الاشباہ والنظائر قرآنی الفاظ کے مختلف معانی پر مشتمل ایک مفید لغت ہے۔ اسی نام سے حنفی فقہ کی بھی ایک مشہور کتاب ہے۔ یہ کتاب نہ صرف ایک ہی لفظ کے مختلف معانی اور اُن کے قرآنِ مجید میں مختلف استعمالات بتاتی ہے‘ بلکہ مترادفات کی بھی وضاحت کرتی ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے مقاتل بن سلیمان (م: ۱۵۰ھ) کے بارے میں لکھا ہے کہ انھیں تجسیم سے متہم کیا گیا ہے‘ چنانچہ یہ متروک الحدیث تھے۔ علمِ تفسیر میں البتہ ان کا بہت بلند رتبہ تھا۔
حیدرآباد دکن کے مشہور عالمِ دین ابوالنصر ڈاکٹر محمدخالدی نے‘ جو خود عربی ادب کے رمزشناس تھے اور جنھوں نے بدنامِ زمانہ مختار ابن ابی عبیدہ الثقفی پر مقالہ لکھ کر مصر سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی‘ اس کتاب کا ترجمہ کیا اور تحقیق سے کام لیا۔ مولانا عطاالرحمن قاسمی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ڈاکٹر محمد خالدی (مرحوم) کے مسودے کا جائزہ لیا‘ تصحیح کی اور تعلیقات کے ساتھ اسے کتابی شکل میں شائع کردیا۔
قرآنی لغات کے جو مختلف معانی مقاتل بن سلیمان نے بیان کیے تھے‘ اُن کے شواہد قرآن مجید کے اُردو مترجمین کے کلام سے ڈھونڈے گئے ہیں۔ قاسمی صاحب نے ’توضیح‘ کے عنوان سے مزید قرآنی مثالوں کا اضافہ بھی کیا اور بعض اہم تفسیری نکات کی وضاحت ’انتباہ‘ کے عنوان کے تحت کی۔ قرآنی لغات پر بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ امام راغب کی مفردات‘ مولانا عبدالرحمن کیلانی کی مترادفات القرآن اور مولانا عبدالرشید نعمانی کی لغات القرآن زیادہ مشہور و معروف ہیں۔ زیرنظر کتاب ان میں ایک خوب صورت اضافہ ہے اور اُردو دان افراد کے لیے ایک نعمت ِ غیرمترقبہ۔ پیش کش کے لحاظ سے کئی جزوی امور توجہ چاہتے ہیں۔ کسی نئی طباعت کے موقع پر ان کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ (خلیل الرحمٰن چشتی)
ریگ زارِ عرب میں خاتم الانبیا والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ایک ایسی بارانِ رحمت تھی جس نے خزاں رسیدہ بے برگ و بار شجرِانسانیت کو سرسبز اور شاداب کردیا۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ نے بنی نوعِ انسان کی رہنمائی نہ کی ہو۔ حضوؐر کی سیرت طیبہ پر مجموعی طور پر بھی اور اس کے ہر پہلو پر بھی الگ الگ اب تک بے شمار کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔
زیرنظر کتاب بھی سیرت نبوی ہی کے ایک پہلو پر ہے جسے محترمہ نجمہ راجا یٰسین نے ’عہدنبویؐ کا بلدیاتی نظم و نسق‘ کے زیرعنوان اپنا موضوعِ تحریر بنایا ہے۔ محترمہ تصنیف و تالیف کے میدان میں نووارد ہیں لیکن انھوں نے تاریخ و سیر کی ۳۶مستند کتابوں سے کتاب کا لوازمہ اخذ کرنے میں جو کاوش کی ہے وہ قابلِ تحسین ہے۔ اُن کا اسلوبِ نگارش عام فہم اور دل نشیں ہے۔ کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں تمدنِ عرب کے تاریخی پس منظر کا جائزہ لیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں ظہورِ اسلام سے قبل عرب معاشرے کی حالت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ تیسرے باب میں عرب معاشرے میں بلدیاتی اداروں کے تصور کی تفصیل دی گئی ہے۔ کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنفہ نے جس نظم و نسق کو بلدیاتی کہا ہے‘ وہ عہدرسالت میں اسلامی حکومت کی تاسیس کے بعد اسلام کے سیاسی اور تمدنی نظام کا جزو لازم تھا۔ مصنفہ نے اپنے موضوع کا حق ادا کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی‘ تاہم صحابہ کرامؓ کے ناموں کی صحت کے خصوصی اہتمام کی ضرورت ہے۔ (طالب ہاشمی)
۴۵ مربع میل پر پھیلا ہوا گوانتاناموبے نامی جزیرہ دنیا کا بدترین عقوبت خانہ ہے جس میں ۴۳ ممالک کے ۶۶۰ باشندے جدید سائنسی تشدد کاشکار ہو رہے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کی قیادت بہت سے قیدیوں پر تشدد میں برابر کی ذمہ دار ہے۔
زیرنظر کتاب پاکستان میں سابق افغان سفیر مُلا عبدالسلام ضعیف کی پشتو خودنوشت کا اُردو ترجمہ ہے جس میں امریکی حکومت اور پاکستان کے بعض کارپردازان کے بھیانک چہرے نظرآتے ہیں۔ پہلے حصے میں مُلا عبدالسلام اور گوانتاناموبے کے تعارف کے ساتھ مُلا عبدالسلام کے ساتھ ذرائع ابلاغ کی ۲۰۰۱ء کی گفتگو (جب وہ پاکستان میں سفیر تھے) اور پھر ۲۰۰۶ء کی وہ گفتگو شامل ہے جو ان کی رہائی کے بعد ہوئی۔ ایک حصہ ان اخباری مضامین پر مشتمل ہے جو مُلا عبدالسلام کی کتاب کے حوالے سے پاکستان کے مختلف اخبارات و جرائد میں شائع ہوئے ہیں جن میں عطاء الحق قاسمی‘ عرفان صدیقی‘ پروفیسر خورشیداحمد‘ عبدالقادرحسن‘ عباس اطہر‘ ایازامیر‘ اوریا مقبول جان‘ حسن عباسی اور شبیراحمد میواتی کی تحریریں شامل ہیں مگر حوالے نہیں دیے گئے۔ آخر میں مُلا عبدالسلام کی آپ بیتی کا تلخیص و ترجمہ ہے جسے پڑھ کر ایک پاکستانی مسلمان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ ایک مسلمان سفیر کو ایک مسلمان ملک کی سرزمین سے پکڑ کر چند مسلمانوں کے ہاتھوں امریکی حکام کو فروخت کر دیا گیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بردہ فروشی کی تفصیل بھی بیان کر دی ہے کہ پاکستانی حکام نے فی کس ۵ ہزار ڈالر کے عوض بے گناہوں کو امریکیوں کے ہاتھوں فروخت کیا۔ گردپوش خوب صورت ہے ‘کتاب دل چسپ ہے۔ (محمدالیاس انصاری)
یہ کتاب احمد خلیل نامی ایک فلسطینی عرب مہاجر کی سوانح حیات ہے۔ واضح رہے کہ ’احمدخلیل‘ حقیقی نہیں بلکہ ایک افسانوی کردار ہے۔ احمد خلیل کا وطن فلسطین ہے۔ بچپن ہی سے وہ ہم وطنوں کی بے بسی‘ یہودیوں کی چیرہ دستیوں اور بڑھتے ہوئے صہیونی اثرات کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا آیا ہے۔ جوانی کے دور تک پہنچتے پہنچتے حالات اسے ہجرت پر مجبور کردیتے ہیں۔ چھوٹے بھائی اورچند عزیزوں کے ساتھ وہ مصر کے راستے سعودی عرب پہنچتا ہے اور فریضۂ حج ادا کرنے کے بعد مدینے ہی کو اپنا مسکن بنالیتا ہے۔ اس کی زندگی کے باقی ایام یہیں گزرتے ہیں۔
