مغرب میں اسلام کے حوالے سے جتنی کتابیں چھپی ہیں‘ تقریباً ساری ہی کتابوں میں کسی نہ کسی پہلو سے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کا تذکرہ ملتا ہے۔ جاپانی مستشرقین نے بھی مولانا اور جماعت کا ذکر کیا ہے اور مغربی مستشرقین نے بھی۔ حالیہ برسوں میں نمایاں ہونے والی ’بیداری اسلام کی لہر‘ کے ڈانڈے اکثر و بیش تر اسکالر‘ مولانا مودودی‘ حسن البنا شہید اور سید قطب شہید کی تحریروں سے ملاتے ہیں۔ اس سلسلے میں کئی مستشرقین کے نام آتے ہیں۔ ذیل میں جدید مستشرقین کی بعض ایسی کتابوں کا ذکر پیش کیا جا رہا ہے‘ جس سے اندازہ ہو گا کہ انھوں نے مولانا مودودی‘ جماعت اسلامی اور بعض دیگر مسلم شخصیات اور تحریکوں کو کن زاویوں سے دیکھا اور ان کا تجزیہ کیا ہے۔
۱
ہاجسن‘ مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کا تذکرہ اس طرح شروع کرتا ہے: جدید دور میں شریعت کے اطلاق کا نظریہ انتہائی ترقی یافتہ شکل میں جس نے پیش کیا‘ وہ بھارت اور پاکستان کی جماعت اسلامی کی تحریک ہے‘ جس کی قیادت سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کر رہے تھے۔ ۱۹۳۹ء کی دوسری عالم گیر جنگ سے بہت پہلے ہی سے‘ وہ اپنے ان نظریات اور اصولوں کی ترویج و اشاعت شروع کرچکے تھے۔
اس کے بعد ہاجسن عصر حاضر میں شریعت کے اطلاق کے نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ: بالعموم یہ محسوس کیا جانے لگا کہ ایک مثالی معاشرتی نظام کے طور پر اسلام ہی ’’حقیقی‘‘ جمہوریت پیش کرتا ہے‘ کیونکہ اس نے اپنے پیروؤں کے درمیان پوری قوت کے ساتھ مساوات قائم کی اور حکمران وقت پر یہ پابندی لگا دی کہ وہ مملکت کے امور چلانے کے لیے اپنے آپ کو ’شوریٰ‘ کے مشورے کا پابند کر لے۔ مزید یہ کہ اسلام ہی حقیقی ’سوشلزم‘ بھی پیش کرتا ہے کیونکہ سارے اور مجموعی سرمائے پر ہر سال ٹیکس(زکوٰۃ) کے ذریعے سے اسلام نے دولت مندوں پر اجتماعی ذمہ داری کے اصول کو نافذ کر دیا ہے
۴۵-۱۹۳۹ء کی عالم گیر جنگ کے بعد تجدید و احیاے اسلام کی بہت ساری کوششیں ہوئیں اور انھی کوششوں کے نتیجے میں ایک منظم‘ تحریک کا آغاز بھی ہوا‘ جس پر ہم جدید دور میں شریعت کے اطلاق کی اصطلاح ‘خصوصیت کے ساتھ چسپاں کر سکتے ہیں۔ ایک ہی وقت میں کئی شعبوں میں اس کے اطلاق کے امکانات نظر آنے لگے۔ اس نے ایک طرف تو لادینی قومیت کا نعم البدل فراہم کیا اور دوسری طرف اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی اداروں کے لیے بھی متبادل پیش کیا ‘ کیونکہ اس طرح کے اداروں کی بنیاد بھی وطنی قومیت کے نظریات پر تھی۔ اطلاق شریعت کی ان جدید تحریکوں نے یہ امید پیدا کی کہ عالم اسلام کے بیش تر ممالک ایک نئی بنیاد پر اتحاد کی ایک ہی لڑی میں پروئے جا سکتے ہیں۔ وہ نئی بنیاد یہ ہو سکتی تھی کہ تمام مسلم مملکتیں اور قومیتیں اندرونی طور پر اپنے آپ کو شریعت کے قانونی اصولوں سے باندھ لیں۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ایک مسلم قوم کو دوسری سے جدا کرنے والی کوئی چیز نہیں ہو گی کیونکہ دنیا کے سارے مسلمان شریعت کے اصولوں کی بنیاد پر ایک دوسرے سے بندھے رہنے کے پابند ہوں گے۔ اس طرح داخلی طور پر (یعنی ایک مسلم ملک کے اندر) اور بین الاقوامی طور پر بھی قومیت کی بنیاد صرف اسلام ہو گی۔
ہاجسن نے نفاذ شریعت کے ذریعے ’حقیقی‘ جمہوریت اور’حقیقی اجتماعیت‘ کے نفاذ کے امکانات اور قومیتوں کے بت کو توڑ کر حقیقی اسلامی اتحاد کے تصورات کو پیش کرنے میں مولانا مودودی کی تحریر اور تحریک کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ مغربی دنیا نے قومیت کے تصور پر مبنی جو ایک ریاست کا تصور دیا‘ اس کا ایک بہت بڑا (تاریخی اہمیت کا حامل) جواب یہ ملا کہ: نفاذ شریعت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ریاست کو ایک قانونی ادارے کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ اس طرح یہ تصور ابھرا کہ شریعت کے اطلاق کے معنٰی (ماضی کے تجربات کی طرح) صرف یہ نہیں ہوں گے کہ تاریخی طور پر آزادانہ حیثیت سے‘ جو ادارہ چیدہ چیدہ شرعی فیصلے دیتا ہے وہی ایک مسلم حکمران پر لاگو ہوں گے‘ بلکہ یہ بھی کہ (اس طرح کی قومیت پر مبنی جو بھی ریاست وجود میں آئے گی) اس کا ’’دستور‘‘ بھی اسلامی شریعت پر مبنی ہو گا اور ایک قانونی ادارے کی حیثیت سے مزید ترقی دینے کے لیے بھی کوشاں رہے گا۔
نفاذ شریعت کے قدیم تصور کے مطابق ایک مسلم حکمران کا کام قاضی کے شرعی فیصلے ماننا اور انھیں نافذ کرنا ہے۔ لیکن اب اس قدیم تصور میں تبدیلی آئی ہے اور ایک قومی ریاست کے وجود میں آنے سے نفاذ شریعت کا ایک جدید تصور سامنے آیا ہے‘ جسے مولانا مودودی نے پیش کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ریاست کا پورا دستور بھی شریعت کی بنیاد پر ہو اور سارے قوانین بھی اسی بنیاد پر بنیں۔ ہاجسن کے مطابق نفاذ شریعت کے تصور میں یہ تاریخی تبدیلی بھی مولانا مودودی اور ان کی برپا کردہ اس تحریک کی بنا پر وجود میں آئی ہے‘ جس تحریک کو وہ ۱۹۳۹ء میں شروع ہونے والی عالم گیر جنگ سے پہلے سے چلا رہے تھے۔
اس کے بعد ہاجسن مولانا مودودی پر لگائے جانے والے اس الزام پر بحث کرتا ہے کہ مولانا مودودی نے تخلیق پاکستان کی مخالفت کی تھی؟ (اندازہ ہوتا ہے کہ ہاجسن کی نیت بخیر ہے۔ اس کا مقصد مولانا مودودی کو بدنام کرنا نہیں جیسا کہ بعض سیاسی طالع آزمائوں کا رویّہ ہے)۔
ہاجسن یہ وضاحت کرتا ہے کہ تحریک پاکستان کے سلسلے میں مولانا مودودی کے طرز عمل کی وجہ کیا تھی؟ اس کے خیال میں مولانا مودودی کو اندیشہ یہ تھا کہ ریاست پاکستان‘ سیکولر خیالات کے حامی‘ مغرب زدہ اور تجدد پسند طبقے کو برسراقتدار لے آئے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا مولانا مودودی کا یہ خیال صحیح نکلا کہ قیام پاکستان کے ۵۶ سال بعد بھی‘ آج تک پاکستان میں اسلامی شریعت نافذ نہیں ہوئی۔ اسی خطرے سے نمٹنے کے لیے انھوں نے (جماعت اسلامی کے ذریعے) اس طرح کے تجدد پسند طبقے اور اس کے سیکولر خیالات سے پاکستان کے اسلامی کردار کو بچانے کی کوشش کی۔
