محمد شیث ادریس تیمی


دنیا کا ہر متمدن انسان‘ فطرتاً امن پسند اور بہرحال پُرسکون اور خوش گوار زندگی کا خواہاں ہے۔ دہشت و بربریت اور بدامنی و بے چینی سے اس کی طبیعت ابا کرتی ہے۔ مذہب اسلام‘ انسان کی اس فطری ضرورت کا بہرصورت پاس و لحاظ رکھتا ہے اور اسے ایک ایسا نظامِ حیات عطا کرتاہے جس کے اصول و مبادی‘ اوامر و نواہی اور احکام و مسائل امن و سلامتی کی حسین لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ کیوں کہ یہ جس ذاتِ عالی کا نازل کردہ دستورِ حیات ہے اس کی ایک صفت ’السلام‘ یعنی مرجع امن و سلام بھی بیان ہوئی ہے (الحشر ۵۹:۲۳)‘ جو اپنے بندوں کو امن و سلامتی کے گھر کی طرف بلاتی ہے‘ وَاللّٰہُ یَدْعُوْٓا اِلٰی دَارِ السَّلٰمِ ط(یونس۱۰:۲۵) ‘اور جس کی نگاہ میں معیاری مومن وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمانوں کا امن و سکون خطرے میں نہ پڑے۔ (بخاری‘ مسلم )

مقامِ افسوس ہے کہ آج دنیا‘ اسلام کے پُرامن پیغام کو فراموش کر کے ببانگِ دہل یہ اعلان کر رہی ہے اور میڈیا بھی اس میں اپناسارا زور صرف کر رہا ہے کہ اسلام (نعوذ باللہ) دہشت و سفاکیت پھیلانے والا مذہب اور عہدِ تاریکی کی یادگار ہے۔ اس کے ماننے والے بنیاد پرست‘ دہشت گرد‘ مذہبی دیوانوں کا ٹولہ اور قومی و عالمی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ اسی طرح سارے   مسلم ممالک دہشت گردی کی آماجگاہ اور اس کی سرپرستی کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ The Clash of Civilizations (تہذیبوں کا تصادم) جیسی کتابیں لکھ کر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ اسلام کا درون و بیرون خون آلود ہے‘ Islam's borders, are bloody so are innards۔(سموئیل پی ہن ٹنگٹن‘ ۱۹۹۶ئ‘ ص ۲۸)

مغربی مفکر فریڈ ہالی ڈے کے بقول یہ سب مفروضے اس گروہ کے تصنیف کردہ ہیں جو مغرب میں رہتا ہے اور چاہتا ہے کہ مسلم دنیا کو کمیونزم کے زوال کے بعد ایک دشمن میں تبدیل کردے (فریڈ ہالی ڈے‘ Islam and the Myth of Confrontation ‘IB Tawaris Publishers نیویارک‘ ۱۹۹۵ئ‘ ص ۶)

یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کی چھوٹی موٹی واردات سے لے کر‘ ۱۱ ستمبر جیسے واقعات کا سرا مسلمانوں سے جوڑ دیا جاتا ہے اور مغربی مفکرین اور میڈیا ان کی یہ مسخ شدہ تصویر اس خوب صورتی سے پیش کرتا ہے کہ دیکھنے والا دیکھتے ہی بلاتامل پکار اُٹھے  ع

بوے خون آتی ہے اس قوم کے افسانے سے

حالانکہ زمینی حقائق اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ روے زمین پر اسلام ہی ایک ایسا نظریہ اور نظامِ حیات ہے جس کی رگ و پے میں امن و سلامتی کی روح کارفرما ہے اور جس کا خمیر  صلح و سلامتی سے تیار ہوا ہے۔ یہ محض عقیدت مندانہ جذبہ آفرینی نہیں بلکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ آج سے ۱۴ سو سال قبل جب انسانیت زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی‘ ایک صحراے عرب کیا‘ بلکہ ساری دنیا میں بدامنی و ابتری پھیلی ہوئی تھی۔ خوف و دہشت کا دور دورہ تھا‘ امن و قانون نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی تھی‘ اعلیٰ انسانی قدروں کا جنازہ اٹھ چکا تھا‘ بچیاں زندہ درگور کر دی جاتی تھیں‘ غلاموں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا تھا‘ عورتیں ہر طرح کے حقوق سے محروم تھیں اور طاقت ور کمزور کو نگلے جا رہا تھا___!

