نائن الیون کے بعد‘امریکی استعمار دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں‘ مسلم ممالک پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے جن سوچے سمجھے منصوبوں پر عمل پیرا ہے‘ان میں سے ایک نئی نسلوں کی فکروعمل کو اس سانچے میں ڈھالنا ہے کہ وہ اپنی اقدار کے باغی ہوکر‘ مغربی اقدار کے علَم بردار بن جائیں۔ اس حوالے سے اپنے تھنک ٹینکس کی رپورٹس کی رہنمائی میں مسلم ممالک میں متعدد منصوبے زیرعمل ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے ایک مطالعہ پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)
لنکن کارنرز سابق امریکی صدر ابراہام لنکن کے نام پر پاکستان کی جامعات اور دیگر بڑے اور نام ور تعلیمی اداروںمیں قائم کیے جا رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے تعلیمی اداروں میںچار لنکن کارنرز کام کررہے ہیں جن میں پشاور یونی ورسٹی، اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد، کراچی رنگون والا کمیونٹی سنٹر اور آزاد جموں و کشمیر یونی ورسٹی مظفر آباد شامل ہیں۔ ان میں سے ہر لنکن کارنر پر ۵۰ہزار امریکی ڈالر لاگت آئی ہے اور اب اگلا ہدف پنجاب یونی ورسٹی اور ملک کی دیگر نامور جامعات اور تعلیمی ادارے ہیں۔
ان لنکن کارنرز میں ایسی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں امریکی سفارت کار، دانش ور اور دیگر حضرات شریک ہو سکیں اور براہ راست پاکستان کے طلبہ وطالبات سے مخاطب ہوں۔مثلاً ’’امریکی سفیر ریان سی کروکر نے ۷ مارچ ۲۰۰۷ء کو امریکی قونصل خانہ پشاور میں یونی ورسٹی کے طالب علموں کے تیسرے سالانہ مذاکرے کا افتتاح کیا۔ اس سال بحث کا عنوان ہے ’جمہوری مکالمات‘۔ امریکی سفیر نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ صدر بش نے جمہوریت کے فروغ کو امریکی خارجہ پالیسی کا کلیدی ستون قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہاکہ صدر مشرف نے وعدہ کیا ہے کہ پاکستان میں امسال آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرائے جائیں گے۔ امریکا اس فیصلے کی حمایت کرتا ہے۔ ’جمہوری مکالمات‘ کے شرکا کا انتخاب کڑی شرائط پر پورا اترنے والے طالب علموںمیں سے کیا جاتا ہے۔ اور یہ پشاور کے علاقے میں ۹ جامعات اور اداروں کی نمایندگی کرتے ہیں۔ (ماہنامہ خبر ونظر ‘اسلام آباد‘ مارچ ۲۰۰۶)
پشارو یونی ورسٹی میں ۲۰ مارچ ۲۰۰۷ء کو ’امریکی فارن سروس میں خواتین کی تاریخ‘ پر خطاب کرتے ہوئے امریکی قونصل خانہ کی پرنسپل آفیسر لین ٹریسی نے کہا:’’امریکی خواتین نے گذشتہ صدی کے دوران مختلف شعبوں بشمول سفارت کاری میں زبردست پیش رفت کی ہے‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ’’ محض ۳۷ برس قبل امریکی خواتین کو شادی کرنے کے لیے فارن سروس سے استعفا دینا پڑتا تھا۔ آج وزراے خارجہ البرائیٹ اور رائس نے ثابت کر دیا ہے کہ خواتین امریکا کی اعلیٰ سفارت کارکی حیثیت سے مؤثر طور پر خدمات سر انجام دے سکتی ہیں‘‘۔(ایضاً‘اپریل ۲۰۰۷ ء ص ۹)
ان لنکن کارنرز کے ذریعے امریکا کی پالیسیوں کے لیے حمایت حاصل کرنا، امریکا کے مجروح ہوتے ہوئے تشخص کو سہارا دینا اور پاکستانی طلبہ کو اسلام اور پاکستان کی تاریخ کے بجاے امریکا اور امریکیوں کی تاریخ سے آگاہ کرنا پیش نظر ہے۔ اس میں ہونے والی تقریبات ، ورکشاپس اور ڈائیلاگ کے ذریعے ان مقاصد کی آبیاری کی جائے۔
