سیّدہ پروین رضوی


پردہ ملک کی ترقی میں رکاوٹ ہے یا نہیں؟ اس سوال کا فیصلہ کرنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ پردہ ہے کیا چیز؟ کیوں کہ اس کے بغیر ہم اس کی غرض، اس کے فائدے اور اس کے نقصانات کو نہیں سمجھ سکتے۔ اس کے بعد ہمیں یہ طے کرنا چاہیے کہ وہ ترقی کیا ہے، جسے ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ کیوں کہ اسے طے کیے بغیر ہم یہ معلوم نہیں کر سکتے کہ پردہ اس میں حائل ہے یا نہیں؟

’پردہ‘ عربی زبان کے لفظ '’حجاب‘ کا لفظی ترجمہ ہے۔ جس چیز کو عربی میں ’حجاب‘ کہتے ہیں، اسی کو فارسی اور اردو میں ’پردہ‘ کہتے ہیں ۔ ’حجاب‘ کا لفظ قرآن مجید کی اس آیت میں آیا ہے، جس میں الله تعالی نے لوگوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں بے تکلف آنے جانے سے منع فرمایا تھا، اور حکم دیا تھا کہ اگر گھر کی خواتین سے کوئی چیز مانگنی ہو تو حجاب (پردے) کی اوٹ سے مانگا کرو۔ اسی حکم سے پردے کے احکام کی ابتدا ہوئی۔ پھر جتنے احکام اس سلسلے میں آئے، ان سب کے مجموعے کو ’احکامِ حجاب‘ (پردے کے احکام) کہا جانے لگا۔

پردے کے احکام قرآن مجید کی چوبیسویں اورتینتیسویں سورت میں تفصیل کے ساتھ موجود ہیں۔ _ ان میں عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنےگھروں میں وقار کے ساتھ رہیں۔ اپنے حسن اور اپنی آرائش کی نمائش نہ کرتی پھریں جس طرح زمانۂ جاہلیت کی عورتیں کرتی تھیں ۔ گھروں سے باہرنکلنا ہو تو اپنے اوپر ایک چادر ڈال کر نکلیں اور بجنے والے زیور پہن کر نہ نکلیں۔ گھروں کے اندر بھی محرم مردوں اور غیرمحرم مردوں کے درمیان امتیاز کریں ۔ محرم مردوں اور گھر کے خادموں اور میل جول کی عورتوں کے سوا کسی کے سامنے زینت کے ساتھ نہ آئیں (زینت کے معنیٰ وہی ہیں، جو ہماری زبان میں آرائش و زیبائش اور بناؤ سنگار کے ہیں۔ اسی میں خوش نما لباس، زیور اور میک اَپ تینوں چیزیں شامل ہیں)۔ پھر محرم مردوں کے سامنے بھی عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈال کر رکھیں اور اپنا ستر چھپائیں۔ گھر کے مردوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ ماں بہنوں کے پاس بھی آئیں تو اجازت لے کر آئیں ، تاکہ اچانک ان کی نگاہ ایسی حالت میں نہ پڑے، جب کہ وہ جسم کا کوئی حصہ کھولے ہوئے ہوں۔

یہ احکام ہیں جو قرآن حکیم میں دیے گئے ہیں اور انھی کا نام ’حجاب‘ (پردہ) ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تشریح فرماتے ہوئے بتایا کہ عورت کاستر چہرے ، کلائی کے جوڑ تک ہاتھ اور ٹخنے تک پاؤں کے سوا اس کا پورا جسم ہے ، جسے باپ اور بھائی تک سے چھپا کر رکھنا چاہیے، اور ایسے بار یک اور چست کپڑے نہ پہننے چاہییں، جن کے اندر سے جسم نمایاں ہو۔ نیز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم مردوں کے سوا کسی اور مرد کے ساتھ تنہا رہنے سے عورتوں کو منع فرمایا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو اس بات سے بھی منع فرمایا کہ وہ گھر سے باہر خوش بُو لگا کر نکلیں ۔ مسجد کے اندر نماز باجماعت میں آپؐ نے عورتوں اور مردوں کے لیے الگ الگ جگہ مقرر فرما دی تھی، اور اس بات کی اجازت نہ تھی کہ عورت مرد سب مل کر ایک صف میں نماز پڑھیں۔ نماز سے فارغ ہوکر آپؐ اور سب مرد اس وقت تک بیٹھے رہتے تھے ،جب تک عورتیں نہ چلی جاتیں۔