آگے چل کر ہاجسن لکھتا ہے کہ: جب پاکستان بن گیا تو پاکستان بنانے والے رہنماؤں کے ارادوں کے علی الرغم اس نئے مرکز سے سید مودودیؒ نے پاکستان کو حقیقی اسلامی مملکت بنانے کی ایک مہم کا آغاز کیا۔ اس مہم کو علما اور اسکالروںکی طرف سے وسیع پیمانے پر حمایت حاصل ہوئی۔ یہ مہم کالجوں کے طلبہ میں بھی بہت مقبول ہوئی۔ بھارت اور پاکستان دونوں ممالک میں سید مودودی اور ان کے ساتھیوں نے جدید اداروں کو اسلامی شریعت کے اصولوں پر ڈھا لنے‘ اس کی نظریاتی بنیادیں فراہم کرنے اور ان سے متعلقہ مسائل کو حل کرنے کے لیے بیش بہا خدمات انجام دیں۔ انھوں نے یہ راستہ اختیار نہیں کیا کہ مغربی دنیا میں جس بات کا چلن ہو گیا ہے اسی کو شریعت کی نئی تعبیر سے سند جواز فراہم کریں‘ بلکہ انھوں نے ایسے نعم البدل طریقے دریافت کرنے کی کوشش کی جو شریعت کی بنیاد پر صحیح ہوں۔ وہ یہ بات بتانے کے لیے بھی کوشاں رہے کہ بڑے پیمانے پر چلنے والے جدید مالیاتی اداروں کو کس طرح سودی نظام کے بغیر امداد باہمی کے بنکوں کے ذریعے چلایا جائے‘ جن میں سود نہ ہونے کے سبب ایسے بڑے بڑے سرمایہ دار خاندان وجود میں نہ آ سکیں جو کسی ذاتی محنت اور پیداواری سرگرمی کے بغیر محض سود کی وجہ سے امیرسے امیر تر بنتے جا رہے تھے۔
ہاجسن وضاحت کرتا ہے: مولانا کو اس بات کا بھی افسوس تھا کہ پاک و ہند میں ایک ایسا فرسودہ قانونی نظام چل رہا تھا جس میں وکلا‘ شریعت کا نام لینے کے ساتھ ساتھ‘ اپنے موکل کو کامیاب کروانے کے لیے ہر قسم کے جوڑ توڑ اور جھوٹ و فریب کے ہتھکنڈے استعمال کر رہے تھے۔ اور انھیں اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ مقدمے میں حق‘ سچائی اور انصاف کے تقاضے کیا ہیں۔ مولانا کا خیال تھا کہ پیشہ ور وکیلوں کی جگہ انصاف پسند مفتی حضرات کو سامنے لایا جائے‘ جس کا مقصد یہ ہو کہ وہ مفتی حضرات کسی بھی مقدمے کے اندر سچائی اور انصاف کے پہلوؤں کی وضاحت کریں جس سے جج کسی صحیح فیصلے پر پہنچ سکے۔ مولانا مودودی اس طرح جدید قانونی نظام کو چلانے کے لیے قانونی ماہرین کی تربیت کرنے کے لیے بھی کوشاں تھے۔
فکر مودودی کی اس وضاحت کے بعد ہاجسن نے مصر میں تشکیل پانے والی تحریک اخوان المسلمون اور حسن البنا شہیدؒ کی زندگی اور خدمات کے بارے میں تفصیلات پیش کی ہیں۔ اس نے بتایا ہے: یہ بھی نفاذ شریعت کی وہی تحریک تھی جس کی ابتدا مولانا مودودی نے دوسری عالم گیر جنگ سے قبل ہندستان میں شروع کی تھی۔ ہاجسن فکرِمودودی کے وسیع اثرات کے ضمن میں کہتا ہے: دوسری جنگ عظیم کے بعد انڈونیشیا میں جو تحریک آزادی اٹھی تھی‘ اس میں بھی نفاذ شریعت کی بات شامل تھی۔ وہ اس تحریک کی تفصیلات انڈونیشیا کے حوالے سے بتاتا ہے (جو اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے)۔
آگے چل کر وہ ایران میں بھی اسی نوعیت کی تحریک کا پس منظر بیان کرتا ہے: ان سب اسلامی ممالک میں جہاں جہاں بھی نفاذ شریعت کی تحریکیں اٹھی ہیں‘ ان سب میں تقدیم زمانی فکر ِمودودی کو حاصل ہے۔ وہ دوسری عالم گیر جنگ سے پہلے سے یہ تصور لے کر اٹھی تھی۔ اسی تقدیم زمانی کی وجہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتاہے کہ دوسرے اسلامی ممالک بھی براہ راست یا بالواسطہ فکر مودودی کے اس پہلو سے ضرور متاثر ہوئے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں نفاذ شریعت کی تحریکیں زور و شور سے اٹھیں اور اس وقت بھی مختلف مسلم ملکوں میں اس کے اثرات کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔
۲
The Revenge of God: The Resurgence of Islam, Christianity and Judaism in the Modern World, 1994.
یہ کتاب علمی حلقوں میں بہت مقبول ہوئی۔ مستشرقین کی دنیا میں اس کتاب کی اہمیت ایسی ہے‘ جس طرح کولمبس کی‘ کہ جس نے امریکہ دریافت کیا تھا۔
گذشتہ دو صدیوں سے دنیا لادینیت یا سیکولرزم کی راہ پر گامزن تھی۔ اس کی ابتدا اٹھارھویں صدی کے نئی روشنی کے فلاسفروں نے کی تھی۔ عقلیت کے فلسفے نے مذہبی اعتقاد کی بنیادیں ہلا دی تھیں‘ اور ۱۹۷۰ء کے عشرے تک یہ رجحان ساری دنیا میں اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔ گیلس کیپل نے پہلی دفعہ اپنی اس کتاب میں یہ انکشاف کیا کہ ۱۹۷۵ء کے بعد سے یہ رجحان الٹے رخ پر چل پڑا ہے اور تینوں ابراہیمی مذاہب یعنی اسلام‘ عیسائیت اور یہودیت میں احیا کی تحریکیں زور پکڑتی جا رہی ہیں۔
جدید مستشرقین نے کیپل کے تجزیے کا گہرا اثر لیا ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر اپنے اپنے نظریات کو مزید آگے بڑھایا ہے۔ ہنٹنگٹن نے اپنی مشہور کتاب تہذیبوں کا تصادم میں کیپل کی اس کتاب کا بار بار حوالہ دیا ہے۔ بلکہ کیپل ہی کے اس تجزیے کو بنیاد بنا کر ہنٹنگٹن نے تہذیبوں کے تصادم کا اپنا نظریہ پیش کیا۔
اس کتاب میں گیلس کیپل نے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کا براہ راست ذکر تو صرف ایک جملے میں کیا ہے۔ لیکن فکرِ مودودی نے جب اخوان المسلمون کے مفکر سید قطب کے روپ میں جنگ عظیم دوم کے بعد احیائی جنم لیا تو مستشرقین کی توجہ عرب دنیا میں اس نئے زلزلہ انگیز پہلو کی طرف مبذول ہوئی۔ ویسے تو اخوان المسلمون ۱۹۲۸ء میں حسن البنا شہید نے قائم کی تھی اور جماعت اسلامی ۱۹۴۱ء میں وجود میں آئی‘ لیکن فکر مودودی نے اخوان المسلمون کے رہنماؤں اور کارکنوں کو اس شدت سے متاثر کیا کہ اب جدید مستشرقین سید قطب کی فکر کو فکر مودودی ہی کا عکس قرار دیتے ہیں۔
اسلامیہ کالج پشاور میں مولانا مودودی کے مشہور خطبے اسلام اور جاہلیت میں پیش کی گئی اس فکر کو سید قطب نے اس انداز میں آگے بڑھایا کہ آخرکار انھیں پھانسی کے انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ اس تذکرے کے بعد کیپل گفتگو کا رخ دوسری طرف موڑتا ہے۔
پاکستان میں فکر مودودی نے طلبہ‘ مزدوروں اور اردو صحافت و ادب کی دنیا میں مارکسزم کو شکست دی ہے۔ کیپل اپنی اس کتاب میں اس پہلو کی بھی وضاحت کرتا ہے کہ اسلامی تحریکوں نے عرب دنیا میں مارکسزم کا نعم البدل فراہم کیا ہے۔
