شہید کبیر ، استاد حسن البنا نے امت کو متحد کرنے اور اس کی صلاحیتوں کو بروے کار لانے کے سلسلے میں جو اہم کردار ادا کیا،وہ خراج تحسین پیش کرنے کے لائق ہے۔
آپ کا شمار ان عظیم علماے اسلام میں ہوتا ہے جن کی تحریک اور کوشش سے مختلف مکاتب فکر کے مابین قربت و یک جہتی اور ہم آہنگی کے لیے ایک مثالی ادارے کا قیام عمل میں آیا۔ جس میں چیدہ چیدہ معروف علما شامل تھے، اس عالمی ادارے میں:الاستاذ محمد علی علوبۃ پاشا ، عبدالمجید سلیم شیخ الازہر ، امین الحسینی مفتی فلسطین، محمد عبدالفتاح العنانی (مالکی)، الشیخ عیسیٰ منون رکن ہئیۃ کبار العلما (شافعی) ، محمد شلتوت شیخ الازہر (حنفی) ، محمد تقی قمی (از علما امامیہ)، عبدالوہاب خلاف، علی الخفیف شیخ الازہر ، علی بن اسماعیل موید علما(زیدی) ،محمد عبداللطیف سبکی(حنبلی)، استادجامع ازہر ، محمد محمدمدنی ،محمد الحسین کاشف نجف کے ایک مرجع ، سیدھبۃ الدین شہر ستانی از علما کا ظمیہ اور علامہ عبدالحسین شرف الدین جیسے جلیل القدر علما شامل تھے۔
استاد حسن البناکا علماے کرام کو یک جا کرنے کا فیصلہ ، مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں ان کی فکر و نظر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔مسلم اُمّہ کی یک جہتی کا یہ پہلو اخوان المسلمون کی جماعت کے بنیادی ڈھانچے اور نظم میں شامل ہے۔ خصوصاً ان کے دستور کی دوسری شق میں، جہاں اس جماعت کے مقاصد واہداف پر گفتگو کی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے :
۱- مختلف اسلامی مکاتب فکر کے مابین اتحاد و یک جہتی کے لیے مناسب ماحول فراہم کرنے کے لیے تگ و دوکرنا ، اس لیے کہ اسلامی اصولوں سے منحرف ا ور غیر مربوط رویوں نے مسلمانوں کو باہم متفرق کردیا ہے۔
۲-عام اسلامی عقائد و قوانین کو مختلف زبانوں میں شائع کرنا اور معاشرے کو عملاً جن چیزوں کی ضرورت ہے ، ان کی وضاحت کرنا۔
۳- اسلامی گروہوں یا قوموں کے مابین تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کرنا اور انھیں ایک دوسرے کے قریب کرنے اور متحدرکھنے کے لیے جدوجہد کرنا۔
اگرچہ مرحوم البنا، علماے ازہر میں سے نہ تھے، تاہم وہ ایک شان دار متحرک اور مؤثر شخصیت تھے۔ ہمیں اس کا ثبوت جناب محمد تقی قمی کی اس گفتگو سے ملتا ہے جو انھوں نے جماعۃ التقریب کے بارے میں اپنی یادداشتوں میں بیان کی ہے۔ وہ جب حسن البنا کو یاد کرتے ہیں تو انھیں اپنے جسم میں ایک قسم کی حرارت ، کلام میں تازگی اور زندگی کا احساس ہوتا ہے۔
ابتدا میں حسن البناکے ازہر کے شیوخ سے کوئی قابل ذکر تعلقات نہ تھے، مگر وہ اپنے کام ، منصوبہ بندی اور خلوص میں ایک کوہ گراں تھے۔ اپنی انھی صفات کی بنا پر انھوں نے کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے نوجوانوں تک اپنی بات پہنچائی،جس کے نتیجے میں وہ ایک متقی، پرہیزگار ، مجاہد ، اسلامی تعلیم و ثقافت سے آراستہ ،بیدار مغز اور رروشن خیال نسل تیار کرنے میں کامیاب ہوئے۔
آپ مسلمانوں کے مختلف فرقوں اور فقہوں کے ماننے والوں کو ایک دوسرے کے قریب کرنے کی فکر کے علَم بردار تھے۔ اُمت مسلمہ کو اس کی عظمت رفتہ اور سطوت پارینہ سے ازسرنو مربوط کرنا آپ کی زندگی کا نصب العین تھا۔ ان کے اسی جذبے کی بدولت آج اخوان المسلمون ایک منفرد اسلامی جماعت ہے جو فرقہ وارانہ تعصبات سے پاک ہے۔
پروفیسرمحمد علی آذر شب بتاتے ہیں کہ الشیخ البنا مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے نصب العین میں بہت دل چسپی لیتے تھے۔ الشیخ القمی بھی ہمیشہ اسی راے کا اظہار کیا کرتے تھے۔ شروع میں مذکورہ بالا عالمی ادارے کے نام کے بارے میں کافی بحث ہوئی۔ مختلف نام زیربحث آئے بالآخر امام البنا نے ’تقریب ‘ (قریب لانے )کا نام تجویز کیا، کیونکہ اس ادارے کے مقاصد و اہداف کے اظہار کے لیے یہی نام زیادہ موزوں تھا ، اس لیے اس متقی مجاہد عالم کی تجویز پر اس جماعت اور اس کے ہیڈکوارٹر کا نام ’التقریب‘ ہی رکھا گیا۔
