تعداد اور سروسامان کی انتہائی کمی کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کے دشمنوں پر غلبہ دیا ہے‘ اور تاریخ میں کوئی ایک دو مثالیں اس کی موجود نہیں ہیں بلکہ ایسی فتح مندیوں کا ایک پورا سلسلہ ہے جس سے مسلمان واقف ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ آخروہ خود غور کریں کہ وہ کیا چیز تھی جس نے تعداد اور سروسامان دونوں چیزوں کی کمی کے باوجود ان کے دشمنوں پر ان کو غالب اور فتح مند کیا… اس سوال کا ایک ہی جواب ان کو ملے گا‘ اور وہ یہ کہ اس وقت ان کے پاس دنیا کے لیے ایک پیغام تھا جس کی دل کشی کا یہ حال تھا کہ ہرشخص کا دل اس کی طرف آپ سے آپ کھنچتا تھا اور اس پیغام کی حامل ایک جماعت تھی جو اگرچہ تعداد کے لحاظ سے کچھ ایسی بڑی نہیں تھی لیکن اپنی سیرت کے لحاظ سے نہایت اعلیٰ تھی۔ بس یہ پیغام اور یہ سیرت___ دو چیزیں تھیں جس کی وجہ سے بڑی بڑی جماعتوں کے مقابل میں اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو غالب کیا۔…
آج بھی اگر مسلمان اس دنیا میں عزت اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سرخ روئی چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ ایک ہی ہے کہ اس پیغام کو لے کر اُٹھیں جسے لے کر وہ اس دنیا میں آئے تھے‘ اور اپنی سیرت اس طرح کی بنائیں جیسی کہ اس پیغام کے حاملین کی ہونی چاہیے۔ وہ دفعتاً محسوس کرنے لگیں گے کہ ان کی قوت دس گنی بڑھ گئی ہے۔ آج جو مزاحمتیں ان کی راہ میں ہیں وہ آہستہ آہستہ سب دُور ہوجائیں گی۔ ان سارے خطرات کا آپ سے آپ علاج ہوجائے گا جن کو دفع کرنے کے لیے وہ نہ جانے کیا کیا تدبیریں کر رہے ہیں لیکن کوئی تدبیرکارگر نہیں ہورہی ہے۔ ان کے اندر نفوذ کرنے کی ایسی قوت پیدا ہوجائے گی کہ ان کو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہ ہوگی‘ دوسرے ان سے خود ڈریں گے۔ ان کے اندر ایسی کشش اور محبوبیت پیدا ہوجائے گی کہ جو لوگ ان سے نفرت کرنا چاہیں گے وہ بھی ان کا احترام کریں گے‘اور جو لوگ ان کو گالیاں دینا چاہیں گے ان کے دل بھی ان کی عظمت سے لبریز ہوں گے۔ وہ ہرمذہب و ملّت والوں کے نزدیک بہترین پڑوسی سمجھے جائیں گے‘ بہترین شریکِ کار خیال کیے جائیں گے اور بہترین ساتھی گنے جائیں گے۔ لوگ اپنوں سے بدگمان ہوں گے اور ان پر اعتماد کریں گے۔ اپنے ہم مذہبوں کو شک و شبہہ کی نگاہ سے دیکھیں گے اور ان کے پاس اپنی امانتیں رکھوائیں گے۔ ان کے پڑوس میں اپنے جان و مال اور عزت و آبرو کو اس سے زیادہ محفوظ خیال کریں گے جتنا کہ وہ اپنے سگے بھائیوں کے پڑوس میں سمجھ سکتے ہیں۔ لوگ ان کے ساتھ کاروبار کرنے میں ان کے ساتھ معاملہ کرنے میں‘ ان کے ساتھ دوستی کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت کریں گے اور جو کامیاب ہوجائے گا وہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھے گا۔(’اشارات‘، مولانا امین احسن اصلاحی، ترجمان القرآن‘ جلد ۳۰‘ عدد ۵‘ جمادی الاول ۱۳۶۶ھ‘ اپریل ۱۹۴۷ء‘ ص ۲۶۳-۲۶۴)