احمدخلیل کا اکلوتا بیٹا اسماعیل آرامکو (سعودی عرب) میں امریکی کمپنی میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہے۔ وہ ایک مغرب زدہ عیسائی لڑکی سے شادی کرکے‘ بری طرح مغربیت کا اسیر ہوجاتا ہے۔ ایک روز وہ اپنے گھرآتا ہے اور والدین کی ’دقیانوسیت‘ پر ناک بھوں چڑھاتا ہے۔ احمدخلیل اس کی مغرب زدگی پر سخت تنقید کرتا ہے۔ اس کا والد احمدخلیل کئی ماہ سے تپ دق میں مبتلا ہے۔ اب اسماعیل کی باغیانہ روش اسے بالکل ہی نڈھال کردیتی ہے۔ کہانی معنی خیز ہونے کے علاوہ معلومات افزا بھی ہے۔ مصنفہ نے انگریزی میں یہ ناول قبولِ اسلام سے پہلے لکھا تھا‘ بعد میں اس میں حذف و اضافہ کرکے کئی برس پہلے شائع کیا تھا۔ اب پروفیسر اعوان نے اُردو ترجمہ پیش کیا ہے۔
ناول نگاری کی روایت کے مطابق کسی نہ کسی رومانس کو کہانی میں ایک ضروری عنصر کی حیثیت سے شامل کیا جاتا ہے مگر مصنفہ نے اس سے احتراز کیا ہے۔ ان کے کردار انحطاط پذیر عرب معاشرے کے مسلمان کردار ہیں‘ مگر اپنی تمام تر جاہلیت اور اخلاقی انحطاط کے باوجود‘ مذہبی اور دینی فرائض ادا کرنے میں مستعد اور پُرجوش ہیں۔ احمدخلیل کا کردار‘ مثالی مسلمان کا کردار تو نہیں ہے مگر اس کے اقوال و افعال سے اس کی دین پسندی اور ملّی حمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ احمدخلیل بعض مواقع پر قرآن اور احادیث کے حوالے دیتا ہے۔ ناول کا فنی پہلو البتہ کمزور ہے۔ ناول کی حیثیت سے اس کی پہلی خامی اس کا محدود کینوس ہے۔ اس وجہ سے ناول صرف یک کرداری (احمدخلیل) کہانی بن گیا ہے۔ اُسی کے حالات‘ اُسی کے واقعات‘ بلکہ اُسی کے اردگرد کی دنیا اور معاشرہ ___فلسطین سے احمدخلیل کی ہجرت کے بعد ہم وہاں کے حالات سے بالکل بے خبر رہے ہیں۔ بعد میں صرف چند سطری خط کے ذریعے ایک مجمل سی خبرملتی ہے۔ (آخری حصے میں اس روش میں تبدیلی آگئی ہے)۔ ناول کی یہ صورت ہمیں بار بار‘ اس کتاب کو ’ناول‘ کہنے سے روکتی ہے۔ دراصل ’احمدخلیل‘ نہ تو بیاگرافی ہے اور نہ ایک ناول___بس درمیان میں کوئی چیز ہے۔ مگر جو کچھ بھی ہو‘ یہ ایک دل چسپ کتاب کی حیثیت سے پڑھی جائے گی۔(رفیع الدین ہاشمی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو‘ یعنی رمضان کا آغاز بھی چاند دیکھ کر اور چاند دیکھ کر ہی عید کرو۔ اُمت مسلمہ ۱۴۰۰ سال سے زیادہ عرصے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی پر عمل پیرا رہی ہے۔ رمضان اور عیدین کے نظام کو درست اور ٹھیک رکھنے کے لیے چاند کا دیکھنا ضروری قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اس کے باوجود رئویت ہلال کے کچھ پہلوئوں اور تفصیلات پر فقہاے اُمت کے درمیان اختلاف راے پایا جاتا رہا ہے۔ اب دورجدید میں ذرائع ابلاغ کی بے پناہ سہولت اور آسانی نے رئویت ہلال کے فقہی اور فنی پہلوئوں کو بہت نمایاں اور اُجاگر کردیا ہے۔
اہلِ علم حضرات نے رئویت ہلال کے اختلافی پہلوئوں کو کم کرنے اور زیادہ سے زیادہ اتفاق کی فضا پیدا کرنے اور علمی مباحث کو کسی مفید نتیجے تک پہنچانے کی انتہائی کوشش کی ہے۔
