غازی صلاح الدین عتبانی


یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ اتنے فاصلے پر ہونے کے باوجود میری کردار سازی میں سیدمودودی رحمۃ اللہ علیہ کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ میری نشوونما اس جدید اسلامی تحریک کے گہوارے میں ہوئی ہے‘ جو سید مودودیؒ کے افکار سے متاثر تھی۔ لیکن حیرت اس امرپر ہے کہ سیدیؒ ان بہت سے لوگوں کی کردارسازی میں بھی بلند مقام رکھتے ہیں‘ جن کا اس اسلامی تحریک سے تعلق نہیں رہا ہے‘ بلکہ جو اسلامی تحریک سے دشمنی تک رکھتے ہیں۔ جب کسی رہنما کی فکر کا اثر اس کے اپنے حلقہ احباب اور خوشہ چینوں کے علاوہ غیروں تک میں بھی سرایت کرجائے تو یہ اس رہنما کی عظمت کی دلیل ہوتا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سید مودودیؒ کے زندگی اور ایمان سے بھرپور افکار‘ معاشرے کے تہذیبی ڈھانچے کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ اس طرح اُمت مسلمہ کی عقلی ساخت کی ایک اور کڑی مکمل کرنے کا اعزاز بھی سید مودودیؒ کو جاتا ہے۔ اس لحاظ سے سید مودودیؒ اُمت مسلمہ کی تاریخ کے ان چند خاص لوگوں میں سے ایک ہیں جنھیں یہ فضیلت حاصل ہے۔

ہماری نسل جو عرب قوم پرستی پر مبنی فوبیا کا شکار تھی اور اس نظریے کے برعکس عالمِ عرب سے باہر کے افکارونظریات سے کسی قسم کے اخذ و اکتساب سے خوف زدہ تھی۔ باطل افکار کی یلغار کے اس زمانے میں بھی سید مودودیؒ کے افکار و نظریات کی تاثیر عروج پر تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلامی تحریک سے وابستگی کے باوجود ہم بھی کسی حد تک اس مکتب کے افکار سے ضرور متاثر ہوئے جس کا لیڈر جمال عبدالناصر تھا‘ جب کہ وہ اسلامی تحریک کا بدترین دشمن تھا۔ بہت کم لوگ اس حقیقت کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ خالص عربی فکر کے دائرے میں رہتے ہوئے عرب مسلمان کس حد تک سید مودودیؒ کے افکار سے متاثر ہوئے ہیں اور کس حد تک وہ ان کے لیے احسان مندی کے جذبات رکھتے ہیں۔

میں سید مودودیؒ کو ایک عظیم مصلح کی صورت میں دیکھتا ہوں۔ مجھے ان تعلیم یافتہ لوگوں سے مکمل طور پر اختلاف ہے‘ جو جدید تعلیم کو ایسے ضابطے اور نظریات گھڑنے کے لیے استعمال کررہے ہیں‘ جس میں مسلمانوں کو‘ استعمار کے خلاف کسی بھی قسم کی مزاحمت پر کان نہ دھرنے اور خوابِ غفلت کا شکار رہنے کا درس دیا جاتا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی نہ کسی درجے میں مغربی مفادات کے زیراثر ایسی تحریکوں کو‘ خود مغربی استعمار نے اسلامی بیداری کی اٹھنے والی لہر کو سبوتاژ کرنے کے لیے منظم کیا ہے۔ وہ بیداری کہ جس نے باطل پرستانہ فکری تحریکوں کا جواب دینے اور استعمار کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں فعال کردار ادا کیا۔

اس نام نہاد روشن خیال مکتب فکر نے سید مودودیؒ کو ایسے لوگوں میں شمار کرنے کی کوشش کی ہے‘ جن پراسلامی افکار اپنانے میں شدت پسندی جیسے بے معنی الزامات لگائے گئے ہیں۔ بہرحال سید مودودیؒ ،مغربی تہذیب و استعمار کی غلامی سے نکلنے اور اس غلامی کا راستہ روکنے والے سب سے اہم رہنما بن کر سامنے آئے۔ چونکہ سید مودودیؒ نے براہِ راست قرآن‘ حدیث اور سیرت پاکؐ سے رہنمائی لی تھی‘ اس لیے ان کی فکر واضح طور پر غلو سے محفوظ رہی ہے۔ ہندستانی اور پاکستانی میدان سیاست میں کسی کو یہ کہنے کی جرأت نہیں ہوئی‘ جس میں سید کی دعوت کو انتہاپسندی سے تعبیرکیا گیا ہو۔ برعظیم پاک و ہند میں آپ نے جس جماعت اسلامی کو پروان چڑھایا‘ واقعہ یہ ہے کہ وہ تنظیم دنیا کی تمام اسلامی جماعتوں میں سب سے زیادہ اعتدال پسند شمار کی جاتی ہے۔ جماعت اسلامی کے خلاف بلاجواز پابندیوں اور زیادتیوں کے باوجود اس نے جمہوری دائرے میں رہتے ہوئے جتنا ممکن ہوسکا کام کیا۔ حکمرانوں کی جانب سے متعدد بار ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ جماعت ردعمل کے جال میں الجھ کر جمہوری روایات ترک کر دے‘ لیکن سیدمودودیؒ کی اعتدال پسندانہ اور دانش مندانہ قیادت اور ذہن سازی کے نتیجے میں جماعت اس حادثے سے بچی رہی ہے۔

پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حلقوں کی جانب سے سید مودودیؒ اور ان کے افکار کو ہی کیوں موردالزام ٹھیرایا گیا؟ صوفی کی تحریک کے مصلحین پر اس طرح کی الزام تراشی کیوں نہیں کی گئی؟ میرے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ سید مودودیؒ کے افکار میں دو بنیادی خصوصیات پائی جاتی ہیں:

  •  پہلی یہ کہ آپ کے افکار نے مسلمانوں کے زوال کے اسباب کا حل اسلامی عقیدے کے سرچشموں کی روشنی میں تلاش کیا ہے۔ اس کوشش میں انھوں نے اپنے فکری منہج کو فقہا اور سلف صالحین کی تحقیقات کا پابند نہیں بنایا‘ بلکہ ان کی تقلید سے آزاد کر لیا ہے۔ اسی تسلسل میں انھوں نے مغربی تہذیب و ثقافت کا پُرفریب طوق بھی اپنے گلے میں نہیں پڑنے دیا‘ جس کے  دامِ فریب میں آپ کے بہت سے ہم عصر خوشی خوشی پھنس گئے تھے۔
  • دوسری یہ کہ سید مودودیؒ کا اندازِ بیان واضح‘ براہِ راست‘ پراثر اور سادہ ہے۔ آپ نے اُمت مسلمہ کے زوال کے اسباب کے گرد اپنی بات گھمانے کے بجاے براہِ راست اور پختہ عزم کے ساتھ ان اسباب کی جڑوں پر ایسے طریقے سے ضرب لگائی ہے‘ جسے آج کل کے علم کے دعوے دار اور اجارہ دار حضرات اپنی اصطلاح میں معروضیت کے اصولوں کے منافی اور رکھ رکھائو  اور مروت سے عاری گردانتے ہیں۔ سید مودودیؒ کی اسی بے ساختگی‘ راست بازی اور صراحت بیانی کی وجہ سے آپ کے افکار قارئین کے لیے زیادہ پر اثر ہیں اور ان کی فکری و شخصی تعمیر کرتے ہیں۔

انھی امتیازات کی وجہ سے سید مودودیؒ کی تحریریں اسلامی بیداری‘ احیاے اسلام‘ اقامتِ دین اور دعوتِ دین سے دل چسپی رکھنے والے مسلمانانِ عالم کے ہاں مقبولیت میں   اعلیٰ درجے کا مقام رکھتی ہیں‘ خواہ وہ جنوبی ایشیا کے مسلمان ہوں یا عالمِ عرب کے‘ ان کا تعلق افریقہ سے ہو یا وسط ایشیاکے کسی حصے سے۔ یہاں تک کہ مغربی تہذیب و ثقافت کے ماحول میں پروان چڑھنے والے تعلیم یافتہ لوگوں کے ہاں بھی سید مودودیؒ کی تحریریں اسی اہمیت کی حامل ہیں‘ جیسی اہمیت انھیں اہلِ مشرق کے ہاں حاصل ہے۔ سید مودودیؒ کی تحریروں میں تھوڑی سی بھی دل چسپی لینے والا ہر فرد ان کی فکر سے ضرور متاثر ہوا ہے‘ خواہ وہ آپ کا حامی تھا یا مخالفین میں سے۔

سید مودودیؒ کے افکار ہماری ذہنی ساخت میں رچ بس گئے ہیں۔اسلام کی مستقبل کی تحریکوں اور نسلوں کے لیے سید مودودیؒ کا سب سے جان دار کام جو باقی رہے گا‘ وہ ہے ان کی جانب سے توحید کا صحیح مفہوم پیش کرنا اور زندگی کے تمام شعبوں پر اس کے اثرات مرتب کرنے کا پیغام۔ سید مودودیؒ کے فکری کارنامے کا یہی مرکزی نکتہ ‘ اسلام کی جدید تحریکی سوچ اور تقلیدو جمود پر مبنی سوچ کے درمیان ایک حد تک امتیاز رہے گا۔

تمام بڑے ائمہ کی طرح سید مودودیؒبھی اس دنیا سے جاتے ہوئے اپنے پیچھے بڑا  شان دار علمی و فکری ورثہ چھوڑ گئے ہیں۔ اس فکری ورثے میں وسعت پیدا کرنے کے لیے آپ کے ان ساتھیوں کا بھی حصہ ہے‘ جنھوں نے آپ کے طریق تحقیق و تجزیے کے مطابق کام کو آگے بڑھایا ہے۔

آج سے سیکڑوں برس بعد مسلمانوں کے حالات موجودہ حالات سے یقینا مختلف ہوں گے‘ اللہ سے دعا ہے کہ وہ آج سے بہتر ہوں۔ اس دوران میں بہت سے نئے افکار اُبھریں گے‘ لیکن اس آنے والے زمانے کا مسلمان مصلح‘ مبلغ‘ عالم اور دانش ور بھی سید مودودیؒ کی تحریروں اور افکار کی طرف دیکھے گا تو وہ آپ کے افکار کو اپنے زمانے کے موافق پائے گا‘ ان میںتازگی پائے گا اور ان سے استفادہ کرسکے گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے‘ آمین!