اپریل۲۰۰۷

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | اپریل۲۰۰۷ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حج وداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے مخاطب ہوکر پوچھا: کچھ معلوم ہے‘ آج کون سا دن ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ خدا اور اس کے رسولؐ کو زیادہ علم ہے۔ آپؐ دیر تک چپ رہے‘ لوگ سمجھے کہ شاید آپؐ اس دن کا کوئی نام رکھیں گے۔ دیر تک سکوت کے بعد فرمایا: کیا آج قربانی کا دن نہیں ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں بے شک ہے۔ پھر ارشاد ہوا: یہ کون سا مہینہ ہے؟ لوگوں نے پھر اسی طریقے سے جواب دیا۔ آپؐ نے پھر دیر تک سکوت کیا‘ اور فرمایا: کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں‘ بے شک ہے۔ پھر پوچھا: یہ کون سا شہر ہے؟ لوگوں نے بدستور جواب دیا۔ آپؐ نے اسی طرح دیر تک سکوت کے بعد فرمایا: کیا یہ بلدۃ الحرام نہیں ہے؟ لوگوں نے کہا: بے شک ہے۔ جب سامعین کے دل میں یہ خیال پوری طرح جاگزیں ہوچکا کہ آج کا دن بھی‘ مہینہ بھی‘ اور خود شہر بھی حرام ہے‘ یعنی اس دن‘ اس مقام میں جنگ اور خوں ریزی جائز نہیں‘ تب فرمایا: تو تمھارا خون‘ تمھارا مال‘ تمھاری آبرو تاقیامت اسی طرح حرام ہیں جس طرح یہ دن‘ یہ مہینہ اور یہ شہر۔

جس نبیؐ نے اپنے ماننے والوں کی جان و مال آبرو کی حُرمت کی تعلیم دی تھی‘ اس نبیؐ کے ماننے والوں کے معاشرے کا آج کیا حال ہوگیا ہے۔ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے لیکن روز اخبار اُٹھائیں تو انسانیت کتنی دفعہ قتل ہوتی نظر آتی ہے۔ دشمنی میں قتل کیا جاتا ہے‘ بھنگڑا ڈالا جاتا ہے‘ پھر بھی انتقام کی آگ سرد نہیں ہوتی تو فائرنگ کی جاتی ہے۔ رشتوں کا تقدس ختم ہوگیا ہے۔ باپ بیٹے کواور بیٹے باپ کو قتل کر رہے ہیں۔ سوچا نہیں جا سکتا ہے لیکن ہم نے اپنے اخباروں میں ماں کے قتل کی خبر بھی پڑھی‘ بدفعلی اور زنا بالجبر کے بعد قتل کردیا جاتا ہے اور لاش گٹر میں‘ کھیتوں میں اور سڑکوں پر ڈال دی جاتی ہے۔ یہ ہمیں کیا ہوگیا ہے؟کیا ہمارے ہوش و خرد رخصت ہوچکے ہیں۔ انسانی جان کی حُرمت کے حوالے سے کچھ دوسری احادیث ملاحظہ فرمایئے:

۱- حضرت عبداللہ بن عمرؓسے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مومن کا قتل اللہ تعالیٰ کے نزدیک ساری دنیاکی تباہی سے بڑھ کر تباہی ہے۔(نسائی، کتاب المحاربہ)۔ ایک دوسری روایت کے الفاظ یوں ہیں:’’ساری دنیا کا خاتمہ اللہ کے نزدیک مسلمان کے قتل کے مقابلے میں زیادہ ہلکا ہے ‘‘۔ (نسائی،کتاب المحاربہ)

۲- حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے روز سب سے پہلے لوگوں کے درمیان خوں ریزیوں کے مقدمات کا فیصلہ ہوگا۔ (بخاری)

