بوسنیا--- یورپ کے قلب میں واقع اسلامی مملکت اور وہ سرزمین ہے جہاں مسلمانوں نے محض اسلام کے نام پر اَن گنت قربانیاں دیں‘ لاکھوں جانوں کے نذرانے پیش کیے‘ بے بسی کے عالم میں عملاً جہاد کیا‘ ایسی تعذیب اور ظلم وتشدد کا سامنا کیا کہ جس کے تذکرے سے رونگٹے کھڑے ہوجائیں اور انسانیت لرز کر رہ جائے۔ اہلِ بوسنیا نے عزیمت کی ایک نئی داستان رقم کی ہے۔ آگ اور خون کا ایک سمندر تھا جو انھوں نے عبور کیا اور تحریکِ آزادی کے قائد علیجاہ عزت بیگووچ کی سربراہی میں اپنی آزادی کی جنگ لڑی اور بالآخر کامیابی و سرفرازی سے ہمکنار ہوئے۔ اس عظیم تاریخ کی حامل اور برسوں عالمی خبروں کا موضوع بنی رہنے والی اس سرزمین اور باہمت قوم کو دیکھنے کی خواہش ایک مدت سے تھی‘ اور یہ خواہش اس وقت پوری ہوئی جب حالیہ ماہِ رمضان میں مجھے اپنے چنددوستوں کے ہمراہ بوسنیا جانے کا موقع میسرآیا۔ ہم نے اس موقع کو غنیمت جانا اور بوسنیا کے لیے سربیا اور کوسووا سے ہوتے ہوئے عازمِ سفر ہوئے‘ جب کہ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو عالمی تجارتی مرکز کی تباہی کے نتیجے میں‘ اسلامی دنیا اور مسلمانوں کے لیے بدلے ہوئے حالات کے تحت‘ پکڑدھکڑ اور دیگر خدشات بھی دل میں کھٹک رہے تھے۔
سربیا میں ہم بلغراد سے داخل ہوئے جہاں کسی وقت ایک سو مساجد آباد تھیں جنھیں شہید کردیا گیا۔ چونکہ نمازِ ظہر کا وقت ہوچکا تھا لہٰذا ہم کسی مسجد کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ کچھ دیر تلاش کے بعد ہمیں ترکی طرز پر بنی ہوئی ایک مسجد نظر آئی جہاں ہم نے نماز ادا کی۔ نماز سے فارغ ہوکر جیسے ہی ہم ہوٹل پہنچے‘وہی ہوا جس کا ہمیں خدشہ تھا۔ انٹیلی جنس والے ہمیں پکڑ کر لے گئے اور ہمیں نفسیاتی طور پر مختلف طریقوں سے ٹارچر کرتے رہے کہ آپ لوگوں نے داڑھی رکھی ہوئی ہے‘ آپ کون ہیں‘ کن لوگوں سے آپ کا تعلق ہے اور مسجد میں آپ کیوں گئے تھے؟ انھوں نے ہمارے پاسپورٹ اپنے پاس رکھ کر ہمیں رسید دے دی اور یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ واپسی پر آپ پاسپورٹ لے جائیں۔ اس کے بعد ہم جہاں بھی جاتے انٹیلی جنس کے لوگ ہمارے آگے پیچھے رہتے۔ ایک بار توہمیں پاکستانی سفارت خانے میں پناہ لینی پڑی۔جب ہم نے سفارت خانے والوں کو بتایا کہ یہاں کی انٹیلی جنس کس طرح ہمیں پریشان کر رہی ہے تو بے اختیار انھوں نے کہا کہ آپ یقینا مسجد میں نمازپڑھنے گئے ہوں گے۔ ہم نے بتایا کہ واقعی جس روز ہم مسجد میں گئے اسی روز سے ہمارے ساتھ یہ سلوک ہونے لگا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ آپ سے پہلے یہاں تبلیغی جماعت کا ایک گروپ آیا تھا جنھیں گرفتار کر لیا گیا اور ہم نے بڑی کوششوں کے بعد انھیں رِہا کروا کر واپس بھیجا۔ انھوں نے ہمیں مشورہ دیا کہ ہم اپنا ویزہ ختم ہونے سے پہلے پہلے اس ملک کو چھوڑ دیں۔ لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم کوسووا چلے جائیں جو اس وقت یو این کی زیرِنگرانی ہے۔ پاکستانی سفارت خانے نے ہمیں ایک خط جاری کر دیا جسے دکھانے کے بعد ہمیں اپنے پاسپورٹ واپس ملے اور ہم کوسووا کے لیے روانہ ہوگئے۔
