تاحال پاکستان ایک زرعی ملک ہے‘ بالخصوص صوبہ پنجاب کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی زراعت ہی ہے۔ حتیٰ کہ اس میں قائم اور جاری صنعتی اداروں کی بنیاد بھی اکثر زرعی خام مال ہی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ تمام شعبہ ہاے زندگی جو بنکاری سے منسلک ہیں‘ سود کی بنیاد پر متحرک ہیں۔ مرکزی حکومت اور اس کے زیرانتظام مرکزی بنک (اسٹیٹ بنک) نے گذشتہ تین برس سے اسلامی بنکاری کی طرف مثبت پیش رفت کی ہے۔ اگرچہ پنجاب میںاس کی رفتار غیرمحسوس سی ہے۔ اگر پنجاب کے مالیاتی ادارے اور حکومت پنجاب اس میدان میں سرگرمی کا مظاہرہ کریں تو اس غیرشرعی عامل سے جس نے صوبے کی معیشت کے ہر پہلو کو گھیرے میں لے رکھا ہے، ایک مربوط اور منضبط طریق کار کے تحت نجات حاصل ہوجائے گی۔ موجودہ پارلیمان اس حالت میں ہے کہ کم از کم وہ صوبائی سطح پر اسلامی قانون سازی کرکے وہ کام انجام دے سکتی ہے جو اللہ اور رسولؐ کا فرمان ہے۔ اس ضمن میں کسی نئے مفرد یا مرکب (پروڈکٹ) کی ضرورت نہیں‘ بلکہ رسالت مآبؐ کے حکم ’بیع سلم‘ کے تحت پیش رفت ہوسکتی ہے، جس کے لیے کسی فتوے یا مشیرشرعی کا حوالہ ضروری نہیں۔ حکومت کے اپنے دونوں ادارے امداد باہمی کا بنک اور پنجاب بنک پرچم بردار کے طور پر آگے بڑھ سکتے ہیں اور یوں جناب وزیراعلیٰ اور ان کی حکومت دنیا و آخرت میں اپنی سرخ روئی کا سامان کر سکتے ہیں۔
’فصل کی پیشگی فروخت‘ تاکہ کاشت کار جسے فصل اُگانے کے لیے رقم کی ضرورت ہے (اور فصل کی برداشت کے دوران خاندان کی کفالت بھی کرتا ہے)‘ اس بیع سے رقم حاصل کرسکے۔
واضح رہے کہ بیع سلم صرف فصل کے لیے ہے‘ کسی اور مقصد کے لیے نہیں۔
۲- فصل کی مقدار کی کُل قیمت پیشگی ادا کی جائے گی۔
۳- کوئی اور تفصیل جو معاہدے کی پُرامن تکمیل میں معاون ہو۔
۲- تاجر حضرات اپنے کاروبار کو جاری اور اس میں وسعت پیدا کرسکتے ہیں۔
۳- بالعموم فصل کا دورانیہ مختصر ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا اس سہولت کو زرعی اجناس کی عالم گیر تجارت تک پھیلایا جاسکتا ہے۔
۴- فصل پر اسلامی محصولات کی بروقت اور درست ادایگی و وصولی ممکن ہوگی۔
۱- یہ بیع حضوؐر کی اُمت کو عطاہوئی اور ’اللہ کی حلال بیع‘ میں شامل ہے۔
۲- اس سے ’ربا کے حرام کام‘ کو ترک کیا جا سکتا ہے۔
۳- دیگر اُمتوں کے پاس اس ’بیع‘ کی موجودگی کا ذکر کتب میں نہیں ملتا۔
۴- یہ طریق بیع ازخود باعث تبلیغ بھی ہوگا۔
۵- اس بیع میں مال کی فراہمی مستقبل میں ہے کیوں کہ پیداوار اللہ کے اختیار میں ہے۔ لہٰذا اسے انسانی عقل سے پابند یا تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
۶- اس کے محدود اختلافات بھی بنکاری کی عدالتوں سے باہر منڈی کے افہام و تفہیم کے ماحول میں طے ہوسکتے ہیں جس کے لیے قانون میں پہلے ہی گنجایش موجود ہے۔ اس طرح تجارتی معاملات میں عدالتی پیچیدگیوں سے نجات مل جائے گی۔
۷- سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی رحمت اور رسولؐ کی شفاعت کی امید کی جاسکے گی۔
۸- یہ تجارتی معاملہ ہے۔ اس کا اندراج کتابوں میں قرض کے تحت نہیں ہوگا بلکہ خرید و فروخت کے حساب کتاب کے تحت ہوگا۔
۱- اسلامی دنیا کے تجارتی شعبے کو اپنی بنکاری کے دائرے میں محفوظ رکھنا (صنعتی بھی)۔
۲- اسلامی ممالک میں اپنی بنکاری کو توسیع دے کر ان کے اندرونی کاروبار پر قبضہ رکھنا۔
۳- اپنی زیادہ تعداد‘ بنکاری کی مہارت اور تکنیکی برتری کی بنا پر عالم گیریت کو اپنے حق میں اور انتظام میں رکھنا۔
۴- اسلامی ممالک کے بنکوں (جب بھی صحیح اسلامی بنکاری اختیارکریں) اور اداروں کے لیے مسابقت کی گنجایش نہ چھوڑنا۔
۵- عالم گیریت کے دور کے قوانین کے تحت مرکزی بنکوں اور حکومتوں کے متعلقہ شعبوں کو زیراثر رکھنا اور عالمی اداروں میں برتری برقرار رکھنا۔
۶- اسلامی بنکاری کے عالمی اداروں میں (جب بھی وجود میں آئیں) اپنا کنٹرول رکھنا۔
۷- ایسے عوامل جو مستقبل میں ظاہر ہوں گے۔
دوسری بات جو سامنے آئی ہے انھوں نے ہمارے فقہا کے طریق کار بیع مرابحہ کو بیع کے بجاے بنکاری کے نظامِ قرض کے تحت اپنایا ہے۔ اس میں شماریات کا نظام وہی رہتا ہے جو مروجہ بنکاری میں ہے۔ لہٰذا وہ اسی طریق کو آگے بڑھا کر عالمی نظام پر قبضہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
تیسری اہم بات یہ ہے کہ زراعت ہر ملک کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس پر موجودہ حالات میں (بالخصوص پاکستان) تجارت اور صنعت کی طرح بنکاری یا اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے حاوی ہونا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیع سلم عالمی اسلامی بنکاری میں مقبول نہیں ہوسکی۔
آخری بات یہ کہ بیع میں مفرد (پراڈکٹ) شامل کر کے فنانسنگ کا طریق کار اس بیع کا متبادل نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ اس کامفرد مستقبل میں رضاے الٰہی سے وجود اختیار کرے گا۔ اس طرح اس کی اصلیت اور پاکیزگی کے برقرار رہنے کابندوبست اللہ کی طرف سے ہے،اوریہی اس کی مقبولیت عامہ کا باعث ہوگا۔ ان شاء اللہ!
