ڈاکٹر عاطف عبدالحمید


ترجمہ: محمد ظہیرالدین بھٹی

دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا دو عالمی طاقتوں کی نگرانی میں تھی۔ برطانیہ کے زوال کے بعد امریکا اس کا جانشین بنا تھا‘ جب کہ دوسری سوپرپاور سوویت یونین تھی‘ جو اب روس تک محدود ہوچکی ہے۔ اب پوری دنیا میں امریکا ہی واحد قوت کے طور پر اُبھرا ہے۔ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا میں امریکا نے ۳۴ فوجی اڈے قائم کررکھے ہیں جن کی تفصیل یہ ہے:     خلیج عرب کے علاقے میں ۱۵‘ پاکستان اور افغانستان آٹھ‘ عراق چار‘ ترکی ایک‘ جارجیا ایک‘ آذر بائیجان مسلسل امریکی فوجی موجود۔ کرغیزستان‘ تاجکستان اور ترکمانستان پانچ (عراق سے امریکا کے انخلا کے بعد وہاں چار اڈے قائم رہیں گے‘ باشور شمالی کردستان:۱‘ بغداد: ۱‘ ناصریہ: ۱‘ مغربی عراق: ۱)۔

علاوہ ازیں جاپانی جزیرہ اکیناوا‘ فلپائن اور مشرق میں جنوبی بحرچین سے لے کر مغربی ساحلوں تک دنیا کے متعدد علاقوں میں امریکی فوجی اڈوں کا جال پھیلا ہوا ہے۔ حال ہی میں امریکا کی طرف سے یہ اعلان بھی ہوا ہے کہ مراکش کے علاقہ طانطان میں بھی امریکی فوجی اڈا و بحری مستقر قائم کیا جا رہا ہے۔

وسطی ایشیا کے ممالک پانچ اسلامی ریاستوں: کرغیزستان‘ تاجکستان‘ ازبکستان‘ ترکمانستان اور قازقستان پر مشتمل ہیں۔ ۱۹۹۱ء میں سابق سوویت یونین کے سقوط کے بعد آزاد ہونے پر کمیونسٹ مکتبِ فکر کے لیڈروں نے ان پر تسلط جمالیا۔ مگر جلد ہی یہ پانچوں مسلم ممالک امریکی چنگل میں آگئے۔ سانحہ ستمبرکے بعد تو امریکی حکمرانوں نے ان پر اپنی گرفت زیادہ مضبوط کرلی۔ انھوں نے افغانستان اور عراق پر قبضہ کر کے وہاں بیسیوں فوجی اڈے بنالیے۔

پیٹرک مارٹن (Patric Martin)کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق کرغیزستان میں واقع امریکی اڈا ۴۰ ہیکٹرعلاقے پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ دارالحکومت بیشکک سے تقریباً ۳۰ کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ یہ اپنے قریبی ہوائی اڈے ماناس کی مناسبت سے ماناس بیس (base) کہلاتا ہے۔ یہ امریکی اڈا فضائی مستقر ہے۔ یہ ۳ ہزار فضائی ہتھیاروں کی گنجایش رکھتا ہے۔ یہاں سے افغانستان میں سرگرم امریکی افواج کو امداد اور راشن وغیرہ سپلائی کیا جاتا ہے۔ یہاں لڑاکا طیارے بھاری تعداد میں موجود رہتے ہیں۔ یہاں سے جاسوسی طیارے اواکس پڑوسی ممالک کی جاسوسی کے لیے پرواز کرتے ہیں۔ ماناس سے شمالی کابل تک اسلحہ‘ ایندھن اور راشن کی ترسیل میں ہوائی پرواز میں چند منٹ لگتے ہیں۔ پاکستان میں موجود ہوائی اڈوں سے بھی چند لمحوں کی پرواز کے بعد طیارے افغانستان میں مطلوبہ ہدف تک پہنچ جاتے ہیں۔ کرغیزستان کا اڈا اپنی نوعیت کا منفرد اڈا ہے جو بّری اور فضائی دونوں مقاصد کے لیے بیک وقت استعمال ہوتا ہے۔ یہاں پر حلیف یورپی ممالک کی افواج کابھی خیرمقدم کیا جاتا ہے جو تربیت اور امریکی افواج کے ساتھ مشترکہ کارروائیوں کے لیے اس اڈے پر پہنچتی رہتی ہیں۔

