ترجمہ: عمرفاروق مودودی
ڈاکٹر سباعی شام میں اخوان المسلمون کے بے مثل قائد تھے۔ کئی برس تک دمشق یونی ورسٹی کی شریعہ فیکلٹی کے سربراہ اور علمی مجلہ حضارۃ الاسلام کے مدیر بھی رہے۔ انتقال سے ایک سال قبل (۱۹۶۳ئ) علاج کی غرض سے مغربی جرمنی گئے‘ تو واپسی پر ایک جرمن صحافی نے آپ سے یہ انٹرویو کیا جس کا حضارۃ الاسلام سے ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔چار عشروں سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود اہلِ مغرب کے لہجے میں آج بھی وہی طنطنہ ہے۔ دراصل تہذیبوں کا تصادم کوئی جدید نظریہ نہیں‘ اسلامی تحریکات کے قائدین پہلے بھی آج کی طرح اس کا سامناکر رہے تھے۔ (مدیر)
- جرمن صحافی: استعمار اور معاشرتی پس ماندگی کے خلاف مسلمانوں میں جو تحریکات چل رہی ہیں ان کے بارے میں اسلام کا موقف کیا ہے؟
- ڈاکٹر سباعی: اسلام دین آزادی ہے۔ وہ نہ یہ پسند کرتا ہے کہ مسلمان کسی بھی سامراجی کے آگے جھکیں اور نہ یہ کہ وہ کاروبارِ زندگی میں پیچھے رہ جائیں۔ اسلام ہی کی تعلیمات نے عربوں کو ۱۴ سو برس سے ہرقسم کے بے ہودہ رسم و رواج سے محفوظ رکھا ہے۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے عربوں کو امن و انصاف اور آزادی کا پیغامبر بناکر اقوامِ عالم کی طرف بھیجا‘ انھیں تہذیب سکھائی‘ ان کی آنکھوں سے جہالت کے پردے ہٹائے‘ انھیں تمام بندگیوں سے آزاد کر کے ایک خدا کا بندہ بنایا اور ان کے اندر انسانی بھائی چارے کی وہ روح پھونکی جو کوئی دوسرا قدیم و جدید دین یا فلسفہ پھونکنے پر قادر نہ تھا۔
- پھر کیا وجہ ہے کہ موجودہ زمانے میں مسلمان متمدن اقوام سے پیچھے رہ گئے ہیں؟
- اس کے بہت سے اسباب ہیں اور ان میں سے سب سے زیادہ اہم سبب یہ ہے کہ موجودہ زمانہ سامراج سے متاثر ہے۔ جب سے مسلمان ممالک اس سامراجی نظام میں گرفتار ہوئے ہیں‘ سامراج اپنے تمام وسائل و ذرائع کے ساتھ پیہم اسلام کی بیخ کنی کرنے‘ اس کی تعلیمات کا حلیہ بگاڑنے اور نئی نسلوں کو اس کی روح سے بے گانہ کرنے میں مصروف رہا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کی اسلام کی طرف بازگشت میں دراصل اقوامِ مغرب ہی سنگِ گراں بنی ہوئی ہیں۔
- میں یہ باور نہیں کرسکتا کہ امریکا‘ برطانیہ اور فرانس اسلام سے متحارب ہیں؟
- اسلام کے ساتھ اس عداوت میں شرق و غرب کی شرکت میں ہمیں کوئی شبہہ نہیں ہے۔ میں ابھی چند روز قبل مغربی جرمنی سے واپس آیا ہوں۔ جو کچھ میں نے وہاں دیکھا‘ اسے میں آپ کے سامنے مغرب کی اسلام دشمنی کے ثبوت میں بطور مثال کے عرض کرتاہوں۔ مجھے اس چیز نے پریشان کردیا کہ وہاں ہر میدان میں خواہ وہ فکرونظر کا میدان ہو یا پروپیگنڈے کا‘ یونی ورسٹی ہو یا گرجا یا نجی مجالس‘ ریڈیو ہو یا ٹیلی ویژن‘ غرص ہر جگہ اسلام کے حقائق کو مسخ کرنے اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے ایک منظم منصوبہ موجود ہے۔ کیا آپ اس سے انکار کرسکتے ہیں؟