جناب خالد اعجاز مفتی صاحب کی تحقیقی اور علمی سعی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس مسئلے کے ہر پہلو پر مفتی صاحب نے بڑی عرق ریزی‘ جاں فشانی اور محنت سے تحقیق کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ مسئلہ رئویت ہلال کے حل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ دور جدید کے علماے کرام کاجدید فلکیاتی علوم سے بہت حد تک ناواقف اور نابلد ہونا ہے۔ اختلاف مطالع اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اعلان رئویت ہلال پر فتویٰ دینے کے مجاز وہی ہوسکتے ہیں جودینی علوم پر دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ جدید فلکیاتی علوم سے بھی آگاہ ہوں۔
دینی علوم اور فلکیاتی علوم کے ماہرین کو مل کر اس کا قابلِ عمل حل نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ (عبدالوکیل علوی)
قصہ کہانی ادب کی وہ قسم ہے جس میں انسان کی دل چسپی بالکل فطری ہے۔ اس طرح بات سمجھانا اور ذہن نشین کرانا آسان ہوتا ہے۔ انسانی فطرت اور کہانی کی اثرآفرینی کے پیش نظر اسلام نے اس کو تفہیم و تربیت کا ذریعہ بنایا ہے۔
زیرنظر کتاب معروف مسلم اسکالر مصطفی محمد طحان کی کتاب التربیۃ بالقصۃ کااُردو ترجمہ ہے۔ فاضل مؤلف نے بڑی عرق ریزی سے احادیث مبارکہ میں بیان کیے جانے والے سبق آموز واقعات اور آسمان نبوت کے درخشاں ستاروں (صحابہ کرامؓ) کی ایمان افروز داستانوں سے انتخاب پیش کیا ہے۔ ہرقصے کے آخر میں اہم علمی مباحث اور عملی رہنمائی بھی دی گئی ہے۔ یوں یہ کتاب قرآن و سنت کے حوالوں سے مزین ۴۰ دروس کا خوب صورت گل دستہ ہے۔ دل چسپ اور منفرد انداز بیان کے یہ واقعات ذہن کو متاثر‘ روح کو معطر اور انسان کو آمادہ بہ عمل کرتے ہیں۔ بچوں اور بڑوں کے تزکیہ و تربیت کے لیے یکساں مفید ہے۔ ترجمہ رواں اور سہل۔ (حمید اللّٰہ خٹک)
صدارتی ایوارڈ یافتہ اس کتاب میں علامہ اقبال سے نئی نسل کو کہانی ہی کہانی میں روشناس کروانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اقبال کی شخصیت‘ خدمات اور اُمت کے لیے تڑپ کو ان کی زندگی کے مختلف واقعات سے اُجاگر کیا گیا ہے۔
علامہ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں: شاہین کا تصور اور نوجوانوں سے اقبال کی توقعات‘ دین سے لگائو اور عشقِ رسولؐ، رزقِ حلال‘ فیاضی و خودداری‘ شگفتہ مزاجی اور مزاح کا دل چسپ پیراے اور واقعاتی انداز میںتذکرہ کیا گیا ہے۔ اقبال کے حوالے سے عام تصور سے ہٹ کر کئی اہم نکات سامنے آئے ہیں۔ بسااوقات مکالماتی انداز کی وجہ سے کہانی میں بوجھل پن بھی محسوس ہوتا ہے۔ چند واقعات کا انتخاب بھی غورطلب ہے۔ مصنف نے بجاطور پر توجہ دلائی کہ نئی نسل کو اقبال سے روشناس کرانے کے لیے اقبالیات کو بطور مضمون نصاب میں شامل کیا جائے‘ اور نجی تعلیمی اداروں کو اس سلسلے میں پہل کرنا چاہیے۔ کتابیات سے کتاب کی جامعیت میں اضافے کے ساتھ ساتھ مطالعے کے لیے بھی تحریک ملتی ہے۔ مصنف اس سے قبل قائدکہانی بھی لکھ چکے ہیں۔(امجدعباسی)