اپریل۲۰۰۷

فہرست مضامین

کون مہذب ہے ؟ کون غیرمہذب؟

وُون رِڈلے | اپریل۲۰۰۷ | اسلام اور مغرب

Responsive image Responsive image

ترجمہ: ریاض محمود انجم

افغانستان میں گرفتار ہونے سے قبل ‘ میں نقاب لینے والی عورتوں کو نہایت ہی کمزور‘   مظلوم اور ستم رسیدہ مخلوق سمجھتی تھی۔امریکا پر دہشت گردانہ حملے کے صرف ۱۵ روز بعد‘ ستمبر ۲۰۰۱ء میں‘  مَیں افغانستان میں اس حلیے میں داخل ہوئی کہ میں سرتاپا نیلے رنگ کے برقعے میں ملبوس تھی اور افغانستان میں موجود حکومتی جبروظلم کے دور میں گزرتی زندگی کے متعلق‘ اخبار کے لیے ایک مضمون لکھنا چاہتی تھی۔ لیکن ہوا یہ کہ میرا بھید کھل گیا اور مجھے گرفتار کر کے نظربند کردیا گیا۔

میں جن لوگوں کی قید میں تھی‘ ۱۰ دن تک ان پر برہم ہوتی رہی اور انھیں برا بھلا کہتی رہی۔ وہ مجھے ’بری‘ عورت کہتے تھے۔ انھوں نے مجھے اس شرط اور وعدے پر رہا کردیا کہ میں قرآن پڑھوں گی اور دین اسلام کا مطالعہ کروں گی (صحیح بات یہ ہے کہ مجھے یقین نہیں ہے کہ رہا کرتے وقت کون زیادہ خوش تھا؟ وہ یا میں)۔

لندن‘ واپس اپنے گھر پہنچ کر دین اسلام کے مطالعے کے متعلق میں نے ان سے کیا ہوا  اپنا وعدہ نبھایا‘ اور جو کچھ مجھے معلوم ہوا ‘ اس نے مجھے حیرت زدہ کردیا۔ میں قرآن میں ان موضوعات پر ابواب کی توقع کر رہی تھی کہ اپنی بیوی کی کس طرح پٹائی کی جاتی ہے اور کیسے اپنی بیٹیوں کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کے بجاے قرآن کی آیات کے مطالعے کے ذریعے مجھے معلوم ہوا کہ دین اسلام نے عورت کے حقوق اور احترام پر زور دیا ہے۔ اپنی گرفتاری کے اڑھائی برس بعد ‘ میں نے اسلام قبول کیا تو کچھ دوست اور عزیز حیران اور مایوس ہوئے اور کچھ نے حوصلہ افزائی کی۔

برطانیہ کے سابق سیکرٹری خارجہ جیک سٹرا کا یہ تبصرہ نہایت افسوس ناک ہے کہ مسلمان عورتوں کی طرف سے پہنے جانے والا نقاب باہمی تعلقات کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے۔ وزیراعظم ٹونی بلیر‘ سلمان رشدی اور اطالوی وزیراعظم رومانو پروڈی نے بھی جیک سٹرا کی حمایت میں بیانات دے دیے۔

اب‘ جب کہ مجھے بغیر نقاب اور مع نقاب‘ دونوں صورت احوال کا تجربہ ہے‘ میں آپ کو   یہ بتاسکتی ہوں کہ جو مغربی مرد سیاست دان اور صحافی‘ اسلامی معاشرے میں نقاب والی عورت پر جبر کے متعلق افسوس کا اظہار کرتے ہیں‘ انھیں یہ معلوم ہی نہیں کہ وہ کس چیزکے متعلق بات کر رہے ہیں۔ وہ نقاب‘ بچپن کی شادی‘ عورتوں کے ختنے‘ غیرت کے نام پر قتل اور زبردستی کی شادی کے متعلق‘ جو منہ میں آئے کہے جاتے ہیں اور وہ دین اسلام کو نہایت غلط طور پر ان سب امور کا قصوروار ٹھیراتے ہیں۔ ان کی رعونت پر مستزاد ان کی بے خبری ہے۔

ان تہذیبی مسائل اور رسم و رواج کا دین اسلام کے ساتھ قطعی کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر قرآن مجید کا مطالعہ سمجھ بوجھ کرکیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مغربی دنیا میںآزادیِ نسواں کے حامیوں نے ۷۰ ۱۹ء کے عشرے میں جس مقصد کے لیے جدوجہد کی‘ وہی چیز مسلمان عورتوں کو ۱۴۰۰برس قبل عطا کردی گئی تھی۔ اسلام میں دینی اور روحانی لحاظ سے عورتیں مردوںکے برابر ہیں‘ مردوں کی طرح علم کا حصول ان کے لیے بھی فرض کی حیثیت رکھتا ہے اور عورت کی اہمیت مرد سے کسی طور کم    نہیں ہے۔ بچے کی پیدایش اور بچے کی پرورش میں مہارت‘ مسلمان عورت کی مثبت خوبی گردانی جاتی ہے۔

