکھانے کے لیے اس جذبے اور اخلاص سے کام کرے جس طرح حضوؐر نے کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا اور ان کو راستہ دکھایا۔ آج بھی آپؐ کی ذات اقدس کی پاکیزہ تعلیمات سے سے بہت سارے لوگ نشان منزل کو پارہے ہیں ۔ آج کے نوجوانوں کو سب سے اہم بات یہ سمجھانی چاہیے کہ اللہ کے علاوہ کسی سے بھی خوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