۳- حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے روز ایک آدمی اپنے قاتل کو اس کے ہاتھ سے پکڑ کراللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو گا ،عرض کرے گا: میرے رب!اس سے پوچھیے اس نے مجھے کیوں قتل کیا تھا؟وہ جواب میں کہے گا: میں نے اسے فلاں آدمی کی بڑائی قائم کرنے کے لیے قتل کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: بڑائی تو صرف میرے لیے ہے۔ پھر وہ قتل کے گناہ میںگرفتار ہوجائے گا ۔(نسائی،کتاب المحاربہ)

۴- حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا: مومن دین کے وسیع دامن میں پناہ گزین ہو تا ہے جب تک حرام خون نہ بہادے۔ (بخاری، کتاب الدیات )


حضرت سعید بن زیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے مال کی حفاظت میں جان دی وہ شہید ہے۔جس نے اپنی جان بچانے کی خاطر   لڑائی لڑی اور قتل ہو گیا وہ شہید ہے۔جس نے اپنے اہل و عیال کی حفاظت کے لیے لڑائی لڑی  وہ شہید ہے۔(نسائی)

آج کل جان و مال کی حفاظت کے اس طریقے کی تعلیم دی جاتی ہے کہ قاتلوں‘ ڈاکوؤں‘ چوروں کا مقابلہ مت کرو‘ اپنی جان بچائو۔ خواتین تک کو کہا جاتا ہے کہ ہر بات مانو تاکہ جان تو بچے۔ قاتل اور ڈاکو چونکہ اس بات کو جانتے ہیں‘ لہٰذا اس کا پورافائدہ اٹھاتے ہیں۔ احادیث کی تعلیم تو یہ ہے کہ مقابلہ کرو‘ جان کی پروا نہ کرو۔ اگر جان چلی گئی تو یہ شہادت اس زندگی سے جسے بچا رہے تھے بہتر اور ہمیشہ کی زندگی ہے۔ اگر مزاحمت کا کلچر عام ہوتو ڈاکوؤں اور قاتلوں کو اپنی جان کے لالے پڑ جائیں گے۔ چند جانیں مزاحمت کرتے ہوئے جاسکتی ہیں لیکن اس طرح بہت سے بے گناہوں کی جانیں بچیں گی۔


حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مال تقسیم فرمارہے تھے کہ اس دوران میں ایک آدمی آگے بڑھا اورآپؐ پراوندھاگرپڑا۔ آپؐ کے ہاتھ میں کھجور کی ایک شاخ تھی ،آپؐ نے اسے ہٹانے کے لیے شاخ کی چوک ماری جس سے اس کا چہر ہ زخمی ہوگیا ۔نبی کریمؐ نے اسے فرمایا: آؤ قصاص لے لو۔ اس نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ میں نے معاف کردیا۔ (ابوداؤد، کتاب الدیات )

جان کی حفاظت کا عملی طریقہ یہ بھی ہے کہ قصاص پر ٹھیک ٹھیک عمل کیا جائے۔ قاتل سے لازماً قصاص لیا جائے‘ اس سے قتل کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ قاتلوں کا بچ جانا اور آزاد پھرنا قتل کی حوصلہ افزائی کا موجب ہوتا ہے۔ قصاص تو جان کے علاوہ بھی ہے۔ ہرطرح کے ظلم پر قصاص ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معمولی چوٹ پر بھی اپنے آپؐ کو قصاص کے لیے پیش کرتے ہیں تو کسی دوسرے کو کیا مفر ہے۔پولیس کے جو لوگ شہریوں کو ٹارچر کرتے ہیں اگر قصاص میں ان کو بھی اسی طرح ٹارچر کیا جائے تو پھر دیکھتے ہیں کہ کون ٹارچر کرتا ہے۔ اس طرح گھروں میں زیردستوں پر رونگٹے کھڑے کرنے والے مظالم بلاتکلف کیے جاتے ہیں۔ دوچار کا قصاص لے لیا جائے تو پتا چلے۔


