اپریل۲۰۰۷

فہرست مضامین

پاکستان میں تعلیم: دوراہے پر

سلیم منصور خالد | اپریل۲۰۰۷ | پاکستانیات

Responsive image Responsive image

 اکتوبر ۱۹۹۹ء کو اقتدار سنبھالنے والی فوجی حکومت نے، پاکستان کے تعلیمینظام، نصاب اور نظامِ امتحان کی جڑوں کوبنیاد سے ہلا دیا ہے اور اب اسے فیصلہ کن انداز سے تبدیل کرنے کے لیے نئی قومی تعلیمی پالیسی لانے کی تیاری کی جاری ہے۔ جس کا اظہار وفاقی وزارت تعلیم کے  وائٹ پیپر (قرطاس ابیض) سے ہوتا ہے۔

تعلیمی پالیسی کے اس مسودے میں کہیں کہیں چلتے چلاتے اسلام کا ذکر کیا گیا ہے، لیکن شعوری طور پراس سے اجتناب برتا گیا ہے اور پالیسی کی اساس کو بنیادی طور پر لادین بنایا گیا ہے۔

بعض مقامات پر زور دار انداز میں خود احتسابی پر مبنی جملے لکھے گئے ہیںجن میں درد کا احساس پایا جاتا ہے۔ مگر اس طرح بڑے فنی انداز سے پورے قومی نظام تعلیم کو ناقص، ناقابل اعتماد اور ایک بے مقصد تماشا ثابت کرنا دکھائی دیتا ہے۔ وزیرتعلیم بلاتکلف اسے بھوٹان سے بھی بدتر قرار دے رہے ہیں (چار سال کی ’تعمیری پالیسیوں‘ کے باوجود بھی)۔ اس تاثر کے بعد پاکستان کے موجودہ تعلیمی نظام کو ایک بے مصرف ڈھانچا قرار دے کر تلپٹ کر دینا آسان اور جائز بھی ہو جاتا ہے۔ آیندہ صفحات میں ایسی تجاویز کی نشان دہی کی جا رہی ہے، جو پالیسی سازوں کا اصل مقصد ہیں اور جن پر عمل کا زیادہ امکان اور یقین ہے‘ جب کہ بعض مفید تجاویز درج تو ہوگئی ہیں لیکن تشنہ تعمیل ہی رہیں گی۔

قرطاس ابیض کے اختتام پر پاکستان کی گذشتہ ۹ تعلیمی پالیسیوں (۱۹۴۷، ۱۹۵۱، ۱۹۵۹، ۱۹۶۶، ۱۹۷۰، ۱۹۷۲، ۱۹۷۹، ۱۹۹۲، ۱۹۹۸) کا ایک تقابلی چارٹ(ص ۶۷-۷۴- ۷۷- ۸۶) پیش کیا گیا ہے۔ واضح ہوتا ہے کہ مقاصدِ تعلیم کے حوالے سے ان تمام گذشتہ پالیسیوں میں اسلام ایک غالب مثالی نمونے کے طور پر موجود رہا ہے، جب کہ پالیسی دستاویزمیں پاکستان کے اساسی نظریے، اسلام کو نظر انداز ہی نہیں کیا گیا بلکہ نام لیے بغیر بے دلیل عقیدہ اور ماضی پرستانہ یا دایام (nostalgia) قرار دے کر مسترد کیا گیا ہے اور بے وزن ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے(ص۲)۔ اور کہا گیا ہے کہ یہ [تعلیمی] پالیسیاں غیرحقیقت پسند انہ اور ترقی کی دشمن تھیں‘‘ (ایضاً، ص۲)۔ ایسا فتویٰ دینے والوں کے نزدیک: صدر جنرل ایوب خان سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو اور میاں محمد نواز شریف تک سبھی حکومتیں کور فہم یا ترقی دشمن تعلیمی پالیسیوں کی خالق تھیں۔

نصاب تعلیم:رپورٹ میںنصابات اور درسی کتب کے تحت یہ کہا گیا ہے: ’’مرکزی ریاستی کنٹرول نے نصابی تشکیل اور درسی کتب کی تیاری کے عمل کو جمود کا شکار کر دیا ہے (ایضاً، ص۱۸)‘ ان کتابوں کا معیار سخت خراب ہے‘ یہ بے روح ہیں‘ منتشر خیالی سے لبالب ہیں اور طباعت کی غلطیوں سے بھرپور ہیں‘‘(ایضاً، ص۱۷)۔ پھر یہ بھی اطلاع دی ہے کہ:’’ہم نے گذشتہ برس نصاب کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا تھا(ایضاً، ص۱۶)‘ اور یہ دیکھا کہ: نجی شعبے کی کتب دل چسپ اور مجموعی طور پر اچھی لکھی ہوئی ہیں‘ جن میں سے بیش تر سنگاپور کی چھپی ہوئی ہیں‘‘۔(ایضاً، ص۱۷)

اوپر بیان کردہ کہانی ہی کا یہ نتیجہ تھا کہ وفاقی وزیرتعلیم جنرل جاوید قاضی نے صوبوں کی راے کو نظرانداز کرتے ہوئے صوبائی درسی بورڈوں اور مرکزی ادارہ نصابیات کو ’خاموش رہو اور انتظار کرو‘کی تصویر بنا کر، براہ راست درسی کتابوں کی تیاری کے لیے جرمن این جی او GTZ‘ اور اسی طرح کے دوسرے منظور نظر عناصر کا بالواسطہ تعاون لیا‘ جن کی شائع کردہ کتب واقعتا توجہ طلب ہیں، مگر اس کی ذمہ داری درسی بورڈوں پر نہیں آتی۔ اس ’انقلابی حرکت‘ کا ایک ابتدائی فائدہ یہ ضرور ہوا کہ سرکاری درسی کتب کو اور زیادہ برا کہنے کا جواز مل گیا۔

