یہ حدیث مسلمانوں کے لیے بہت باعثِ تقویت ہے۔ ویسے تو لوگ آپس میں ملے جلے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔ ساتھ بیٹھنا‘ کھانا‘ پینا ہم انسانوں کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر یہ سب اللہ کی محبت میں ہو اور اللہ کی خاطر ہو تو اس کے جواب میں اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے اور جس سے اللہ محبت کرے ‘ اس کے لیے تو ہر منزل آسان ہوجاتی ہے۔ دین اور دنیا دونوں میں بھلائی کے دروازے کھل جاتے ہیں‘ اور قیامت کے دن وہ لوگ انبیا‘صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوں گے۔
اس حدیث میں رسولؐ اللہ کی لائی ہوئی کتاب کو قبول کرنے والے کو ایسی زمینوں سے تشبیہہ دی گئی ہے جن میں سے ایک تو بارش کے پانی کو جذب کر کے سرسبز و شاداب ہوجاتی ہے اور دوسری اگرچہ سرسبز نہیں ہوتی‘تاہم بارش کے پانی کو روک لیتی ہے جس سے لوگ اور اللہ کی دوسری مخلوق فائدہ اٹھاتی ہے۔ اسلام بارانِ رحمت کی مانند ہے۔ اس رحمت سے وہی لوگ فائدہ حاصل کرتے ہیں جو اس کی طرف بڑھتے ہیں اور قبول کرتے ہیں۔ اسلام دین فطرت ہے۔ جب کوئی شخص اسلام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیتا ہے تو وہ خود بھی پُرسکون ہوجاتا ہے اور دوسروں کے لیے بھی تسکین کا باعث بن جاتا ہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انسان اس کا پیامبر بن جاتا ہے اور لوگوں کے لیے فیض کا باعث بن جاتا ہے۔ لیکن جو لوگ اسلام کو قبول نہیں کرتے‘ وہ چٹیل زمین کی طرح ہوتے ہیں‘ نہ خود اپنے لیے فائدہ مند ہوتے ہیںاور نہ دوسروں کے لیے۔
نیکی بہت قیمتی چیز ہے۔ ایک مسلمان نیکی حاصل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور کسی نیکی کو بھی کم تر سمجھ کر نہیں کھوتا۔ حتیٰ کہ ایک ایسا شخص جس سے کوئی خاص قلبی تعلق نہیں ہوتا لیکن اگر اس سے ملاقات ہوجاتی ہے تو انتہائی عاجزی‘ انکسار اور محبت سے اس سے ملتا ہے۔
دوزخ انتہائی ہولناک جگہ ہے اور اس میں صرف وہی لوگ داخل کیے جائیں گے جنھوں نے اللہ کو ناراض کیاہوگا۔ جب یہ فرمایا جا رہاہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ انتہائی خراب چیزیں ہیں۔ سرکش اس کو کہیں گے جو پابندی قبول کرنے کے بعد بھی اپنے آپ کو پابند نہ کرسکا‘ یعنی خرابیوں کے علم کے باوجود من مانی کی۔ اُجڈ‘ جاہل شخص کو کہا جاتا ہے۔ اصل میں تو زیادہ تر خرابیاں جہالت ہی کی بنا پر وجود میں آتی ہیں۔ آنکھیں بند کرلینا‘ دل کو پردے میں بند کرلینا اور کچھ سمجھنے کی کوشش نہ کرنا پہلی خرابی ہے اور پھر اس کے بعد انسان خرابیوں کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔ تکبر بھی ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کو ہرجگہ ذلیل کرتی ہے۔ تکبر کی بنا پر انسان لوگوں کی نظروں میں حقیر ہوجاتا ہے۔ اس لیے ان تینوں بیماریوں سے بچنے کی کوشش کرنا چاہیے۔
مال و دولت اللہ کی عطا کردہ نعمت ہے۔ اللہ نے جس کے مقدر میں جتنی دنیا رکھی ہے اس سے زیادہ اس کو نہیں مل سکتی۔ اگر عقل‘ علم اور محنت سے یہ چیز حاصل ہوتی تو سارے ہی عقل مند‘ عالم اور محنتی دولت مند ہوتے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ عملاً ایسا نہیں ہوتا ہے۔ یہ خداکی دین ہے‘ جس کو بھی دے دے۔ اب جس کو مال ملا اس کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ اس مال کو مالک کی مرضی سے خرچ کرے۔ جب وہ اللہ کی مرضی سے خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اور ذرائع کھول دیتا ہے۔ صرف دنیا ہی نہیں بلکہ اگلی دنیا جس میں ہر انسان کو لازماً جانا ہے‘ بہترین ہوجاتی ہے۔ دوسری صورت میں یہ مال دنیا ہی میں نہیں‘ بلکہ آخرت میں بھی وبالِ جان بن جائے گا۔
اس حدیث میں دو اور باتوں کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے: ایک یہ کہ لوگوں کی زیادتیوں کو معاف کرنا اور انکسار اختیار کرنا۔ یہ دونوں ایسی عادتیں ہیں کہ اگر ان کو کوشش کر کے اختیار کرلیا جائے تو بہت حد تک انسان خوش اور مسرور رہتا ہے اور لوگ اس سے محبت کرتے ہیں۔
آج دنیا اپنی پوری حشرسامانیوں کے ساتھ موجود ہے۔ اس میں وہ حُسن اور کشش پیدا کردی گئی ہے کہ دل کھنچا چلا جاتا ہے اور ایک کے بعد ایک آرزوئیں اور خواہشیں انگڑائیاں لیتی رہتی ہیں۔ آرزوئیں اور خواہشیں توانسان ہونے کے ناطے پیدا ہوں گی لیکن اگر ان کو کوشش کر کے طول نہ دیاجائے اور ان پر قدغن لگائی جائے تو اسی میں آخرت کی بھلائی ہے۔
اسلام ایک بہت بڑی دولت ہے۔ یہ دولت جس کوخدا کی رحمت سے ملی اس کو اس کی قدر اور حفاظت کرنی چاہیے۔ اس کی حفاظت کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اللہ کی طرف سے جتنا رزق اس کو ملا صبروشکر کے ساتھ استعمال کرے اور قناعت اختیار کرے۔ دوسروں سے امیدیں لگانا اور اپنی ضروریات کو بڑھانا اور پھر گلہ شکوہ کرنا ایک مسلمان کی شان نہیں ہے۔ اس سے مسلمان کا دین اور ایمان داغ دار ہوتا ہے‘ اور پھر دن رات اس کا یہی کام ہوتا ہے کہ وہ خدا اور بندوں دونوں سے گلہ شکوہ کرتا رہتا ہے۔