اپریل۲۰۰۷

فہرست مضامین

رخصت و عزیمت

خرم مراد | اپریل۲۰۰۷ | دعوت و تحریک

Responsive image Responsive image

رخصت وعزیمت خاصا مشکل موضوع ہے۔ اس لیے کہ رخصت و عزیمت کا معاملہ اس طرح واضح اور متعین نہیں ہے جس طرح کہ حلال و حرام واضح اور متعین ہیں، بلکہ یہ ان دونوں کے درمیان ایک وسیع میدان ہے جس کا تعین ترجیحات کی بنیاد پر ہوتاہے۔

رخصت کا پھلو

اگر رخصت کا پہلو لیا جائے تو کئی باتیں سامنے آتی ہیں:یہ کہ یہ دور دین پر چلنے کے لیے ایسا دور ہے، جس کے بارے میں وہ حدیث نبویؐصادق آتی ہے کہ جب کسی ایک حکم پر عمل کرنا، اپنے ہاتھ میں آگ کا انگارہ پکڑنے کے مترادف ہوگا۔ دوسری طرف وہ بہت ساری احادیث ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ، آسانی پیدا کرو، سختی نہ کرو (یسر وا ولا تعسّروْا)‘یا یہ فرمایا گیاہے کہ دین آسان ہے، (الدین یسر)۔ اسی طرح قرآن کی وہ آیات بھی ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ   اللہ تعالیٰ نے جو زینتیں انسان کے لیے اتاری ہیں، ان کو حرام کرنے والا کون ہے۔ اب ،جب کہ اللہ کے دین پر چلنا ایسا ہے جیسا کہ کانٹوں پر چلنا‘ اور اس کے احکام پر عمل کرنا اس طرح ہے جیساکہ اپنے ہاتھ میں انگارہ پکڑ لینا، اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ساری واضح ہدایات موجود ہیں، جن میں کہا گیا کہ دین آسان ہے اور آسانی پیدا کرو، توخیال آتا ہے کہ کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ لوگوں کو اس راستے کی طرف بلایا جائے جو کہ آسانی کا راستہ ہو، اور جس پر چل کر آسانی کے ساتھ اللہ کے دین کے تقاضے پورے کیے جا سکیں۔

عزیمت کا پھلو

دوسری طرف اگر عزیمت کا پہلو لیا جائے تو خیال آتا ہے کہ ہمارا گروہ تو ایک ایسا گروہ ہے، جو وہ کام کرنے چلا ہے جو کام انبیاے کرام ؑ نے انجام دیا تھا۔ اس کی خاطر انھوں نے ہر قسم کی قربانی دی۔ وہ آگ میں ڈالے گئے، آروں سے چیرے گئے، ان کی راہ میں کانٹے بچھائے گئے، پتھر برسائے گئے، ان پر طرح طرح سے تشدد کیا گیا، جسموں کو داغا گیا، طعنے دیے گئے، تمسخر کا نشانہ بنایا گیا، تذلیل کی گئی، گھر سے بے گھر کر دیا گیا‘ مال و اسباب سے محروم کر دیا گیا لیکن وہ اپنے مقام پر ثابت قدم رہے۔

پھر خیال آتا ہے کہ ہماراگروہ تو وہ گروہ ہے، جو یہ عزم لے کر اٹھا ہے کہ ساری دنیا کو ایک اللہ کی بندگی کی طرف لے کر آنا ہے، اور ظاہر ہے کہ یہ کام شیروں کے کرنے کا کام ہے۔ اگرچہ بظاہر ہمارے دلوں میں کتنے ہی امراض کیوں نہ پیدا ہو چکے ہوں اور ہماری زندگیوں میں کتنی ہی خامیاں کیوں نہ ہوں، ہمیں یہ کام کرنا ہے۔ چنانچہ میں نے یہ سوچا کہ آپ کو عزیمت کی دعوت دوں، اس لیے کہ یہی راستہ شیروں کا راستہ ہے۔ ان لوگوں کا راستہ ہے جو دنیا کو بدلنے کا عزم  لے کر کھڑے ہوتے ہیں، اور دنیا کو بدل ڈالتے ہیں۔تاہم‘ جب میں نے بحیثیت مجموعی تحریک کا جائزہ لیا اور عزیمت کی کسوٹی پر پرکھا تو مجھے بڑی شرم آئی کہ میں اس مقام پر کھڑے ہو کر، یہ کہوں کہ آپ سب لوگ رخصت کی راہ چھوڑ کر عزیمت کا راستہ اختیارکریں۔

 ہم دنیا اور خاص طور پر مسلم دنیا میں دین حق کا یہ حال دیکھتے ہیں کہ مسلمان ایک ارب سے زائد ہونے کے باوجود عزت سے محروم اور ذلت سے ہم کنار ہیں اور خون مسلم پانی کی طرح ارزاں ہے۔ برسوں سے دنیا کے مختلف حصوں میں، بے شمار افراد اس عزم کا اعلان کر رہے ہیں کہ اللہ کے دین کی سر بلندی ان کا مقصد زندگی ہے، یہ ان کی ساری تگ ودو کا نصب العین ہے اور اس کے باوجود کہ ان کے قدم آگے بڑھے ہیں، مگر وہ ابھی تک کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو سکے ہیں۔ اسلام موجود ہے، اس کے نام لینے والے موجود ہیں، اس کے لیے تقریریں کرنے والے بہت ہیں‘ اس پر کتابوں کی نکاسی بھی کم نہیں ہے، لیکن ہر طرف اپنوں کی چیرہ دستی، اور غیروں کی ریشہ دوانیوں سے پورا جسد مسلم زار زار اور فگار فگار ہے۔ ایسے میں، میں نے یہ محسوس کیا کہ وہ گروہ، مختصر اور مٹھی بھر گروہ جوان حالات میں اس عزم کے ساتھ کھڑا ہوا ہے کہ اللہ کے دین کو زمین پر دوبارہ غلبہ اور عزت حاصل ہو، اور مسلمان قوم ایک بار پھر غلامی کے بجاے ہادی اور امام بن کر کھڑی ہوجائے، یہ وقت کا تقاضا بھی ہے اور عزیمت کی راہ بھی، لہٰذااس کے لیے سواے عزیمت اور عظمت کی راہ کے اور کوئی راہ نہیں ہے۔