جنرل مشرف یہی چاہتے ہیں کہ درسی کتابوں کی تیاری کا کام کھلی مارکیٹ پر چھوڑ دیا جائے جس کو وہ ڈی ریگولیشن کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کتاب چاہے پڑھائی جائے‘ جو ادارہ چاہے درسی کتاب شائع کرے اور جس قیمت پر چاہے فروخت کرے مگر ریاست کا درسی کتاب سے نہ کوئی تعلق ہو اور نہ اشاعت و فراہمی کی کوئی ذمہ داری۔ یہی خواہش ایس ڈی پی آئی جیسی این جی اوز کی ہے، جنھیں: راجا داہر سے محبت اور محمد بن قاسم سے نفرت ہے اور جن کے نزدیک دو قومی نظریہ نفرت کی علامت ہے اور عزیز بھٹی شہید کے تذکرے سے سارک ممالک کا امن ڈانواں ڈول ہو جاتاہے۔

  • اس دستاویز میںکہا گیا ہے کہ: ’’ ۲۰۱۵ء تک ملکی نظامِ تعلیم کو بین الاقوامی معیار تک  لاکر تمام سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں یکساں نصابِ تعلیم رائج کر دیا جائے‘‘(ص۲۵)۔ قرطاس ابیض سے اس تجویز کی تفصیل پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ یکساں درسی کتب نہیں ہوں گی بلکہ صرف ایک نصابی خاکہ ہو گا‘ جو ہر مضمون کے لیے دو یا تین صفحوں میں آ جائے گا اور اس کے بعد سب آزاد ہوں گے کہ اس خاکے کے پیش نظر جو چاہیں پڑھائیں۔ پرچہ بنانے والے کے سامنے بھی کوئی ایک معیاری کتاب نہ ہو گی۔اس کسوٹی پر دور دراز یا مضافاتی بلکہ شہری علاقوں کے عام ادارے بھی پورا اترنے سے قاصر ہوں گے‘ البتہ اعلیٰ طبقاتی ادارے ممکن ہے کہ طلبہ اساتذہ کے متوازن ڈھانچے اور بہترین تعلیمی سہولیات کے باعث اس معیار پر پورا اتریں۔ عام تعلیمی ادارے  مجوزہ غیر مساویانہ نصابی یکسانیت کا مقابلہ نہ کرسکیں گے۔ تعلیمی ابتری پروان چڑھانے کے اس منصوبے کا ایک تضاد خود اس سفارش میں بھی موجود ہے کہ: ’’ ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ علاقوں کے اسکولوں میں نصاب مختلف ہونا چاہیے‘‘ (ص۴۴)۔ اس کا مطلب اعلیٰ و ادنیٰ کی تفریق پیدا کرکے حاکم اور محکوم طبقوں کی خلیج کو گہرا کرنا ہے۔

عقل و دانش اور انصاف کا تقاضا ہے کہ پہلے سے قائم قومی نصابی ادارے ہی مسلسل، مربوط اور مؤثر انداز سے اپنا فرض ادا کریںاور وہی پاکستان کے تہذیبی تقاضوں اورقومی ترقی کے مطلوبہ اہداف کا ادراک کرتے ہوئے یہ فریضہ انجام دیں۔ پھر انھی اداروں کا تشکیل کردہ نصاب اور درسی لوازمہ پورے پاکستان کے تمام تعلیمی اداروںمیں پڑھایا جائے (اس چیز کو ’یکساں نصاب تعلیم‘ کہتے ہیں)، تاکہ نصاب ، درس وتدریس اور علمی لیاقت کی پیمایش کا کم از کم پیمانہ ایک ہو۔

  •  ایجوکیشن ایکٹ ۱۹۷۶ء کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ پورے پاکستان میں قومی نصاب تعلیم رائج ہو۔ مگر اس قانون کی مسلسل خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ سبب یہ ہے کہ ’اے‘ لیول اور ’او‘ لیول کے بیرونی نصابات مقتدر طبقوں کے اسکولوںمیں رائج ہیں۔ لہٰذایہ تمام ادارے رائج الوقت قانون سے بالاتر ہیں۔ زیر بحث پالیسی میں نظامِ تعلیم کو بین الاقوامی معیار سے ہم کنار کرنے کا خوش کن خواب دکھا کر غیر ملکی امتحانی نظاموں سے وابستہ ان تعلیمی اداروں کو مزیدوسعت دی جا رہی ہے۔
  •  اساتذہ کے مسائل: ساتذہ کے حوالے سے سفارش ہے کہ: ’’ بی ایڈ، بی ایس سی،   بی اے کے اساتذہ کو بنیادی سکیل۱۶ دیا جائے‘‘(ص۲۱)‘ غالباً اس دستاویز کے مصنفین کو خبر نہیں کہ اس تعلیمی قابلیت کے اساتذہ کوسرکاری شعبے میں پچھلے  ڈھائی تین عشروں سے یہی سکیل مل رہا ہے۔ لیکن اس تعلیمی قابلیت یا اس سے زیادہ قابلیت کے اساتذہ کے ساتھ نجی شعبہ بیش تر صورتوں میں   جو استحصال روا رکھ رہا ہے، ضرورت یہ تھی کہ ان کے تحفظ کے لیے کوئی منصوبہ پیش کیا جاتا‘مگر ان کے لیے اس دستاویزمیں کچھ بھی نہیںہے۔

