ڈاکٹر نثار احمد اسرار


دنیا کے دیگر متعدد ممالک کی طرح جمہوریہ ترکیہ میں بھی، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے محبت اور چاہت کا تعلق رکھنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اس رشتہ موانست کو پروان چڑھانے میں سب سے اہم کردار سید مودودی کی کتب نے ادا کیا ہے۔

ترکی میں سید مودودی مرحوم کی کتب، خطبات اور مقالات بڑے پیمانے پر شائع ہوئے ہیں۔ ان کی سوانح اور دینی خدمات سے واقفیت حاصل کرنے والوں کا ایک وسیع حلقہ ہے۔ اس لیے سید مودودی کی زندگی پر بھی متعدد بڑی چھوٹی کتب قبول عام حاصل کر چکی ہیں۔ متعدد یونی ورسٹیوں اور اعلیٰ درجے کے انسٹی ٹیوٹ مولانا کی فکر کے مختلف پہلوؤں پر پی ایچ ڈی اور ایم فل کے تحقیقی مقالات اور علمی پراجیکٹ پر کام کروا رہے ہیں۔ مولانا کے علمی رشحات اور افکار پر ترکی میں کام کے پھیلاؤ کو چند صفحات میں سمیٹنا ایک مشکل کام ہے، اس لیے میں یہاں پر صرف ان کتب کا ذکر کروں گا، جنھیں ترکی زبان میں ترجمہ کیا گیا اور ترجمے کے اس کام کا کچھ پس منظر بھی بیان کروں گا۔ اپنے مشاہدات کا تذکرہ ۱۹۶۵ء سے کروں گا، جب میں ڈھاکہ (مشرقی پاکستان، اب بنگلہ دیش) سے ترکی پہنچا۔

چونکہ اسکول کے زمانے ہی سے ڈھاکہ میں مجھے مولانا مودودی کی کتب پڑھنے اور ان مباحث سے گہرا تاثر لینے کی سعادت حاصل ہو چکی تھی، اس لیے میرے لیے ہر ایسی خبر میں بے پناہ جوش و خروش کا سامان ہوتا تھا کہ جس میں مولانا مودودی کی کسی کتاب کے ترکی ترجمے کی اطلاع ہوتی۔

یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ مولانا مودودی کی متعدد کتب ترکی زبان میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ یہ تراجم ان کی انگریزی اور عربی کتب سے ہوئے تھے۔ جن میں رسالہ دینیات بھی شامل تھا۔ ساٹھ اور ستر کے عشرے میں اسلامی کتب اور اسلام کے سیاسی پہلو سے متعلق کتب کی اشاعت پر کڑی نگاہ رکھی جاتی تھی اور سیاسی کتب پر پانبدی عائد کر دی گئی تھی۔ تاہم ۱۹۶۰ء میں انتقال کرنے والے مذہبی رہنما بدیع الزمان سعید نورسیؒ نے اپنی نوری تحریک کے ذریعے نوجوانوں میں کافی اسلامی شعور پیدا کر دیا تھا۔ ان کے تربیت یافتہ طلبہ کو مولانا مودودی کے علمی کارناموں کا کچھ علم ہو گیا تھا۔ وہ اگرچہ زندگی کے سیاسی و اجتماعی میدان میں اسلام سے رہنمائی حاصل کرنے کا کھلا پرچار نہیں کرتے تھے اور مسلمانوں کی اخلاقی اور سماجی تربیت پر ہی زیادہ زور دیتے تھے، لیکن برصغیر جنوب مشرقی ایشیا میں تحریک اسلامی کے خلاف بھی نہیں تھے۔ حتیٰ کہ ترکی میں مولانا مودودی اور ان کی رہنمائی میں کام کرنے والی تحریک کا ساتھ دینے والوں میں شروع شروع میں یہی طلبہ نور پیش پیش تھے۔ چنانچہ ۱۹۷۰ء کے آغاز میں استاد خلیل احمد حامدی مرحوم نے اپنے ترکی کے دورے سے متعلق ’’ترکی قدیم و جدید‘‘ کے نام سے جو سفر نامہ لکھا تھا، اس میں اس پہلو پر واضح اشارات ملتے ہیں۔