وہ کہتا ہے: معاشرے کی بے جا اونچ نیچ اور ناانصافیوں کو چیلنج کرنے کے لیے جو گروہ مارکسزم سے متاثر ہو کر سرگرمی دکھا رہے تھے‘ شرق اوسط کے مسلم ممالک میں احیاے اسلام کی تحریکوں نے ان کی جگہ لے لی۔ یہ ۱۹۷۰ء کے عشرے کی بات ہے جب دونوں گروہوں میں معاشرے سے امکانی بغاوت کے جتنے بھی منابع ہو سکتے تھے‘ ان پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے آپس میں جگہ جگہ خوب ٹکرائو شروع ہوئے۔ یہ لڑائیاں تعلیمی مدارس‘ یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں ہوئیں۔ بڑے بڑے شہروں کے علاوہ مضافات کے ان مقامات پر ٹکرائو ہوئے جہاں غریب لوگ اور مزدور رہتے تھے۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے کے اوائل تک مارکسزم والوں کو ہر جگہ شکست فاش ہوئی۔
اس سلسلے میں گیلس کیپل نے الجزائر کی ایک دل چسپ مثال دی ہے کہ وہاں حکومت خود کیوں کر مجبور ہوئی کہ وہ عرب ممالک سے اخوان المسلمون کے کارکنوں کو بلائے تاکہ وہ الجزائر کے نوجوانوں کو مارکسزم کی لعنت سے بچائیں۔ الجزائر نے فرانس کی غلامی سے آزادی حاصل کی‘ لیکن فرانس کے ساتھ اس کے تہذیبی یا تمدنی تعلقات قائم رہے۔ آزادی کے فوری بعد ۱۹۷۰ء کے عشرے کے اوائل میں طلبہ میں ایک بہت بڑی بائیں بازو کی عوامی تحریک رو پذیر ہوئی۔ اس کی قیادت اشتراکیت پسند پارٹی PAGS (Socialist Avent-Grade Party) کے ہاتھ میں تھی۔اس پارٹی نے زرعی اصلاحات کا علَم اٹھایا ہوا تھا۔ اس پارٹی کو مئی ۱۹۶۸ء میں فرانس میں ہونے والے طلبہ‘مزدور مظاہروں اور ہوانا (کیوبا) اور بیجنگ (چین) سب جگہ کے واقعات سے بڑی تقویت حاصل ہوئی تھی۔ اسے یقین تھا کہ اس نے زرعی اصلاحات کی جو مہم چلا رکھی تھی‘ ان مظاہروں سے کسانوں میں بھی ایک انقلاب برپا ہو گا۔ اس سے کرنل حوری بومدین کی ترقی پسند فوجی حکومت سوشلزم کی راہ پر چل پڑے گی۔ الجزائر کے یہ نوجوان صرف فرانسیسی زبان جانتے تھے۔ اسی زبان میں یہ سوچتے‘ پڑھتے اور لکھتے تھے۔ ان میں سے اکثر و بیش تر کو عربی تحریر سے کوئی واقفیت نہیں تھی۔ اس صورت حال سے پریشان ہو کر حکومت نے مشرق وسطیٰ سے عربی بولنے والے طلبہ کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن عرب ممالک میں یہ الجزائرکے طلبہ اخوان المسلمون سے متاثر اور ان سے مضبوط روابط رکھے ہوئے تھے۔ الجزائرمیں عربیت کے رواج کی اس حکومتی مہم کے نیتجے میں حکومت پر دبائو ڈالنے والے مارکسسٹ گروپ بہت کمزور ہوئے‘ اور بالآخر ان کی قیادت اسلامی تحریکوں کے ہاتھ میں آگئی۔
پاکستان ہی نہیں دیگر مسلم ممالک میں بھی‘ جہاں جہاں اسلامی تحریکیں اٹھیں‘ انھوں نے ہر جگہ کمیونزم کے فتنے کی بنیاد ہلا دی۔ ورنہ گیلس کیپل کے خیال میں: ۱۹۶۰ء کے عشرے کے اواخر میں مراکش‘ تونس‘ ترکی اور لبنان میں بائیں بازو کی تحریکیں انتہائی تیزی کے ساتھ پھیلتی جارہی تھیں۔ ان کے سماجی ڈھانچے کو جانچنے کا نقطہ نظر اور مستقبل کو بہتر بنانے کے خواب وہی تھے جو مارکس اور لینن کے لٹریچر سے ماخوذ تھے--- لیکن ان ساری اشتراکیت پسند تحریکوں کو ساری مسلم دنیا میں اسلامی احیائی تحریکوں نے پسپائی سے دوچار کر دیا۔ اور آج ترکی میں دوتہائی سے زائد اکثریت رکھنے والی ایک اسلام پسند تحریک کی حکومت ہے۔
ایران میں بھی خلق پارٹی اور دوسری کمیونسٹ تنظیمیں اپنے عروج پر تھیں۔ کیپل کہتا ہے کہ یہ نظر آرہا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ میں ایک بڑا انقلاب آنے والا ہے۔ لیکن جب ۱۹۷۰ء کے عشرے کے اواخر میں یہ انقلاب آیا تو یہ مارکس اور لینن کے پرچم تلے نہیں آیا‘ بلکہ اس سے اسلامی جمہوریہ ایران وجود میں آیا۔ جس کی نہ کسی نے پیش قیاسی کی تھی اور نہ کسی کے وہم و گمان میں تھا۔ تاریخ نے مغربی دنیا کے امورِخارجہ کے ساتھ ایک چال چلی تھی۔ اس نے ایک انقلاب کی امید دلا کر عملاً ایک دوسرے انقلاب کو جنم دیا تھا۔ جہاں مغربی دنیا اشتراکیت کے نشان درانتی اور ہتھوڑے کی توقع کر رہی تھی‘ اس کی جگہ پگڑی باندھے ایک ملاّ سامنے آیا۔ یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ اسلامی تحریکوں نے مارکسسٹوں کے پیروں تلے سے زمین تو نکال دی لیکن اس سے دوسرے ایسے مسائل پیدا ہو گئے جو عالم اسلام تک محدود نہیں رہے۔
مارکسزم کو اسلامی تحریکوں نے ہر ملک میں شکست دے دی اور یہ ثابت کر کے دکھایا کہ اسلام ایک فرسودہ مذہب نہیں‘ بلکہ لادینی نظام ‘ خوفِ خدا اور فکر ِ آخرت کی بنیاد پر تشکیلِ نو کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ سب وہ تعلیمات ہیں جن سے ہمیں فکر مودودی نے روشناس کروایا اور اسی کے اثرات سارے عالمِ اسلام میں بھی رونما ہوئے۔
۳
۱۹۶۷ء میں ڈاکٹر قیصر فراح) (Caesar Farah کی کتاب Islam امریکہ کی مینی سوٹا یونی ورسٹی سے شائع ہوئی تھی۔ اس کا ساتواں ایڈیشن ۲۰۰۳ء میں منظر عام پر آیا ہے۔ اس کتاب میںفکر مودودی کے مختلف پہلوئوں پر تبصرہ بھی ہے اور موجودہ مسلم ممالک میں اسلامی تحریکوں کا جائزہ بھی۔ مسلم ممالک کی مختصر تاریخ کے علاوہ غیرمسلم ممالک میں جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں‘ وہاں کی مسلمان اقلیتوں کی تفصیلات بھی ہیں اور جس میں پرانی تفصیلات کم اور موجودہ دور کے واقعات کی وضاحت زیادہ ہے۔
قیصر فراح نے کہا ہے کہ مائونٹ بیٹن نے ریاستوں کو آزادی دی تھی‘ لیکن بھارت نے ۲۰لاکھ مسلمانوں کی آزاد مسلم ریاست حیدر آباد‘ دکن پر حملہ کر کے اس کے وجود کو مٹا دیا۔ اور ۱۹۴۸ء میں کشمیر پر حملہ کر کے وادیِ جموں و کشمیر پر بھی اپنا قبضہ جمالیا۔ اس اقدام پر بھارتی مسلمانوں نے اپنے آپ کو منظم کیا اور اپنی سرگرمیوں میں توسیع کی۔
دو انتہائی فعال اور متحرک تحریکوں کا ذکر کرتے ہوئے فراح نے بتایا ہے کہ جماعت اسلامی اور تبلیغی جماعت دو بڑی منظم جماعتیں ہیں۔ ان میں سے ایک (یعنی جماعت اسلامی) مسلمانوں کی مختلف کمیونٹی سرگرمیوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے‘ اور تبلیغی جماعت مسلمانوں میں عبادت کا ذوق و شوق بڑھانے کے لیے ان کی روحانی اصلاح کے لیے کوشاں ہے۔
