اپریل۲۰۰۷

فہرست مضامین

علامہ اقبال کی وابستگیِ رسولؐ: چند پہلو

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی | اپریل۲۰۰۷ | اقبالیات

Responsive image Responsive image

یہ حیاتِ اقبال کا ایک معروف واقعہ ہے‘ جسے خود اقبال نے اپنی فارسی مثنوی رمـوزِ بے خودی (۱۹۱۸ء) میں بیان کیا ہے۔ مثنوی کے متعلقہ حصے کا عنوان ہے: ’’درمعنیِ ایں کہ  حسنِ سیرتِ ملّیہ از تادّب بآدابِ محمدیہ است‘‘ یعنی اس مضمون کی وضاحت میں کہ ملّت اسلامیہ کا حسنِ سیرت و کردار‘ آدابِ محمدیہؐ کی اتباع میں ہے۔

علامہ اقبال بتاتے ہیں کہ میرے لڑکپن کا زمانہ تھا‘ بلکہ آغازِ عہدِشباب تھا۔ ایک روز ایک بھکاری ہمارے گھر کے دروازے پر آیا اور اُونچی اُونچی آواز سے بھیک مانگنے لگا۔ میں نے چاہا کہ وہ ٹل جائے مگر وہ پیہم صدا بلند کرتا رہا۔ مجھے غصہ آگیا۔ جوشِ جذبات میں مجھے اچھے بُرے کی تمیز نہ رہی‘ اور میں نے اس کے سر پر ایک لاٹھی دے ماری۔اس نے اِدھر اُدھر سے بھیک مانگ کر جو کچھ بھی جمع کیا تھا‘ وہ سب کچھ اس کی جھولی سے زمین پر گرگیا۔ والد صاحب یہ منظر دیکھ رہے تھے‘ میری اس حرکت سے بے حد آزردہ ہوئے‘ چہرہ مرجھا گیا اور افسردگی چھا گئی۔ ان کے لبوں سے ایک جگرسوز آہ نکلی‘ اور دل سینے میں تڑپ اُٹھا۔ ستارے جیسا ایک آنسو آنکھوں سے نکلا‘ پلکوں پر چمکا اور گرگیا۔

یہ دیکھ کر مجھے بے حد ندامت اور خفّت ہوئی کہ میں نے والد کو سخت تکلیف پہنچائی۔ اپنی اس حرکت پر بے قرار بھی ہوا (کہ اب تلافی کیسے ہو؟)

اسی کیفیت میں والدماجد کہنے لگے: اُمت مسلمہ کل اپنے آقا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جمع ہوگی۔ ان میں ہرطبقے کے لوگ ہوں گے: غازی‘ حفاظِ حدیث‘ شہدا‘ اکابراُمت‘ زاہد‘ عالم اور گنہگار بھی‘ اس موقع پر اس دردمند گدا کی صدا بلند ہوگی (وہ فریاد کرے گا کہ مجھ سے ایک نوجوان نے زیادتی کی ہے) چنانچہ نبی کریمؐ مجھ سے مخاطب ہوں گے:

حق جوانے مسلمے با تو سپرد
کو نصیبے از دبستانم نبرد

از تو ایں یک کار آساں ہم نہ شد
یعنی آں انبارِ گل آدم نہ شد

حق تعالیٰ نے ایک مسلمان نوجوان کو تیرے سپرد کیا تھا (کہ تو اسے صحیح تعلیم و تربیت دے) لیکن اس نوجوان نے میری ادب گاہ سے کوئی سبق حاصل نہ کیا۔ (حضوؐرفرمائیں گے کہ) تو اس آسان سے کام کو بھی انجام نہ دے سکا‘ یعنی تجھ سے ایک تودۂ مٹی آدمی نہ بن سکا۔

والد نے فرمایا کہ اگرچہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس ملامت میں بھی نرم گفتار ہی ہوں مگر میں تو سخت خفیف اور شرمندہ ہوں گا اور اُمیدوبیم میں گرفتار ہوں گا۔ پھر مجھے مخاطب ہوکر کہا: بیٹا! ذرا سوچو اور رسولؐ اللہ کی اُمت کے جمع ہونے کامنظر تصور میں لائو‘ پھر میری یہ سفید ڈاڑھی دیکھو اور میرے اُمیدوبیم کے لرزے کو نگاہ میں رکھو۔ اس کے بعد بڑے دردمندانہ لہجے میں کہنے لگے:

بر پدر ایں جورِ نازیبا مکن
پیشِ مولا بندہ را رسوا مکن

غنچہ ای از شاخسارِ مصطفی
از بہارش رنگ و بو  باید گرفت

گل شو از بادِ بہار مصطفی
بہرۂ از خلقِ اُو باید گرفت

(دیکھو‘ بیٹا) اپنے باپ پر یہ نازیبا ظلم نہ کرو ۔(کل) آقا کے سامنے غلام کو رسوا نہ کرنا۔ تو شاخسارِ مصطفی کا ایک غنچہ ہے‘ حضوؐر ہی کی نسیمِ بہار سے شگفتہ ہوکر پھول بن جا۔ تجھے آپؐ  کی بہار سے رنگ وبو حاصل کرنی چاہیے اور تجھے آپؐ  کے خلقِ عظیم کی اتباع کرنی چاہیے۔

