اپریل۲۰۰۷

فہرست مضامین

بچوں کی تعلیم و تربیت : دو اہم پہلو

| اپریل۲۰۰۷ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

سوال : میرا بچہ چار سال کا ہے اور اسے اسکول میں داخل کرانا ہے۔ بظاہر یہ کوئی  مسئلہ نہیں لیکن میں سوچ سوچ کر پریشان ہوگئی ہوں۔ آپ مجھے کسی ایسے اسکول کا نام  بتا دیجیے جہاں بچے کو داخل کرانے سے اس میں آخرت کا تصور دنیا کے تصور پر حاوی ہوجائے۔

میں نے حال ہی میں اسلام کا مطالعہ شروع کیا ہے۔ مجھے ایسے لگتا ہے کہ میں نے ساری زندگی ضائع کی ہے۔ اگر ایک شخص پہلے کوئی چیزسیکھ کر اپنے اُوپر نافذ کرے اور پھر بچے کو سکھائے تو اس طرح تو بہت وقت لگ جائے گا اور پھر بھی معلوم نہیں کہ بچے کی صحیح تربیت ہو یا نہ ہو۔ ایک بات مجھے اور پوچھنا ہے وہ یہ کہ جیساکہ اسلام د ین .ِ فطرت ہے تو اسلامی نقطۂ نظر سے کس عمر میں بچے کو ماں سے الگ کر کے اسکول بھجوانا چاہیے؟

جواب: آپ نے دو بڑے اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ ایک کا تعلق تربیت اولاد سے ہے اور دوسرے کا خود اپنی تعلیم اور تزکیہ سے۔ دین کے علم کے حصول کے لیے نہ عمر کی کوئی قید ہے نہ وقت کی۔ ایک ۷۰سالہ شخص اگر چاہتا ہو کہ قرآن کریم کو صحیح طور پر پڑھنے اور سمجھنے کے لیے ایک طالب علم کی حیثیت سے حصول علم کرے تو اسلام اس کے اس عمل کو عبادت میں شمار کرتا ہے۔ دین کے علم کو صرف قرآن کریم کی تلاوت یا ترجمہ و تفسیر کی مدد سے پڑھ لینے یا حدیث کی کسی کتاب کا مطالعہ کرلینے یا فقہ کی کسی مستند تحریر کو پڑھ لینے تک محدود کردینا بھی مناسب نہیں۔ اس لیے کہ قرآن کریم خود اپنے ماننے والوںکو نہ صرف کتابِ عظیم کے معانی پر غور کرنے اور اس کی تعلیمات کی تطبیق کرنے کا حکم دیتا ہے‘ بلکہ کتابِ کائنات کے مطالعے اور اس پر غوروفکر کرنے کے بعد ان علوم کی تدوین اور حصول کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے جواللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ کائنات کے تنوع‘ نظم و ضبط اور خوب صورتی میں پوشیدہ اسرار و رموز کہلاتے ہیں۔

آپ کا دین اسلام کا مطالعہ کرنا اور اسلام کو بحیثیت نظامِ حیات سمجھنے کے لیے کوشش کرنا ایک انتہائی قابلِ تعریف اقدام ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو مزید توفیق دے کہ آپ قرآن و سنت کے دیے ہوئے نظامِ حیات کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوسکیں۔ اس کام کا آغاز کردینا سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس لیے کہ قرآن کریم ہم پر صرف اسی بات کی جواب دہی عائد کرتا ہے جو ہمارے علم میں ہو۔ اگر آپ نے محض قرآن کریم کی ایک آیت پر غور کیا اور اس کا مفہوم سمجھا تو آپ کی جواب دہی جو کچھ آپ کے علم میں ہے اسی کی ہے۔ اگر آپ اس علم کو آگے نہیں پہنچاتیں تو گرفت ہوگی۔ اس لیے خود حصولِ علم اور تزکیہ کرتے وقت اس انتظار میں قطعاً نہ رہیں کہ جب تک سفر علم کو مکمل نہ کرلیا جائے اس وقت تک آپ اپنے بچے کی تعلیم کسی اور کے سپرد کردیں بلکہ جتنا علم ہو اُسے اولاد تک پہنچانے میں تاخیر نہ کریں۔ اس طرح خود آپ کو مزید غور کرنے اور اپنی معلومات کو وسیع کرنے کا موقع ملے گا۔