جب میں نے اس بات کا فیصلہ کر لیا کہ رخصت کی بات کرنا آپ جیسے گروہ کے   مناسبِ حال نہ ہوگا تو پھرمیں نے یہ سوچا کہ عزیمت کی بات کس انداز اور کس پیرایے میں کروں؟ اس لیے کہ زمانہ بڑا نازک ہے، اور ہرطرف انسان اپنے آپ کو مشکلات کے اندر گھرا ہوا محسوس کرتا ہے، مصالحت اور مفاہمت کا دور دورہ ہے، قدم قدم پر ایسی پرکشش چیزیں ہیں جو نگاہ کو کھینچتی ہیں، جہاں قدم پھسلنے لگتے ہیں اور آدمی کا دل چاہتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یہیں بیٹھ جائے۔

ترجیحات کا تعیّن

سوال یہ ہے کہ رخصت اور عزیمت کیا ہے؟

اگر ایسا ہوتا کہ ہربات بڑی وضاحت کے ساتھ معلوم ہو جاتی کہ یہ کرنا صحیح ہے اور یہ کرنا غلط‘ توشاید زندگی بڑی آسان ہو جاتی۔ مثال کے طور پر روز مرہ زندگی کے حوالے سے یہ معلوم ہوجاتاکہ ٹیلی ویژن گھر میں رکھناچاہیے یا نہیں رکھنا چاہیے، گھر میںقالین بچھانا صحیح ہے یا غلط،  دبئی یا سعودی عرب کا رخ کرنا جائز ہے یا ناجائز، تو ترجیحات کے تعین میں بہت سارے لوگوں کے لیے فیصلہ آسان ہو تا۔پھر یا تو وہ جان بوجھ کرایک ناجائز کام میں پڑتے ، یا سوچ سمجھ کر اپنا نقصان گوارا کرتے، اورناجائز کام سے پرہیز کرتے۔

مشکل یہ ہے کہ زندگی اس قدر آسان نہیں ہے۔ زندگی ایک امتحان ہے‘ اور اس میں رخصت و عزیمت‘ یعنی ترجیحات کا تعین ایک کڑا مرحلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امتحان کو اس عظیم الشان امتحان کو‘ جس میں کامیابی کے اجرکو اس نے مخصوص کر رکھا ہے، اور جس کے بارے میں اس نے کہا ہے کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا، نہ جس کا خیال بھی انسان کے دل میں گزرا، اس کو اس نے اس طریقے سے دو الگ الگ راستے کر کے واضح نہیں کیا ہے، بلکہ حرام و حلال کے درمیان ایک وسیع میدان چھوڑدیا ہے جس میں آدمی چاہے تو ادھر سے اُدھر نکل جائے، اور یہی محسوس کرتا رہے کہ وہ سیدھے  راستے پر ہے اور اس کو خیال بھی نہ آئے کہ وہ غلط راستے پر چل پڑا ہے اور حرام کا مرتکب ہو رہا ہے۔ یہ وہ بیچ کا دائرہ ہے جہاں رخصت اور عزیمت کا سوال پیدا ہوتاہے۔ رخصت و عزیمت میں اصل مسئلہ ترجیحات کے تعین کا ہی ہے۔

حلال ، واضح طورپر حلال ہے اور جس کا واضح طور پر کرنے کاحکم دیا گیا ہے۔اسی طرح حرام‘ واضح طور پر حرام ہے اور جس سے واضح طورپر روک دیا گیا ہے۔ اس حلال اور حرام کے درمیان بہت سے ایسے معاملات ہیں جن سے روزمرہ زندگی میں ہمیں واسطہ پڑتا ہے لیکن ان میں دو ٹوک اور واضح ہدایات نہیں دی گئی ہیں‘بلکہ ترجیحات کی بنا پر ان کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنا ہوتاہے۔ ہم اس طرح کے بے شمار فیصلے کرتے ہیں کہ کیاکمائیں اور کہاں خرچ کریں، کہاں سچ بولیں اور کہاں جھوٹ‘ کہاں ہم رشوت دیں اور کہاں نہ دیں، کہاں حق کے لیے اپنا مال قربان کریں، اور کس چیز کو کس چیز پر ترجیح دیں۔ یہ وہ پورا دائرہ کار ہے، جہاں پر حلال اور حرام کی بحث ختم ہو جاتی ہے، جہاں صحیح اور غلط کی راے واضح کشادہ اور نمایاں نہیںرہتی، بلکہ ہم کو ترجیحات کا تعین کرنا پڑتا ہے اور یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ کسے اختیار کریں اور کسے نہ کریں۔ یہ وہ نازک مقام ہے جہاں فیصلہ دشوار بھی ہوتا ہے، اور مشکل بھی۔

اللہ کے راستے پر چلنے کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی میں سیدھی سیدھی اللہ کی اطاعت کرنے کی کوشش کرے، اور مسلمان بن کر رہنے کے لیے اپنے آپ کو تیارکرے۔ بعض لوگوں کی نظر میں اتنا ہی ہو جائے تو کافی ہے۔

ایک بدو نبی کریمؐکے پاس آیا اور آپؐ سے پوچھا کہ میرے فرائض کیا ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: کلمہ شہادت، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج۔ اس نے کہا کہ بس۔ آپؐ نے فرمایا: بس۔ اس پر اس نے کہا کہ یہ میرے لیے کافی ہے اور وہ چلا گیا۔ اس کے لیے اتنا ہی اسلام کافی تھا۔