مولانا مودودی کے اردو لٹریچر کے ایک خاصے حصے کو براہ راست ترکی میں منتقل کرنے کا سہرا علی گنجے لی (Ali Genceli) کے سر ہے۔ وہ انقرہ میں ادارہ ٔ مذہبی امور کے مترجم تھے۔ ان سے میرے بڑے اچھے مراسم تھے۔ وہ اپنے دفتر میں بیٹھے ٹائپ رائٹر پر سید مودودیؒ کی کتب کا ترجمہ کیے جاتے تھے۔ انھوں نے پانچ سال ڈھاکہ یونی ورسٹی میں شعبۂ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر کے طور پر بھی فرائض انجام دیے تھے۔ وہاں ان کا تعلق زیادہ تر اردو خواں طبقے اور جماعت اسلامی سے رہا، اس طرح وہ کچھ اردو بھی سیکھ گئے تھے۔ اگرچہ وہ پوری طرح اردو بول نہیں پاتے تھے، لیکن اردو متن (text) سمجھ لیا کرتے تھے۔ ترکی واپسی پر انھوں نے ۱۹۷۰ء کے عشرے کے آغاز میں پردہ، سود اور سلاجقہ کے علاوہ  خلافت و ملوکیت کا ترکی ترجمہ کیا۔ انھوں نے علامہ محمداقبالؒ کے بعض اُردو اشعار کا بھی ترکی میں منظوم ترجمہ کیا۔

مولانا مودودی کی جن کتب کا ترجمہ انہوں نے کیا، ان کی زبان ذرا زیادہ پرانی تھی۔ ترجمے میں تھوڑا نقص تھا اور بعض حصے نامکمل ترجمہ ہوئے تھے۔ مولانا کی قبولیت عام کے پیش نظر مختلف ناشروں نے مولانا مودودی کی بعض کتابوں کے ترجمے چھاپے۔ پھر کئی ناشروں نے مجھ سے ان کی کتابوں کو ترجمہ کرنے کو کہا۔ میں نے یکے بعد دیگرے ’’سیرت سرورِ عالمؐ‘‘ (دو جلدیں)، تفہیم القرآن (چھ جلدیں)، سود، سنت کی آئینی حیثیت، اسلام میں تعلیم اور مسئلہ جبر و قدر کو ترجمہ کیا۔ ان میں سے سود‘ علی گنجے لی صاحب کی کتاب پر مکمل نظرثانی کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن یہ ابھی تک شائع نہیں ہو سکی ہے۔  مسئلہ جبر و قدر کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ان میں سے سیرت سرور عالمؐ اور سنت کی آئینی حیثیت بہت مقبول ہوئیں اور ان کے پانچ چھ ایڈیشن چھپے۔ تفہیم القرآن کا ایک ترجمہ انسان پبلشرز کی جانب سے شائع ہوا ہے۔ اس کے گیارہ بارہ ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ حال ہی میں میں نے ڈاکٹر سید اسعد گیلانی کی لکھی ہوئی سوانح حیات سید مودودیؒ کا ترجمہ کیا ہے اور یہ چھپ چکا ہے۔ ۱۹۸۰ء کے آغاز میں علی گنجے لی صاحب کا انتقال ہونے کی وجہ سے ان کے مزید تراجم شائع نہیں ہوئے۔

تفہیم القرآن کے ترجمے کے سلسلے میں ایک دلچسپ صورت حال کا سامناہوا۔ یہ ۱۹۸۴ء کا واقعہ ہے۔ ہلال پبلی کیشنز کے مالک صالح اوزجان صاحب نے جو عربی اچھی طرح جانتے ہیں، مولانا مودودی کے دوست ہیں اور رابطۂ عالم اسلامی کے اجلاسوں میں ان سے کئی بار مل چکے ہیں (آج کل فیصل فنانس کارپوریشن کے سربراہ ہیں)۔ انھوں نے مجھے کہا کہ تفہیم القرآن کا ترجمہ شروع کر دو۔ اس کی پہلی جلد انگریزی سے ترجمہ کیے جانے کے بعد شائع ہو چکی تھی۔ مجھے یہ کام کرتے ہوئے ایک دو سال گزرے تھے کہ اشاعتی ادارے، انسان پبلشرز نے پانچ چھ مترجمین پر مشتمل ایک بورڈ کے ذریعے تفہیم القرآن کی ترکی ترجمہ شدہ جلدیں ایک ایک کر کے شائع کرانی شروع کر دیں۔ یہ تراجم بھی اردو، انگریزی اور عربی کے نسخوں سے کیے گئے تھے۔ ان میں علمی اور ابلاغی سطح پر بعض خامیاں تھیں۔ مترجمین کے بورڈ میں ایک پاکستانی محمد خان کیانی بھی تھے، جنھوں نے انگریزی اور ترکی میں بعض کتابیں لکھی ہیں اور روزنامہ  زمان سے بھی کچھ عرصہ منسلک رہے ہیں۔ دوسرے یوسف کراجا تھے، جنھوں نے بھارت میں اردو سیکھی تھی اور ترکی میں مودودی صاحب کی بعض کتابوں کو ترجمہ کرنے کے علاوہ اسلامی ادب سے متعلق مضامین وغیرہ بھی لکھتے رہے ہیں۔