وجوہات تو اور بھی ہیں‘ مثلاً اقبال کے گھرانے کی دین سے گہری وابستگی‘ مذہبی شعائر کی پابندی‘ والدۂ اقبال کا جذبۂ خدمتِ خلق‘ پھر علامہ میرحسن کی علمی اور اخلاقی تربیت اور خود اقبال کے والد شیخ نورمحمد کا روحانی مزاج‘ نیک نفسی‘ اور پرہیزگاری وغیرہ ___ لیکن راقم کی دانست میں یہی  وہ واقعہ ہے جس نے اقبال کے قلب و ذہن میں‘ آخرت میں جواب دہی کے احساس و شعور کو بیدار کیا اور ان کے نیک طینت والد نے اپنی مذکورہ بالا دل سوز و دردمندانہ گفتگو اور پندونصیحت کے ذریعے‘ ان کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دلی محبت اوروابستگی کا بیج بویا___ اقبال کی شاعری اور شخصیت میں یہ بیج ایک تن آور‘ اور بلندوبالا اور اطراف میں خوب پھیلی ہوئی شاخوں والا گھنا درخت بن کر نمودار ہوا___ (کَشَجَرۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُھَا فِی السَّمَآئِ) (ابراہیم ۱۴:۲۴)

عین ممکن ہے اقبال کے لڑکپن میں اسی طرح کے کچھ اور واقعات بھی رونما ہوئے ہوں تاہم بالیقین یہ واقعہ اقبال کی محبتِ رسولؐ میں ایک کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔ اوائلِ عمر کے بعض وقوعات‘ انسانی ذہن پر گہرے اور دُور رس اثرات مرتب کرتے ہیں۔ متذکرہ بالا واقعہ نوجوان محمداقبال کے قلب ودماغ پر مرتسم ہوکر رہ گیا اور پھر پایانِ عمر وقتاً فوقتاً اورطرح طرح سے اظہار ہوتا رہا۔

علامہ اقبال کی زندگی‘ شخصیت‘ شاعری اور نثرنگاری کا مطالعہ کریں تو نبی اکرم صلی اللہ  علیہ وسلم کے ساتھ‘ علامہ اقبال کا تعلقِ خاطر‘ ایک قلبی و ذہنی وابستگی اور عشق و محبت کا جذبہ مطالعۂ اقبال کا ایک نمایاں اور زرّیں باب نظر آتا ہے۔ ان کی زندگی کے ہر دور میں عشقِ رسولؐ ایک زندہ‘   توانا اور ایک انقلاب انگیز جذبے کی حیثیت سے سامنے آتا ہے۔ یہ حکایت دراز ہے اور لذیذ بھی‘ لیکن فی الوقت یہاںاس کے فقط چند پہلو پیش کیے جارہے ہیں:

ابتدا ہی سے اقبال کی شاعری میں جذبۂ عشق رسولؐ کا ایک والہانہ اظہار ملتا ہے مگر اظہارِ عقیدت کا انداز بالعموم رسمی و روایتی ہے۔ وہ اس عبوری دور سے آگے بڑھتے ہیں تو اُن کی توصیف ِمحمدؐ میں ہمیں ایک خاص معنویت نظر آتی ہے‘ مثلاًآںحضوؐر کی پیغمبرانہ اور بشری عظمت اور آپؐ کی رحمت و شفقت کا پہلو اُن کے لیے سب سے زیادہ جذب و کشش کا باعث بنتا ہے۔ ابتدائی نظموں میں سے ’نالۂ یتیم‘ کا یہ شعر ملاحظہ ہو   ؎

درد ، انساں کا جو تھا، وہ میرے پہلو سے اُٹھا
قلزمِ جوشِ محبت ، تیرے آنسو سے اُٹھا

نظم ’فریادِ اُمت‘ کے متعدد شعروں میں عشق و محبت سے اقبال کی مراد دردِ انسانیت ہے‘ اور یہ درد عشقِ رسولؐ ہی سے پیدا ہوتا ہے     ؎

تیری الفت کی اگر ہو نہ حرارت دل میں
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

۱؎

پھر رموز بے خودی میں کہتے ہیں     ؎

تا دمِ تو آتشے از گلِ کشود
تودہ ہاے خاک را آدم نمود

(آپؐ  کے نفسِ گرم سے مٹی کے پیکروں نے آگ پیدا کی اور خاک کے تودوں نے آدم کی صورت اختیار کرلی۔)

گویا‘ اقبال کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ آپؐ  نے ’انسان سازی‘ کی عظیم الشان خدمت انجام دی۔ آپؐ  نے اپنی ۲۳ سالہ مثالی زندگی میں جو گوناگوں کارنامے انجام دیے‘ اقبال کی شاعری میں مختلف مقامات پر ان کا ذکر ملتا ہے۔ ایک مفصل تذکرہ تو رموزِ بے خودی کے آخری باب بعنوان: ’عرضِ حالِ مصنف بحضورِ رحمت للعالمینؐ، میں کیا گیا ہے     ؎

اے ظہورِ تو شبابِ زندگی
جلوہ اَت تعبیرِ خوابِ زندگی

(حضورِ والاؐ! آپؐ  کا ظہور زندگی کے لیے شباب کا باعث ہے۔ آپؐ  کا جلوہ خوابِ زندگی کی تعبیر ہے۔)

