مصر پر طویل عرصے تک فراعنہ حکمران رہے۔ مصر کے ان حکمرانوں کے مظالم تاریخ ہی میں نہیں‘ سابقہ الہامی کتب اور قرآن مجید میں بھی بہت تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ دورِجدید کے مسلمان مصری حکمرانوں نے اس مسلمان ملک کو سرزمینِ فراعنہ اور خود کو ابناے فراعنہ کہنے میں فخر محسوس کیا۔ آج اسی فرعونی دَور کی یادیں مصر میں تازہ کی جارہی ہیں۔ اخوان ایک دفعہ پھر حکمرانوں کے انتقام کا نشانہ ہیں مگر سرزمین مصر بحیثیت مجموعی بھی تباہی کے دہانے پر آکھڑی ہے۔ اخوان المسلمون‘ عرب دنیا سے اٹھنے والی وہ اسلامی تحریک ہے جس نے زندگی کے ہر شعبے میں مسلمانوں کی تربیت کی ہے۔ اخوان نے اسلام کے جامع تصور کو دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق اُجاگر کیا ہے اور معاشرتی‘ سیاسی‘ معاشی اور تعلیمی میدان میں عالمِ عرب کی گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ ۱۹۲۸ء میں مصر میں قائم ہونے والی یہ تحریک‘ آج عالمِ عرب ہی نہیں‘ پوری دنیا میں معروف اور ایک حقیقت ہے۔
غلبۂ اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والے تمام لوگ ہردور میں ابتلا و آزمایش سے ہمت و استقامت سے گزرتے رہے ہیں مگر دورِ جدید میں اخوان المسلمون نے عزیمت کی جو بے مثال تاریخ رقم کی ہے وہ قرونِ اولیٰ کے عظیم مسلمانوں کی یاد تازہ کردیتی ہے۔ ابتلا و آزمایش کا یہ سلسلہ تحریک کے آغاز سے لے کر آج تک مسلسل جاری ہے۔ آفرین ہے ان جواں ہمت لوگوں کے جذبۂ ایثار و قربانی پر کہ جو مستبد حکمرانوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجاے راہِ عزیمت پر مسلسل چراغ جلاتے جارہے ہیں۔ حسن البنا‘ عبدالقادر عودہ اور سیدقطب کی شہادت‘ حسن الہضیبی‘ عمرتلمسانی‘ محمد حامد ابوالنصر‘ مصطفی مشہور اور ہزاروں اخوانیوں کی قیدوبند کی ناقابلِ بیان صعوبتیں ان کے لیے روشنی کے مینار ہیں۔ عمرتلمسانی نے کیا خوب فرمایا تھا کہ طاغوت کے مظالم کے سامنے اہلِ حق کا ڈٹ جانا اور جھکنے سے انکار کردینا‘ طاغوت کی شکست اور حق کی فتح ہے‘ اگرچہ اہلِ حق اس جدوجہد میں جان ہی سے کیوں نہ گزر جائیں!
تازہ ترین فرعونی کوڑا‘ جو صرف اخوان ہی پر نہیں‘ بحیثیت مجموعی ملک کی معیشت پر برسایا گیا ہے‘ بہت خطرناک اور دُور رس نتائج کا حامل ہے۔ اخوان المسلمون کے مرکزی رہنما‘ مرشدعام کے نائب دوم‘ انجینیرخیرت الشاطر سمیت ۳۰ کے قریب تجارتی و کاروباری فرموں کے اخوانی مالکان کو نہ صرف گرفتار کرلیا گیا ہے بلکہ ان کے تجارتی اداروں اور ان کے ذاتی و شراکت داروں کے مشترکہ اثاثہ جات کو بھی منجمد کردیا گیاہے۔ ان کاروباری لوگوں کی حالیہ گرفتاری کے علاوہ اخوان کے سیکڑوں سیاسی کارکنان پہلے ہی سے جیلوں میں مقید ہیں۔ ہنگامی قوانین کے ذریعے حکومت مصر نے گذشتہ انتخابات سے قبل اور بعد‘ بہت سے سیاسی مخالفین بالخصوص اخوان سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات کو تسلسل کے ساتھ جھوٹے مقدمات میں گرفتار کرنے کا مذموم سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ ان کالے قوانین کے خلاف سیاسی جماعتوں کے علاوہ مصر کے وکلا بلکہ ججوں نے بھی شدید احتجاج کیا ہے۔ ججوں کے حکومتی ایما پر فیصلے کرنے سے اجتناب کی وجہ سے حکومت‘ خصوصی اور فوجی عدالتیں قائم کرکے ان لوگوں کو انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔
حالیہ گرفتاریوں کے نتیجے میں چونکہ ملک کے معروف تاجر‘ صنعت کار اور سرمایہ کار گرفتار کیے گئے اور ان کے اداروں پر قبضہ کرکے اثاثے منجمد کردیے گئے ہیں‘ اس لیے مصر سے سرمایہ کار اپنا سرمایہ دھڑا دھڑ بیرونِ ملک بھجوا رہے ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق تقریباً ۲۱ارب مصری پائونڈ کا سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کیا جاچکا ہے۔ غیرجانب دار تجارتی حلقے بھی تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ ملک کے تمام ایوان ہاے صنعت و تجارت نے اس صورتِ حال کو ملک کی معاشی تباہی اور مصری عوام کے معاشی قتل کے مترادف قرار دیا ہے۔ ثقہ اخباری اطلاعات کے مطابق مصر میں سکیورٹی فورسز نے ۴۵ جاسوسی نیٹ ورک پکڑے ہیں‘ جو صہیونی و صلیبی اداروں نے قائم کررکھے ہیں اور ان کا مقصدمصر کی سالمیت کو تباہ کرنا ہے۔ مگر طُرفہ تماشا ہے کہ ان اداروں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے بجاے اُلٹا اخوان کوہدفِ انتقام بنایا گیا ہے۔
اخوان کے مرشدِ عام جناب محمد مہدی عاکف نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے حکومتی ہتھکنڈوں کو بوکھلاہٹ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ اخلاقی و دینی اصولوں کے مطابق بھی پابندیاں لگانے اور قیدوبند کے مراحل سے گزارنے کا یہ عمل ناپسندیدہ ہے اور ملک کا دستور بھی اس کی اجازت نہیں دیتا لیکن افسوس تو یہ ہے کہ دستور کو حکمرانوں نے موم کی ناک بنادیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اخوان‘ سیاسی و معاشی کسی سطح پر کوئی غیر قانونی کام نہیں کرتے۔ یہ ساری کارروائی امریکی دبائو کے تحت کی گئی ہے۔ امریکا اخوان کی مقبولیت اور پارلیمنٹ میں ان کے مضبوط گروپ کی وجہ سے اخوان کو خطرہ سمجھتا ہے۔(نیوزویک‘ عربی اڈیشن‘۲۷ فروری ۲۰۰۷ء)
ترکی کے اخبار المساء سے گفتگو کرتے ہوئے مرشدعام نے کہا کہ جن اداروں بالخصوص اخوان کے راہنما حسن مالک کی فرم پر پابندی لگائی گئی ہے‘ وہ اپنی ساکھ اور اپنے شفاف و کامیاب کاروبار کی وجہ سے اتنے مقبول تھے کہ مصر ہی نہیں‘ مصر سے باہر کے سرمایہ کار اور شراکت دار بھی ان میں سرمایہ لگائے ہوئے تھے‘ حتیٰ کے ترکی کی کئی کاروباری کمپنیوں نے بھی مصر کے ان اداروں میں حصص خرید رکھے تھے۔ یہ مصر کی گرتی ہوئی اقتصادی صورتِ حال اور متزلزل اخلاقی ساکھ کو مزید تباہ کرنے کی حکومتی کوشش ہے‘ جسے کوئی بھی عقلِ سلیم رکھنے والا شخص درست قرار نہیں دے سکتا۔ مرشدعام نے حسنی مبارک اور ان کی حکومت کی غیر قانونی کارروائیوں پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ ۱۰ برسوں میں حکومت نے اخوان سے تعلق رکھنے والے ۲۵ ہزار بے گناہ شہریوں کو گرفتار کیا ہے۔ ان میں سے ۳۰۰ کے قریب لوگوں کو فوجی عدالتوں سے سزائیںدلوائی گئی ہیں۔
مصر میں اس ظالمانہ اقدام کے خلاف کافی بے چینی اور ردعمل پایا جاتا ہے۔ اخوان کے مجلہ رسالہ الاخوان (شمارہ ۴۹۵‘ مارچ ۲۰۰۷ء) نے مختلف انٹرنیٹ سے حاصل کردہ کچھ نمونے پیش کیے ہیں جن میں گرفتار شدگان کی خدمات اور صلاحیتوں کا تذکرہ ہے اور نہایت مؤثر انداز میں ان پر ڈھائے جانے والے ظلم کے خلاف صداے احتجاج بلند کی گئی ہے۔ صحافت پرقدغن کے باوجود اب ایسے وسائل و ذرائع موجود ہیں کہ لوگ ان کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں۔
روزنامہ ڈان لاہور نے آئی پی ایس نیوز سروس کے حوالے سے ۱۶ فروری ۲۰۰۷ء کو ایک تفصیلی رپورٹ چھاپی ہے جس کے مطابق ۲۸ جنوری ۲۰۰۷ء کو اخوان سے تعلق رکھنے والے ۲۹معروف صنعت کاروں اور تاجروں کو غیرقانونی طور پر اس وقت گرفتار کرلیا گیا‘ جب کہ ایک دن قبل ان میں سے بعض کو مصر کی ایک عدالت نے سابقہ مقدمات سے رہا کیا تھا۔ حسنی مبارک نے ۱۵جنوری ۲۰۰۷ء کو ایک اعلان کیا‘ جس کے مطابق اخوان کو مصر کی سلامتی کے لیے خطرناک قرار دیا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ مصری صدر نے اخوان کے دینی تشخص کو خطرے کی علامت قراردیا۔