تعلیم و تدریس ایک ہمہ وقت ذمہ داری ہے‘ لیکن اساتذہ کو عارضی مدت کے معاہدے (contract) پر ملازمت دینے کا اصول نافذ کرکے رہی سہی کسر نکال دی گئی ہے۔ اس غیردانش مندانہ عمل کانتیجہ یہ ہے کہ استاد نے توہین آمیز شرائط پر ملازمت تو لے لی‘ مگر ساتھ ہی کسی بہتر ، متبادل یا مستقل ملازمت کے لیے دیکھنا شروع کر دیا۔ ممکن ہے کہ اس سے چند کروڑ روپے بچ گئے ہوں‘ مگر ان غیرمطمئن اساتذہ سے پڑھنے والے طلبہ کے مستقبل کی قیمت کا کسی نام نہاد جدیدیت پسند کو کوئی اندازہ نہیںہے۔

  • ابتداے بچپن کی تعلیم: یعنیEarly Childhood Educationکو پالیسی دستاویز کے صفحہ ۱۶، ۱۷ اور پھر۳۴،۳۵ پرزیر بحث لایا گیا ہے۔ تین سے پانچ سال کے بچوں    کے لیے یہ تعلیم کی کون سی قسم ہے یا اس کی شان نزول کیا ہے، اسے جاننے کے لیے امریکی اور یورپی پالیسی سازوں کی وہ رپورٹیں ذہن میں رکھی جائیں‘جن میں وہ بہ تکراریہ کہتے ہیں کہ: ’’مسلم دنیا میں فکری اور تہذیبی تبدیلی کے لیے میڈیا، عورت اورتعلیم کے محاذ پر تو ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہی ہے، لیکن دراصل مسلمان بچے کو تین چار سال کی عمر ہی میں ہدف بنانے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے، تاکہ اس بچے پر مسلم معاشرے یا مسلم معاشرے کے اساتذہ اپنا کوئی نقش نہ بٹھاسکیں‘‘… اس مقصد کے لیے امریکی سرکاری ادارے یو ایس ایڈ اور آغاخان ایجوکیشن سروس ایک مشترکہ منصوبے کے تحت، جب کہ بعض این جی اوز اور عیسائی مشنریوں کی متعدد تنظیمیں ایک فکری ہم آہنگی کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ ان کا اپنا نصاب، اپنا نظام تربیت اور اپنے اساتذہ ہیں۔ اس مجوزہ تعلیمی پالیسی میں بھی ابتداے بچپن کی تعلیم کو ایک اچھوتا منصوبہ سمجھ کر پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے : ’’فوری طور پر اس کے۴۲ ہزار ۵ سو مراکز قائم کیے جائیں‘ جن کے لیے سرکاری مدد لی جائے‘‘ (ایضاً، ص۳۴)۔ یہ بوجھ بھی پہلے پہل پرائمری اسکولوں کے سر تھوپ دیا جائے گا‘ جو خود پہلے سے جاں بلب ادارے ہیں۔ جب وہ یہ نیا بوجھ نہیں اٹھا سکیں گے تو اس وقت این جی اوز اور غیر ملکی ایجنڈے کی حامل قوتیں سامنے آئیں گی اور مخصوص تربیت اور مخصوص نصاب کے سایے میں ان بچوں کو اپنی گود میں لے کر، جیسا ذہن چاہیں گی، بنانے کی کوشش کریں گی۔ اس وقت بھی اندرون سندھ اور اندرون بلوچستان متعدد این جی اوزاس منصوبے میںاپنا دائرۂ کار بڑی فعالیت سے بڑھا رہی ہیں۔

سرکاری اسکولوں کی حالت زار کا نقشہ حکومت پاکستان کی پہلی جامع نمبر شماری کے مطابق یہ ہے :’’۵۳ ہزار۴سو ۸۱ اسکولوں کے گرد چار دیواری نہیں ہے‘ ۴۶ہزار۷سو۶۶ سرکاری اسکولوں میں پینے کے پانی کا بندوبست تک نہیں‘ ۵۷ہزار۲سو۱۶ اسکولوں میں بیت الخلا کا وجود نہیں ہے‘ ۸۱ہزار ۶سو ۳۳ اسکولوں میں بجلی کا کنکشن نہیں ہے‘ جب کہ ۹ہزار۷سو ۷۶ اسکولوں کی کوئی عمارت تک نہیں (نیشنل ایجوکیشن سینسس پاکستان‘ اسلام آباد دسمبر۲۰۰۶ء‘ ص ۲۷)۔ ایک طرف عالم یہ ہے اور دوسری جانب نئے نئے منصوبوں پر قوم کا قیمتی زرمبادلہ پھونکا جا رہا ہے۔ پہلے ’نئی روشنی‘ اور پھر ’پڑھا لکھا پنجاب‘ جیسے منصوبوں میں کتنا سرمایہ واقعی تعلیمی اداروں کی بہتری پر خرچ ہوا‘ اور کتنا محض تنخواہوں اور انگریزی اخبارات اور ٹیلی ویژن پر بے مغز تشہیری مہم کی آگ میں جھونکا گیا؟ اس کا کوئی جواب نہیں دیتا۔ اس پس منظر میں ’ابتداے بچپن کی تعلیم‘ کے ۴۲ہزار ۵ سو مراکز کے منصوبے پر بے پناہ اخراجات ہوں گے۔ اس کے لیے: ’’الگ بجٹ کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے‘‘(ص ۳۵)۔