فارسی مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق میں ’درِحضورِ رسالت مآبؐ، کے عنوان سے ایک نظم شامل ہے جسے اقبال نے پروفیسر سلاح الدین محمد الیاس برنی کے نام ایک خط میں (حضوؐراکرم کی خدمت میں ایک)’عرض داشت‘ کہا ہے۔ یہ ’عرض داشت‘ ان کی نعتیہ شاعری کا ایک خوب صورت نمونہ ہے۔ اس میں ملّت اسلامیہ کی کس مپرسی‘ بے چارگی اور خواری و زبوں حالی کا حوالہ خاص اہمیت رکھتا ہے۔

علامہ اقبال سب سے پہلے انسانیت پر آپؐ  کے احسانِ عظیم کا ذکر کرتے ہیں کہ آپؐ  نے اُسے لات و منات اور چوپایوں اور کاہنوں کی عبدیت (غلامی) کے بوجھ سے آزاد کیا اور      امرا و سلاطین کی غلامی کے چنگل سے نجات دلائی۔ پھر افرادِ اُمت کی موجودہ حالت ِ زبوں کا ذکر کرتے ہوئے افرادِ اُمت کے مختلف طبقوں (نوجوانوں‘ اہلِ مکتب‘ افرنگ کے نقالوں) کی ذہنی پستی اور پس ماندگی پر رنج و تاَسف کا اظہار کرتے ہیں:

درِ عجم گردیدم و ہم در عرب
مصطفی نایاب و ارزاں بولہب

ایں مسلماں زادۂ روشن دماغ
ظلمت آباد ضمیرش بے چراغ

درِ جوانی نرم و نازک چوں حریر
آرزو در سینۂ او زود میر

ایں غلام ابن.ِ  غلام ابن.ِ  غلام
حریت اندیشۂ او را حرام

(میں عجم میں بھی پھرا ہوں اور عرب میں بھی۔ بولہب زیادہ ہیں اور آپؐ  کے رنگ میں رنگے ہوئے لوگ نایاب ہیں۔ یہ روشن دماغ مسلمان زادہ‘ اس کے ضمیر کی اندھیرنگری چراغ کے بغیر ہے۔ یہ جوانی میں ریشم کی طرح نرم و نازک ہے۔ اس کے سینے میں آرزوئیں پیداہوتے ہی مرجاتی ہیں۔ اس غلام ابن غلام ابن غلام پر آزادی کی سوچ حرام ہے۔)

پھر کہتے ہیں کہ جدید تعلیم نے اس سے دین کا جذبہ چھین لیا ہے۔ اور اب تو وہ ایک    بے جان لاشہ ہے‘ اس کا وجود: ’’ایں قدر دانم کہ بود‘‘ (اتنا جانتا ہوں کہ کبھی ’’تھا‘‘___)

یہ نوجوان اپنے آپ سے ناآشنا ہے اور افکارِ فرنگ میں مست ہے۔ یہ صرف اتنا چاہتا ہے کہ فرنگیوں کے ہاتھ سے اسے  َجو کی روٹی مل جائے۔ اس فاقہ کش نے اپنی جانِ پاک دے کر روٹی خریدی۔ اس کے اس طرزِعمل نے ہمیں دردناک نالوں پر مجبورکردیا۔ یہ پالتو پرندوں کی طرح (دوسروں کے ہاتھ سے) دانہ چگتا ہے اور فضاے نیلگوں کی پہنائیوں سے ناآشنا ہے۔ فرنگیوں کی آگ نے اسے پگھلا دیا ہے۔ اس دوزخ نے اس کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ اسکول کا استاد نالائق اور  کم نظر ہے‘ اس نے نوجوان کو اس کے حقیقی مقام سے آگاہ نہیں کیا۔

اقبال اُمت کے امراض سے بخوبی واقف تھے‘ جن میں سے ایک بڑی بیماری ’ترسِ مرگ‘ ہے۔ اس نظم کے ابتدا میں انھوں نے فریاد کی تھی کہ: وارہاں ایں قوم را از ترسِ مرگ (اس قوم کو موت کے خوف سے نجات دلایئے) یہاں وہ اس تاَسّف کا اظہار کرتے ہیں کہ     ؎

مومن و از رمزِ مرگ آگاہ نیست
در دلش لاغالب الااللہ نیست

(مومن ہے اور موت کی رمز سے آگاہ نہیں۔اس کا دل لاغالب الا اللہ سے خالی ہے)

اقبال نے اس نوحہ و فریاد میں ایک ایسی بات کہی ہے جو اقبال کے دور میں تو سچی تھی ہی‘ آج ۷۰سال بعد‘ دورِاقبال سے کہیں زیادہ ہمارے حسبِ حال ہے___ کہتے ہیں     ؎

ما ہمہ افسونیِ تہذیبِ غرب
کشتۂ افرنگیاں بے حرب و ضرب

(ہم سب مغرب کی تہذیب کے سحر زدہ ہیں۔ ہمیں افرنگیوں نے بغیر جدال و قتال کے قتل کردیا ہے۔)

تاہم‘ اقبال کو علم نہیں تھا کہ جب یہ سخت جان اُمت‘ صرف تعلیم اور (نام نہاد)ثقافتی حربوں کے ذریعے پوری طرح بے جان نہ ہوسکے گی تو فرنگی جدال و قتال پر بھی اتر آئیں گے___ (یہ الگ بات ہے کہ اس محاذ پر بھی انھیں منہ کی کھانی پڑے گی۔)