۱- بیع کے لیے تجارتی کھاتے شروع کر کے نئے شعبے قائم کرنا ہوں گے۔
۲- پیشگی ادایگی کے نظام کو متفرق ادایگیوں کے تحت ترتیب دے کر (suspense account)
۳- ذیلی تجارتی ادارے قائم کر کے یہ نئے ادارے چونکہ افراد کی موجودگی سے چلیں گے اور مشین ان کا بدل نہیں بن سکتی‘ ملازمت کے غیرمحدود مواقع پیدا ہوں گے۔
ربع صدی قبل پاکستان میں مالیاتی نظام کو شریعت کے دائرے میں لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ ایک بہت بڑا فیصلہ تھا اور اس میں تمام غیراسلامی امور کا خاتمہ شامل تھا۔ علما اور ایسے حضرات جو دنیوی علوم پر دسترس رکھتے تھے سرجوڑ کر بیٹھ گئے اور انھوں نے دن رات کام کر کے متعدد تجاویز پیش کیں جو موجودہ نظام کا متبادل بن سکتی تھیں‘ تاہم یہ تجاویز عمل کا جامہ نہ پہن سکیں۔ اس کی بظاہر وجہ تو ہماری ایمانی کمزوری ہی ہے‘ مگر اس کی اور بھی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ بہرحال معاملہ آسانی سے عدلیہ کے کندھوں پر ڈال دیا گیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جن اداروں کی یہ بنیادی ذمہ داری تھی وہ اس میں شریک نہیں ہوئے۔
یہ معاملہ برسوں عدلیہ میں پڑا رہا۔ ۹۰کے عشرے کے آخر میں سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا اور تاریخی فیصلے میں عملی اقدامات کی شکل بھی متعین کر دی‘ تاہم اخبارات میں شائع ہونے والی تفصیلات کے مطابق اس تجویز پر عمل درآمد ممکن نہ تھا۔
مجھے اس علمی بحث سے دل چسپی نہیں ہے‘ کیونکہ یہ محض بحث براے بحث ہی ثابت ہوئی اور معاملہ وہیں کا وہیں رہا۔ مگر ایک خطرناک اور خوفناک صورت حال اب درپیش ہے کیونکہ اب ہم ایسی جگہ پہنچ گئے ہیں جہاں ہم ایک خاص نقطۂ نظر کو دوام دینے کے لیے اور ’جائز‘ کے درجے سے حلال کے درجے پر پہنچانے کے درپے ہوگئے ہیں۔ مقتدرہ چاہتی ہے کہ موجودہ آئینی اور جائز صورت حال کو حرام کے دائرے سے نکال کر حلال قرار دیا جائے۔
مسئلہ یہ ہے کہ: موجودہ سود جو بنک کاری نظام میں جاری و ساری ہے‘ کیا یہ حلال ہے اور کیا یہ ربا نہیں؟ کیا یہ سود اس ربا سے مختلف ہے جو باقی معیشت میں شامل ہے؟
پاکستان کا بنک کاری نظام معیشت سے مربوط ہے اور حجم میں اس کا غالب حصہ ہے۔ لہٰذا اہمیت اسی سود کی ہے۔ ایک تحقیق کار کی حیثیت سے میں علما اور اہلِ دانش کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں تاکہ یہ معلوم کیا جائے کہ موجودہ نظام بنک کاری کی بنیاد کیا ہے۔ اس طرح معاملے کی حقیقت کو سمجھا جاسکے۔ اس کے لیے ہمیں ان علوم پر موجود تمام کتب کو دیکھنا ہوگا‘ مگر دشواری یہ ہے کہ ان کتب کا غالب حصہ مغرب کی تحقیق اور عملی کاوش پر مشتمل ہے۔ پھر بھی اس کو دیکھنے پر پتا چلتا ہے کہ بنک کاری کا منبع دھند میں چھپا ہوا ہے۔ مغرب اسے قرونِ وسطیٰ کے سناروں کی دل لگی قرار دیتا ہے۔ اس علم سے نصف صدی وابستہ رہنے کے باوجود مغرب مجھے اس کے حقیقی ماخذ و منبع تک نہیں پہنچا سکا۔
کیا یہ علم مغرب کی اپنی تخلیق و تحقیق ہے یا کسی اور قوم کا اثاثہ ہے جسے مفیدپاکر اسے اپنے معاشرے کا ایک فطری فعل قرار دیا ہے‘ اور یہ نظام اس کی موجودہ شکل ہے جس پر مغربی مفکرین نے کام کیا اور اسے نفع بخش پاکر اپنا لیا؟
برسوں اس کش مکش میں مبتلا رہنے کے بعد مولانا مناظر احسن گیلانی کی کتاب امام ابوحنیفہؒ کی سیاسی زندگی میں ‘ میں نے واضح الفاظ میں پڑھا کہ حضرت ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اصول بنک کاری وضع کیا۔ یہ جملہ متقاضی ہے کہ اس بات کو سمجھا جائے کہ اصول بنک کاری کیا ہے۔ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ یہ اصول انھی کا وضع کردہ ہے تو یہ عقدہ کھل سکتا ہے کہ بنک کاری کیسے وجود میں آئی۔ پھر مغربی محققین کی رائے پر دوبارہ غوروفکر کی ضرورت ہوگی۔ یہ بھی معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ حضرت ابوحنیفہؒ کی سوچ کا ماخذ کیا ہے۔ کیا یہ قرآن ہے‘ انجیل ہے یا زبور یا کوئی اور کتاب ہے! کیا اس زمانے میں اور کتب تھیں؟ فرض کیجیے کہ اس کاماخذ انجیل ہے تو مغربی مفکر بنک کاری کا وجود اس سے منسلک کیوں نہیں کرتے؟ ایک دوسری مغربی قوم کی کتاب زبور ہے اور وہ بھی بنک کاری کو زبور سے منسلک نہیں کرتی۔ لہٰذا یہ بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ حضرت ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی سوچ صرف اور صرف قرآن سے‘ یعنی کتاب اللہ اور اسوئہ حسنہ ہی سے ہر چیز اخذکرتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ قانونِ بنک کاری کی تمام کتب بنک کاری کی تعریف یوں کرتی ہیں: بنک کاری کا مطلب ڈیپازٹ لینا ہے(وصول کرنا ہے)‘ یعنی یہ ایک عمل ہے جو ڈیپازٹ لینا یا وصول کرنا سے شروع ہوتا ہے اور پھر اس کی دیگر حالتوںکو احاطۂ تحریر میں لاتا ہے اور مختلف شکلوں میں تبدیل کرتا ہے۔
