احمد عبد الرحمن البنا


حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ،فرزندِ رسولؐ ابراہیم کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، بچے کو منگوایا گیا، آپؐ نے بیٹے کی میت کو سینے سے لگایا۔ میں نے دیکھا کہ آں حضورؐ کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہو گئیں، اور آپؐ  نے فرمایا: ’’آنکھیں روتی ہیں، دل غمگین ہے، لیکن ہم اس بات کے علاوہ کوئی لفظ زبان سے نہیں نکالتے  کہ جو ہمارے رب عز وجل کو راضی کرتی ہو، واللہ اے ابراہیم! ہم تمھارے فراق پر بہت غم زدہ ہیں:انا للّٰہ و انا الیہ رٰجعون

میرے لخت جگر حسن! مجھے آج تمھارے ساتھ بیتے دو واقعات یاد آرہے ہیں۔ ایک تب کہ جب تو ابھی چھے ماہ کا شیر خوار بچہ تھا۔ ایک رات جب میں بہت دیر سے گھر لوٹا تو دیکھا کہ تم اپنی والدہ کے پہلو میں گہری نیند سوئے ہوئے ہو۔ میں نے تمھیں دیکھا تو محبت کی ایک لہر میرے دل میں اتر گئی، لیکن اگلے ہی لمحے میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک لمبا سانپ کنڈلی مارے تمارے سر کے پاس بیٹھا ہے، اس نے اپنا پھن پورا پھیلایا ہوا ہے، اور اس کے اور تمھارے سرکے درمیان فاصلہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ مجھے لگا میرا دل حلق میں آن اٹکا ہے۔ میں فوراً اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا، اور اس کی بارگاہ میں استدعا کی کہ دل کو قرار آئے۔  بے اختیار میری زبان پر سانپ کے ڈنک اور اذیت سے محفوظ رہنے کی دعا جاری ہوگئی۔ دعا ابھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ سانپ نے سرجھکایا اور چپکے سے اپنی راہ لی۔ میرے پیارے بیٹے، اللہ نے اپنے اذنِ خاص سے اور تمھارے لیے کیے ہوئے اپنے کسی اہم فیصلے کی خاطرتمھیںبچا لیا۔

میرے لخت جگر! آج مجھے دوسرا منظر وہ یاد آرہا ہے جب تیرا لاشہ میرے سپرد کیا گیا تھا۔ میں نے رات کی تاریکی میں خون میں نہائی تیری میت اٹھائی، تو تیرا جسم گولیوں سے چھلنی تھااور تیری روح پرواز کرچکی تھی۔ جنگل کا سانپ تو تجھے تکلیف پہنچانے سے ڈر گیا، لیکن صدافسوس کہ انسانی سانپ تیری لاش کو ڈستے رہے۔ اس المناک لمحے میں صرف اللہ وحدہ کی قدرت ہی نے ہماری ڈھارس بندھائی، وگرنہ ہم کبھی یہ صدمہ برداشت نہ کرپاتے۔

میری جان! میں نے تمھارے پیارے چہرے سے چادر ہٹائی تو مجھے نور کی کرنیں لپکتی ہوئی محسوس ہوئیں۔تیرے چہرے پر شہادت کی آسودگی ہی آسودگی تھی۔ تب آنکھیں نم ہوگئیں، دل زخمی اور غمگین تھا، لیکن ہم نے اللہ کو راضی کرنے والے کلمے انا للّٰہ و انا الیہ رٰجعون کے علاوہ کچھ نہ کہا۔

پیارے بیٹے! پھر میں نے تمھیں غسل دیا، کفن پہنایا اور اکیلے نے تمھاری نماز جنازہ ادا کی ۔ پھر میں اس عالم میں تمھارا جنازہ لے کر نکلا کہ گویا میرے نصف جسم نے اپنے ہی نصف وجود کی میت اٹھائی ہوئی ہو۔ میں اس کے علاوہ مزید کچھ نہ کہہ سکا وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِِلَی اللّٰہِ ط اِِنَّ اللّٰہَ بَصِیْرٌم بِالْعِبَادِo (المومن ۴۰:۴۴) ’’اور اپنا معاملہ میں اللہ کے سپرد کرتا ہوں، وہ اپنے بندوں کا نگہبان ہے‘‘۔ بیٹے! مبارک ہو کہ تم تو اپنی وہ مراد پاگئے، جسے پانے کے لیے تم سجدوں میں دعائیں کیا کرتے تھے۔ صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: جنت میں داخل ہو جانے والا کوئی انسان دنیا میں واپس جانا پسند نہیں کرے گا ،خواہ اسے اس کے بدلے پوری روے زمین کے خزانے مل رہے ہوں۔ لیکن شہید کو شہادت کے بدلے اتنی تکریم ملے گی کہ وہ خواہش کرے گا کہ اسے دس بار بھی دنیا میں واپس بھیج دیا جائے تو وہ چلا جائے اور بار بار شہادت سے سرفراز ہوکر آئے۔