ایسے پُرآشوب دور میں اسلام مسیحاے انسانیت بن کر مرغزار عرب سے ہویدا ہوا اور نہایت حکیمانہ انداز میں یہ اعلان کیا کہ وَاِذَا الْمَوْئٗ دَۃُ سُــئِلَتْ o  (التکویر۸۱:۸)۔ اب عورتوں کو حق زیست سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلاَّ بِالْحَقِّط (الانعام۶:۱۵۱)‘ اب کسی کو ناحق قتل نہیں کیا جائے گا‘ لیکن ظالم بھی بخشا نہیں جائے گا۔ من قتل عبدہ قتلناہ ومن جدع عبدہ جدعناہ(ابوداؤد‘ کتاب الدیات‘ باب من قتل عبدہ أو مثل بہ أیقاد منہ؟)۔ اب غلاموں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک روا نہیں رکھا جائے گا۔ وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰیo (النجم۵۳:۳۹) ۔ دنیا میں خونی اشتراکیت کا وجود نہ ہوگا۔ توخذ من أغنیائِھِم وترد علی فقرائھم (بخاری‘ کتاب الزکوٰۃ‘ باب وجوب الزکوٰۃ)۔ اب سرمایہ داروں کی بالادستی قائم نہیں رہے گی۔ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ(المائدہ ۵:۹۰)۔ اب شراب و قمار کے نشے میں انسانیت سوز جرائم وجود میں نہیں آئیں گے۔ وَلَاتَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَ ھُمْ (الاعراف۷: ۸۵) ۔ لوگوں کی حق تلفیاں اب نہیں ہوں گی۔ الناس بنو اٰدم وآدم من تراب(احمد: مسند ۶/۵۷۰‘ دار احیاء التراث العربی‘ بیروت‘ لبنان‘ ۱۹۹۴ئ)۔ اب رنگ و نسل اور قومیت کے آرے سے انسانیت کو چیرا نہیں جائے گا۔ وَلَاتُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا  (الاعراف۷:۵۶) ’’زمین فتنہ وفساد کی آماجگاہ نہیں بنے گی اور اگر کوئی شخص یا گروہ راہِ امن و سلامتی کا روڑہ بنے گا تو پھر اس سے جنگ کی جائے گی‘‘۔ اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْتُقَطَّعَ اَیْدِیْھِمْ وَاَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِط  ذٰلِکَ لَھُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَلَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ o  (المائدہ ۵:۳۳) ’’اس کا اثر یہ کہ ۲۵ سال کی مختصر مدت میں سارا جزیرۂ عرب امن و سکون کا گہوارا بن گیا اور ایسا گہوارا امن کہ رسولؐ کی پیشن گوئی کے مطابق ایک عورت سونا چاندی اُچھالتے ہوئے‘ قادسیہ سے صنعا تک تنہا سفر کرتی تھی اور کوئی اسے ٹوکنے والا نہیں تھا (بخاری: کتاب الاکراہ‘ باب من اختار الضرب والقتل والھوان علی الکفر۔ ابوداؤد: کتاب الجہاد‘ باب فی الأسیر یکرہ علی الکفرہ)۔ لیکن آج اس کے برعکس امن کی ہزارہا کوششیں ناکام ہو رہی ہیں۔ قومی و عالمی سطح پر امن مذاکرات ہورہے ہیں اور حقوقِ انسانی کی کمیشن بحال ہے۔ لیکن نتیجہ صفر سے آگے نہیں بڑھتا۔ آخر کیوں؟ وجہ ظاہر ہے کہ  ع

جو شاخِ نازک پر آشیانہ بنے گا ناپایدار ہوگا

معاصر تصورات امن اور ان کے مضمرات

اسلام کے تصور امن کی مزید وضاحت سے قبل‘ معاصر تصوراتِ امن اور ان کی مضرات سے واقفیت ضروری ہے‘ تاکہ دور جدید میں اسلامی تصورِ امن کی معنویت کا اندازہ ہوسکے‘ کیوں کہ اشیا اپنے اضداد سے پہچانی جاتی ہیں‘ تعرف الاشیاء بأضدادھا۔

عام طور پر امن کا اطلاق معاہدئہ عدمِ جنگ اور قومی و بین الاقوامی تعلقات کی خوش گواری پر ہوتا ہے۔ کشاف اصطلاحات سیاست میں امن کی تعریف یوں کی گئی ہے: ’’ایسی صورت حال  جب اندرونی طور پر ریاست کے حالات‘ پُرسکون اور دیگر ریاستوں کے ساتھ اس کے تعلقات حسبِ قاعدہ ہوں‘‘۔(محمد صدیق قریشی‘ کشافِ اصطلاحات سیاسیات‘ ص ۴۴۹‘ مقتدرہ قومی زبان‘ اسلام آباد‘ ۱۹۸۶ئ)

اور رچرڈ اسموک کے بقول: عام طور پر جب لوگ لفظ امن بولتے یا لکھتے ہیں تو اس کا سیدھا سادا مفہوم عدمِ جنگ لیتے ہیں۔ یہ امن کی منفی تعریف ہوتی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے معنی جنگ کے علاوہ کچھ اور ہیں جو اس کے مثبت کردار کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو جنگ کی طرح وقوع پذیر نہیں ہوتا۔ اور یہ امن ایسے حالات کا نام ہے جس میں جماعت یا ملکوں کے درمیان احترامِ باہم اور صحیح معنوں میں باہم سرگرم تعاون کی فضا پائی جاتی ہو۔ اور پھر یہ بڑھ کر بالآخر پوری دنیا کو اپنے دامن میں سمیٹ لے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو‘ اسموک رچرڈ‘ Smoke Richard with Willism Harman, Paths to Peace ‘ویسٹ ویو پریس‘ لندن‘ ۱۹۸۷ئ‘ ص ۲)

اس تعریف سے دو تصورات امن سامنے آتے ہیں: مثبت تصورِ امن اور منفی تصورِ امن۔

منفی تصور امن یہ ہے کہ ملک و سماج میں ذاتی تشدد نہ ہو‘ اس میں ملیٹری سائنس پر زوردیا جاتا ہے اور تخفیفِ اسلحہ اور اس کے کنٹرول کی بات کی جاتی ہے۔