ایک اور شخص نبی کریمؐکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے قرآن کریم کی تعلیم دیں۔ آپؐ نے اسے سورئہ زلزال پڑھنے کا حکم دیا۔ اس نے پوری سورہ پڑھی اور کہا کہ میں اس میں کوئی کمی بیشی نہ کروں گا اور یہ میرے لیے کافی ہے۔ یہ کہہ کروہ چلاگیا۔

بعض لوگوں کے نزدیک یہ سیدھا سادا نسخہ بڑا آسان ہے، اور یہ بالکل ہمارے لیے  کافی ہے۔ اس لیے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ، نماز، روزہ، زکوٰۃ اورحج پر عمل درآمد کوئی ایسا مشکل کام نہیں ہے۔یہ ایک صاف اور واضح راستہ ہے جس پر ہم بآسانی چل سکتے ہیں۔

یہیں سے رخصت اور عزیمت کا ایک اورپہلو سامنے آتا ہے، اور وہ یہ کہ اس کا کوئی حتمی معیار نہیں ہے۔ اس کے لیے دو اور دوچار کی طرح کوئی اصول نہیں ہیںبلکہ ہر ایک کے لیے اس کا معیار الگ ہوگا۔ ہر ایک کو اپنا انفرادی فیصلہ کرنا ہو گا، کہ وہ کس راہ پر چلنا چاہتاہے۔ ہر ایک سے مطالبہ بھی الگ ہو گا، اور ہر ایک کا حساب بھی الگ ہوگا اور جزا وسزا بھی الگ الگ ہو گی۔

دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ مسلمان ہونے کے لیے صرف اتنا کافی نہیں کہ آدمی نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃاور حج کا اہتمام کرے بلکہ اس کا تقاضا دعوت اورجہاد بھی ہے۔ اس کا تقاضا وہ کام بھی ہے  جو انبیاے کرام ؑنے سر انجام دیا۔ اس کے نتیجے میں ہم وہ سارے کام کرتے ہیں جن کی دعوت   ہم اقامت دین، شہادت حق اور اسلامی نظام کے قیام کے الفاظ سے دیتے ہیں۔ اب، جب کہ ہمارا تعلق اس گروہ سے ہے جو اگرچہ تعداد میں کم ہے، تاہم  اس نے اپنے آپ کو اس مقصد کے لیے وقف کر دیا ہے، اور اس بات کا اعلان کیا ہے کہ وہ اللہ کے دین کو اللہ کی زمین پر غالب کرنے کے لیے کھڑا ہواہے‘ لہٰذا اس کے لیے جو حدود ہوں گی، وہ شاید اس بدو سے مختلف ہوں جس کے لیے  نماز، روزہ ،زکوٰۃ اور حج پر قناعت کرنا کافی قرار دیا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کا قانون بتا دیا ہے کہ جو شخص دین کا عَلم لے کر کھڑا ہو، دین کا جھنڈا اٹھائے، شہادت حق کا نعرہ بلند کرے، اور اقامت دین کا دعویٰ کرے، اس کو ٹھنڈے پیٹوں اس راہ سے گزرنے نہیں دیا جائے گا۔ اس کی آزمایش بڑی سخت ہوگی۔ اس کے سامنے صبح سے شام تک بے شمار انتخاب کے مواقع آئیں گے۔ لمحہ لمحہ اس کا امتحان ہو گا۔ اس کو جان ایک دفعہ نہیں دینا پڑے گی بلکہ روز جینا اور روز مرنا ہوگا۔ ایک دفعہ مرنا تو شاید آسان ہو لیکن روز روز مرنا بڑا مشکل ہوتاہے۔ موت صرف جسم سے جان کے نکل جانے کا نام نہیں ہے، بلکہ اپنی خواہش‘ اپنی آرزو اور اپنی تمنا کو مارنا بھی موت کی ایک صورت ہے۔ آخرانسان عبارت کس چیز سے ہے، ہڈیوں اور گوشت سے نہیں بلکہ ان آرزوئوں اور تمنائوں سے، جو اس کے دل و دماغ کے اندر بستی ہیں۔    یہ وہ چیز ہے جس کے بغیر راہ حق، دعوت اور جہاد کی منزل طے نہیں ہو سکتی۔

اس بات کو واضح طور پر کئی جگہ بیان کیا گیا ہے۔ فرمایا:

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَo (العنکبوت۲۹:۲) کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟

ذرا انداز بیان پر غور کیجیے۔ ذکر ان کا ہو رہا ہے جو مٹھی بھر لوگ مکے میں ایک اللہ کے اوپر ایمان لے کر آئے ہیں، جو خدا سے محبت کرتے ہیں اور خدا ان سے محبت کرتاہے، لیکن لہجے میں بڑی اجنبیت ہے اور بڑی غیریت ہے کہ کیالوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ایمان لانے کے بعد انھیں آزمایا نہ جائے گا۔ حالانکہ یہ کوئی عام لوگ نہیںہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے جسم وجان کا سودا کرکے اپنا ہاتھ رسولؐ اللہ کے ہاتھ میں دے دیا تھا۔ پھر بھی یہ نہیں کہا کہ میرے بندے یہ سمجھ بیٹھے ہیں، بلکہ یوں کہا گیا ہے کہ لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ گویا ایمان لانے کے بعد ہر ایک کو آزمایش کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہ ایک ایسا قانون ہے جس سے کسی کومفر نہیں۔

ایمان کا دعویٰ ہوگا تو آزمایا بھی ضرور جائے گا۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں جب تک کہ برے کو بھلے سے الگ نہ کر دیا جائے۔ ایک مقام پر قرآن مجید نے اس طرف یوں اشارہ کیاہے:

مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰی مَآ اَنْتُمْ عَلَیْہِ حَتّٰی یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِط (اٰل عمرٰن۳:۱۷۹)ا للہ مومنوں کو اس حالت میں ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں تم لوگ اس وقت پائے جاتے ہو۔ وہ پاک لوگوں کو نا پاک لوگوں سے الگ کر کے رہے گا۔

