مولانا حماد اللہ


رات کے گھپ اندھیروں میں جب پورا عالم محوِ استراحت ہوتا ہے اور ہر طرف ہُو کا عالم ہوتا ہے‘ انسان‘ چرند‘ پرند‘ درند‘ غرض ہرمخلوق اپنے آشیانے میں دبکی پڑی ہوتی ہے کہ کچھ دیوانے نرم و گرم بستر چھوڑ کر محبوب حقیقی کی محبت سے سرشار یکلخت اُٹھ بیٹھتے ہیں۔ یہ وہ برگزیدہ مخلوق ہے جس کے دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے معمور ہیں۔ یہ لوگ زمین کی کور باطن مخلوق کی نگاہوں سے اوجھل مگر آسمانی مخلوق کے سامنے روشن اور تابناک یوں جگمگاتے ہیں‘ جیسے زمین والوں کی نظر میں تارے۔ ان کے دلوں میں ایک سوز ہوتا ہے‘ ایک درد ہوتا ہے‘ جو ہر دم انھیں بے کل اور بے چین رکھتا ہے۔ ان کو اگر کوئی دھن ہے تو ایک ہی‘ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوجائے۔

رات کا ایک بڑا حصہ گزر چکا ہے‘ تمام دنیاخوابِ غفلت میں مدہوش ہے اور یہ عاشق اپنے محبوب کے سامنے جھولی پھیلائے اس سے محبت کی بھیک مانگ رہے ہیں‘ آنسو بہا رہے ہیں۔ ادھر آسمانوں پر رحمت کے دروازے کھل رہے ہیں‘ حورانِ بہشت اپنی غمگین آواز میں ان کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہیں: ’کوئی ہے جو ہمیںحاصل کرے۔لیکن ان کی نگاہ ’یک بین‘ حوروں پر بھی نہیں پڑتی۔ ان کا منتہاے مقصود تو محبوب حقیقی کا وصال اوراس کی رضاجوئی ہے۔

اب رات کا آخری پہر ہے‘ رحمتوں کی موسلادھار بارش شروع ہوچکی ہے‘ اللہ سوال کرنے والوں کو عطا فرما رہے ہیں‘اعلان ہو رہا ہے: مانگو! کیا مانگتے ہو؟ جو مانگو گے عطا ہوگا۔ پھر    رضاے الٰہی کے پروانے جاری ہونے لگتے ہیں۔ یہی ان کا مقصدحیات اور یہی ان کی معراج ہے‘ جس کی خاطر یہ روزانہ اپنے نرم نرم بستر اور میٹھی میٹھی نیند قربان کرکے اُٹھ بیٹھتے ہیں‘ اور دربارِ الٰہی میں پروانہ وار حاضر ہوجاتے ہیں۔ ان کے اسی حال کو شاعرمشرق نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے   ؎

واقف ہو اگر لذتِ بیداریِ شب سے
اُونچی ہے ثریا سے بھی یہ خاک پُراسرار

ان سعید روحوں کی سعادت کا اندازہ اس سے لگایئے کہ اللہ تعالیٰ ان کا تذکرہ قرآن مجید میں فرما رہا ہے‘ فرمایا:

تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا (السجدہ ۳۲:۱۶) ان کے پہلو خواب گاہوں سے علیحدہ ہوتے ہیں‘ اس طور پر کہ وہ ا پنے رب کو (ثواب کی) امید اور (عذاب کے) خوف سے پکارتے ہیں۔

علامہ فخرالدین رازی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یَدْعُوْنَ سے مراد یُصَلُّوْنَ ہے‘ یعنی رات کو نماز پڑھنا مراد ہے۔

اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان کھپانے والے ان جواں ہمت لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں انعام و اکرام کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ تمھارے ناقص تصور اور تخیل سے بالا ہے:

فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّـآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَائً م بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo (السجدہ ۳۲:۱۷)

پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزا میں ان کے لیے چھپا رکھا گیاہے اس کی کسی تنفس کو خبر نہیں ہے۔

یہاں ان لوگوں کا انعام واضح طور پر بیان نہیں فرمایا بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا کر رکھی گی ہے جس کو کوئی نفس نہیں جانتا۔ انعام کے اس اخفا میں اس کی عظمت کی طرف اشارہ ہے‘ نیز اس اخفا سے ان لوگوں کو شوق دلانا مقصود ہے جو اس عظیم عمل سے محروم ہیں۔

ایک مقام پر اللہ تعالیٰ حضوؐر اور حضوؐر کے واسطے سے اُمت کو تہجد کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَمِنَ الَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ق عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo (بنی اسرائیل ۱۷:۷۹) اور رات کو تہجد پڑھو‘ یہ تمھارے لیے نفل ہے‘ بعید نہیں کہ تمھارا رب تمھیں مقامِ محمود پر فائز کردے۔

