جارحیت کسی اخلاق کی پابند نہیں ہوتی۔ دورِحاضر میں مسلم دنیا جس ہمہ گیر جارحیت کا سامنا کر رہی ہے‘ یہ کوئی وقتی اُبال نہیں ہے۔ ماضی میں اس جارحیت کا انداز مختلف تھا‘یعنی محاذجنگ‘ الزامی پروپیگنڈا اور پھر سازش کا سہارا۔ تاہم موجودہ دور میں دشمن نے ان اسالیب کو اختیار کرنے کے ساتھ‘ مسلم اُمت کے فعال کارکنوں اور بزرگوں کی زبان بندی‘ روابط و تعلقات کی تنسیخ اور اظہاروبیان کے حق کے تعطل کو بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ اس ظلم کے فتنوں کو اُبھارنے کے لیے بین الاقوامی اداروں اور ریاستی وسائل سے مدد لی جاتی ہے اور مسلم دنیا کے باج گزار حکمرانوں کی معاونت سے‘ خود مسلم دنیا پر عذاب مسلط کرنے کے منصوبوں پر عمل کیا جاتا ہے۔ اسی تسلسل کی ایک کڑی الرشید ٹرسٹ اور الاختر ٹرسٹ پر عائد کی جانے والی پابندیاں ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ۱۸ فروری ۲۰۰۷ء کو امریکی حکومت نے کہا کہ الرشید اور الاختر ٹرسٹ کے رفاہی پردے میں دہشت گردی کی پشت پناہی ہورہی ہے۔ جس پر اسی رات پاکستانی وزارتِ خارجہ کے حکم پر ان دونوں تنظیموں کے دفاتر پر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے دھاوا بول دیا۔ راولپنڈی کے موتی پلازا اور کراچی کی طارق روڈ پر ان کے دفاتر نشانہ بنائے گئے۔ سیکڑوں کارکنوں کو گرفتار کرکے صرف الرشید ٹرسٹ کے ۲۸دفاتر سربمہرکردیے۔ بنکوں میں کھاتے منجمد کردیے‘ رفاہی منصوبوں کو معطل کرنے کی جانب پیش قدمی کی‘ جرائد کی اشاعت منسوخ کرنے اور انٹرنیٹ ویب سائٹس روک دینے کا ارادہ ظاہر کیا۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’’ہم اقوام متحدہ کی پابندیاں عائد کرنے والی کمیٹی کی ہدایات پر عمل کر رہے ہیں‘‘۔
۲۰۰۱ء میں امریکی صدر کے حکم پر حکومت پاکستان نے الرشید ٹرسٹ کے مالی وسائل منجمد اور دفاتر سربمہر کردیے۔ الرشید ٹرسٹ نے سندھ کی عدالت عالیہ میںدادرسی کے لیے رجوع کیا جس نے اگست ۲۰۰۳ء میں ٹرسٹ کو بحال کردیا۔ ۲۰۰۵ء کے زلزلے میں اس ٹرسٹ نے غیرمعمولی خدمات انجام دیں۔ لیکن اب پھر ان ملّی و قومی اداروں کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔
اس جارحیت کے متعدد مضمرات ہیں‘ جن پر ٹھنڈے ذہن کے ساتھ غور کرنا ملک و ملّت کے ہر بہی خواہ کی ذمہ داری ہے۔ بعض قابلِ غور پہلو:
کیا ہمارے حکمرانوں کو اب بھی نظر نہیں آتا کہ امریکا پاکستان کادوست نہیں۔ اب تو روز بے وفائی کا اظہار ہوتا ہے ‘ لیکن اب بھی وہ خوشی خوشی ان احکامات کی بھی تعمیل کرتے ہیں جو صاف صاف پاکستان کے مفاد کے خلاف اور اس کے شہریوں کو نقصان پہنچانے والے ہیں۔ کاش! اس ملک میں راے عامہ بیدار ہوتی تو حکومت کو اس قسم کا اقدام کرنے کا حوصلہ ہی نہ ہوتا۔