اپریل۲۰۰۷

فہرست مضامین

زراعت کی مالی ضروریات اوربیع سلم

آئی اے فاروق | اپریل۲۰۰۷ | معاشیاتِ اسلام

Responsive image Responsive image

تاحال پاکستان ایک زرعی ملک ہے‘ بالخصوص صوبہ پنجاب کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی زراعت ہی ہے۔ حتیٰ کہ اس میں قائم اور جاری صنعتی اداروں کی بنیاد بھی اکثر زرعی خام مال ہی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ تمام شعبہ ہاے زندگی جو بنکاری سے منسلک ہیں‘ سود کی بنیاد پر متحرک ہیں۔ مرکزی حکومت اور اس کے زیرانتظام مرکزی بنک (اسٹیٹ بنک) نے گذشتہ تین برس سے اسلامی بنکاری کی طرف مثبت پیش رفت کی ہے۔ اگرچہ پنجاب میںاس کی رفتار غیرمحسوس سی ہے۔ اگر پنجاب کے مالیاتی ادارے اور حکومت پنجاب اس میدان میں سرگرمی کا مظاہرہ کریں تو اس غیرشرعی عامل سے جس نے صوبے کی معیشت کے ہر پہلو کو گھیرے میں لے رکھا ہے، ایک مربوط اور منضبط طریق کار کے تحت نجات حاصل ہوجائے گی۔ موجودہ پارلیمان اس حالت میں ہے کہ  کم از کم وہ صوبائی سطح پر اسلامی قانون سازی کرکے وہ کام انجام دے سکتی ہے جو اللہ اور رسولؐ کا فرمان ہے۔ اس ضمن میں کسی نئے مفرد یا مرکب (پروڈکٹ) کی ضرورت نہیں‘ بلکہ رسالت مآبؐ کے حکم ’بیع سلم‘ کے تحت پیش رفت ہوسکتی ہے، جس کے لیے کسی فتوے یا مشیرشرعی کا حوالہ ضروری نہیں۔ حکومت کے اپنے دونوں ادارے امداد باہمی کا بنک اور پنجاب بنک پرچم بردار کے طور پر آگے بڑھ سکتے ہیں اور یوں جناب وزیراعلیٰ اور ان کی حکومت دنیا و آخرت میں اپنی سرخ روئی کا سامان کر سکتے ہیں۔

  •  بیع سلم: بیع سلم کیا ہے؟ عرف عام میں یہ بیع کا وہ طریق کار ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا تاکہ انصارِ مدینہ جو کھیتی باڑی کرتے تھے‘ اپنے کاروبار سے ربا کو جڑ سے اُکھاڑ سکیں۔ اس پر اُمّہ میں اجماع ہے۔
  •  پس منظر : ربا (سود) کے بارے میں احکامات نازل ہونے پر مدینہ کے انصار حضوؐر کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم اپنے کاروبار کی وسعت و تزئین و ترتیب کے لیے مدینہ کے یہود سے قرض لے کر کھیتی باڑی کرتے تھے اور اس پر ربا حسبِ دستور ادا کرتے تھے۔ اب یہ سلسلہ ممکن نہیں رہا ہے‘ تو کاروبار کو کیسے ترتیب دیا جائے؟ حضوؐر نے اس بارے میں جو ہدایات دیں‘ ان کا مفہوم یہ ہے:

’فصل کی پیشگی فروخت‘ تاکہ کاشت کار جسے فصل اُگانے کے لیے رقم کی ضرورت ہے (اور فصل کی برداشت کے دوران خاندان کی کفالت بھی کرتا ہے)‘ اس بیع سے رقم حاصل کرسکے۔

واضح رہے کہ بیع سلم صرف فصل کے لیے ہے‘ کسی اور مقصد کے لیے نہیں۔

  •  حدود: ۱- بیع کے اس معاہدے میں جنس‘ مقدار‘ قیمت‘ فراہمیِجنس کی تاریخ‘ فصل کی مکمل تعریف و تفصیل موجود ہوگی۔

۲- فصل کی مقدار کی کُل قیمت پیشگی ادا کی جائے گی۔

۳- کوئی اور تفصیل جو معاہدے کی پُرامن تکمیل میں معاون ہو۔

  •  فوائد: ۱- کاشت کار کمالِ اطمینان سے فصل کی تمام ضروریات پوری کرلے گا جو موجودہ نظام میں نہیں ہوسکتیں۔

۲- تاجر حضرات اپنے کاروبار کو جاری اور اس میں وسعت پیدا کرسکتے ہیں۔

۳- بالعموم فصل کا دورانیہ مختصر ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا اس سہولت کو زرعی اجناس کی عالم گیر تجارت تک پھیلایا جاسکتا ہے۔

۴- فصل پر اسلامی محصولات کی بروقت اور درست ادایگی و وصولی ممکن ہوگی۔

  •  تفھیم: جناب رسالت مآبؐکی عنایت میں اُمت مسلمہ کے لیے حکمت کے کئی پہلو ہیں۔ چند یہ ہیں:

۱- یہ بیع حضوؐر کی اُمت کو عطاہوئی اور ’اللہ کی حلال بیع‘ میں شامل ہے۔

۲- اس سے ’ربا کے حرام کام‘ کو ترک کیا جا سکتا ہے۔

۳- دیگر اُمتوں کے پاس اس ’بیع‘ کی موجودگی کا ذکر کتب میں نہیں ملتا۔

۴- یہ طریق بیع ازخود باعث تبلیغ بھی ہوگا۔

۵- اس بیع میں مال کی فراہمی مستقبل میں ہے کیوں کہ پیداوار اللہ کے اختیار میں ہے۔ لہٰذا اسے انسانی عقل سے پابند یا تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

۶- اس کے محدود اختلافات بھی بنکاری کی عدالتوں سے باہر منڈی کے افہام و تفہیم کے ماحول میں طے ہوسکتے ہیں جس کے لیے قانون میں پہلے ہی گنجایش موجود ہے۔ اس طرح تجارتی معاملات میں عدالتی پیچیدگیوں سے نجات مل جائے گی۔

۷- سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی رحمت اور رسولؐ کی شفاعت کی امید کی جاسکے گی۔

۸- یہ تجارتی معاملہ ہے۔ اس کا اندراج کتابوں میں قرض کے تحت نہیں ہوگا بلکہ     خرید و فروخت کے حساب کتاب کے تحت ہوگا۔

  •  عالمی منظرنامہ: اب تک جو بھی شماریات سامنے آئی ہیں ان سے ثابت ہے کہ اسلامی بنکاری کا ۷۰ فی صد مغربی دنیا میں ہو رہا ہے۔ ان کا اپنے نظام کے علی الرغم مذہبی رجحانات سے ہٹ کر اسلامی بنکاری کو اپنانے کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں:

۱- اسلامی دنیا کے تجارتی شعبے کو اپنی بنکاری کے دائرے میں محفوظ رکھنا (صنعتی بھی)۔

۲- اسلامی ممالک میں اپنی بنکاری کو توسیع دے کر ان کے اندرونی کاروبار پر قبضہ رکھنا۔

۳- اپنی زیادہ تعداد‘ بنکاری کی مہارت اور تکنیکی برتری کی بنا پر عالم گیریت کو اپنے حق میں اور انتظام میں رکھنا۔

۴- اسلامی ممالک کے بنکوں (جب بھی صحیح اسلامی بنکاری اختیارکریں) اور اداروں کے لیے مسابقت کی گنجایش نہ چھوڑنا۔

۵- عالم گیریت کے دور کے قوانین کے تحت مرکزی بنکوں اور حکومتوں کے متعلقہ شعبوں کو زیراثر رکھنا اور عالمی اداروں میں برتری برقرار رکھنا۔

۶- اسلامی بنکاری کے عالمی اداروں میں (جب بھی وجود میں آئیں) اپنا کنٹرول رکھنا۔

۷- ایسے عوامل جو مستقبل میں ظاہر ہوں گے۔

دوسری بات جو سامنے آئی ہے انھوں نے ہمارے فقہا کے طریق کار بیع مرابحہ کو بیع کے بجاے بنکاری کے نظامِ قرض کے تحت اپنایا ہے۔ اس میں شماریات کا نظام وہی رہتا ہے جو مروجہ بنکاری میں ہے۔ لہٰذا وہ اسی طریق کو آگے بڑھا کر عالمی نظام پر قبضہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

تیسری اہم بات یہ ہے کہ زراعت ہر ملک کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس پر موجودہ حالات میں (بالخصوص پاکستان) تجارت اور صنعت کی طرح بنکاری یا اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے حاوی ہونا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیع سلم عالمی اسلامی بنکاری میں مقبول نہیں ہوسکی۔

آخری بات یہ کہ بیع میں مفرد (پراڈکٹ) شامل کر کے فنانسنگ کا طریق کار اس بیع کا متبادل نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ اس کامفرد مستقبل میں رضاے الٰہی سے وجود اختیار کرے گا۔ اس طرح اس کی اصلیت اور پاکیزگی کے برقرار رہنے کابندوبست اللہ کی طرف سے ہے،اوریہی اس کی مقبولیت عامہ کا باعث ہوگا۔ ان شاء اللہ!

  •  بیع کی شماریات: مندرجہ بالا حقائق کی بنا پر اس بیع کے حسابات تین درجوں میں ہوسکتے ہیں:

۱- بیع کے لیے تجارتی کھاتے شروع کر کے نئے شعبے قائم کرنا ہوں گے۔

۲- پیشگی ادایگی کے نظام کو متفرق ادایگیوں کے تحت ترتیب دے کر (suspense account)

۳- ذیلی تجارتی ادارے قائم کر کے یہ نئے ادارے چونکہ افراد کی موجودگی سے چلیں گے اور مشین ان کا بدل نہیں بن سکتی‘ ملازمت کے غیرمحدود مواقع پیدا ہوں گے۔