علامہ سید ہادی خسرو شاہی نے مجھے بتایا کہ ایران کے بعض بڑے علما البنا مرحوم کے عملی اقدامات کو خوب سراہتے تھے ، چنانچہ سید ہادی جب ۱۳۷۵ھ میں ایک بڑے عالم آیت اللہ سید رضا الصدرکی محفل میں حاضر ہوئے تو وہ حج کے عمرانی پہلوئوں پر گفتگو کے ساتھ ساتھ اور اسلامی اتحاد کے مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے بتا رہے تھے کہ مرحوم البنا نے اپنے حج کے سفر کے دوران مصریوں کو اہلِ تشیع کی حقیقت سے آگاہ کرنے میں اہم کردارادا کیا ہے۔ انھوں نے شیعوں کے بارے میں اہل مصر میں پائے جانے والے شکو ک و شبہات ختم کرنے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اس موقع پر آیت اللہ الصدر نے حاضرین کی طرف بطور خاص توجہ کرتے ہوئے زور دے کر کہا: ’’آپ لوگ شیخ حسن البنا سے ضرور واقف ہوں گے۔ وہ ایک عظیم انسان ہیں۔ وہ اخوان المسلمون کے عالمی قائدہیں‘‘۔
یہ تھے حسن البنا جو تشکیک ،تکفیر اور تفسیق کے دور میں اپنے نظریہ و عمل میں ہم آہنگی و مطابقت پر قائم تھے ، جس کے لیے بڑی جرأت و شجاعت چاہیے۔ مسلمانوں کو باہم قریب کرنے کا یہی جذبہ حسن البناکی جماعت کے رگ و ریشہ میں سرایت کرچکا ہے اور اب یہ جذبہ اس جماعت کے طفیل پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔ اس جماعت کے بنیادی اصولوں میں یہ بات داخل ہے کہ فرقہ وارانہ اور فقہی جھگڑوں سے دور رہا جائے۔اخوان ہمیشہ اسلامی جذبے سے سرشار رہے ہیں، وہ حقیقی روح اسلام سے وابستہ رہے ہیں۔ان کی جماعت کا وجود کسی ایک فقہ کے پابندحضرات تک محدود نہیں۔ وہ فروعی اختلافات سے دور رہتے ہیںاور دوسروں کو بھی ان اختلافات سے روکتے ہیں۔
حسن البنا کے جانشین بھی انھی کے نقش قدم پر چلے اور اسی روش پر زور دیا۔ چنانچہ اخوان کے ایک مرشد عام مصطفی مشہور مرحوم نے سید خسرو شاہی کے نام اپنے ایک خط میں لکھا :’’اخوان المسلمون ، جب سے اپنے پہلے مرشد عام امام حسن البنا کے ہاتھوں قائم ہوئی ہے، فقہی ، مذہبی اور دینی و فکری اختلافات کے باوجود تمام مسلمانوں کو وحدت و اتحاد کی دعوت دیتی ہے ، کیونکہ مسلمان اپنے دشمنوں کے سامنے ذلیل و رسوا ہوئے ہیں تو تفرقہ اور تنازعات کی وجہ سے اور نفرت و بغض تک لے جانے والے اختلافات کی وجہ سے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے: وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا اور فرماتا ہے: وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَاجَآئَ تْھُمُ الْبَیِّنٰتِ وَ اُولٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ-یہی وجہہے کہ آپ اخوان کی فکری بنیاد فہم دین پر دیکھتے ہیں، جسے امام حسن البنا نے اپنے ۲۰اصولوں کے ذریعے واضح کیا۔ قانون سازی کا مصدر قرآن کریم اور سنت مطہرہ ہیں۔ شہادتین ادا کرنے والے اور ان کے تقاضوں پر عمل کرنے والے کسی بھی مسلمان کو ہم اس وقت تک کافر قرار نہیں دیتے، جب تک کہ وہ کسی کفر یہ عمل کا مرتکب نہ ہو۔ ہمارے یہاں امام البنا کے اس مقولے نے خوب شہرت پائی ہے، حتیٰ کہ یہ سنہری اصول کہلانے لگا ہے کہ : ’’جس چیز پر ہم متفق ہیں اس پر باہم تعاون کرتے ہیں اور جس بات پر ہم میں اختلاف ہے ، اس میں ہم ایک دوسرے کو اختلاف کا حق دیتے ہیں‘‘۔ مطلب صاف واضح ہے کہ اتفاق اصول میں اور اختلاف فروع میں ہوتا ہے۔
حسن البنا اپنے اقوال و افعال میں اس معاملے میں بہت دل چسپی لیتے تھے۔ میں نے ان کے ہم عصر بڑے علما کے ساتھ ان کی ۱۳۲۵ھ کی ایک تصویردیکھی ہے۔ ان علما میں عبدالمجید سلیم شیخ الازہر، مفتی امین الحسینی، محمد تقی قمی وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تصویر دار التقریب بین المذاہب الاسلامیہ کے ایک اجتماع میں لی گئی تھی۔ ایران اور دوسرے ممالک کے شیعوں کے ساتھ اخوان کا عملی تعاون گذشتہ صدی کے ۵۰ کے عشرے سے ہے اور ایرانی انقلاب کے بعدبھی قائم ہے۔
مسلمانوں کو اپنی صفوں میں اتحاد و یک جہتی قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ سنیوں او رزیدی شیعوں یا اثناعشری شیعوں میں اختلافات صرف کچھ فروعات تک ہیں۔ ان میں ہر ایک اللہ کو معبودِ برحق‘ رسولؐ اللہ کو اللہ کا آخری رسولؐ، قرآن کریم کو قانون سازی کا پہلا اور سنت مطہرہ کو دوسرا مصد ر قرار دیتا ہے۔ سب ایک قبلے کی طرف رخ کرتے ہیں۔ دین لوگوںکی خواہشات کا تابع نہیں ہے، اب وقت آچکا ہے کہ تفرق کے بھڑکتے شعلوں کو بجھا کر اس فتنے کو سرے سے مٹا دیا جائے۔ (مصطفی مشہور، ۲۷ رجب ،۱۴۲۳ھ ، قاہرہ )