گویا اس وقت تک کامیابی سے ہم کنار ہونا ممکن نہیں ہے جب تک کہ برے اور بھلے کی تمیز نہ ہوجائے۔ یہ اس لیے کہ زبان سے دعویٰ کرنے والے تو بہت ہوتے ہیں، لوگ بہت سے لبادے اوڑھ لیتے ہیں‘ بظاہر شیر نظرآتے ہیں، لیکن کس کے سینے میں واقعی شیر کا دل ہے، اور کون اتنی ہمت اور جرأت رکھتا ہے کہ نہ صرف حلال وحرام کی پابندی کرے،بلکہ آگے بڑھ کر ان جائز اور حلال چیزوں کوبھی چھوڑ دے کہ جن کی قربانی راہ حق میں چلنے کے لیے ناگزیرہو۔ یہ وہ چیزیںہیں جن کی آزمایش ضروری ہے، جس کے لیے وہ ہلا ڈالے جائیں گے ، جس کے لیے انھیں جھنجھوڑا جائے گا، آروں سے چیرے جائیں گے، زندہ زمین کے اندر گاڑے جائیں گے اور ان کا گوشت لوہے کی کنگھیوں سے نوچا جائے گا۔ یہ سب کس لیے ہے، اس لیے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام یعنی عدل و انصاف کا نظام قائم ہو۔

حضرت خبابؓ بن ارت کے واقعے کو تازہ کیجیے۔ جوبات حضرت خبابؓسے نبی کریمؐنے ارشاد فرمایا تھا کہ تم دیکھنا کہ ایک روز یہ دین غالب آکر رہے گا۔ اس بات پر اگرغور کیا جائے تو  اس میں بڑی گہری حکمت نظر آئے گی۔ آج ہم بھی اسی دین کو قائم کرنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔ہمارے پیش نظر بھی نبی کریمؐ کا وہی مشن ہے جسے لے کر آپؐ آگے بڑھے۔ البتہ یہ کام صرف چند افراد کی تبدیلی کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ خدائی عدل کے قیام کا نام ہے۔

ایک انسان کے کردار اورکیرکٹر کے لیے اس سے بڑی کوئی آزمایش نہیں کہ وہ اختیار اور اقتدار کا مالک ہو۔ دوسری طرف انسان کا یہ حال ہے کہ اگر کہیںاس کو اختیار مل جائے، خواہ یہ اختیار گھر میں مل جائے یا کہیں اور‘ تووہ فوراً پھیلنے لگتا ہے،اور آپے سے باہر ہونے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے پیش نظر قیادت کے لیے اگر کوئی معیار ہے تو وہ بہترین صاحب کردار لوگ ہیں۔

اسلام کا نام لینے والے ہمیشہ بہت رہیں گے، لیکن اسلام کے نام لیوائوں اور اسلام کے مدعیوں کو اقتدار اس وقت تک نصیب نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ آزمایش کی بھٹی میں تپ کے، اور عزیمت کی راہ پر چل کر، کھرا سونا نہ بن جائیں، جن پر یہ اعتماد کیا جا سکے کہ جب ان کے ہاتھ میں اختیار اور اقتدار آئے گا، تو وہ اللہ کے بندوں کی خدمت کریںگے، نہ کہ انسانوں کے خدا بن جائیں گے۔ دراصل صبر، قربانی اور آزمایش کے فلسفے کی حقیقت یہی ہے۔

آپ سوچیں گے کہ عزیمت کی بات کرتے کرتے اچانک صبر کا لفظ کہاں سے آگیا، اورمیں نے اچانک قربانی کا لفظ کیوں بول دیا؟ اگر غور کیا جائے تو یہ تینوں چیزیں ایک ہی ہیں، اور تینوں کے معنی بھی ایک ہیں۔

صبر کے معنی بظاہر یہی ہیں کہ مصیبت پڑے تو برداشت کا مظاہرہ کیا جائے، لیکن یہ صبر کے منفی(negative) معنی ہیں۔ صبر کے مثبت (positive) معنی یہ ہیں کہ ہم آگے بڑھ کر وہ کام کریں، جس کے لیے ہم اپنی جان، اپنامال ، اپنا وقت اور احساسات و جذبات اور ترجیحات کی قربانی دے سکیں۔ جب اس قسم کا صبر پیدا ہو جائے، تب کہیں جا کر اللہ تعالیٰ کے وہ وعدے پورے ہوتے ہیں جو اس نے دنیا اور آخرت میں سربلندی کے لیے کر رکھے ہیں۔

چند اھم پھلو

آئیے ہم اس کا تفصیل سے جائزہ لیں، کہ یہ عزیمت کا راستہ کون سا راستہ ہے، اور اس میں کیا کیا چیزیں ہیں جو ہم کو پیش آسکتی ہیں، جن کے لیے ہمیں اپنے آپ کو تیار کرنا چاہیے۔

  •  دنیا اور مال ودولت: سب سے پہلا معاملہ دنیا اور مال کا ہے۔ مال کمانا اور خرچ کرنا، اس کے گرد ہماری زندگی کا بڑا حصہ گھومتا ہے۔ اس کے لیے ہم بڑی جدوجہد اورمحنت کرتے ہیں۔ دنیا میں مال کمانے کے لیے بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خاص طورپراگر آدمی یہ چاہے کہ وہ اللہ کی اطاعت کرے۔

