ادب، تحریک اور اسلام کے باہمی تعلق اور تقاضوں پر اظہار خیال سے پہلے ان سوالوں پر غور کرلینا مناسب ہوگا: ادب کیا ہے؟ فرد و معاشرے اور زندگی سے اُس کا کیا تعلق ہے؟
ادب کی طاقت کو دنیا کی تمام تحریکات نے تسلیم کیا ہے اور اپنے نظریات کی اشاعت کے لیے اسے بطوروسیلہ استعمال کیا ہے ۔ ایک ایسی انقلابی تحریک جو زندگی کے ہر پہلو اور ہرادارے کی اصلاح چاہتی ہے،جو تعلیم ،سیاست اور معاشرت کو بدلنا چاہتی ہے ،وہ ادب کے شعبے کو کیسے نظر انداز کرسکتی ہے۔ سیّد اسعد گیلانی [م: ۳؍اپریل ۱۹۹۲ء]نے ایک جگہ بڑی عمدہ بات لکھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
کوئی تحریک بھی ادب کا تعاون حاصل کئے بغیر جڑ نہیں پکڑسکتی اور کسی تحریک کاکوئی پروگرام بھی بروے کار نہیں لایا جاسکتا،جب تک ادب اس پروگرام کو اپنی آغوش میں لے کر دل ودماغ میں اسے بٹھا نہ دے۔یہ دونوں چیزیں لازم وملزوم سی ہیں۔ ایک مسافر ہے تو دوسرا زادِراہ، ایک سپاہی ہے تو دوسرا اس کا اسلحہ، ایک قافلہ ہے تو دوسرا اس کا پیش رو۔
ہر تحریک اپنے دامن میں ایک انقلاب کا تصور رکھتی ہے۔ ہر انقلاب قلب و نظر کے زاویوں سے لے کر زندگی کے تمام مادی و اخلاقی پہلوؤں پر ہمہ گیر اثرات ڈالتا ہے۔ یہ اثرات ادب کے ذریعے غیر محسوس طریقے پر دل کی ایک لرزش سے جسد انسانی میں سرایت کرتے رہتے ہیں۔ دراصل دل ودماغ اور قلب ونظر کی تبدیلی اور تعمیر جدید میں ادب کسی بھی تحریک کا سب سے بڑا ایجنٹ ہوتا ہے، جو چپکے چپکے آنکھوں کے راستے دلوں میں اترتا ہے یا کانوں کے راستے قلوب میں گھر بناتا ہے۔ اس طرح آنے والے انقلاب کے لیے جذبات اور احساسات کے مورچہ بناتا ہے۔یہ ادب ہی ہے جو براہِ راست حملہ کرکے شکار کو پھڑکاتا نہیں، بلکہ اس کے گرد تصورات وتخیلات کی سوندھی سوندھی فضا پیدا کرتا ہے، کہ شکار خود بخود اس خوشبو کو اپنے دل میں جذب کرنے کے لیے اپنے جسم کے تمام بند ڈھیلے چھوڑدیتا ہے ۔ادب کی اسی طاقت کا تذکرہ کرتے ہوئے نعیم صدیقی [م:۲۵ستمبر ۲۰۰۲ء] نے لکھا :
ادب خیال انگیز اور خیالات افروز قوت ہے۔ وہ معاشرے کی کھیتی میں خیالات کے بیج ڈالتا ہے اور پھر ان کی آبیاری کرتا ہے۔ وہ خیال کے جمود کو توڑتا ہے اور حرکت پیدا کرتا ہے۔ وحی الٰہی کے بعد اگر کوئی دوسرا ذریعہ انسانیت کو خیالات سے مالا مال رکھنے کا ہے تو وہ ادب ہے۔ ادب خیالات کو اُبھارتا ہے!
واقعہ یہ ہے کہ ادب انسانی خیالات ،جذبات اور اقدار کو زندہ رکھنے یا بنانے اور بگاڑنے والی عظیم طاقت ہے۔ دنیا کی تمام تحریکات نے اس طاقت کا خوب خوب ادراک بھی کیا ہے اور بہتر سے بہتر استعمال بھی۔ فرانس کا عوامی انقلاب والٹیر [م:۱۷۷۸ء] اور روسو [م:۱۷۷۸ء]کی تحریروں کونہیں بھول سکتا۔ ان کے قلموں کی روشنائی اس انقلاب کا موج زن خون ہے۔ روس کا اشتراکی انقلاب: مارکس [م:۱۸۸۳ء]، گورکی [م:۱۹۳۶ء]،ٹراٹسکی [م:۱۹۴۰ء]اور دوسرے اہل قلم حضرات کے قلموں کی جنبش پر چلتا ہو ا نظر آتا ہے۔ جرمنی کا نازی انقلاب، اُس تصور سے اُبھرا ہے ، جو نٹشے [م:۱۹۰۰ء]نے اپنی تحریروں میں چھوڑا تھا۔
ادب کی طاقت کا پرتو تمام آسمانی کتابوں میں موجود ہے، بلکہ یہ تقاضا کیا گیا ہے کہ اس کےعلَم بردار ادب کی طاقت کو معرکۂ خیروشرمیں استعمال کریں۔ خود مدینہ منّورہ میں جب اسلامی مملکت کا قیام عمل میں آیا اور بزم رسالت سجائی گئی تو آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جنھوں نے اللہ اور رسولؐ کی مدد تلواروں سے کی ہے، آخر وہ شعر و ادب سے اس مقصد ِخاص کی اشاعت کیوں نہیں کرتے؟‘‘ یہ سنتے ہی حضرت حسّان بن ثابت ؓ [م:۶۷۴ء] جو اپنے زمانے کے جلیل القدر شاعر تھے ،اُٹھے اور عرض کیا: ’’میں اس خدمت کے لیے حاضر ہوں‘‘ ۔
چنانچہ اس دور میں جب حق و باطل کی قوتیں نبر د آزماتھیں،اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ مخالفین کا سر نیچا کرنے کے لیے فن ہجو گوئی سے بھی کام لیا جائے۔عرب میں یہ صنف بہت زیادہ مقبول اور مؤثر تھی۔ اس وجہ سے مشرکین قریش کی ہجو شعراے اسلام نے لکھی۔ حضرت حسان بن ثابتؓ اس فن میں زیادہ دست گاہ رکھتے تھے۔ رسول اکرم ؐ نے ان کے بارے میںفرمایا کہ: ’’حسان کے اشعار مخالفین اسلام پرتیرسے کہیں زیادہ ضربِ کاری لگاتے ہیں‘‘۔ حضرت حسّان بن ثابت ؓ، کعب بن زہیرؓ [م: ۶۶۲ء] اور نابغتہ الجعدی [م: ۶۷۰ء] وغیرہ نے اپنے شعر و ادب سے اس عہد کی تحریکی ضرورتوں کو خوب خوب پورا کیا ہے۔
اسلامی ادب صرف اس ادب کا نام نہیں جو گندگی سے پاک ہو، غیرنجس ہو اور صاف ستھرا ہو، بلکہ اسلامی ادب وہ ہے جو اسلام کے نظریے پر مبنی ہو۔ جن باتوں کو اسلام حق کہتا ہے، مسلم ادیب انھیں حق سمجھے او دوسروں پر ظاہر کرے اور انھیں منوائے۔ جو باتیں اسلام کے نزدیک باطل ہیں، مسلمان ادیب انھیں جھوٹ سمجھے، ان کے جھوٹ ہونے کا اظہار کرے اور انھیں جھوٹ ثابت کرے۔ اسلام جس نظامِ زندگی کو قائم کرنا چاہتا ہے، مسلم ادیب اس کے لیے ادب کے دائرۂ عمل میں سعی کرے۔
علمی لٹریچر کا مقصد ذہنوں کو تیار کرنا ہوتا ہے لیکن ادب دلوں کو مسخر کرکے انھیں حرکت پر آمادہ کرتا ہے، اس لیے ادب کو مؤثر ہونا چاہیے۔ اگر وہ قلوب کو متاثر نہیں کرتا اور ان میں جوش و ولولہ بھر کر انسانوں کو آمادۂ حرکت نہیں کرتا تو وہ بے روح اور بے جان ادب ہے۔