ماناس بیس سے ۹۰۰کلومیٹر کی مسافت پر خان آباد میں امریکی اڈا قائم ہے۔ ازبکستان کی سرزمین میں واقع یہ اڈا کارشی شہر کے قریب ہے۔ یہ شہر ترکمانستان کی سرحدوں کے بالکل قریب ہے۔ یہ درمیانے حجم کا اڈا ہے جو بّری اور فضائی افواج کے تقریباً ایک ہزار افراد کی گنجایش رکھتا ہے۔

تاجکستان میں امریکی افواج کے تین اڈے موجود ہیں۔ ایک اڈا وادی فرغانہ میں ہے جو کرغیزستان‘ ازبکستان اور تاجکستان کی عسکری لحاظ سے انتہائی اہم تکون ہے۔ باقی دو اڈے خوجاند اور قورغون تیب میں ہیں جو افغانی سرحدوں کے قریب واقع ہیں۔ آذر بائیجان میں ابھی تک کوئی امریکی فوجی اڈا قائم نہیں ہوا‘ تاہم اسے عسکری تعاون حاصل ہے۔ امریکا اور ترکی کی طرف سے آذر بائیجان کے افسروں کو امریکا میں تربیت دی جارہی ہے۔

ترکمانستان کا شمار علاقے کے سب سے بڑے قدرتی گیس سے معمور ملک کے طور پر ہوتا ہے‘ جب کہ قازقستان بحرِقزوین کے ممالک میں سب سے بڑے ایسے ملک کے طور پر نمایاں ہے جو تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔ ان دونوں ملکوں کا امریکا کے ساتھ رابطہ مضبوط ہے اور امریکا کے ساتھ ان کے اسٹرے ٹیجک تعلقات روزافزوں ہیں۔ ان کے امریکا کے ساتھ عسکری اور غیرعسکری معاہدے ہو رہے ہیں۔ ان دونوں ملکوں کی گیس اور تیل کو منتقل کرنا اس علاقے میں امریکا کا سب سے بڑا اقتصادی منصوبہ ہے۔ اس منصوبے پر دو جہتوں سے کام ہوگا:

۱-  ترکمانستان اور قازقستان سے آذربائیجان___ وہاں سے جارجیا___ پھر ترکی کی بندرگاہ جیہان (بحرِمتوسط پر واقع) تک___ وہاں سے عالمی منڈی تک___  یادرہے کہ ان اسلامی ممالک سے تیل اور گیس نکال کر دہشت گرد ملک اسرائیل تک پہنچانے کے معاہدے بھی ہوچکے ہیں جو ترکی اور امریکا سے معاہدے کرچکا ہے۔

۲- ترکمانستان اور قازقستان سے افغانستان تک‘ پھر پاکستان___  تاکہ بحرِہند کے ذریعے ایشیائی منڈیوں تک تیل اور گیس کو منتقل کیا جائے۔ نیز بحرِاحمرکے ذریعے نہرسویز سے یورپی منڈی تک۔

پاکستان‘ افغانستان اور وسطی ایشیا کے ممالک میں قائم امریکی فوجی اڈوں کو جن لوگوں نے قریب سے دیکھا ہے‘ وہ اس امر کی تصدیق کریں گے کہ جس طرح کی سڑکیں اور بنیادی ڈھانچا تعمیر کیا جا رہا ہے‘ یہ سب کچھ عارضی فوجی اڈوں کی خاطر نہیں ہو رہا بلکہ یہ ایک ایسے عسکری تسلط کے لیے ہے جو کم از کم ۱۰۰ سال تک برقرار رکھا جائے گا۔ امریکا کی مرکزی کمان نے اپنی افواج کو جو ہدایات دی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وسطی ایشیا کے اڈے محض فضائی اسلحہ کی منتقلی کے لیے نہیں ہیں بلکہ ان کا مقصد علاقے میں استحصال کے لیے ہروقت مستعد رہنا ہے اور امریکی بّری ‘ بحری اور فضائی افواج کو حسب موقع استعمال کرنا ہے۔

جب بھی وسطی ایشیا کے ممالک روس‘ چین اور ایران سے تعلقات قائم رکھنا چاہیں گے تو انھیں ہر وقت امریکی نگرانی کا سامنا ہوگا۔ اس علاقے میں امریکی افواج کی موجودگی کی   وجہ سے حکمرانوں اور عوام کے تعلقات بھی کشیدہ رہیں گے۔ کیونکہ حکمران ہمیشہ امریکی حکام کی خوشنودی کو اپنے اقتدار کے استحکام کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ چنانچہ معزول کرغیزی صدر عسکر اکاییف نے سیکڑوں لوگوں کو محض امریکا کی خوشنودی کی خاطر گرفتار کرلیا تھاجن میں زیادہ تر اسلام پسند تھے۔ معزول صدر نے وسطی ایشیا میں ’’القاعدہ ‘‘تنظیم کے خلاف امریکی مہم میں ’’تعاون‘‘ کیا تھا۔