جیسے ہی ہماری بس نے سربیا کی سرحد عبور کی تو جگہ جگہ جلی ہوئی اور ٹوٹی پھوٹی عمارتیں اور جلی ہوئی گاڑیاں نظرآئیں جو سربیا کے ظلم کی داستان بیان کر رہی تھیں۔ کوسووا کا ہر گھر سربیا کے ظلم کا شکار رہا ہے اور یہاں کے مسلمانوں نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ کوسووا میں ذبیحہ ہر جگہ عام ہے‘ اور ہر ہوٹل میں حلال کھانے بآسانی میسرہیں۔یہاں پر مرد و خواتین مغربی طرزکا لباس پہنتے ہیں۔ البتہ اکثر مسلمان خواتین اسکارف اور گائون پہنے نظرآتی ہیں۔ یہاں کے کئی نوجوان چیچنیا کے جہاد میں بھی شریک رہے ہیں۔ٹیلی وژن اور میڈیا پر عام طور پر یورپین اور امریکن پروگرام دکھائے جاتے ہیں اور یہ پروگرام اپنے اندر مادر پدر آزادی کی ترغیب لیے ہوئے ہوتے ہیںمگر اس کے ساتھ ساتھ چند ایک اسلامی پروگرام بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ اگر مسلم ممالک اسلامی افکار کی اشاعت‘ تعمیرسیرت و کردار اور تہذیبی و تمدنی تقاضوں کو پیش نظررکھتے ہوئے معیاری پروگرام‘ میڈیا کے ذریعے پیش کریں تو اس کے لیے یہاں طلب پائی جاتی ہے اور ایک وسیع میدان ہے۔
انقلاب آزادی اور یہاں کے مسلمانوں میں روح اسلامی کی بیداری میں عالیجاہ عزت بیگووچ ؒکی شخصیت اور اسلامی لٹریچر کا بڑا عمل دخل ہے۔ اگرچہ نظام تعلیم سیکولر ہے اور مخلوط طرزِتعلیم ہے لیکن اس کے باوجود دین سے گہرا شغف پایا جاتا ہے۔ لوگ نمازِ جمعہ کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔ پہلی اذان کے ہوتے ہی لوگ مساجد کی طرف دوڑے چلے آتے ہیں۔ ہر مسجد میں خواتین کے لیے الگ گیلری ہے۔ یہاں کی بڑی مساجد میں مرد وخواتین اور بچوں کو قرآن اور دین سکھانے کے خصوصی انتظامات ہیں۔ کئی گھرانوں میں پردے کی خاص پابندی کی جاتی ہے۔
تبلیغی جماعت کے وفود بھی یہاں پر آتے رہتے ہیں اور اشاعت اسلام کے لیے کوشاں ہیں۔ تحریک اسلامی اور اخوان المسلمون کے کارکن بھی اپنی اپنی سطح پر اقامت ِدین کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔ پاکستان اور پاکستانی عوام سے لوگ بے حد محبت کرتے ہیں۔ یہاں یو این میں پاکستانی پولیس‘ پاکستانی رینجرز اور پاکستان آرمی کے یونٹس کا کردار سب سے بہتر اور بلند گردانا جاتا ہے۔ دعوت و تبلیغ میں بھی ان کا کردار قابلِ تحسین ہے۔ البتہ ان تمام کوششوں کو مربوط انداز میں آگے بڑھانے پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔
ہم ابھی کوسووا ہی میں تھے کہ ہمیں عالیجاہ عزت بیگووچ ؒکے انتقال کی خبر ملی۔ ان کی وفات پر کوسووا کے ہر مسلمان کی آنکھ پرنم تھی اور دل رو رہا تھا۔ ہم خبرملتے ہی بوسنیا ہرذی گووینا کے لیے روانہ ہوگئے۔ یوں محسوس ہوا جیسے بوسنیا کی فضا صدمے سے بوجھل ہے‘ ہر شخص غم سے نڈھال اور ہر آنکھ اشک بار۔ بوسنیا کے دارالحکومت سرائیوو میں‘ ایوانِ صدر کے سامنے‘ بوسنیا کے اس عظیم رہنما‘ عالیجاہ عزت بیگووچؒ کا جنازہ ایک عظیم منظرپیش کر رہا تھا۔ کئی لاکھ لوگ اس جنازے میں شریک تھے۔ آسمان سے برسنے والی موسلادھار بارش کی پرواہ کیے بغیر‘ ہر شخص اپنے اس عظیم قائد کے آخری دیدار کے لیے بے قرار تھا۔ فضا میں اللہ اکبر کے نعروں کی گونج تھی‘ اور علیجاہ عزت بیگووچ کے پُرنور چہرے پر بکھری مسکراہٹ ‘مستقبل میں اسلامی جمہوریہ یورپی یونین کی نوید سنا رہی تھی۔ عزت بیگووچ مرحوم کو پورے صدارتی اعزاز کے ساتھ ان کی وصیت کے مطابق شہدا کے قبرستان میں دفنایا گیا۔
