’مسئلہ کشمیر کے چار حل‘ (مارچ ۲۰۰۷ء) سید مودودی علیہ الرحمہ کا تاریخی تجزیہ آج بھی زندہ حقیقت ہے اور دعوتِ عمل دیتا ہے۔
’قائداعظم اور سیکولرزم‘ (مارچ ۲۰۰۷ء) کے مطالعے سے ایک تاریخی حقیقت بے نقاب ہوئی‘ اور سیکولر حلقوں کی نام نہاد معروضیت بالخصوص جسٹس منیر کی علمی دیانت کا پول کھل کر رہ گیا۔
’شرق اوسط میں امریکی حکمت عملی خانہ جنگی‘ (فروری ۲۰۰۷ء) اور اسی موضوع پر امریکی نقطۂ نظر (مارچ ۲۰۰۷ء) چشم کشا تحریریں ہیں۔ امریکا مسلمانوں کی تباہی و بربادی اور مسلم ممالک پر اپنا تسلط جمانے کے لیے کون کون سے منصوبے بنا رہا ہے‘ جب کہ مسلم دنیا کے سیاہ و سفید کے مالک امریکا نوازی اور خودسپردگی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مصروف ہیں۔ مسلمانوں نے ہمیشہ انتشار و افتراق‘ عدم اتحاد و اتفاق‘ ٹکڑوں میں بٹ جانے اور میرجعفروں و میرصادقوں کی وجہ سے مار کھائی ہے۔ اہلِ پاکستان اور اہلِ ایران کے لیے اس میں بڑاسبق ہے۔
سیدابوالاعلیٰ مودودی کی تحریر ’مسئلہ کشمیر کے چار حل‘ (مارچ ۲۰۰۷ء) سے موجودہ حکومت نے جو کنفیوژن پیدا کردیا ہے اس کی تصویر واضح ہوگئی ہے۔ مدیر کی جانب سے وضاحتی نوٹ نے اس کی افادیت میں مزید اضافہ کردیا۔ ’عصرحاضرکا بحران اور آیندہ لائحہ عمل (مارچ ۲۰۰۷ء) خاصے کی چیز ہے۔ اس میں قرآنی اصولوں کی روشنی میں بڑی خوبی سے عملی رہنمائی دی گئی ہے۔
’غیرمنظم نیکی بمقابلہ منظم برائی‘ (مارچ ۲۰۰۷ء) میں معاشرے کی ابتر صورت حال کا صحیح تجزیہ کیا گیا ہے‘ اور منظم جدوجہد کے لیے عملی راہ دکھائی گئی ہے۔ ’حقیقی بنیاد پرستی کے خدوخال‘ میں ڈاکٹر انیس احمد نے بجا فرمایا کہ عوام تو دین کے لیے مرمٹنے کا جذبہ رکھتے ہیں‘ اصل مسئلہ مغرب کے آلۂ کار مسلم حکمران ہیں۔
شذرہ نگار نے ہر روز مغرب کے بعد مسجد سے باہر آکر تین چار نعرے لگاکر احتجاج کو زبان دینے کی ایک قابلِ عمل تجویز پیش کی ہے (مارچ ۲۰۰۷ء)۔ اس میں ترمیم کر کے نمازِعصر کے بعد کرلیا جائے‘ اس لیے کہ اس نماز کے بعد سب لوگ ایک ہی وقت مسجد سے باہر نکلتے ہیں۔ ایرانی انقلاب کے زمانے میں شہروں میںوقت مقررہ پر ہارن بجا کر احتجاج کیاجاتا تھا۔ اسے بھی آزمایا جاسکتا ہے۔ حکمرانوں کا اصل ہدف مساجد‘ مدارس اور علماے دین ہیں۔ اس لیے ردعمل بھی انھی کی طرف سے زیادہ ہونا چاہیے۔ اگر ایک پروگرام کے تحت رات کے تین بجے پورے ملک میں ہرطرف اذانیں دی جائیں تو یہ احتجاج اور حصولِ نجات کا شرعی طریقہ ہے۔ احتجاج کے طریقۂ کار میں جدت کی ضرورت ہے۔ ریلیوں کے نام پر جلسے اور ان میں طویل تقریریں پہلے سے مسئلہ جاننے کی وجہ سے دل چسپی نہیں رکھتیں۔
’ترکی میں چند روز‘ (فروری‘ مارچ ۲۰۰۷ء) دل چسپ اور معلومات افزا‘ رُودادِ سفر ہے۔ ترک عوام اور ان کے ہر دلعزیز قائدین کی دین اسلام سے وابستگی‘ پوری دنیا کے مسلمانوں خصوصاً اسلامیانِ پاکستان سے محبت‘ سیدمودودیؒ اور علامہ اقبالؒ سے عقیدت‘ دینی اور سیکولر حلقوں میں تفہیم القرآن کی پذیرائی‘ دُوررس نتائج کے حامل ہیں۔ کاش! پاکستان کے حکمران نفاذِ دین کے عہد کی پاس داری کرتے تو آج پاکستان پوری اسلامی دنیا کا رہنما اور غیرمسلم دنیا کے لیے بھی مینارئہ نور ثابت ہوتا۔
’اسلامی نظریاتی کونسل اور قانونِ تحفظ نسواں‘ (جنوری ۲۰۰۷ء) جان دار تحریر تھی۔ ڈاکٹر خالد مسعود اسلامی نظریاتی کونسل کی بجاے حکومت کا دفاع کرتے نظر آئے‘ لیکن پروفیسر خورشیداحمد نے ان کے استدلال کا تاروپود بکھیرکر رکھ دیا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل سابقہ رپورٹیں توثیق کے بغیر من و عن شائع کرنے سے کترا رہی ہے۔ یوں لگتاہے کہ وہ پہلے اسے روشن خیال نظریات کی پالش سے چمک دار بنانا چاہتی ہو۔ ان میں علمی مقابلہ کرنے کی جرأت نہیں۔
’عزیمت و استقامت کی ایمان افروز داستان‘ (فروری ۲۰۰۷ء) پڑھ کر ایمان تازہ ہوگیا۔ ایسی تحریریں پڑھنے سے انسان کا ایمان مضبوط اور اس کے اندر تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر انسان ثابت قدم رہے تو اللہ تعالیٰ کی ذات انسان کے لیے آسانیاں پیدا کردیتی ہے۔