صالح اوزجان صاحب نے مجھے کہا:’’ادارۂ ترجمان القرآن کو اس چیز کی اطلاع دو اور مولانا مودودی کے وارثوں سے حق ترجمہ اور حق تالیف حاصل کرنے کی کوشش کرو، تاکہ مذکورہ اشاعتی ادارے کے خلاف تادیبی کارروائی کروا کے تفہیم القرآن کی ترکی میں اشاعت رکوائی جا سکے‘‘۔ صالح اوزجان صاحب نے بتایا: ’’خود مولانا مودودی نے اپنی ساری تصانیف کے ترجمے اور اشاعت کا اجازت نامہ مجھے دیاتھا، لیکن وہ مل نہیں رہا‘‘۔ میں نے ان کے کہنے کے مطابق ادارہ ترجمان القرآن کو دو ایک خط لکھے۔ وہاں سے سید خالد فاروق مودودی صاحب کا جواب ملا، جس میں انھوں نے لکھا کہ: ’’ہلال پبلی کیشنز کے ساتھ ایک نیا سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے اب تک جتنی کتابوں کے تراجم شائع کیے ہیں، اس کی ایک مکمل فہرست اور ان کی جتنی رائلٹی بنتی ہے وہ ادارہ ترجمان کو دینی ہو گی۔ اور تفہیم القرآن کے ترجمے کے لیے بھی الگ سے رائلٹی کی تفصیلات طے کی جائیں گی‘‘۔ صالح اوزجان صاحب پیسوں کے معاملے میں ذرا ہاتھ کھینچ کر چلنے والے آدمی ہیں۔ جب انھوں نے دیکھا کہ اب لینے کے دینے پڑ جائیں گے تو اجازت وغیرہ لینے کا ارادہ فوراً ترک کر دیا۔ اس لیے معاملہ طول کھینچ گیا اور کہیں ۱۹۹۲ء میں تفہیم القرآن کی ساری جلدیں ہلال کی جانب سے چھپ سکیں۔ اس دوران میں انسان پبلشرز نے اپنے تراجم کے گیارہ، بارہ ایڈیشن شائع کیے، یاد رہے کہ ہر ایڈیشن میں کم از کم پانچ ہزار کتب چھپتی ہیں۔ لیکن تفہیم القرآن کا اردو سے براہ راست اور مکمل ترجمہ کرنے کی سعادت مجھے حاصل ہوئی۔

اب انسان پبلی کیشنز نے  تفہیم القرآن سے مودودی صاحب کے صرف ترجمے کا حصہ شائع کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اور اس کی ذمہ داری انھوں نے مجھ پر ڈالی ہے۔ ترجمے کا حصہ شائع ہونے کے بعد اُن کا ارادہ میری نگرانی میں تفہیم القرآن کے اپنے اور ہلال کے ایڈیشنوں کے تفسیر کے متن کی نظرثانی، تدوین اور ضروری اصلاح کروا کر ایک مکمل ایڈیشن شائع کرنا ہے۔

محمد خان کیانی صاحب نے بتایا کہ :’’وہ  تفہیم القرآن کے صرف ترجمے کا حصہ انقلاب پبلی کیشنر کے لیے کر رہے ہیں اور سید خالد فاروق مودودی صاحب اور اشاعتی ادارے کے درمیان سمجھوتہ بھی ہو گیا ہے۔ کیانی صاحب اپنے تمام تر اخلاص، علم اور وسیع معلومات کے باوجود اردو سے ترکی میں براہِ راست ترجمے کا ایسا درک نہیں رکھتے، جیسا کہ وہ انگریزی زبان کا فہم اور قدرتِ تحریر رکھتے ہیں۔ 