- یہ درست ہے‘ ہوسکتا ہے اس کا سبب یہ ہو کہ آپ تہذیب کا ساتھ دینے کے بجاے پیچھے رہ گئے-
- ہم کس میدان میں آپ کو اپنی تہذیب سے پس ماندہ نظر آتے ہیں؟
- عورت ہی کے مقام کو لے لیجیے۔ آپ یہ گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ عورت اپنے شوہر کے ساتھ مجالس و محافل اور رقص و سرود میں شرکت کرے۔ آپ مصر ہیں کہ وہ کارخانے میں کام نہ کرے؟
- کیا آپ کے ہاں عورت کا مقام گھر سے نکلنے کے بعد معاشرتی نقطۂ نظر سے محفوظ و مامون ہوگیا ہے؟ کیا اس چیز نے آپ کو گھریلو نظام کی تباہی تک نہیں پہنچایا اور کیا سال بہ سال آپ کے ہاں اخلاقی جرائم اور ناجائز اولاد میں اضافہ نہیں ہو رہا؟
- میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ ہمارا گھریلو نظام بری طرح تباہ ہوچکا ہے اور اس تباہی کے ہاتھوں ہم نے بڑے دکھ اٹھائے ہیں لیکن یہ ایک ایسا تاوان ہے جس سے ہم علمی ترقی کے ذریعے عہدہ برآ ہوگئے ہیں-
- جب آپ پر عورت کے عام محفلوں میں جانے کے نقائص اور مضرات واضح ہوچکے ہیں تو پھر آپ ہم پر اپنا فلسفہ کیوں ٹھونسنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ آپ خود اس کی بہت بڑی قیمت ادا کرچکے ہیں اور ہم سے ہمارا فلسفہ کیوں چھڑانا چاہتے ہیں جس نے ہمارے گھریلو نظام کی مسلسل ایک ٹھوس ستون کی طرح حفاظت کی ہے۔
- میں چاہتا ہوں کہ اس نکتے کی وضاحت کردوں: آپ ہماری علمی ترقی کے حاجت مند ہیں اور ہم آپ کو یہ ترقی دے بھی سکتے ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ اگر آپ یہ چاہیں کہ ہماری تہذیب کا کوئی ایک پہلو لے لیں تو ایسا نہیں ہوسکتا بلکہ آپ کو یہ کل کی کل‘ اپنے تمام محاسن و معائب کے ساتھ لینی پڑے گی اور آپ کو اس کی وہی قیمت ادا کرنی پڑے گی جو ہم کرچکے ہیں-
- میں آپ سے یہ پوچھتا ہوں کہ کیا آپ کے ہاں عورت کا گھر سے باہر نکلنا اور اس کا کارخانوں میں کام کرنا ایک تہذیبی اساس کی حیثیت رکھتا تھا اور کیا آپ کی تہذیب اس کے بغیر نہیں چل سکتی تھی؟
- جب ہماری صنعتی ترقی کی ابتدا ہوئی اس وقت ہمارے ہاں مردوں کی تعداد اتنی نہیں تھی کہ وہ صنعتی پیداوار کے لیے کافی ہوسکتی- اس لیے اس بات پر ہم مجبور ہوگئے کہ عورتیں بھی کارخانوں میں جا کر کام کریں-