جماعت اسلامی کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے فراح نے لکھا ہے: بھارت میں بنیادی اسلامی تعلیم‘ مکاتب اور مدرسوں‘ ابتدائی اور ثانوی اسکولوں میں دی جاتی ہے۔ جماعت اسلامی (بھارت) نے اس مقصد کے لیے ساٹھ درسی کتابیں تیار کی ہیں‘ جو ان اسکولوں اور مدارس میں پڑھائی جاتی ہیں۔
فکرِ مودودی نے عرب ممالک میں اخوان المسلمون کو متاثر کیا اور پھر یہ دونوں تحریکیں مل کر دوسرے ملکوں کی اسلامی تحریکوں کی فکری بنیاد بن گئیں۔ افغانستان پر ان اثرات کے بارے میں فراح نے کہا ہے: افغانستان کی اسلامی تحریک اپنے افکار کی تشکیل کے لیے زیادہ تر مصر کی اخوان المسلمون کی مرہون ِ منت ہے۔ اس کے رہنما مقامی علما کی گرفت سے آزاد تھے ‘لیکن ان کے بہت سے مقاصد مشترک تھے‘ مثلاً یہ کہ کس طرح افغان معاشرے کو اسلامی اصولوں کی بنیاد پر جدید سانچے میں ڈھالا جائے۔ ان میں سے چند رہنما قاہرہ کی جامعہ ازہر سے فارغ التحصیل تھے (اور پروفیسر کہلاتے تھے)۔ وہ اس تحریک ِ مزاحمت میں سرگرم تھے۔ ان کی رہنمائی برہان الدین ربانی اور نیازی کر رہے تھے۔ اس تحریک کا نام جمعیت اسلامی تھا۔ ان لوگوں نے سید قطب اور سید مودودی کی کتابوں کا ترجمہ کر کے ان کے افکار سے اپنے کارکنوں کو روشناس کروایا تھا۔ ان رہنمائوں میں سے کچھ نے اخوان کی تحریک سے ناصر کے ظلم و ستم سے پہلے بھی اور بعدمیں بھی روابط قائم رکھے ہوئے تھے۔
قیصر فراح کے خیال میں پاکستان میں اسلام کی بات منظم اور مؤثر طریقے سے چلنی شروع ہوئی تو صرف اور صرف مولانا مودودی کی وجہ سے۔ ورنہ اس کے حکمرانوں کو تو فقط ایک آزاد اور علیحدہ ریاست سے دل چسپی تھی‘ جو ہندو اکثریت سے الگ ہو۔ لیکن یہ کہ اس ریاست میں لازماً اسلام کا بول بالا ہو‘ اس کے لیے ان حکمرانوں کے ہاں کوئی سنجیدہ رویہ نہیں تھا ۔ فراح کے خیال میں مولانا مودودی کی جماعت اسلامی‘ مسلم لیگ کے بالمقابل کھڑی ہو گئی۔ جماعت اسلامی نے ریاست کی تشکیل کے لیے تجدد پسند اعلیٰ طبقے کو سارے اختیارات دینے کی مخالفت کی اور ہندستان کی اسلامی امت کو افتراق سے بچا کر جسدِ واحد کی طرح ساتھ لے کر چلنے پر اصرار کیا۔ مولانا مودودی قومیت کی بنیاد پر ریاست کی تشکیل کے خلاف تھے کیونکہ یہ ایک غیر اسلامی تصور تھا --- پاکستان بننے کے بعد انھوں نے اپنی پوری قوت سے کوشش کی کہ یہ مملکت اسلام کے اصولوں کی بنیاد پر تشکیل پائے۔
فراح نے اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ پاکستان میں اسلامی بنیادوں پر ریاست کی تشکیل کی آواز اگر کسی نے اٹھائی ہے تو صرف مولانا مودودی اور جماعت اسلامی: لادینیت یا سیکولر رجحان کی ہوا کا رُخ پھیرنے اور پاکستان میں نفاذ اسلام کو زیادہ سے زیادہ مؤثر کرنے کے لیے مسلسل کوشاں رہے۔ قدیم روایات کے مطابق معاشرے کی اصلاح کر کے اس کو اسلام پر چلانے کے لیے جتنے بھی مصلحین کھڑے ہوئے ہیں‘ ان سب کا ایک معیاری طریقہ تھا‘ مولانا مودودی نے بھی وہی اختیار کیا تھا۔ وہ متفقہ معیار یہ تھا کہ قرآن کی تعبیر ایک مسلم آئیڈیالوجی کے پس منظر ہی میں صحیح طور پر کی جا سکتی ہے۔ مغربی فلسفے کا اس تعبیر میں کوئی مقام نہیں ہے۔ مغربی فلسفے کے ساتھ اسلام کا کوئی ملغوبہ تیار نہیں کیا جا سکتا‘ کیونکہ مسلم آئیڈیالوجی میں مذہب ہی اس کی روح ہے اور یہی اس کی رہنمائی کرنے والی کلید تھی۔ سید مودودی نے یہ بات بالکل صحیح اور درست کہی ہے کہ اسلام محض ایک مذہب نہیں ہے‘ یہ ایک مکمل نظام حیات ہے۔ اس کے اندر سیاسی نظام بھی ہے‘ معاشی نظام بھی اور ایک قابل عمل مذہب بھی‘ کیونکہ یہ ایک مکمل دین ہے۔ ان تصورات کی روشنی میں مولانا مودودی نے زور دیا کہ ان سب باتوں کو صرف اسی صورت میں روبہ عمل لایا جا سکتا ہے جب زندگی کے سارے شعبوں پر اس کا اطلاق کیا جائے‘ صرف کسی محدود حصے پر نہیں۔
بعض دوسرے مستشرقین کی طرح فکر مودودی میں کیڑے نکالنے کی کوشش کرنے کے بجاے فراح نے اس کے تصور اسلام کی مکمل تائید کی ہے۔ اس کے بعد اس کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا ہے کہ :۱۹۷۷ء سے پاکستان کی سیاست کا طرہ امتیاز یہ رہا ہے کہ مختلف اداروں کو اسلامی اصولوں پر ڈھالنے کی پالیسی کی رفتار تیز تر کر دی گئی۔ افغانستان اور ایران جیسے پڑوسی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اب اسلام ایک ایسی سیاسی اور اجتماعی قوت بن کر ابھر چکا ہے کہ اس کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔ بالآخر یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ پاکستان کے سارے قوانین کو اسلامی شریعت کے مطابق ڈھالا جائے گا۔
اس فیصلے پر پہنچنے سے پاکستان کی تاریخ میں لادینیت اور فکر مودودی کے درمیان جو پنجہ آزمائی ہوتی رہی ہے‘ اس کا نقشہ فراح نے اس طرح کھینچا ہے: ’’۱۹۴۸ء میں مودودی کو جیل میں ڈالا گیا۔ قدیم روایات کے علم بردار مذہبی رہنما اور نئے بنیاد پرست رہنماؤں کو بھی ۱۹۵۳ء میں اس الزام میں جیل میں ڈالا گیا کہ انھوں نے فسادات برپا کیے تھے۔ اکتوبر ۱۹۵۴ء میں اسکندر مرزا نے جو اس وقت ہوم سیکرٹری تھے اعلان کیا کہ ’’مذہب اور سیاست کو علیحدہ کیا جا سکتا ہے اور کیا جانا چاہیے‘‘۔ --- ۱۹۵۶ء کے دستور میں پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا۔ ۱۹۶۲ء میں ایوب خان نے اپنے دورحکومت میں ’’اسلامی‘‘ کا لفظ پاکستان کے نام سے الگ کر کے نکالنا چاہا لیکن ناکام رہا۔ ترکی کے اتاترک کی طرح کی ایک لادینی ریاست بنانے کی کوشش کی گئی‘ لیکن اس کو تائید و حمایت نہیں حاصل ہو سکی۔ آہستہ آہستہ اسلامی اور اعتدال پسند طبقے کا پلہ بھاری ہونے لگا۔ لیکن نہ تو علما نے اور نہ جمعیت العلما نے کوئی نعم البدل آئیڈیالوجی پیش کی بلکہ وہ صرف یہی مطالبہ کرتے رہے کہ ملک کے دستور کو شریعت کے مطابق ہونا چاہیے۔ علما اسی طرح ریاست کی رہنمائی کر سکتے تھے جیسا کہ بعد میں چل کر ایران کے علما نے کیا۔ جماعت اسلامی نے نچلے شہری طبقے پر مبنی ایک تحریک چلانے کی کوشش کی لیکن مسلم سیکولر گروہ نے اس کی مزاحمت کی۔
۴