یہ احکام ، جس کا جی چاہے، قرآن مجید کی سورۂ نور اور سورۂ احزاب میں اور حدیث کی مستند کتابوں میں دیکھ سکتا ہے۔ آج جس چیز کو ہم ’پردہ‘ کہتے ہیں، اس میں چاہے عملی طور پر افراط وتفریط ہوگئی ہو ، لیکن اصول اور قاعدے سب وہی ہیں، جو الله اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پاک کی مسلم سوسائٹی میں جاری کیے تھے ۔ اگرچہ میں خدا اور رسولؐ کا نام لے کر کسی کا منہ  بند کرنا نہیں چاہتی ، مگر یہ کہے بغیر بھی نہیں رہ سکتی کہ آج ہمارے اندر یہ آواز اٹھنا کہ ’’پردہ ہماری ترقی میں رکاوٹ ہے‘‘ ہماری دو رُخی ذہنیت کی کھلی علامت ہے ۔ یہ آواز خدا اور رسولؐ اللہ کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ ہے، اور اس کے صاف معنیٰ یہ ہیں کہ ’خدا اور رسولؐ نے ہماری ترقی کے راستے میں روڑے اَٹکا دیے ہیں‘۔ اگر واقعی ہم ایسا سمجھتے ہیں تو آخر ہم کیوں خواہ مخواہ مسلمان بنے ہوئے ہیں؟ اور کیوں اس خدا اور رسول ؐ کو ماننے سے انکار نہیں کر دیتے، جنھوں نے ہم پر ایسا ظلم کیا ہے؟ اس سوال سے یہ کہہ کر چھٹکارا حاصل نہیں کیا جاسکتا کہ خدا اور رسولؐ نے پردہ کا حکم ہی نہیں دیا ہے۔ میں ابھی عرض کر چکی ہوں کہ پردہ کس چیز کا نام ہے؟ اور اس کے تفصیلی احکام، جس کا جی چاہے، قرآن مجید اور احادیث کی مستند کتب میں نکال کر دیکھ سکتا ہے۔ _ حدیث کی صحت سے کسی کو انکار بھی ہو تو قرآن کے کھلے کھلے احکام کو آخر وہ کہاں چھپائے گا؟

  • حجاب کے مقاصد: ’حجاب‘ (پردے) کے احکام ، جو اسلام نے ہم کو دیے ہیں ، ان پر تھوڑا سا بھی غور کیجیے تو سمجھ میں آ سکتا ہے کہ ان کے تین بڑے مقصد ہیں :
    • اوّل یہ کہ عورتوں اور مردوں کے اخلاق کی حفاظت کی جائے، اور ان خرابیوں کا دروازہ بند کیا جائے، جو مخلوط سوسائٹی میں عورتوں اور مردوں کے آزادانہ میل جول سے پیدا ہوتی ہیں۔
    • دوسرے یہ کہ عورتوں اور مردوں کا دائرہ عمل الگ کیا جائے، تاکہ فطرت نے جو فرائض عورت کے سپرد کیے ہیں انھیں وہ سکون کے ساتھ انجام دے سکے، اور جو خدمات مرد کے سپرد ہیں انھیں وہ اطمینان کے ساتھ بجالا سکے ۔
    • تیسرے یہ کہ گھر اور خاندان کے نظام کو مضبوط اور محفوظ کیا جائے ، جس کی اہمیت زندگی کے دوسرے نظاموں سے کم نہیں، بلکہ کچھ بڑھ کر ہی ہے ۔