ایک حدیث میں‘جو کہ دجال کے بارے میںہے، کہا گیا ہے کہ اس کے ساتھ ایک جہنم ہوگی اور ایک جنت۔ جو دجال پر ایمان لائے گا وہ اس کی جنت میں داخل ہو گا، اورجو خدا پر ایمان لائے گا وہ اس کی جہنم میں داخل ہو گا۔ بات یہ ہے کہ ایک خدا پر ایمان لانا، آج کی دنیا میں جہنم میں داخل ہونے کے مترادف ہے، اور یہ بات سب سے زیادہ مال کمانے کے بارے میں ہے۔    اللہ تعالیٰ نے مال کمانے کی اجازت دی ہے، اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات پورا کرنے کا بھی  حکم ہے، لیکن جو آدمی دعوت حق کے کام کے لیے کھڑا ہو‘ آخر اس کو اس سے زیادہ مال سے     دل چسپی کیوں ہو جو اس کی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے کافی ہو۔ جو لوگ مال کما رہے ہیں ان کی تعداد دنیا کے اندر ایک، دو نہیں، کروڑوں نہیں بلکہ اربوں میں ہے، جن کا صبح سے شام تک بس یہی کام ہے کہ مال کیسے کمائیں۔ وہ صرف یہ سوچتے ہیں کہ ہم کتنا کمائیں اور کہاں جمع کریں، کہاں لگائیں اور کہاں خرچ کریں، اور اس پر ہمیںکتنے فی صد نفع ہو گا۔

اس کے مقابلے میں ایک ارب ، ایک کروڑ یا ایک لاکھ نہیں، بلکہ صرف چند ہزار آدمی جو اللہ کی زمین پر اللہ کی بندگی کا عزم لے کر کھڑے ہوئے ہوں، اگر وہ بھی یہی سوچنا شروع کردیں کہ کیسے زیادہ سے زیادہ کمائیں، اور کیسے اس کو جمع کریں، اور کہاں اس کولگائیں کہ زیادہ سے زیادہ کما سکیں، جایداد اور بنک بیلنس بنانے کی فکر ان کے دامن گیر ہو جائے، تو ایسے لوگوں کو کیسے    اللہ تعالیٰ اپنے دین کی کامیابیوں سے سرفراز کرے گا۔ یہ کام تو وہی لو گ کر سکتے ہیں  جن کو جائز ذرائع سے مال کمانے میں صرف اس قدر دل چسپی ہو، جو ضروری اور ناگزیرہو، جس سے ان کی ضروریات زندگی پوری ہو جائیں۔

خرچ کرنے میں بھی صرف اسی پر اکتفا نہیں ہونا چاہیے، کہ آدمی زکوٰۃ  ادا کر دے ‘ یا اپنی ساری ضروریات زندگی اور سارے شوق پورا کرنے کے بعد تحریک اسلامی کے بیت المال کے لیے ایک ماہوار رقم مقرر کرلے۔ اپنا فرض ادا کر نے کے لیے قرآن و حدیث سے اس سے بڑھ کر  کوئی ذمہ داری ثابت نہیں کی جا سکتی۔ لیکن یہ معاملہ قرآن و حدیث کے احکامات کا نہیںہے، بلکہ قرآن و حدیث کے منشا اور اس کی روح کا ہے۔

عام مسلمانوں اور خدا کی بندگی کرنے والوں کے لیے، شاید یہ بات صحیح ہو کہ زکوٰۃ دے دیں اور راہ خدا میں ایک ماہوار رقم اپنی آمدنی سے باندھ لیں، اور اس  رقم کے تناسب کا کوئی مقابلہ اس چیز سے نہ کریں، اس خرچ سے نہ کریں جو وہ اپنی ضروریات زندگی پر کرتے ہیں۔ بہر حال جب ایک مخصوص رقم ہر ماہ کے لیے باندھ لی اور یہ زندگی کا ایک شعبہ ہے جو ہم نے الگ کر دیا،  اب اس کے علاوہ ہماری آمدنی ہماری اپنی ہے، وہ ہم چاہیں تو مہینے میں چار پانچ سو کاپان کھائیں، سگریٹ پییں، کہیں ہوٹل میں چلے جائیں اور دو چار سو خرچ کر ڈالیں، ہمیں اس کا کوئی دکھ نہ ہوگا۔ اگر کوئی مانگنے کے لیے آجائے تو کہیں کہ کل ہی تو چندہ لے کر گئے تھے، آج پھر آگئے ہو، آخر     ہم کہاں تک دیتے رہیں۔ اگر آدمی ضرورت سے زیادہ نہ کمائے، اور ضرورت سے زیادہ کمانے  کے لیے کوئی ناجائز کام نہ کرے، تو خرچ کرنے کا سوال پھر بھی پیدا ہوتا ہے اور خرچ کرنے میں دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ خرچ کرنے کے حوالے سے ہمارا  ایمان اور یقین کس قدر مضبوط ہے۔

عزیمت کا راستہ تو یہ ہے کہ آدمی اپنا مال خدا کی راہ میں دونوں ہاتھوں سے لٹائے، اور اس کو یہ احساس ہو کہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر احسان ہے کہ اس نے مجھے توفیق بخشی، نہ کہ میں نے دین پر   یا تحریک اسلامی اور جماعت پر کوئی احسان کیاہے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ لوگ جو اللہ کے دین کو قائم کرنے کا عزم اور اعلان دن رات کرتے ہیں، جوصبح شام اس کا وظیفہ پڑھتے ہیں، اور بے چین ہو کر پوچھتے ہیں کہ وہ گھڑی کب آئے گی جب اسلامی نظام قائم ہوگا‘ اگر ان کی اکثریت کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان کی آمدنی کا بہت کم حصہ ایسا ہے جو راہ خدا یا تحریک کے لیے صَرف ہوتا ہے۔ خدامیری اس بد گمانی کو معاف فرمائے، لیکن جہاں تک میرا علم ہے، میں محسوس کرتا ہوں کہ اپنے مال کا بہت کم حصہ ہے جو ہم نے خدا کی راہ کے لیے مخصوص کر رکھا ہے، اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا حق ادا ہو گیا ہے۔

میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جو لوگ تحریک اسلامی کا عَلم بلند کیے ہوئے ہیں، اگر ان کو کہا جائے کہ ہم آپ کو ایسی جگہ پیسہ لگانے کی دعوت دیتے ہیں جس میں ایک کے سات سو گنا سے ایک ہزار گنا تک ہو جائیں گے، اور ایسے وقت آپ کوملے گا،جب کہ واقعی آپ کو اس کی ضرورت ہوگی، تو ان کی جیب مشکل سے کھلتی ہے۔ جب ہم ان سے کہیں کہ فلاں جگہ زمین بک رہی ہے،  اس کو اگر آج خرید لیا جائے تو کل اس کے دگنے روپے ملیں گے تو وہ جانتے ہیں کہ نہ زمین ان کے ساتھ جائے گی اور نہ اس کی دوگنی آمدنی ساتھ جائے گی،آخر دوگز زمین ہی ان کو ملے گی، لیکن وہ دوڑ کر اس کے لیے پیسہ نکالتے ہیں۔ اگر تحریک کو مالی وسائل کی ضرورت ہو تو مشکل سے چند سو روپیہ نکلتا ہے، دوسری طرف گھر میں اگر قالین ڈالنا ہو یا عالی شان پردے لگانا ہوں، یاماربل کے مکان بنانے ہوں، توجیب ختم ہی نہیں ہوتی۔ لہٰذا عزیمت کا راستہ تو یہ ہے کہ ہم دل کھول کر راہ خدا اور تحریک پر خرچ کریں۔اگرچہ قرآن و سنت سے ایک مخصوص رقم صرف کرنے کو شاید کوئی حرام نہ کہہ سکے، لیکن یہ سوچنے کی بات ہے کہ کیا اس روش اور طرز عمل پر جو عموماً ہم نے اپنا رکھا ہے،  اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کامیابی کے انعام سے سرفراز کرنے والا ہے!

  • معیارِ زندگی: اسی طرح معیار زندگی کا معاملہ ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ زندگی بسر کرتے ہوئے جہاں گہری خندقیںآجائیں، اور اُونچے اُونچے پہاڑآجائیں، وہاں پر آدمی کے لیے بچ کے چلنا بڑا آسان ہوتاہے۔ آدمی بآسانی دیکھ لیتا ہے کہ یہ پہاڑ میرے راستے میں رکاوٹ پیدا کرے گا، میں اس سے بچ کر نکل جائوں۔ مگرزندگی کا سفر ان راستوں پر بڑا خطرناک ہوتاہے جو بظاہر بڑے سیدھے اور صاف دکھائی دیتے ہیں لیکن ان میں جگہ جگہ پائوں پھسلنے کے امکانات ہوتے ہیں۔ کہیں کوئی کیلے کا چھلکا پڑا ہے، کہیں کوئی چھوٹا سا کھڈا ہے، مگر آدمی اطمینان کے ساتھ چلتا رہتاہے اور اچانک اس کا پائوں پھسلتا ہے اور وہ گر پڑتا ہے۔ کسی چھوٹے سے پتھر سے ٹکراتا ہے اور زخمی ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہا گیا ہے کہ منافق وہ ہے جو چھوٹے گناہوں کو حقیر جانتا ہے، اورمومن وہ ہے جو چھوٹے گناہوں کو بھی بہت بڑا خیال کرتا ہے۔ یہ گناہوں کے ارتکاب کا مسئلہ نہیں ہے‘ وہ تو بہت بعد کی بات ہے۔ یہ تواحساس کی بات ہے۔

ایک مومن سے گناہ بھی سرزد ہو سکتے ہیں۔ ایک مومن زانی بھی ہو سکتاہے، چوری بھی کرسکتا ہے دوسرے بہت سے گناہ سرزد ہو سکتے ہیں‘ مگر ایک مومن اور منافق کے طرز عمل میں فرق ہوتا ہے۔ منافق کی نظر میں چونکہ معمولی گناہوں یا چھوٹی چھوٹی باتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، اس لیے وہ خیال کرتا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر ایک مومن چوکس و چوکنا ہوتاہے۔اس کو معلوم ہوتاہے کہ اس راہ میں جگہ جگہ کھائیاں ہیں، جو بظاہر نظرنہیں آتیں، جگہ جگہ دشمن گھات لگائے بیٹھا ہوا ہے جو برابر کہیں نہ کہیں نقب لگائے گا، دائو مارے گا، کہیں پھندا پھینکے گا، اورمجھے گرا لے گا اور پھانسے گا،  راستے سے ہٹادے گا اور تباہ و برباد کر دے گا۔ اس لیے وہ ہر وقت چوکنا رہتاہے، معمولی باتوں کو بھی اہمیت دیتا ہے اور انھیں نظر انداز نہیں کرتا۔ یہ وہ پہلو ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

چند مثالیں

چند مثالوں سے اس بات کو سمجھیے:

  •  ٹیلی ویژن کی مثال لے لیجیے۔ بحیثیت مجموعی یہ خرابی کی جڑ ہے۔ پھرمیں اس پرکیوں ہزاروں روپے برباد کروں۔ اس سے کسی غریب ساتھی کی مدد ہو سکتی ہے، یہ کسی اور مفید کام میں  لگ سکتاہے، کتابیں خرید کر دی جا سکتی ہیںوغیرہ وغیرہ۔