  • مخلوط تعلیم:’ابتدائی تعلیم‘ تک رسائی کے عنوان کے تحت ایک سفارش یہ کی گئی ہے کہ: ’’پرائمری کی تعلیم خصوصاً دیہی علاقوں میں مخلوط پرائمری اسکولوں میں دی جائے ‘ جنھیں آہستہ آہستہ مڈل اسکولوں میں اپ گریڈ کر دیا جائے‘‘(ص۳۶)۔ یہ دراصل مڈل تک مخلوط تعلیم رواج دینے کی تدبیر ہے (دوسری طرف نجی شعبے میں عملاً انٹر اور ڈگری کلاسوں میں مخلوط تعلیم تیزی سے رواج پکڑ رہی ہے، اور بعض جگہ تو میٹرک کی سطح پر بھی ایسا ہے)۔ پاکستان کے دینی اور ثقافتی ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے، نیز تعلیمی نفسیات کے تقاضوں کے پیش نظر یہ سفارش نہ صرف ناقابل قبول، بلکہ تباہ کن اثرات کی حامل ہے۔ اس اقدام کے اخلاقی نتائج تو ایک طرف رہے‘ یہ عمل خود دیہی علاقوں میںبہت سے بچے بچیوں کے لیے تعلیم کے دروازے بند کرنے کا سبب بن جائے گا۔   مگر حکومت سافٹ امیج کی خاطر‘ امریکا کے حکم پر‘ لیکن ’کسی دبائو کے بغیر‘ معاشرے کو لبرل بنانے  کے لیے سب کچھ کرنے پر تیار ہے۔
  •  ذریعہ تعلیم: قرطاس ابیض کے ص۳۰-۳۲ پر ’ذریعہ تعلیم‘ کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ پاکستان میں نوکر شاہی نے اس معاملے کو کبھی حل نہ ہونے والے مسئلے کے طور پر زندہ رکھا ہے۔ رپورٹ میں پاکستان کی لسانی، گروہی اور علاقائی شناختوں کو اس مبالغہ آمیز انداز سے بیان کیا گیا ہے کہ نسلی یا لسانی قوم پرستوں کے لیے یہ رپورٹ تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ کہا گیا ہے: ’’پاکستان کثیرثقافتی اور کثیر لسانی قوموں کی فیڈریشن ہے‘‘۔(ص۶‘۱۳)

پاکستان کی سول اور ملٹری نوکر شاہی کی انگریزی سے مرعوبیت ختم ہونے میں نہیں آئی۔  اس مراعات یافتہ طبقے نے اردو کو ہمیشہ صوبائی زبانوں سے لڑا کر انگریزی کا راستہ صاف کیا ہے۔اسی لیے پالیسی دستاویز میں مذاق اڑاتے ہو ئے کہا گیا ہے : ’’زبان اور ذریعہ تعلیم کے مسئلے کو پاکستان میںسیاسی اور مذہبی حوالے سے لیا گیا ہے۔ یہاں کچھ علاقوں میں یقینا اردو ایک سامراجی زبان(imperialist language)  سمجھی جاتی ہے‘جب کہ انگریزی ترقی اور عمل کا ذریعہ ہے‘‘ (ص۳۱)۔ اس کے ساتھ ہی یہ سفارش کی گئی ہے : ’’پانچویں تک ذریعہ تعلیم کا مسئلہ صوبائی حکومتوں پر چھوڑ دیا جائے، پہلے تین سال کی تعلیم مادری زبان میں ہونی چاہیے… پنجابی اور بلوچی زبان کو کبھی ذریعہ تعلیم بنانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اس لیے اس سمت میں کام کیا جانا چاہیے کہ ان زبانوں میں درسی کتب تیار ہوں… اور۲۰۰۸ء تک جماعت سوم میں انگریزی زبان کی تعلیم لازمی کر دی جائے‘‘ (ص۳۱-۳۲)۔یہ بات بھی ’انکشاف‘کا درجہ رکھتی ہے کہ ’’پاکستان میں اردو کے خلاف فضا پائی جاتی ہے‘‘ اور یہ بھی ایک ’دریافت‘ ہے کہ پاکستان میں ذریعہ تعلیم کا مسئلہ ’مذہبی ہوّا‘ بنا ہوا ہے۔

صوبائی زبانوں کی اشاعت و ترویج ضروری ہے، لیکن محض روا روی میں یہ کہنا کہ مادری یا صوبائی زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنا دیا جائے، کوئی سنجیدہ بات نہیں معلوم ہوتی۔ امرواقعہ ہے کہ    صوبہ پنجاب میں کوئی بھی پنجابی کو باقاعدہ ذریعہ تعلیم بنانے میں دل چسپی نہیں رکھتا۔ صوبہ سرحد کے غیرپشتون علاقوں میں چترالی، بلتی، پوٹھوہاری، سرائیکی وغیرہ کے وسیع لسانی پس منظرکے تحت  صوبہ سرحد کی حکومت پشتو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔پھر صوبہ بلوچستان کو دیکھیں جہاں بلوچی کے علاوہ سندھی، پشتو ، سرائیکی، بروہی بولنے والی بڑی آبادیاں موجود ہیں۔ ان سب کے لیے بلوچی زبان کو بطورذریعہ تعلیم قبول کرنا ممکن نہیں ہے۔ اسی لیے ۱۹۷۲ میں نیشنل عوامی پارٹی کی بلوچ پشتون قوم پرست حکومت نے بھی صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان میں اردو ہی کو بطور سرکاری زبان اور بطور ذریعہ تعلیم اختیار کرنے کا اعلان کیا تھا۔

یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ محض پرائمری کلاسوں میں انگریزی لازمی کر دینے سے انگریزی نہیں آجائے گی۔ حکومت آج تک میٹرک، ایف اے، بی اے کی سطح پر طالب علموں کو کم از کم معیار کی انگریزی پڑھانے میں کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ وہ اس کے لیے مناسب تعداد میں اساتذہ‘ موزوں ماحول، لازمی تربیت اور بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ایسی صورت میں وہ اسکول جہاں ریاضی اور دوسرے لازمی مضامین پڑھانے کے استاد تک میسر نہیں ہیں‘ وہاں اس قدر بڑے پیمانے پر کس قیمت پر اور کس طرح انگریزی کی تدریس ممکن ہو گی؟ خدشہ ہے کہ دستاویز میں پیش کردہ ’تعلیمی منصوبہ بندی‘پرائمری ہی سے تعلیمی عمل برباد کرنے کے سوا کچھ اور نہ کرپائے گی۔

آل انڈیا مسلم لیگ نے ۱۹۰۸ء سے ۱۹۳۸ء کے دوران سالانہ اجلاسوں میں ۹ قراردادیں اردو کی بھرپور حمایت کے لیے منظور کیں۔ قائداعظم نے ۱۹۴۱ء، ۱۹۴۲ء، ۱۹۴۶ء میں اردو کو مسلمانان ہند کی قومی زبان، جب کہ ۱۹۴۸ء میں چار بار اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریک پاکستان کی ایک اہم بنیاد اردوتھی‘ مگر اسی بنیاد کو متنازع بنانے میں نوکر شاہی آج تک کامیاب رہی ہے۔ ۱۹۷۳ء میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں متعین کیا گیا کہ ۱۵سال کے اندر اردو کو انگریزی کی جگہ ملک کی سرکاری زبان کے طور پر نافذ کر دیا جائے گا اور یہ مدت ۱۴ اگست ۱۹۸۸ء تک تھی۔ دستور پاکستان میں یہ وعدہ آج بھی قائم ہے لیکن اب کہاں پر اردو کے خلاف آگ بھڑکائی جائے، اسے مقتدر طبقہ ہی خوب جانتا ہو گا، جو برعظیم میں مسلمانوں کے اتحاد کی علامت اردو کو گرانے کے لیے صوبائی زبانوں کا نعرہ لگاتا اور انگریزی کا راستہ ہموار کرتا ہے۔ 

  • فنی تعلیم:’’ہائر سیکنڈری اسکولوں میں پولی ٹکنیک اداروں کی طرح ٹیکنیکل ڈپلوما جاری کرنے کی سفارش کی جا رہی ہے‘‘(ص۴۸، ۴۹)۔ یہ سفارش ایسے ماحول میں دی جار ہی ہے‘ جب کہ ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹس کا ایک حد تک جال بچھ چکا ہے۔ دوسری طرف خود ہائر سیکنڈری اسکولوں میں معیاری سائنس کی تجربہ گاہیں نہیں بنائی جا سکیں۔ ان حالات میں ہائر سکینڈری اسکولوں کو ٹیکنیکل ورکشاپ کون دے گا؟یہ ثابت شدہ امر ہے کہ جنرل ایجوکیشن اور ٹیکنیکل ایجوکیشن ایک ادارے کی چھت تلے کامیاب نہیں ہوتی‘کیوں کہ فنی تعلیم کی اپنی ضروریات اور اپنا کلچر ہوتا ہے۔
  •  مراعات یافتہ طبقہ: پالیسی دستاویز میں یہ درست کہا گیا ہے کہ نجی شعبے کے اکثر تعلیمی ادارے پڑھانے سے زیادہ مال بنانے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود انھی اداروں کی تحسین بھی کی جار ہی ہے۔ دستاویز کاایک کمزور پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں مسلح افواج کی بلاواسطہ یا بالواسطہ سرپرستی میں چلنے والے مختلف تعلیمی سلسلوں (کنٹونمنٹ بورڈر اسکولوں ‘گیریژ ن اسکولوں ‘فوجی فائونڈیشن اسکولوں ، کیڈٹ کالجوں، ایئر فورس ماڈل اسکولوں اور مستقبل میں عسکری بورڈ وغیرہ) کے بارے میں کامل خاموشی برتی گئی ہے۔ حالانکہ ان اداروںکا وجود خود مختار جزیروں جیساہے جہاں مدتوں سے انگریزی ذریعہ تعلیم اور ایک مخصوص کلچر کی سرپرستی کرتے ہوئے اعلیٰ طبقاتی مزاج پروان چڑھایا جاتا ہے۔ اس نظام کو قومی دھارے میں لانا حب الوطنی اور سماجی شعور کا مظہر ہو گا۔

قیام پاکستان سے لے کر جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت کے خاتمے تک (۸۸-۱۹۴۷ء)‘  پاکستان میں اعلیٰ تعلیم پر امیر اور مراعات یافتہ طبقوں کی وہ یک طرفہ اور ظالمانہ اجارہ داری نہیں پائی جاتی تھی‘ جس کا دور دورہ آج دیکھا جا رہا ہے۔ زیادتی پر مبنی اس نظام کی نہ صرف ریاست کی پوری مشینری سر پرستی کر رہی ہے‘ بلکہ اس تعلیمی قرطاس ابیض میں بھی اس تضاد کو مزیدگہر ا کرکے تقویت دی گئی۔