پردے کے بغیر جن لوگوں نے گھر اور خاندان کے نظام کو محفوظ کیا ہے، انھوں نے عورت کو غلام بنا کر تمام حقوق سے محروم کرکے رکھ دیا ہے، اور جنھوںنے عورت کو اس کے حقوق دینے کے ساتھ پردے کی پابندیاں بھی نہیں رکھی ہیں، ان کے ہاں گھر اور خاندان کا نظام بکھر گیا ہے، اور روز بروز بکھرتا چلا جارہا ہے ۔ اسلام، عورت کو پورے حقوق بھی دیتا ہے اور اس کے ساتھ گھر کے اور خاندان کے نظام کو بھی محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا، جب تک کہ پردے کے احکام اس کی حفاظت کے لیے موجود نہ ہوں۔

خواتین و حضرات! میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ ٹھنڈے دل سے ان مقاصد پرغور کریں۔ اخلاق کا مسئلہ کسی کی نگاہ میں اہمیت نہ رکھتا ہو تو اس کا میرے پاس کوئی علاج نہیں، مگر جس کی نگاہ میں اس کی کوئی اہمیت ہو، اسے سوچنا چاہیے کہ مخلوط سوسائٹی میں ، جہاں بن سنور کر عورتیں آزادانہ پھریں اور زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے ساتھ کام کریں ، وہاں اخلاق بگڑنے سے کیسے بچ سکتے ہیں اور کب تک بچے رہ سکتے ہیں؟ ہمارے اپنے ملک میں یہ صورت حال جتنی بڑھتی جارہی ہے ، جنسی جرائم بڑھتے جارہے ہیں اور ان کی خبریں آپ آئے دن اخبارات میں پڑھ رہے ہیں ۔

 یہ کہنا کہ ’ان خرابیوں کا اصل سبب پردہ ہے ، جب پردہ نہ رہے گا تو لوگوں کا دل عورتوں سے بھر جائے گا ‘، بالکل غلط ہے۔ جہاں پوری بے پردگی تھی، وہاں لوگوں کے دل نہ بھرے اور ان کی خواہشات کے تقاضوں نے عریانی تک نوبت پہنچائی ۔ پھر عریانی سے دل نہ بھرے اور کھلی کھلی جنسی آوارگی تک نوبت پہنچائی اور اب اس کے کھلے لائسنس سے بھی دل نہیں بھر رہے ہیں، اور آج بھی کثرت سے جنسی جرائم ہورہے ہیں ، جن کی رپورٹیں امریکا و انگلستان اور دوسرے ممالک کے اخبارات میں آتی رہتی ہیں ۔ کیا یہ کوئی قابل اطمینان حالت ہے؟ یہ صرف اخلاق ہی کا تو سوال نہیں ہے ، ہماری پوری تہذیب کا سوال ہے۔ _ مخلوط سوسائٹی جتنی بڑھ رہی ہے، عورتوں کے لباس اور بناؤسنگار کے اخراجات بھی بڑھ رہے ہیں۔ اس کے لیے جائز آمدنیاں ناکافی ثابت ہورہی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر طرف رشوت، غبن اور دوسری حرام خوریاں بڑھتی جارہی ہیں ۔ حرام خوریوں نے ہماری ریاست کے پورے نظام کو گھن لگا دیا ہے اور کوئی قانون ٹھیک طرح سے نافذ ہونے ہی نہیں پاتا ۔ پھر بھی یہ سوچنے کی بات ہے کہ جن کو اپنی خواہشات کے معاملے میں ڈسپلن کی عادت نہ ہو، وہ دوسرے کس معاملے میں ڈسپلن کے پابند ہو سکتے ہیں؟ جوشخص اپنے گھر کی زندگی میں وفادار نہ ہو، اس سے اپنی قوم اور ملک کے معاملے میں وفاداری کی توقع کہاں تک کی جاسکتی ہے؟

