- ھر وقت تیار رھـو: امام شہید اکثر اوقات موت اور اس سے متعلق باتیں کرتے رہتے تھے۔ کسی بھائی یا دوست کی تعزیت کے وقت ضرور ان کا دل بھر آتا اور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے۔ ایک مرتبہ ہم نے حرم نبی ؐ میں نمازِ عصر ادا کی ۔ امام شہید باب جبرئیل سے باہر کی طرف نکلے ہی تھے کہ میں بھی ان کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ آپ کے ہمراہ دنیا کے مختلف خطوں سے آئے ہوئے مسلمان حجاج کرام اور کارکنوں کا ایک جم غفیر تھا۔ ہم امیر المومنین عمر بن خطابؓ کے گھر سے گزرے‘ پھر حضرت عثمان ؓ کے گھر سے گزرے جہاں محاصرے میں انھیں قرآن مجید کی تلاوت کے دوران شہید کردیا گیا تھا۔ جب ہم جنت البقیع میں اصحابِ قبر کے لیے مسنون دعائیں پڑھتے ہوئے ایک نمایاں مقام پر پہنچے، تو امام شہید نے کہا: یہاں سرکار دوعالمؐ کھڑے ہوکر اہل بقیع کے لیے دعا فرمایا کرتے تھے، ہمیں بھی اسی جگہ کھڑے ہوکر دعا کرنی چاہیے۔
ابھی سورج پوری طرح غروب نہیں ہواتھا۔ مغرب کی اذان کا وقت قریب تھا کہ امام شہید پورے خشوع و خضوع کے ساتھ خاموش کھڑے ہوگئے۔ کچھ دیر کھڑے سوچتے رہے، پھر اچانک کعبۃ اللہ کی طرف رخ کرکے دائیں ہاتھ کے سہارے زمین پر بیٹھ گئے۔ مجھے یوں لگا کہ ابھی ان کی روح پرواز کر جائے گی۔ میں ان کی یہ حالت دیکھ کر خوف زدہ ہوگیا اور عجب پریشانی میں مبتلا ہوگیا۔ میری ہمت جواب دے گئی‘ زبان گنگ ہوگئی‘ نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس عالم میں،میں اپنے آنسو روکتے ہوئے ان پرجھکا اور میں نے کہا:’’ اﷲ آپ پر رحم کرے، ہمیں آپ کی ضرورت ہے۔ اﷲ نہ کرے کہ ہم آپ کے بارے میں کوئی بُری خبر سنیں‘‘۔ یہ سن کر امام البنا نے کہا: ’’میرے بھائی،کیوں نادانی کی بات کررہے ہو! کیا تم بھی ایک دن اسی مقام پر نہیں لائے جاؤگے؟ یہی توہمارا آخری مقام ہے‘ اس لیے لمبی جدائی اور فوری رخصتی کے لیے ہر وقت تیار رہو‘‘۔
پھر امام البنا حرم میں نماز مغرب ادا کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ چند دن بعد ہماری حج سے واپسی ہوگئی۔ تب وہ منحوس گھڑی آگئی جب امام ربانی کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا اور انھوں نے دنیا کے قید خانے سے ہمیشہ کے لیے نجات پاتے ہوئے داعی اجل کو لبیک کہا۔
- یھی میرا کہانا ھے: ایک مرتبہ ڈاکٹر محمد خمیس حمیدہ نے مجھ سے پوچھا :’’سعد! کیاتمھیں مرشد کے ساتھ گزارا ہوا بہترین دن معلوم ہے‘‘؟ میں نے کہا:’’ وہ کون سا دن ہوگا۔ حالانکہ مرشد کا تو ہردن گذشتہ دن سے زیادہ ہی بہتر ہوتا ہے‘‘۔ پھر انھوں نے بتایا :’’ ایک روز ہم پانچ سے زائد افراد مرکزی دفتر میں طویل شب بیداری کے بعد مرشد کے گھر چلے گئے۔ ہم نے ان سے بلاتکلف رات کا کھانا مانگا۔ وہ زنان خانے میں گئے اور خوشی خوشی واپس آگئے۔