حضرت سھل بن ابی حثمہ روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ ابن سھل اور محیصہ خیبر کی طرف گئے ۔ محیصہ واپس آئے اوراطلاع دی کہ عبداللہ ابن سھل قتل ہوگئے اورانھیںقتل کرکے ایک گڑھے میں ڈال دیا گیا (محیصہ نے تجہیز وتکفین کی نماز جنازہ پڑھا اوردفن کیا )۔ پھر یہو د کے پاس آئے اور کہا کہ تم نے اسے قتل کیا ہے۔ انھوں نے اللہ کی قسم اٹھاکر انکار کردیا کہ ہم نے نہیں قتل کیا۔ محیصہ اپنی قوم کے پاس آئے اور ساری صورت حال ان کے سامنے رکھ دی۔ پھر محیصہ اور اس کے بڑے بھائی حویصہ اورعبد الرحمن بن سھل ( مقتول عبداللہ بن سھل کے بھائی) رسول ؐاللہ کی خدمت میں استغاثہ دائر کرنے کے لیے حاضر ہوئے۔ محیصہ نے جو خیبر میں عبداللہ بن سھل کے ساتھ تھے ، بات کرنا چاہی تو رسولؐ اللہ نے فرمایا: بڑے کو بات کرنے دو۔ چنانچہ پہلے حویصہ اور پھر محیصہ نے بات کی۔ اس پر رسولؐ اللہ نے فرمایا: یہو د پر لازم ہے کہ تمھارے مقتول کی دیت دیں یا پھرلڑائی کے لیے تیار ہوجائیں ۔ رسولؐ اللہ نے ان کی طرف اس مضمون کا خط تحریرکرکے بھیج دیا۔ انھوں نے جواب میں لکھا: اللہ کی قسم! ہم نے اسے نہیں قتل کیا۔ تب رسولؐ اللہ نے حویصہ ، محیصہ اور عبدالرحمن بن سھل سے فرمایا: کیا تم قسمیں کھاتے ہوتاکہ تمھیں یہود سے تمھارے مقتول کے خون کا عوض ملے۔ انھوں نے جواب میں کہا: نہیں‘ ہم ایسے واقعے  کی جس کا مشاہدہ ہم نے نہیں کیا‘کیسے قسمیں کھاسکتے ہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر یہود قسمیں اٹھائیں گے(کہ ہم نے نہیں قتل کیا اورہمیں قاتل معلوم نہیں)۔ انھوں نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! یہود جھوٹی قوم ہے۔ ان کی قسموں کا اعتبار نہیں۔ تب رسولؐ اللہ نے عبداللہ ابن سھل کی دیت ۱۰۰ اُونٹ بیت المال سے دی۔ (ابوداؤد ، بخاری)

ایک طرف ہم مسلمانوں کایہ طرزِعمل اور کردار ہے۔ تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیںملتی ہیں۔ لیکن مغرب کی بے خدا تہذیب آج کسی قسم کی جواب دہی سے بے نیاز جس انداز سے‘ جس نوعیت اور جس بڑے پیمانے پر قتل و غارت کر رہی ہے وہ انسانیت کے لیے ہمیشہ شرمندگی کا باعث رہے گا۔ افغانستان میں اور پھر عراق میں جو کچھ ہوا‘ اس نے ویت نام کو بھلا دیا۔ اشتراکیوں نے جو مظالم اپنے شہریوں پر کیے وہ اب حقیر نظر آتے ہیں۔ وہ وقت آنا چاہیے کہ ظالموں کو اس دنیا میں بھی کچھ سزا ملے‘ آخرت میں تو ان کا حساب ہوگا ہی۔ المیہ یہ ہے کہ صلیبی جنگ کرنے والوں کی فرنٹ لائن میں مسلم ممالک کے حکمران ہیں جو دنیا میں اتنے مست ہیں کہ اپنی قبر اور آخرت کو بھول چکے ہیں۔