ترکی میں مولانا مودودی کی تمام تصانیف ترجمہ نہیں ہو سکی ہیں، اس کے باوجود ترجمہ ہونے والی کتب کی تعداد ۳۰ کے قریب ہے۔ مولانا مودودی اور جماعت اسلامی نے ۱۹۶۰ء کے عشرے کے بعد ترکی کے پڑھے لکھے طبقے کو متاثر کرنا شروع کر دیا تھا۔ ۱۹۶۸ء میں مولانا مودودی لندن سے واپسی پر استنبول میں صالح اوزجان صاحب کے مہمان بنے اور انھوں نے انجمن قومی طلبہ کے ہال میں ایک جلسہ بھی منعقد کیا۔ سیاسی طور پر سعید نورسی کے بعد پروفیسر ڈاکٹر نجم الدین اربکان کی سربراہی میں جو قومی اور اسلامی تحریک شروع ہوئی، اس کے بعض سربرآوردہ رہنما مولانا مودودی کی تحریک احیائے اسلام کو سراہتے ہیں۔ خود اربکان صاحب کے جماعت اسلامی کی قیادت کے ساتھ گہرے نیازمندانہ مراسم ہیں۔ وہ کئی بار پاکستان آئے ہیں اور جماعت کے قائدین وغیرہ سے مل چکے ہیں۔

ترکی میں اسلامی تحریک نے ۱۹۹۵ء میں ایک بڑا ارتقائی قدم بڑھایا اور مسند اقتدار کو بھی سنبھالا۔ آج کل وزیراعظم رجب طیب ایر دوغان اور وزیرخارجہ عبداللہ گل کے علاوہ انصاف اور ترقی پارٹی کا تعلق اربکان صاحب ہی کی ماضی کی جماعتوں سے ہے۔ زیادہ تر نوجوانوں پر مشتمل یہ جماعت اگرچہ اپنے نظریات میں بعض تبدیلیاں لانے کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن بنیادی طور پر اسلامی شعائر اور اسلامی نظریہ حکومت و ریاست سے منحرف نہیں ہے۔ یہ ۳۵ فی صد ووٹوں کے ذریعے اسمبلی میں ساٹھ فی صد سے زیادہ اکثریت حاصل کرتے ہوئے ۳۶۵ ممبران پارلیمنٹ کی مالک ہے اور آئین میں دوتہائی اکثریت سے آسانی سے تبدیلی کر سکتی ہے۔ ایسی پارلیمانی طاقت ۱۹۵۰ء کے بعد کسی بھی سیاسی اقتدار کو حاصل نہیں ہوئی۔ سیاسی سطح کے علاوہ سماجی اور ثقافتی میدان میں بھی پاکستان کی تحریک اسلامی کا اثر بہت واضح طور پر نظر آتا ہے۔

خصوصاً پچھلے بیس سال میں عورتوں میں پردہ اور اسلامی شعائر کی پابندی کا جو شعور پیدا ہوا ہے وہ درحقیقت مولانا مودودی کی تحریروں کا مرہون منت ہے۔ نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ ان کی تصنیفات اور خدمات سے متاثر ہوا ہے۔ استنبول میں ’’اکیسویں صدی اور اسلامی ممالک کے مسائل‘‘ پر ایک بین الاقوامی سمپوزیم ترکی کے مذہبی امور کے وقف کی جانب سے استانبول میں منعقد ہوا تھا، جس میں پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد (وائس چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد) تشریف لائے تھے۔ انھوں نے اپنے مقالے میں مولانا مودودی اور ان کے اسلامی ریاست کے آئیڈیل کا بھی ذکر کیا تھا۔ انیس احمد صاحب نے بعد میں شہر بُرصہ میں ایک کانفرنس میں شرکت کی جو مولانا مودودی کی یاد میں منعقد کی گئی تھی۔ یہ جلسہ بہت ہی کامیاب رہا تھا۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہواتھا۔ ڈاکٹر انیس احمد کے علاوہ اردو، ترکی اور انگریزی جاننے والے پانچ چھ حضرات نے تقریر کی تھی جن میں عبدالحلیم بیراشک اور محمدخان کیانی وغیرہ شامل تھے۔ انھوں نے مولانا اور ان کے مختلف کارناموں کے مختلف پہلوئوں پر اظہارِ خیال کیا۔ وہاں مولانا کی بعض نادر تصاویر کی نمائش بھی ہوئی۔ ترک دانشوران اور مصنفین میں سے علی بولاچ، یوسف کراجا، یوسف کپلان، تورحان کشلاک چی بھی مولانائے موصوف پر کام کرنے والوں میں نمایاں طور پر شامل ہیں۔

ذیل میں مولانا مودودی کی ترکی میں شائع شدہ کتب کے اردو اور ترکی میں نام درج کیے جارہے ہیں:

۱- تفہیم القرآن، ترجمہ ڈاکٹر نثار احمد اسرار۔ بنگی سو، ہلال یاین لاری، کئی ایڈیشن