لنکن کارنرز کے بارے میں خبر ونظر ماہ جون۲۰۰۷ء کے صفحہ ۸ پر ملاحظہ ہو: اس میں ملٹی میڈیاسہولیات ، کتابیں اور رسائل موجود ہوتے ہیں جس سے ہر شخص استفادہ کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ پروگرام، تقریبات اور مختلف سرگرمیوں کے لیے ریڈنگ روم اور میٹنگ روم بھی موجود ہوتے ہیں۔ یہاں دستاویزی فلموں، مذاکروں، ورکشاپس، اجلاسوں اور نمایشوںکا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس میں مختلف امریکی دانش ور شریک ہوتے ہیں او ر پاکستان کے طلبہ و طالبات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہائیر ایجوکیشن کمیشن(HEC) نے ا س وقت پاکستان میں اسکالر شپ کی لوٹ سیل لگارکھی ہے اور اندھا دھند ایسے اسکالر شپس بانٹ رہا ہے جن کا فائد ہ نہ تو پاکستان کو ہوگا اور نہ متعلقہ امیدوار کو ہی۔یہ مختلف اسکالر شپس اسکیمیں ہیں جو اس وقت چل رہی ہیں۔ان میں سب سے بڑی اسکیم جو براہِ راست امریکی وزارت خارجہ کے تحت ہے پاکستانی طلبہ کے لیے ہے اور اس میں (HEC) کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔امریکی وزارت خارجہ براہ راست ان کے جملہ امور کو دیکھتی ہے ۔آیندہ پانچ برسوں میں ہرسال‘ ۵۰ پی ایچ ڈی اور ۱۰۰ ماسٹر کے امیدوار امریکا جائیں گے اور اس پر ۱۵۴ ملین ڈالر خرچ ہوں گے۔
انھی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں زباں میری ہے بات ان کی
انھی کی محفل سنوارتا ہوں چراغ میرا ہے رات ان کی
پاکستان کے نظام تعلیم کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے اور تعلیمی اداروں میں من پسند نصاب کو متعارف کروانے کے لیے ایک ایسی کمیونٹی کا سہارا لیا گیا جو اپنے نظریات اور عقائد کے اعتبار سے پاکستانی معاشرے سے کٹے ہوئے لوگ ہیں۔ ہماری مراد آغا خان امتحانی بورڈ سے ہے۔پاکستانی قوم کی بھرپور مخالفت اور احتجاج کے باوجود امریکی ایما پر بننے والا آغاخان بورڈ آنے والے حالات میں انتہائی گمراہ کن کردار ادا کرے گا۔ معاشرے میں اس کے خلاف مزاحمت موجود ہے لیکن آہستہ آہستہ ا س کو قابل قبول بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔اس کو امریکا نے ۵ء۴ملین ڈالر کی امداد دی جس سے اس بورڈ نے کام کا آغاز کیا۔ آغاخان بورڈ کے متعلق بہت ساری تفصیلات قارئین کے سامنے پہلے سے موجود ہیں اس لیے ہم اس کی تفصیلات میں نہیں جائیں گے۔
اس پروگرام کے تحت کالج کی بہتری کے لیے امداد دی جاتی ہے۔ اس پروگرام کو بہت خوب صورت پیرایے میں پیش کیا جاتا ہے ۔ اس پروگرام کے تحت سواے ’ایف سی کالج‘ کے پاکستان کے کسی تعلیمی ادارے کو کوئی مالی معاونت نہیں دی گئی ہے‘ اور ایف سی کالج کی بہتری کے لیے ۵ملین ڈالر کی ابتدائی امداد دی گئی ہے ۔یاد رہے کہ ۲۰۰۳ء میں اس کالج کو حکومت پنجاب نے امریکا کے ایک چرچ کے حوالے کر دیا تھا۔ اب یہ تعلیمی ادارہ عیسائی مشنریوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ پاکستان میں اسی طرح کے اور دیگر تعلیمی اداروں پر کام ہورہا ہے ۔ جن میں گورڈن کالج راولپنڈی، مرے کالج سیالکوٹ اور دیگر جن کو حکومت پرائیویٹ کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے تاکہ ایف سی کالج کے طرز پر ہر ڈویژن میں چرچ کا ایک ادارہ ہو جہاں سے عیسائی مشنری اپنا کام آسانی سے سر انجام دے سکیں۔