مثبت امن یہ ہے کہ ساختی تشدد نہ ہو اور مساوی طور پر سب کے ساتھ سماجی انصاف کا اہتمام کیا جائے۔ اس میں سماجی ڈھانچے کے علم پر زور دیا جاتا ہے اور عمودی ترقی میں دل چسپی لی جاتی ہے۔( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو‘ Johson L.G. Conflicting Concept of Peace in Contemporary Peace ‘سیج پریس‘ لندن‘ ۱۹۸۷ئ‘ ص ۱۲)

اگر غور کیا جائے تو یہ دونوں تصوراتِ امن کسی درجے میں اپنی جگہ درست ہیں۔ لیکن ان کے حصول کے جو ذرائع بتائے گئے ہیں وہ بلاشبہہ نظری محض اور غیرعملی ہیں۔ مثلاً:

عالمی حکومت

ارسطو اور دانتے نے حصولِ امن بذریعہ عالمی حکومت کے نظریے کی وکالت کی تھی۔ عصرِحاضر میں برٹرنڈرسل اس کا سرگرم حامی رہا ہے (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو‘ World Encyclopedia of Peace ‘پرگیمن پریس‘ والیم ۲‘ ص ۳۸۴-۳۸۵)۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فی زمانہ قتل و غارت گری کے بغیر مجوزہ عالمی حکومت کا قیام ممکن ہے اور اگر ممکن بھی ہے تو اس کے زیرسایہ‘ پرامن بقاے باہم کی ضمانت کیسے دی جاسکتی ہے؟ اور کیا یہ ضروری ہے کہ قوتِ مقتدرہ غیر جانب دار ہو اور وہ قوت کا غلط استعمال نہ کرکے صرف قیامِ امن کے لیے کوشش کرے۔ مسلم دنیا کے خلاف امریکا کی موجودہ روش سے‘ اس نظریے کی حقیقت کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔

بین الاقوامی عدالت

اس نظریے کے حاملین کا کہنا ہے کہ جب تک عالمی سطح پر کوئی ایسا ادارہ وجود میں نہیں آتا‘ جو ریاستوں کے مابین تمام حل طلب مسائل کا عدل و انصاف پر مبنی تصفیہ کرسکے۔ اس وقت امن کا تصور محال ہے۔ اس تصور کا بانی پینتھم کو قرار دیا جاتا ہے (ایضاً‘ والیم ۲‘ ص ۷۷-۷۸)۔ لیکن اس نظریے کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہاں کسی قوتِ نافذہ کی بات نہیں کی گئی ہے جو اس عدالت کے فیصلہ کو نافذ کراسکے۔

عدمِ مزاحمت کااصول

بہت سے مفکرین کا خیال ہے کہ کسی بھی شے سے مزاحمت نہ کی جائے۔ اس طرح وہ خود اپنی موت آپ مرجائے گا اور امن کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ ٹالسٹائی کو اس نظریے کا زبردست حامی بتایا جاتا ہے (ایضاً‘ والیم ۱‘ ص ۴۶۵)۔ گاندھی جی کا اہنسا پرمودھرما بھی اسی نظریے سے متاثر نظر آتا ہے۔ لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو عدمِ مزاحمت کا اصول بھی بے حد غیرمنصفانہ اور ظالمانہ ہے اور اس کی تباہ کاریاں روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔ مغرب میں بے لگام آزادی اور فحاشی و عریانی اور اباحیت پسندی کے غیرفطری تجربے کے نتیجے میں‘ خاندانی و معاشرتی نظام کا بگاڑ اس کی واضح مثال ہے۔

تحفظِ ا جتماعی

امن بذریعہ تحفظ اجتماعی کا نظریہ‘ پہلی جنگ عظیم میں ہونے والی ہوش ربا ہلاکتوں کے   پسِ منظر میں وجود میں آیا جس کی بنیاد پر ۱۹۲۰ء میں جنیوا میں ’انجمن اقوام‘ کی تشکیل عمل میں آئی ‘ جس کا مقصد حقوقِ انسانی کی حفاظت‘ بین الاقوامی امن وسلامتی کو برقرار رکھنا‘ اور دنیا کو جنگ کی لپیٹ میں آنے سے روکنا قرار دیا گیا۔ لیکن واقعات نے ثابت کر دیا کہ انسانی حقوق کے اس منشور کی حیثیت ایک خوش نما دستاویز سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اس کی ناکامی کے اسباب میں سے چند کا ذکر یہاں مناسب ہے۔

۱- اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرارداد اور فیصلوں کا نفاذ رضاکارانہ ہے۔ اس کے پیچھے کوئی قوتِ نافذہ نہیں ہے۔

۲- بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے فیصلے بڑی حد تک سفارشی نوعیت کے ہوتے ہیں۔

۳- سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کو حق استرداد (right of veto) حاصل ہے۔ جب کوئی فیصلہ ان میں سے کسی کے مفاد کے خلاف جاتا ہے تو وہ آسانی سے اسے ویٹو کر دیتا ہے۔