1. Tefhim-ul-Kur'an, tr. Dr. N. Ahmed Asrar, Bengisu-Hilala Yayinlari

۲- تفہیم القرآن ترجمہ بورڈکا ترجمہ۔ انسان پبلی کیشنز

2. Tefhim-ul-Kur'an, tr. Heyet, Insan Yayinlari.

۳- سیرت سرور عالمؐ: ترجمہ ڈاکٹر نثار احمد اسرار۔ پنار یاین لاری (پبلشر)

3. Tarih Boyunca Tevhid Mucadelesi-ve-Hz. Peygamber,  tr. Dr. N. Ahmed Asrar, Pinar Yayinlari

۴- سنت کی آئینی حیثیت: ترجمہ، ڈاکٹر نثار احمد اسرار۔بنگی سو پبلشرز

4. Sunnetin Anayasal Niteligi, tr. Dr. N. Ahmed Asrar, Bengisu Yayinlari

۵- اسلام میں تعلیم: ترجمہ، ڈاکٹر نثار احمد اسرار۔ہلال پبلشرز

5. Islam ve Egitim, tr. Dr. N. Ahmed Asrar, Hilal Yayinlari

۶- خلافت و ملوکیت: ترجمہ، علی گنجے لی، ہلال پبلشرز

6. Hilafet ve Saltanat, tr. Ali Genceli, Hilala Yayinlari

۷- رسائل و مسائل، جلد اوّل۔ نہریاین لاری (پبلشرز)

7. Fetvalar-Nehir Yayinlari

۸- قرآن مجید: ترجمہ اور تفسیر (تفہیم القرآن) ۔ بیرلشیک پبلشرز

8. Yuce Kuran-I-Kerim, Meal ve Tefsiri-Birlesik Yayinlari

۹- قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں: بیان پبلشرز

9. Kur'an gore Dort Terim, Beyan Yayinlari

۱۰- دعوت اسلامی: بیرلیشک پبلشرز

10. Islam'in Cagrisi - Birlesik Yayinlari

۱۱-اسلام کا سیاسی نظام: اوزگن پبلشرز

11. Islam'da Siyasi Sistem - Ozgun Yayinlari

۱۲- تحریک اسلامی کے بنیادی عناصر: نہیر پبلشرز

12. Islami Hereketin Dinamikleri - Nehir Yayinlari

۱۳- آئیے اس دنیا کو بدل ڈالیں: اوزگن پبلشرز

13. Gelin Bu  Dunya'yi Degistirelim - Ozgun Yayinlari, Cizgi Yayinlari

۱۴ -  اسلامی ثقافت۔ دنیا پبلشرز

14. Islam Medeniyeti - Dunya Yayinlari

۱۵- خطبات: ترجمہ، علی گنجے لی جلد اول، ہلال پبلشرز

15. Hitabeler, tr. Ali Genceli, Hilal Yayinlari

۱۶- پردہ : علی گنجے لی، ہلال پبلشرز

16. Hicab, tr. Ali Genceli, Hilal Yayinlari

۱۷-  قرآن میں فرعون ۔ چزگی پبلشرز

17. Kur'an'da Firavun Cizgi Yayinlari

۱۸- قرآن کو ہم کیسے سمجھیں: اشارت پبلشرز

18. Kur'ani nasil Anlayalim?, Isaret Yayinlari

۱۹- اسلام میں تحریک احیائے دین: نیار پبلی کیشنز

19. Islam'da  Ihya Hareketleri, Pinar Yayinlari

۲۰- اسلام کی جانب پہلا قدم (دینیات):  انقلاب پبلشرز

20. Islam'a Ilk Adim, Inkilap Yayinlari

۲۱- اسلامی ریاست: ترجمہ، علی گنجے لی (اسلامی حکومت)۔ ہلال یاین لاری

21. Islam'da Hukumet, tr. Ali Genceli, Hilal Yayinlari

۲۲- تفہیم القرآن سورۂ نور اور الفاتحہ : ہلال پبلی کیشنز

22. Tefhim-ul Kur'an (Nur ve El-Fatiha Sureleri), Hilal Yayinlari

۲۳- رسالہ دینیات: ہلال پبلشرز

23. Islam'in Anlasiilmasina Dogru, Hilal Yayinlari

۲۴- سلاجقہ : ترجمہ، علی گنجے لی۔ ہلال پبلشرز

24. Selcuklular, tr: Ali Genceli, Hilal Yayinlari

۲۵- سید مودودی۔ اسعد گیلانی: ترجمہ، ڈاکٹر نثار احمد اسرار،ہلال پبلشرز

25. Mevdudi' nin Hayati, Esad Gilani, Hilal Yayinlari