آج کے علم کے مطابق جو تسلسل سے ماضی سے وابستہ چلا آ رہا ہے‘ ڈیپازٹ ایک عمل ہے جس کے کم از کم دو پہلو ہیں: امانت دار اور قرض۔ ان کے مجموعے کا نام ڈیپازٹ ہے۔ ان دونوں کا ماخذ کیا ہے؟ کیا یہ الہامی کتب کا حصہ ہیں؟ جہاں تک دیگر الہامی کتب کا تعلق ہے اب تک کسی مفکر نے ان کو الہامی کتب سے نہیں جوڑا۔مگر یہ دونوں عمل قرآن میں موجود ہیں اور اسوئہ حسنہ ان پر دلیل ہے۔ ان دونوں کو کیسے ملایا گیا اور کس نے ملایا؟
۱- اُردو دائرہ معارف اسلامیہ میں ربا کے باب میں یہ بات درج ہے : حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے بارے میں صحیح روایات سے ثابت ہے کہ وہ لوگوں کی امانتیں اپنے پاس اس شرط پر رکھتے تھے کہ انھیں قرض قرار دیا جائے تاکہ اس رقم سے مالک کا فائدہ ہو کہ اس کا مال ضائع ہونے سے محفوظ ہوجائے‘ اور اپنا یہ فائدہ ہے کہ اسے تجارت میں لگاکر اس سے نفع حاصل کیا جا سکے۔ چنانچہ انھوں نے اپنی شہادت کے وقت ۲۲لاکھ کی رقم چھوڑی۔ یہ ساری رقم کاروبار میں لگی ہوئی تھی۔(ص ۱۷۵)
۲- حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبیداللہ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ عراق گئے۔ وہاں عراق کے گورنر حضرت ابوموسیٰ الاشعریؓ نے بیت المال سے ایک رقم انھیں بطور قرض دی جو وہ حضرت عمرؓ کے پاس مدینہ بھیجنا چاہتے تھے۔ لیکن اگر وہ بطور امانت انھیں دیتے تو ضروری نہ تھا کہ وہ محفوظ رہتی۔ اس لیے کہ راستہ میں ضائع ہوجانے کی صورت میں عبداللہ اور عبیداللہ رضی اللہ عنہم پر تاوان نہ آتا تھا۔ لہٰذا بطور قرض دی کہ رقم بھی بیت المال پہنچ جائے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادگان کے واقعے میں یہی ہواکہ جب انھوں نے بیت المال کی رقم سے تجارت کر کے نفع کمایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر اعتراض کیا اور کہا کہ جب دوسرے لوگوں کو بیت المال سے قرض نہیں دیا گیا تو تم میں کیا خصوصیت تھی؟سارا نفع واپس کرو۔ حضرت عبیداللہؓ نے اگرچہ اس کی معقول وجوہ بیان کیں مگر حضرت عمرؓ نے انھیں قبول نہ کیا۔ بالآخر مجلس میں بیٹھے ہوئے ایک صاحب نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ اگر آپ اس قرض کو ’’قراض‘‘ قرار دے دیں تو اچھا ہو (قراض‘ یعنی ایسی شرکت جس میں ایک شخص دوسرے کو سرمایہ دے اور دوسرا شدید محنت و ہنر کے نتائج متعینہ حصوں میں تقسیم کردے)۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے منظور کرلیا۔ آدھا نفع حضرت عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس رہنے دیا اور آدھا واپس لے کر بیت المال میں داخل کر دیا۔ اس واقعے سے صاف ظاہر ہے کہ تجارتی قرض کا رواج صرف دو ہی طرح تھا: یا بغیر کسی منافع کے‘ یا مضاربت و قراض کی شکل میں۔
امانت کے معنیٰ اس چیز کی بعینہٖ واپسی ہے اور قرض دوسری رقم کی ادایگی سے بھی ادا ہوجاتا ہے۔ یہی دونوں عمل مل کر موجودہ ڈیپازٹ کے مفہوم کو مکمل طور پر ادا کرتے ہیں۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سکّہ سازی حکومت کے ہاتھ میں لے لی۔ عموماً پرانے غیرمسلم سکّہ ساز ہی ملازمت میں برقرار رکھے گئے۔ حکومت بھی سکّے ڈھالتی اور رعایا کو بھی یہ حق حاصل تھا کہ سونا چاندی لاکر اُجرت ادا کر کے دارالضرب میں سکّے ڈھلوا لے۔ اس طرح سکّہ ایک ہی شکل اختیار کرگیا۔ اگر یہ فیصلہ نہ ہوتا تو امانتی قرض (ڈیپازٹ) کی ادایگی نہ ہوپاتی۔ یہ بظاہر سادہ مگر انتہائی اہمیت کا فیصلہ تھا جو بعد میں ڈیپازٹ کی بنیاد بنا ہوگا۔
یہ بھی موجود ہے کہ اس دور میں کاغذ اور چمڑے کے سکّے کا ذکر بھی ہوا مگر پرکھ نہ ہونے کی بنا پر رائج نہ کیے گئے۔ (باب عمرؓ)
اب یہ بات واضح ہے کہ تاریخ کے جس دور میں یہ واقعات ہوئے اور یہ مفہوم لیا گیا وہ خالصتاً کتاب اللہ اور اسوئہ حسنہ پر استوار تھا۔ اس وقت سے لے کر یورپ میں صنعتی انقلاب اور مالی و سیاسی انقلابات تک کے ہزار سال سے زائد کے دور میں یورپ کی تاریخ میں مندرجہ بالا طرز کی کوئی مثال نظر نہیں آتی حالانکہ اس دور میں یورپ اغلباً ایک ہی مذہبی رجحان پر کاربند تھا۔
یہ عمل اسلامی معاشرے میں جاری رہا اور کاروبار کی بنیاد بھی بنا۔ مگر اس میں سے اکثر مثالیں شخصی حیثیت کی تھیں۔ حضرت ابوحنیفہؒ نے اپنے فقہی اور تحقیقی کام کے لیے اس طریق کار کو وسعت دی اور اس طرح حاصل ہونے والے ’’امانتی سرمائے‘‘ کو کپڑے کا کارخانہ لگانے کے لیے استعمال کیا۔ اسی سے انھوں نے ضرورت مندوں کو قرض بھی دیا۔ ظاہر ہے جب یہ کام تجارتی پیمانے پر ہوا تو اس سے کئی نظام وجود میں آئے ہوں گے۔ مثلاً: ۱- بغیر نفع کے امانت کی واپسی کا نظام‘ ۲- اگر نفع کا ذکر تھا تو تجارت کے نفع میں ادایگی کا نظام‘ ۳- حساب کتاب کا نظام‘ ۴- طلب کرنے پر قرض امانت کی تحریری یادداشت کا نظام‘ ۵-نفع و نقصان کا نظام ۶-قومی اور بین الاقوامی قوانینِ تجارت‘ ۷- اُجرت کے قوانین‘ ۸- اس نظام سے منسلکہ دوسرے ضروری قوانین۔