میرے پروردگار،اپنے بندے حسن کی خوب تکریم فرما، اس کے درجات بلند فرما، جنت کو اس کا مستقراور ٹھکانا بنا۔ ہمیں اس کے اجر سے محروم نہ فرما اور اس کے بعد کسی فتنے میں مبتلا نہ فرما۔ ہماری بھی بخشش فرما اور اس کی بھی بخشش فرما ۔ اس کی یہ آرزو پوری فرما کہ اسے تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی قربت نصیب ہو: مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا o (النساء ۴: ۶۹) ’’وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیاؑ اور صدیقین اور شہدا اور صالحین۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں‘‘۔

ایھا الاخوان،رہے آپ سب احباب کہ جنھوں نے میرے بیٹے کو خوب پہچان کر اسے اپنا قائد چنا، تو آپ کے لیے اس کی یاد منانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اسی راہ پر اپنا سفر جاری رکھو۔ اس کے نقوش پا کو مٹنے نہ دو۔ اسلام کے آداب و احکام کو مضبوطی سے تھامے رکھو۔ اخوت کی رشتوں میں مضبوطی سے جڑے رہو اور اپنے اعمال اور اپنی نیتوں کو اللہ ہی کے لیے خالص رکھو۔

ایھا الاخوان ،میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ تم سب میرے شہید بیٹے کی سچی تصویر بن جاؤ ، لوگوں سے کسی اجر کی تمنا نہ کرو، اللہ تعالی کے علاوہ کسی کا خوف دل میں نہ بیٹھنے دو اور دل میں یہ خیال تک نہ آنے دو کہ تم نے کسی کو شر یا تکلیف پہنچانی ہے: وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ (حم السجدہ ۴۱:۳۳) ’’اور اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی، جس نے اللہ کی طرف بلایا‘‘۔


ترمذی میں حضرت ایوب بن موسیٰ نے اپنے والد اور دادا کے حوالے سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد روایت کیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ:’’ کسی باپ نے اپنے بیٹے کو اچھی تربیت سے بہتر کوئی چیز نہیں عطا کی‘‘۔ شادی کے بعد میری بھی یہ آرزو اور تمنا تھی کہ اللہ تعالی مجھے صالح اولاد، عطا کرے، میں اس کی بہترین تربیت کروں اور ان کے ذریعے ایک ایسی بہترین نسل چھوڑ جاؤں جوسب کے لیے صدقہ جاریہ بن جائے اور ابدی خیر و بقا کا ذریعہ ہو۔ پروردگار نے یہ دُعا قبول فرمائی۔ میری آرزو پوری ہوئی، مجھے پیارا سا بیٹا عطا ہوا اور میں نے اس کا نام حسن البنا رکھا۔

پروردگار کی رحمت بچپن ہی سے میری بیٹے پر سایہ فگن رہی۔باری تعالیٰ نے اسے ہرتکلیف و اذیت سے محفوظ رکھا۔ ہم ’محمودیہ‘ میں رہایش پذیر تھے کہ ہمارے گھر کی چھت گرگئی۔ حسن اپنے بھائی عبد الرحمن کی ساتھ اسی چھت کے نیچے کھیل رہا تھا۔ لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جہاں یہ دونوں کھیل رہے تھے، وہاں سیڑھیاں تھیں۔ چھت کا ملبہ سیڑھیوں کی محراب پر آکر ٹک گیا۔ لیکن باہر کسی کو اس کا اندازہ نہیں تھا۔ میں نے ملبہ ہٹانا شروع کیا۔ تو دیکھا کہ الحمد للہ، حسن اور اس کا بھائی   اللہ کے فضل سے بالکل صحیح سالم ہیں ۔