دوسری اہم بات جو آپ نے اپنے خط میں ذکر کی ہے وہ آپ کی یہ خواہش کہ آپ کا بچہ دنیا کے بجاے آخرت کی طرف متوجہ ہوجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم صحیح معنوں میں آخرت پر ایمان لے آئیں تو دنیا میں برپا ہونے والے بے شمار فتنوں اور فساد سے نجات حاصل کرسکتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آخرت بنانے کے لیے دنیا کو شیطان پر چھوڑ دیا جائے۔ آخرت کا راستہ دنیا ہی سے گزر کر جاتا ہے اور اگر ہم صراطِ مستقیم کو اختیار کرلیں اور دنیا میں اس پر قائم ہوجائیں تو ان شاء اللہ آخرت کی منزل خودبخود آسان ہوجاتی ہے۔

بعض حضرات کا خیال ہے کہ بچے کو قرآن کریم حفظ کرا دینا اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ آخرت کی طرف خود بخود مائل ہوجائے گا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ آپ صحت اچھی کرنے کے اصولوں کی ایک کتاب جو فارسی یا ترکی میں لکھی گئی ہو پوری حفظ کرلیں تو کیا اس کا یہ حفظ کرنا آپ کی صحت کو بہتر بنا دے گا؟ ہاں‘ قرآن کریم چونکہ رب کریم کا کلام ہے‘ اس لیے اس کے ہرہرحرف کا مفہوم سمجھے بغیر بھی وہ کلام الٰہی ہی رہتا ہے اور اس بنا پر ان کا اجر ہمیں ملتا ہے۔ لیکن جب الکتاب خود بار بار یہ کہہ رہی ہو کہ اس کے کلمات بعض عربی سمجھنے والے بدوؤں کے حلق سے نیچے نہیں اُترتے‘ وہ اسے سنتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں‘ ان کے دل پر تالے پڑے ہوئے ہیں جو اس کلیدِ حیات سے بھی نہیں کھلتے تو اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ بچے کو نہ صرف روایتی دینی علوم بلکہ ان دینی علوم کو صحیح طور پر استعمال کرنے کے لیے وہ علوم بھی سکھانے چاہییں جنھیں بعض سادہ لوح دنیاوی علوم کہتے ہیں۔

آخرت کی کامیابی کے لیے نہ صرف عقیدے کا درست ہونا بلکہ اس کے ساتھ عملِ صالح کا اختیار کرنا بھی شرط ہے اور عمل صالح کا مطلب رزق حلال‘ حلال معاشرت‘ حلال سیاست‘ حلال ثقافت اور حلال تفریح ہے۔ گویا زندگی کے تمام معاملات کو اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت کا تابع بنانا۔ یہ کام اسی وقت ہوگا جب آپ کا بچہ تمام علوم سیکھے لیکن اس کا مقصد محض حصولِ ملازمت نہ ہو بلکہ   اللہ تعالیٰ کی بندگی اور رضا کا حصول ہو۔ اس کام کے لیے آپ کو ہرلمحے بچے کے ساتھ گفتگو کرکے   یہ بات ذہن نشین کرانی ہوگی کہ وہ سچ‘ امانت اور بلاخوف حق پر عمل کرنے میں فخر محسوس کرے۔   اس طرح اس کی دنیا ان شاء اللہ آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بن سکے گی۔(ڈاکٹر انیس احمد)

ایک نصیحت

س: میرا کسی کام میں دل نہیں لگتا۔ کامیابی کا یقین نہیں آتا۔ کیا کروں؟

ج:  پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ تم ان شاء اللہ سب کچھ بہت اچھا کرو گے۔ بس ایک دفعہ پختہ ارادہ کرلو کہ تم اپنے کام میں لگے رہو گے۔ یہی اصل بات ہے۔ کامیابی اور مسرت کے حصول کی دو شرائط ہیں: اوّل، تمھاری سعی/کوشش/شرکت/ موجودگی۔ دوم، اللہ تعالیٰ کی مدد اور رضامندی۔ اچھی خبر یہ ہے کہ تمھاری سعی کُل کا صرف ایک فی صد ہے‘ جب کہ اللہ کا حصہ ۹۹ فی صد ہے۔ اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ    اللہ تعالیٰ کا حصہ لازماً مل کر رہتا ہے‘ اُس نے اس کی ضمانت دی ہے۔ (فاروق مراد)