عورت اور مرد کا دائرۂ عمل الگ کرنا خود فطرت کا تقاضا ہے۔ فطرت نے ماں بننے کی خدمت عورت کے سپرد کرکے آپ ہی بتادیا ہے کہ اس کے کام کی اصل جگہ کہاں ہے؟ اور باپ بننے کا فرض مرد کے ذمے ڈال کر خود اشارہ کردیا ہے کہ اسے کن کاموں کے لیے مادریت کے بھاری بوجھ سے سبک دوش کیا گیا ہے۔ دونوں قسم کی خدمات کے لیے عورت اور مرد کو الگ الگ جسم دیے گئے ہیں ، الگ الگ قوتیں دی گئی ہیں، الگ الگ صفات دی گئی ہیں، الگ الگ نفسیات دیئے گئے ہیں۔ فطرت نے جسے ماں بننے کے لیے پیدا کیا ہے اسے صبر و تحمّل بخشا ہے، اس کے مزاج میں نرمی پیدا کی ہے، اسے وہ چیز دی ہے، جسے '’مامتا‘ کہتے ہیں ۔ وہ ایسی نہ ہوتی تو ہم اور آپ پَل کر بخیریت جوان نہ ہو سکتے تھے ۔ یہ کام جس کے ذمّے ڈالا گیا ہے، اس کے لیے وہ کام موزوں نہیں ہیں، جن کے لیے سختی اور سخت مزاجی کی ضرورت ہے۔ _ وہ کام اسی کے لیے موزوں ہیں، جسے ماں بننے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا ہے اور جسے ان بھاری ذمہ داریوں سے آزاد رکھا گیا ہے جو ماں بننے کا لازمہ ہیں۔ آپ اس تقسیم کو مٹانا چاہتے ہیں تو پھر فیصلہ کر لیجیے کہ اب دنیا کو ماؤں کی ضرورت نہیں ہے۔ تھوڑی ہی مدت نہ گزرے گی کہ انسان ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم کے بغیر ہی ختم ہو جائے گا۔ _ لیکن اگر یہ فیصلہ بھی آپ نہیں کرتے اور اس تقسیم کو بھی مٹانا چاہتے ہیں، تو یہ عورت کے ساتھ بڑی بے انصافی ہے کہ وہ اس پورے بوجھ کو بھی اٹھائے جو فطرت نے ماں بننے کے سلسلے میں اس پر ڈالا ہے، اور جس میں مرد ایک رتی برابر بھی اس کے ساتھ کوئی حصہ نہیں لے سکتا ، اور پھر وہ مردوں کے ساتھ آکر سیاست اور تجارت، صنعت وحرفت اور لڑائی دنگے کے کاموں میں بھی برابر کا حصہ لے ۔ خدا کے لیے ذرا ٹھنڈے دل سے سوچو، انسانیت کی خدمت میں آدھا حصہ تو وہ ہے جسے پورے کا پورا عورت سنبھالتی ہے ۔ کوئی مرد اس میں ذرہ برابر بھی اس کا بوجھ نہیں بٹا سکتا۔ باقی آدھے میں سے آپ کہتے ہیں کہ آدھا بار اس کا بھی عورت اٹھائے ۔ گویا تین چوتھائی عورت کے ذمے پڑا اور مرد کے ذمے ایک چوتھائی ۔ کیا یہ انصاف ہے؟

عورت بے چاری اس ظلم کو خوشی خوشی برداشت کرنے ، بلکہ لڑ جھگڑ کر اپنے اوپر لینے کے لیے اس وجہ سے مجبور ہوئی کہ آپ نے عورت ہوتے ہوئے اور عورت کی جگہ کام کرتے ہوئے اسے عزت دینے سے انکار کر دیا۔ آپ نے بچوں والی کا مذاق اڑایا ۔ آپ نے گھر گرہستی کو ذلیل قرار دیا۔ آپ نے ان ساری خدمات کو گھٹیا درجہ دیا جو وہ خاندان میں انجام دیتی تھی اور جن کی انجام دہی آپ کی سیاست ، معیشت اور جنگ سے کچھ کم ضروری یا مفید نہ تھی ۔ مجبوراً وہ غریب عزّت اور قدر و منزلت کی تلاش میں ان کاموں کے لیے آمادہ ہوگئی، جو مرد کے کرنے کے تھے ۔ کیوں کہ مرد بنے بغیر اور مردانہ خدمات انجام دیے بغیر آپ اسے عزّت دینے کو تیار نہ تھے۔ اسلام نے اس پر یہ مہربانی کی تھی کہ عورت رہتے ہوئے اور زنانہ خدمات ہی انجام دیتے ہوئے اس نے اسے پوری عزت مرد کے برابر ، بلکہ ماں ہونے کی حیثیت سے مرد سے کچھ بڑھ کر ہی دی تھی۔