مسلمانوں کو ایک دوسرے سے قریب کرنے کا یہی جذبہ عظیم داعی محمد الغزالی مرحوم ، حسن الہضیبی مرحوم ، عمر تلمسانی ،سید قطب شہید، محمد حامد ابوالنصر ،مامون الہضیبی ، علامہ یوسف قرضاوی، ڈاکٹر حسن ترابی اور استاد محمد مہدی عاکف وغیرہ کی تحریروں میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک اخوان المسلمون کی سب سے بڑی صفت اعتدال اور میانہ روی ہے۔ اخوان کے بارے میں استاد محمود عبدالحلیم اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ’’اخوان المسلمون کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ انھوں نے بغیر کسی انحراف یا افراط و تفریط کے، میانہ روی اور اعتدال کو اپنا رکھا ہے۔ کمال یہ ہے کہ انھوں نے یہ کامیابی انتہائی سخت نامساعد حالات ، منہ زورخو اہشات اور سخت مزاج لوگوں کی طرف سے انتہا پسندانہ افکار کے پھیلائو کے زمانے میں حاصل کی ہے‘‘۔
اتحاد و یک جہتی کا یہ جذبہ ان کے لٹریچر میں بھرپور انداز سے نظر آتا ہے۔ وہ نہج البلاغۃ کے حوالے دیتے ہیں، جس میں حضرت علیؓکے شان دار کلمات یک جا کیے گئے ہیں۔ مثلاً الاستاد عبدالحلیم حضرت علیؓ کے اس خط پر تبصرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں جوانھوں نے مصریوں کی گورنری کے بارے میں مالک بن اشتر کے نام لکھاتھا۔
یہ نتیجہ ہے امام البنا کی بلندپایہ تعلیمات ، شان دار راہ نمائی اور پوری اُمت کے لیے ان کی کھلی دعوت کا۔ مرحوم کو ایک طرف تو علما کے ایک طبقے اور دوسری طرف غالی صوفیوں کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کا ایک سبب یہ تھاکہ آپ کی دعوت میانہ روی کی جانب بلاتی تھی۔
گذشتہ صدی کے تیسرے عشرے میں امام البنا نے اخوان المسلمون کے رسالے میں ایک مضمون لکھا ، اس مضمون میں آپ نے ایک بڑے سائز کی مربع شکل بنائی۔ اس مربع کے چاروں طرف اندر: لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ لکھا اور اس مربع کے مرکز میں ایک چھوٹا سامربع بنایا۔
اس کے بعد آپ نے لکھا کہ: ہمارے جو بھائی ہم پر تنقید کرتے ہیں وہ گویا اپنی دعوت کو اندرونی چھوٹے مربع تک محدود کیے ہوئے ہیں۔ یہ حضرات اپنی دعوت کو صرف ان لوگوں تک محدود کیے ہوئے ہیںجن کے بارے میں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف ان ہی کا عقیدہ صحیح ہے، حالانکہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔ اس کے برعکس ہم اپنی دعوت کا رخ ہر اس شخص کی طرف کرتے ہیں جو توحید الٰہی و رسالت محمدیؐ کی گواہی دیتا ہے ، خواہ وہ شخص اسلام کی تعلیمات و افکار میں کتنا ہی کوتاہ و کمزور کیوں نہ ہو۔ ہم اس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسلام کی شوکت رفتہ کو واپس لانے کے لیے اسلامی اخوت و بھائی چارے میں ہمارے ساتھ مل جائے۔ ہم اپنی اس دعوت میں اقرار شہادتین کے سوا ، اس شخص پر کوئی اور شرط عائد نہیں کرتے۔ چنانچہ ہماری اس دعوت کو اسلامی تعلیمات پر ایمان و عمل کے لحاظ سے مختلف سطحوں اور درجوں کے لوگ قبول کرتے ہیں‘‘۔
غرض یہ کہ حسن البنا اس طریق کار کو ہدایت پر چلنے اور اسلامی عمل کو معاشرے میں مکمل طور پر پھیلانے کا ایک قدرتی حل سمجھتے تھے۔ وہ اصولی و فقہی میدانوں میں پُرسکون علمی مکالمے کا دروازہ کبھی بند نہیں کرتے۔اسی طرح وہ عقائد و تاریخ کے میدان میں بھی پُرامن مکالمے پر یقین رکھتے تھے کہ یہی ایک پسندیدہ اور معقول روش ہے ،یعنی شہادتین اور ایمان و اسلام کے ارکان پر ایمان کے دائرے میں رہتے ہوئے مکالمہ۔ اللہ تعالیٰ حسن البنا پر رحم فرمائے ، آپ کو بہترین جزا دے۔ ہم آپ کی پاک روح اور عظیم فکر کو سلام پیش کرتے ہیں۔