زمانہ حال میں پروفیسر جان ایل اسپوزیٹو (John L. Esposito) کا نام ایک نمایاں امریکی مستشرق کے طور پر سامنے آیا۔ اسپوزیٹو کی کتاب "Unholy War: Terror in the Name of Islam ۲۰۰۲ء میں شائع ہوئی۔
یہ کتاب ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعات کی توجیہہ و تعبیر کے لیے لکھی گئی ہے۔ مصنف مستشرقین کی دنیا میں ’سیاسی اسلام‘ کے تعلق سے صف اول کاماہر شمار کیا جاتا ہے۔ اخبار انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹریبون کے مطابق ’’امریکہ میں اسلامی دنیا پر اسکالر کی حیثیت سے سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی شخصیت ہیں‘‘۔ دی وال اسٹریٹ جرنل کے نزدیک: پروفیسر اسپوزیٹو امریکہ میں اسلام کی تعبیر و تشریح کرنے والوں میں اولین درجے کی مستند شخصیت‘‘ تصور کی جاتی ہے۔ اس کتاب کے علاوہ موصوف کی چار مزید کتابیں پہلے شائع ہو چکی ہیں اور دوسرے مستشرقین کے ساتھ مل کر تین مزید کتابیں تالیف کی ہیں۔ علاوہ ازیں آکسفورڈ کی تاریخ اسلام‘ اسلام کی آکسفورڈ ڈکشنری اور جدید اسلامی دنیا کی آکسفورڈ انسائیکلوپیڈیا کے ایڈیٹر بھی رہے ہیں۔ ان میں ایک کتاب Muslims and The West: Encounter and Dialogue مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کے مترجم ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری کے ساتھ مل کر لکھی ہے۔ اسپوزیٹو کا اسلام اور تحریک اسلامی کے ساتھ رویہ معاندانہ نہیں بلکہ افہام و تفہیم کا ہے۔
پروفیسر اسپوزیٹو (جارج ٹائون یونی ورسٹی‘ واشنگٹن) کا اس نوعیت کا رویہ میرے نزدیک فکرمودودی کا کمال ہے۔ کیونکہ جو شخص بھی کھلے دل کے ساتھ مولانا کی تحریر پڑھ لے‘ وہ اس میں کیڑے نکالنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے‘ اب آہستہ آہستہ بعض دوسرے مستشرقین بھی اسلام اور تحریک اسلامی کی عظمت اور اہمیت کے معترف ہوتے جا رہے ہیں۔
راقم نے اس مضمون کی ابتدا میں یہ بات کہی تھی کہ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعات کے ڈانڈے مولانا مودودی اور حسن البنا شہید سے ملائے جا رہے ہیں۔ اور جان ایل اسپوزیٹو کا شمار بھی ایسے ہی مستشرقین میں ہوتا ہے۔ اس کے خیال میں ’اسلامی انقلاب‘، ’اسلامی تحریک‘، ’جاہلیت جدیدہ‘ کے تصورات جدید دنیا کے سامنے پیش کرنے والے یہی دونوں اسلامی مصلحین ہیں۔ پھر اسپوزیٹو اور اس کے دوسرے ہم نوا مستشرقین کے خیال میں‘ ان دونوں میں بھی مولانا مودودی کا بحیثیت مفکر‘ حسن البنائ‘ پر پلہ بھاری ہے۔ ان دونوں سے متاثر ہونے والے حسن البناء کی تحریک اخوان المسلمون کے علمی و فکری قائد سید قطب بھی اپنی جگہ ایک بڑے مفکر ہیں۔ لیکن ان کی فکر کی بنیادیں بھی مولانا مودودی کی تحریروں سے ماخوذ ہیں۔ آگے چل کر اسپوزیٹو نے کہا ہے: سید مودودی اور سید قطب کے بعد سے تحریک اسلامی کا رخ اب آہستہ آہستہ پلٹنے لگا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بعد کے مفکرین نے تو پرامن قانونی و جمہوری جدوجہد کے ساتھ ساتھ‘ حالات و واقعات کی مناسبت سے حتی المقدور طاقت کے استعمال کو بھی جائز قرار دے کر جہاد کو اپنی جدوجہد کا ایک اہم حصہ قرار دیا ہے‘ جسے آج کی دنیا نے ’دہشت گردی‘ کا نام دے رکھا ہے۔
کشمیر کے مجاہدین کو ۲۰۰۱ء میں آگرہ چوٹی کانفرنس کے دوران صدر مشرف نے آزادی کے لیے لڑنے والے (freeedom fighter) قرار دیا‘ لیکن جب امریکہ نے دبائو ڈالا تو جنرل مشرف نے بے ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناعاقبت اندیشی کا ثبوت فراہم کر دیا۔ اب جنرل مشرف بھی بھارتی وزیراعظم اور امریکی صدر دونوں کو یقین دلانے کے لیے بے چین دکھائی دیتے ہیں کہ انھوں نے پاکستان سے کشمیر میں داخل ہونے والے ’’دہشت گردوں‘‘ کا راستہ بند کر دیا ہے۔ گویا اب وہ مجاہدین بھی جنرل صاحب کی نظر میں ’’دہشت گرد‘‘ بن گئے ہیں۔
مولانا مودودی کی زندگی میں جہاد اور دہشت گردی کی موجودہ بحث نہیں اٹھی تھیں‘ اس لیے ان کا زور جمہوری اور قانونی ذرائع سے اسلامی انقلاب تک محدود رہا۔ اس لیے جدید مستشرقین‘ فکر مودودی اور حسن البناء شہید کو موجودہ ’دہشت گردی‘ یا ’جہاد‘ کا ذمہ دار نہیں قرار دیتے‘ بلکہ سید قطب اور ان کے بعد کی چند اسلامی تحریکوں خاص کر’حماس‘ کے لیڈروں پر اس کی ذمہ داری عائد کرتے ہیں۔ لیکن اسلامی انقلاب کی فکر کی بنیاد ڈالنے والوں میں سید مودودی اور حسن البناء شہید کا تذکرہ اسپوزیٹو نے اس طرح کیا ہے:
اسلام نے جس تیزی سے اپنی جڑیں مضبوط کی ہیں اور جس تیز رفتاری سے یہ چار دانگ عالم میں پھیلا ہے‘ اسے دیکھ کر مغربی مؤرخین حیرت میں گم ہو جاتے ہیں۔ اسلام کے اس انگشت بدندان کرنے والے زبردست پھیلاؤ کو مسلم روایات میں قرآن کی سچائی اور اسلام کے اس دعویٰ کے برحق ہونے کے معجزانہ ثبوت اور تاریخی شہادت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ یہی خدائی ہدایت کا واحد سرچشمہ ہے۔ لیکن اٹھارہویں صدی سے لے کر بیسویں صدی کے پہلے نصف تک‘ یورپی استعمار اور کئی جدید مسلم ریاستوں کی ناکامی نے اس عقیدے پر کاری ضرب لگائی ہے۔ بعض مسلمانوں نے تو یہاں تک سمجھنا شروع کر دیا ہے کہ اب اسلام جدید دور میں ماضی کی طرح قابل عمل نہیں رہا۔ تاہم مصر کی اخوان المسلمون اور پاکستان کی جماعت اسلامی جیسی تجدید و احیا ے دین کی غرض سے اٹھنے والی اسلامی تحریکوں نے مذہبی اصلاحات اور سیاسی جدوجہد کے ذریعے حکومت میں تبدیلیاں لانے کے کام کو یکجا کرنے کے کام کو اپنایا ہے۔ ان تینوں مفکرین [حسن البنائ‘ سید مودودی اور سید قطب] نے اسلام‘ اسلامی انقلاب‘ جہاد اور جدید مغربی سوسائٹی کے بارے میں جو افکار و نظریات پیش کیے ہیں مقبول عام اور انتہا پسند‘ امن پسند اور فساد انگیز ہر قسم کی اسلامی تحریکوں کی قیادت ان سے بے انتہا متاثر ہوئی ہے۔ جدید دور کے حالات و تقاضوں کی تکمیل اور مسلمانوں کے موجودہ مسائل کے حل کے لیے انھوں نے اسلام کو ایک مکمل اور جامع نظام حیات اور آئیڈیالوجی کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان لوگوں نے اسلامی عقائد کی جو ایک نئی تعبیر کی ہے وہ اس قدر عام اور مقبول ہو چکی ہے کہ ساری دنیا میں جہاں بھی مسلمان ہیں‘ ان کے دل و دماغ میں یہ تصورات غیر ارادی طور پر راسخ ہو چکے ہیں۔ یہاں تک کہ جو لوگ اپنے آپ کو ہر قسم کی اسلامی تحریکوں سے دور رکھتے ہیں‘ ان کا تصور اسلام بھی غیر ارادی طور پر وہی بن چکا ہے جو ان تین مفکرین نے پیش کیا ہے۔