اقوامِ متحدہ کی طرف سے نامزد‘ بوسنیا ہرذی گووینا کے صدر جناب پیڈی شیڈور نے بیگووچ مرحوم کی وفات پر قوم کے احساسات کی ترجمانی کرتے ہوئے یہ بات کہی کہ: آج بوسنیا ہرذی گووینا کا باپ وفات پا گیا ہے۔ اگر یہ نہ ہوتے تو شاید بوسنیا کا دنیا میں نام و نشان تک نہ ہوتا۔
یورپ کے قلب میں واقع بوسنیا ہرذی گووینا کی کل آبادی تقریباً۳۵ لاکھ افراد پر مشتمل تھی جس میں سے ۲۰ لاکھ کے قریب مسلمان اور باقی عیسائی ہیں۔ اندازاً۳ لاکھ مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا‘ ۵ لاکھ مسلمان ہجرت کرچکے ہیں اور ۱۲ لاکھ کے قریب مسلمان اس وقت بوسنیا میں موجود ہیں۔ بوسنیا کے رئیس العلما ڈاکٹر مصطفی سیریج نے ایک موقع پر کہا کہ: ہم تو اسلام کو بھول چکے تھے مگر ہمیں سربیا نے اسلام سے ایک بار پھر جوڑ دیا۔
یہاں یہ بات واضح طور پر محسوس ہوئی کہ کمیونزم کے تسلط نے یہاں کے مسلمانوں کو دین سے دُور کر دیا تھا‘اور ہر اس ذریعے پر پابندی عاید کر دی تھی جس سے اسلام کے بارے میں معلومات لوگوں تک پہنچ پائیں۔ موجودہ نوجوان نسل نے اگرچہ کمیونزم کے ماحول میں آنکھ کھولی‘ مادر پدر آزادی کی تعلیم انھیں دی گئی اور وہ اسی رنگ میں پل کرجوان ہوئے مگر اُن کی روح میں اسلام کو جاننے اور اسے اپنانے کے لیے ہمیشہ ایک پیاس اور تڑپ موجود رہی ہے۔ ان میں دین کے بارے میں کتنا شعور ہے‘ اور اس کے لیے وہ کتنی تڑپ رکھتے ہیں‘ اس کا اندازہ درج ذیل ایک واقعے سے لگایا جا سکتاہے:
ہم سرائیوو کے ایک سنٹر سے گزر رہے تھے کہ ظہر کی اذان سنائی دی۔ جب ہم مسجد میں داخل ہو رہے تھے تو ہم نے ایک خاتون کو دیکھا جو پینٹ شرٹ میں ملبوس تھی (یہاں پر یہی لباس پہنا جاتا ہے)۔ اس نے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر اپنے پرس سے اسکارف نکالا‘ سر پر باندھا اور گائون پہن کر مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے داخل ہوئی۔ نماز پڑھنے کے بعد اس خاتون نے دونوں چیزیں دوبارہ اپنے پرس میں رکھیں اور چلی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ خواتین نے بھرپور پردہ کر رکھا ہے حتیٰ کہ ہاتھوں پر دستانے تک پہن رکھے ہیں۔ یہ منظر بھی دیکھنے میں آیا کہ ریستوران میں ایک نوجوان لڑکی کے سامنے سگریٹ اور افطار کے لیے سامان رکھا ہے اور وہ افطاری کے وقت کا انتظار کر رہی ہے۔ بوسنیا کے لوگوں کی اسلام سے دل چسپی سے متعلق جب مختلف لوگوں سے تبادلۂ خیال ہوا تو انھوں نے بتایاکہ جوں جوں ہمیں دین اسلام کا پتا چلتاجا رہا ہے‘ ہم اور ہماری خواتین اپنے لباس‘ پردہ‘ رہن سہن اور دیگر معاملات کو اسلامی تقاضوں کے مطابق ڈھالنے جارہے ہیں۔ سرب بوسنیا جنگ کے بعد یہاں کے مسلمان اپنے رسم و رواج کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے میں کوشاں ہیں۔مساجد اور مدرسے آباد ہو رہے ہیں۔ نوجوان نسل اسلام کی طرف پلٹ رہی ہے۔ وہ عالمِ اسلام سے اپنا تعلق قائم کرنا اور اسے بڑھانا چاہتے ہیں۔