علامہ مودودی رحمتہ اللہ علیہ اپنے دور کے وہ عظیم انسان تھے، جنھوں نے موجودہ جامع اسلامی بیداری کی بنیادیں رکھیں، جبکہ دشمنانِ اسلام طویل عرصے سے اسلامی بیداری کے خلاف کام کر رہے تھے۔ اس عظیم مجاہد ملت کی ولادت کے سو سال مکمل ہونے پر اس کی یاد منانا ہمارے لیے باعثِ فخر و مسرت ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ علامہ مودودیؒ نے تمام مسلم علاقوں میں اسلامی حکومت کے قیام اور اسلامی انقلاب کی شمع کو فروزاں کرنے کے لیے ان تھک جدوجہد کی۔ آپ کا ان تمام قائدین سے بھی رابطہ تھا جن میں آپ تبدیلی لانے کی صلاحیت دیکھتے تھے۔ آپ نے ابھی اس دنیا سے آنکھیں بند نہیں کی تھیں کہ امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ نے، علامہ مودودی کے سالِ وفات میں -- ایران میں اسلامی انقلاب برپا کر دیا۔ آپ کی وفات پر علامہ خمینی نے ان الفاظ میں تعزیت کی:
اُمتِ اسلامیہ اپنے ایک قابلِ فخر عالم دین اور مفکر سے محروم ہو گئی ہے۔ علامہ مودودیؒ نے اسلامی مقاصد اور پوری دنیا کے مسلمانوں کی خاطر نمایاں خدمات پیش کیں۔ آپ صرف پاکستان کے مسلمانوں ہی کے عظیم دینی قائد نہ تھے، بلکہ پورے عالم اسلام کے راہنما تھے۔ آپ نے عالمِ اسلام میں اسلامی انقلاب کی تحریک کا احیا کیا، جس سے اسلامی انقلاب کا پیغام ہر خطۂ ارضی تک پھیل گیا۔ اسلامی بیداری کے تمام حامیوں کا فرض ہے کہ وہ ان مقاصدو اہداف کو پانے کے لیے لگاتار کام کرتے رہیں۔ آپ کی وفات عالمِ اسلام کے لیے بہت بڑا نقصان ہے جس کی تلافی ناممکن ہے۔
جب امام خمینی، مولانا مودودی کو اتنا اچھی طرح جانتے تھے تو پھر میرے جیسے لوگوں کے لیے آپ کو جاننا کچھ دشوار نہیں ہونا چاہیے۔ اسلامی انقلاب کے لیے آپ کی لازوال جدوجہد کے اعتراف میں ہم عرض کرتے ہیں کہ امام المودودیؒ، قرآن کی جامع حکومت کے عاشقوں میں سے ایک تھے۔ آپ نے اس مقصدکے لیے اپنی زندگی وقف کی اور بے پناہ تکالیف جھیلیں، اگرچہ آپ اپنا ہدف اسلامی نظام کا عملاً قیام، اپنی زندگی میں نہ پا سکے، تاہم آپ نے بڑے واضح اور روشن الفاظ میں اس راستے کی نشان دہی کر دی۔ منصوبے کے خدوخال واضح کر دیے، امید کی شمع روشن کی، اپنی تمام صلاحیتوں اور قوتوں کو مسلسل بروئے کار لائے اور آئندہ نسلوں کے لیے اپنی فکر ا ور زندہ تجربات کا خزانہ چھوڑ گئے۔ عظیم مقصد پانے کے لیے آپ کی ہمہ گیر فکری و عملی جدوجہد کے نکات درج ذیل ہیں:
۱- عالمی سطح پر جامع اسلامی نظریہ کا احیا۔ ۲- حکومتِ اسلامی کی طرف دعوت کا احیا۔ ۳- اسلامی معاشرے کے خطوط نمایاں کرنا اور اسلامی معاشرے کے خدوخال کی وضاحت۔
ہم اختصار کے ساتھ انھی تینوں نکات پر اپنی معروضات پیش کرتے ہیں۔
۱- جامع اسلامی نظریہ کا احیا: مغرب کا متکبرانہ منصوبہ بظاہر اسلامی نظریۂ حیات کو کچلنے میں کامیاب ہوا، اور اس کی جگہ مقامی اور علاقائی نظریہ کو رائج کیا اور اسی کو دل و دماغ میں راسخ کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح ہر خطہ زمین اپنے جغرافیائی عناصر قومیت، زبان، تاریخ، مقامی رسم و رواج، اپنے مخصوص سرچشموں بلکہ اپنی مصنوعی سرحدوں پر زور دینے لگا۔
اگرچہ پورے عالم اسلام پر قبضہ کرنے کی استعماری منصوبہ بندی، چند عشروں کے بعد ناکام ہوگئی، مگر ’’آزادی‘‘ حاصل کرنے والے ممالک اس ’’آزادی‘‘ کے بعد بھی استعماری فکرہی کے غلام رہے اور جامع اسلامی نظریہ اپنے معاشروں میں بدستور اجنبی ہی رہا۔
ہمیں اس کردار کا احساس ہے جو اسلامی نظریہ کے احیا اور نمایاں کرنے میں سید جمال الدین افغانی، علامہ محمد اقبال ‘امام حسن البنا شہید، سید قطب شہید، مولانا مودودی ، امام خمینی اور شہید باقر الصدر نے ادا کیا۔ حتیٰ کہ یہ نظریہ ابھرا اور پھر گزشتہ صدی میں ساٹھ کے عشرے کے دوران میں پوری توانائی اور شان و شوکت سے سامنے آیا۔ مولانا مودودی مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’قرآن کریم چاہتا ہے کہ تم اللہ کے بندوں پر حجت بن جائو، جب وہ فرماتا ہے: وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًاo (البقرہ ۲ : ۱۴۳) (اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک امت وسط بنایا ہے، تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور سول تم پر گواہ ہو۔ ) اگر تم نے یہ مقصد حاصل نہ کیا تو تم نے اپنی زندگی ضائع کر دی۔ اس لیے انسانی ہدایت کا مسئلہ ہماری تمام سماجی اور قومی جدوجہد کا محور بننا لازمی ہے‘‘۔