اسپوزیٹو نے بیان کیا ہے: جب حسن البناء (۱۹۰۶ئ-۱۹۴۹ئ) نے مصر میں اخوان المسلمون کی اور مولانا مودودی (۱۹۰۳ئ-۱۹۷۹ئ) نے جماعت اسلامی کی بنیاد ڈالی‘ اس وقت نہ تو مغربی دنیا میں کسی نے اس کا نوٹس لیا اور نہ ان کے اپنے معاشروں اور ممالک میں اس پر کوئی خاص توجہ دی گئی۔ حسن البناء اور سید مودودی دونوں کو اس کا احساس و ادراک تھا کہ اسلامی دنیا میں جو کچھ بھی تبدیلی آئے گی وہ آہستہ آہستہ ہی آئے گی۔ انھیں اپنے افکار و نظریات رد کیے جانے اور ان خیالات کو قبول کرنے والے افراد پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جانے کے امکانات صاف نظر آ رہے تھے‘ لیکن ان کی توجہات کا مرکز و محور نئی نسلوں کی تربیت تھی۔ اور انھیں اپنے ان مقاصد میں بے انتہا کامیابی بھی حاصل ہوئی۔
سید قطب (۱۹۰۶ئ-۱۹۶۶ئ) نے حسن البناء اور سید مودودی کے خیالات کی بنیاد پر اپنی عمارت تعمیر کی اور انھیں ایک زبردست انقلابی رنگ بھی دیا۔ محمد صلی اﷲ علیہ و سلم کی اصلاحات سے لے کر انتہا پسند خوارج اور قاتلوں کے اقدامات تک کو سید قطب ؒنے جہاد کی مختلف تاریخی اقسام قرار دے کر ان سب کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا۔ اس طرح انھوں نے اسلام کے ایک نظریاتی تسلسل اور تحریکی وراثت کا نظریہ تخلیق کیا۔ اس کے بعد چند مختصر عشروں کے اندر ہی حسن البناء کی اخوان المسلمون اور سید مودودی کی جماعت اسلامی کے خیالات‘ سید قطب کی تیز انقلابی تعبیر کی چھلنی سے چھن کر سارے عالم اسلام کی نئی سرفروش تنظیموں کے بنیادی ماڈل بن گئے۔
اسپوزیٹو نے آگے چل کر‘ حسن البنائ‘ سید مودودی اور سید قطب کو ’’اسلامی انقلاب کے مشعل بردار‘‘ قرار دیتے ہوئے مزید کہا ہے: یہ تینوں مفکرین صدیوں پرانی تجدید و احیاے دین کی روایات کا ایک حصہ ہیں۔ (مطلب یہ کہ انھوں نے کوئی نیا اسلام پیش نہیں کیا تھا) لیکن ان کی تعبیرِنو جدید تقاضوں کو پورا کرنے والی ہے۔ ان تینوں کو اس اعتبار سے جدید بنیاد پرست کہا جا سکتا ہے‘ کہ انھوں نے اسلام کے اصل منبع و مآخذ اور اس کی بنیادوں کی طرف رجوع کیا۔ انھوں نے جدید تقاضوں کی تکمیل کے لیے اسلام کے اصل مآخذ کی تعبیرِنو کی۔ یہ بات ان کی جملہ تعلیمات‘ تنظیم‘ طریق کار اور حکمت عملی میں صاف نظر آتی ہے اور جدید سائنس‘ ٹیکنالوجی کو بھی اسی رنگ میں استعمال میں لاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے موجودہ مجاہدین اور سرفروش‘ جدید تعلیم ہی کی پیداوار ہیں۔ یہ لوگ ڈاکٹروں‘ انجینئروں‘ وکلا‘ صحافیوں‘ یونی ورسٹی کے پروفیسر اور طلبہ کی پیشہ ور فنی تنظیموں کے قائدین ہیں۔
اسپوزیٹو کے اس تبصرے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ دنیا کی نظروں میں اسلام کی سچائی اور حقانیت اسی وقت سامنے آئے گی جب یہ ساری تحریکیں اپنے اپنے ممالک میں کامیاب ہوں گی اور وہ مسلمانوں کو اسلام کی تعلیمات سے قریب بھی لائیں اور بدکردار مسلم حکمرانوں کی جگہ ملک کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آئے جو نظام حکمرانی کو اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر استوار کریں۔ پہلے کام کے لیے تو پاکستان میں جماعت اسلامی اور تبلیغی جماعت دونوں کوشاں ہیں لیکن دوسرے کام میں تبلیغی جماعت شامل نہیں ہے۔
اسپوزیٹو کے تبصرے سے دوسری بات جو وضاحت کے ساتھ سامنے آتی ہے‘ وہ یہ کہ آج کے عالم اسلام میں اسلام کے وہ تصورات ہی کار فرما ہیں جو متذکرہ بالا مفکرین‘ (حسن البنائ‘ سید مودودی اور سید قطب) نے اپنی تحریروں میں پیش کیے تھے۔ اس کا کہنا ہے کہ جو لوگ اپنے آپ کو کسی بھی اسلامی تحریک کے ساتھ وابستہ نہیں کرتے‘ غیر شعوری طور پر اسلام کے بارے میں ان کے بھی وہی خیالات و نظریات ہیں جو تینوں مفکرین نے پیش کیے تھے۔ جدید دور کے مسلمانوں میں فکر مودودی کے اس حد تک سرایت کرنے کا اعتراف‘ ایک ایسی حقیقت ہے جس کاادراک خود تحریک اسلامی کے بہت سے کارکنوں کو بھی نہیں ہے۔
پروفیسر اسپوزیٹو نے اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا ہے کہ: ان تینوں مفکرین نے اسلام کو اس رنگ میں پیش کیا ہے کہ وہ جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان تینوں مفکرین کے اس دعوے کی اس نے کہیں مخالفت نہیںکی۔ اسپوزیٹو کی یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ ان تینوں مفکرین کی فکر سے متاثر ہے‘ بلکہ یہ بھی کہ معاصر علوم و فنون میں اس طبقے کی ساری قیادت بھی اسی اسلام پسند طبقے کے ہاتھ میں ہے جو فکر مودودی کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ راقم اپنی تعلیمی زندگی کے دور سے یہ دیکھتا آیا ہے کہ میٹرک‘ بی اے‘ ایم اے‘ انجینئرنگ‘ میڈیکل اور دوسرے امتحانوں میں فرسٹ کلاس لانے والے زیادہ تر طلبہ میں فکر مودودی کی علم بردار تحریک‘ اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن اچھی خاصی تعداد میں پیش پیش رہے ہیں۔ میرے نزدیک اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ تحریک اسلامی یا فکر مودودی سے متاثر ہونے کے بعد‘ انسان کی زندگی میں مقصدیت کی سنجیدگی پیدا ہو جاتی ہے‘ جو اسے اللے تللوں سے روکتی ہے اور فضول کاموں اور لایعنی اعمال سے دور رکھتی ہے۔ آدمی تضیع اوقات سے بچا رہتا ہے اور اپنے سارے اوقات مفید پیدا آوری کاموں میں لگائے رکھتا ہے۔ صوم و صلوٰۃ کی پابندی سے اسے ایسا سکونِ قلب بھی میسر ہوتا ہے جو اس کو فضول گپ شپ اور یار باشی کی محفلوں سے دور رکھتا ہے۔ وہ اپنے مقصد سے لگن کی دھن میں جان و مال کی قربانی کے عزم کے ساتھ لگا رہتا ہے‘ اور کثیر جہتی کام جس میں اسے مہارت حاصل کرنے کی ضرورت ہے‘ وہ اسے عبادت سمجھ کر کرتا ہے۔ اس اپنی صلاحیت و قابلیت کی ترویج و ترقی کے ذریعے اسلام کے غلبے کے لیے اپنا فرض ادا کرنے کا بے مثال جذبہ بھی رکھتا ہے اور اس کو بروئے کار لانے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینا اس کی زندگی کا ایک بلند تر مقصد بن جاتا ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ تحریک اسلامی والوں کو ہرقسم کی تنظیم میں قیادت کا مقام حاصل ہو جاتا ہے۔