اس پروگرام کے تحت پاکستان کو ابتدائی پانچ سالوں کے لیے (۰۷-۲۰۰۲ء) ۲۵ ملین ڈالر کی امداد دی گئی تاکہ تعلیمی اداروں میں بنیادی تعلیمی سہولیات فراہم کی جاسکیں۔ یہ وہ پروگرام تھا جس سے ہماری حکومت اگر چاہتی تو کچھ نہ کچھ فائدہ حاصل کر سکتی تھی۔لیکن الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اس بات پر گواہ ہیں کہ کس طرح ’پڑھا لکھا پنجاب ‘ کے نام پر خطیر رقم صرف اشتہار بازی اور دیگر تعیشات پر صرف کی گئی۔ جس کے نتیجے میں قوم جہاں پر کھڑی تھی وہیں پر کھڑی رہ گئی۔ اس پورے پراجیکٹ میں اساتذہ کی تربیت کا پہلو خاص طور پر شامل رہا کہ اساتذہ کو جدیدیت کے نام پر تربیت دی جائے اور اس ’تربیت دینے‘ کا کام آغاخان فائونڈیشن کے سپرد کیا گیا تاکہ استعماری ایجنڈے کی تکمیل کا راستہ ہموار ہوسکے ۔(بحوالہ US Aid from The American People‘ ص ۱)
اس پروگرام کے تحت امریکا کا محکمہ خارجہ طلبہ، اساتذہ، وکلا،صحافی اور دیگر شعبہ ہاے زندگی سے تعلق رکھنے والے حضرات کا چنائو کرتا ہے اورپھر ان حضرات کو امریکا لے جایا جاتا ہے‘ اور قلب و نظرکو خیرہ کرنے والی مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر جب یہ لوگ واپس وطن لوٹتے ہیں تو پاکستان کے تعلیمی اداروں اور سیاسی کلبوں میں امریکا کی سفارت کاری کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔ یاد رہے کہ ان تمام لوگوں کا انتخاب خود امریکا کا محکمۂ خارجہ کرتا ہے۔ کسی یونی ورسٹی، وائس چانسلر یا حکومت پاکستان کا اس میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔
ان تمام تاثرات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کس طرح سے امریکی محکمۂ خارجہ ہمارے تعلیمی اداروں میں نقب زنی کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد کی آبیاری کررہا ہے۔ اور ہر تعلیمی ادارے میں اپنے سفیر تعینات کررہاہے جو دن رات محنت کرکے استعماری ایجنڈے کی تکمیل کی راہ ہموار کررہے ہیں۔
اس پروگرام کا بنیادی مقصد اساتذہ کرام کی تربیت ہے لیکن دوران تربیت ان کو انگریزی زبان میں مہارت پیدا کرنے کے لیے کتابوں کا تحفہ دیا جاتا ہے۔ اس لیے اس کا خوب صورت نام ’Books in box‘ہے۔ کتابوں اور تربیت کے امتزاج پر مبنی اس پروگرام کا مقصد انگریزی اساتذہ کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا ہے اور اس کے ذریعے دنیا بھر میں انگریزی کی تدریس کو بہتر بنانے کے مواقع میسر آتے ہیں۔ یہ ان ۴۶ باکس میں سے ایک باکس ہے جس کوامریکی سفارت خانے کا شعبۂ امور عامہ پاکستان میں مختلف تعلیمی اداروں میںتقسیم کرتا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے دفتر براے انگریزی زبان پروگرام نے ایک نئے منصوبے کااعلان کیا ہے جس کے تحت انگریزی زبان کے اساتذہ کے لیے کتابیں اور ماخذ فراہم کیے جاتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں ملک کے اندر ہی ’’ امریکی ماہرین تعلیم سے تربیت حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے‘‘۔ تعلیم کی بہتری کے لیے سرگرم ’Development in literacy‘ کا نیٹ ورک پاکستان بھر میں ۱۵۰ اسکول چلا رہا ہے، جس میں تقریباً ۱۳ ہزار بچے زیر تعلیم ہیں۔(خبرونظر‘مئی ۲۰۰۷ء ‘ص ۱۵)
گویا اساتذہ کی تربیت اس نہج پر کی جائے کہ وہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کا فریضہ سر انجام دیتے ہوئے فکرونظر کے پیمانوں کو اس انداز میں تبدیل کریں کہ ملک و قوم کو احساس بھی نہ ہو کہ ہمارے ساتھ کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔
یوتھ ایکسچینج اینڈ اسٹڈی پروگرام کے تحت پاکستان کے ہائی اسکولوں کے طلبہ و طالبات کو امریکا میں ایک سال کی تعلیم کے لیے اسکالر شپ دیا جاتا ہے۔ اس پروگرام کے لیے مالی اعانت امریکی محکمہ خارجہ کا شعبہ ثقافتی امور فراہم کرتا ہے، جس کے ذریعے متعدد ملکوں کے ہائی اسکولوں کے طالب علموں کو ایک سال تک امریکی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے اور امریکی میزبان گھرانوں میں قیام کا موقع میسر آتا ہے۔(ایضاً‘مئی ۲۰۰۷ ء‘ص ۱۶)
اس پروگرام کے تحت امریکی محکمہ خارجہ مختلف این جی اوز کے ذریعے پاکستانی طلبہ و طلبات کو انگلش زبا ن و ادب کی تعلیم دیتے ہیں اور آخر میں ان تمام طلبہ وطالبات کو امریکا کا دورہ بھی کرایا جاتا ہے۔ لاہور کی ایک غیر سرکاری تنظیم ’کئیر‘(CARE) کو ۲۰۰۴ء میں ڈیڑھ لاکھ ڈالر مالیت کی امداد دی گئی جس کے تحت دوسال کی مدت میں مختلف سرکاری اسکولوںمیں زیر تعلیم ۲۰۰ بچوں کو امریکی طرز کے کمرہ جماعت میں تحریری اوربول چال کی انگریزی زبان سکھائی جائے گی۔۲۰۰۶ء میں کئیر کو مزید ڈیڑھ لاکھ ڈالرکی گرانٹ فراہم کی گئی۔ انگریزی زبان کا یہ پروگرام ۲۰۰۴ء میں لاہور میں شروع کیا گیا اور بعد ازاں کراچی، پشاور، راولپنڈی ملتان اور گوادرمیں ایسے پروگرام شروع کیے گئے۔(ایضاً‘ اپریل ۲۰۰۷ء‘ ص ۱۸)
انگریزی زبان و ادب سے شناسائی کے بعد ان ۲۰۰ طلبہ و طالبات کو امریکا لے جایا گیا اور امریکا سے واپسی پر طلبہ و طالبات نے اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا: ’’ہم نے دوسرے ملکوں سے آنے والے طالب علموں اور اپنے میزبان خاندانوں میں بہت سارے دوست بنائے۔ ہمارا ’ای میل‘ اور ’نیٹ چیٹ‘ کے ذریعے ان سے اب بھی رابطہ ہے۔ ہم ایک دوسرے سے اپنے اپنے ملکوں کے تہواروں، پکوان اور لباس کے بارے میں تبادلۂ خیال کرتے ہیں اور دنیا میں ہمارے متعلق پائے جانے والے تاثر کے بر عکس ہم کھلے ذہن او رآزاد خیال کے مالک ہیں۔ جانے سے قبل ہمارا اس ملک کے متعلق ایک غلط تصور تھا لیکن وہاں کے لوگوں کی میزبانی نے ہمارے خیالات تبدیل کر دیے ہیں‘‘۔ (ایضاً‘اپریل ۲۰۰۷ ء‘ص ۱۷)
پاکستان کے تعلیمی اداروں اور نظام تعلیم میں بڑھتی ہوئی امریکی مداخلت نے ہر پاکستانی کو پریشان کر رکھا ہے اور اس پر مستزاد پاکستان کے وفاقی وزیر تعلیم کے بیانات اس پر جلتی کا کام کررہے ہیں۔ اس پورے منظر نامے میں امریکا کا محکمۂ خارجہ اور پاکستان کے مختلف شہروں میں قائم امریکی قونصلیٹ خصوصی کردار ادا کر رہے ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروںجن میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک شامل ہیں تعلیم کے میدان میں اپنی شرائط پر پاکستان کو قرضوں کے جال میں کس رہے ہیں، اور ساتھ ساتھ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کا کام جاری ہے۔
اس پورے پیکج میں پاکستان کے پرائمری کلاس کے طالب علم سے لے کر یونی ورسٹی کی سطح تک کا طالب علم شامل ہے۔ اس طرح پوری اساتذہ برادری براہِ راست امریکی حملے کی زد میں ہے۔ اس وقت حالات اس بات کا تقاضا کر رہے ہیں کہ اس پوری تعلیمی جنگ(War on Education) کوسمجھا جائے اور پاکستان کے تعلیمی اداروںمیں بڑھتی ہوئی امریکی مداخلت کا سدِباب کیا جائے۔ اس کے نتائج ملک وملّت کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گے۔ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ایک ہمہ گیر اور واضح تعلیمی پالیسی نظریۂ پاکستان کی روشنی میں ترتیب دی جائے تاکہ جن مقاصد کے لیے ہمارے آباواجداد نے قربانیاں دی تھیں ان کی آبیای کی جاسکے۔