ان حقائق کو جمع کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کے مجموعے کا نام ہی تجارتی بنک کاری ہے اور موجودہ بنک یہی کام کر رہے ہیں۔ فرق صرف نفع و نقصان میں شراکت کے نظام کا ہے۔
مندرجہ بالا بحث سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ڈیپازٹ کا موجودہ عمل اسی عمل کا تسلسل ہے۔ لہٰذا یہ محتاط اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا ماخذ قرآن و سنت ہی ہے۔ میرے لیے تحقیق کا یہ پہلو بہت اہم تھا۔ اس لیے یہ خیال راسخ ہوتا گیا کہ نظامِ بنک کاری کے تمام پرزوں کو علیحدہ علیحدہ کر کے ان کے ماخذ کو تلاش کیا جائے۔ اس کے لیے یہ معلوم کرنا ضروری تھا کہ اس نظام کے دوسرے حصے کیا ہیں۔
اگر ہم بغور دیکھیں تو یہ سوال سامنے آئے گا کہ امانت کی دستاویز کیا تھی‘ اور اس امانت کی جو تجارتی قرض کی شکل بھی رکھتی ہو‘ تحریر کیا ہوسکتی ہے؟
اس مقالے میں ہماری بنیادی دلیل یہی رہی ہے کہ مغربی مفکرین ان کے ناقدین اور پیروکاروں نے اپنے افکار کو کبھی بھی کسی الہامی کتاب سے منسلک نہیں کیا بلکہ صرف اور صرف عقل ہی کو دلیل تسلیم کیا ہے۔ اگر آپ تاریخِ عالم پر نگاہ دوڑائیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت تک کسی بھی کونے میں تجارتی قرض کی تحریر کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ مالیاتی نظام کی بنیاد سکّہ تھا۔ دیگر مذاہب کی کتابیں یا تو موجود نہیں یا مالیاتی نظام کا ذکر نہیں کرتیں کیونکہ تاریخ کے سفر میں ان کتب کا اصل مضمون غائب ہوچکا ہے۔ صرف اور صرف قرآن مجید ہی انبیا کے ادوار میں ان کے طرزِحکومت‘ شان و شوکت اور عبادت کا ذکر کرتا ہے۔ یاد رہے کہ مالیاتی نظام بھی عبادات ہی کا ایک حصہ ہے‘ جیسے زکوٰۃ‘ روزہ یا نماز۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم میں سکّے کا وجود محسوس ہوتا ہے‘ اور اس کے کھوٹے ہونے کا تصور ہے۔ اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعے میں بھی سکّے کا ذکر ہے اور اس کے کھوٹے یا کھرے ہونے کا تذکرہ ہے۔ سورۂ آل عمران میں دینار اور درہم مذکور ہیں۔ البتہ سورۂ کہف میں ایک ورق کاذکر ہے جو قوتِ خرید رکھتا ہے۔ اس ورق کی ہیئت ترکیبی کا ذکر نہیں ہے۔ اس ضمن میں چند صورتیں یہ ہوسکتی ہیں:
۱- ورق کی شکل کا سکّہ (دھات کا) ۲- کاغذ کا سکّہ (دھات کے علاوہ کسی اور چیز کا) ۳- کاغذ پر ایسی تحریر جو قوتِ خرید رکھتی تھی ۴- کوئی اور شکل جس کا علم اللہ کو ہے۔
اس میں تیسری شکل قرض کی تحریر کی بھی ہوسکتی ہے۔ (واللّٰہ اعلم!)
مگر قرآن مجید واضح طور پر سورۂ بقرہ میں قرض کی تحریر کی ہدایت فرماتا ہے۔ اس کی بھی کئی شکلیں ہوسکتی ہیں: ۱- رسید ۲- وعدہ (ادایگی) ۳- اقرار (وصولی) ۴- اقرار اور ادایگی کا وعدہ ۵- کوئی اور شکل (واللّٰہ اعلم!)
اس میں سے چوتھی شکل ایک عہدنامہ (promissory note)کی ہوسکتی ہے۔ اور یہ شکل مسلم معاشروں میں تجارتی بازاروں کی حد تک تسلسل سے استعمال ہوئی۔ ایک زمانے میں مجھے اس کی مختلف اشکال پر کام کرنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ تھوک کے تجارتی بازاروں میں ان کے نام رقعہ‘ پرچی‘ وعدہ‘ وغیرہ ہیں اور قصور اور لاہور کے چمڑے اور کپڑے وغیرہ کے تجارتی بازاروں میں مستعمل ہیں۔ یہی تحریر اگر مال کے بجاے کرنسی کے امانتی قرض کے لیے استعمال ہوتو اس کی شکل عہدنامے ہی کی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ اسلامی معاشرے کی تجارت میں معاون یہ آلۂ تجارت قرآن کے احکامات کی عملی شکل ہی ہے جن کا ذکر پہلے کیا گیا ہے۔
مغربی معاشروں میں اور معاشیات کی کتابوں میں اسی طرح کے عہدنامے کا ذکر ہے جو تجارتی ادارے‘ ساہوکار اور تجارتی بنک لکھتے اور استعمال کرتے تھے۔ سولھویں/سترھویں صدی میں جب بنک آف انگلینڈ کو کرنسی نوٹ پر اجارہ داری دی گئی (جوکہ اس عہدنامے کی ایک شکل ہے) تو دیگر تجارتی بنکوں کو بازار میں اپنے عہدنامے لانے سے روک دیا گیا۔
اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ عہدنامہ خواہ وہ صرف قرض کے لیے ہو یا ڈیپازٹ کے لیے‘ اس کی ابتدا بھی قرآن مجید سے ہی ہے اور اس کے لکھنے والے بھی مسلمان علما ہی ہیں۔ یورپ نے یہ علم مسلمانوں سے ہی سیکھا۔ خواہ اندلس سے‘ دہلی سے‘ ترکی سے‘ بغداد سے‘ مصر سے یا سسلی سے۔ میری سوچ سسلی کی طرف مائل ہے کیونکہ ادریسی نے دنیا کا نقشہ یہیں بنایا۔ وہاں ریاضی ایک علم کے طور پر سامنے آیا۔ بین الاقوامی تجارت بھی ہوئی۔ اٹلی کے ساتھ اور تجارتی حساب کتاب یورپ میں پہلے پہل اٹلی میں ہی پھیلا اور پروان چڑھا۔ موجودہ ہند سے انگلستان میں مسلمانوں کے ہندسے کہلاتے تھے۔