مولانا مودودی اپنی متعدد تحریروں میں اسلامی نظام کے قیام پر توجہ مبذول کرانے کی کوشش کرتے رہے اور باطل نظاموں خصوصاً سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم سے اسلامی نظام کے فرق کو واضح کرنے میں مصروف رہے۔ آپ نے اسلامی نظام کو عملاً نافذ کرنے کے نظریے پر نہ صرف زور دیا، بلکہ اس نظام کو ایک زندہ و موجود شے کے طور پر پیش کرنے کی جدوجہد کی۔ آپ کی ان کوششوں کے نتیجے میں، ایک طرف مسلم عوام میں اسلامی شریعت کو نافذ کرنے کا شوق پیدا ہوا، تو دوسری طرف ایسی مضبوط تحریکوں اور پارٹیوں کے قیام کے لیے زمین ہموار ہوئی جو نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرنے لگیں۔ اس مشن کے لیے آپ کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں چنانچہ آپ نے اپنی زندگی کا ایک حصہ جیل میں گزارا۔ مگر یہ رکاوٹیں آپ کو عالم اسلام کی فکری رہنمائی سے نہ روک سکیں۔ مسلم عوام، جماعتوں اور مسلم دنیا کی یونی ورسٹیوںنے ہر جگہ آپ کی فکر کا والہانہ خیرمقدم کیا۔ چنانچہ ۱۹۹۳ء میں ایک بڑے اسلامی اجتماع میں‘ آپ کو ’’امام المسلمین‘‘ کا خطاب دیا گیا۔
مولانا مودودی کا ایک اہم کارنامہ اسلامی دستور کے مسئلے کا حل پیش کرنا ہے۔ آپ نے پاکستان میں ’’فرقوں کے عملی وجود کو تسلیم کرنے کے باوجود اسلامی قانون کے نفاذ‘‘ کے اعتراض کا بہت خوب صورتی سے جواب دیا ہے۔ یاد رہے کہ یہی اعتراض ایران میں اسلامی دستور کی تشکیل کے موقع پر کیا گیا۔ امام مودودی کہتے ہیں:
’’یہ اعتراض کہ اسلام میں بہت سے مذہبی فرقے ہیں اور ان میں سے ہر فرقے کی دوسروں سے الگ مستقل فقہ ہے۔ اب اگر کسی اسلامی ملک، مثلاً پاکستان میں اسلامی قانون کا نفاذ قرار پا جائے تو کس فرقے کی فقہ اس قانون کی بنیاد بنے گی؟
جو لوگ پاکستان اور دوسرے مسلمان ملکوں میں اسلامی قانون کے نفاذ کی مخالفت کرتے ہیں، ان کی نظر میں اس اعتراض کا بڑا وزن اور اس کی بڑی اہمیت ہے۔ وہ اس اعتراض سے ایسی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں جو انہیں کسی اور اعتراض سے نہیں ہیں۔ وہ اس کی بنیاد پر آس لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیں گے اور اسلام کے خطرے کو ٹالنے کا اپنا مقصد پا لیں گے۔ دوسری طرف اس اعتراض سے وہ بہت سے مخلص مسلمان بے چین و مضطرب ہیں جنھیں حقیقت ِ حال کا علم نہیں اور راستہ ان پر واضح نہیں۔ انھیں اس مشکل و پیچیدہ مسئلہ کا کوئی حل نظر نہیں آتا --- حالانکہ یہ اعتراض سرے سے پیچیدہ ومشکل ہے ہی نہیں اور یہ گذشتہ تین صدیوں میں ایک دن کے لیے بھی قانونِ اسلامی کے راستے کی رکاوٹ نہیں بنا۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ اسلامی قانون کا بنیادی ڈھانچہ اللہ تعالیٰ کے فرض کردہ احکام و قواعد اور قطعی حدود پر مشتمل ہے، جسے مسلمانوں کے تمام فرقے اور گروہ یکساں تسلیم کرتے ہیںاور آج سے پہلے، ان میں اس بارے میں کبھی اختلاف ہوا اور نہ اس زمانے میں اس اختلاف کا کوئی وجود ہے۔ مسلمانوں میں اب تک جو اختلاف ہے وہ صرف اجتہادی احکام و مسائل کی تعبیر اور مباحات کے دائرے میں آنے والے قوانین و ضوابط کی تشریح میں ہے۔
ان اختلافات کی حقیقت یہ ہے‘ کہ ایسا نہیں ہے کہ مسلم علما میں سے اگر کوئی عالم اسلام کے کسی حکم کی تعبیر بیان کرتا ہے، یا ہر وہ مسئلہ جس کا استخراج کوئی مسلم امام اپنے قیاس یا اجتہاد سے کرتا ہے، یا ہر وہ فتویٰ جسے کوئی مسلمان مجتہد، استحسان کی بنیاد پر صادر کرتا ہے تو وہ بذات خود کوئی قانون نہیں ہے۔ عالم، امام یا مجتہد تو بس ایک رائے اور تجویز پیش کرتا ہے۔ یہ اس وقت تک قانون نہیں بن سکتا جب تک اس پر اجماع امت نہ ہو جائے یا جمہور عوام اسے تسلیم نہ کرلیں۔