ہمیں بوسنیا ہی میں رمضان المبارک گزارنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ تمام مساجد نمازِ تراویح کے لیے مرد و خواتین سے کھچا کھچ بھر جاتی تھیں۔ اجتماعی افطاری کا رواج بھی تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ دورانِ جنگ بوسنیا ہرذی گووینا کے اندر ۱۰۵۰ کے قریب مساجد شہید کر دی گئی تھیں جن میں سے اب تک ۴۰۰ کے قریب دوبارہ تعمیرہوچکی ہیں۔ ان مساجد کی تعمیر‘ ملک کی تعمیروترقی اور مختلف شعبوں میں سعودی عرب‘ عرب امارات‘ قطر‘ کویت‘ ملائشیا‘ انڈونیشیا اور ایران کی خدمات نہایت قابلِ قدر ہیں۔ فری ڈسپنسریوں کے قیام میں بھی ان ممالک کی کارکردگی قابلِ ستایش ہے۔ ان ممالک کے تعاون سے ہی بوسنیا کے ۲۰ہزار کے قریب یتیم بچوں کی تعلیم‘ رہایش ‘ کھانے پینے اور دیگر کفالتی ذمہ داریاں پوری کی جارہی ہیں۔ سرائیوو شہرمیں سعودی عرب کے تعاون سے یتیم بچوں کے لیے ایک بہت بڑا اسکول قائم ہوا ہے جہاں بڑی تعداد میں بچے زیرتعلیم ہیں۔
مہاجرین کے تباہ شدہ اور جلے ہوئے گھروں کی مرمت اور ازسرِنو تعمیرکا کام بھی جاری ہے۔ ریٹرن ایگریمنٹ کے مطابق یو این کمیشن‘ لوگوں کو ان کے گھروں میں واپس لاکر آباد کر رہا ہے۔ عیسائی تو بڑی آسانی کے ساتھ واپس آکر اپنے مکانات واپس لے رہے ہیں مگر جو مسلمان‘ عیسائی علاقوں میں آباد ہیں ان کو اپنے مکانات کی واگذاری میں حائل دشواریاں وہاں پر اُن کی آبادکاری میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
بوسنیا کے ڈائریکٹر اوقاف جناب ناظم خلیلووچ نے ایک ملاقات کے دوران بتایا کہ یواین او کے ریٹرن ایگریمنٹ کے مطابق ہر شخص اپنی جگہ پر واپس آئے گا مگر بہت کم لوگوں نے اسے قبول کیا۔ صرف ۱۵ فی صد ایسے لوگ ہی واپس آئے ہیں جو عمر کے آخری حصے میں ہیں۔ اس لیے یہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ یہ صورت حال ہمارے لیے باعثِ تشویش ہے۔ چونکہ بوسنیا کے چاروں طرف عیسائی آباد ہیں ‘ لہٰذا یہاں اسلام کے تحفظ میں مشکلات بڑھ جائیں گی۔ ڈائریکٹر اوقاف نے بتایا کہ زیادہ تر لوگ بے روزگار ہیں۔ جن لوگوں نے جہاد کیا‘ وہ بے روزگاری کے ہاتھوں مجبور ہوکر ہجرت کرگئے۔ یورپ نے ایک سازش کے تحت ہمیں تقسیم کردیا تاکہ انھیں سستی لیبر میسرآسکے اور بالآخر بوسنیا ان کا دستِ نگر ہوجائے۔
ڈائریکٹر اوقاف نے بتایا کہ جنگ کے دوران سربیا کی فوج پہاڑوں پر تھی اور ہم لوگ نیچے تھے۔ سرائیوو سے باہر نکلنے کا ایک ہی راستہ تھا جو ہوائی اڈے سے سرنگ کے ذریعے بنایا گیا تھا۔ اس سرنگ سے عالیجاہ عزت بیگووچ کئی مرتبہ گزر کر گئے۔ امیرجماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد نے دورانِ جنگ جب بوسنیا کا دورہ کیا تو وہ بھی اسی راستہ سے گزر کر آئے تھے۔ لوگوں کے دل میں ان کے لیے بڑی قدر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عالیجاہ عزت بیگووچ کو بوسنیا کے لیے منتخب فرمایا تھا اور ان کے ہاتھوں ہمیں آزادی نصیب ہوئی لیکن ان کی رحلت کے بعد اس پائے کا کوئی دوسرا فرد نظر نہیں آتا۔ البتہ سلیمان تھیج ایک ایسے لیڈر ہیں جو اس اہم ذمہ داری کو اُٹھا سکتے ہیں۔ ہمارا ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ایک حکمران یا لیڈر کے گزرنے کے بعد ہمارے پاس اس کا متبادل نہیں ہوتا۔