علامہ اقبال کے حبِّ رسولؐ کے جذبے پر ایک اور پہلو سے بھی نظر ڈالنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ ہمارے معاشرے میں حبِّ رسولؐ اور عشقِ رسولؐ کا جذبہ چند ظاہری آداب (نعت نویسی‘ نعت خوانی‘ مجلس میلاد‘ میلادالنبیؐ کا جلوس یا رسمی و روایتی انداز میں دھواں دھار تقریروں) تک محدود ہوکر رہ گیا ہے‘ اور الا ماشاء اللہ اب یہ ہمارا ایک ’ثقافتی مظہر‘ ہے۔ لیکن علامہ اقبال کی محبتِرسولؐ فقط آپ کی زبانی کلامی توصیف و تحسین یا درود و سلام تک محدود نہیں (گو کہ علامہ اقبال نے نبی ِکریمؐ پر بکثرت درود شریف پڑھنے کی تلقین کی ہے) وہ محبتِرسولؐکو خدمتِرسولؐ اور خدمتِرسولؐ  کو خدمتِدین کے مترادف سمجھتے ہیں‘ یعنی ان کے نزدیک:

محبتِرسولؐ= خدمتِرسولؐ

اور:

خدمتِرسولؐ = خدمتِاسلام

چنانچہ متذکرہ بالا ’عرض داشت‘ پیش کرتے ہوئے انھیں خیال آتا ہے کہ ہم مسلمانوں نے نہ تو اپنی نسبتِ رسولؐ کا خیال رکھا اور نہ محمدؐ کے نام لیوا ہونے کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کیا۔ ہم مسلمان ہیںتو اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے؟ رسالتِمحمدیہؐ پر ہمارا ایمان ہے تو اس کے تقاضے کیا ہیں؟___افراد ِاُمت‘ اس ضمن میں ایک عمومی غفلت کا شکار ہیں۔ اقبال کے لیے  یہ چیز دلی اذیت.ّکا باعث ہے۔ اس کیفیت کو‘ وہ ذاتی حوالے سے اس طرح بیان کرتے ہیں:

میں تو جب کبھی سوچتا ہوں‘ شرم و ندامت سے میری گردن جھک جاتی ہے کہ کیا ہم مسلمان آج اس قابل ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر فخر کریں؟ ہاں‘ جب ہم اس نور کو اپنے دلوں میں زندہ کرلیں گے‘ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں داخل کیا تھا‘ تو اس وقت اس قابل ہوسکیں گے کہ حضوؐر ہم پر فخر کریں۔

وہ نور کیا تھا جو آپؐ  نے ہمیں عطا کیا؟ اسلام کی نعمت‘ قرآن حکیم کی دولت‘ احکام الٰہی کا سرمایہ اور خدمتِدین کا جذبہ___ یہ سب عشقِ رسولؐ کا تقاضا اور اس کے ثمرات ہیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں: ’’اقبال کے تجربے میں تو عشقِ رسولؐ ہی ایسی نعمت ہے‘ جس کے ذریعے‘ وہ اپنے تمام فکری مسائل حل کرسکتے تھے‘‘۔ اقبال کے نزدیک حبِّ رسولؐ کے ذریعے دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت کا حصول ممکن ہے‘ بلکہ زمین و آسمان کی ساری عزتیں اور ساری نعمتیں صرف اسی طریقے سے مل سکتی ہیں     ؎

کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا‘ لوح وقلم تیرے ہیں

ہر کہ عشقِ مصطفی سامانِ او ست
بحر و بر در گوشۂ دامانِ اوست

(جس شخص کو بھی عشقِ مصطفیؐ کی نعمت مل جاتی ہے‘ وہ دریا و صحرا دونوں پر متصرف ہوجاتا ہے۔)

لیکن جیساکہ اکثر ابناے زمانہ کا شیوہ ہے‘انسان غفلت کا اسیر رہتا ہے‘ مکروہاتِ زمانہ ہی سے فرصت نہیں ملتی‘یا ساری تگ و دو حصولِ دنیا کے لیے وقف رہتی ہے۔ دین کیا ہے؟ اس کے تقاضے کیا ہیں؟ ہمارے گردوپیش بہت کم لوگ ہوں گے‘ جنھیں تفہیم دین‘ خدمتِ اسلام یا اتباعِ رسولؐ کا حقیقی شعور ہو اور وہ ان فرائض کو اداکرنے کااحساس بھی رکھتے ہوں۔ اقبال کو اس کا احساس تھا مگر انھیں ایک گونہ ندامت ہوتی تھی کہ وہ اتباعِ رسولؐ کے تقاضوں کو خاطرخواہ طریقے سے پورا نہیں کرسکے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں:

میں جو اپنی گذشتہ زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ میں نے اپنی عمر یورپ کا فلسفہ وغیرہ پڑھنے میں گنوائی۔ خدا تعالیٰ نے مجھ کو قواے دماغی بہت اچھے عطافرمائے تھے۔ اگر یہ قویٰ دینی علوم کے پڑھنے میں صرف ہوتے‘ تو آج خدا کے رسولؐ کی ‘ میں کوئی خدمت کرسکتا اور جب مجھے یاد آتا ہے کہ والدِمکرم مجھے علوم دینی ہی پڑھانا چاہتے تھے‘ تو مجھے اوربھی قلق ہوتا ہے کہ باوجود اس کے‘ کہ صحیح راہ معلوم بھی تھی‘ تو بھی وقت کے حالات نے اس راہ پر چلنے نہ دیا۔ بہرحال جو کچھ خدا کے علم میںتھا‘ ہوا‘ اور مجھ سے بھی جو کچھ ہوسکا‘ میں نے کیا‘ لیکن دل چاہتا ہے کہ جو کچھ ہوا‘ اس سے بڑھ کر ہونا چاہیے تھا‘ اور زندگی تمام و کمال نبیِکریمؐ کی خدمت میں بسر ہونی چاہیے تھی۔