  •  اعلٰی تعلیم:اعلیٰ تعلیم‘ یعنی ڈگری اور پوسٹ گریجویشن کے ’’طلبہ و طالبات کو  مصارفِ تعلیم میں زیادہ معاونت نہ دینے کی سفارش کی گئی ہے‘‘ (ص۴۱)۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کی فیسیں بڑھائی جائیں یعنی مہنگی تعلیم کو اعلیٰ تعلیم کے راستے کی رکاوٹ بنا دیا جائے۔یہ قدم ایک طرف تو دستور پاکستان کے آرٹیکل۳۷ کی خلاف ورزی ہے اور دوسری طرف غریب لیکن قابل طالب علموں کو اعلیٰ تعلیم سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔ اس طرح ان پالیسی سازوں نے مہنگی اعلیٰ تعلیم کی ناقابل عبور دیوار کھڑی کرکے قوم کے ذہین طبقے کو معاشی و سماجی دوڑ سے باہر نکال دیا ہے۔ (ایک طرف یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ہم تعلیمی ادارے اس لیے واپس کر رہے ہیں تاکہ حکومت پر سے مالی دباؤ کم ہو لیکن دوسری جانب مہنگی تعلیم کے ایک عیسائی مشنری ادارے کے حوالے سے یہ چشم کشا خبرپڑھیے کہ: ’’حکومتِ پنجاب نے فارمن کرسچین کالج لاہور کو مختلف منصوبوں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ۳۶کروڑ روپے کی امداد جاری کر دی ہے‘‘۔ [روزنامہ نواے وقت ، لاہور۲۲ فروری ۲۰۰۷ء] اور پنجاب یونی ورسٹی گوجرانوالہ کیمپس کے لیے جنرل مشرف نے [صرف] ۵۰ لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔نواے وقت‘ ۱۶ مارچ ۲۰۰۷ء)

آج سرکاری یونی ورسٹیوں میں بڑھتی ہوئی فیسیں، مخصوص پس منظر کے داخلہ ٹیسٹ، سیلف فنانس اور سیلف سپورٹ کے نام پر ایک ہی چھت کے نیچے دو تین رنگوں کا تعلیمی و تدریسی ماحول، کسی درس گاہ سے زیادہ تعلیمی ڈپارٹمنٹل اسٹور کا منظر پیش کرتا ہے۔ اس کے پہلو بہ پہلو نجی شعبے کے ڈگری دینے والے بیش تر ادارے کسی اخلاق اور معیار سے بالا تر رہ کر بدنام زمانہ فنانس کارپوریشنوں جیسی لوٹ کھسوٹ کا منظر پیش کرتے اور بچوں کے مستقبل سے کھیلتے نظرآتے ہیں۔ افسوس کہ یہ دستاویز ظلم و زیادتی کے اس کھیل پر بالکل خاموش ہے۔

  •  نجی سرکاری شراکت:آگے چل کرقوم کے تعلیمی مسائل کا حل’ نجی سرکاری شراکت داری‘ کے فارمولے (ص ۱۴‘۲۵)میں پیش کیا گیا ہے۔ اب تک اس ضمن میں جو تباہی مچائی جا چکی ہے، اس کا حساب دینا حکمرانوں پر قوم کا قرض ہے، مگر کوئی معقول جواب دینے کے بجاے تعلیم کو نجی ساہو کاروں کے ہاتھوں بیچنے کا سفّاکانہ عزم ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ڈی نیشنلائزیشن، انتظامی خود مختاری، پرایئویٹایزیشن اور بورڈ آف گورنر کے منصوبے درحقیقت درس گاہوں سے جان چھڑانے اور بیچنے کے بے رحمانہ منصوبے تھے، جن پر ایک حد تک ہی حکومت عمل کر سکی ہے۔ اب تعلیمی اداروں کی فروخت کے ہمہ گیر منصوبے کو ’نجی سرکاری شراکت داری‘ کے نئے لیبل میں بیچنے کا راستہ نکالا جا رہا ہے۔ جس سے یہ تعلیمی پالیسی دھیمے انداز میں سرکاری تعلیمی بساط لپیٹنے کا فرمان ثابت ہوگی۔ اس اقدام سے ایک ایسا د ر کھولنے کا اہتمام کیا جارہا ہے کہ سامراجی عزائم کے حامل ممالک کی پروردہ تنظیمیں یاکارپوریشنیں ملفوف ناموں سے رفتہ رفتہ قومی تعلیمی اداروں پر قبضہ جماتی چلی جائیں گی۔ زیرِ بحث پالیسی میں جس ’نجی سرکاری شراکت‘ کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے اس پر عمل درآمد کے لیے صوبہ پنجاب کے ۸۵ کالجوں کو ’ماڈل کالجوں‘ کا نام دے کر پہلے مرحلے میں قربانی کا بکرا بنانے   کے لیے فائلیں حرکت کر رہی ہیں۔

یہ بات اہل وطن کے علم میںرہنی چاہیے، کہ وفاقی وزیر تعلیم جنرل جاوید قاضی نے ۲۹ نومبر ۲۰۰۶ء کو امریکا میں جس مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے تھے اس میں یہ طے کیا گیا ہے کہ: ’’امریکا نے پاکستان میں تعلیمی اصلاحات کے لیے ۲۰۰۲ء سے اب تک ۲۰ کروڑ ڈالر دیے ہیں، لیکن اب ان میں مزید ۱۰ کروڑ ڈالر کا اضافہ کر دیا ہے۔ اور رقم کو خرچ کرنے کے لیے من جملہ دوسری چیزوں کے ’سرکاری اور نجی شراکت داری‘ کے لیے بھی روابط جاری رکھے جائیں گے‘‘ (دوماہی خبر ونظر، سفارت خانہ امریکا، اسلام آباددسمبر ۲۰۰۶ء، ص۷)۔ امریکی حکومت، حکومت پاکستان سے معاہدہ کرتے ہوئے نجی شراکت کے لیے فنڈ خرچ کرنے کا اختیار حاصل کر رہی ہے توسوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لفظ ’نجی‘ کہاں سے آ گیا‘ جب کہ یہ معاہدہ دو حکومتوں کے درمیان طے پا رہا ہے‘ نہ کہ نجی شعبوں کے درمیان۔ مطلب صاف ظاہر ہے کہ امریکی حکومت اپنے جس اعلامیے کو اسٹرے ٹیجک معاہدہ قرار دے رہی ہے، اس کے تحت وہ ان رقوم کو مختلف منظور نظر مقامی یا عالمی این جی اوز یا مشنریوں کے ذریعے استعمال کر سکتی ہے۔ یوں امریکیوں کی اس پر اکسی (proxy) خرید و فروخت کو ریاستی پروٹوکول کے تحت، پاکستان میں تعلیمی اداروں اور ان کی زمینوں کو طویل مدتی پٹے پر خریدنے اور من مانے نصاب پڑھانے یا انتظام و انصرام چلانے کا لائسنس مل جائے گا۔ اب سے ایک سو برس قبل سرزمین فلسطین پر یہودیوں نے اسی طرح رفتہ رفتہ املاک خرید کر اسرائیل کی ناجائز ریاست بنائی تھی‘ جب کہ عیسائی مشنری تعلیمی ادارے آج بھی پاکستان میں، ریاست در ریاست کا عکس پیش کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ان مشنری تعلیمی اداروں سے پڑھ کر نکلنے والے طاقت ور لوگ اگرچہ عیسائی نہیں بنے، مگر ان میں سے ایک قابل ذکر تعداد کے لیے، اسلام سے وابستگی شرمندگی کا باعث ضرور بنتی ہے، جس کے لیے وہ ’روشن خیالی‘ کے خود ساختہ مذہب میں پناہ  ڈھونڈتے ہیں۔