اب یہ واضح ہوجاتا ہے کہ بنک کاری نظام کے دو بنیادی عناصر‘ یعنی ڈیپازٹ اور قرض کی تحریر قرآن مجید سے ماخوذ ہیں۔ مغرب نے صرف ان اصولوں کو کتابی شکل میں مرتب کیا اور چھاپہ خانے کے ذریعے اس علم کو پھیلایا۔ میں ان کی اس محنت اور عظمت کا اعتراف کرتا ہوں۔ مگر یہ توقع بھی رکھتا ہوں کہ وہ اس بات کا اعتراف کریں کہ یہ علم بھی انھوں نے مسلمانوں سے سیکھا۔ اسی طرح‘ جیسے طب‘ ریاضی‘ جیومیٹری‘ جغرافیہ وغیرہ وغیرہ۔ اگر ان دلائل کو تسلیم کرلیا جائے تو پتا چلے گا کہ بنک کاری کی بنیاد قرآن وسنت ہے‘ اور یہ مسلمان حکومتوں کے دور میں شروع ہوئی اور پروان چڑھی۔ کیونکہ مسلمان ریاست نے اس مالیاتی نظام اور بیت المال کو کم و بیش اسی نہج پر قائم رکھا جو تابعین کے زمانے سے چلا آ رہا تھا اور مسلمان حکومتوں میں قرض لینے کا (حکومتی سطح پر) کوئی سلسلہ تاریخ میں نظر نہیں آتا۔ غالباً ایسی ہی اور دیگر وجوہات کی بنا پر بنک کاری حکومتی ضرورت یا فرائض کا حصہ نہ بن سکی‘ بلکہ انفرادی اور ذاتی‘ یعنی پرائیویٹ سیکٹر کاحصہ بنی۔ جیسا کہ حضرت ابوحنیفہؒ کی مثال ہے۔
مندرجہ بالا بحث کا منطقی نتیجہ تو یہی نکلتا ہے کہ بنک کاری مسلمان تاجروں کے قرآن و سنت پر عمل کرتے ہوئے تجارتی نظام (ملکی اور بین الاقوامی) کا حصہ بنی اور اس کے اولین محقق کا نام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہے جنھوں نے اصحاب رسولؐ کے عمل کو سامنے رکھ کر اس تجارتی سرمایہ کاری (ایک حد تک صنعتی بھی) کی بنیاد رکھی اور یہ عمل دوسری صدی ہجری میں شروع ہوا۔ اس بنا پر بنک کاری کا عمل اسلامی ہی ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ حساب کتاب کا وہی طریقہ اپنایا جائے جو اسلاف نے اپنایا۔ اور یہ کام آج جدید ٹکنالوجی کی مدد سے بآسانی کیا جاسکتا ہے (اور اس کے بغیر بھی)۔
آیئے اب اس عمل کو ایک اور زاویے سے دیکھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع پر اللہ کے حکم سے ربا کو حرام قرار دیا۔ لہٰذا ربا اسلامی سلطنت کے ہر کونے سے ہر شکل میںخارج ہوگیا۔ مگر یہ حکم مسلمانوں کے لیے تھا۔ غیرمسلموں نے کیا کیا؟ تاریخ اس بارے میں کئی اشارے دیتی ہے:
۱- وہ حکومتیں جہاں ۱۰۰ فی صد مسلمان آباد تھے وہاں ربا ہر صورت میں ختم ہوگیا۔
۲- جہاں مسلمان اکثریت میں تھے اور حاکم تھے وہاں بھی یہ ہر صورت میں ختم ہوگیا۔
۳- جہاں مسلمان اقلیت میں تھے مگر حاکم تھے وہاں یہ علانیہ جاری نہ رہ سکا۔ ہوسکتا ہے کہ غیرمسلم عناصر نے کسی نہ کسی شکل میں اس کو جاری رکھا۔ غالباً خفیہ طور پر ریاست کے علم میں لائے بغیر۔
۴- جب اور جہاں مسلمان حکومتیں اخلاقی زوال سے گزریں تو بھی عوامی سطح پر یہ رائج نہ رہا۔ مگر حکومتی سطح پر اس کا وجود محسوس ہوتا ہے۔
۵- کمزور مسلمان حکومتوں نے بین الاقوامی ذرائع کی وجہ سے اس کی حُرمت کو ترک کیا۔ مگر عوامی سطح پر اس کے خلاف آواز ہمیشہ بلند ہوئی۔
۶- عوامی سطح پر حکومت سے ٹکرائو سے اجتناب کیا گیا کیونکہ اس مسئلے پر ٹکرائو تباہی کا سبب بن سکتا تھا۔
۷- دیگر شکلیں جو واضح نہیں ہیں۔
۸- اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر آج تک مسلمان ممالک میں ترکی اور پاکستان دو ایسے ملک ہیں جو مالیاتی نظام کی مندرجہ بالا شکلوں کو مکمل طور پر ظاہر کرتے ہیں۔ دیگر مسلمان ممالک میں یا تو غیرمسلموں کی موجودگی کی وجہ سے یہ موثر ہے یا مالیاتی نظام ان کو بناکر دیے گئے ‘ جب کہ ترکی اور پاکستان نے اپنی مرضی سے موجودہ نظام اپنائے ہیں اور خود تعمیر کیے ہیں۔
تاریخِ اسلام میں تو یہ کہانی درج ہے۔ سوال یہ ہے کہ دوسرے مذاہب میں اس ضمن میں حکومتی یا عوامی سطح پر کیا ہوا۔ اس وقت سبھی ممالک میں چونکہ وہی نظام رائج ہے جس کی رکھوالی مغرب کر رہا ہے۔ اگر یہ دیکھ لیا جائے کہ مغرب میں کیا ہوا تو اس سوال کا کافی حد تک جواب مل جائے گا۔ مغرب میں دو مذاہب بنک کاری نظام سے وابستہ ہیں۔ ایک عیسائیت دوسری یہودیت۔ عیسائیوں کے قدیم ترین فرقہ کیتھولک کے مطابق نظام بنک کاری کا سود ربا ہے جو عیسائیت میں حرام ہے۔ البتہ انگلستان کے چرچ کا خیال اس ضمن میں بہت روشن اور آزاد ہے۔ وہاں یہ حرام نہیں ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ بہت سادہ۔ چرچ آف روم کی ریاست نہیں ہے اور چرچ آف انگلستان مذہب کو فرد کی ذات میں مقید سمجھتا ہے‘ جب کہ معاملاتِ ریاست آئین سے چلتے ہیں۔ آئین سود کو جائز قرار دیتا ہے (حلال نہیں) ‘کیونکہ حرام اور حلال اور ربا مذہبی اصطلاحات اور عمل ہیں‘ جب کہ سود اور ربا آئینی معاملات ہیں جن کا فیصلہ ریاست کرتی ہے۔ آئین معاملاتِ ریاست کا ذکر کرتا ہے‘ جب کہ مذہب آئین سے بالاتر چیز ہے جو آج کل کے عالمی حالات میں مجازی محافظ کے بغیر بے یارومددگار ہے۔ ریاست کا حکمران انگلستان کے آئین کا محافظ ہے۔ اس کے پاس فنا وبقا کا بے پناہ دنیوی اختیار ہے (بمع نیوکلیائی طاقت)‘ جب کہ مذہب افراد کی ذات تک محدود ہے (جو نیوکلیائی طاقت کو کم از کم پسند نہیں کرتے)۔