- تو پھر آپ ہم سے اس چیز کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں جسے آپ نے تو مجبوراً اختیار کیا لیکن ہم اسے اختیار کرنے پر مجبور نہیں ہیں اور میری راے میں تو دراصل آپ کو دو امور نے عورت کو اس کے گھر سے نکال کر عمومی زندگی میں لانے پر مجبورکیا ہے۔ اوّلاً یہ کہ آپ لوگ ہر وقت اور ہرجگہ عورت کو اپنے پہلو میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ ثانیاً آپ لوگ اس کے اخراجات بحیثیت بیوی یا بیٹی اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس لیے آپ نے اسے مجبور کردیا کہ وہ کارخانوں میں جائے اور اپنے اخراجات خود اُٹھائے۔ ان دونوں وجوہات کا ہمارے ہاں کوئی وجود نہیں ہے۔ اسلام اس قسم کے اختلاط کی اجازت نہیں دیتا۔ چنانچہ ہمارے ہاں مرد عورت کو ہر جگہ دیکھنے کا خواہش مند نہیں ہے اور اسلام کا نظام نفقات ایک مرد کے لیے یہ لازم کرتا ہے کہ وہ اپنی ماں‘ بیوی اور بیٹی کے اخراجات برداشت کرے یہاں تک کہ وہ شادی کرلے۔ یہی چیز عورت کو ان فرائض کی ادائی کے لیے فارغ کردیتی ہے جو اس پر گھر اور بچوں کی طرف سے عائد ہوتے ہیں۔ اس طرح ہم اپنے گھریلو نظام کے استحکام اور اپنے معیارِ اخلاق کی بلندی کو باقی رکھتے ہوئے بھی آپ کی علمی ترقی حاصل کرسکتے ہیں۔ آپ کے مشہور رسالے سیٹرن نے اپنی گذشتہ ستمبر کی اشاعت میں جرمنی میں مزدور عورتوں کے بارے میں ایک تحقیقی فیچر شائع کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان عورتوں کی اکثریت اس لیے کام کرتی ہے کہ کوئی ان کے اخراجات برداشت کرنے والا نہیں ہے۔ نیز یہ کہ اس طرح اپنے ہم کاروں ہی میں سے انھیں شوہر کے حصول کی بھی امید ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں عورت یہ دو وجوہات نہیں پاتی کہ ان کی بنا پر وہ کام کرنے پر مجبور ہو۔
- مجھے شبہہ ہے کہ آپ ہماری تہذیب کی مضرتوں سے بچ نہیں سکیں گے-
- مجھے یقین ہے کہ ایسا ممکن ہے بشرطیکہ ہمارے ہاں ایسی حکومتیں ہوں جو ہماری ترقی کو صحیح سمت میں‘ عزتِ نفس کے جذبے سے سرشار ہوکر اور کورانہ تقلید سے پاک رہ کر‘ ڈال سکیں۔
- ہم ایک اور موضوع لیتے ہیں- یورپ میں کیتھولک کلیسا اپنی لچک اور ارتقا کے ذریعے سے لوگوں کے دلوں میں اپنے مقام کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہوگیا- کیا اسلام میں بھی اتنی لچک ہے کہ وہ زندگی کے ارتقا کا ساتھ دے سکے؟
- اس کے لیے ہمیں مفاہیم کو متعین کرلینا چاہیے۔ آخر لچک اور ارتقا سے مراد کیا ہے؟ آیا لچک اور ارتقا وہی ہے جس کا نظارہ ہم نے یورپ میں کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ آپ کے ہاں کلیسا کی لچک نوجوان مردوں اور عورتوں کے کلب کی شکل میں ظاہر ہوئی ہے جس میں رقص و شراب کی محفلیں پادری کی نگرانی میں جمتی ہیں‘بلکہ وہی ان کا افتتاح رقص و شراب کے ساتھ کرتا ہے۔ اس کلب میں لڑکوں اور لڑکیوں کی مخلوط پکنک پارٹیاں ہوتی ہیں جن میں ان اخلاقی جرائم کا عدمِ وقوع محال ہوتا ہے جن کی نفی میں تمام ادیان و مذاہب متفق ہیں۔ سو اگر آپ اسلام سے بھی یہ چاہتے ہیں کہ اس میں بھی ایسی ہی لچک پیدا ہوجائے تو یہ تو ہونے سے رہا۔ دراصل اسلام کے کچھ آداب اوراس کا ایک خاص نظام ہے جس سے اگر بغاوت کی جائے تو وہ کوئی دین جدید تو ہوسکتا ہے اسلام نہیں ہوسکتا۔ اور پھر آخر اس دین کا فائدہ ہی کیا ہے جو طبیعت کی طغیانی پر بند نہ باندھے اور گناہ و نافرمانی پر حد نہ لگائے۔