ان کے ہاتھ میں گھر کے کھانے سے بچی ہوئی کچھ چپاتیاں‘کچھ زیتون‘ پرانے پنیر کے ٹکڑے اور تھوڑا سا نمک تھا۔ انھوں نے ہمارے آگے رکھتے ہوئے کہا: یہی تناول کیجیے۔ میرا رات کا کھانا یہی ہے۔ اچھا کھانا وہ ہے جس کو کھانے والے ہاتھ زیادہ ہوں۔ ہم نے اﷲ کا نام لے کر خوب سیر ہوکر کھایا اور اﷲ کا شکر ادا کیا‘‘۔ میں نے کہا : ’’آپ نے بالکل ٹھیک کہا ہے‘ بخدا ان کا کھانا اس سے ذرا بھی مختلف نہیں تھا۔ جو کھانا بھی ان کے آگے رکھ دیا جاتا تھا یا پیش کیا جاتا، ہنسی خوشی کھالیتے تھے‘‘۔
- سادگی: جنگ کے دنوں میں ہم بذریعہ جہاز شام میں اورین پلس ہوٹل پر پہنچے جو سمیرامیس‘ مینا ہاؤس‘ سیسل وغیرہ کے سیاحتی مقامات میں ہے۔ یہاں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے عربک یونی ورسٹی میں عالم عرب کے مختلف قائدین کا مشاورتی اجلاس منعقد ہونا تھا۔ یہاں ہر جگہ مختلف ذمہ داران سے آمنا سامنا رہتا‘اور اکثر تلخ حقائق سننے پڑتے۔ اس کے باوجود شیخ آزاد قوموں کے تقاضوں کی وضاحت ضرور کرتے تھے۔ہم رفقا کو یہاں اخوان کے مرشدعام کے اعزاز و اکرام کی فکر دامن گیر رہتی تھی کہ انھیں پورے اعزاز و اکرام سے نوازا جائے اور ان کے ساتھ خصوصی طور پر عزت و وقار کے ساتھ پیش آیا جائے۔ اس لیے بھی انھوں نے اورین پلس میں مرشد کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے میں کوئی کسر چھوڑ نہ رکھی تھی۔ مرشد یہاں موجود حکومتی عہدے داران میں سے کسی طرح کم حیثیت نہ تھے، اگرچہ دوسرے لوگ اپنی حکومتوں اور سرکاری خزانوں کو بے دریغ لٹا رہے تھے اور پیسے کو مال غنیمت جان کر بے دریغ خرچ کررہے تھے ۔لیکن اخوان اپنے قائد پر جان چھڑکتے تھے اور ان کی تابع داری میں کوئی کمی نہیں آنے دیتے تھے۔
آدھی رات گزرنے کے بعد عمر بہاء الامیری (شامی وزیر مملکت‘بعد ازاں پاکستان میں شام کے سفیر) نے ہمیں آرام کی دعوت دی۔ مرشد کا رعب اتنا تھا کہ جب وہ اورین پلس کے دروازے پر کھڑے تھے، انھوں نے وہیں سے عمرامیری کو زور سے آواز دے کر بلایا اوران سے کہا: ’’بھائی، ہم رات ایسی خوش نما جگہ پر نرم و گداز بستر پر گزاریں اور خوب لذیذ کھانے کھائیں اور ہمارے مجاہد بھائی فلسطین کے مہاجر کیمپوں میں کس مپرسی کے عالم میں ہوں۔ ہم یہاں شام میں مزے اڑائیں اور ہمارے بھائی کھلے آسمان تلے پڑے ہوں۔ واللہ! اپنے کسی بھائی کے گھر، چٹائی پر ہاتھ کا تکیہ بناکر اور اپنی عبا اوڑھ کر سونا، مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ پسند ہے‘‘۔