  • پالیسی میں این جی اوز کو خواندگی اور غیر رسمی تعلیم کی ترویج کے لیے بھاری گرانٹس دینے کی سفارش کی گئی ہے۔ تعلیم کے خوش نما نام پر تہذیبی اور کاروباری این جی اوز کے چلن کو دیکھتے ہوئے‘ یہ اقدام بھی ملک عزیز میں کرپشن، معاشرتی انتشار اور وسائل کے ضیاع پر منتج ہوگا۔
  • اسلامک ایجوکیشن: اس عنوان کے تحت پہلی سفارش میں کہا گیا ہے کہ: ’’سرکاری اسکولوں کا معیار اور ان تک لوگوں کی رسائی اس سطح تک ممکن بنائی جائے کہ وہ اپنے بچے انگلش میڈیم، پرائیویٹ اسکولوں اور دینی مدارس میں نہ بھیجیں‘‘(ص۵۲)۔ اس سفارش کا اسلامک ایجوکیشن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بنتا۔ دوسری سفارش میں کہا گیا ہے کہ:’’ اسلامی علوم میں اعلیٰ تعلیم کے خواہش مند افراد کی اس وقت تک حوصلہ شکنی کی جائے جب تک ایسی تعلیم دینے والے ادارے معاشرے کو    تباہ کن اور تقسیم کرنے والی سرگرمیاں چھوڑ کر محض تعلیم دینے والے ادارے نہ بن جائیں‘‘ (ص۵۲)۔ دستاویز کے ڈھانچے میںیہ جملہ بھی کسی مثبت پیغام کے بجاے انتہاپسندانہ فکری جارحیت کا مظہر ہے۔

یہاں پرایک اور توجہ کے قابل یہ خبرہے کہ، وفاقی وزیر تعلیم جنرل جاویدقاضی نے اخبار نویسوں کو بتایا: ’’صوبہ سرحد کی حکومت نے نویں جماعت کی اردو کی کتاب میں اسلامی تاریخ کے مزید مضامین‘ جب کہ اسلامیات کی کتاب میں مزید آیات اور احادیث کو اردو ترجمے کے ساتھ شامل کرنے کے مطالبات کیے تھے۔ ہم نے مزید دینی مواد شامل کرنے کے یہ مطالبے تسلیم کر لیے ہیں‘ لیکن نصاب میں یہ تبدیلیاں صرف صوبہ سرحد میں نافذ العمل ہوں گی‘‘ (نواے وقت، لاہور ۷فروری۲۰۰۷ء)۔ اس خبر کا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ایسا صرف سرحد میں ہو سکتا ہے، غالباً باقی پاکستان کے تین صوبوں کو اسلامی تاریخ یا دینی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے۔یہ متضاد فیصلے کون سی ’روشن خیالی‘ ہے؟