۱- مالیاتی نظام میں چرچ آف روم دخیل تھا۔ اس وقت تک چرچ آف روم ہی انگلستان کا چرچ تھا۔
۲- سیاسی نظام میں بھی چرچ کا عمل دخل تھا کیونکہ شاہی خاندان کی بقا اور ریاست کا خاندان میں رہنا اس امر کا متقاضی تھا کہ نرینہ اولاد ہو اور زندہ ہو۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مروجہ عیسائیت میں دوسری شادی کی گنجایش نہیں تھی اور دوسری کسی خاتون سے پیدا ہونے والا بچہ جائز وارث نہ بن سکتا تھا۔ کم از کم آزادی سے اور چرچ کے دخل کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔
ایسا ہی ایک لمحہ ہنری ہشتم کے عہد میں بھی گزرا۔ اس کی نرینہ اولاد پہلی بیوی سے پیدا نہ ہوسکی اورچرچ کے ساتھ معاملات طے نہ ہوسکے۔ لہٰذا اس نے انگلستان کا علیحدہ چرچ بنالیا اور چرچ آف روم سے تعلق منقطع کرلیا۔ گویا نئے مذہب کا بانی بن گیا اور یہ بات آج بھی اسی طرح ہے۔
جب چرچ آف روم سے علیحدگی ہوگئی تو مالیاتی معاملات مکمل طور پر ریاست کے اختیار میں آگئے۔ بنک کاروں کے مشورے پر بادشاہ نے حرام ربا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک حصہ کو اس نے جائز قرار دے دیا اور دوسرے کو حرام رہنے دیا۔ جائز حصہ اس نے نظامِ بنک کاری میں شامل کر دیا۔ چرچ کے پاس اختیار تو تھانہیں جو اس کی مخالفت کرتا اور عوام اس وقت جس ریاستی نظام میں بس رہے تھے‘ اس میں اس بات پر بغاوت نہیں ہوسکتی تھی۔
یہ سانحہ ۱۵۴۵ء میں ہوا۔ عجب بات یہ ہے کہ عیسائی مذہب اور چرچ آف روم اور اس کے زیرِاثر حکمران اس معاملے میں کوئی مؤثر کردار ادا نہ کرسکے۔ میں اس امرواقع کی وہ تفصیل پیش کر رہا ہوں جو ڈکشنری آف بنکنگ اینڈ فنانس‘ بینسن اور ڈیرک لندن ۱۹۸۵ء میں صفحہ ۳۶۴ پر درج ہے۔ (ترجمہ آزاد ہے):
سود رقم کی قیمت ہے۔ یہ وہ پیسہ ہے جو رقم کے استعمال کے عوض دیا جاتا ہے۔ انگلستان میں ازمنۂ وسطیٰ میں رقم کا سود پر ادھار دینا عیسائیت سے بعید تھا اور اہل انگلستان کے لیے حرام تھا جن میں سے چند کو اس جرم کی پاداش میں پھانسی دی گئی۔ سود کا لینا ربا تھا اور یہ حرکت (جرم) موسوی قانون کے نسبتاً سخت معانی پر مبنی تھی: ’’تم اپنے بھائی کو ربا پر قرض نہیں دو گے‘‘ یعنی یہود جو آپس میں دینی اور قبائل برادری میں بندھے ہوئے تھے دوسرے یہود کو ربا پر قرض نہیں دے سکتا۔ تاہم یہود نے اجنبیوں‘ یعنی دیگر مذاہب اور قبیلوں کے لوگوں کے لیے اس کے معانی یہ لیے کہ ان کو ربا پر قرض دیا جاسکتا ہے۔ یہ ان کے قانون کی ایک نسبتاً آسان شکل تھی۔ اس طرح انگلستان میں قرض دینے پر یہودیوں کا مکمل قبضہ تھا تاآنکہ ۱۲۹۰ء میں ایڈورڈ اول نے انھیں انگلستان سے نکال دیا (غالباً اس کی ایک وجہ یہ جرم بھی تھا)۔ اس طرح لومبارڈ انگلستان میں اس کاروبار پر چھا گئے۔ اور وہ ایک جگہ پر یہ کاروبار کرتے تھے جو ایڈورڈ دوم نے انھیں عطا کی تھی۔ یہ جگہ اب لومبارڈ سٹریٹ کے نام سے مشہور ہے۔ باوجودیکہ رقم ادھار دینا نیک کام نہ تھا اور گناہ (جرم) تھا یہ کاروبار ترقی پذیر رہا کیونکہ سلسلۂ شاہانِ انگلستان (اس وقت) تمام کے تمام پہلے یہود کے اور پھر لومبارڈ کے اس کاروبار سے فائدہ (قرض) حاصل کرتے رہتے۔ ربا کا قانون ہنری ہشتم نے ۱۵۴۵ء میں ایک حد تک منسوخ کر دیا اور سود لینا قانونی طور پر جائز (Legal) قرار دیا گیا۔ شرح ۱۰ فی صد مقرر کی گئی (سالانہ) جو ۱۵۰ سال میں کم کر کے ۵ فی صد ہونا تھی۔ حتیٰ کہ ۱۹۰۰ء میں منی لینڈر ایکٹ کے تحت سود لینا دوبارہ قانونی طور پر جائز قرار دیا گیا تاکہ اس کاروبار کو منظم کیا جاسکے۔ تاہم اس قانون کے تحت بنک کاروں کو منی لینڈر کی تعریف سے باہر کر دیا گیا (ایک سوچ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ۱۰ فی صد اور ۵فی صد مسلم معاشرے میں عشر اور نصف عشر کے نظام سے متاثر ہو کر رکھا گیا کیونکہ اس وقت انگلستان کی معیشت زرعی اور بارانی تھی)۔