اب‘ جب کہ اسلام نے عورت کو بے شمار حقوق عطا کیے ہوئے ہیں تو پھر مغربی مرد‘  مسلمان عورتوں کے لباس کے بارے کیوں متفکر ہیں؟ اسی پر اکتفا نہیں‘ بلکہ برطانوی حکومت کے وزرا گورڈن برائون اور جان ریڈ نے نقاب کے متعلق حقارت آمیز تبصرہ کیا ہے‘ جب کہ ان کا  اپنا تعلق سرحد پار اسکاٹ لینڈ سے ہے‘ جہاں مرد اسکرٹ پہنتے ہیں۔

جب میں مسلمان ہوگئی اور سر پر اسکارف پہننا شروع کیا تو مجھے بہت زیادہ ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ میں نے اپنا سر اور اپنے بال ہی ڈھانپنے تھے لیکن اس کے باعث میں فوراً ہی دوسرے درجے کے شہری کی سی ہوگئی۔ مجھے معلوم تھا کہ مجھے کسی اسلام دشمن سے کچھ سننا پڑے گا۔ لیکن مجھے یہ توقع نہ تھی کہ اجنبیوں کی طرف سے بھی کھلے عام مخالفت کا اظہار ہوگا۔ رات کے وقت for hire کے روشن الفاظ کے ساتھ ٹیکسیاں میرے آس پاس سے گزر رہی تھیں۔ میرے سامنے رکنے والی ایک ٹیکسی میں سے ایک سفیدفام مسافر اترا‘ میں آگے بڑھی تو ڈرائیور نے گھور کر دیکھا اور گاڑی بھگاکر لے گیا۔ دوسرے ڈرائیور نے کہا کہ عقبی نشست پر بم رکھ کے نہ جانا اور مجھ سے یہ بھی پوچھا کہ اسامہ بن لادن کہاں چھپا ہوا ہے؟

یہ درست ہے کہ مسلمان عورت سے اس کے مذہب کا تقاضا ہے کہ اپنے لیے مناسب لباس استعمال کرے لیکن جن مسلمان عورتوں کو میں جانتی ہوں ان کی اکثریت حجاب پہننا پسند کرتی ہے جس سے چہرہ کھلا نظر آتا ہے‘ جب کہ کچھ مسلمان خواتین نقاب کو ترجیح دیتی ہیں۔ یہ میرا ذاتی طریقہ اظہار ہے۔ میرے لباس سے آپ کو یہ معلوم ہوجاتاہے کہ میں مسلمان ہوں اور میں خود کو عزت واحترام پر مبنی سلوک کی مستحق سمجھتی ہوں‘ جس طرح بنک کا ایک افسر بزنس سوٹ پہن کر یہ اظہار کرتا ہے کہ اسے ایک ایگزیکٹو سمجھا جانا چاہیے۔ خاص طور پر مردوں کا عورتوں کی طرف نامناسب اور ہوس بھری نظروں سے گھورنا میری جیسی نومسلم خواتین کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔

میں برسوں تک مغرب میں خواتین کی آزادی کی علَم بردار رہی لیکن اب مجھ پر یہ انکشاف ہوا ہے کہ اسلامی معاشرے میں آزادیِ نسواں کے حامی‘ اپنے سیکولر ساتھیوں کی نسبت زیادہ انقلابی ہیں۔ ہمیں ’مقابلہ ہاے حُسن‘ سے کراہت محسوس ہوتی ہے۔ ہمیں اس وقت اپنی ہنسی روکنا پڑی جب ۲۰۰۳ء میں ’حسینۂ عالم‘ کے مقابلے کے موقع پر مختصرلباس میں ملبوس حسینۂ افغانستان ویدہ سمادزئی کو آزادیِ نسواں کی طرف ایک عظیم الشان قدم قرار دیا گیا۔ سمادزئی کو ’حقوقِ نسواں کی فتح کی علامت‘ کے طور پر ایک مخصوص انعام بھی پیش کیا گیا۔

آزادیِ نسواں کی حامی کچھ نوجوان خواتین حجاب اور نقاب کو سیاسی علامت بھی سمجھتی ہیں جس کے ذریعے مغربی تہذیب کی لعنتوں: بے تحاشا شراب نوشی‘ آزادانہ جنسی تعلقات اور نشہ آور ادویات کے استعمال کو مسترد کیا جاتا ہے۔ آزادیِ نسواں کا اظہار کس بات سے ہوتا ہے؟ اسکرٹ کی لمبائی اور چھاتی کے مصنوعی اُبھار یا کردار اور ذہانت سے۔ اسلام میں عزت کا معیار حسن‘ دولت‘ طاقت‘ عہدہ یا جنس نہیں‘ بلکہ تقویٰ اور پرہیزگاری ہے۔

میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ میں اٹلی کے وزیراعظم پروڈی کے اس طرزِعمل پر روؤں یا ہنسوں جس کے تحت انھوں نے اس بحث میں حصہ لیتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ نقاب کو استعمال نہ کیا جائے کیونکہ اس سے باہمی میل جول زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔ کیا واہیات بات ہے۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو پھر موبائل فون‘ ای میل اور فیکس کے استعمال کا کیا جواز ہے؟ اور پھر جب ریڈیو پر سامع کو بولنے والے کا چہرہ نظر نہیں آتا تو وہ ریڈیوبند تو نہیں کردیتا!