وسطی ایشیا میں امریکی حکمت عملی

وسطی ایشیا میں اپنے فوجی اڈوں کی موجودگی کی وجہ سے امریکی حکمت عملی یہ ہوگی:

اوّل: ملک کا حکمران امریکا کا علانیہ حلیف ہو‘ یعنی وہ علاقائی ممالک‘ جیسے روس اور چین کے ساتھ تعلقات کے توازن کو نظرانداز کر کے کھلم کھلا امریکی پالیسیوں پر کاربند رہے۔ امریکا کی پالیسی ان ممالک میں چین کے بڑھتے ہوئے اقتصادی اثرورسوخ کو کم کرنا ہوگی‘ نیز وہ کرغیزستان اور تاجکستان وغیرہ میں اسلامی تحریکوں کے امور کا مطالعہ کر سکے گا۔ وہ چین کے  مغربی صوبے مشرقی ترکستان پر جو آزادی کے لیے کوشاں ہے‘ نظر رکھ سکے گا۔ معزول کرغیزی صدر نے ماناس کے امریکی فوجی اڈے کی موجودگی کی وجہ سے روسی اندیشوں کے ازالے کے لیے اپنے ملک میں روسی عسکری وجود کی خواہش ظاہر کی تھی مگر امریکا ایسی کسی کوشش کو انتہائی ناپسند کرتا ہے۔

دوم: امریکا اپنے فوجی اڈوں کے قیام کی وجہ سے حزبِ اختلاف کی قیادت سے بہترانداز میں افہام و تفہیم کرسکے گا۔ وہ علاقے میں اپنے منصوبوں کے حق میں حزبِ اختلاف کو استعمال کرنے کے قابل ہوگا تاکہ وسطی ایشیا کے تمام حکومت مخالف قائدین کے ساتھ روابط قائم کرکے انھیں اسلامی تحریکوں کے مقابلے میں لاسکے۔

سوم: امریکا مقامی لوگوں سے رابطہ کر کے ___ امریکی فوجی اڈوں کے وجود سے انھیں فائدہ پہنچاکر اپنا حامی بنا لے گا۔ امریکی محققین نے اس امر کی تحقیق کی ہے کہ جاپانی جزیرہ اکیناوا میں طویل عرصے سے امریکی فوجی اڈا کیسے قائم ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ ایک پس ماندہ اور دُورافتادہ جزیرہ ہے اور باقی جزیروں کے مقابلے میں معاشی لحاظ سے پست تر ہے۔ یہاں کے لوگ جب بھی امریکی فوجی اڈے کی موجودگی پر اعتراض کرتے ہیں تو امریکی اڈے کی انتظامیہ کی طرف سے عوام کو زرعی ریلیف دیا جاتا ہے۔ ان کی زرعی اور تجارتی پیداوار کو خریدا جاتا ہے۔ یوں ان کا ’’منہ بند‘‘ کر دیا جاتا ہے۔

کیمبرلے جے مانٹن (Kimberly J. Manten ) کی تحقیق کے مطابق امریکی انتظامیہ یہ حکمت عملی وسطی ایشیا کے ممالک میں اپنارہی ہے۔ وہ مقامی باشندوں کے لیے ترقیاتی منصوبے بناتی ہے اور ہزاروں مقامی باشندوں کو ان فوجی اڈوں پر مختلف خدمات کی سرانجام دہی کے لیے ملازم رکھتی ہے۔

چہارم: امریکا وسطی ایشیا کے ممالک کی پیداوار کو انتہائی سستے داموں حاصل کرتا ہے اور اس سے خوب نفع کماتا ہے۔ ایک بیرل تیل جس پر امریکا کے صرف ۱۰ ڈالر لگتے ہیں وہ مغربی ممالک میں ۱۲۰ ڈالر میں فروخت ہوتا ہے۔ امریکا کے لیے خلیجی ممالک میں سیکورٹی اور مہارت کے کئی مسائل ہیں‘ جب کہ وسطی ایشیا کے ممالک میں اُسے ایسے مسائل کا سامنا نہیں۔ بحرِقزوین کے جنوبی علاقے کو بجاطور پر ’’نئی خلیجِ عرب‘‘ کہا جاسکتا ہے کیونکہ یہ تیل کے ذخائر سے مالا مال ہے۔ اس میں سرمایہ کاری کا مستقبل درخشاں ہے۔