ادب کو مؤثر بنانے کے لیے سات چیزوں کی ضرورت ہے:
تحریک ادب اسلامی سے وابستہ قلم کاروں کو ایک بار پھر اپنے عہد کے ادبی و تحریکی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے برسرِپیکار ہوناہے۔انھیں اُسی خلوص،جذبے اور نیّت سے قلم اُٹھانا ہے، جس نیت سے وہ مسجد میں نماز کے لیے، یا میدان میں جہاد کے لیے داخل ہوتے ہیں، کیوںکہ ان کا ادب عبادت کے لیے وقف ہے۔
اسی کے ساتھ دوسری اہم چیز’فن‘ ہے۔ادب میں فن کی کمزوری خلوصِ نیت اور جذبۂ نمود سے بے نیازی کا بدل نہیں بن سکتی۔ ہماری فنّی کو تاہیاں، مقصد و نصب العین کی خدمت کے بجاے اس کا وزن کم کر نے کا موجب ہوسکتی ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کن کن الفاظ کا استعمال کس کس جگہ مفید ہے کہ جس سے ہم اپنا راستہ نکال سکیں ۔الفاظ، ادیب کے لیے آلات کار ہیں۔ ان آلات کا مناسب اور بر محل استعمال ہی ایک سپاہی کو میدان جنگ میں کامران کرتا ہے۔ لہٰذا، موجودہ معاشرے کو رائج الوقت الحادی اور لادینی ادب کے پنجے سے نکال کر اپنے تحت لانے کے لیے ہمیں شدید محنت اور فنّی ریاض کرنا ہوگا۔
اس سلسلے کی تیسری اہم ترین چیز مطالعے کی وسعت ہے۔ موجودہ ادب اور اس کے سرچشمے کو اچھی طرح جانے بغیر ان پرغلبہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے ماضی و حال کے تمام ادب، مختلف مادّی افکار ونظریات اور عقائدومذاہب کا تنقیدی وتقابلی مطالعہ ضروری ہے۔ اس سے فن میں گہرائی وگیرائی پیدا ہوتی ہے، ادبی رسوخ بڑھتا ہے، تخلیق کو عمر دوام نصیب ہوتی ہے ۔
چوتھی چیزجو ہمیشہ دل ودماغ میں تازہ رکھنے کی ہے ،وہ یہ کہ ہمیں بہرحال ایک نصب العین کی خدمت کرنی ہے اور ایک مقصد کو فروغ دینا ہے ۔چنانچہ اگر ہماری کوئی ایسی چیز میدانِ ادب میں آئے کہ جو اس نصب العین کو تقویت کے بجاے اس کی تذلیل اور سبکی کا باعث ہو، تو یہ خود اس نصب العین کو نقصان پہنچانے کا باعث ہوگا۔ لہٰذا، یہ کوشش بھی ہونی چاہیے کہ ہمارے ادبی محاذ پر کوئی ایسی چیز نہ آنے پائے جو اجتماعی نصب العین کو نقصان پہنچانے والی ہو ۔
آخری بات یہ ہے کہ ادب میں الحاد وبے دینی کے غلبے اور فحاشی وبے حیائی کے سیلاب کو روکنے کے لیے منظّم جدّوجہد کا عزم اسلامی فنکاروں اور ادیبوں کا فرض ہے۔ہمارا کام یہ ہے کہ اس محاذ پر اپنی قوتوں کو ترقی دیتے ہوئے منظم کریں۔ جس محاذ پر جاہلیت کے کارندوں نے جاہلی ادب کے پہاڑ کھڑے کر رکھے ہیں، وہاں ہم حقائق کے پیکر تراش کر سامنے لائیں اور اس طرح اپنی اجتماعی کوششوں کے ذریعے ایک ایسی تحریک کا آغاز کریں، جس سے ادبی جاہلیت کا غلبہ ختم ہو، اور انسانی فطرت کے صحیح رجحانات کی حفاظت اور نشوونما ہو۔