۴- سلامتی کونسل میں ریاستوں کے قومی مفاد کو تسلیم کیا گیا ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے: مشتاق احمد‘ قانون بین الاقوام‘ عزیز پبلشرز‘ لاہور‘ بحوالہ ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی ‘عصری اور اسلامی تصور امن ایک تقابلی مطالعہ‘ قرآن و سنت اکیڈمی‘ نئی دہلی‘ ۲۰۰۲ئ‘ ص ۷۰ تا ۸۲)۔چنانچہ ریاستیں درونِ ملک کتنی ہی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور اپنے شہریوں پر ظلم و زیادتی کا ارتکاب کریں اگر حقوقِ انسانی کمیشن اس کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو اسے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ بھارت میں گجرات کے حالیہ واقعات کے تئیں‘ مرکزی حکومت کے مؤقف سے اس حقیقت کی وضاحت ہوجاتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ آج انجمن اقوام متحدہ ہو یا سلامتی کونسل‘ ان کی حیثیت ایک خاموش تماشائی سے کم نہیں رہ گئی ہے۔ خلیجی جنگ کے بعد پابندیوں کے باعث عراق میں پانچ لاکھ بچوں کی ہلاکت‘ ۱۹۸۶ء میں لبنان میں اسرائیل کے ذریعے ۱۷ ہزار ۵ سو شہریوں کی تباہی‘ ۱۹۹۶ء میں قانا نامی ایمبولینس پر میزائل سے امریکی حملہ‘ امریکا کے اتحادی اسرائیل کی پروردہ لبنانی ملیشیا کا مہاجر بستیوں میں قتل و غارت‘ لوٹ مار اور عصمت دری کا بازار گرم کرنا‘ موجودہ اسرائیلی وزیراعظم ایریل شارون کے اشارے پر‘ صابرہ اور شتیلہ کے مہاجر کیمپوں میں ہزاروں بے گناہوں کا قتلِ عام۔ چیچنیا‘ کوسووا اور الجزائر میں لاکھوں مسلمانوں کی تہ تیغی‘ اور برما کے روہنگیا مسلمانوں کا بہیمانہ قتل‘ اور اقوام متحدہ میں ظالموں کے خلاف کسی طرح کی قرارداد پاس نہ ہونا‘ اس ادارے کی فعّالیت کو مشکوک کرتی ہے۔

معاصر تصوراتِ امن کی یہی وہ خامیاں ہیں جن کی وجہ سے دنیا میں قیامِ امن کا مسئلہ بڑا مشکل اور پیچیدہ ہوگیا ہے۔ دولت کی غیرعادلانہ تقسیم نے دنیا کو عیش و تنّعم اور فقروافلاس کی دوانتہائوں پر کھڑا کر دیا ہے۔ گلوبلائزیشن کی لعنت نے عالمی بنک کی سالانہ رپورٹ کے مطابق‘ دولت مند طبقے کو زیادہ امیر بنا دیا ہے‘ جب کہ غریبوں کی تعداد دوگنی ہوگئی ہے۔ اس رپورٹ میں آیندہ غربت و افلاس کی شرح میں اضافے کا بھی خدشہ ظاہر کیا گیا ہے(فضل الرحمن فریدی‘ ماہنامہ زندگی نو‘ جنوری ۲۰۰۱ء کالم اشارات)۔ یہ کیسا تضاد ہے کہ جس امریکا میں ایک ائرہوسٹس اپنے کپڑوں کی ڈرائی کلیننگ پر چھے ہزار ڈالر خرچ کرتی ہے‘ وہیں ایسے کالے لوگوں کی بھی اکثریت پائی جاتی ہے جو گاربیچ ٹن (کوڑے دان) میں سے غذائوں کے ٹکڑے چنتے ہیں۔

آج دنیا میں آرٹ اور ثقافت کی آزادی کے نام پر فحش لٹریچر‘ سینما ‘ٹی وی اور انٹرنیٹ کے ذریعے فحاشی و بدکاری کی اشاعت کے سبب جنسی جرائم آسمان کو چھونے لگے ہیں۔ ۲۰۰۲ء کی رپورٹ ہے کہ صرف ہندستان میں ایک سال کے اندر ۱۶ ہزار ۴ سو ۹۶ زنا بالجبر‘۳۲ ہزار ۹ سو ۴۰  چھیڑچھاڑ اور ۱۱ ہزار ۲۴ عورتوں کے ساتھ نازیبا حرکتوں کے واقعات پیش آئے۔ کیا یہی حقوقِ نسواں کی حفاظت ہے؟ اس سے بڑھ کر عدل و انصاف کا دوہرا معیار اور کیا ہو سکتا ہے کہ برطانیہ‘ سلمان رشدی کو جس کی ہرزہ سرائی سے کروڑوں مسلمانوں کو تکلیف پہنچی‘ مکمل سکیورٹی فراہم کرتا ہے اور جب مسلمان اس کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ یہ تو بنیاد پرستی ہے۔ لیکن مشتبہ ملزم اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کی وجہ سے‘ نہتے افغانستان کے خلاف آپریشن بلیواسٹار کا مظاہرہ ہوتا ہے اوروہ کارپٹ بم کے ذریعے تہ تیغ کر دیے جاتے ہیں۔ اسرائیل کو یہ آزادی ہے کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف ہر طرح کی جارحیت کو روا رکھے اور نوع بہ نوع آلاتِ حرب تیار کرے۔ اس سے دنیا کو اجتماعی تباہی کا خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ لیکن محض شبہے کی بنیاد پر عراق کو تباہ کر دیا جاتا ہے کہ اس کے پاس weapons of mass distruction ہیں۔ پھر بعد میں اس مزعومہ استبقائی جنگ کو جنگ براے مکمل آزادی کا نام دے کر اس کا جواز پیش کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی دنیا میں جاہلانہ طبقاتی نظام قائم ہے۔ The End of History کا امریکی نعرہ اسی ظالمانہ نظام کے زیراثر ہے اور جس کے استحکام کے لیے ظلم و جارحیت کے سارے ریکارڈ توڑے جا رہے ہیں۔ تو پھر ایسی تکلیف دہ اور غیر یقینی صورت حال میں کیا قیامِ امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا؟ اور دنیا حقیقی امن و سلامتی سے آشنا ہوسکے گی؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب مغربی دنیا کو دینا ہے۔