پاکستان کے حوالے سے یہاں کے لوگوں کے دلوں میں ایک الگ جذبہ پایا جاتا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ایٹمی ملک ہے۔ جونہی ان کے سامنے پاکستان کا نام لیا جاتا ہے تو وہ فوراًکہتے ہیں کہ پاکستان ہی تو عالمِ اسلام کا دھڑکتا ہوا دل ہے‘ اسلام کا قلعہ اور اسلامی دنیا کا حقیقی رہنما ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام عالمِ اسلام کے تحفظ کا ضامن ہے۔
جنگ کے بعد یہاں پر ۷۰ فی صد لوگ بے روزگار ہیں‘ صرف ۳۰ فی صد لوگ برسرِروزگار ہیں۔ عام طور پر تنخواہ کا معیار ۱۰۰ ڈالر سے ۲۰۰ ڈالر تک ہے مگر اب آہستہ آہستہ اس میں بہتری آرہی ہے۔ بوسنیا کے مسلمان منتظرہیں کہ عالمِ اسلام‘ بوسنیا میں آکر سرمایہ کاری کرے تاکہ لوگوں کی معاشی حالت بہترہوسکے۔ یورپ بھی یہاں کی صنعتی ترقی کے لیے کوئی بڑی سرمایہ کاری نہیں کر رہا اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت ہمیں معاشی بدحالی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے تاکہ حالات سے مجبور ہوکر لوگوں کا اسلام کی طرف بڑھتا ہوا رجحان بدل جائے اور وہ روزگار کے چکرمیں پھنس کر رہ جائیں‘ اور اسلام اور عالمِ اسلام سے مایوس ہوکر ایک بار پھر مغرب سے اپنی امیدیں وابستہ کر لیں۔ عالمِ اسلام اگر پوری ذمہ داری کے ساتھ یہاں سرمایہ کاری کرتا ہے تو جہاد کے ثمرات ہمیشہ حاصل رہیں گے۔
۱۱ستمبرکے واقعے کے بعد دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں انھیں بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ عالم اسلام کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے‘ یورپ کے قلب میں واقع‘ اس ننھی منی سی اسلامی ریاست کی ہر پہلو سے مدد کرنی چاہیے اور ان کے ساتھ رابطے کی موثر صورت نکالنی چاہیے تاکہ ان کے عزم اور حوصلے میں کمی نہ آئے اور وہ اپنے آپ کو عالمِ اسلا م سے الگ تھلگ‘ یا لاتعلق نہ سمجھیں۔ بوسنیا کی تعمیرنو اور بحالی پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ امریکہ اور مغرب کے دبائو کے سبب اکثر مسلم این جی اوز اپنا کام سمیٹ کر یہاں سے جاچکی ہیں۔ البتہ کچھ این جی اوز کام کر رہی ہیں۔
اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ بوسنیا کے طالب علموں کو حصولِ تعلیم کے لیے پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں اسپانسر کیا جائے۔ باصلاحیت لوگوں سے رابطہ کر کے ان کو وسائل مہیاکیے جائیں تاکہ تفہیم القرآن اور دیگر اسلامی لٹریچر کا بوسنیائی زبان میں ترجمہ اور اس کی اشاعت کا کام مربوط انداز میں ہو سکے۔ وہاں کے ٹیلی وژن اور میڈیا کے ذریعے لوگوں میں اسلامی رہن سہن اور مسلمان کے روز و شب‘ ترتیلِ قرآن‘ نماز کی ادایگی کا طریقہ‘ قرآنی تعلیمات‘ پردے کی اہمیت وغیرہ جیسے موضوعات پر پروگرام تیار کرکے پیش کیے جانے چاہییں تاکہ لوگ اسلام پر صحیح معنوں میں عمل پیرا ہوسکیں۔ نیز وفود کا تبادلہ ہونا چاہیے‘ تربیتی پروگراموں میں بوسنیا کے لوگوں کی شرکت ممکن بنانی چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد کی تربیت کے مواقع میسرآسکیں اور قیادت کے بحران کا مسئلہ بھی کسی حد تک حل ہوسکے۔
امید کی جاتی ہے کہ ان چند ناگزیر اقدامات کے نتیجے میں بوسنیا کا اسلامی تشخص مزید گہرا ہوسکے گا‘ اُمت مسلمہ سے قربت پیدا ہوگی ‘اور یورپ کے قلب میں اسلام کا علَم صحیح معنوں میں بلند کیا جا سکے گا۔