پھر یہ اجتماعی اور جمہوری مسائل دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ قسم ہے جس پر اب تک مسلمانوں کا اجماع ہے یا ہر صدی میں عالمِ اسلام کی اکثریت نے اسے قبول کیا ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جس پر کسی ایک ملک کا اجماع ہے یا اسے وہاں کے مسلمانوں کی اکثریت نے قبول کر لیا ہے۔ پہلی قسم کے مسائل اگر اجتماعی ہوں تو ان پر نظرثانی کی ضرورت نہیں، تمام مسلمانوں کو ان پر عمل کرنا چاہیے کیوں کہ یہ ان کے قانون کا حصہ ہیں۔ اگر یہ مسائل جمہوری ہوں تو ضروری ہے کہ جس خاص ملک میں ان کے نفاذ کا ارادہ ہے، وہاں کے مسلمانوں کی اکثریت کی رائے کا اس بارے میں لحاظ رکھا جائے کہ آیا وہ اسے اپنے لیے بطور قانون پسندکرتے ہیں یا نہیں؟ یہ تو بات تھی فقہ کی پرانی کتابوں کے بارے میں۔ جہاں تک مستقبل کی بات ہے تو اللہ اور اس کے رسولؐ کے کسی بھی حکم کی تعبیر‘ قیاس ‘اجتہاد یا استحسان، جب اس پر کسی مسلمان ملک کے اہل حل و عقد کا اجماع منعقد ہو جائے تو یہ اس ملک کا قانون بن سکتا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی مسلمان ملکوں کا قانون انھی فتاویٰ پر مشتمل ہوتا تھا جو اس ملک کے سب مسلمانوں کے لیے قابل قبول ہوتے تھے یا اس ملک کی غالب اکثریت انھیں مانتی تھی۔ میں نہیں سمجھتا کہ جمہوری اصول پر اس مسئلے کے حل کے اس کے علاوہ کوئی اور شکل بھی تجویز کرنا ممکن ہو۔
اس کے بعد اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ اسلامی ریاست میں اُن فرقوں کی پوزیشن کیا ہو گی جو اکثریت کے ساتھ متفق نہ ہوں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان فرقوں کو پرسنل لا کے طور پر اپنی فقہ کے نفاذ کا مطالبہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ اسلامی مملکت میںاس مطالبے کو قبول کرنا ضروری ہے۔ جہاں تک مملکت کے پبلک لا کا تعلق ہے اسے بہرحال اکثریت کے مذہب پر ہی مبنی ہونا چاہیے۔
میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں میں کوئی فرقہ ایسا نہیں ہے جویہ کہتا ہو کہ اگر ہم آج قانونِ اسلام پر متفق نہیں تو پھر ہم پر کفر کے قوانین نافذ کر دیے جائیں۔ مسلمانوں کا کلمہ کفر پر اتفاق ایک ایسا قبیح معاملہ ہے جس کا خیال بھی مسلمانوں کے کسی فرقہ کے فرد کو نہیں آنا چاہیے۔ اگرچہ اس خیال کو شاید کسی حد تک وہ تھوڑے سے لوگ پسند کریں جن کے دلوں میں کفر کی محبت انڈیلی جا چکی ہے اور جو کفر کے قوانین و ضوابط کے نشہ سے سرشار ہیں‘‘۔
اسی سے ہمیں ایران کے اسلامی آئین کے عادلانہ موقف کا اندازہ ہوتا ہے، جہاں اس اصول کو دو سطحوں پر لاگو کیا گیا ہے:
علامہ مودودیؒ نے متحدہ ہندستان کے خصوصی حالات کے تناظر میں مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش لکھی۔ جس سے آپ کی مسلمانوں کے مسائل سے دل چسپی کا پتہ چلتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ امام مودودی پورے عالم اسلام کی المناک حالت سے رنجیدہ خاطر تھے، کیونکہ مسلم دنیا کے بڑے حصے پر غیروں کا قبضہ تھا۔ مسلمانوں کے پاس مستقبل کا کوئی باقاعدہ‘ واضح اور متعین منصوبہ نہ تھا، بلکہ وہ مختلف افکار و نظریات میں منقسم تھے۔ وہ قرآنِ عظیم کو بھولے ہوئے تھے، اسلامی اخلاقیات سے محروم رہتے ہوئے وہ عہدوں اور منصبوں کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ علامہ مودودی نے برصغیر کی تقسیم کے موقعے پر ۱۹۴۷ء میں اپنی تقریر میں خبردار کرتے ہوئے کہا تھا ’’کچھ مسلم شہری جلد ہی راہ راست سے منحرف ہو کر اپنے محدود مقاصد کے لیے سرگرم ہو جائیں گے‘‘۔ واقعی ایسا ہو کر رہا۔ آپ نے مسلمانوں اور ہندوئوں کے مابین کشمکش ختم کرنے کے لیے اس وقت منصوبہ تجویز کیا۔ آپ نے مسلمانوں کی تربیت اور ذہن سازی پر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے دعوتِ اسلامی پر توجہ دینے کی تاکید کی، تاکہ تقسیمِ ہند کے واقعے سے پیدا ہونے والے اثرات کی تلافی ہو سکے۔ یہ مولانا کا منفرد تجزیہ تھا جس کے نتائج سے آپ نے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا۔ ایسے عظیم لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو اپنا حال امت کے دکھ میں گزار دیتے ہیں، مگر مستقبل کے لیے پوری بیداری اور ہوش مندی سے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