پروفیسر اسپوزیٹو نے یہ بھی کہا ہے کہ: ان تینوں مفکرین نے روایتی اسلام ہی کی نئی تعبیر کی ہے لیکن جدید دور کے تقاضوں کی تکمیل کی خاطر انھوں نے اسلام کا حلیہ نہیں بگاڑا‘ بلکہ اسلام کے اصل مآخذ اور اس کی اصل بنیادوں کی طرف رجوع کیا ہے۔ انھوں نے تجدید و احیاے دین کی روایات کو زندہ رکھا ہے۔
اس بات کی اہمیت ہم پر اس وقت واضح ہوتی ہے جب ہم مسلمانوں میں تجدد پسند اور مغرب زدہ طبقے کو دیکھتے ہیں جو مغرب کی غالب تہذیب سے اتنے متاثر و مرعوب ہیں کہ وہ اسلام کو توڑ مروڑ کر مغرب ہی کے متعین کردہ معیارات پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جامعہ ازہر نے بعض اسلامی امور پر ایسے امور کو جائز قرار دینے کے لیے فتوے بھی دیے ہیں۔ جامعہ ازہر کے شیخ طنطاوی نے فلسطینی مجاہدین کے اسرائیل پر خود کش حملوں کو ناجائز قرار دیا ہے جبکہ آزاد علما کی اکثریت نے اسے جہاد قرار دیا ہے۔
انیسویں صدی میں ہندستان پر برطانوی استعماری قبضے کے دوران میں انھیں خوش کرنے کے لیے مشرقی پنجاب سے مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی نبوت کا دعویٰ کیا اور پھر اس جھوٹے نبی نے جہاد کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا‘ تاکہ انگریزوں کے خلاف سید احمد شہید (م: ۱۸۳۱ئ))کی تحریک جہاد کو صحیح سمجھنے اور اس کے تسلسل میں جدوجہد کرنے والے اس کی تائید وحمایت سے پیچھے ہٹ جائیں۔
قیام پاکستان کے بعد ایسے ہی تجدد پسندوں کے رہنما چودھری غلام احمد پرویز (م:۱۹۸۵ئ) نے انکارِ حدیث کا فتنہ کھڑا کیا‘ اور حدیث کی تشریحات سے اپنے آپ کو آزاد کر کے قرآن کی من مانی تفسیر کر ڈالی۔ معجزات کا انکار کیا۔ لیکن خدا بھلا کرے سید مودودی کا جنھوں نے ایسے فتنوں کو دلیل سے بے نقاب کر کے انھیں بے اثر بنا دیا۔ البتہ انٹرنیٹ پر امریکہ کے کچھ منکرین حدیث اپنے نظریات کی اشاعت کی کوشش کرتے رہتے ہیں‘ لیکن انھیں اس کے منہ توڑ جوابات بھی نیٹ پر دینے والے موجود ہیں۔ جن میں سب سے زیادہ قابل ذکر اسکالر امریکہ کے پاکستانی نژاد ڈاکٹر کوکب صدیقی ہیں‘ جو فکر مودودی کے علم بردار بھی ہیں‘ اس کا دفاع بھی کرتے ہیں اور منکرین حدیث اور اسلام پر اعتراضات کرنے والوں کو فکر مودودی کی بنیاد پر دلائل کے ساتھ جوابات بھی دیتے ہیں۔
پروفیسر اسپوزیٹو کا کہنا ہے: حسن البناء اور مولانا مودودی معاشرے کے اجتماعی اور اخلاقی بگاڑ کی طرف متوجہ تھے‘ لیکن بعد میں یہ لوگ سیاست اور حزب اختلاف جیسی دلدل میں پھنس گئے۔
شاید ابھی تک اسپوزیٹو کی سمجھ میں یہ بات نہیں آسکی کہ اجتماعی اور اخلاقی بگاڑ کا منبع حکومت ہے۔ جس کی مثال مولانا مودودی نے ریل کے انجن کے ڈرائیور سے دی ہے کہ جس سمت میں بھی وہ ریل گاڑی لے جائے گا‘ اس میں سفر کرنے والے اس سمت میں جانے کے کتنے ہی مخالف کیوں نہ ہوں‘ انھیں چار وناچار اسی طرف جانا پڑے گا۔ اس لیے اس کا حل اس کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا کہ انجن پر ایسے ڈرائیور کو لایا جائے جو اسے صحیح سمت پر لے جائے۔ ڈرائیور کو بدلے بغیر سمت بدلنے میں مسافروں کی ساری کوششیں ناکام رہیں گی۔ جب حکومت کو بدلے بغیر کوئی اخلاقی یا سماجی اصلاح ممکن نہیں ہے تو سیاست میں آنا ضروری ہو جاتا ہے۔ یہی فکر مودودی کا جوہری پیغام ہے کہ اس نے مسلمانوں کی توجہ انفرادی اعمال کے ساتھ ساتھ اجتماعی جدوجہد کی طرف مبذول کرائی‘ کہ روحانیت کا حصول اسی گندی سیاست کو پاک صاف کرنے کی جدوجہد میں مضمر ہے۔ اسی کنویں میں کود کر تیراکی سیکھنی ہے۔ خشکی پر کتنی ہی تربیت حاصل کر لی جائے‘ وہ مولانا مودودی کی نظر میں بے معنٰی اور لاحاصل ہے‘ کیونکہ پانی میں پہلے غوطے ہی میں خشکی کی ساری تربیت بیکار ہو جاتی ہے۔
آگے چل کر مولانا مودودی کے حوالے سے اسپوزیٹو نے لکھا ہے : سید مودودی کی نظر میں جنوبی ایشیا میں مسلم اقتدار کا زوال پذیر ہونا اور دولت عثمانیہ کا ٹکڑے ٹکڑے ہو جانا برطانوی اور فرانسیسی سامراجیت کا نتیجہ ہے۔ اوریہ کہ مسلمانوں کی شناخت اور اتحاد کو ہندوؤں کی سیکولر قومیت سے بھی اور جدید تصورِ قومیت کے زبردستی نفاد سے بھی خطرہ ہے۔ مولانا نے بتایا ہے کہ جدید تصورِ قومیت مغربی آئیڈیالوجی ہے جس کا مقصد مسلمانوں کو کمزور اور منقسم کرنا ہے۔ مسلمانوں میں مساوات اور سیسے کی طرح مضبوط دیوار بن کر رہنے کا اسلامی اخوت کا تصور جو ایک آفاقی تصور ہے۔ مغربی تصورِ قومیت مسلمانوں کو تعلیم و ترغیب دیتا ہے کہ وہ اس آفاقی تصور کو منہدم کر دیں اور اپنی شناخت کی بنیاد زبان‘ نسل اور قبیلوں پر رکھیں۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس مستشرق نے اسلام کے تصور اخوت اور فکر مودودی میں اس کی جھلک کا صحیح ادراک کیا ہے۔ وہ مولانا مودودی اور حسن البناء کے افکار کی یکسانیت کی مزید تشریح کرتے ہوئے کہتا ہے: ان دونوں کو اسلام کی عظمت رفتہ سے والہانہ عقیدت تھی‘ وہ خاص طور پر اٹھارہویں صدی کی احیاے دین کی تحریکوں سے بھی دل چسپی رکھتے تھے لیکن اس بنا پر‘ وہ ان قدیم تحریکوں کے طریقوں کے اسیر ہو کر نہیں رہ گئے بلکہ بڑی بالغ نظری سے انھوں نے جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کی۔ وہ جس طرح مغرب زدہ سیکولر تعلیم یافتہ طبقے کے تصورات پر تنقید کرتے تھے‘ اسی طرح ایسے مسلم معاشرے کے بھی مخالف تھے جس پر مذہبی قدامت پرستی حاوی ہو۔ اگرچہ وہ جدید اسلامی مصلحین کی کوششوں سے متاثر تھے جنھوں نے جدید دور اور قدیم روایت پرستی کے درمیانی خلا کو پر کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ان کا خیال تھا کہ یہ تجدد پسندی ‘اسلام کو مغربیت اور مغربی اقدار کے تابع کرنے کے مترادف تھی۔ جدید دور کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ لوگ اسلام میں من مانی ترمیم و تنسیخ کر کے اس کو مغربی معیارات پر پورا اترنے والے سانچے میں ڈھالنا چاہتے تھے۔ یہ دونوں مفکرین مغربیت کے خلاف تو ضرور تھے‘ لیکن عصر حاضر کے تقاضوں کی تکمیل کے لیے سائنس اور ٹکنالوجی کے استعمال اور اس کی تجدید کو وہ ضروری سمجھتے تھے۔ اس مقصد کے لیے ان دونوں کے خیال میں اسلام میں کسی ترمیم و تنسیخ کی ضرورت نہیں تھی۔ ان سب کاموں کے لیے اسلام ایک کامل و مکمل اور خود کفیل دین ہے۔ جدید دور کے سیاسی‘ معاشی اور تمدنی تقاضوں کی تکمیل کے لیے انھوں نے علما کے قرونِ وسطیٰ کے قدیم تصورات کا سہارا لینے کے بجاے اسلام کی بنیادی اور الہامی ہدایات کو ایک نئے رنگ اور نئی تعبیرکے ساتھ پیش کیا‘ کیونکہ اسلام کی یہ تعلیمات‘ جدید دور کے سارے مسائل حل کرنے کے لیے کافی و شافی ہیں۔