اب آپ کہتے ہیں کہ یہ چیز’ترقی‘ میں حائل ہے ۔ آپ کو اصرار ہے کہ عورت ماں بھی بنے اور مجسٹریٹ بھی اور پھر ناچ گا کر مردوں کا دل بہلانے کے لیے بھی وقت نکالے۔ آپ اس پر اتنا بوجھ ڈالتے ہیں کہ وہ کسی خدمت کو بھی بہ کُلّی اور بخوبی انجام نہیں دے سکتی۔ آپ اسے وہ کام دیتے ہیں جن کے لیے وہ پیدا نہیں کی گئی ۔ آپ اسے اس میدان میں کھینچ لاتے ہیں، جہاں وہ مردکا مقابلہ نہیں کرسکتی ، جہاں مرد اس سے آگے رہے گا۔ جہاں عورت کو اگر داد ملے گی تو نسوانیت کی رعایت سے ملے گی ، یا پھر کمال کی نہیں، جمال کی ملے گی ۔ یہ آپ کے نزدیک ’ترقی‘ کے لیے ضروری ہے۔

گھر اور خاندان ، جن کی اہمیت کو آپ ’ترقی‘ کے جوش میں بھول گئے ہیں ، دراصل یہ وہ کارخانے ہیں جہاں انسان تیار ہوتے ہیں۔ یہ کارخانے جوتے اور پستول بنانے کی نسبت کچھ کم ضروری تو نہیں ہیں ۔ ان کارخانوں کے لیے جن صفات ، نفسیات اور قابلیتوں کی ضرورت ہے، وہ فطرت نے سب سے بڑھ کر عورت کو دی ہیں۔ ان کو چلانے کے لیے جن خدمات اور محنتوں اور مشقتوں کی ضرورت ہے، ان کا زیادہ سے زیادہ بوجھ فطرت نے عورت ہی پر ڈالا ہے، اور ان کارخانوں میں کرنے کے کام بہت ہیں۔ کوئی فرض شناسی کے ساتھ ان کاموں کو کرنا چاہے، جیساکہ ان کا حق ہے، تو اسے سر کھجانے کی مہلت نہ ملے، اور پھر ان کو جتنی زیادہ قابلیت ، سلیقے اور دانش مندی کے ساتھ چلایا جائے، اتنے ہی زیادہ اعلیٰ درجے کے انسان تیار ہو سکتے ہیں ۔ اس کے لیے عورت کو زیادہ سے زیادہ عمدہ تعلیم وتربیت دینے کی ضرورت ہے۔ ان کارخانوں کو سکون و اطمینان اور اعتماد کے ساتھ چلانے کے لیے اسلام نے پردے کا ڈسپلن قائم کیا تھا ، تاکہ عورت یہاں پوری دل جمعی کے ساتھ اپنا کام کر سکے، اور اس کی توجہ غلط سمتوں میں نہ بٹے، اور مرد بھی پوری طرح مطمئن ہوکر زندگی کے اس شعبے کو اس کے ہاتھوں میں چھوڑ دیں۔ اب آپ ’ترقی‘ کی خاطر اس ڈسپلن کو ختم کردینا چاہتے ہیں۔ اس کے ختم ہو جانے کے بعد، دوکاموں میں سے ایک کام آپ کو بہرحال کرنا ہوگا۔ یا عورت کو ہندو تہذیب اور پرانی عیسائی اور یہودی تہذیب کی پیروی کرکے غلام بنا دیجیے، تاکہ خاندانی نظام بکھرنے نہ پائے ، یا پھر اس کے لیے تیار ہوجائیے کہ انسان بنانے کے کارخانے تباہ و برباد ہوکر جوتے اور پستول بنانے کے کارخانے آباد ہوں۔