- پھر تو آپ کو مشکلات سے دوچار ہونا پڑے گا- کیتھولک کلیسا نے عوام کے دلوں میں اپنے اثر کی حفاظت کی طرف سے غفلت برتی ہے اور اسی چیز کا خطرہ مجھے اسلام کے بارے میں ہے کہ اس میں بھی لچک نہیں ہے-
- میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ کی نظر میں زنا اور شراب نوشی مضر ہیں یا نہیں؟
- مضر ہی نہیں بلکہ مَیں تو کہتا ہوں کہ یہ دونوں چیزیں حرام ہیں-
- لیکن کلیسا تو اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ خود جرمنی میں صوم کبیر سے پہلے کارنیوال کے مہینوں میں جو جشن مسلسل تین دن تک کلیسا کے علم اور اس کی نگرانی میں منایا جاتا ہے اس میں لوگوں کو ہرقسم کے اخلاقی اور دینی چھوٹ دے دی جاتی ہے۔ اعداد و شمار سے ثابت ہوتا ہے کہ ہرسال کارنیوال کے بعد کنواری حاملائوں کی تعداد پچھلے سال کی بہ نسبت کہیںزیادہ ہوتی ہے۔ اس کے بعد وہ اور کون سا اثر ہے جو لوگوں کے دلوں میں کلیسا کا باقی رہ جاتا ہے؟ یہ کس قسم کی لچک ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ اسلام میں بھی پیدا ہوجائے؟ شاید آپ کو یہ بات معلوم ہوگی کہ آپ کے ہاں لوگوں کو کلیسا کے ساتھ اتنا تعلق نہیں ہے جتنا کہ آپ چاہتے ہیں کہ ہو۔ بلکہ حکومت کی پشت پناہی اور لوگوں پر کلیسائی ٹیکس لگانے کے باوجود کلیسا سے بے زاری دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ بعض جرمنوں نے تو بدھ مت اختیار کر کے فرینکفرٹ میں باقاعدہ مندر تک بنا لیا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ بدھ مت بت پرستی ہے۔ انسانی عقل نے بعض اقوام میں اسے اس زمانے میں قبول کیا تھا‘ جب کہ جہالت اور تاریکی کا دور دورہ تھا۔ کیا یہ بات تعجب خیز نہیں ہے کہ اس بیسویں صدی میں یورپی عقل اس بت پرستی کو قبول کر رہی ہے اور اس کے لیے مندر تعمیر کررہی ہے؟ لوگوں کے دلوں میں کلیسا کا وہ اثر ہے کہاں جس کے متعلق آپ ارشاد فرماتے ہیں؟
اگر آپ اسلام سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ بھی لچک دار ہوجائے اور لوگوں کو ہوا و ہوس میں کھل کھیلنے کی چھٹی دے دے تو میں آپ پر واضح کردیتاہوں کہ اس قسم کی لچک تو اسلام میں موجود نہیں ہے‘البتہ جو لچک اسلام میں موجود ہے وہ یہ ہے کہ ہراچھی چیز سے استفادہ کیا جائے۔ علم اور فکری ارتقا کے وسائل اختیار کیے جائیں۔ اس لچک کا اظہار خود آپ کے ہاں اور یورپ اور امریکا میں ہمارے وہ سیکڑوں اسلام پسند نوجوان کرتے ہیں جو آپ کی یونی ورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں اور آپ کی تہذیب کے عین قلب میں رہتے ہوئے بھی اپنے اخلاق و کردار کی حفاظت کرتے ہیں‘ جیساکہ اسلام ان سے مطالبہ کرتا ہے۔ وہ نہ شراب پیتے ہیں‘ نہ بے راہ روی اختیار کرتے ہیں‘ نہ ان کے طرزِعمل میں کوئی تبدیلی آتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس سے ان کے اساتذہ اور ان کے ہمسایوں کے نزدیک ان کا مقام بلند ہوجاتا ہے۔ میں خود سن چکا ہوں کہ جرمن اور دوسرے یوروپین ان کے شریفانہ کردار پر کس قدر حیرت زدہ ہوتے ہیں۔ مجھ سے ایک جرمن نے جو ایسے ہی ایک نوجوان اور اس کی استقامت سے واقف تھا کہا کہ یہ نوجوان تو راہب معلوم ہوتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ آج ساری دنیا میں ان کے سے اخلاق اور استقامت کا اور بھی کوئی ہوگا۔ اسلام میں اگر کوئی لچک ہے تو بس یہی اس کی مثال ہے۔ اسلام علم کا خیرمقدم کرتا ہے‘ تہذیب و تمدن سے استفادہ کرتا ہے‘ لیکن ان کے معائب اور نقائص سے دامن بچاتا ہے۔ اور یہی دلیل ہے اس بات کی کہ ہم آپ کی تہذیب اور علمی ترقی سے استفادہ کرسکتے ہیں بغیر اس کے کہ آپ کی تہذیب کے کانٹوں سے دامن دریدہ ہوں۔
- یہ صحیح ہے- مجھے جرمنی میں اسی طرح کے چند نوجوانوں کے ساتھ رہنے کا اتفاق ہوا ہے- حقیقت یہ ہے کہ تہذیب کی ترغیبات و تحریصات سے جس طرح ان لوگوں نے اعراض کیا ہے‘ میں خود اس پر دنگ رہ گیا- حتٰی کہ میں نے جب اپنی ایک نشری گفتگو میں کہا کہ جرمنی اور یورپ کے مختلف ممالک میں ۲۴‘ ۲۴ اور ۲۵‘ ۲۵ برس کے ایسے نوجوان رہتے ہیں جو لذتِ وصال سے ناآشنا ہیں تو کسی نے میری بات پر اعتبار نہ کیا۔ البتہ جہاں تک کارنیوال کا تعلق ہے تو شاید اس کا سبب کیتھولک مذہب کا ’اعتراف‘ (confession) ہے جو اسلام میں موجود نہیں ہے- اور یہی چیز آپ کے نوجوانوں کو عیاشیوں میں غرق ہونے سے روکتی ہے-
- اسی سے آپ دیکھیے کہ ہم آپ کے ہاں اس وجہ سے نہیں جاتے ہیں کہ آپ کی اجتماعی زندگی کے انداز اور اس کی اخلاقی قدریں ہمیں بھا گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آپ کی لغزشوں میں حصہ دار بنے بغیر آپ کی علمی ترقی سے استفادہ کرسکتے ہیں۔
- جرمن صحافی:میں آپ کا ازحد شکرگزار ہوں-آپ نے مجھے ایک ایسی حقیقت سے روشناس کیا ہے جس سے ہم اب تک غافل تھے اور وہ یہ کہ ہم اپنی اجتماعی زندگی کے مظاہرے سے آپ کو مرعوب نہیں کرسکتے۔ آپ اس کے معائب سے پوری طرح باخبر ہیں اور اس سے دُور رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی طرح میں اس بات کے لیے بھی شکریہ اداکرتا ہوں کہ آپ نے اسلام کے بارے میں میری غلط فہمیاں رفع کردیں۔ آج تک مجھے اپنے متعلق یہ خیال رہا کہ میں سب سے زیادہ اسلام اور مسلمانوں اور ان کے تہذیبی مسائل کو جانتا ہوں لیکن آپ نے مجھے بتا دیا کہ میں بہت کچھ نہیں جانتا‘ خدا حافظ۔ (دسمبر ۱۹۶۴ئ)