اسلام کا تصور امن

مغربی و عصری تصوراتِ امن کے برخلاف‘ اسلام ایک فطری‘ دیرپا‘ جامع‘ منظم اور انسانی طبیعت سے ہم آہنگ تصورِ امن پیش کرتا ہے۔ اس کے دو پہلو ہیں: ایک سلام اور دوسرا صلح۔ سلام اس امن کو کہتے ہیں جس میں نزاع شروع ہونے سے پہلے‘ کسی بھی طرز کے اقدامات کے ذریعے‘ امن و امان قائم اور بحال رکھا جائے‘ اور صلح اس امن سے عبارت ہے جو نزاع شروع ہونے کے بعد کسی بھی نوع کی کوشش سے قائم ہو(عبدالرحمن کیلانی: مترادفات القرآن اللغویۃ‘ ص ۶۱۹۔۶۲۰‘ مکتبہ دارالاسلام‘ لاہور)۔ گویا یہ عارضی شے ہے۔ چونکہ اسلام مستقل امن و سلامتی کا خواہاں ہے اس لیے وہ تصور ’سلام‘ پر سب سے زیادہ زوردیتا ہے اور اس کے لیے وہ سب سے پہلے فرد کے اندر امن کا احساس پیدا کرتا ہے اور اس کے ضمیر ووجدان میں عقیدئہ و اخلاق کی ایسی جوت جگاتا ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ مجسم امن و سلامتی بن جاتا ہے۔ کیونکہ انسان جب متعدد معبودوں کی پرستش کے باوجود بھی‘ روحانی امن و سکون سے محروم رہتا ہے تو اسلام کا نظریۂ توحید اسے تسلی دیتا ہے کہ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَھُمْ مُّھْتَدُوْنَ  (الانعام ۶:۸۲)‘ یعنی امن و سکون تو اہلِ توحید کے لیے مقدر ہے۔جب اسے دوسروں کے عیش و تنّعم کے مقابلے میں اپنی بدحالی دیکھ کر پریشانی لاحق ہوتی ہے تو عقیدۂ قضا و قدر اس کے لیے سامانِ تسکین ثابت ہوتا ہے۔ جب وہ بے راہ رو ہونے لگتا ہے تو عقیدئہ آخرت اور اُس کی ہولناکی اُسے راہِ راست پر لے آتی ہے‘ اور جب وہ کسی کا حق مارنے اور قتل و خون کا ارادہ کرتا ہے تو اسلام کا نظریۂ قصاص و جنایات اس کے پائوں کی زنجیر بن جاتا ہے۔ اس طرح فرد کی زندگی امنِ حقیقی سے آشنا ہوجاتی ہے۔

بعینہٖ اسلامی عبادات بھی امن پروگرام کی تنفیذ میں غیرمعمولی کردار ادا کرتی ہیں۔ مثلاً نماز برائیوں سے روکتی ہے‘ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِط (العنکبوت ۲۹:۴۵)‘ خلق خدا کے حقوق کی یاد دہانی کراتی‘ نفس کو سرکشی اور اِستکبار سے روکتی ہے اور اس کے اندر جذبۂ شکر پیدا کرتی ہے۔ اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ھَلُوْعًا o اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا o وَّاِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا o اِلاَّ الْمُصَلِّیْنَ o الَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلَاتِھِمْ دَآئِمُوْنَ o وَالَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ o لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ- (المعارج۷۰: ۱۹-۲۵)

زکوٰۃ اور انفاق فی سبیل اللہ سے غریبوں‘ معذوروں‘ یتیموں اور بے کسوں کی داد رسی کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ o وَمَآ اَدْرٰکَ مَا الْعَقَبَۃُ o فَکُّ رَقَبَۃٍ o اَوْ اِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ o یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ o اَوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ o (البلد۹۰:۱۱-۱۶)۔ صدقے سے سکون حاصل ہوتا ہے۔ خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَتُـزَکِّیْھِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْھِمْط اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْط (التوبۃ ۹:۱۰۳)۔

روزے سے تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ غریبوں کا دکھ درد سمجھنے کا موقع ملتا ہے اور اس سے بدکاری و فحاشی پر ضرب پڑتی ہے۔ یامعشر الشباب من استطاع منکم الباء ۃ فلیتزوج ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم فانہ لہ وجاء (بخاری: کتاب النکاح‘ باب قول النبیؐ من استطاع منکم الباء فلیتزوج۔مسلم: کتاب النکاح‘ حدیث عبداللّٰہ بن مسعود)