اگرچہ جیسا اُوپر بھی ذکر ہوا‘ علامہ اقبال نے آنحضوؐر پر بہ کثرت درود شریف پڑھنے کی تلقین کی ہے‘ مگر درجِ بالا اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عشقِ رسولؐ ان کے نزدیک محض      درود شریف پڑھنے اور محبت کے زبانی کلامی دعووں یا ان کی یاد میں آنسو بہانے تک محدود نہیں۔ عشقِرسولؐ کا حقیقی تقاضا ’’نبی ِکریمؐ کی خدمت ہے‘‘۔ یہ خدمتِ رسولؐ کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کا احیا اور اس کا نفاذ___ یعنی خدمتِ رسولؐ، خدمتِ اسلام کے مترادف ہے۔ سیدغلام میراں شاہ کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:

دعا کرتا ہوں خدا تعالیٰ آپ کو اس امر کی توفیق دے کہ آپ اپنی قوت‘ ہمت‘ اثر‘ رسوخ اور دولت و عظمت کو حقائقِ اسلام کی نشرواشاعت میں صرف کریں۔ اس تاریک زمانے میں حضور رسالت مآبؐ کی سب سے بڑی خدمت یہی ہے۔

آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی باطل کے خلاف سراپا جہاد تھی۔ عصرِحاضر میں بھی گوناگوں باطل نظریات‘ اسلام کے راستے کی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ان کے خاتمے کے لیے کوشش و کاوش ایک طرح سے سنت ِنبویؐ ہے‘ خدمتِ رسولؐ بھی اور خدمتِ دین بھی۔ علامہ اقبال کے نزدیک ایک مومن کی زندگی کا یہی مشن ہونا چاہیے۔ اپنی زندگی میں انھیں ’نازک زمانے میں اسلام کی حفاظت‘ کی فکر برابر دامن گیر رہی اور وہ ’اسلام کی منتشر قوتوں کو جمع کرکے اس کے مستقبل کو محفوظ‘ کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے رہے۔ ۲۲ اپریل ۱۹۳۱ء کو مولوی صالح محمد کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:

مسلمانوں کو ابھی تک اس کا احساس نہیں ہوا کہ جہاںتک اسلام کا تعلق ہے‘ اس ملک ہندستان میں کیا ہو رہا ہے‘ اوراگر وقت پر موجودہ حالت کی اصلاح کی طرف توجہ نہ کی گئی تو مسلمانوں اور اسلام کا مستقبل‘ اس ملک میں کیا ہوجائے گا؟ آیندہ نسلوں کی فکر کرنا ہمارا فرض ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ان کی زندگی گونڈ اور بھیل اقوام کی طرح ہوجائے اور   رفتہ رفتہ ان کا دین اور کلچر اس ملک سے فنا ہوجائے۔

آپ خواجہ صاحب کے دل میں بھی یہی تڑپ پیدا کریں کہ وہ اپنے دیگر احباب میں بھی یہی تحریک کریں‘ ورنہ ہم سب لوگ قیامت کے روز خدا اور رسولؐ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔

اسی تسلسل میں ۳۰ جولائی ۱۹۳۴ء کو ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’اس وقت مسلمان کا فرض ہے کہ جو قوت‘ خداتعالیٰ نے اسے عطا کی ہے‘ اسے اسلام کی خدمت اور اقوام و مللِ اسلامیہ کے   احیا و بیداری میں صرف کردے‘‘۔ یہاں یہ عرض کرنا بے جا نہ ہوگا کہ اسلام کی نشاَتِ ثانیہ کے بارے میں علامہ اقبال کارجائی ذہن بہت واضح تھا۔ شاعری کے علاوہ خطوں میں بھی یہ رجائیت‘ اپنی جھلک دکھاتی ہے۔ ایک صاحب نے خواب میں رسولِ پاکؐ کی زیارت کی تعبیر دریافت کی‘ اقبال انھیں جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

عام مسلمانوں کی طرح میرا بھی یہ عقیدہ ہے کہ حضورِ رسالت مآبؐ کی زیارت خیروبرکت کا باعث ہے۔ گذشتہ دس پندرہ سال میں کئی لوگوں نے مجھ سے ذکر کیا ہے کہ انھوں نے حضورِ رسالت مآبؐ کو جلالی رنگ میں یا سپاہیانہ لباس میں خواب میں دیکھا ہے۔ میرے خیال میں یہ علامت احیاے اسلام کی ہے۔

خود علامہ اقبال اپنے تئیں احیاے اسلام کے لیے کاوش و کوشش کا فریضہ ادا کرنے کی سعی کرتے رہے‘ اور انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے خدمتِ اسلام اور خدمتِ رسولؐ میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔

محبت ِ رسولؐ کے ضمن میں علامہ اقبال کو اپنی ’نسبتِ حجازی‘ بھی بہت عزیز تھی‘ وہ آں حضوؐر کی زبانِ مبارک سے خود کو ’اے عندلیبِ باغِ حجاز‘ کہلوا کر فخرومسرت اور روحانی لذت و سرشاری محسوس کرتے تھے۔ اسی طرح ان کے حالات میں حجازِ مقدس کے سفر اور زیارتِ روضۂ رسولؐ کی تمنا کا بہ تکرار اظہار ملتا ہے۔ بارہا سفرِحجاز کا ارادہ بھی کیا مگر بوجوہ یہ ارادہ بروے کار نہ آسکا۔

آخری زمانے میں نبی پاکؐ کے لیے ان کا ذوق و شوق بڑھ گیا تھا‘ اس بنا پر آںحضوؐر کا ذکر آتے ہی وہ آبدیدہ ہوجاتے اور اکثر اوقات ان پر رقت طاری ہوجاتی۔ غلام رسول مہر کا بیان ہے کہ :

آپؐ کا نام زبان پر آتے ہی چہرہ سرخ ہوجاتا تھا اور آنکھوں میں آنسو بھر آتے تھے۔ آپؐ  ذاتِ بابرکات کے ساتھ اقبال کا عشق‘ بیان کا متحمل نہیں۔ ان کی تصانیف میں جو اشعار حضوؐر کے متعلق ہیں‘ ان میں سے ایک شعر بھی ایسا نہیں‘ جسے انھوں نے سنایا ہو اور اس پر بے اختیار اشک بار نہ ہوئے ہوں۔

وفات سے کوئی آٹھ دس ماہ پہلے‘ علامہ کے ایک دوست مخدوم الملک سید غلام میراں شاہ نے حج بیت اللہ کا عزم کیا اور غالباً ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ جواباً انھیں لکھا کہ حجِ بیت اللہ کی آرزو تو گذشتہ دو تین سال سے میرے دل میں بھی ہے۔ خدا تعالیٰ ہر پہلو سے استطاعت عطا فرمائے‘ تو یہ آرزو پوری ہو‘ اور اگر آپ رفیقِراہِ ہوں تو مزید برکت کا باعث ہو۔ آپ ایسے باہمت جوان کے لیے تو یہ سفر قطعاً مشکل نہیں۔ ہمت تو میری بھی بلند ہے لیکن بدن عاجز و ناتواں ہے۔ کیا عجب کہ خدا تعالیٰ توفیق عطا فرمائے اور آپ کی معیت، اس سفر میں نصیب کرے۔

یہی زمانہ تھا‘ جب وہ ’حضورِ رسالتؐ، (جو اَب ارمغانِ حجاز میں شامل ہیں) کے عنوان سے فارسی رباعیات لکھ رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے حج پر جانے کے لیے مختلف جہاز ران کمپنیوں سے خط کتابت بھی شروع کردی تھی، گویا عملاً حالتِ سفر میں تھے۔ اسی زمانے کی رباعی ہے:

بہ ایں پیری رہِ یثرب گرفتم
نوا خواں از سرورِ عاشقانہ

چوں آں مرغے کہ در صحرا سرِشام
کشاید پر بہ فکرِ آشیانہ

(اس بڑھاپے میں‘ میں مدینے کی طرف سرورِعاشقی سے مست‘ گاتا چلا جا رہا ہوں اور میرا حال اُس پرندے کی طرح ہے جو صحرا میں شام ہوتے ہی اپنے آشیانے کی طرف لوٹنے کی فکر کرتا ہے۔)

اپنی بیماری کے سبب‘ اقبال کے لیے جسمانی طور پر سفر بہت مشکل ہوگیا تھا چنانچہ عالمِ خیال ہی میں وہ مدینہ طیبہ کی جانب رواں دواں رہے۔ اپنی علالت کے حوالے سے اسی زمانے کی   حسبِ ذیل رباعی ان کے حسبِ حال تھی:

سحر با ناقہ گفتم: نرم تر رَو
قدم مستانہ زد چنداں کہ گوئی

کہ راکب خستہ و بیمار و پیر است
بہ پایش ریگِ ایں صحرا حریر است

(بوقت صبح میں نے اُونٹنی سے کہا کہ ذرا آہستہ چل کیوں کہ سوار خستہ‘ بیمار اور بوڑھا ہے۔ اس پر وہ اس طرح مستانہ انداز میں قدم زن ہوئی گویا اس کے پائوں کے نیچے پھیلی ہوئی ریگِ صحرا‘ ریت نہیں ریشم ہے۔)

مگر اثناے سفر کی لذت ایسی سرور انگیز اور وجدآفریں ہے کہ مسافر‘ سارباں کو راہِ دراز اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے تاکہ سفرِشوق میں مسرت کے لمحات دراز تر ہوسکیں:

غمِ راہی نشاط آمیز تر کن
فغانش را جنوں انگیز تر کن

بگیر اے سارباں راہِ درازے
مرا سوزِ جدائی تیز تر کن

(اے سارباں! تو مسافر کے غم میں نشاط اور کیف کی آمیزش بڑھا دے اور اس کی آہ و زاری میں جنوں کا عنصر زیادہ کردے۔ اے سارباں! لمبا راستہ اختیار کر اور یوں میرے سوزِ جدائی کو تیز تر کردے۔)