  •  اسلام کے بجاے جمھوریت: ماحول کے ساتھ تعلق کے ذیلی عنوان میں سفارش کی گئی ہے: ’جمہوریت بطور نظریۂ حیات‘کو تعلیم کا شعوری حصہ ہونا چاہیے، جو کہ اسکولوں کے ذریعے بچوں کو دی جائے‘‘(ص۵۵)۔ یہ سستی نعرے بازی اس ملک میں کی جارہی ہے‘جہاں سول اور فوجی اعلیٰ ملازمین ریاست، خود قوم ہی کے عطا کردہ وسائل و اختیارات استعمال کر تے ہوئے اس کا دستور پامال کرتے ہیں اور جمہوریت کو برباد کرکے عدل اور انتظام کے سرچشموں پر قابض ہو جاتے ہیں‘ اور پھر حد درجہ ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اس فعل کو’ جمہوریت کی خدمت ‘قرار دیتے ہیں۔ دوسری توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ اقبال اور قائداعظم کے فرامین کے مطابق گذشتہ تمام حکومتوں کے دورِ اقتدار اور تعلیمی پالیسیوں میں: پاکستان میں اسلام ایک نظریہ حیات کی تعلیم پرزور دیا جاتا رہا ہے، اب اقتدار کے سرچشموں پر قابض قوتوں کو اس جملے سے چڑ ہو گئی ہے ، شاید اسی لیے ہمارے ہاں اب ’اسلام بطور طرزِزندگی‘ کے بجاے ’جمہوریت بطور طرزِ زندگی‘ کی تعلیم و تربیت دینے کی زبانی کلامی خدمت انجام دی جارہی ہے۔
  •  اصولی اور سماجی مسائل: اس عنوان کے تحت کہا گیا ہے :’’ پاکستان گذشتہ عشروں سے انتہا پسندی، عدم برداشت اور فرقہ واریت کی آگ میں سلگ رہا ہے۔ اب ضروری ہے کہ اسکولوں میں تعلیم کو فرقہ واریت کی تفریق سے بالا تر رہنے کے لیے استعمال کیا جائے‘‘ (ص۵۳)۔ ایک یا دو مقامات پر چند لوگوں کے معمولی جھگڑوں کے علاوہ پاکستان بھر میں کہیں  فرقہ وارانہ فساد یا مسلکی نفرت کا ہرگز عوامی یا عمومی سطح پر وجود نہیں پایا جاتا اور نہ ہر مسجد سے     فرقہ وارانہ فسادات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ لیکن مخصوص مفادات کے حامل طبقے دینی قوتوں یا   دینی تعلیمات کو بدنام کرنے کے لیے یہ بات بے رحمانہ مبالغہ آمیزی سے اچھالتے ہیں اور اسی کے پردے میں دینی درس گاہوں اور جدید تعلیمی اداروں میں اسلامی تعلیم کی کانٹ چھانٹ کا جواز پیدا کرتے ہیں۔ یہ کھیل اس دستاویز کے اوراق پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
  •  خاندانی منصوبہ بندی بطور مضمون: ’آبادی میں اضافے سے تعلق‘کے زیرعنوان اس تعلیمی پالیسی دستاویز میں لکھا گیا ہے:’’۶۰ کے عشرے کے بعد حکومتوں نے ’آبادی کی بہبود اور انتظام‘ کے لیے بہت سے اقدامات کیے، لیکن عقیدہ پرستی اور تقدیر پرستی نے آگہی کے ان مہنگے پروگراموں کو ناکام بنا کر رکھ دیا۔ جس کے نتیجے میں نظام تعلیم بحیثیت مجموعی اس میدان میں کوئی خدمت انجام دینے میں ناکام رہا ہے، اس لیے’ بہبود آبادی‘[خاندانی منصوبہ بندی] کو شعوری طور پر تعلیم سے منسلک کرنا ہوگا‘‘(ص ۵۳)۔ آگے چل کر سفارش کی گئی ہے: ’آبادی کی بہبود اور انتظام‘ کے لیے مثبت اور دل چسپ انداز سے اسکولوں کی درسی کتب میں پڑھایا جائے‘‘(ص۵۵)۔    مڈل سے ہائی اسکولوں کی کلاسوں میں خاندانی منصوبہ بندی کی یہ تعلیم کون سی روشن خیالی کا چراغ جلانے کا ذریعہ بنے گی؟اسے جاننے کے لیے ملک میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی اور ’محفوظ جنسی‘ درسیات کا مطالعہ ہی ہوش ربا تھا، اوپر سے ’تحفظ حقوق نسواں ایکٹ‘ سونے پر سہاگہ سمجھا جا رہا ہے‘اور موسیقی کی آگ جنگی بنیادوں پر بھڑکائی جارہی ہے۔
  • قرطاس ابیضمیں لکھا ہے : ’’ماضی کی تعلیمی پالیسیاں حکومت وقت کی سیاسی اور نظریاتی سوچ کی آئینہ داری ہوتی تھیں‘ لہٰذا وہ قومی سطح پر نہ تو کوئی پذیرائی حاصل کر سکیں اور نہ مطلوبہ نتائج ہی پیدا کر سکیں‘‘۔ مگر زیربحث پالیسی میں جوسمت اور فریم ورک دیا گیاہے، کیا یہ کھلم کھلا وہی ایجنڈا  نہیں ہے جو امریکی احکامات کی فرماں برداری میں بزور نافذ کیا جا رہا ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی کے ابتدائی مسودے میں پاکستان کے تعلیمی شعبے کے انتظام کے لیے قانونی ڈھانچا کے تحت دستور اور متعلقہ قوانین کا ذکر کیا گیا ہے(ص ۷۳-۷۵)‘ لیکن پالیسی میں آئینی امور اور متعلقہ حصوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ’قرار داد مقاصد‘ کے اس حصے کو بالکل نظر انداز کر دیا ہے‘ جو پاکستان میں تعلیم کے تصور کو دستوری تقاضوں کی زبان عطا کرتا ہے۔

وزارتِ تعلیم نے مارچ ۲۰۰۷ء کے وسط میں قرطاس ابیض کا نظرثانی شدہ مسودہ شائع  کیا ہے۔ اسے دسمبر ۲۰۰۶ء کے وائٹ پیپر سے ملا کر دیکھیں تو کوئی خاص تبدیلی نہیں کی گئی بلکہ قابلِ اعتراض حوالوں کو مزید زور سے بیان کیا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ تعلیمی پالیسی تو آئے گی‘ مگر ان میں سے اکثر چیزوں پر حکومت پہلے سے عمل کر رہی ہے۔

اس مختصر جائزے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ قومی تعلیمی پالیسی، مغربی مراکز دانش (think tanks) کی طرف سے وقتاً فوقتاً دیے جانے والے احکامات کو عملی جامہ پہنانے کی ایک عاجلانہ اور غیر دانش مندانہ کوشش ہے۔ یہ قرطاس ابیض  قومی نظام تعلیم اور بالخصوص قومی تعلیمی اداروں میں تازگی، فعالیت اور معنویت لانے کے باب میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا‘ بگاڑ ضرور پیدا کرے گا۔