جن دنوں میں ڈھاکہ رہتا تھا، میرے پاس کوئی ٹیلی ویژن سیٹ نہیں تھا۔ اس کے بعد میں انگلینڈ پہنچا، وہاں کوئی گھرانا ٹی وی سے خالی نہیںہوتا۔ میرے اچھے اچھے مسلمان دوستوں نے کہا کہ اپنے بچوں کی انگریزی بہتر بنانے کے لیے ٹی وی خرید لو، اور کچھ نہیں تو کم از کم نیوز ہی سن لیا کریں گے۔ میں تین سال تک برابر اس حال میں رہا کہ میں نے اس سے انکار کیا۔ اس کے بعد ایران میں انقلاب آگیا۔ لوگوںنے کہنا شروع کیا کہ آج ٹی وی پر یہ آیا ، وہ آیا، یہ دکھایا گیا، انقلاب کی یہ لہر اٹھ رہی ہے، توسب گھر والوںنے جمع ہو کر یہ سوچا کہ اس انقلاب کو دیکھنے کے لیے تو کم از کم ٹی وی خرید لینا چاہیے۔ چنانچہ ہم نے سیکنڈ ہینڈ ٹی وی اپنے گھر کے لیے خرید لیا۔ مگرمجھے آج بھی اس پر شرمندگی ہے۔ پھرمیں نے محسوس کیا یہ راہ واقعی بڑی خطرناک ہے۔ اگرچہ میرے بچے سواے سپورٹس اور نیوز کے کچھ نہیں دیکھتے، مگر میرا ضمیرا س بوجھ سے آج تک آزاد نہیں ہو سکا۔

میں نے یہ مثال اس لیے دی ہے کہ یہ راہ بڑی خطرناک راہ ہے۔ شیطان پوری کوشش کرتا ہے کہ آدمی کسی طرح پھسل جائے۔میں یہ نہیں کہتا کہ ٹی وی کوئی غلط چیز ہے لیکن جن لوگوں نے عزیمت کی راہ پر چلنے کادعویٰ کیا ہو، اور اس راہ پر چل پڑے ہوں، ان کو آخر اس کے لیے وقت کہاں سے مل سکتاہے، کہ وہ بیٹھ کر ٹی وی دیکھیں اور اس میں اپنا وقت لگائیں۔

ایک ایک لمحے کا حساب اللہ کو دینا ہے، ایک ایک لمحہ دعوت کے کام میں صرف ہونا چاہیے۔ محلے کے ساتھی اور بیوی بچے قیامت کے روز گریبان پکڑ کر کھڑے ہو جائیں گے، اگر آپ نے ان تک اللہ کا پیغام نہ پہنچایا۔ وہ پوچھیں گے کہ ہم جہنم کی راہ پرسفر کرتے رہے اور تم ٹی وی دیکھتے رہے۔ اب بتائو ہمارے اس انجام کا ذمہ دار کون ہے، تم یا ہم؟ شاید ہم اس کا جواب نہیں دے سکیں۔

  •  آپ کو وہ واقعہ یاد ہوگا کہ نبی کریمؐنے حضرت عبداللہؓبن مسعود سے کہا کہ تم مجھے قرآن سنائو، تو انھوں نے سوال کیا کہ یارسولؐ اللہ! قرآن تو آپؐ پر نازل ہوتاہے، میں آپؐ  کو قرآن کیسے سنائوں؟ آپؐ  نے کہا: ہاں، میں تم ہی سے سننا چاہتاہوں۔ انھوں نے سورۂ نساء کے ایک حصے کی تلاوت کی اور جب اس آیت پر پہنچے کہ’’ اس وقت کیا کیفیت ہو گی جب ہم ہر قوم میں سے ایک گواہ بنا کر لائیں گے اور تم کو ان سب پر گواہ بنا کر کھڑا کریں گے، کہ آیا تم نے ان تک پیغام پہنچایا یا نہیں‘‘؟ حضرت عبداللہؓ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ میںنے نگاہ اٹھا کر دیکھا، تو نبی کریمؐ کی آنکھوں سے زارو قطارآنسو بہہ رہے تھے اور آپؐ کی داڑھی تر ہوگئی تھی۔

یہ کیا چیز تھی؟ ایک لمحے کے لیے آپ سوچیں۔ یہ ذمہ داری کا احساس تھا کہ اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر صرف اپنے اعمال کی جواب دہی ہی نہیں کرنا‘ بلکہ سارے انسانوں کی زندگی اور سارے انسانوں کے اعمال کی جواب دہی میرے ذمے ہے۔ یہ وہ احساس تھا جس سے نبی کریمؐ جنھوں نے اس شہادت کے فریضے کو سب سے بڑھ کر سرانجام دیا، ان کا قلب بھی پگھل کر رہ گیا اور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ جس کے سامنے ذمہ داری کا یہ احساس ہو، وہ جائز اور ناجائز کی بحث میں کہاں پڑ سکتا ہے۔ اس کو تویہ سوچنا ہے کہ یہی واحدمقصد زندگی ہے۔ ایک ہی راہ ہے جس پر مجھے چلنا ہے، ایک ہی منزل ہے جو مجھے سر کرنا ہے۔ اس راہ میںجو چیز رکاوٹ ہو، خواہ اس کی اجازت ہو یا نہ ہو،خواہ جائز ہو یا ناجائز، مجھے اس سے دامن بچا کر آگے نکلنا ہے۔

  •  یہ بھی عزیمت ہے کہ جب احساسات و جذبات ، غصہ اور محبت و نفرت پر زد پڑے تو انسان صبر کرے۔ قرآن مجید میں بار بار کہا گیا ہے کہ فَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلَوْنَ (قٓ:۵۰-۳۹) ’’اے نبیؐجو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان پر صبر کرو۔‘‘ آج بھی تحریک سے وابستہ لوگوں کو طرح طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔کوئی کہتاہے کہ یہ لوگ کمزور ہیں، کوئی کہتا ہے کہ متشدد ہیں‘ تشدد پر اتر آتے ہیں، کوئی کہتا ہے کہ غنڈے ہیں، کوئی کہتا ہے کہ سیاسی طور پر ناکام ہیں، کوئی کہتا ہے کہ زیادہ سیاسی ہو گئے ہیں اب دینی نہیں رہے، کوئی کہتا ہے کہ مُلّا ہیں ان کو دنیا نہیںچلانی آتی۔ ان ساری باتوں کے لیے بڑی عزیمت کی ضرورت ہے کہ آدمی ان سب کو سُنے اور پی جائے، اور اس کے بعد بھی اپنے راستے کے اوپر استقامت کے ساتھ چلتا رہے۔