علامہ اقبال کو ۱۹۳۱ء میں دوسری گول میز کانفرنس کے سلسلے میں لندن کا سفر درپیش ہوا۔ واپسی پر موتمرعالم اسلامی میں شرکت کے لیے بیت المقدس گئے۔ وہاں سے مصر گئے اور پھر    براہِ راست ہندستان چلے آئے۔ اس پر بعض لوگوں نے سوال اٹھایا ہے کہ علامہ نے عمرے اور روضۂ رسولؐ پر حاضری کے اس موقعے سے فائدہ کیوں نہ اٹھایا؟ اس ضمن میں روزگارِ فقیر کے مؤلف فقیر سید وحیدالدین کی ایک روایت قابلِ غور ہے۔ [فقیرسیدوحیدالدین کے والد فقیر  سیدنجم الدین علامہ اقبال کے قریبی اور بے تکلف دوستوں میں شامل تھے] وہ بتاتے ہیںکہ   علامہ یورپ سے واپس آئے تو والدمرحوم اس موقعے پر ان سے ملنے گئے۔ بڑی مدت کے بعد‘   ایک دوسرے سے ملاقات ہوئی تھی‘ اس لیے بڑے تپاک سے ملے‘اور ڈاکٹرصاحب سے ان کے سفر کے تجربات کے متعلق گفتگو ہونے لگی۔ والدمرحوم نے اثناے گفتگو میں کہا: ’’اقبال! تم یورپ ہوآئے ہو‘ مصر اور فلسطین کے سیر بھی کی‘ کیا اچھا ہوتا کہ واپسی پر روضۂ اطہر کی زیارت سے بھی آنکھیں نورانی کرلیتے‘‘۔ یہ سنتے ہی ڈاکٹرصاحب کی حالت دگرگوں ہوگئی‘ یعنی چہرے پر زردی چھاگئی اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ چند لمحے تک یہی کیفیت رہی۔ پھر کہنے لگے: ’’فقیر! میں کس منہ سے روضۂ اطہر پر حاضر ہوتا‘‘۔

انھی دنوںکسی شخص نے دریافت کیا کہ فلسطین سے زیارتِ حرمین کے لیے جانا مشکل نہ تھا‘ پھر کیاامر مانع ہواکہ آپ نے اس موقعے سے فائدہ نہ اٹھایا؟ جواباً علامہ نے انھیں لکھا:

مدینۃ النبیؐ کی زیارت کا قصد تھا‘ مگر میرے دل میں یہ خیال جاگزیں ہوگیا کہ دنیوی مقاصد کے لیے سفر کرنے کے ضمن میں حرمِ نبویؐ کی زیارت کی جرأت کرنا سوئِ ادب ہے۔ اس کے علاوہ بعض مقامی احباب سے وعدہ تھا کہ جب حرمِ نبویؐ کی زیارت  کے لیے جائوں گا‘ تو وہ میرے ہم عناں ہوں گے۔ ان دونوں خیالوں نے مجھے باز رکھا‘ ورنہ کچھ مشکل امر نہ تھا۔

بہ الفاظِ دیگر‘ انھیں دربارِ رسالت مآبؐ میں ضمنی طور پر حاضر ہونا اچھا نہ لگا۔ دراصل    آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر اُمتی کی طرح علامہ اقبال کو بھی اپنے گناہوں اور کوتاہیِ فکروعمل کا شدید احساس تھا۔ احساسِ ندامت کے سبب‘ وہ روضۂ رسولؐ پر حاضری سے گریزاں تھے‘ اور غالباً اسی لیے وہ  ایک جگہ بارگاہِ خداوندی میں اس طرح التماس کرتے ہیں:

تو غنی از ہر دو عالم، من فقیر
روزِ محشر عذر ہاے من پذیر

وَرحسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہِ مصطفی پنہاں بگیر ۲؎

(اے اللہ) تو سراپا غنی ہے(اور) میں تہی دست ہوں۔ روزِحشر مجھے جواب دہی سے معاف رکھنا۔ لیکن اگر جواب دہی ناگزیر ہو تو پھر آں حضوؐر کی نظروں سے اوجھل ہوکر حساب لیجیو۔ (تاکہ آپؐ کے سامنے‘ میری رسوائی نہ ہو۔)

بہرحال انھوں نے سفر ِحجاز کا ارادہ ترک نہیں کیا‘ مگر سوئِ اتفاق سے‘ یورپ سے واپسی کے چندماہ بعد وہ شدید طور پر علیل ہوگئے۔ انھیں وکالت ترک کرنی پڑی‘ معمولات متاثر ہوگئے‘   علاج معالجے کے لیے بار بار دہلی اور بھوپال جانا پڑا۔ بیماری کے نتیجے میں طرح طرح کے تفکرات اور غم ہاے روزگار نے گھیرلیا‘ مگر اس عالم میں بھی سرزمین مقدس کے لیے ان کے عزم و ارادے میں فرق نہیں آیا۔ ارادۂ سفر نہ صرف برقرار رہا‘ بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سفرِحجاز کی آرزو  تیز تر ہوتی گئی۔ اس آرزو نے رسول اکرمؐ کے ساتھ ان کی دل بستگی میں اضافہ کردیا تھا۔

دورِ آخر میں وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور دل بستگی کی جس کیفیت سے گزر رہے تھے‘ اس کا ذکر‘ مولانا ابوالحسن علی ندوی نے بڑے عمدہ الفاظ میں کیا ہے:

زندگی کے آخری ایام میں پیمانۂ عشق اس طرح لبریز ہوا کہ مدینے کا نام آتے ہی   اشکِمحبت بے ساختہ جاری ہوجاتے۔ وہ اپنے اس کمزور جسم کے ساتھ مدینۃ الرسولؐ میں حاضر نہ ہوسکے لیکن اپنے مشتاق اور بے تاب دل‘ نیز اپنی قوتِ تخیل اور زورِ کلام کے ساتھ انھوں نے حجاز کی وجدانگیز فضائوں میں باربار پرواز کی اور ان کا طائرِ فکر ہمیشہ اسی آشیانے یا آستانے پر منڈلاتا رہا۔

مدینۃ النبیؐ اقبال کے خوابوں کا شہر تھا۔ وہاں ان کی عزیز ترین ہستی محوِاستراحت تھی۔ ان کی دیرینہ آرزو تھی کہ انھیں حجاز جانے کا موقع ملے تو سرزمینِ مدینہ ہی میں پیوندِ خاک ہوجائیں۔ یہ تمنا بھی آپؐ  سے ایک تعلقِ خاطر کی دلیل‘ اور قلبی وابستگی کی ایک شکل ہے جس کا اظہار ایک شعر میں اس طرح کیا ہے    ؎

ہست شانِ رحمتت گیتی نواز
آرزو دارم کہ میرم در حجاز

(آپؐ  کی شانِ رحمت ایک زمانے کو نوازتی ہے۔ میری آرزو یہ ہے کہ مجھے موت آئے تو سرزمین حجاز میں۔)

اقبال کے سفرِحجاز کا خواب تو شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکا اور نہ اُن کی ’میرم درحجاز‘ کی تمنا بروے کار آسکی۔ مگر ’عرضِ حال مصنف بہ حضوؐر رحمت للعالمین‘ (رموزِ بے خودی‘ ۱۹۱۸ء) کے ۲۰سال بعد (۱۹۳۸ء میں) جب وہ اس عالمِ فانی سے رخصت ہوکر عالمِ جاودانی کو سُدھارے اور عالم گیری مسجد لاہور کے سایۂ دیوار میں سپردِ خاک ہوئے‘ تو ان کی آرزو تھی:

کوکبم را دیدۂ بیدار بخش
تا بیاساید دلِ بے تابِ من

مرقدے در سایۂ دیوار بخش
بستگی پیدا کند سیمابِ من

با فلک گویم کہ آرامم نگر
دیدۂٖ آغازم انجامم نگر

(میری قسمت کے ستارے کو بھی دیدۂ بیدار عطا فرمایئے اور اپنی دیوار کے سایے میں آسودئہ خاک ہونے کے لیے ذرا سی جگہ عطا فرمایئے تاکہ میرے دلِ بے تاب کو سکون نصیب ہو اور میری سیمابیت کو قرار آجائے‘ اور مَیں فلک سے کہہ سکوں کہ دیکھو‘ مجھے کیسے آرام نصیب ہوا‘ تو میرا آغاز دیکھ چکا ہے‘ اب میرے انجام پر بھی نظر ڈال۔)

اس آرزو کو ایک شکل میں تو یوں شرفِ قبولیت حاصل ہوا کہ وہ عالم گیری مسجد لاہورکی دیوار تلے آسودئہ خاک ہیں جہاں ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء سے آج تک‘ نماز اور زیارتِ مسجد کے لیے آنے والے ہزاروں لاکھوںمسلمان‘ ان کے لیے مستقلاً دست بدعا رہتے ہیں___ یہ ’رُتبہ بلند‘ ہرکسی کو نصیب نہیں ہوتا اور ایسا اعزاز و افتخار عشقِ رسولؐ کا دعویٰ کرنے والوں میں سے کم ہی لوگوں کے حصے میں آیا ہوگا۔


حواشی

۱-   مذکورہ بالا دونوں اشعار‘ اقبال کے متداول کلام میں شامل نہیں ہیں‘ بلکہ دوسرے شعر سے متصل ومابعد    حسب ذیل نہایت عمدہ شعر بھی اقبال نے‘ نمعلوم کیوں اپنے متداول کلام میں شامل نہیں کیا:

یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

۲-   یہ رباعی‘ اقبال کے متداول کلام میں شامل نہیں ہے‘ اقبال نامہ (جدید یک جا اڈیشن‘ شائع کردہ: اقبال اکادمی پاکستان لاہور‘ ۲۰۰۵ء‘ ص ۲۵۶) میں موجود ہے۔ اس کا قصہ یوں ہے کہ مذکورہ رباعی اوائل ۱۹۳۷ء میں کسی اخبار یا رسالے میں شائع ہوئی تو ڈیرہ غازی خاں کے ایک مدرس محمدرمضان عطائی نے‘ علامہ سے تحریراً درخواست کی کہ یہ رباعی مجھے عطا کریں۔ علامہ کا ظرف دیکھیے کہ انھوں نے عطائی صاحب کو لکھا: ’’شعر کسی کی ملکیت نہیں۔ آپ بلاتکلف وہ رباعی جو آپ کو پسند آگئی ہے‘ اپنے نام سے مشہور کریں‘ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے___‘‘اور علامہ واقعی اس بے مثال رباعی سے دست بردار ہوگئے اور اسے اپنے مجموعۂ کلام میں شامل کرنے کی ممانعت کردی‘ تاہم راقم کی راے میں‘ اب یہ رباعی ارمغانِ حجاز میں شامل کرلینی چاہیے۔