۲- حکومت اسلامی کی طرف دعوت: مغرب نے عالم اسلام میں سیکولرزم کے نظریے کو پورے شد ومد سے پھیلایا حتیٰ کہ جامعہ ازہر، مصر کے کچھ فضلا بھی اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو گئے۔ کئی قومی پارٹیاں اور اہل قلم اسی دھارے میں بہہ گئے۔ سیکولرزم کی بنیاد پر عالم اسلام میں کئی ممالک بنے، حتیٰ کہ اب عالم اسلام کی قیادت کم و بیش انھی سیکولر عناصر پر مشتمل ہے۔ لادینیت کے اس طوفان بدتمیزی میں سید مودودی کی آواز ابھری جو پوری قوت کے ساتھ اسلامی حکومت کی جانب دعوت دے رہے تھے۔ ان کی ساری توجہ اس پر تھی کہ اسلامی حکومت کے قیام سے پہلے ہرحالت اور ہر طریقے سے تربیت اور ذہن سازی کا عمل پورا کیا جائے۔ ان کا خیال تھا کہ اسلامی حکومت ایک ایسی قیادت کے تحت بنے جو خلافت کی ذمہ داری اٹھانے کی اہلیت رکھتی ہو۔ جس کی حاکمیت کی شرائط قرآن و سنت سے ماخوذ ہوں، پھر یہ حکومت شریعتِ اسلامی کو نافذ کرے۔ اس حکومت کو امت منتخب کرے، کیونکہ امت ہی اللہ کی شریعت کی تطبیق کا قابل اعتماد ادارہ ہے۔ اسے مولانا مودودی خلافتِ عامہ کا نام دیتے تھے۔
امام مودودی اصطلاحات کے مابین فرق کرنے پر زور دیتے تھے‘ جسے ہم آپ کی کتاب قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں میں دیکھتے ہیں۔ آپ نے متعدد تحریروں میں’’مسلمانوں کی حکومت‘‘ اور ’’اسلامی حکومت‘‘ میں فرق کیا ہے۔ ’’اسلامی حکومت‘‘ کی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں جو اصل مقصود ہوتی ہیں۔ جس شخص میں بھی مطلوبہ شرائط پائی جائیں وہی اسلامی حکومت کا سربراہ بن سکتا ہے، خواہ اس کا نسب، مقام اور رنگ کوئی سا ہو۔ اسلامی حکومت کا قانون اسلام سے ماخوذ ہو گا اور اسی پر مملکت کا دستور مبنی ہو گا۔ اسلام ہی تمام زندگی کو، درپیش حالات کو دیکھتے ہوئے منظم کرے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ سید مودودی ہی کو ان تمام تجاویز کا اعزاز (کریڈٹ) جاتا ہے، جو بعد میں اسلامی حکومت کے لیے پیش کی گئیں یا ایران کے اسلامی دستور سے تھوڑا پہلے، اسلام کے بنیادی قانون کے لیے پیش ہوئیں یا اس دستور کے مسودہ و منصوبہ میں شامل ہوئیں جو مجمع البحوث الاسلامیہکی طرف سے پیش کیا گیا۔
امام مودودی کی کتاب اسلامی ریاست کو اگر مسلم دنیا میں جدید اور ہمہ گیر بیداری کا سرچشمہ قرار دیا جائے تو ذرّہ برابر مبالغہ نہ ہو گا۔ اس میں اسلامی نظام زندگی کے بارے میں اہم بنیادی سوالات کے تسلی بخش مگر مختصر جوابات ہیں۔ جیسے اسلامی حکومت کے طریق ہائے کار، حکومت کی نوعیت اور اس کے مصادر، دستور کی تدوین کی کیفیت اور اسلامی حکومت کے اہداف وغیرہ۔ اس کتاب نے مسلم دنیا میں عوامی بیداری پیدا کی ہے۔ سید مودودی کی اسی کتاب سے امام خمینی متاثر ہوئے‘ اور انھوں نے گویا اس کتاب میں اپنا نظریہ ولایتہ الفقیہہ شامل کر دیا۔ جس کا خصوصاً ایران اور عراق کے تمام حصوں پرمسلم عوام پر زبردست اثر پڑا۔ یہی وہ کتاب ہے جو ایران میں اسلامی انقلاب کے برپا ہونے کا اہم عامل اور نظریاتی اساس بنی۔ پھر اسلامی مملکت کے قیام کی بنیاد اور اس کے دستور کی روح بنی۔
۳- اسلامی معاشرے کے خطوط اور خدوخال کی وضاحت: امام مودودی اسلامی معاشرے کے قیام کی خاطر پہلے ہی سے نمایاں نظریاتی و عملی منصوبہ بندی کرتے رہے۔ جیسے شہید محمد باقر الصدر نے ایران کے اسلامی انقلاب سے بیس سال پہلے اپنی کتابوں کے ذریعے اسلامی حکومت کے قیام کی منصوبہ بندی کی تھی۔
اسلامی معاشرے کی خصوصیات قرآن کریم اور سنت نبویؐ سے ماخوذ ہوتی ہیں، مگر ان کی وضاحت کرنا، انہیں عوام کے ذہن میں بٹھانا، ان پر پڑنے والے تاریخی غبار کو مٹانا اور اسے ایک مکمل نظریہ کی تفصیلات کی صورت میں ڈھالنا ایک مشکل اور قابل قدر کام ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سید مودودی نے یہ کارنامہ بڑی خوش سلیقگی سے سرانجام دیا اور ہر پہلو پر کئی کتابیںلکھیں۔ جن میں معیشت سے معاشرت تک، اور الٰہیات سے قانون تک مباحث کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یوں انھوں نے معاشرے کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کر کے مکمل اسلامی سماجی نظام کا نقشہ کار پیش کیا۔