مصر کے سیاسی حالات پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی مبصرین کے نزدیک ۲۰۰۵ء کے انتخاباتِ عام میں حکومتی جبر اور پابندیوں کے باوجود اخوان نے پارلیمنٹ کی ۲۰ فی صد نشستوں پر جوکامیابی حاصل کی تھی‘ اس نے پوری دنیا کو حیرت اور مصری حکمرانوں کو پریشانی میں مبتلا کر دیا تھا۔ اخوان کی مقبولیت میں ایک بڑا سبب ان کی خدمتِ خلق اور فلاح و بہبود کے منصوبوں کو قرار دیا جاتا ہے۔ حکومت جانتی ہے کہ یہ متمول کاروباری ادارے ان فلاحی خدمات میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اسی لیے ان پر ہاتھ ڈالا گیا ہے۔ پارلیمانی امور کے ذمہ دار اور قانونی امور کے ماہر اخوانی راہنما صبحی صالح نے اس حکومتی اقدام کو امریکا اور اس کے زیراثر مسلمان حکومتوں کی طرف سے اسلام کے خلاف جنگ کا ایک محاذ قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حماس کو بھی معاشی لحاظ سے اپاہج کیا گیا‘ اب مصر میں اخوان کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جا رہا ہے۔
اخوان کے نائب مرشدعام اوّل ڈاکٹر محمدحبیب نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اس طرح کے ہتھکنڈے ہمارے خلاف ہمیشہ استعمال کیے جا تے رہے ہیں۔ گذشتہ ۲۵ برسوں سے ملک پر ہنگامی قوانین کی تلوار لٹک رہی ہے اور انھی کو بنیاد بناکر تازہ حملہ کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مصر کے لیے حکمران طبقہ ہر لحاظ سے خطرہ ہے۔ حکومت یہ چاہتی ہے کہ اس کی مجوزہ دستوری ترامیم کے خلاف اخوان کی احتجاجی اور سیاسی جدوجہد کا راستہ روکا جائے۔ اسی لیے وہ ہماری معاشی شہ رگ کاٹنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ لیکن ہمارے تمام کام قانون کے دائروں میں ہیں اور ہمارے کاروبار شفاف ہیں۔ ہم پر ہمیشہ اوچھے حملے ہوتے رہے ہیں مگر اللہ نے ہمیں ہر مرتبہ سرخ رو کیا ہے اور ہم مصر کو ایک اسلامی اور جمہوری ملک بنانے کی کوششیں کسی صورت ترک نہیں کرسکتے۔(المجتمع، ۱۷فروری ۲۰۰۷ء)
مرشدعام نے تازہ ترین صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم مصر کی سیاست میں تحمل و برداشت کے علَم بردار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کے پروگراموں کے ساتھ صرف اسلام چندپروگرام رکھنے والی قوتوں کو ہی اختلاف نہیں بلکہ تمام لبرل‘ سیکولر اور بائیں بازو کی پارٹیاں بھی اختلاف رکھتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم جس اسلام کی بات کرتے ہیں وہ قرآن و سنت کی بالادستی پر مبنی ہے۔ مذہبی پاپائیت (تھیاکریسی) کا الزام لگانے والے حقائق سے چشم پوشی کرتے ہیں۔
مصر کے ججوں کی تنظیم کے صدر جسٹس زکریا عبدالعزیز نے ایک بیان میں حکومت کی دستوری ترامیم پر شدید افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت دستور کی دفعہ ۸۸ اور ۱۷۳ میں جو ترمیمات کر رہی ہے‘ وہ دراصل مصری عدلیہ کے پَر کاٹنے اور انھیں آزادی سے محروم کرنے کی کوشش ہے۔ مصر کی عدلیہ کو انتخابات کی نگرانی کا جو قانونی و دستوری حق حاصل ہے‘ اسے ختم کرکے محض مبصر کا درجہ دیا جا رہا ہے۔ یہ دستور کی دفعہ ۱۶۵-۱۶۶ کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ دفعات عدلیہ کو انتخابات کی نگرانی کا مستقل اختیار دیتی ہیں۔ انھوں نے حکومت کے اس اقدام کو بھی حرفِ تنقید بنایا جس کے مطابق جوڈیشل کونسل کو ختم کرکے ہرسطح کی عدالت کے چیف پر مشتمل ایک نئی کونسل بنائی جارہی ہے جو آزادانہ فیصلے نہیں کرسکے گی۔(المجتمع‘ عدد ۱۷۳۹ )
مصر میں کاروباری اداروں پر لگائی جانے والے حالیہ پابندیوں کو پاکستان کی جانب سے بعض فلاحی تنظیمات پر پابندی اور ان کے اثاثہ جات اور اداروں کو منجمد و مقفل کرنے کے تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عالمِ اسلام کے سب حکمران باہر کی ہدایات پر عمل پیرا ہیں۔ یہ صورتِ حال کسی خوش حال اور مہذب معاشرے کی عکاسی نہیں کرتی۔ اُمت مسلمہ کو اس اہانت آمیز صورت سے نکلنے کے لیے پُرامن مگر منظم و مسلسل جدوجہدکی ضرورت ہے۔ اخوان کی قیادت نے اسی عزم کا اظہار کیا ہے جو خوش آیند ہے۔