ڈیپازٹ پر سود کی ادایگی ۱۵۴۹ء کے قریب شروع ہوئی اور یہ کام تھامس گریشم نے شروع کیا۔ اس طرح شاہانِ انگلستان نے اپنی ضروریات کے لیے قرض لینے کے لیے ربا کے ایک حصے کو قانونی طور پر جائز قرار دے دیا اور بنک کاروں کو منی لینڈر کی فہرست سے خارج کر دیا۔ ان تمام اصلاحات کا نتیجہ یہ نکلا کہ انگلستان میں بنک کاری کا نظام اور اس میں موجود سود جائز محسوس ہونے لگا۔ چرچ کی طرف سے چونکہ کوئی مزاحمت نہیں ہوئی (کیونکہ چرچ کو ہنری ہشتم نے تقسیم کر دیا)۔ لہٰذا آج چند صدیوں بعد وہ لوگ جو مغربی تعلیم سے آراستہ ہیں‘ معیشت کے اس پہلو میں شامل ربا کی حرمت کے بارے میں شبہے میں پڑگئے ہیں۔ اگر یہ بات اتنی ہی آسان ہے اور صحیح ہے تو پارلیمنٹ کو اسے بھی ہنری ہشتم کے راستے پر چلتے ہوئے قانونی طور پر درست قرار دینے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ اس طرح یہ مسئلہ آسانی سے حل ہوجائے گا۔
تاریخ کے ساتھ سفر میں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ مغلوں کے زوال کے بعد ۱۸۵۷ء میں ہندستان پر انگلستان کی حکومت قائم ہوئی اور وہاں رائج معاشی نظام انگلستان کے بنکوں کی شاخوں کے ذریعے یہاں پروان چڑھا۔ تاآنکہ ریزرو بنک آف انڈیا کے ذریعے یہاں بھی مکمل طور پر نافذ ہوگیا اور آنے والے برسوں میں‘ جب کہ ابھی پاکستان وجود میں نہ آیا تھا (مسلمان اس عظیم جدوجہد میں مصروف تھے) مجلس اقوام متحدہ ‘ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عالمی بنک وجود میں آچکے تھے اور یہی نقطۂ آغاز تھا عالمی تجارتی ارتکاز اور عالمی اثاثوں پر اجارہ داری کی جدوجہد کا۔ اگرچہ یہ بات مروجہ کتابوں میں (پاکستان edition) میں شامل نہیں ہے مگر جس طرح حالات تبدیل ہو رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سوچ اسی نکتے کا پھیلائو ہے۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ‘ جرمنی اور دوسروں کی کش مکش‘ جرمنی اور ترکی کا اشتراک‘ مسلمانانِ ہند کا سامراج کے خلاف بغاوت کرنا اور پاکستان کے لیے جدوجہد (بنیاد لا الٰہ الا اللہ) اس سوچ کے مقابل ایک دوسری سوچ ہے جسے عالم گیریت کے دائرے میں لانا مسئلے کا مستقل حل ہوسکتا ہے یا کم از کم دیرپا۔ نظامِ بنک کاری کی حد تک مسلم نظام بنک کاری اور مغربی نظام بنک کاری میں صرف اور صرف اس ربا کا فرق ہے جسے شاہانِ انگلستان نے جائز (legal) قرار دیا۔ وگرنہ تجارتی نظام بنک کاری پرائیویٹ سیکٹر میں تو مسلمانوں ہی کی تحقیق‘ ترویج اور عمل کے نام ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مغربی نظام بنک کاری اور ہمارے نظام بنک کاری جس حالت میں ہیں اس میں نظر آنے والے مستقبل میں مسلمانوں کی موجودہ حالت کے پیشِ نظر اور مغرب کے حفاظتی قوانین کی موجودگی میں‘ یعنی منی لانڈرنگ کے قوانین‘ ذاتی اور ریاستی تحفظ کے قوانین‘ نیوکلیائی اور حربی قوت وغیرہ میں ہم ان کے برابر نہیں آسکتے۔ اس طرح عالمی اثاثوں پر مغرب کا نسبتاً دیرپا قبضہ یقینی نظر آتا ہے اور ہمارے ہاں مفلوک الحالی کی اس سطح کا ہونا بھی نسبتاً یقینی نظرآتا ہے جس سطح پر مغرب ہمیں رکھنا چاہتا ہے۔ ان حالات میں نظامِ بنک کاری کی حد تک جو بات قابل تبدیلی نظر آتی ہے وہ یہی ہے کہ سود کو جو کہ تجارتی نتائج کی تقسیم کا ایک نظام بھی مانا جا سکتا ہے پرامن طریقے سے کسی اور شکل میں تبدیل کیا جائے تاکہ ہم اپنی مفلوک الحالی سے نجات کا کوئی راستہ نکال سکیں۔ ان حالات میں بنکوں کو قومیانا یا پیلی ٹیکسی‘ سبز ٹریکٹر وغیرہ کی اسکیمیں صرف اور صرف خواب لگتی ہیں۔ ضرورت نظام کی بنیاد میں اصلاح کی ہے۔ پارلیمنٹ میں ایک جاری مباحثہ اس کی ابتدا ہو سکتا ہے جس کی ابتدا وزیرخزانہ اور گورنر بنک دولت پاکستان کو کرنا چاہیے۔
مندرجہ بالا بحث سے یہ نکات واضح ہوتے ہیں: ۱- نظام بنک کاری کا ماخذ قرآن و سنت ہے۔ ۲- سود‘ ربا ہی کا وہ حصہ ہے جسے آئین نے جائز (حلال ) قرار دیا ہے۔ ۳- مناسب تقسیم نفع/نقصان ہی تجارتی نتائج کی تقسیم کا اسلامی راستہ ہے۔ ۴- مغلیہ سلطنت کے انہدام کے بعد سود بہ نوک شمشیر ہندستان میں رائج ہوا اور یہ شمشیر دھات کی نہیں بلکہ قانون کی تلوار تھی۔ ۵-مسئلے کا پرامن حل کیا ہے؟ ۶- اس حل کا طریق کار کیا ہو سکتا ہے؟
آخری دو نکات کو زیربحث لانے سے پہلے ہندستان میں بنک کاری کے نظام کا مختصر جائزہ لینا مناسب ہوگا۔
انگلستان کی حکومت مستحکم ہونے کے بعد ہندستان ایک ایسی تجارتی منڈی ثابت ہوا جس نے انگریز کو مغرب اور مشرق دونوں طرف بڑھنے میں مدد دی۔ اسے تجارتی حجم کے پھیلانے میں بہت آسانی ہوئی۔ انگلستان کے محل وقوع نے اسے ایک بڑی بحری قوت بننے پر مجبور کر دیا۔ ۲۵ سے ۳۰ کروڑ افراد پر مشتمل ہندستان نے زراعت پر مبنی صنعتوں کو فروغ دینے میں مدد کی۔ وہاں کے نظام بنک کاری نے اس تجارت کے مالی پہلو میں آسانی پیدا کی اور مسلم ہندستان سے ہر طریقے سے حاصل ہونے والے سونے کے ذخائر نے ایک وسیع کرنسی کا نظام بنانے میں بھی مدد دی۔ یہاں پر پھیلے ہوئے علم کے وسیع ذخائر نے قرطبہ اور شمالی افریقہ سے حاصل ہونے والے علوم سے مل کر نئے جہانوں کے دروازے کھولے۔ اگرچہ ترک حکمرانوں نے حجاز اور مغربی ایشیا کو طویل عرصے تک محفوظ رکھا‘ مگر عالم اسلام کا مجموعی انحطاط بالآخر اس حکومت کے زوال کا باعث بنا۔ اس انحطاط کا مرکزی نکتہ نااتفاقی تھا جس کے نتیجے میں مسلمان حکومت کا کوئی ایک مرکز نہ رہا تھا۔