اسلامی تربیت و اخلاق کے میدان میں آپ نے اہم اخلاقی اقدار توکل، صبر، استقامت پر زور دیا اور ان کے معاشرتی مفہوم کو اپنانے کی تلقین کی اور اسلامی نسلوں کی تربیت انھی اخلاقی قدروں پر کرنے کے لیے کہا۔ آپ نے انگریز کے مسلط کردہ نظام تعلیم و تربیت کو من و عن تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ آپ نے بطور خاص ایک صالح جماعت تیار کرنے کی دعوت دی۔ آپ نے سرکاری افسران کے نظام تربیت پر نظرثانی کا مطالبہ کیا۔بلکہ آپ نے ایسے اعلیٰ اور عارفانہ تربیتی نظام کی دعوت دی جس کے نتیجے میں انسان اپنے پروردگار سے مربوط ہو، اور وہ ایک ایسے معزز مخلص انسان میں بدل جائے جو سب سے پہلے اپنا فرض پورا کرنے پر یقین رکھتا ہو۔ ہم نے دیکھا ہے کہ خود امام خمینی بھی اکثر اسی بات پر زور دیا کرتے تھے۔ مولانا مودودی فرماتے ہیں: ’’میں سمجھتا ہوں کہ اللہ کے دین اور امتِ اسلامیہ کے مفادات ہر چیز اور تمام دنیوی تعلقات سے زیادہ اہم ہیں‘‘۔
مولانا مودودی ’’قرآنی سلوک‘‘ کے ذریعے نفسیاتی رفعت و بلندی پر یقین رکھتے تھے۔ ان کی نظر میں جو مومن قرآن کے انقلابی اصولوں کا حامل ہو، وہ سلوک کے تمام مراحل جلد طے کرے گا یعنی وہ قرآن کو مکمل صورت میں سمجھنے کے قابل ہو سکے گا۔ مولانا کے خیال میں اللہ تعالیٰ نے نفسِ انسانی کو انفرادی سطح پر اتنی صلاحیت دی ہے کہ وہ براہ راست اللہ تعالیٰ سے پوری گہرائی کے ساتھ تعلق قائم کرسکتا اور اس کا ادراک بھی کر سکتا ہے اور اس لیے اسے کسی کشف و کرامت وغیرہ کی ضرورت نہیں۔ یوں مولانا مودودی نے ایک صحیح تصوف کے بارے میں انقلابی تصور پیش فرمایا ہے۔
مولانا مودودی نے اپنی کئی کتابوں میں اسلام کا اقتصادی نقطہ نظر پیش کیا۔ آپ نے زمین اور دفینوں کے بارے میں اسلام کے نظریے کی وضاحت کی اور بتایا کہ اس میں انسان کا فطری اور مساوی طور پر کتنا حق ہے؟ آپ نے مال جمع کرنے کی مذمت کی، سود کی نفی کی اور اسراف کی خامیاں بتائیں۔ سرمایہ کے صرف مال داروں تک محدود و مرکوز رہنے پر تنقید کی اور عدل ِ اجتماعی پر زور دیا۔ معیشت کی سطح پر باہمی کفالت اور توازن قائم کرنے کے لیے بیت المال کو منظم کرنے کی تاکید کی۔
عائلی زندگی کے ضمن میں مولانا مودودی نے مختلف پہلوئوں کا سیر حاصل تجزیہ کیا۔ اسلام کے بنیادی قلعے خاندان کے تحفظ کو اہمیت دی، اور کھلے دل و دماغ سے تحقیق کی۔ آپ کے نزدیک پردہ جنسی بدنہادی اور بے راہ روی سے روکنے کے عوامل میں سے ایک ہے۔ جبکہ دیگر عوامل میں اخلاقی اصلاح اور تعزیراتی قوانین شامل ہیں۔
اسلامی اتحاد کے میدان میں آپ تعصب اور اندھی تقلید کی نفی پر زور دیتے ہیں (تقلید اور علمی تحقیق کے نتائج کی پیروی میں فرق کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے)۔ آپ صرف قرآن و سنت کو معیار قرار دیتے ہیں اور اس کے بعد علمائے سلف کے اقوال سے راہنمائی بھی لیتے ہیں۔
مولانا مودودی نے امت کو منقسم کرنے والے عناصر کے خلاف جہاد کیا، اور ساری زندگی ان عناصر کے سب و شتم کو برداشت کیا۔ محدود قومیت کے عناصر کے خلاف آپ کا جہاد محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ کے نزدیک حقیقی وطنیت وہ ہے جو مکمل طور پر اسلام سے ماخوذ ہے۔ جس پر علامہ محمد اقبال لاہوریؒ زور دیتے تھے۔ آپ کا ایمان ہے کہ اسلام جس قومیت کا داعی ہے وہ دانش مندی کے فریم ورک یعنی شہادتین کے دائرے میں محدود ہے۔ یہ قومیت اخوت کا مظہر ہے۔ اس سے امت اور وطن کا مفہوم وسیع ہو کر تمام مسلمانوں کو اپنے دامن میں لے لیتا ہے۔
مولانا مودودی نے واضح کیا ہے کہ اسلام میں کوئی ایسا قانون نہیں جو علاقے، زبان یا رنگ و نسل کی بنا پر ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان پر امتیاز یا فوقیت بخشتا ہو۔ تمام مسلمان عبادات، معاملات، سیاسی اور سماجی تعامل میں بالکل یکساں ہیں۔
مولانا مودودی کا ایک بڑا کارنامہ سماجی اور انسانی حقوق کے میدان میں افکار تازہ پیش کرنا ہے‘ جسے مرکزی موضوع بنا کر ہمیں کلام کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سید مودودی پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل کرے اور آپ کو عظیم ثواب سے نوازے۔