اسی طرح مجھے یاد ہے کہ ایک بار حسن کو خوفناک کتوں نے گھیر لیا۔ اس نے خوف زدہ ہوکر قریبی برساتی نالے ’الرشیدیہ‘ میں چھلانگ لگا دی۔ اس وقت نالے میں دریاے نیل کی طغیانی کے باعث پانی کا تیز دھارا تھا۔ حسن ڈبکیاں کھانے لگا، لیکن اچانک اذن الٰہی سے پانی کی ایک لہر نے اسے کنارے پر لا پھینکا۔ قریب سے گزرنے والی ایک دیہاتی خاتون نے اسے اٹھا لیا، اس طرح سراسر اللہ کے فضل و احسان سے اس کی جان بچ گئی۔

حسن بچپن ہی سے غیر معمولی دکھائی دیتا تھا۔ ابھی اس نے ہوش نہیں سنبھالا تھا کہ وہ کائنات کے بارے میں ہم سے سوالات پوچھا کرتا تھا:’’یہ چاند کیا ہے؟ اسے کس نے اتنا خوبصورت بنا یا ہے؟‘‘ میں نے اس کی غیر معمولی زِیرکی کے پیش نظر اسے قرآن کریم حفظ کروایا۔ سنت نبوی کی تعلیم دی اور اخلاق عالیہ کا خوگر بنایا۔ پھر جب میں نے اسے دمنہور کے مدرسہ المعلمین میں داخل کروایا تو وہ حیرت ناک طریقے سے سب پر سبقت لے گیا۔ وہ اپنے تمام تعلیمی مراحل میں سب بچوں سے آگے رہا۔ الحمد للہ اس کی پوری تربیت، ذوق عبادت،صالحیت اور زہد کے اعلیٰ معیار پر پوری اتری۔

جامعہ ازہر کے دار العلوم میں داخلے کے لیے پہلے چار سال کا ایک نصاب پڑھایا جاتا ہے۔اسے پڑھنے کے باوجود بہت سے لوگ داخلے کے انٹرویو میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ حسن نے اس چار سالہ تمہیدی پڑھائی کے بغیر ہی انٹرویو دیا اور کامیاب رہا۔ داخلے کے بعد وہ قاہرہ منتقل ہوا تو اتنے بڑے شہر میں اس کا نہ کوئی دوست تھا اور نہ کوئی عزیز۔ اس نے وہاں جاکر اپنا ابتدائی قیام جامعہ ازہر کی مسجد میں کیا۔ دار العلوم میں تعلیم مکمل ہوئی تو پہلی پوزیشن کا اعزاز پایا۔ وزارت معارف نے شان دار نتیجے پر اسے مزید تعلیم کے لیے یورپ بھیجنے کی پیش کش کی، لیکن اس نے انکار کردیا۔شاید اللہ تعالی نے اس کا انتخاب کسی کار جلیل کے لیے کیا ہوا تھا۔درایں اثناء اسماعیلیہ کے اسکول میں بطور مدرس اس کی تعیناتی ہوگئی، وہیں اس نے اپنی فکر کی آبیاری کی اور الاخوان المسلمون کی بنیاد رکھی۔

پھر میرے بیٹے کے افکار کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دی۔ اس کی دعوت عالم اسلام کی چہار اطراف میں پھیل گئی۔ اس کے پیغام نے تمام اصحاب فکر و شعور کو متاثر کیا۔ اس کے مکتب فکر نے ازہر سمیت تمام کالجوں اور یونی ورسٹیوں کو ایک تنظیم کی لڑی میں پرودیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے بیسویں صدی میں تجدید دین کی خدمت لی، اس کی فکر سے روشن چراغوں نے ہر جگہ، ہر گھر میں حق کا نور پھیلادیا، اللہ نے اس کے ذریعے اخوت کی شکستہ عمارت کو دوبارہ استوار کیا اور افراد و قبائل کو دوبارہ روحانی محبت سے سرشار کردیا: لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ اَلَّفَ بَیْنَھُمْ اِنَّہٗ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ o (الانفال۸: ۶۳) ’’تم روے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو ان لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے، یقینا وہ بڑا زبردست اور دانا ہے‘‘۔ (مجلۃ الدعوۃ ، ۱۳ فروری ۱۹۵۱ء۔ مشمولہ: حسن البنا الداعیۃ الامام و المجدد الشہید، انور الجندی، ص ۱۵-۱۷)