میں آپ سے صاف کہتی ہوں کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ اسلام جو مکمل قانونی اور معاشی حقوق عورت کو دیتا ہے، ان کو برقرار رکھتے ہوئے آپ اسلام کے قائم کردہ ڈسپلن کو توڑ دیں اور آپ کا خاندانی نظام برباد ہونے سے بچارہ جائے ۔ لہٰذا ،’ترقی‘ کا جو معیار بھی آپ کے سامنے ہو اسے نگاہ میں رکھ کر سوچ لیجیے کہ آپ کیا کھونا چاہتے ہیں اور کیا پانا چاہتے ہیں؟

’ترقی‘ بہت وسیع لفظ ہے ۔ اس کا کوئی ایک ہی مقرر مفہوم نہیں ہے ۔ مسلمان ایک زمانے میں خلیجِ بنگال سے لے کر بحراٹلانٹک تک حکمراں رہے ہیں۔ سائنس اور فلسفہ میں وہ دنیا کے استاد تھے۔ تہذیب وتمدن میں کوئی دوسری قوم ان کے ہم سر نہ تھی۔ معلوم نہیں اس چیز کا نام کسی لغت میں ترقی ہے یا نہیں؟ اگر یہ ترقی تھی تو میں عرض کروں گی کہ یہ ترقی اس معاشرے نے کی تھی، جس میں پردے کا رواج تھا۔

اسلامی تاریخ بڑے بڑے اولیا، مدبرین، علما ، حکما ، مصنّفین اور فاتحین کے ناموں سے بھری پڑی ہے۔ یہ عظیم الشان لوگ جاہل ماؤں کی گودوں میں پل کر تو نہیں نکلے تھے۔ خود عورتوں میں بڑی بڑی عالم و فاضل خواتین کے نام ہم کو اسلامی تاریخ میں ملتے ہیں۔ وہ علوم وفنون اور ادب میں کمال رکھتی تھیں۔ پردے نے اس ترقی سے مسلمانوں کو نہیں روکا تھا۔ آج بھی اسی طرز کی 'ترقی ہم کرنا چاہیں تو پردہ ہمیں اس سے نہیں روکتا ۔ البتہ اگر کسی کے نزدیک ’ترقی‘ بس وہی ہو، جو اہل مغرب نے کی ہے تو بلاشبہ اس میں پردہ بری طرح حائل ہے۔ پردے کے ساتھ وہ ’ترقی‘ یقیناً ہمیں حاصل نہیں ہوسکتی ۔ مگر یہ بات نہ بھول جایئے کہ مغرب نے یہ ترقی اخلاق اور خاندانی نظام خطرے میں ڈال کر کی ہے ۔ وہ عورت کو اس کے دائرۂ عمل سے نکال کر مرد کے دائرۂ عمل میں لے آیا ہے۔ اسی طرح اس نے اپنے دفتر اور کارخانے چلانے کے لیے دگنے ہاتھ تو حاصل کر لیے اور بظاہر بڑی ترقی کرلی ، مگر گھر اور خاندان کا سکون کھودیا۔ آج بھی وہاں اگر گھر آباد ہیں تو صرف گھر گرہستن عورتوں کی بدولت ہی آباد ہیں ۔ مردوں کے ساتھ کمانے والی عورتیں کہیں بھی گھر کا نظام نہیں چلارہی ہیں اور نہ چلاسکتی ہیں۔ ان کے نکاح آج طلاقوں پرختم ہورہے ہیں ، ان کے بچے تباہ ہورہے ہیں ۔ ان کے لیے ٹھکانا اگر ہے تو کلب میں ہے یا ہوٹل میں ۔ گھر ان کے لیے سکون کی جنت نہیں رہے اور اپنی جگہ لینے کے لیے بہتر انسان تیار کرنے کا کام انھوں نے چھوڑ دیا ہے ۔ اس ’ترقی‘ پر اگر کوئی ریجھتا ہے تو ریجھے ۔