اسلام نے مجھے عزت دی ہے۔ میرے دین نے مجھے تعلیم حاصل کرنے کا حق بخشاہے اور میں شادی شدہ ہوں یا کنواری‘ تحصیلِ علم میرے لیے فرض قراردیاہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی تعلیمات ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ عورتوں کو لازمی طور پر اپنے شوہروں کے کپڑے دھونے چاہییں‘ گھر کی صفائی کرنی چاہیے اور یا پھر کھانا پکانا چاہیے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مردوں کو اپنی بیویوں کی پٹائی کرنے کی اجازت دی گئی ہے‘ غلط ہے۔ اسلام کے ناقد قرآن مجید کی اِکا دکا آیات اور احادیث کا حوالہ دیتے ہیں لیکن سیاق و سباق سے کاٹ کر۔اگر کوئی اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھائے‘ اس کو اس طرح سے مارنے کی اجازت نہیں جس سے اس کے جسم پر نشان پڑجائیں۔ قرآن کا یہ کہنے کا انداز ہے کہ احمق‘ اپنی بیوی کو مت مارو۔

عورت کے مقام اور اس سے سلوک سے متعلق صرف مسلمان مردوں ہی کا نام نہیں لینا چاہیے۔ حال ہی میں کیے گئے ایک سروے (گھریلو تشدد کا قومی ہاٹ لائن سروے) کے مطابق ۴لاکھ امریکی خواتین ‘ اوسطاً ۱۲ ماہ کی مدت کے دوران اپنے ساتھی مردوں کی طرف سے شدید حملوں اور مارپیٹ کا نشانہ بنتی ہیں اور ہر روز تین سے زائد عورتیں اپنے خاوندوں اور اپنے مرد دوستوں کے ہاتھوں ہلاک ہوجاتی ہیں۔ ۹ستمبر سے اب تک یہ تعداد تقریباً ۵۵۰۰ تک پہنچ چکی ہے۔

عورتوں پر تشدد کا یہ رجحان ایک عالمی المیہ ہے اور متشدد مردوں کا تعلق کسی خاص مذہب یا تہذیب سے نہیں ہے۔ ایک سروے کے مطابق‘ دنیا بھر میں تین میں سے ایک عورت مرد کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتی ہے۔ اس میںمارپیٹ‘ جنسی زیادتی اور ذلت آمیز سلوک‘ سب شامل ہیں۔ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جس کا مذہب‘ دولت‘ طبقاتی امتیاز‘ نسل اور تہذیب و ثقافت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

لیکن یہ بھی ایک حقیقت اور سچ ہے کہ عورتوں کی طرف سے احتجاج کے باوجود مغرب میں مرد خود کو عورتوں سے برتر سمجھتے ہیں۔ وہ کسی شعبے میں بھی ہوں‘ عورتوں سے زیادہ بہتر معاوضہ اور تنخواہ پاتے ہیں اور عورتوں کو ابھی تک ایک جنسی شے سمجھا جاتا ہے جن کی کشش اور اثرآفرینی   براہِ راست ان کی ظاہری حالت سے عیاں ہوتی ہے۔

اس طبقے کے لیے‘ جو ابھی تک یہ کوشش کر رہا ہے کہ اسلام کو ایک ایسا دین ثابت کرے جو عورتوں پر ظلم وستم روا رکھتا ہے۔ ۱۹۹۲ء میں پادری پیٹ رابرٹ سن کی طرف سے دیے گئے ایک بیان کو یاد کریں۔ اس نے ’بااختیار‘ عورت کے بارے اپنے خیالات کا اظہار درج ذیل الفاظ میں کیا: ’’آزادیِ نسواں کی تحریک ایک خاندان مخالف سوشلسٹ سیاسی تحریک ہے جو عورتوں کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ اپنے خاوندوں کو چھوڑ کر چلی جائیں‘ اپنے بچوں کو ہلاک کردیں‘ جادوٹونا کریں‘  سرمایہ داری کو تباہ کردیں اور ہم جنس پرست بن جائیں‘‘۔

اب آپ مجھے یہ بتائیں کہ کون مہذب ہے اور کون غیرمہذب؟

(ترجمہ:  How I Come to Love the Veil ، واشنگٹن پوسٹ‘ ۲۲ اکتوبر ۲۰۰۶ء)