- جذبۂ اخوت:میرا ایک قریبی عزیز بیمار پڑگیا۔ بہت سے ڈاکٹروں نے اس کا چیک اَپ کیا لیکن مرض کی تشخیص نہ ہوسکی۔ میں نے ایک اخوانی ساتھی ڈاکٹر محمد سلیمان سے اس کا تذکرہ کیا، وہ فوراً ان کے ہاں پہنچ گئے ۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں مریض کو شفایاب کردیا۔ مرشد بھی مبارک باد دینے کے لیے ان کے ہاں گئے اور اﷲ تعالیٰ سے ان کے لیے صحت و عافیت کی دعا کی۔ گفتگو کے دوران انھیں پتا چلا کہ یہ تمام مساعی ڈاکٹر سلیمان کی ہیں تو انھوں نے مجھے خفگی سے دیکھا۔ گویا وہ مجھے علیحدگی میں تنبیہ کرنا چاہتے تھے۔ وہاں سے اُٹھ کر آئے تو انھوں نے مجھ سے کہا: ’’سعد! تم نے مجھے ڈاکٹر سلیمان کے علاج کا بتایا نہیں…؟ کیا یہ مناسب نہ تھا کہ میں اپنے اس بھائی کا شکریہ ادا کرتا؟ دوسری بات یہ ہے کہ میں نے تم سے کبھی کوئی بات نہیں چھپائی اور میں نے اﷲ تعالیٰ سے یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ میں تم سے کوئی چیز نہیں چھپاؤں گا، تمھیں بھی اسی طرح مجھ سے کوئی چیز نہ چھپانے کا وعدہ کرنا چاہیے‘‘۔ میں نے حیرانی سے سوال کیا : ’’کیا اس طرح کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: ’’ ہاں، اس طرح کے معاملات میں بھی‘‘۔ یہ کوئی چھوٹا معاملہ نہیں ہے اﷲ کی خاطر بھائی چارے اور خیرخواہی کو ترویج دینا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا ہے، جس جماعت میں بھی یہ عام ہوجائے وہ اﷲ تعالیٰ کی خوش نودی ضرور حاصل کرلے گی‘‘۔
- ھم نھیں بدلتے: ہم ایک دعوتی مشن پر مصر کے مغربی اضلاع میں ان کے ہمراہ تھے۔ اگلے دن ظہر کے وقت ہم نے ایک بادبانی کشتی لی، تاکہ دریاے نیل پار کرکے محمودیہ جاسکیں۔ سورج آگ برسا رہا تھا‘ سخت جھلسا دینے والی گرمی اور نہایت حبس والا موسم تھا ۔ ہوا بالکل نہیں چل رہی تھی ۔ ملاح اپنا پورا زور لگا رہا تھا پھر بھی کشتی نہایت آہستگی سے چل رہی تھی، کشتی کے بادبانوں کی وجہ سے کچھ دیر آگے کی طرف اور کچھ دیر کے لیے پیچھے کی طرف سایہ ہوجاتا تھا۔ سخت پریشانی کے عالم میں ہم آسمان سے برستی آگ سے بچنے کے لیے جدھر سایہ ہوتا اس کی طرف لپکتے۔ دوسری طرف ہمیں مرشد کی فکر لاحق تھی جو اپنی جگہ بیٹھے خاموشی سے ہمیں ایسا کرتا دیکھ رہے تھے۔ ہم نے کشتی میں کوئی جگہ ایسی نہ چھوڑی جہاں جاکر نہ بیٹھے ہوں۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد بالآخر سایہ اس جگہ آکر رک گیا جہاں مرشد بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے ہمیں یہ کہتے ہوئے اس جگہ بلالیا، اور ان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی: ’’آپ ہی ہماری طرف آجائیں ہم جگہ نہیں بدلتے‘‘۔
- مددگار: ہم مکہ سے نکل کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ وفد میں خاصی تعداد میں لوگ موجود تھے۔ قافلہ روانہ ہوا‘ سامان کی گاڑیاں آگے آگے تھیں۔ اس کے بعد خواتین کی بسیں تھیں اور ان کے ساتھ اخوان کے مرد حجاج کی گاڑیاں تھیں اور ان سب کے بالکل آخر میں ہماری چھوٹی گاڑی تھی ۔ ہمارے ساتھ مرشد کی والدہ محترمہ اور ان کے بھائی عبدالرحمن البنا بھی تھے۔ اتنے میں رات ہوگئی۔ سخت اندھیرا ہوگیا جس نے ہر طرف سے صحرا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اچانک ہماری چھوٹی گاڑی ریت کے ایک ٹیلے میں دھنس گئی۔ ڈرائیور کی کوشش تھی کہ کسی طرح گاڑی نکل جائے اور قافلے کے ساتھ سفر جاری رہے۔لیکن ہم سمجھ گئے کہ گاڑی کو نکالنے کے لیے ہماری مدد کی ضرورت ہے۔ مرشد کی والدہ کو گھبراہٹ شروع ہوگئی۔ یہ ان کی عمر کا تقاضا تھا، وہ ہماری مدد نہیں کرسکتی تھیں۔ بھائی عبدالرحمن کو بھی تکلیف شروع ہوگئی۔ اپنی بغل میں زخم کی وجہ سے وہ اس مشکل کام میں شریک ہونے سے قاصر تھے اور ڈرائیور کے لیے اسٹیرنگ چھوڑنا ممکن نہیں تھا۔ اب رہ گئے مرشد اور میں۔ تب میں نے دیکھا کہ مرشد پورے حوصلے کے ساتھ اپنی جگہ سے اٹھے۔وہ زبان سے پرجوش کلمات ادا کرتے جاتے تھے۔ میں نے بھی مرشد کی طرح جبہ اتار دیا اور سر پر رومال رکھ لیا ۔ وہ گاڑی سے اترچکے تھے میں بھی گھوم کر گاڑی کی پچھلی طرف آگیا۔ میں ان کی بات غور سے سن رہا تھا، وہ کہہ رہے تھے: ’’ہمیں پہلے تو ٹائروں کے آگے سے ریت ہٹانی پڑے گی، پھر ہم کچھ پتھر لاکر ٹائروں کے آگے رکھ دیں گے۔ ڈرائیور گاڑی گھمائے گا اور ہم پوری قوت سے آگے دھکا دیں گے‘‘۔ مرشد کے ہاتھ مجھ سے زیادہ تیزی کے ساتھ یہ سب کچھ کرتے دکھائی دیتے تھے۔ جب کام پورا ہوگیا تو انھوں نے ڈرائیور کو مخاطب کرتے ہوئے زور سے آواز لگائی: ’’سالم! گاڑی گھماؤ‘‘۔ سالم نے گاڑی گھمائی، امام البنا نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’میں اور آپ، دونوں گاڑی کو آگے دھکا دیں گے‘‘۔ ہم نے دھکا دیا اور گاڑی چل پڑی۔ یہ کہتے ہوئے میری نگاہوں میں وہ پورا منظر گھوم رہا ہے، جب دھکا لگاتے وقت مرشد کے چہرے سے پسینے کے قطرے ٹپک رہے تھے اور صحرا کی ریت سے ان کا چہرہ اَٹا ہوا تھا۔ گاڑی کی رو شنی میں ان کی یہ حالت دیکھ کر میرے سامنے ان کی عظمت اور بھی زیادہ نکھر کر سامنے آگئی ۔
- پیارا بہائی: ایک دن میرے دل میں یہ خیال ابھرا کہ میں مرشد کو اپنی ایک یادگار تصویر پیش کروں، جومیں نے ایک خاص موقع پر کھینچی تھی، جب ۱۹۴۶ء میں عید میلاد النبیؐ کے موقع پر مجھے بلاوجہ گرفتار کیا گیا تھا ۔ بعد میں جب مقامی جیل سے میری رہائی عمل میں آئی، اس وقت کھینچی ہوئی اس تصویرکے پیچھے تعارفی کلمات لکھے تھے : ’’جری قائد کی طرف___ بہترین مرشد کی طرف___ پیارے بھائی کی طرف___‘‘ میں نے یہ تصویر پیش کی جسے انھوں نے قبول کیا۔ مرشد نے تصویر کی پشت پر لکھے کلمات پڑھے ہی تھے کہ انھوں نے اپنا سر اٹھایا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔ چہرہ جذبات سے چمک رہا تھا ۔ خوشی اورعاجزی کی ملی جلی کیفیت میں انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا : ’’میرے عزیز ، مجھے پیارا بھائی کہہ دینا ہی کافی تھا‘‘۔(مجلۃ الدعوۃ ، ۱۳؍فروری ۱۹۵۱ء)