ان حالات میں انگلستان کے نظام بنک کاری نے ہندستان میں قدم جمائے۔ بمبئی (موجودہ ممبئی)‘کلکتہ اور دہلی مراکز کے طور پر اُبھرے۔ یہ بنک انگلستان میں قائم شدہ بنکوں کی شاخیں تھیں جن میں موجودہ سٹینڈرڈ چارٹرڈ اور گرنڈلیز بنک نمایاں تھے۔ بعد میں ان بنکوں نے لاہور اور لائل پور (فیصل آباد) میں بھی شاخیں قائم کیں۔ بیشتر شہر جن میں ان شاخوں نے کام شروع کیا‘ تجارتی مراکز تھے اور زرعی پیداوار کی منڈیاں تھیں۔ ان سے بالخصوص کپاس انگلستان روانہ کی جاتی تھی۔ یہ ادارے چونکہ سود کی بنیاد پر کام کرتے تھے‘ اس لیے ان کا رابطہ مسلمان رعایا سے واجبی سا تھا البتہ بڑے مسلمان زمین دار اپنا کاروبار انھی سے کرتے تھے۔ ہندوئوں نے اس صورت حال سے فائدہ اٹھایا اور انھوں نے مسلمان تاجروں کی جگہ لی۔ یہ بھی ہندوئوں کے تجارت میں آگے بڑھنے کی ایک وجہ بنی۔
یہ صورت حال ۳۰ کے عشرے تک جاری رہی۔ پھر ہندستان کا مرکزی بنک تشکیل دیا گیا۔ سونے اور چاندی کے سکوں کے بجاے کاغذ اور دوسری دھات کی کرنسی پھیلائی گئی اور ہندستان کا سونے کا عظیم غیرمحسوس ذخیرہ بھی انگلستان منتقل ہوگیا۔ اس مرکزی بنک کے ساتھ ہی مقامی بنک وجود میں آئے جن میں اکثریت ہندو حصہ داروںکی تھی۔ اس سے پہلے بیسویں صدی کے شروع میں امداد باہمی کے اداروں نے بھی ہندوئوں کو آگے لانے میں کام کیا۔ یہ ایک ایسے پہلو کی سرسری سی تفصیلات ہیں جس پر کم لکھا گیا ہے۔ اس پہلو پر تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ حقائق کا ادراک ہو سکے۔
اسی دور میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا نظریۂ پاکستان سامنے آیا اور پاکستان کی جدوجہد شروع ہوگئی بلکہ اسے ایک نیا ولولہ قدرت کی طرف سے عطا ہوا۔ پاکستان بننے کے وقت اس سرزمین میں موجودہ بنک کاری نظام ہندوئوں کے ترکِ سکونت سے منہدم ہوگیا کیونکہ یہ نظام اس وقت بہت حد تک ہندو ہی چلا رہے تھے۔
پاکستان بننے کے بعد کچھ عرصے تک مرکزی بنک ہند کی دوعملی رہی۔ پھر حکومت ِ پاکستان نے اس کے منفی اثرات کا اندازہ لگاتے ہوئے بنک دولت پاکستان قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے انتہائی خرابی صحت کے باوجود اس ادارے کی اہمیت کے پیشِ نظر یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اس کا افتتاح کیا اور اس ادارے کی ذمہ داری لگائی کہ وہ اسلامی مالیاتی نظام کا طریق کار وضع کرے اور اسے نافذ بھی کرے۔ مگر افسوس ہے کہ حالات اس سمت میں نہ جاسکے جدھر قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ اسے لے جانا چاہتے تھے۔
۱۹۵۵ء کے آئین میں انگلستان کے سودی نظام کو بنک دولت پاکستان کے کام کا محور تسلیم کر لیا گیا۔ اس طرح یہ سودی نظام ملک میں ایک مضبوط بنیاد پر کھڑا ہوگیا اور اسے تبدیل کرنا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا گیا۔
بعد میں آنے والی حکومت نے ایسی مالیاتی پالیسیاں اختیار کیں جو مغرب کے نمونے کا چربہ تھیں۔ لہٰذا پورا مالیاتی نظام اس سمت چل پڑا جدھر مغرب اسے پہنچانا چاہتا تھا۔ مغرب کے مالیاتی دانش ور روز اول ہی سے جانتے تھے کہ اگر یہ ملک اسلامی مالیاتی نظام قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا تو ان کے نظام کی بنیادیں ہل جائیں گی۔ اس کی چند وجوہات یہ ہیں:
۱- اسلامی مالیاتی نظام ہر حال میں ایک وسیع و عریض دفاعی صلاحیت کی بنیاد مہیا کرتا ہے‘ جب کہ سود کا نظام دفاعی صلاحیت کو محدود کرتا چلا جاتا ہے۔
۲- اسلامی مالیاتی نظام عوام الناس کی فلاح کا مستقل انتظام کرتا ہے‘ جب کہ مغربی مالیاتی نظام دولت کے جزیرے (اپنی پسند کے مطابق) پیدا کرتا ہے۔
۳- ٹیکس کا نظام بدعنوانی کو جنم دیتا ہے اور اسے پھیلاتا ہے۔ اس طرح معاشرہ کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔ بالخصوص ان ممالک میں جہاں عوام دینی مالیاتی نظام کو ہی بنیاد بنانا چاہتے ہیں۔
۴- اسلامی مالیاتی نظام خودانحصاری کو جنم دیتا ہے‘ جب کہ مغربی نظام کا اتباع غلامی کے فروغ کا باعث بنتا ہے‘ انفرادی بھی اور قومی بھی۔
۵- اس نظام میں حکومت کو قرضہ لینے کی ضرورت نہیں ہوگی‘ جب کہ موجودہ نظام کی بنیاد ہی قومی قرض ہے جس سے نجات ممکن نہیں (کم از کم موجودہ صورت میں)۔
(پاکستان میں اسلامی بنک کاری کے تجربات کا جائزہ اور موجودہ صورت حال پر تحریر آیندہ کسی اشاعت میں پیش کی جائے گی۔ ادارہ)