مجدد الف ثانی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اوّل نماز تہجد کا حکم دیا گیا اور پھر مقامِ محمود‘ یعنی شفاعت کبریٰ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز تہجد کو مقامِ شفاعت حاصل ہونے میں خاص دخل ہے۔ (معارف القرآن‘ ج ۵‘ ص ۵۲۰)

اسی طرح متعدد احادیث میں بھی نماز تہجد کی فضیلت وارد ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: اے لوگو! سلام پھیلائو اور کھانا کھلائو اور رات کو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں تو نماز پڑھو۔ (اگر ایسا کرو گے) تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجائو گے۔(ترمذی)

عام طور پر لوگ ان اعمال کو بالکل معمولی سمجھتے ہیں لیکن قدر شناسوں سے پوچھیے کہ یہ کیسی دولتِ بے بہااور انمول خزانے ہیں اور پھران پر کوئی زیادہ محنت بھی خرچ نہیں ہوتی‘ بس ذرا سی ہمت چاہیے۔ خود حضور علیہ السلام کی شان یہ تھی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ تہجد میں قیام کرتے کرتے آپؐکے پائوں میں پھٹن آجاتی تھی۔ آگے چل کر فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ آپؐ کے لیے بخشش لکھ دی گئی ہے۔ پھر آپؐ کیوں اتنی مشقت برداشت فرماتے ہیں تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: افلا أکون عبداً شکوراً ،کیا میں اللہ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں؟

یہ اس ذات اقدس کا حال ہے جس کے لیے سب سے پہلے جنت میں داخلے کا وعدہ ہے۔ ایک ہم ہیں کہ گناہوں کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں‘ پھر بھی آخرت کی فکر نہیں‘اعمال کا شوق نہیں۔ ہم میں سے کون ہے جو جنت کا طلب گار نہ ہوگا لیکن کبھی ہم نے اپنے اعمال کا موازنہ کیا؟ کیا وہ اس قابل ہیں کہ ہمیں جنت کا حق دار ثابت کرسکیں؟ کیا ہی خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کی راتیں نورانی ہیں اور کیا سعادت مند ہیں وہ نوجوان جواس جوانی میں لذتِ بیداریِ شب سے آشنا ہوتے ہیں۔ یہی نوجوان روزِ قیامت ربِ ذوالجلال کے عرش تلے ہوںگے جس دن اس کے عرش کے سوااور کوئی سایہ نہ ہوگا۔

اے جوانانِ سعادت مند! یہ نعمت اتنی سستی نہیں‘ اس کے لیے آہ سحرگاہی کو اپنانا ہوگا‘ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر مالک کو منانا ہوگا‘ اس کے سامنے جھولی پھیلا کر گڑگڑانا ہوگا‘ تب جاکر   رضاے الٰہی کا گوہر مقصود حاصل ہوگا۔

حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات کے بعد کسی نے ان کو خواب میں دیکھا اور ان سے ان کا حال دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: ’’عبارات اُڑ گئیں‘ اشارات سب فنا ہوگئے اور ہمیں نفع نہیں دیا مگر ان چند رکعات نے جو ہم نے آدھی رات میں ادا کی تھیں‘‘۔ (تفسیر عزیزی)

میں نے ایک صاحبِ دل سے بارہا سنا‘ فرماتے تھے: ’جس کو جو کچھ ملا ہے تنہائی میں ملا ہے‘۔

اسی بات کو اقبال مرحوم نے یوں سمجھانے کی کوشش کی    ؎

عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی

صدہزار آفرین ان لوگوں پر جو راتوں کو اُٹھتے ہیں اور اپنے رب کے ساتھ رازو نیاز میں مشغول ہوتے ہیں۔ یہی لوگ ہوتے ہیں جو اوج ثریا پر پہنچتے ہیں‘ ستاروں پر کمند ڈالتے ہیں اور زمانے میں علم و حکمت کا آفتاب بن کر چمکتے ہیں کہ جس کی ضیاپاشیوں سے ایک عالم منور ہوتا ہے۔ افسوس صدافسوس ہم پر کہ دن رات ہم جن مقدس ہستیوں کا نام لیتے ہیں اور ان کے مراتب تک پہنچنے کے لیے آہیں بھرتے ہیں‘ان کی زندگی کے عملی گوشے کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ آج بھی ہم ان جیسا اخلاص و عمل اپنے اندر پیدا کرلیں تو ہم میں بھی رومی‘ رازی و غزالی پیدا ہوسکتے ہیں۔ آج بھی عقل کو خیرہ کرنے والی علمی و اصلاحی خدمات دوبارہ وجود میں آسکتی ہیں‘لیکن اس کے لیے اسلاف کی طرح ہمیں بھی بیداریِ شب سے آشنا ہونا پڑے گا‘ راتوں کو نیند قربان کرنا پڑے گی‘  سوز دروں بیدار کرنا پڑے گا۔ بقول شاعر    ؎

تو اے مسافرِ شب! خود چراغ بن اپنا
کر اپنی رات کو داغِ جگر سے نورانی

اللہ تعالیٰ ہمیں اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے کی اور ان کے اعمال کو اپنے اندر پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ آمین!