حج جذبۂ وحدت پیدا کرتا ہے‘ تفریق رنگ و نسل مٹاتا‘ ہر طرح کی برائیوں اور جنگ وجدال سے روکتا ہے اور تمام انسانیت کے فلاح و بہبود کانظم کرتا ہے۔ اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ ج فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَلا وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّط (البقرہ۲:۱۹۷)

فرد کے بعد اسلام خاندان کی طرف متوجہ ہوتاہے اور اس کی سلامتی کے لیے سب سے پہلے ازدواجی زندگی کا پُرسکون تصور پیش کرتا ہے‘ بقاے امن کی خاطر اختلاط مرد و زن کو حرام اور عورتوں کے لیے پردہ لازم ٹھہراتا ہے۔ بدامنی پھیلانے والے عناصر کو قرار واقعی سزا کا مستحق قرار دیتا ہے کہ اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍص(النور ۲۴:۲)۔ اسی طرح اگر زوجین کے مابین نباہ کی کوئی صورت باقی نہیں رہ پاتی ہے توخاندانی امن کو برقرار رکھنے کے لیے طلاق کی بھی اجازت دیتا ہے۔ آج آزادیِ نسواں کی دعوے دار مغربی دنیا کا جائزہ لیں تو پتا چلے گا کہ مغربی معاشرے میں خواتین کے چہرے کی شادابی غائب ہوچکی ہے‘ ان کا قلبی سکون لٹ چکا ہے کیونکہ ان کا فیملی سسٹم بگڑا ہوا ہے۔ نتیجتاً‘ وہ اسلام کو اپنے لیے جاے امان تصور کرنے لگی ہیں۔

فرد و خاندان کے بعد اسلام معاشرے میں قیامِ امن کی سعی کرتا ہے اور سدِّذرائع کے اصول پر عمل کرتے ہوئے‘ بدامنی پھیلانے والے عناصر کو بیخ و بن ہی سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کرتا ہے‘ مثلاً معاشرے میں بدامنی: اختلاف و انشقاق سے پھیلتی ہے‘ اسلام کہتا ہے: وَلَاتَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُم (الانفال ۸:۴۶)

  •  امانت میں خیانت سے پھیلتی ہے‘ اسلام کہتا ہے: اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا لا (النسائ۴:۵۸)  فقروفاقہ سے پھیلتی ہے‘ اسلام کہتا ہے: اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ (التوبۃ ۹:۶۰)
  • ناانصافی کے پیٹ سے جنم لیتی ہے‘ اسلام کہتا ہے: اِعْدِلُوْاقف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ز (المائدہ ۵:۸)
  • بدعہدی سے پھیلتی ہے‘ اسلام کہتاہے: وَاَوْفُوْا بِالْعَھْدِ اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُوْلًاo (بنی اسرائیل۱۷: ۳۴)
  • ظلم کی پشت پناہی اور تعصب سے پھیلتی ہے‘ اسلام کہتا ہے: وَلَایَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا ط (المائدہ ۵:۸)۔ بدامنی جبر و اکراہ کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے‘ اسلام اعلان کرتا ہے: لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِقف (البقرہ ۲:۲۵۶) معاشرے میں بدامنی لادینی سیاست سے پھیلتی ہے‘ بقولِ اقبال  ع    جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

اسلام کی نگاہ میں ذوقِ جمال اور فارغ البالی ممنوع نہیں‘ بلکہ وہ اسے بنظرِاستحسان دیکھتا ہے۔ قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِط (الاعراف ۷:۳۲)۔ لیکن آرٹ‘کلچر اور فنونِ لطیفہ کے نام پر اشاعتِ فحش کی مذمت بھی کرتا ہے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌلا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِط (النور۲۴:۱۹)

اس طرح جب فرد اور معاشرے میں بدامنی پھیلانے والے عناصر کی روک تھام ہوجاتی ہے اور وہ امن و سکون کا نگہبان اور گہوارہ بن جاتا ہے تو اسلام قومی و بین الاقوامی سطح پر قیامِ امن کی کوشش کرتے ہوئے‘ ساری انسانیت کو ایک اکائی قرار دیتا ہے‘ اخوت کی جہانگیری قائم کرتا ہے۔ رنگ و نسل کی تفریق مٹاتا اور معیارِ فضیلت تقویٰ قرار دیتا ہے۔ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْاط اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْـقٰکُمْط (الحجرات۴۹:۱۳)

اسلامی تصورِ امن کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر انسان کی جان اور خون کو محترم قرار دیتا ہے۔ اس کی نگاہ میں قتلِ ناحق سب سے بڑا گناہ ہے (بخاری: کتاب الشہادات‘ باب ماقیل فی شھادۃ الزور۔ مسلم: کتاب الایمان‘ باب بیان الکبائر واکبرھا)۔ حتیٰ کہ وہ کسی ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل تصور کرتا ہے (المائدہ ۵:۳۲)۔ کوئی شخص محض عقیدہ‘ زبان اور قومیت کی بنیاد پر حقِ زیست سے محروم نہیں ہو سکتا۔ اسلام مخلوط سوسائٹی میں پرامن بقاے باہم کا نظریہ ہی نہیں پیش کرتا‘ بلکہ وہ عملاً اس کے استحکام کے لیے بھی کوشش کرتا ہے۔ وہ جہاں یہ حکم دیتا ہے کہ اپنے غیرمسلم بھائیوں سے خندہ پیشانی سے ملو اور ان کے سلام کا گرم جوشی سے جواب دو‘ وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَاط (النسائ۴:۸۶)۔ وہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے‘ ہر مذہب کے مذہبی رہنمائوں کی تکریم بھی سکھاتا ہے۔

وَلَاتَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًام  بِغَیْرِ عِلْمٍط (الانعام ۶:۱۰۸)۔ لیکن اسلام کی ان تمام واضح تعلیمات کے باوجود‘ عام طور پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ مسلمان علیحدگی پسند‘ جنگجو اور ملکی و عالمی سلامتی کی راہ کے روڑے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کی بعض کارروائیوں میں کسی نام نہاد اسلام پسند افراد یا گروہ کے ملوث ہونے کے سبب‘ سارے اسلام اور مسلمانوں کو ہی بدنام کرنا عام سی بات ہوگئی ہے۔ اور اس کارروائی کو اسلامی دہشت گردی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیکن جیکو (Jaco) الفا‘ ایل ٹی ٹی ای‘ پی ایل اے‘ وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل کی دہشت گردانہ کارروائیوں کو ہندو‘ یہودی یا مسیحی دہشت گردی نہیں قرار دیا جاتا۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ آج اسلام کے نظریۂ جہاد کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ گویا مذہبی دیوانوں کا ایک گروہ ننگی تلوار لیے ہوئے خونیں آنکھوں کے ساتھ اللہ اکبر کے نعرے لگاتا ہوا چلا آ رہا ہو جہاں کسی کافر کو دیکھتا ہو‘ پکڑ لیتا ہو اور تلوار اس کی گردن پر رکھ کر کہتا ہو کہ بول لا الٰہ الا اللہ ورنہ سرقلم کر دوں گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں جہاد کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور اس عمل کو ذروۃ سنام الاسلام کہا گیا ہے۔ لیکن کب؟ جب کہ حقوق انسانی پامال کر دیے جائیں‘عبادت گاہوں کے وجود کو خطرہ لاحق ہو‘ اہلِ اسلام کی جان و مال‘ عزت و آبرو اور گھربار خطرے میں پڑجائیں۔ ظلم ہی ظلم ہو اور اصلاح کی کوئی صورت باقی نہ رہ جائے۔ ایسی صورت میں وہ فتنے کے ازالے اور اللہ کے کلمے کی سربلندی کے لیے جنگ کا حکم دیتا ہے۔ وہ کسی بھی حال میں امریکا کی طرح آپریشن بلیواسٹار‘ اور آپریشن ان ڈیورنگ فریڈم کا بگل نہیں بجا دیتا‘ بلکہ اس کی تعلیم یہ ہے کہ دورانِ جنگ محاربین کے بوڑھوں‘ بچوں‘ اپاہجوں‘ مذہبی رہنمائوں اور عورتوں سے تعرض نہ کیا جائے۔ مقتولین کا مثلہ نہ کیا جائے اور آتش زنی‘ لوٹ مار‘ قتل عام‘ بم ھماکے‘ مفتوحین کے ساتھ وحشیانہ سلوک اور نسلی تطہیر سے پرہیز کیا جائے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، الجہاد فی الاسلام)۔ کیا اس طرح کے بلند جنگی اخلاقیات کسی اور تہذیب میں پائے جاتے ہیں۔

عصرِحاضر کا سب سے بڑا کرب یہ ہے کہ جب جنگ کے حوالے سے بات ہوتی ہے تو قصداً معاصر تہذیبوں کی جنگی بربریت اور خوں آشامی کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے اور جہادِ اسلامی کی وحشت ناکی نمک مسالے کے ساتھ بیان کی جاتی ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ فرانس میں جمہوری انقلاب کے دوران بیک وار بیسیوں سروں کی ناریلوں کی طرح اڑانے والی گلوٹین کے ذریعے ۶۶لاکھ انسانوں کا صفایا کردیا گیا۔ روس میں اشتراکی انقلاب کے دوران کروڑوں جانیں تلف ہوئیں۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں بالترتیب ۷۳ لاکھ ۳۸ ہزار اور ایک کروڑ ۶ لاکھ ۸۵ ہزار آدم زادوں کا آفتابِ حیات گل ہوا۔ اہنسا پرمودھرما کے پجاریوں کی مہابھارت بھی‘ ایک روایت کے مطابق ایک کروڑ انسانوں کے خون سے رنگین ہے (سید اسعد گیلانی، رسول اکرمؐ کی حکمتِ انقلاب‘ ص ۶۵۸-۶۵۸‘ کریسنٹ پبلشنگ کمپنی‘ دہلی‘ ۱۹۹۳ئ)۔ اسی طرح حالیہ دنوں افغانستان اور عراق کے خلاف امریکا کی غیرمتوازن اور بلاجواز جنگ میں کتنی معصوم جانیں ہلاک ہوئیں اور کس قدر املاک برباد ہوئیں وہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ پھر بھی یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ جنگیں عادلانہ تھیں اور عادلانہ ہیں۔ لیکن رسولؐ اللہ کی قیادت میں کل ۸۲ غزوات و سرایا میں‘ صرف ۹۱۸ افراد کی شہادت و ہلاکت کو دہشت و بربریت و سنگ دلی تصور کیا جاتا ہے۔ (ایضاً‘ ص ۶۵۷)