پنجم: امریکا اپنے عسکری اڈوں کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہتر نظریاتی منصوبہ بندی کرے گا۔ وہ ’’اعتدال پسندی‘‘، ’’روشن خیالی‘‘ جیسے سیکولر نظریات کا پرچار کرے گا‘ نیز مسیحی مشنریوں کو کھل کھیلنے کا موقع بھی فراہم کرے گا۔ یوں وہ ایک طرف کمیونزم کے زوال سے پیدا ہونے والے نظریاتی خلا کو پُر کرنے کی کوشش کرے گا اور دوسری طرف اسلامی تحریکوں کو کچلنا اس کے لیے آسان ہوگا۔

روس و امریکا روبرو

سرد جنگ کے بعد پہلی بار امریکی اور روسی فوجیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا نہیں بلکہ ایک فرضی خطرے ’’بین الاقوامی دہشت گردی‘‘ کے خلاف نبردآزما ہیں۔ روس امریکا کی امداد کے بغیر کوہِ قاف کے علاقے کی علیحدگی پسند اسلامی تحریکوں سے تنہا نبٹنے سے قاصر ہے۔ ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ قازقستان میں ماسکو کے زیرنگرانی ایٹمی عسکر بھی ہے اور حکومت نے امریکا کا تعاون بھی حاصل کررکھا ہے۔ اُدھر کرغیزستان میں دارالحکومت کے قریب امریکی فوجی اڈا بھی قائم ہے اور روسی فوجی اڈا بھی۔

روسی رویہ مخالفت کا نہیں بلکہ اپنے داخلی مسائل پر قابو پانے کی مجبوری کی وجہ سے امریکا کے ساتھ نرمی اور رعایت کا ہے۔ باقی رہیں وسطی ایشیائی ممالک کی حکومتیں تو ان کے نزدیک امریکی یا روسی فوجی موجودگی یکساں ہے بلکہ وہ امریکا کے قرب کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اس کے ذریعے سرمایہ دارانہ مغربی منڈیوں تک ان کی رسائی آسان ہوجاتی ہے۔ ان کا اقتدار بھی محفوظ تر ہوجاتا ہے۔

بہت سے وسطی ایشیائی ممالک میں روسی اڈوں کی جگہ امریکی فوجی اڈوں نے لے لی ہے‘ مثلاً کابل کے قریب باگرام میں سابق سوویت یونین کا فوجی اڈا تھا۔ اب امریکا نے وہاں اڈا قائم کرلیا ہے۔ امریکا افغانستان میں اپنے نو مستقل فوجی مستقر قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے جو ہیلمنڈ‘ ہرات‘ نیم روز‘ بلخ‘ خوست اور پاکیتا میں ہوں گے۔ ان اڈوں کے قیام کا مقصد افغانستان جیسے غریب ملک پر اپنا تسلط برقرار رکھنا نہیں ہے بلکہ ان کا اصل مقصد ایشیا کے جنوبی اور وسطی مسلم ممالک پر اسٹرے ٹیجک دبائو قائم رکھنا ہے۔ ان فوجی اڈوں کا ایک مقصد عالمِ اسلام کی حکومتوں کو دھمکانا اور مرعوب کرنا بھی ہے تاکہ وہ امریکی حکام کی تابعِ مہمل بن کے رہیں۔ (المجتمع، شمارہ ۱۶۵۶‘ ۲۸ جون ۲۰۰۵ئ)

(مزید معلومات کے لیے دیکھیے: ۱- الجغرافیا السیاسیۃ از ڈاکٹر محمد محمود الدیب‘ قاہرہ‘ ۲۰۰۴ئ۔ 2- Patric Martin (January 2002) US bases pave the way for longterm intervention in Central Asia. World Socialist Website. 3. Kimberly J. Marten (Nov. 2003) US Military bases in post Soviet centeral Asia, Economic Lesson from Okinawa. Ponars Policy Memo 311. Barnard College, Columbia University.

۴- افغانستان میں امریکا کا سب سے بڑا فضائی اڈا ہرات صوبے میں ہے جو ایرانی سرحدوں سے صرف ۱۰۰کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ مزید معلومات کے لیے ملاحظہ ہو۔ Asia Times کی ویب سائٹ پر تجزیاتی مضامین)