اس سے بھی بڑھ کر جس عزیمت کی ضرورت ہے ، وہ یہ ہے کہ آدمی برائی کا جواب بھلائی سے دے سکے، گالیاں سن کر بھی دعا دے سکے، کانٹوں پر چل کر بھی پھول نچھاور کرسکے۔ قرآن نے اس طرز عمل اور روش کو اپنانے کا کہا ہے کہ اس کے نتیجے میں تمھارے کٹر دشمن بھی گہرے دوست بن جائیں گے، لیکن یہ کام معمولی کام نہیں ہے۔ یہ صفت ان کے حصے میں آتی ہے جو بڑے حوصلے والے ہیں، جو بڑے صبر کرنے والے ہیں، جن کے اندر عزیمت پوری طرح موجود ہو۔

ایک اھم پھلو

میں نے عزیمت کے چند پہلو آپ کے سامنے گنوائے ہیں۔ اصل بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ عزیمت کا راستہ اسی وقت آسان ہو سکتا ہے جب کبھی آپ کچھ وقت نکال کر اور رات کی تنہائی میں ایک دفعہ بیٹھ کر اس کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ جسے آپ مقصد زندگی قرار دیتے ہیں، کیا وہ آپ کے دل کے اندر بھی وہی مقام رکھتا ہے؟ اس لیے کہ مقصد زندگی تو وہ ہوتاہے جس کی محبت آدمی کے دل کے اندر بیٹھ چکی ہو، جس کی خاطر وہ پوری زندگی وقف کرنے کے لیے تیارہو۔ پھر وہ یہ نہیں سوچتا کہ اس کی اجازت بھی ہے کہ نہیں۔ پھر تو وہ یہ سوچتا ہے کہ میرے وقت کا ہر لمحہ، میرے مال کا ہر پیسہ، میری تمام صلاحیتیں اور وسائل،میری ہر چیز اللہ کی راہ میں اور اس کی مرضی کے مطابق کھپنا چاہیے۔

ایک اوربات بھی غور کرنے کی ہے، وہ یہ کہ جب سختیاں ہوں، آزمایش ہو، مشکلات پیش آئیں تو آدمی کے لیے جم جانا اور ڈٹ جانا بہت آسان ہوتاہے، اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مخالفتوں کے طوفان کے آگے،لوگ پامردی کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف وہ راستے جن کا ابھی میں نے ذکر کیا، جو بظاہر بڑے صاف اور سیدھے نظر آتے ہیں، لیکن جن میں چھوٹے چھوٹے پیچ و خم ہوتے ہیں، جن میں جگہ جگہ قدم پھسلنے کا سامان ہوتاہے، وہ خطرناک راستے ہوتے ہیں۔

ایک خطر ناک راستہ وہ بھی ہوتا ہے، جہاں پر اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمانے لگتا ہے، جہاں سختی سے نہیں بلکہ نعمت سے آزمانے لگتا ہے۔ جیسا کہ امام احمد بن حنبلؒ کے بارے میں کہا گیاہے کہ ان کو اتنے کوڑے مارے گئے، کہ کوئی ہاتھی بھی ان کو برداشت نہ کرسکتا ، مگر وہ مسکراتے ہوئے اور جواں مردی سے، اس کا مقابلہ کرتے رہے۔ جب خلیفہ بدلا، اور اس نے ان کی خدمت میں دولت اور دینار کی تھیلیاں بھیجیں، تو وہ کانپ اٹھے، اور انھوں نے کہا کہ اب زیادہ کڑی آزمایش آگئی۔ انھوں نے فوراًسارا کا سارا مال واپس کر دیا۔

دراصل رخصت اور عزیمت کی یہ ساری بحث بڑی مختصر ہے۔ اگر آپ کوئی بڑا کام کرنے چلے ہیں اور آپ کے سامنے پوری دنیا کی نئی تعمیر کا ایک نقشہ ہے، اگر آپ پورے ملک کا نظام بدلنا چاہتے ہیں، تو یہ وہ کام ہے جو عزیمت کا راستہ اختیار کیے بغیر نہیں ہو سکتا۔ سر کے بل جانا پڑے گا، نقد جان بھی گنوانا پڑے گی، جیب بھی خالی کرنی پڑے گی، تن کے کپڑے بھی دینے پڑیں گے، تب جا کر کہیں شاید وہ منزل آئے کہ جب یہ ملک اسلامی انقلاب سے ہم کنار ہو۔ اگریہ کام صرف تبلیغی اور اصلاحی کام ہے، ایک گروہ کو منظم کرنا ہے، تھوڑے بہت نعرے لگانا ہیں، تو یہ کام ۴۰سال سے ہوتا آیا ہے، اور ۴۰سال اور بھی ہوتا رہے گا، مگر اس سے معاشرے کے مجموعی اقتدار کے سرچشموں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔اللہ تعالیٰ کو تو وہ لوگ چاہییں جن کے بارے کہا گیا ہے:

مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌصَدَقُوْا مَاعَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ زصلے وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًاo (الاحزاب ۳۳:۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔

یہ عہدصرف جائز سے فائدہ اٹھانے، اور حلال اور جائز کام کرنے اور حرام کاموںسے بچنے کا عہد  نہیںتھا بلکہ یہ اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینے کا عہد تھا۔

اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ  ط (التوبۃ ۹:۱۱۱)حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔

یہ سودا عزیمت کا سودا ہے، رخصت کا نہیں۔ اس راہ میںجان بھی کھپانا ہے اور مال بھی۔ جب آپ نے اس سودے کو سچ کر دکھایا، اس معاہدے میں جو آپ کا حصہ اور کردارہے پورا کردیا، تو سب سے زیادہ سچا وعدہ کرنے والا بھی اپنا وعدہ پورا کر دکھائے گا۔

(کیسٹ سے تدوین:  امجدعباسی )