مختصر یہ کہ اسلام نے امن کا جو تصور دیا ہے وہ جامع‘ دیرپا اور ساری انسانیت کے لیے یکساں مفید ہے۔ اس کے برعکس معاصر تصوراتِ امن وقت کی پیداوار‘ انسانی تجربات کی اختراع اور الٰہی نظام کے تابع نہ ہونے کے سبب ناقابلِ عمل ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کے تصورِ امن سے دنیا کو واقف کرایا جائے۔ یقینا وہ دن دُور نہیں جب دنیا یہ اعتراف کرلے گی کہ  امن عالم فقط دامنِ اسلام میں ہی ملے گا۔

تجاویز

آخر میں قیامِ امن کے تعلق سے چند تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔

  • انسانیت کا احترام: انسانی ترقی کے لیے عزتِ نفس کا خیال ازحد ضروری ہے۔ آج دنیا میں قیامِ امن کی کوششیں اس لیے ناکام ہو رہی ہیں کہ اس کے نزدیک حکومت و قومیت اور لسانیت انسانیت پر مقدم ہے‘ اور ناقابلِ انکار صداقت ہے کہ جب تک تقدس انسانیت کے بجاے‘ تقدیس حکومت و قومیت اورلسانیت کا جذبہ کار فرما رہے گا‘ دوسروں کی حق تلفی ہوتی رہے گی۔ ظلم و بربریت کا عفریت‘ انسان کے ذہن و دماغ پر سوار رہے گا اور دہشت گردی کے مظاہرے ہوتے رہیں گے۔
  • مخلوط معاشرت اور صحت مند مکالمہ: اس دنیا میں مذاہب اور تہذیبوں کا اختلاف امرواقع ہے جس کو مسلح تصادم اور معرکہ آرائی سے ختم نہیںکیا جا سکتا۔ باہمی گفت و شنید اور افہام و تفہیم کے لیے فضا خوش گوار رکھنی چاہیے‘ تاکہ امن و سلامتی کے ساتھ زندگی گزاری جاسکے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس نہج پر پیدا کیا ہے کہ وہ حسنِ خلق‘ احسان اور انصاف سے متاثر ہوتا ہے۔ لیکن دھونس اور دھاندلی سے اس کے اندر ضد اور خودسری پیدا ہوتی ہے۔
  • پرامن اختلاف راے اور آزادیِ اظھار: حصولِ امن کے لیے پرامن اختلاف راے اور مذہبی اظہار کی آزادی ضروری ہے۔ اس کے بغیر قیامِ امن محال ہے۔ ۱۱ستمبر کے واقعات کے بعد ‘افغانستان کے خلاف امریکا کی مسلح کارروائی کے تناظر میں‘ ہیومن رائٹس واچ کے ڈائرکٹر نے کہا تھا:

اگر امریکا کی قیادت میں انسداد دہشت گردی کی مہم‘ پُرامن اختلافِ راے اور مذہبی اظہار خیال پر حملے سے آہنگ ہوجاتی ہے تو یہ اس چیز کی بنیاد کھوکھلی کر کے رکھ دے گا جس کو حاصل کرنے کے لیے امریکا کوشش کر رہا ہے۔ (دی ہندو‘دہلی‘ ۲۸ ستمبر ۲۰۰۱ئ)

  • اسباب تشدد اور اس کا انسداد: دہشت گردی کی کارروائیاں اور تشدد بہرحال قابلِ مذمت ہے۔ اس سے باز رکھنا انسانیت کی خدمت اور خیرخواہی ہے۔ لیکن جو بات قابلِ غور ہے وہ یہ کہ اگر معاملات کی اصلاح کے جائز اور معقول راستے بند کردیے جائیں گے اور محض قوت‘ ہٹ دھرمی‘ مفاد پرستی‘ تعصب‘ مادی و عسکری برتری اور علاقائی یا عالمی بالادستی کے مذموم مقاصد کے لیے‘ دوسرے انسانوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جائے گا اور ناانصافی ہوتی رہے گی تو اس کا فطری ردعمل ہوگا۔ اصل مسئلہ تشدد کے اسباب کی کھوج اور اصلاح کا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ بموں‘ میزائلوں اور انسانی بستیوں پر آگ برسانے سے نہیں لڑی جاسکتی۔ یہ جنگ تو اسی نوعیت کی ہے جو غربت‘ افلاس‘ بیماری اور جہالت جیسے فتنوں کے خلاف لڑی جاتی ہے۔
  • الاسلام ہو الحل : اس وقت دنیا میں قیامِ امن کے لیے جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسلام کے تصورِ صلح سے زیادہ قریب ہے اور یہ ایسے معاہدے سے جو ترغیب و ترہیب‘ مسلح مداخلت اور اثرورسوخ کے استعمال کے نتیجے میں ہو‘ عمل میں آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ حصولِ امن کی عارضی صورت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کو اسلام کے تصور ’سلام‘ سے قریب کیا جائے جو کہ ایک مثبت اور دائمی امن ہے۔