اسپوزیٹو نے یہ بتانا چاہا ہے: ان دونوں مفکرین نے کس طرح اسلامی تعلیمات کو محفوظ و مامون رکھ کر انھی کے ذریعے یورپی اور مغربی تہذیب کے افکار و نظریات اور طور طریقوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی‘ اور ان کے ہاں اسلام کی طرف مراجعت‘ دور ماضی کی طرف مراجعت کے ہم معنی نہیں ہے‘ بلکہ اسلام ہی کو وہ دور حاضر کی پیدا کردہ ان ساری بیماریوں کا علاج سمجھتے ہیں‘ جو مارکسزم اور مغربی نظام سرمایہ داری نے پیدا کی ہیں۔
اسپوزیٹو نے بتایا ہے: فکر مودودی نے مذہبی طبقے کی قدامت پرستی اور مغرب زدہ طبقے کی تجددپسندی سے ہٹ کر مسلمانوں کو ایک تیسرا راستہ دکھایا۔ انھوں نے مسلمانوں کو یہ بتایا کہ اسلام اﷲ کا دیا ہوا ایک ابدی نظام حیات ہے اور اس میں یہ صلاحیت ہے کہ یہ قیامت تک کے سارے زمانوں میں ہمیشہ قابل عمل رہے گا‘ بلکہ اسلام کے اصولوں پر چل کر عصر حاضر کی پیدا کردہ تمام مشکلات و مسائل کا مداوا بھی اﷲ کے بتائے ہوئے الہامی نظام میں موجود ہے۔ انھوں نے الہٰیات اور سائنس و ٹکنالوجی کی تعلیم میں تطبیق کی راہ دکھائی اور اس میں کوئی معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہ کیا۔ یہی وہ تیسری راہ ہے‘ جسے اسپوزیٹو کے مطابق مسلمانوں کا سواد اعظم آج غیر ارادی اور غیر شعوری طور پر قبول کر چکا ہے۔
۱- اسلام ایک ایسا طریق زندگی ہے جو زندگی کے سارے شعبوں پر محیط ہے۔ اسلام واضح کرتا ہے کہ سیاست شجر ممنوعہ نہیں ہے۔
۲- قرآن جو اﷲ کی طرف سے نازل کردہ ایک الہامی کتاب ہے اور رسول صلی اﷲ علیہ و سلم کی سنت اور صحابہ کرامؓ کی زندگی وہ بنیادیں ہیں جو ایک مسلمان کی روزمرہ کی زندگی کے لیے نمونہ فراہم کرتی ہیں۔
۳- اسلامی قانون (شریعت) کا نفاذ ہی وہ اصل مقصود ہے جو ایک مسلم معاشرے کی تشکیل کا خاکہ فراہم کرتا ہے اور یہ کسی مغربی نمونے کا محتاج نہیں ہے۔
۴- اسلام سے دوری اختیار کر کے مغرب کا سہارا لینے کا عمل ہی وہ بنیادی سبب ہے جو امت مسلمہ کے زوال کا سبب بنا۔ اسلام کی صراط مستقیم کی طرف لوٹ آنا ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے اس دنیا میں امت مسلمہ کی شناخت‘ قوت و طاقت‘ سطوت و جلال اور شوکت و عظمت بحال ہو سکتی ہے اور آخرت میں بھی اجر عظیم کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔
۵- سائنس اور ٹکنالوجی پر عبور حاصل کر کے اس کو اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کے لیے استعمال کرنا ضروری ہے۔ لیکن ضرورت یہ ہے کہ اس کام کو مغربیت اور لادینیت کی آلایشوں سے بچتے ہوئے انجام دیا جائے‘ اور اس کا استعمال اور اطلاق اسلامی اصولوں کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ ان سے ہٹ کر نہیں۔
۶- جہاد ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے سے مسلم معاشرے کو اور ساری دنیا کو اسلامی اصولوں کی بنیاد پر استوار کیا جا سکتا ہے۔ یہ جہاد انفرادی طور پر بھی ہونا چاہیے اور اجتماعی طور پر بھی۔ نظریات و افکار کی دنیا میں بھی ہونا چاہیے اور عملاً اسلامی اصلاحات کے نفاذ اور اسلامی انقلاب کو برپا کرنے کے لیے بھی۔
اس طرح اسپوزیٹو نے فکر مودودی پر بحث کرتے ہوئے کہا ہے:دونوں مفکرین نے یہ بتایا کہ خدائی طاقتوں اور شیطانی قوتوں کے درمیان کش مکش ایک ناگزیر امر ہے۔ دونوں کی خواہش یہ تھی کہ ان کی بنائی ہوئی تنظیم‘ معاشرے میں ہمہ گیر تبدیلیاں اور دور رس اصلاحات لانے کا ایک سرگرم مرکز و محور بنے اور یہ خود ایسے لوگوں پر مشتمل ہو جو انتہائی نیک سیرت اور پرہیز گار ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ انھو ںنے سامراجیت اور مغربی کلچر کے خطرے کے خلاف آواز بلند کی‘ لیکن وہ اس حقیقت کا ادراک بھی رکھتے تھے (جیسا کہ آج کی بہت سی اسلامی تنظیمیں بھی ایسا ہی سمجھتی ہیں) کہ مسلمانوں کی زبوں حالی کی ذمہ داری دراصل خود مسلمانوں پر بھی عائد ہوتی ہے (محض بیرونی اسباب پر نہیں)۔ یہ دعوت خود مسلمانوں کو دینی ہے کہ وہ اسلام کے ایک جامع اور مکمل نظام کے سارے شعبوں پر عمل کرنے کی طرف اپنی توجہات کو مرکوز کریں۔
اسپوزیٹو کے خیال میں: دعوت کے دو پہلو ہیں ایک یہ کہ غیرمسلموں کو یہ دعوت دینا کہ وہ اسلام کو قبول کریں اور دوسرے یہ کہ خود مسلمانوں کو دعوت دینا کہ وہ اچھے اور بہتر مسلمان بنیں۔ اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی دونوں نے اس دوسرے پہلو پر زور دیا کہ وہ اپنے دین کی تجدید کریں اور اس پر پوری طرح عمل کریں‘ تاکہ ایک سماجی انقلاب برپا ہو اور انفرادی اور اجتماعی زندگی میں دوبارہ اسلام کی کارفرمائی عمل میں آئے۔ اخوان اور جماعت دونوں نے مدارس‘ مساجد‘ لٹریچر‘ طلبہ کی تنظیموں‘ پیشہ ور انجمنوں اور سماجی خدمات کے ذریعے اپنے پیغام کی وسیع پیمانے پر اشاعت کی۔ اس پیغام میں دین کے لیے سردھڑ کی بازی لگانے‘ جدید تعلیم و تربیت اور ٹکنالوجی پر عبور حاصل کرنے اور سماجی و سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی دعوت تھی۔
کہا جا سکتا ہے کہ پروفیسر اسپوزیٹو نے جماعت اسلامی کی ایک حد تک صحیح تصویر کشی کی ہے اور فکر مودودی اور اس کی بنیاد پر تشکیل پانے والی جماعت کے مقاصد‘ نصب العین اور طریق کار کی بخوبی وضاحت کی ہے۔